’’جنگ مقدّس‘‘

آنحضرت ﷺ نے اپنے مسیح و مہدی کا ایک کام کسرصلیب یعنی صلیب کو توڑنے کا بیان فرمایا تھا۔ باالفاظ دیگر دجالی طاقتوں کا مقابلہ کرکے ان پر اسلام کی حقانیت کو ثابت کرنا۔یہ کام جس طرح سے حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے سرانجام دیا وہ بذات خود آپؑ کے دعویٔ مسیحیت و مہدویت کی صداقت کا ثبوت بن گیا۔ ہفت روزہ ’’بدر‘‘ قادیان 15؍مارچ 2012ء (مسیح موعودؑ نمبر) کی خصوصی اشاعت میں ’’جنگ مقدس‘‘ کے بارے میں مکرم آصف محمود باسط صاحب کا ایک تحقیقی مضمون شامل اشاعت ہے۔
حضور علیہ السلام نے امّتِ محمدیہ پر یہ احسانِ عظیم بھی فرمایا کہ اسلام کی تعلیمات کو اصل حالت میں بیان فرما کر ان کی تفہیم کے لیے درست سمت کی تعیین فرمائی۔ ان میں سے ایک تصوّرِ جہاد بھی تھا۔ آپؑ نے عیسائی پادریوں کے طرزِ تبلیغ کو دیکھا، سمجھا اور مسلمانوں کو سمجھایا کہ آج پادری تلوار لے کر تم پر مسلّط نہیں ہوا۔ وہ اپنی کتاب لے کر آیا ہے۔ تم بھی کتاب سے اس کا مقابلہ کرو۔ یہی اس دَور میں جہاد ہوگا۔ چنانچہ دلائل اور براہین کی اس جنگ میں حضور علیہ السلام کا ایک کارنامہ آخری زمانے کے آثار کی وہ تشریح ہے جس کے ذریعے حضورؑ نے خونی مہدی اور دجّال سے متعلق اکثر مسلمانوں کے خلافِ عقل اور مضحکہ خیز تصوّرات کی قرآن کریم کی روشنی میں درست ترین تفہیم عطا فرمائی۔
اس دَو رمیں اسلام کو صرف عیسائیت سے خطرہ تھا۔ اسلام نے دینی، سیاسی، عسکری ہر طرح کی برتری ثابت کر کے ہندوستان کو اپنا قلعہ بنایا تھا۔ عیسائی پادری جانتے تھے کہ اگر اسلام کے اس قلعہ کو اپنے زیر نگیں کر لیا تو اسلام کو ہر طرح کی شکست سے دوچار کرنا آسان ہوجائے گا۔ ہندوستان پر عیسائی مبلغین کی توجہ کے مرکوز ہونے کی ایک بڑی وجہ یہ بھی تھی کہ اس دور میں دنیا بھر کے مسلمانوں کی ایک چوتھائی آبادی ہندوستان میں آباد تھی۔
اس ابتدائی دَور میں نقض امن کے اندیشے کے تحت انگریز حکام کی طرف سے عیسائی پادریوں کو سرعام تبلیغ کرنے کی ممانعت تھی۔ چنانچہ گورنر جنرل وارن ہیسٹنگز (1732-1818ء)نے ایک عیسائی پادری کو اس کی نوکری سے اس بات پر برطرف کر دیا تھا کہ وہ مقامی آبادی میں عیسائی لٹریچر تقسیم کررہا تھا۔ گورنر جنرل کے مطابق یہ ایسا ہی کام ہے جیسے بارود میں گولی چلا دینا۔ تاہم اس شدید پابندی کے باوجود عیسائی پادری مستقل مزاجی سے ہندوستان کو عیسائی بنانے کی کوششوں میں مصروف رہے۔ ان سینہ زور پادریوں میں ہنری مارٹن کا نام سرفہرست لیا جاتا ہے۔
ہندوستان پر مسیحی پادریوں کی یلغار ایسی منہ زور تھی کہ مسلمان انگشت بدنداں تھے۔ وہ اپنی ریاست، تخت و تاج اور معیشت ہاتھ سے جاتی دیکھتے اور پھر جب ایمان بھی داؤ پر لگا نظر آیا تو بوکھلاہٹ میں اسلام کے دفاع کے نام پر بہت سی تحریکات سر اٹھانے لگیں۔ کہیں سرسید احمد خان علیگڑھ تحریک لے کر اٹھے۔کہیں جمال الدین افغانی کی فکری تحریک نظر آتی ہے، کہیں عبیداللہ سندھی کی بغاوت کا نشان ملتا ہے، کہیں علامہ عنایت اللہ مشرقی کی خاکسار تحریک کے آثار نظر آتے ہیں۔کہیں ادب کی سطح پر مسلمانوں کو ان کی شناخت دلانے کی کوشش نظر آتی ہے۔ ڈپٹی نذیر احمد کے ناول ایسے ہی اصلاحی ادب کی مثال ہیں۔ مشہور شاعر اکبرؔ الٰہ آبادی کی فکاہیہ شاعری میں مسلمانوں میں اپنی شناخت کو زندہ رکھنے کا پیغام دیا گیا ہے۔ شاہ ولی اللہؒ کے فرزند شاہ عبدالعزیزؒ اور ان کے شاگرد سید احمد شہیدؒ اور ان کے ہم عصر شاہ اسمٰعیل شہید ؒہر قیمت پر اسلام کے قلعے پر کسی بھی حملے کو بزور شمشیر روکنے کے لیے کوشاں رہے۔ حسن ظن تو یہی ہے کہ ان تمام تحریکات اور مساعی کے پیچھے نیت تو درست ہی رہی ہوگی، مگر یہ امر واقعہ ہے کہ ان کی سمت درست نہ تھی کیونکہ یہ تحریکات اور مکاتب فکر خاطر خواہ نتائج حاصل نہ کر سکے۔ اگرچہ ہر کوشش میں خیر کا کوئی پہلو بھی تھا، مگر یہ خیر اجتماعی شکل میں اس شخص کے ساتھ ظہور میں آنی تھی جس نے حضرت محمد ﷺ کی پیشگوئی کے مطابق اللہ تعالیٰ کے اذن سے مبعوث ہونا تھا۔
حضرت مسیح موعودؑ کاجب ظہور ہوا اُس وقت اسلام کو چومکھی لڑائی کا سامنا تھا۔ سب سے شدید حملہ مسلمانوں ہی کے مروّجہ عقائد کو لے کر ان کے خلاف محاذ آرا تھا جن کے نتیجے میں مسلمان ہزاروں بلکہ لاکھوں کی تعداد میں ارتداد اختیار کرکے عیسائی ہوتے چلے جا رہے تھے۔ چنانچہ 24 ؍جنوری1893ء کو برطانوی اخبار ’’دی ٹائمز‘‘ میں دس سالہ مشنری کانفرنس میں عیسائی پادریوں کی تبلیغی مساعی کے حیرت انگیز نتائج بیان کیے گئے کہ 1881ء سے 1890ء کے دوران مقامی عیسائیوں کی تعداد قریباً پانچ لاکھ سے بڑھ کر ساڑھے چھ لاکھ ہوگئی۔
حضرت مسیح موعودؑ کی پیدائش کے سال یعنی 25؍مئی 1835ء کو فری چرچ آف سکاٹ لینڈ کی طرف سے ہندوستان بھیجے جانے والے پہلے پادری الیگزینڈر ڈَف نے فری چرچ کی جنرل اسمبلی سے خطاب کرتے ہوئے عالم اسلام پر اپنے پنجے گاڑنے کے منصوبے کا کھلم کھلا اعلان کیا۔ پروفیسرArvil Ann Powell نے لکھا ہے: عیسائی پادریوں نے وسطی پنجاب کو اپنی تبلیغی سرگرمیوں کے مرکز کے طور پر منتخب کیا۔ وسطی پنجاب جو کہ جماعت احمدیہ کی جائے تاسیس بھی ہے۔ امرتسر اور گورداسپور ملحقہ اضلاع ہیں، جن میں سے پہلا سکھ مذہب کا مرکزاور دوسرا مرزا غلام احمد کا وطن۔ یہ دونوں اضلاع 1890ء کی دہائی کے آغاز میں مذہبی اقلیتوں کے مقابلے کا میدان تھے۔
حضورؑ نے اس سنگین خطرے کو بھانپتے ہوئے اسلام کی نشأۃ ثانیہ کے عظیم الشان کام کا آغاز فرمایا تو ’’براہین احمدیہ ‘‘تحریر فرمائی۔ اس معرکہ آرا تصنیف کے آغاز میں ہی حضورؑنے مسلمانوں کو توجہ دلاتے ہوئے فرمایا کہ پادریوں کی طرف سے فخریہ تحریریں چھپتی رہتی ہیں کہ اس برس چار ہزار عیسائی ہوا اور اس سال آٹھ ہزار پر خداوند مسیح کا فضل ہوگیا۔ کلکتہ میں پادری ہیکر صاحب فرماتے ہیں پچاس سال سے پہلے تمام ہندوستان میں عیسائیوں کی تعداد صرف ستائیس ہزار تھی جو پانچ لاکھ تک پہنچ گئی ہے۔

اِنّا لِلّٰہِ وَ اِنّا اِلَیْہِ رَاجِعُوْنَ۔

اے بزرگو! اس سے زیادہ تر اَور کون سا وقت انتشار گمراہی کا ہے کہ جس کے آنے کی آپ لوگ راہ دیکھتے ہیں۔ ایک وہ زمانہ تھا جو دینِ اسلام

یَدْخُلُوْنَ فِی دِیْنِ اللہِ اَفْوَاجًا

کا مصداق تھا، اور اب یہ زمانہ!۔ کیا آپ لوگوں کا دل اس مصیبت کو سن کر نہیں جلتا؟ کیا اس وباء عظیم کو دیکھ کر آپ کی ہمدردی جوش نہیں مارتی؟
عیسائیت کی یلغار کے آگے بند باندھنافی ذاتہ ٖکوئی معمولی کام نہ تھا۔ مسلمان اگر عیسائی مذہب کے عقائد کا جواب دینے کی کوشش بھی کرتے تو خود اپنے ہی عقائد انہیں دو قدم چلنے نہ دیتے۔ حیات مسیح کا عقیدہ جسے مسلمان اپنا عقیدہ بتاتے پھرتے تھے حضرت محمد مصطفی ﷺ، خلفائے راشدین اور صحابہؓ کا عقیدہ نہ تھا۔یہ عقیدہ تو غلط فہمی، مداہنت، مذہب پر ثقافتی اثرات اور دشمنان اسلام کی سنگین سازش کا نتیجہ تھا۔ پس کسرِصلیب کے اس کام میں حضرت مسیح موعودؑ نے پہلا کام یہ کیا کہ حیات مسیح کے غیراسلامی عقیدے کو قرآن کریم ہی کی تیس آیات سے باطل کر کے دکھایا۔ آپؑ نے اس غلط عقیدے کے ہمہ گیر نقصانات کو دیکھتے ہوئے مسلمانوں کو مخاطب کر کے فرمایا کہ عیسیٰؑ کو مرنے دو کہ اسی میں اسلام کی حیات ہے۔ چنانچہ مشہور محقق فضل الرحمن نے ’’انسائیکلوپیڈیا آف اسلام‘‘ میں اس بات کا اعتراف کیا ہے کہ حضرت مرزا صاحبؑ نے عیسائی تبلیغی سرگرمی کا پُرزور جواب دیا۔
پادری C G Pfander نے کتاب’’میزان الحق‘‘ میں لکھا ہے کہ مدینہ میں آنحضورﷺ اور حضرت ابوبکرؓ کی قبروں کے درمیان ایک قبر کی جگہ خالی ہے۔ اس مقام کو مسلمان عیسیٰ ابن مریم (علیہ السلام)کی قبر کا مقام کہتے ہیں۔ یہ خلا مسلمانوں کو یاد دہانی کرواتا ہے کہ یسوع زندہ ہے اور محمد وفات یافتہ۔ مشہورمحقق Dr Jan Slomp کہتا ہے کہ پادری فینڈر کا یہ مؤقف عیسائی مشنریوں کے کام میں مہمیز کا کام کرتا تھا لیکن مرزا غلام احمد (علیہ السلام) نے نہ صرف اسے ردّ کیا بلکہ عیسیٰؑ کے مزار کی دریافت کا اعلان کرکے اس روایتی عقیدے کا بھی ردّ کردیا جس کے مطابق مسلمان بھی عیسیٰؑ کو زندہ مانتے تھے۔
دراصل پادری فینڈر کی کتاب’’میزان الحق‘‘ عیسائی پادریوں کا سب سے بڑا ہتھیار تھی۔ جرمن نژاد عیسائی محققہ اور مصنفہChristine Schirrmacher لکھتی ہے کہ’’میزان الحق‘‘ عیسائی مسلم مقابلے میں ایک مسلّمہ دستاویز کی حیثیت رکھتی ہے جسے عیسائی پادری نسلوں سے مباحثوں میں ایک ہتھیار کے طور پر استعمال کررہے ہیں۔
Bishop Kenneth Cragg بھی اعتراف کرتے ہیں کہ حضرت مرزا صاحب (علیہ السلام) نے حیات مسیح اور مسیح کی آمد ثانی سے وابستہ روایتی مسلم عقائد کو ردّ کیا کیونکہ یہ عقائدروایات پر مبنی تھے، قرآن پر نہیں۔
دوسری طرف حضرت مسیح موعودؑنے جب یہ ثابت کر دکھایا کہ حضرت عیسیٰؑ قرآن کی رُو سے وفات یافتہ ہیں، تو عیسائیوں کے علاوہ مسلمان بھی آپؑ کے مخالف ہوگئے۔ معروف مستشرق Wilfred Cantwell Smith نے اپنی تصنیف Modern Islam in India میں لکھا ہے کہ جب احمدیت کا ظہور ہوا تو اسلامی معاشرہ شکست و ریخت کا شکار تھا، نئی تہذیبیں زور پکڑ رہی تھیں۔ احمدیت تازہ تر رویوں کے ساتھ نمودار ہوئی اور اس کی یلغار عیسائی تبلیغی سرگرمیوں، سرسید احمد خان کی مغرب پرستی اور اسلام کی شکست و ریخت کے خلاف تھی۔
یہ ثبوت آپؑ کی صداقت کا کیا کم ہے کہ دیگر اشخاص کی طرح حضرت اقدس علیہ السلام کسی دھڑے، ادارے، تنظیم یا سرکاری ادارے سے منسلک نہیں تھے۔ آپ تنہا تھے۔ پھر دنیوی حالت یہ کہ کوئی وجۂ شہرت نہیں، باضابطہ تعلیم نہ ہونے کے برابر، مالی حالات مخدوش، سکونت ایک ایسے قصبے میں جسے صرف چند لوگ جانتے تھے۔ پھر مالی لحاظ سے وہ بے سر و سامانی کہ ایک پمفلٹ شائع کروانا ہو تو چندہ درکارہے، اور چندے کی بظاہر کوئی صورت نہیں۔ توکّل ہے تواللہ جل شانہٗ پر اور اُس کے اِس الہام پر کہ

اَلَیْسَ اللہُ بِکَافٍ عَبْدَہٗ۔

اُس زمانے میں پروٹسٹنٹ چرچ کے بین الاقوامی اجلاسات میں جماعت احمدیہ مسلمہ کو عیسائیت کے عقائد کے لیے ایک خطرے کے طور پر دیکھا گیااور زیر بحث لایا گیا۔ معروف جرمن عیسائی محقق اور مسیحی پادریJulius Richter لکھتے ہیں کہ ہندوستان بھر میں اگر کہیں اسلام میں زندہ رہنے کی رمق نظر آئی ہے تو وہ صرف UP اور پنجاب ہیں، اور ان مقامات پر بھی اس کا مرکز سر سید احمد خان اور مرزا غلام احمد قادیانیؑ ہیں۔
سر سید احمد خان سے تو ظاہر ہے کہ عیسائیت کو کوئی خطرہ نہیں تھا اس لیے مذکورہ مصنّف نے اُن پر صرف ایک پیراگراف لکھا مگر حضرت اقدسؑ کے لیے نفرت کے اظہار کے باوجود وہ حضورؑ کی غیر معمولی شخصیت اور آپؑ کی تعلیمات کی غیرمعمولی تاثیر کا ذکر کیے بغیر نہیں رہ سکا۔اپنے مضمون میں وہ رقمطراز ہے: غلام احمد (علیہ السلام) ایک غیر معمولی آدمی ہیں۔ وہ ذہانت پر مبنی کتب لکھتے ہیں اور وہ بھی ایسی پُراثر اردو، فارسی اور عربی میں کہ وہ اپنے مخالفین کو انتہائی اعلیٰ عربی میں چیلنج دیتے ہیں اور کہتے ہیں کہ اسی پایہ کی زبان میں جواب دے کران کے للّٰہی مشن کے مقابلہ پر آئیں۔ اس کے علاوہ انہوں نے ایک انگریزی رسالہ’’ریویو آف ریلیجنز‘‘ بھی جاری کر رکھا ہے جس کے بیشتر صفحات وہ اکیلے ہی تحریر کرتے ہیں۔انہوں نے نہ صرف عہد نامہ قدیم اور عہد نامہ جدید اچھی طرح پڑھ رکھا ہے بلکہ دیگر عیسائی غیر مصدقہ لٹریچر مثلاً برنباس کی انجیل، نیز ادب مثلاً روسی مصنف نکولس ناٹووچ کا ناول’’مسیح کی نامعلوم زندگی‘‘ کا بھی مطالعہ کر رکھا ہے۔
حضرت مسیح موعود ؑ سے قبل عیسائیوں سے مناظروں کے سلسلے میں جو واحد قابل ذکر نام ملتا ہے وہ رحمت اللہ کیرانوی صاحب (1818-1891ء) کا ہے۔ انہوں نے 1854ء میں آگرہ کے مقام پرچرچ مشن سوسائٹی کے نمائندہ جرمن نژاد پادری C. G. Pfander کے ساتھ مناظرہ کیا جو دو دن جاری رہا لیکن طے شدہ موضوعات کی بجائے دونوں دن بات صرف انجیل کے محرف ہونے سے آگے نہ بڑھ سکی اور بعدازاں دونوں فریقین اپنی اپنی فتح کا اعلان کرتے رہے۔
بہرحال حضرت مسیح موعودؑ کے ظہور سے قبل عیسائی پادریوں کے فتنے کو اسلام کے لیے خطرہ سمجھنے والے واحد شخص رحمت اللہ کیرانوی صاحب تھے اور وہ اس خیال کا اظہار بھی کرتے تھے کہ یہ وقت یقیناً امام مہدی اور مسیح موعود کے ظہور کا ہے۔ یہ وہ وقت تھا جب عیسائی پادریوں کی شوخی دیکھ کر حضرت اقدس مسیح موعودؑ بڑی بے قراری سے دعا کرتے ہیں کہ

دن چڑھا ہے دشمنانِ دیں کا ہم پر رات ہے
اے مرے سورج نکل باہر کہ میں ہوں بے قرار
یاالٰہی فضل کر اسلام پر اور خود بچا
اس شکستہ ناؤ کے بندوں کی اب سن لے پکار
دیکھ سکتا ہی نہیں مَیں ضعفِ دینِ مصطفیؐ
مجھ کو کر اے میرے سلطاں کامیاب و کامگار

1854ء میں جنڈیالہ ضلع امرتسر کے مقام پر عیسائی مشن کی بنیاد رکھی گئی۔ 1882ء میں ڈاکٹر ہنری مارٹن کلارک نے جنڈیالہ میں میڈیکل مشن کی بنیاد بھی رکھ دی جو عیسائیت کی تبلیغ کے لیے ایک نیا سنگ میل ثابت ہوا۔ ایسے میں جنڈیالہ کے ایک مخلص مسلمان محمد بخش پاندہ صاحب، باوجود واجبی تعلیمی قابلیت کے عیسائی منادوں کا جواب دینے کی کوشش کرتے۔ اس پر ڈاکٹر ہنری مارٹن کلارک نے مسلمانانِ جنڈیالہ کو دعوت دی کہ وہ جس عالمِ دین کو مقابلے پر لانا چاہیں تو بڑے شوق سے لے آئیں۔ اور اگر ایسا نہ کرسکیں تو پھر آئندہ کے لیے اپنے عقائد کو باطل خیال کرکے خاموشی اختیار کرلیں۔
چنانچہ جنڈیالہ کے مسلمانوں نے بڑی بڑی مسلم انجمنوں اور علمائے اسلام کو اس مشکل گھڑی میں دعوت دی مگر کچھ نے تو محض جواب ہی نہ دیا اوردیگر یہ سوالات پوچھتے رہ گئے کہ ان کے سفر اور قیام و طعام کا خرچ کون برداشت کرے گا؟
حضرت اقدس مسیح موعود علیہ السلام نے نہ صرف اسلام کے دفاع کے لیے پیش ہونے کی حامی بھر ی بلکہ یہ تک فرمایا کہ ہم نہ صرف اپنے آنے جانے کا خرچ خود اٹھائیں گے بلکہ وہاں خوراک اور پینے کے پانی کا انتظام بھی اپنے اور اپنے ساتھیوں کے لیے خود کریں گے۔ چنانچہ چرچ مشنری سوسائٹی کے مرکزی ترجمان Church Missionary Intelligencer میں ڈاکٹر ہنری مارٹن کلارک نے لکھا کہ’’مسلمان بوکھلاگئے۔ وہ بہت سی انجمنوں کے پاس اسلام کی مدد کرنے کی اپیل لے کرگئے مگر بیسود! کوئی سامنے نہیں آیا۔ جنڈیالہ کے مسلمان بے حال تھے کہ ایسے میں انہیں مرزا غلام احمد قادیانی (علیہ السلام) نامی ایک شخص بطور اسلام کے نمائندے کے مل گیا۔ اس پر انہوں نے سُکھ کا سانس لیا۔یہ آدمی ایک غیرمعمولی شخصیت کا مالک ہے اور عیسائی پادریوں کی توجہ کا مرکز‘‘۔
اس مباحثے کا مرکزی نکتہ یہ تھا کہ عیسائی الوہیتِ مسیح کو ثابت کریں اور حضرت مسیح موعودؑ توحید باری تعالیٰ کو قرآن کریم کے دلائل سے پیش فرمائیں۔یہ مباحثہ 22؍مئی 1893ء کو شروع ہوکر پندرہ روز تک جاری رہا۔ یہ ایک بہت اہم مباحثہ تھاکہ عیسائیت اور اسلام علی الاعلان مقابل پر آرہے تھے۔ یہی وجہ ہے کہ اس مباحثے کی کارروائی کو اخبارات میں نمایاں جگہ دی جاتی رہی۔ مباحثے کی شرائط میں یہ امر بھی شامل تھا کہ سوال اور جواب دونوں فریقین تحریری طور پر داخل کریں گے کیونکہ اس سے پہلے تو دستور یہی تھا کہ دونوں فریقین خود کو فاتح قرار دیتے رخصت ہو جاتے اور سامعین کے لیے کسی بھی فیصلے پر پہنچنا ناممکن رہتا۔
اس مباحثے کی اہمیت کا اندازہ اس بات سے لگائیے کہ اس کی کارروائی سننے کی غرض سے لوگ دوردراز سے آئے اور بڑے بڑے مسلمان گھنٹوں بطور سامعین کے موجود رہتے۔ Missionary Herald مطبوعہ امریکہ لکھتا ہے: یہ مباحثہ امرتسر میں ڈاکٹر کلارک کے گھر کے برآمدے میں ہوا۔ داخلہ ٹکٹ کے ساتھ تھا۔ سینکڑوں لوگ جو ٹکٹ حاصل نہ کرسکے انہیں رخصت کرنا پڑا۔ ایک جم غفیر سڑکوں پر نہایت خاموشی اور امن کے ساتھ جمع رہاکرتا۔
یہاں یہ بات بھی قابل غور ہے کہ حضرت مسیح موعودؑ کے خلاف 1892ء تک سرکردہ مسلمان لیڈروں نے فتاویٰ کفرجاری کر دیے تھے جن کی تعداد دو صد کے قریب تھی۔مگر یہ فتاویٰ جاری کرنے والے نام نہاد علماء و مشائخ عیسائی پادریوں کے سامنے اس قدر بے بس تھے کہ جس شخص کو بالاتفاق دائرۂ اسلام سے خارج قرار دے چکے تھے اور کافر، ملحد اوردجال (نعوذ باللہ) اور جانے کیا کیا کچھ کہتے نہ تھکتے تھے، اسلام کے دفاع کی بات آئی تو اسی شخص کو مرد میدان مان کر خود خاموش تماشائی بنے رہے۔ بے شک یہاں کاسرِ صلیب کے سوا اور کوئی ہو بھی نہیں سکتا تھا کہ مردِ میدان بن کر اترے اور صلیبی عقائد کو پارہ پارہ کردے۔
اس مباحثے کے آغاز ہی سے حضرت اقدسؑ اس بات پر زور دیتے رہے کہ زندہ مذہب اپنی نشان نمائی سے پہچانا جاتا ہے۔ نشان نمائی سے مراد دعا کی تاثیر دکھانا تھا۔ مگر عیسائی نمائندہ عبداللہ آتھم اور ان کے ہمنوا اس طرف آنے سے اعراض کرتے رہے۔ بالآخر جب اُنہیں اس مسلسل گریز میں اپنی سُبکی نظر آئی تومباحثے کے چوتھے روز یعنی 26؍ مئی 1893ء کو عبداللہ آتھم نے اپنے بیان میں تحریر کروایا کہ ہم مسیحی تو پرانی تعلیمات کے لیے نئے معجزات کی کچھ ضرورت نہیں دیکھتے اور نہ ہم اس کی استطاعت اپنے اندر دیکھتے ہیں اور نشانات کا وعدہ ہم سے نہیں۔ لیکن جناب کو اس کا بہت سا ناز ہے تو ہم بھی معجزہ دیکھنے سے انکار نہیں کرتے۔ پس ہم یہ تین شخص پیش کرتے ہیں جن میں ایک اندھا، ایک ٹانگ کٹا اور ایک گونگا ہے۔ ان میں جس کو صحیح سالم کرسکو توکر دو …۔ سو سب عیسائی صاحبان و محمدی صاحبان کے روبرو اسی وقت اپنا چیلنج پورا کیجئے۔
عیسائی بہت خوش اور پُریقین تھے کہ اب حضور علیہ السلام لاجواب ہوجائیں گے۔ مگر تائید کا وعدہ خدائے قادر و توانا کی طرف سے تھا۔حضورؑ نے فرمایا:
یہ علامت تو بالخصوصیت مسیحیوں کے لیے حضرت عیسیٰؑ قرار دے چکے ہیں اور فرماتے ہیں کہ اگر تم سچے ایماندار ہو تو تمہاری یہی علامت ہے کہ بیمار پر ہاتھ رکھو گے تو وہ چنگا ہو جائے گا۔ اب گستاخی معاف! اگر آپ سچے ایماندار ہونے کا دعویٰ کرتے ہیں تو اس وقت تین بیمار آپ ہی کے پیش کردہ موجود ہیں، آپ ان پر ہاتھ رکھ دیں، اگر وہ چنگے ہو گئے تو ہم قبول کرلیں گے کہ بیشک آپ سچے ایماندار اور نجات یافتہ ہیں، ورنہ کوئی قبول کرنے کی راہ نہیں۔ کیونکہ حضرت مسیح تو یہ بھی فرماتے ہیں کہ اگر تم میں رائی کے دانہ برابر بھی ایمان ہوتا تو اگر تم پہاڑ کو کہتے کہ یہاں سے چلا جا تو وہ چلا جاتا۔ مگر خیر میں اس وقت پہاڑ کی نقل مکانی توآپ سے نہیں چاہتا کیونکہ وہ ہماری اس جگہ سے دُور ہیں لیکن یہ تو بہت اچھی تقریب ہو گئی کہ بیمار تو آپ نے ہی پیش کردئیے، اب آپ ان پر ہاتھ رکھو اور چنگا کر کے دکھلاؤ۔ ورنہ ایک رائی کے دانہ برابر بھی ایمان ہاتھ سے جاتا رہے گا۔آپ پر یہ واضح رہے کہ یہ الزام ہم پر عائد نہیں ہو سکتا کیونکہ اللہ جل شانہ نے قرآن کریم میں ہماری یہ نشانی نہیں رکھی۔
یہ صرف ایک مثال ہے کہ کس شان سے آپ نے مسیحیوں ہی کی مقدّس کتاب سے انہیں شکست دی۔ اور پھر الوہیت مسیح کے باطل عقیدے کی جڑ بھی بائبل ہی سے کاٹ کر رکھ دی۔جس پر فریق مخالف کے چیمپئن ڈاکٹر ہنری مارٹن کلارک نے برملا اقرار کیا کہ مسلمانوں سے مباحثوں کے تجربے میں یہ ایک انوکھی اور نرالی دلیل ہے۔ تفصیل کے لیے کتاب’’جنگ مقدس‘‘ کا مطالعہ کیا جاسکتا ہے۔
اس مباحثہ کا انجام بھی وہی ہوا جو بالعموم پبلک مناظروں کا ہوتا ہے اور اسی وجہ سے حضرت مسیح موعودؑ نے مناظروں اور مباحثوں سے اعراض فرمالیا۔ یعنی دونوں فریقین فتح کا دعویٰ کرنے لگے۔ مگر اس مباحثہ کا انجام اپنے اندر ایک غیر معمولی شان رکھتا ہے۔کیونکہ جب دلائل و براہین سے مسیحیت کے مروجہ عقائد کا باطل ہونا ثابت ہو گیا مگر مدّمقابل اعترافِ شکست سے گریز کرتا رہا، تو حضرت مسیح موعو دؑ نے اللہ تعالیٰ سے اذن پا کر اعلان فرمایا کہ بہت تضرّع اور ابتہال سے جناب الٰہی میں دعا کی تو اس نے مجھے یہ نشان دیا ہے کہ جو فریق عمداً جھوٹ کو اختیار کررہا ہے اور عاجز انسان کو خدابنا رہا ہے وہ 15 ماہ تک ہاویہ میں گرایا جاوے گا اور اس کو سخت ذلّت پہنچے گی بشرطیکہ حق کی طرف رجوع نہ کرے اور جو شخص سچ پر ہے اور سچے خدا کو مانتا ہے اس کی اس سے عزت ظاہر ہوگی۔
اب امر واقعہ یہ کہ مسٹر عبد اللہ آتھم مقررہ مدت یعنی پندرہ مہینوں میں ہلاک نہ ہوئے۔ چنانچہ یہ بات جماعت احمدیہ کے معاندین ایک بہت بڑے اعتراض کے طورپر اٹھاتے ہیں۔مگر دیگر تمام اعتراضو ں کی طرح یہ اعتراض بھی جلدبازی، کم فہمی، تعصب یا بد نیتی کی پیدا وار ہے۔
عیسائی پادریوں نے مباحثے کے اختتام پر اپنی خِفّت چھپانے کے لیے یہ پرچارکرنا شروع کر دیا کہ اس مباحثے کے نتیجے میں بہت سے مسلمان اسلام کو ترک کر کے عیسائی ہو گئے۔ اگرچہ کچھ لوگوں کے قدم میں لغزش بھی آئی، مگر اکثر مرتدین کو اللہ تعالیٰ نے ہدایت دی اور وہ دوبارہ مسلمان ہو گئے۔ چنانچہ چرچ مشن سوسائٹی کے مورخ Eugene Stock نے لکھا کہ بعض صاحبِ حیثیت مسلمانوں نے عیسائیت قبول کی اور انہیں بپتسمہ دیا گیا۔ ایسا محسوس ہوتا تھا کہ اسلام پر عیسائیت کی ایسی فتح کبھی نہیں ہوئی۔ مگر افسوس سے اعتراف کرنا پڑتا ہے کہ ان میں سے بہت سے فرطِ جذبات میں بہ کر، لالچ میں آکر یا ظلم کے خوف سے مغلوب ہو گئے۔
اللہ تعالیٰ سے اذن پا کر حضرت مسیح موعودؑ نے عبداللہ آتھم کے بارے میں جب پیشگوئی کی تو کیا عیسائی اور کیا مسلمان، سب نے ہی دن گننے شروع کر دیے۔ جہاں باقی دنیا ہنسی اور استہزاء کے رنگ میں اس پیشگوئی کا انجام دیکھنے کی منتظر تھی، وہاں حضرت اقدسؑ اور آپؑ کے صحابہ اسلام کی فتح کے لیے دعاؤں میں یہ عرصہ گزار رہے تھے۔ مگر یاد رہے کہ پیشگوئی کے پورا ہونے کی دو صورتیں تھیں یعنی عبداللہ آتھم رجوع الی الحق نہ کرے اور ہاویہ یعنی سخت عذاب میں گرایا جائے۔ اور یا عبداللہ آتھم رجوع الی الحق کر لے اور ہاویہ کا عذاب اس سے ٹل جائے۔ مومن کا کام دعا کرنا ہے جبکہ قرآن کریم فرماتا ہے: اور اللہ اپنے فیصلہ پر غالب رہتا ہے، لیکن اکثر لوگ نہیں جانتے۔ (یوسف:22)
حضرت مسیح موعودؑ نے اس پیشگوئی میں لفظ ’’ہاویہ‘‘ کو یوں بیان فرمایا تھا کہ میں نے جہاں تک الہام کے معنے سمجھے وہ یہ تھے کہ جو شخص اس فریق میں سے بالمقابل باطل کی تائید میں بنفس خود بحث کرنے والا ہے اس کے لیے ہاویہ سے مراد سزائے موت ہے۔ لیکن الہامی لفظ صرف ہاویہ ہے اور اس کے ساتھ یہ بھی شرط ہے کہ حق کی طرف رجوع کرنے والا نہ ہو۔اور حق کی طرف رجوع نہ کرنے کی قید ایک الہامی شرط ہے جیسا کہ میں نے الہامی عبارت میں صاف لفظوں میں اس شرط کو لکھاتھا اور یہ بات بالکل سچ اور یقینی اور الہام کے مطابق ہے کہ اگر مسٹر عبداللہ کا دل جیسا کہ پہلے تھا ویسا ہی توہین اور تحقیر اسلام پر قائم رہتا اور اسلامی عظمت کو قبول کر کے حق کی طرف رجوع کرنے کا کوئی حصہ نہ لیتا تو اسی میعاد کے اندر اس کی زندگی کا خاتمہ ہو جاتا لیکن خداتعالیٰ کے الہام نے مجھے جتلا دیا کہ ڈپٹی عبداللہ آتھم نے اسلام کی عظمت اور اس کے رعب کو تسلیم کرکے حق کی طرف رجوع کرنے کا کسی قدر حصہ لے لیا جس حصہ نے اس کے وعدہ موت اور کامل طور کے ہاویہ میں تاخیر ڈال دی۔ (انوارالاسلام)
پس یہ وعیدی نوعیت کی پیشگوئی مشروط تھی۔ لیکن آتھم کی حالتِ رجوع پر کچھ کہنے سے قبل پادری ڈاکٹر ہنری مارٹن کلارک کا وہ بیان دیکھیں جو انہوں نے اس مباحثے کی رپورٹ میں رقم کیا۔ مارٹن کلارک نے آتھم کے بارے میں تحریر کیا: میں دیانت داری سے یہ اعتراف کرتا ہوں کہ جب ہماری باری آئی تو ہمارا نمائندہ اسلام کے مقابلے پر ہمارا دفاع خاطر خواہ طریق پر نہ کرسکا۔ بہت رہنمائی کے باوجود مسٹر آتھم نے اپنا ہی طریق اختیار کیے رکھا۔
ان کے اس اعتراف کو Missionary Herald مطبوعہ امریکہ نے بھی شائع کیا۔یہاں آتھم کی شکست کا اعتراف ان لفظوں میں موجود ہے: ڈاکٹر کلارک اعتراف کرتے ہیں کہ عیسائیوں کی طرف سے جو کچھ کیا گیا وہ مطلوب و مقصود نہ تھا۔
گویا عیسائی اگرچہ مباحثے کے دوران اپنی فتح کا اعلان کرتے رہے، مگربصیغۂ راز اپنی شکست کا اعتراف کرنے پر مجبور تھے۔ نیز مباحثے کا بنیادی مقصد اسلام اور مسیحیت میں سے سچے مذہب کافیصلہ بزور دلائل ازروئے کتب مقدسہ کرنا تھا جس کا اظہار عیسائی اندرونِ خانہ کرتے رہے۔ آتھم کا انجام ایک الگ کہانی ہے جس کے بارے میں آئندہ شمارے میں اختصار سے بیان کیا جائے گا۔ انشاء اللہ۔
(باقی آئندہ)

……………………………………………………

(دوسرا حصہ)

پادری ڈاکٹر ہنری مارٹن کلارک اس مباحثے کا منتظم اعلیٰ تھا۔ اُس نے ہی مسلمانوں کو چیلنج دیا تھا اور پھر عبداللہ آتھم کو عیسائیت کی نمائندگی کے لیے بھی چنا تھا۔ جس کی بظاہر تین وجوہات تھیں:
1۔ آتھم مقامی ہندوستانی تھا اور اس کا عیسائی ہو جانا مقامی لوگوں کو عیسائیت کی طرف مائل کرسکتا تھا۔
2۔ آتھم مسلمان رہ چکا تھا۔ اس کا نام آثم تھا۔ اسلام کے عقائد اور عیسائیت سے بھی خوب واقف تھا۔
3۔ اعلیٰ عہدے (ایکسٹرا اسسٹنٹ کمشنر) پر فائز رہا تھا جس سے مقامی لوگ مرعوب ہوسکتے تھے۔
ڈاکٹر ہنری مارٹن کلارک چرچ مشن سوسائٹی کے تحت بطورمیڈیکل مشنری امرتسر میں تعینات تھا۔ وہ ایک افغان گھرانے میں پیدا ہوا۔ قریباً اڑھائی برس کی عمر میں عیسائی مناد رابرٹ کلارک اور اس کی اہلیہ نے یتیمی کی حالت میں اُسے سرحدی صوبے سے گود لیا، پرورش کی اور اعلیٰ تعلیم دلوائی۔ سکاٹ لینڈ کے شہر ایڈنبرا سے ہنری مارٹن کلارک نے MDکی سند حاصل کی اور مشنری کی ٹریننگ لینے کے بعد ہندوستان میں وارد ہوا۔ اس کی کارکردگی کی رپورٹس چرچ مشن سوسائٹی کے رسالہ میں شائع ہوتی رہیں جو سوسائٹی کے Archives میں محفوظ ہیں۔ ان آرکائیوز میں ہنری مارٹن کلارک کا ایک ذاتی خط بھی شامل ہے جو اُس نے 4؍ ستمبر1894ء کو اپنے والد رابرٹ کلارک کے نام تحریر کیا۔ یہ وہ تاریخ ہے جب پیشگوئی انجام آتھم کی میعاد پوری ہوتی تھی۔ اس خط میں فیروزپور جاکر آتھم سے ملنے اور اس کی صحت کے بظاہر بہتر نظر آنے اور اس کے ذہنی بحران کا ذکر ہے۔
عبداللہ آتھم پیرانہ سالی کے ایام امرتسر میں گزار رہا تھا۔ مناظرے کے بعدوہ اس پیشگوئی کے رُعب میں سراسیمگی کا شکار ہوکر حواس باختہ رہنے لگا۔ شدید ذہنی دباؤ میںاسے ایسے بہت سے واہمے ہونے لگے کہ وہ ڈر کر کبھی کہیں بھاگتا، کبھی کہیں سر چھپاتا پھرتا۔ اس پیشگوئی کے نتیجے میں خدائے واحد و لاشریک سے وہ اس قدر مرعوب ہوا کہ پیشگوئی کی میعاد ختم ہونے تک لَوٹ کر امرتسر نہ گیا اور اُس نے عیسائی اخبار ’’نورافشاں‘‘ میں اقرار کیا کہ میں اثناء ایام پیشگوئی میں ضرور خونی فرشتوں سے ڈرتا رہا۔
آتھم کی نقل مکانی کا جواز معترضین نے یہ دیا ہے کہ اُس پر قاتلانہ حملے ہوئے جن کے بارے میں اُس کو یقین تھا کہ یہ حملے معاذاللہ حضرت مرزا صاحبؑ کی طرف سے کروائے جاتے ہیں تاکہ پیشگوئی پورا ہونے کا سامان ہو۔ اس بارے میں حضرت مسیح موعود علیہ السلام فرماتے ہیں کہ
’’تب ان کو سمجھ آیا کہ یہ میں نے اچھا نہیں کیا کہ اسلامی پیشگوئی کے خیال سے اس قدر بیقراری ظاہر کی۔ تب زہرخورانی کے اقدام کا منصوبہ اور تین حملوں کا بہانہ بنایا گیا۔ کیونکہ جس قدر خوف اُن کی سراسیمگی سے ظاہر ہو چکا تھا، وہ چاہتا تھا کہ اگر اس کا سبب الہامی پیشگوئی نہیں تو ایسا سبب ضرور ہونا چاہئے جو نہایت ہی قوی اور عظیم الشان ہو، جس سے یقینی طور پر موت کا اندیشہ دل میں جم سکے۔ سو جھوٹ کی بندشوں سے کام لے کر یہ اسباب تراشے گئے۔ … کون نہیں سمجھ سکتا کہ ان کے جھوٹے اور بے ثبوت بہتانوں سے ان کا منہ کالا ہو گیا تھا۔ اور اس کلنک کو دور کرنے کے لیے بجز اس کے اَور کوئی تدبیر نہ تھی کہ یا تو عدالت فوجداری میں نالش کر کے ان بہتانوں کو ثابت کراتے اور یا چند گواہوں کے پیش کرنے سے ان کو ثبوت دیتے اور یا جلسہ عام میں قسم کھالیتے۔ مگر آتھم صاحب نے ان طریقوں میں سے کسی طریق کو اختیار نہیں کیا‘‘۔ (انجام آتھم)
یہ تجاویز حضورؑ نے آتھم کی زندگی میں ہی شائع فرمادیں۔مگر نہ اس نے نالش کی نہ اعلانیہ قسم کھائی۔
اس پر معترضین یہ کہتے ہیں کہ آتھم نے پیشگوئی کی میعاد ختم ہونے کی خوشی میں امرتسر میں نکالے جانے والے جلوس سے خطاب کرتے ہوئے عیسائیت سے اپنی وابستگی ظاہر کی اور اسلام کے خلاف روایتی بدزبانی کی۔ گویا اس نے رجوع الی الحق نہیں کیا اور اس طرح حضرت مسیح موعودؑ کی پیشگوئی مشروط بہ رجوع پوری نہیں ہوئی۔
یاد رکھنا چاہیے کہ رجوع کا تعلق دل کے ساتھ ہوتا ہے۔ اس تمام عرصے میں اُس کا سراسیمہ ہو کر قریہ قریہ بھٹکتے پھرنا، اَن دیکھے اسباب سے خوفزدہ ہو کر مختلف مقامات پر پناہ ڈھونڈنا،قاتلانہ حملوں کا الزام لگا نا مگر ان پر قانونی چارہ جوئی نہ کرنا، نیز پیشگوئی کی میعاد کے آغاز کے دن سے انجام کے دن تک اس کا اسلام کی مخالفت میں منہ کھولنا نہ قلم اٹھانا، بانیٔ اسلام ﷺ کے خلاف کسی قسم کی دریدہ دہنی نہ کرنا، اس قلبی حالت کے حلفیہ اعلان سے اعراض کرنا، یہ سب آتھم کے رجوع الی الحق کے ثبوت نہیں ہیں تو اَور کیا ہے؟
اگرچہ رجوع کے لیے زبانی اقرار ضروری نہیں ہے۔مگر ایک صاحبِ ایمان کے لیے یہ ضروری ہے کہ جب اس سے رجوع کی بابت دریافت کیا جائے تو وہ اس کا اقرار کرنے میں تامل نہ کرے، جو آتھم صاحب نے ایک مرتبہ نہیں کئی مرتبہ کیا اور اپنے رجوع پر قسم نہ کھائی۔
پس آتھم کے عارضی رجوع سے اگرچہ عذاب وقتی طور پر اسی طرح ٹل گیا جس طرح قرآن کریم میں فرعون کے درباریوں کا احوال یوں بیان ہوا ہے کہ ہم نے انہیں عذاب کے ذریعہ پکڑا تاکہ وہ رجوع کریں۔ اور انہوں نے کہا: اے جادوگر، ہمارے لیے اپنے ربّ سے وہ مانگ جس کا اس نے تجھ سے عہد کررکھا ہے۔ یقیناً ہم ہدایت پانے والے ہو جائیں گے۔ پس جب ہم نے ان سے عذاب کو دور کردیا تو معاً وہ بدعہدی کرنے لگے۔ (الزخرف:49 تا 51)
گویا اللہ تعالیٰ عارضی رجوع پر بھی عذاب کو ٹال دیتا ہے۔ چنانچہ فرعونیوںنے آٹھ مرتبہ رجوع کیا اور آٹھ مرتبہ ان سے موعود عذاب ٹالا گیا۔
پھر عذابِ دخان آنے پر کفار کا رجوع اللہ تعالیٰ نے قرآن کریم میں یوں بیان فرمایا ہے: اے ہمارے ربّ! ہم سے یہ عذاب دور کردے، یقینا ًہم ایمان لے آئیں گے۔ (الدُّخان:13) اور اس عارضی رجوع پر اللہ تعالیٰ اپنی سنت کو یوں بیان فرماتا ہے: ہم عذاب تو ضرور کچھ عرصہ کے لیے ٹال دیں گے، مگر یہ غلط ہے کہ تم مومن بن جاؤ گے۔ بلکہ تم دوبارہ انہی شرارتوں کا اعادہ کرو گے۔ (الدُّخان:16)
پس ثابت ہوا کہ عارضی رجوع پر عذاب کو عارضی طور پر ٹال دیناسنت اللہ ہے اور پیشگوئی انجام آتھم اپنے آغاز سے انجام تک عین سنت اللہ کے مطابق ہے۔
جہاں تک اُس اعلان عام کا تعلق ہے جو عبداللہ آتھم نے پیشگوئی کی میعاد پوری ہونے پر امرتسر میں ہونے والے جلسہ عام میں پڑھا۔ تو ہنری مارٹن کلارک کے مذکورہ بالا خط سے یہ انکشاف ہوتا ہے کہ آتھم کا یہ ذاتی بیان نہ تھا بلکہ مارٹن کلارک نے اُسے لکھ کر دیا تھا۔
اس کے بعد حضورؑ نے اُسے چیلنج دیا کہ وہ حلفیہ اعلان کردے کہ اس نے رجوع نہیں کیا تھا اور اس پر پیشگوئی کے پورا ہونے کا خوف طاری نہ ہوا تھا۔ نیز یہ بھی کہ قاتلانہ حملوںکے من گھڑت الزام میں قانون کا دروازہ کھٹکھٹانے سے اعراض کرنا اُس کی شکست اور حضرت اقدس علیہ السلام (یعنی نمائندۂ اسلام) کی فتح کا اعلان عام ہے۔
گو کہ عام طور پر پیشگوئی انجام آتھم کو 5؍جون 1893ء سے شروع کرکے پندرہ مہینے تک یعنی 6؍ ستمبر 1894ء تک خیال کیا جاتا ہے۔ لیکن حقیقت یہ ہے کہ اس پیشگوئی کا آغاز تو اگرچہ 5؍جون 1893ء ہی سے ہوتا ہے مگر پندرہ مہینے بعد صرف ایک موڑ آتا ہے، منزل نہیں۔ اس دوران وہ رجوع کرتا ہے مگر حضور علیہ السلام کے چیلنج یعنی اعلانیہ حلف اٹھانے سے اعراض کرتا ہے۔اسی پس وپیش میں ایک سال گزرجاتا ہے۔ اس پر اُسے اللہ کے اذن سے مزید بارہ مہینے کی میعاد دی جاتی ہے جس میں وہ یقیناً ہلاک ہو جائے گا۔چنانچہ اس پیشگوئی کو ابھی سات ماہ کا عرصہ بھی نہ گزرا تھا کہ عبداللہ آتھم27؍جولائی1896ء کو ہلاک ہو گیا۔یوں اس پیشگوئی کی اصل مدت 5؍ جون1893ء سے شروع ہو کر 30؍ستمبر 1896ء تک تھی اور عبداللہ آتھم عین پیشگوئی کے مطابق اللہ تعالیٰ کی طرف سے مقررہ میعاد میں ہلاک ہوگیا۔
آتھم کی موت پر چرچ کے شمارے میں پانچ سطری خبر شائع ہوئی لیکن اس میں حضورؑ کی پیشگوئی کا ذکر نہیں کیا گیا۔ اگر اس کی وفات اس معروف اور معرکہ آرا پیشگوئی کے مطابق نہیں ہوئی تھی تو یہ تو بہت قابل ذکر بات ہونی چاہیے تھی۔ کیونکہ جس مباحثہ کو حق و باطل کا معرکہ قرار دیا گیا ہو، جس میں فیصلہ کی واحد صورت آتھم کا انجام رہ گیا ہو، وہاں آتھم کی وفات کو اس قدر غیر اہم طریق پر ذکر کر کے کیوں چھوڑ دیا گیا؟ اس کے بعد پیشگوئی انجام آتھم کے پورا ہونے میں کیا شک ہو سکتا ہے؟
لیکن دوسری طرف حضرت اقدس علیہ السلام کی وفات کی خبر چرچ مشن سوسائٹی کے Church Missioary Review میں ڈیڑھ صفحہ پر شائع ہوئی۔ جنگ مقدس کا تفصیل سے ذکر کیا گیا اور پیشگوئی آتھم کی ناکامی کا دعویٰ کرتے ہوئے یہ دعویٰ بھی کیا گیا کہ 1901ء کی مردم شماری میں حضرت مسیح موعودؑ کے پیر و کاروں کا اندراج بطور احمدی کیے جانے سے ہوتا ہے لیکن یہ دیکھنا دلچسپ ہوگا کہ آئندہ کتنی مردم شماریوں میں قادیانی رہنما کا ذکر ملتا ہے، اور کب تک!؟
پس یہ خدا کا خاص فضل تھا کہ خود اُن کے منہ سے ایک معیار طے کروایا اور پھر اس معیار پر اپنے موعود مسیح کی جماعت کو سرخرو فرمایا۔ چنانچہ ہندوستان کی تاریخ کی ممتاز سکالر Avril Ann Powellکاتجزیہ ملاحظہ ہو۔ وہ کہتی ہیں: 1890ء کی دہائی میں، امرتسر کے مباحثے کے زمانے میں، ان دو اقلیتوں (جماعت احمدیہ اور عیسائیت) سے تعلق رکھنے والوں کی تعداد ہزاروں میں تھی۔ احمدیوں نے اس کے بعد ایک بہت کامیاب عالمگیر تبلیغی تحریک کا آغاز کیاجس کے نتیجہ میں 1940ء کی دہائی میں ان کی تعداد پانچ لاکھ تک پہنچ گئی۔ اگرچہ پنجاب احمدیت کا تاسیسی وطن رہا مگر ہجرتوں اور بیعتوں کے نتیجے میں دنیا بھر کے مختلف علاقوں تک ان کا پیغام پہنچا، بالخصوص افریقہ اور انڈونیشیا بلکہ برطانیہ اور امریکہ میں بھی۔
اور دوسری طرف عیسائیوں کی حالت یوں بیان کی ہے: 1920ء کی دہائی تک پنجابی عیسائیوں کی تعداد میں اضافہ ہوتا گیا۔ تاہم اگلی دو دہائیوں میں ان میں بہت کم اضافہ ہوا۔
اور پھر Powell نے مردم شماری کی رپورٹ کا ایک نہایت خوبصورت تجزیہ دیتے ہوئے لکھاہے: 1941ء کی مردم شماری میں پنجاب میں مقامی عیسائیوں کی تعداد پانچ لاکھ ریکارڈ ہوئی جو اُس وقت احمدیوں کی عالمگیر تعداد تھی، جس میں سے قریباً نصف پنجاب کے رہائشی تھے۔
پس یہ کیسا عظیم نشان ہے کسر صلیب کا!۔
1941ء کی مردم شماری غیرمنقسم ہندوستان کی آخری مردم شماری تھی۔ تقسیم ہند کے بعدہندوستان اور پاکستان دونوںہی کی مردم شماریوں میں جماعت احمدیہ کا ایک بڑھتی ہوئی جماعت کے طور پر ذکر ملتا ہے۔ بلکہ دنیا کے ہر ملک میں جہاں احمدی آباد ہیں وہاں کی مردم شماری میں جماعت احمدیہ مسلمہ سے وابستہ افراد کاذکراسلام اور حضرت اقدس مسیح موعود علیہ السلام کی نسبت سے ملتا ہے۔
جنگ مقدّس کے واقعے کے قریباً سواسوسال بعد مضمون نگار کو برطانیہ میں موجود آرکائیوز پر تحقیق کے دوران ہنری مارٹن کلارک کے گھر، اُن کی قبراور اُن کی اولاد کو بھی تلاش کرنے کی توفیق ملی۔ اُن کے ایک پڑپوتے Mr Jolyn Martyn Clark کے پاس وہ الوداعی ایڈریس بزبان اردو فریم شدہ موجود ہے جو پادری ڈاکٹر ہنری مارٹن کلارک کو ہندوستان سے رخصت ہوتے وقت پیش کیا گیا تھا۔ اس میں درج اُن کے کارناموں میں سے ایک یہ ہے کہ موصوف نے ’جنگ مقدس‘ کے ایام میں تمام مصائب اور مشکلات کا نہایت استقلال سے مقابلہ کیا۔
مسٹر جولین مارٹن کلارک نہایت شریف النفس آدمی ہیں اور تدریس کے شعبہ سے وابستہ ہیں۔ اُن کی احمدیت میں دلچسپی پیدا ہوتی گئی تو لندن آنے کی دعوت انہوں نے بخوشی قبول کرلی۔ جب انہیں بتایا گیا کہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی جانشینی خلافت کی شکل میں بے مثال کامیابی کے ساتھ آج بھی چل رہی ہے، تو انہیں یہ خواہش پیدا ہوئی کہ وہ حضور انور ایدہ اللہ تعالیٰ سے شرفِ ملاقات حاصل کریں۔ اُن کی یہ خواہش حضور انور نے ازراہ شفقت منظور فرمائی۔ یوں موصوف 3؍دسمبر2011ء کو لندن آئے۔ مخزن تصاویر کی جماعتی تاریخ کی نمائش دیکھ کر انہوں نے کہا کہ ہنری مارٹن کلارک اور باقی مشنریوں کا تو کوئی نام بھی نہیں جانتا اور احمدیہ جماعت کے بانی (علیہ السلام)کا شروع کیا ہوا کام جس کی سب مخالفت کرتے تھے، کہاں سے کہاں پہنچ گیا ہے!
حضور انور ایدہ اللہ سے ملاقات کے دوران حضورانور کے دریافت فرمانے پر انہوں نے کہا کہ میں نے تو جنگ مقدّس کے بارے میں حال ہی میں تحقیق کی ہے مگر آج مجھے اندازہ ہوا ہے کہ ہنری مارٹن کلارک کہیں ماضی میں کھو گیا ہے جبکہ ان کے مدّمقابل جو شخص تھا وہ دنیابھر میں کامیاب ہے۔ خود مجھے کچھ سال پہلے تک علم نہ تھا کہ میرے پڑدادا کون تھے۔کچھ سال قبل اتفاق سے میں اپنے اجداد کی تلاش کر رہا تھا تو مجھے معلوم ہوا ہے کہ ہنری مارٹن کلارک میرے پڑداداہیں۔
حضور انور سے ان کی ملاقات نصف گھنٹے کے قریب جاری رہی۔ آخر پر اُن کی درخواست پر حضور انور نے ازراہ شفقت اُن کے ساتھ تصویر کھنچوائی۔
ملاقات کے بعد وہ نہایت جذباتی ہوکر کہنے لگے کہ حضور بہت ہی خاص آدمی ہیں۔ میں نے ان جیسا شخص اپنی زندگی میں نہیں دیکھا۔ عمر کے جس حصے میں مَیں ہوں، اس عمر میں کسی بات سے متأثر ہوجانابہت مشکل ہوتا ہے کیونکہ انسان سمجھتا ہے اس نے زندگی کو بہت قریب سے دیکھ لیا ہے۔ مگر میں حضور سے مل کر بہت متأثر ہوا ہوں۔ حضور اس قدر محبت کرنے والے ہیں کہ بیان کرنا مشکل ہے۔ وہ اتنے خاص ہیں کہ انہوں نے مجھے بھی خاص ہونے کا احساس دلایا ہے۔
پھر کہنے لگے کہ یہ اس قدر محبت کرنے والے ہیںکہ مجھے سمجھ نہیں آرہی کہ جن کے یہ خلیفہ ہیں وہ کسی کو مرنے کی بددعا کس طرح دے سکتے ہیں (ان کا اشارہ پیشگوئی انجامِ آتھم کی طرف تھا)۔ اس پر اُن کو بتایا گیا کہ وہ ایک مباحثہ تھا جس میں عیسائیوں کو شکست واضح طور پر نظر آگئی تھی۔ لیکن وہ مُصر تھے کہ وہ جیت گئے ہیں اور اسلام کی شکست ہوئی ہے۔ اس پر بانیٔ جماعت احمدیہ نے فرمایا کہ ایسا ہے تو پھر خدا خود کوئی نشان دکھائے گا۔ یہ سن کر جولین مارٹن کلارک کہنے لگے: خدانے آج بھی نشان دکھایا ہے کہ میں جب سے ان سے ملا ہوں، میری حالت یہ ہے کہ میری زبان میرا ساتھ نہیں دے رہی۔
اللہ تعالیٰ کی ہزاروں لاکھوں کروڑوں برکتیں نازل ہوںاُس کاسرصلیب پر جس نے اس قرآنی حکم کی تعمیل کی کہ

وَّ یُنذِرَ الَّذِینَ قَالُوااتَّخَذَاللہُ وَلَدًا (الکہف:5)

یعنی وہ ان لوگوں کو ڈرائے جنہوں نے کہا اللہ نے بیٹا بنا لیا ہے۔

50% LikesVS
50% Dislikes

اپنا تبصرہ بھیجیں