حضرت ابن عربیؒ

روزنامہ ’’الفضل‘‘ ربوہ یکم نومبر 2006ء میں حضرت ابن عربیؒ کے بارہ میں مکرم حافظ مظہر احمد صاحب کا ایک مضمون شائع ہوا ہے۔ قبل ازیں 6 دسمبر 1996ء کے الفضل انٹرنیشنل کے ’’الفضل ڈائجسٹ‘‘ میں بھی حضرت ابن عربیؒ کا تعارف پیش کیا جاچکا ہے۔
شیخ اکبر محی الدین محمد بن علی بن محمد المعروف ابن عربی، اندلس کے شہر مرسیہ (Murcia) میں 17رمضان المبارک 560ہجری بمطابق 28جولائی 1165ء کو پیدا ہوئے۔ آپ ؒکے والد کا نام علی بن محمد العربی تھا اور اسی نسبت سے آپ کا نام ابن عربی تھا۔ آپ کا سلسلہ نسب 15واسطوں سے نبی کریم ؐ سے جا ملتا ہے۔ آپ کے والد حضرت شیخ عبدالقادر جیلانی ؒ کے مرید تھے۔ جب ان کے اولاد نہ ہوئی تو انہوں نے اپنے شیخ سے درخواست دعا کی۔ حضرت شیخ عبدالقادر جیلانی ؒنے دعا کی تو الہام ہوا کہ ان کے اولاد نہیں ہے لیکن اگر کوئی دوسرا شخص ان کو اولاد ھبہ کر دے تو ممکن ہے۔ حضرت غوث الاعظم نے فرمایا کہ میرے صلب میں ایک لڑکا ہے۔ میں نے تمہیں ھبہ کیا۔ انشاء اللہ وہ امت محمدیہ میں جلیل القدر ولی ہو گا۔ اور اس کی پیدائش پر اس کا نام محمد رکھنا۔ چنانچہ جب ان کے ہاں ولادت ہوئی تو وہ اس بچہ کو حضرت غوث الاعظم کی خدمت میں لے گئے۔ انہوں نے فرمایا کہ یہ میرا لڑکا ہے، انشاء اللہ ولی کامل ہوگا۔
شیخ اکبر ابن عربی کے جد امجد عرب کے مشہور قبیلہ طے کے سردار حاتم طائی تھے۔ اندلس میں مسلمانوں کی حکومت کے قیام کے بعد ابن عربی کا خاندان وہاں آکر آباد ہوا۔ ان کے باپ دادا بھی علماء میںسے تھے اور تصوف کے سلسلہ قادریہ سے تعلق رکھتے تھے۔ ابن عربی اپنے والد کی کرامت کا ذکر کرتے ہوئے لکھتے ہیں کہ انہوں نے رحلت سے پندرہ روز قبل مجھے مخاطب ہو کر کہا کہ فلاں دن میں اس دنیا سے کوچ کر جاؤں گا۔ میں نے عرض کی خدا آپ کا یہ سفر آسان کر دے اور اپنا دیدار مبارک فرمائے۔ وہ اس پر خوش ہوئے اور دعا دی۔
اموی دور حکومت میں مرسلہ بڑے علمی مراکز میں سے ایک تھا جہاں ابن عربی نے ابتداء میں بڑے جید علماء سے اکتساب فیض کیا۔ آٹھ برس وہاں قیام کے بعد جب اندلس پر موحدوں کا قبضہ ہوا تو ان کا خاندان ہجرت کر کے اشبیلیہ آ گیا۔ جہاں ان کے والد کو اشبیلیہ کے امیر کے پاس معزز عہدہ مل گیا۔ اس عرصہ میں آپ تحصیل علم کے لئے ہمہ تن مصروف رہے اور نامور اساتذہ سے اکتساب فیض کیا۔ بعض بزرگوں سے حدیثیں سنیں اور روایت کی اجازت لی جن کی تعداد 70تک پہنچتی ہے۔ جب ابن عربی کے علم و عرفان کا چرچا اندلس میں پھیلنا شروع ہوا تو مشہور فلسفی ابن رشد نے بھی ان سے ملاقات کی اور ابن عربی کی غیر معمولی لیاقت و قابلیت کو تسلیم کر لیا۔
598ھ میں شیخ الاکبر مکہ گئے اور وہاں کے بزرگ علماء سے مصاحبت رکھی۔ 601ھ میں آپؒ مشرقی ممالک کے طویل سفر پر روانہ ہوئے۔ دوران سفر علماء و مشایخ سے ملتے رہے اور تصنیف و تالیف کے کام بھی جاری رہے۔ بغداد، موصل، قونیہ، دمشق ، قاہرہ اور مصر کے سفر کئے۔
ابن عربیؒ اپنے تصوف کے حوالہ سے یہ واقعہ بیان کرتے ہیں کہ ہم چند فقراء کو مصر میں ایک بندہ خدا نے دعوت دی۔ اکثر مشائخ جمع تھے، روٹی لائی گئی۔ وہاں ایک شیشہ کا برتن جو پیشاب کے لئے صاحب خانہ لایا تھا مگر وہ استعمال میں نہیں لایا گیا تھا۔ اس میں بھی کھانے کی چیز لائی گئی۔ اس پر اس برتن نے زبان حال سے کہنا شروع کر دیا کہ جب اللہ تعالیٰ نے مجھے ان بزرگوں کا کھانے کا برتن بنا دیا تو میں نہیں چاہتا کہ آئندہ پیشاب کا برتن بنوں یہ کہہ کر وہ دو ٹکڑے ہو گیا۔ میں نے مشائخ سے پوچھا: تم نے سنا جو برتن نے کہا۔ انہوںنے کہا: ہاں ہم نے سنا برتن کہتا ہے کہ ان عمدہ لوگوں نے جب مجھ میں کھایا میں نہیں چاہتا کہ آئندہ پیشاب کے لئے استعمال کیا جائوں اس لئے ٹوٹ گیا۔ میں نے کہا اس برتن نے تو یہ کہا ہے کہ: اے بندگان خدا جب تمہارے دلوں کو خدا نے اپنے لئے منتخب کیا ہے اور ایمان شہودی سے نوازا ہے تو تمہیں چاہئے کہ تم اس دل کو گناہوں کی نجاست کا محل نہ بنائو نہ حُبّ دنیا کا مسکن۔ ورنہ میری طرح ٹوٹ جاؤ یعنی مر جاؤ۔
ابن عربیؒ کی وفات دمشق میں 75برس کی عمر میں 9 نومبر 1240ء کو ہوئی اور دمشق میں ہی تدفین ہوئی۔
تالیف و تصنیف کی کثرت کے اعتبار سے اسلامی تاریخ میں ابن عربیؒ نے سب سے زیادہ عظیم الشان علمی ذخیرہ چھوڑا ہے۔ مشہور جرمن مستشرق بروحکمان نے ابن عربی کو دنیا کا سب سے زیادہ زرخیر دماغ رکھنے والا وسیع الخیال مصنف قرار دیا ہے۔ شیخ الاکبر خود لکھتے ہیں کہ میں نے کبھی مقصد و ارادہ کے تحت نہیں لکھا بلکہ التہاب الٰہی قسم کا الہام مجھے اپنے تصرف میں لے لیتا ہے اور پھر جو کچھ مجھ پر منکشف ہوتا ہے، وہ میں ذہن سے صفحہ قرطاس پر منتقل کر دیتا ہوں۔ میری سب تحریریں غیر ارادی طور پر لکھی گئی ہیں۔ بعض تحریریں میں نے خاص خدائی حکم کے تحت خواب یا الہام کے ذریعہ لکھیں۔
ابن عربی کی کتب کی تعداد 500تک جاتی ہے لیکن ’’فتوحات مکیہ‘‘ اور ’’فصوص الحکم‘‘ بہت معروف ہیں اور جامع مضامین اپنے اندر رکھتی ہیں۔ حضرت ابن عربیؒ نے متعدد آیات کی تفسیر میں مسیح موعود کی آمد کا ذکر کیا ہے۔ حضرت مسیح موعودؑ نے بار بار اپنی کتب میں ابن عربی کا ذکر فرمایا ہے۔ ایک جگہ فرماتے ہیں: ’’یہ پیشگوئی ایک دُور دراز زمانہ سے چلی آتی ہے کہ آخری کامل انسان آدم کے قدم پر ہو گا تا دائرہ حقیقت آدمیہ پورا ہو جائے۔ اور اس پیشگوئی کو شیخ محی الدین ابن العربی نے فصوص الحکم میں فصّ شیث میں لکھا ہے … یعنے کامل انسانوں میں سے آخری کامل ایک لڑکا ہو گا جو اصل مولد اس کا چینؔ ہو گا۔ یہ اس بات کی طرف اشارہ ہے کہ وہ قوم مغل اور ترک میں سے ہو گا۔ اور ضروری ہے کہ عجم میں سے ہوگا نہ عرب میں سے۔ اور اس کو وہ علوم اور اسرار دئیے جائیں گے جو شیث کو دئیے گئے تھے۔ اور اس کے بعد کوئی اور ولد نہ ہو گا اور وہ خاتم الاولاد ہو گا۔ یعنے اس کی وفات کے بعد کوئی کامل بچہ پیدا نہیں ہو گا۔ اور اس فقرہ کے یہ بھی معنے ہیں کہ وہ اپنے باپ کا آخری فرزند ہو گا۔ اور اُس کے ساتھ ایک لڑکی پیدا ہو گی جو اُس سے پہلے نکلے گی۔ اور وہ اُس کے بعد نکلے گا۔ اُس کا سر اُس دختر کے پیروں سے ملا ہوا ہوگا یعنے دختر معمولی طریق سے پیدا ہوگی کہ پہلے سر نکلے گا اور پھر پیر۔ اور اس کے پیروں کے بعد بلاتوقف اس پسر کا سر نکلے گا (جیسا کہ میری ولادت اور میری توام ہمشیرہ کی اسی طرح ظہور میں آئی)۔… اوریاد رہے کہ اگر شیخ اس پیشگوئی میں بجائے شیث کے مسیح موعود کو آدم سے مشابہت دیتا تو بہتر تھا۔ کیونکہ قرآن اور توریت سے ثابت ہے کہ آدم بطور توأم پیدا ہوا تھا۔ (تریاق القلوب۔ روحانی خزائن جلد 15 صفحہ 482-485)
ابن عربی کے اس کشف کا ذکر حضرت اقدسؑ نے اپنی کتاب ’’چشمۂ معرفت‘‘ میں بھی فرمایا ہے۔
حضور علیہ السلام فرماتے ہیں: شیخ محی الدین ابن عربی کہتے ہیں کہ اہل ولایت بذریعہ کشف آنحضرت صلعم سے احکام پوچھتے ہیں اور ان میں سے جب کسی کو کسی واقعہ میں حدیث کی حاجت پڑتی ہے تو وہ آنحضرتﷺ کی زیارت سے مشرف ہو جاتا ہے پھر جبرئیل علیہ السلام نازل ہوتے ہیں۔ اور آنحضرتؐ جبرئیل سے وہ مسئلہ جس کی ولی کو حاجت ہوتی ہے پوچھ کر اس ولی کو بتا دیتے ہیں یعنی ظلی طور وہ مسئلہ بہ نزول جبرئیل منکشف ہو جاتا ہے۔ پھرشیخ ابن عربی نے فرمایا ہے کہ ہم اس طریق سے آنحضرت صلعم سے احادیث کی تصحیح کرالیتے ہیں بہتیری حدیثیں ایسی ہیں جو محدثین کے نزدیک صحیح ہیں اور وہ ہمارے نزدیک صحیح نہیں۔ اور بہتیری حدیثیں موضوع ہیں اور آنحضرتؐ کے قول سے بذریعہ کشف کے صحیح ہو جاتی ہیں۔ (ازالہ اوہام۔ روحانی خزائن جلد 3 صفحہ177)
حضرت خلیفۃالمسیح الرابعؒ نے بھی حضرت ابن عربی ؒ کا یہ کشف بیان فرمایا ہے جس میں ابن عربیؒ نے ایسے اجنبی لوگوں کو طواف کرتے دیکھا جو ایسے آدم کی اولاد تھے جن کو وفات پائے چالیس ہزار سال سے کچھ زیادہ عرصہ گزر چکا تھا۔
حضرت خلیفۃ المسیح الاولؓ نے تفسیر قرآن کے دوران آپؒ کی تفسیر کا بھی حوالہ دیا۔ ایک بار فرمایا: ’’شیخ محی الدین ابن عربی لکھتے ہیں کہ میں نے جتنی دفعہ الحمد شریف پڑھا ہے ہر دفعہ اس کے نئے معنے میری سمجھ میں آئے ہیں میں اگرچہ ایسا دعویٰ تو نہیں کر سکتا مگر میں نے بغور دیکھا ہے اور میرا اعتقاد ہے کہ سارا قرآن مجید الحمد شریف کے اندر ہے ۔ الحمد متن ہے اور قرآن شریف اس کی شرح ہے۔ (حقائق الفرقان جلد اول ص 8)
پھر فرماتے ہیں: پھر حضرت شیخ ابن عربی نے فتوحات مکیہ میں لکھا ہے کہ غیراللہ کے لئے شعر کہنا مَااھل لغیراللہ سے ہے کیونکہ نیت کا اثر چیزوں میں ہوا کرتا ہے اور اللہ تعالیٰ فرماتا ہے اور نہیں حکم کئے گئے وہ لوگ مگر اس بات کا کہ عبادت و پرستش کریں اللہ کی صرف اس کے لئے خالص کرنے والے ہوں اپنے دین کو۔ ہم نے اپنی کتاب میں ایسے شعروں سے پرہیز کیا ہے جو کسی محبوب مجازی کے حق میں یا غیر اللہ کے لئے وہ شعر بولے گئے کیونکہ وہ مااھل لغیراللہ ہیں اور وہ حرام ہیں۔ دوم ان تمام سوختنی قربانیوں سے روک دیا گیا ہے جو اشیاء آگ میں تباہ کی جاتی ہیں … تیسری وہ تمام قربانیاں موقوف کر دیں جن میں یہ خیال پیدا ہو سکے کہ وہ تراکیب ہمارے گناہوں بدکاریوں، نافرمانیوں کا کفارہ ہوں گی۔ (حقائق الفرقان جلددوم ص 77)

50% LikesVS
50% Dislikes

اپنا تبصرہ بھیجیں