جوڑوں کے درد کا علاج – جدید تحقیق کی روشنی میں

جوڑوں کے درد کا علاج – جدید تحقیق کی روشنی میں
(فرخ سلطان محمود)

برطانیہ میں معاشی نظام اور کام کرنے والوں کی زندگی کے معیار کو بہتر بنانے والے ادارے، ورک فاؤنڈیشن کے مطابق برطانیہ میں چار لاکھ افراد جوڑوں کے درد میں مبتلا ہیں- برطانوی طبی ماہرین نے کہا ہے کہ جوڑوں کے دردوں میں شدت کا تعلق ہوا کے دباؤ اور درجہ حرارت میں کمی سے ہے جس کی وجہ سے سردیوں اور بارشوں کے دنوں میں جوڑوں کے درد میں مبتلا مریضوں کو زیادہ مشکلات کا سامنا کرنا پڑتا ہے۔ برطانوی ماہرین نے لندن میں جوڑوں کے درد میں مبتلا دو سو مریضوں کا تین مہینے تک اپنی نگرانی میں مطالعاتی جائزہ لیا اور ان مریضوں کو درجہ حرارت، ہوا کے دباؤ اور دردوں میں شدت، آرام سے متعلق سوالنامے فراہم کئے جن کے جوابات کی روشنی میں ماہرین نے اخذ کیا کہ درجہ حرارت میں کمی کے ساتھ ہی مریضوں کے دردوں میں اضافہ ہوجاتا ہے۔ اسی طرح ہوا کے دباؤ کے کم یا زیادہ ہونے سے بھی جوڑوں کے دردوں کا تعلق ہے۔ ماہرین کے مطابق اس کی وجہ یہ بھی ہوسکتی ہے کہ ہڈیوں کے جوڑوں کو چکناہٹ فراہم کرنے والا سائینوویل نامی مائع، درجہ حرارت میں کمی سے متأثر ہوجاتا ہو۔
٭ ایک رپورٹ میں بتایا گیا ہے کہ بحیرۂ روم کے علاقے میں عام لوگوں کی خوراک جوڑوں کی بیماریوں کے لئے بھی بہت مفید ہے۔ یہ خوراک پھلوں، سبزیوں، مچھلی اور زیتون کے تیل پر زیادہ اور سرخ گوشت پر بہت کم مشتمل ہوتی ہے۔ رپورٹ کے مطابق مختلف حوالوں سے کی جانے والی تحقیقات کے نتیجے میں اس خوراک کو دل کے امراض میں مفید پایا گیا ہے جبکہ گلاسگو میں کئی جانے والی ایک نئی تحقیق میں اس خوراک کو جوڑوں کی بیماری یعنی گٹھیا کے لئے بھی مفید پایا گیا ہے۔ جوڑوں کے اس مرض میں دائمی سوزش، درد اور سختی پائی جاتی ہے جس کا سبب جسم کے جوڑوں پر مزاحمتی نظام کا غلطی سے حملہ ہے۔
٭ اور اب آخر میں ایک تفصیلی رپورٹ گنٹھیا یعنی GOUT کی بیماری کے بارے میں ملاحظہ فرمائیں۔ گنٹھیا کی بنیادی وجہ خون میں یورک ایسڈ کی زیادتی ہے اور یہ ایسی طبی حالت ہے جس میں خو ن میں موجود یورک ایسڈ جسم سے خارج ہو نے کی بجائے جوڑوں میں جمع ہونے لگتا ہے جس سے جسم کے مختلف حصوں کے جوڑ با لخصوص ہاتھوں اور پائوں کی انگلیوں اور انگوٹھوں کے چھوٹے جوڑ متورم ہو جاتے ہیں اور اچھی طرح حرکت کرنے کے قابل نہیں رہتے۔ گنٹھیا یا نقرس کے مریضوں کے خون میں اکثر و بیشتر یورک ایسڈ کی سطح بلند ہوتی ہے اور یورک ایسڈ ان مادوں میں شامل ہے جو ہمارا جسم معمول کے مطابق بناتا ہے لیکن اسے جسم سے خارج ہوجانا چاہئے۔ ہمارے گردے یورک ایسڈ کی بڑی مقدار جسم سے خارج کردیتے ہیں۔ تاہم ہر شخص کے جسم میں یورک ایسڈ بننے کی رفتار اور مقدار مختلف ہوسکتی ہے اور اس میں جنس، جینیات، جسم کا وزن اور دیگر عوامل بھی کار فرما ہوتے ہیں۔ یورک ایسڈ کی ایک خاص بات یہ ہے کہ یہ اکثر خون اور بافتوں میں بہت اچھی طرح شامل نہیں ہو پاتا۔ اگر خون میں اس تیزابی مادے کی سطح معمول سے کچھ زیادہ ہو جائے تو اضافی یورک ایسڈ ٹھوس قلمی شکل میں جوڑوں اور گردوں میں جمع ہونے لگتا ہے۔ جوڑو ں میں جمع ہوکر یہ گنٹھیا یا جوڑوں میں درد کی بیماری (Arthritis) کا سبب بنتا ہے اور گردوں میں پتھری تشکیل دیتا ہے۔ اسی طرح جسم کی دیگر بافتوں میں بھی یورک ایسڈ جمع ہو کر خرابیاں پیدا کرسکتا ہے۔
حالیہ تحقیق کے مطابق بہت زیادہ گوشت اور سمندری خوراک کا استعمال گنٹھیا کا خطرہ بڑھا دیتا ہے۔ لیکن ڈیری مصنوعات اور کافی میں اس سے بچائو کی خوبیاں موجود ہیں۔
تاہم دیکھا یہ گیاہے کہ غذائوں سے بہت زیادہ پرہیز کرکے گنٹھیا کے مرض میں خاطر خواہ فوائد حاصل نہیں کئے جاسکتے۔ البتہ گنٹھیا کے مریض کو اپنا وزن کم کرنے پر پوری توجہ دینی چاہئے کیونکہ جسمانی وزن کی زیادتی گنٹھیا کے امکانات کو بڑھادیتی ہے۔ نیز اُن غذائوں سے بھی پرہیز کرنا چاہئے جن کے استعما ل سے مریض کو خود یہ محسوس ہوتا ہو کہ مرض میں اضافہ ہوا ہے۔ بعض دوائیں بالخصوص پیشاب آور دوائیں بھی خون میں یورک ایسڈ کی مقدار بڑھادیتی ہے۔ اگر ممکن ہو تو ڈاکٹر کے مشورے سے ان دوائوں کا بہتر متبادل استعمال کرنا چاہئے۔
گنٹھیا کے درد سے محفوظ رہنے کے لئے جن غذائوں سے پرہیز کرنے کا مشورہ دیا جاتا ہے اُن میں Purine زیادہ مقدار ہوتا ہے۔ جن جانوروں کے گوشت میں پیورین زیادہ مقدار میں ہوتا ہے ان میں گائے، بھینس اور بھیڑ کا گوشت شامل ہے۔علاوہ ازیں کلیجی،گردے اور مغزمیں بھی پیورین وافر مقدار میں ہوتا ہے۔ اسی طرح دلیا یعنی Oatmeal، خشک پھلیاں ،مٹر ، دالیں، پالک، پھول گوبھی اور کھمبیاں بھی گھٹیا کے مریضوں کے لئے مفید نہیں سمجھی جاتیں۔ سمندر سے حاصل ہونے والی بعض غذائی اشیاء بھی گھٹیا کے مریضوں کے لئے مضر سمجھی جاتیں ہیں۔ان میں مخصوص مچھلیاں مثلاً سارڈین، کوڈفش، سکیلوپ، ٹرائوٹ اور ہیڈاک شامل ہیں۔
٭ برطانوی ماہرین کی ایک حالیہ تحقیق کے مطابق مچھلی کا تیل جوڑوں کے درد سے محفوظ رکھتا ہے۔ تحقیق کے مطابق مچھلی کے تیل میں قدرتی طور پر پائے جانے والے اجزاء جسم میں پہنچ کر ایک کیمیکل کی شکل اختیار کرلیتے ہیں۔ اس کیمیکل کو Resolvin D2 کا نام دیا گیا ہے۔ تحقیق کے مطابق مچھلی کا تیل انسانی جسم کو جوڑوں کے درد کے علاوہ سوجن اور چوٹ سے پیدا ہونے والی دیگر بیماریوں سے بھی محفوظ رکھتا ہے۔

50% LikesVS
50% Dislikes

اپنا تبصرہ بھیجیں