حضرت ابّان بن سعید الاموی قریشیؓ

(مطبوعہ ’’الفضل ڈائجسٹ‘‘، الفضل انٹرنیشنل لندن 17؍ستمبر 2021ء)
روزنامہ ’’الفضل‘‘ ربوہ 27؍مارچ 2013ء میں مکرم حافظ مظفر احمد صاحب نے صحابیٔ رسولؐ حضرت ابّان بن سعید الاموی قریشیؓ کی سیرت و سوانح پر روشنی ڈالی ہے۔
حضرت ابّانؓ کے والد سعید بن العاص الاموی کی کنیت ابواحیحہ تھی۔ ان کے دادا عاص بدر میں حضرت علیؓ کے ہاتھوں مارے گئے تھے۔ ان کی والدہ ہند بنت مغیرہ مخزومیہ یا صفیہ، خالدبن ولیدؓ کی پھوپھی تھیں۔ پانچویں پشت میں عبدمناف پر رسول اللہﷺ سے ان کا نسب مل جاتا ہے۔ ابّانؓ کے دو بھائیوں خالد اور عمرو نے ابتدائی زمانہ میں اسلام قبول کر لیا تھا اور حبشہ کی طرف ہجرت کی سعادت پائی۔ جبکہ دو بھائی عاص اور عبیدہ بدر میں مارے گئے۔
ابّان ابتدا میں اسلام کے سخت مخالف تھے۔ بھائیوں کے قبول اسلام پر ابّان کو سخت صدمہ پہنچا جس کااظہارانہوں نے اپنے اشعار میں یوں کیا: (ترجمہ) اے کاش!ظریبہ مقام پر مدفون ہمارے آباو اجداد اس جھوٹ و افترا کو دیکھ لیتے جو عمرو اور خالدنے کیا ہے تو کتنا برا مناتے۔ ان دونوں نے عورتوں والا کمزور دین قبول کرلیا اور ہمارے دشمنوں کے معاون ومددگار ہوگئے جو مخالفانہ تدبیریں کرتے رہتے ہیں۔
اس کے جواب میں ان کے مسلمان ہونے والے بھائی عمروؓ نے بھی کیا خوب کہا: (ترجمہ) جب ہمارے بھائی کے حالات اس کے مخالف ہوتے ہیں تووہ کہہ اٹھتا ہے کہ کاش! ظریبہ میں مدفون شخص زندہ ہو کر دیکھے۔ اے ہمارے بھائی! ان مُردوں کے ذکر کو چھوڑو جو اپنی راہ پر روانہ ہو چکے اور ان زندوں پر توجہ کرو جو وطن سے بے وطن ہوچکے ہیں۔
حضرت ابّانؓ کے اسلام قبول کرنے کا سبب یہ واقعہ ہواکہ وہ تجارت کے لیے ملک شام کو گئے۔ وہاں ایک راہب سے ملاقات ہوئی اس سے رسول اللہﷺ کے بارہ میں مشورہ کیا اوربتایاکہ میں قریش سے ہوں اور ہم میں سے ایک شخص ظاہر ہوا ہے جوموسیٰؑ اور عیسیٰؑ کی طرح رسول اللہ ہونے کا دعویدار ہے۔ اُس نے پوچھا تمہارے صاحب کا کیانام ہے؟ انہوں نے کہا محمدؐ۔ راہب نے رسول اللہﷺ کی تمام صفات، آپؐ کی عمر اور نسب سب بیان کر دیے تو ابّان نے کہا یہ درست ہے۔ اس پر راہب نے کہا کہ یہ شخص پہلے عرب پر اور پھر ساری دنیا پر غالب آئے گا۔ پھر ابّان سے کہا کہ اس نیک شخص کو میرا سلام کہنا۔ ابّان جب مکہ واپس آئے تو خلافِ معمول آنحضورﷺ کی مخالفت میں کوئی بات نہیں کی۔ یہ حدیبیہ کے قریب کا زمانہ ہے۔ پھر جب آنحضورﷺ حدیبیہ تشریف لائے اور واپس مدینہ چلے گئے تو ابّان بھی پیچھے پیچھے مدینہ پہنچے اور اسلام قبول کرلیا۔
غزوئہ حدیبیہ کے موقع پر اہل مکہ کو صلح پر آمادہ کرنے کے لیے رسول کریمﷺ نے حضرت عثمانؓ کو اپنا سفیر بنا کر مکہ بھجوایا تو اس موقع پر ابّان بن سعید نے حضرت عثمانؓ کو اپنی امان میں لیااور پورے اعزاز و اکرام سے مکہ لائے۔ وہ اپنی خاندانی اور ذاتی شرافت کا مظاہرہ کرتے ہوئے اپنی سواری سے اتر آئے۔ حضرت عثمانؓ کو زین پر اپنے آگے سوار کیا اور خود ان کے پیچھے بیٹھے اورانہیں پیشکش کی کہ مکہ میں آپ جہاں چاہیں جائیں اب آپ بنوسعید کی امان میں ہیں جنہیں حرم میں عزت کا مقام حاصل ہے۔ ابّان کی پناہ میں حضرت عثمانؓ نے رسول کریمﷺ کا پیغام اہل مکہ کو پہنچایا، ابو سفیان اور دیگر سردارانِ قریش سے ملاقاتیں کیں۔ ابّان نے حضرت عثمانؓ کو طواف ِکعبہ کی بھی پیشکش کی مگر حضرت عثمانؓ نے کہا میں رسول اللہﷺ کے بغیر طواف نہیں کرسکتا۔
فتح خیبر کے بعد رسول کریمﷺ نے حضرت ابانؓ کی سرکردگی میں ایک مہم نجد کی طرف بھجوائی۔ یہ دستہ فتح خیبر کے بعد واپس لَوٹا تو حضرت ابوہریرہؓ نے رسول کریمﷺ کی خدمت میں اپنی رائے پیش کی کہ فتح خیبر کے مال غنیمت سے ان لوگوں کو حصہ نہیں ملنا چاہیے۔ جس پرابّانؓ ناراض ہوئے۔ رسول کریمﷺ نے منع فرمایا اور پھر ان کے لیے غنائمِ خیبر سے حصہ نہیں نکالا۔
دوسری روایت میں بیان کیا گیا ہے کہ حضرت ابانؓ بن سعید رسول کریمﷺ کی خدمت میں فتح خیبر کے بعد حاضر ہوئے اور سلام عرض کیا۔ حضرت ابوہریرہؓ نے رسول اللہﷺ سے شکایت کے رنگ میں عرض کیا کہ ابانؓ ایک مسلمان ابن قوقلؓ کا قاتل ہے۔ (ابن قوقلؓ بدر میں ابان کے ہاتھوں شہید ہوئے تھے)۔ حضرت ابانؓ نے کمال ذہانت اور حاضرجوابی سے اپنا موقف یوں پیش کیا کہ مضمون اُلٹ کررکھ دیا۔ حضرت ابوہریرہؓ سے کہنے لگے تمہارے جیسے شکایت کرنے والے شخص پر مجھے تعجب ہے جو دُور کہیں ضان کے پہاڑ سے اتر کر آیا ہے اور مجھ پر ایک ایسے کی موت کا الزام لگا رہا ہے جسے اللہ تعالیٰ نے میرے ہاتھوں مرتبۂ شہادت عطا کرکے عزت و کرامت عطا فرمائی اور اُسے اس بات سے روک دیا کہ میں اس کے ہاتھ سے ہلاک ہو کر ذلیل ہوں۔
رسول کریمﷺ نے فتح بحرین کے بعد وہاں کے حاکم علاء بن حضرمی کی معزولی کے بعد حضرت ابّانؓ کو وہاں کا حاکم مقرر فرمایا۔ رسول کریمﷺ کی وفات تک یہ وہاں حاکم رہے پھر مدینہ واپس آگئے۔ حضرت ابوبکرؓ نے دوبارہ وہاں بھجوانا چاہا تو پہلے عرض کیا کہ رسول اللہﷺ کے بعد مجھے اس کام پر نہ لگائیں تو بہتر ہے۔ مگر پھر خلیفہ وقت کی خواہش پر یمن کے ایک حصہ کے والی کے طور پر کام کیا اور حضرت عمرؓ کے زمانہ تک یہ خدمت انجام دیتے رہے۔
حضرت ابّانؓ ایک ذہین اور عادل حاکم تھے۔ ولایت یمن کے زمانے میں ان کے پاس فیروز نامی ایک شخص نے اپنے کسی عزیزدادویؔہ کے قتل کا مقدمہ پیش کیا جسے قیس بن مکشوح نے قتل کیا تھا۔ حضرت ابّانؓ نے قیس کو طلب کرکے پوچھا کہ کیا تم نے کسی مسلمان شخص کو قتل کیا ہے؟ اس نے بتایا کہ اوّل تو دادؔویہ مسلمان نہیں تھا۔ دوسرے میں نے اسلام سے پہلے اسے اپنے والد اور چچا کے قتل کے بدلے میں ماراتھا۔ اس پر حضرت ابانؓ نے فرمایا کہ رسول کریمؐ نے جاہلیت کے تمام خون بہا معاف اور کالعدم قرار دے دیے تھے۔ اب اسلام کے زمانہ میں جو شخص کسی جرم کا مرتکب ہوگا ہم اس پر گرفت کریں گے۔ پھر حضرت ابانؓ نے قیس سے کہا کہ میں یہ فیصلہ تمہیں لکھ کردیتا ہوں۔ یہ تحریری فیصلہ امیر المومنین حضرت عمرؓ کی خدمت میں پیش کرکے توثیق کروالو۔ چنانچہ حضرت عمرؓ کی خدمت میں یہ معاملہ پیش ہوا تو انہوں نے اس کی توثیق فرمائی۔
حضرت عثمانؓ کی ہدایت پر حضرت ابّانؓ نے یہ خدمت بھی احسن رنگ میں انجام دی کہ وہ حضرت زیدبن ثابتؓ کو مصحفِ عثمانؓ کے مطابق قرآن شریف کی املاءکرائیں۔
حضرت ابّانؓ کی وفات کے بارہ میں اختلاف ہے۔ ایک روایت کے مطابق 13ھ میں جنگ اجنادین میں، دوسری روایت کے مطابق 15ھ میں جنگ یرموک میں اور تیسری روایت کے مطابق 29ھ میں حضرت عثمانؓ کی خلافت میں وفات ہوئی۔ یہ آخری روایت نسبتاً زیادہ قرین قیاس ہے کیونکہ حضرت عثمانؓ کے زمانہ میں انہیں قرآن شریف کی خدمت کی سعادت ملنے کا ذکر موجود ہے۔

50% LikesVS
50% Dislikes

اپنا تبصرہ بھیجیں