حضرت اُمّ سلمہ رضی اللہ عنہا

لجنہ اماء اللہ جرمنی کے رسالہ ’’خدیجہ‘‘ (سیرت صحابیات نمبر 2011ء) میں امّ المومنین حضرت امّ سلمہؓ کا مختصر ذکرخیر مکرمہ طیبہ اعجاز صاحبہ کے قلم سے شامل اشاعت ہے۔
حضرت اُمّ سلمہؓ کا نام ھند تھا اور اُمّ سلمہ کنیت تھی۔ آپؓ قریش کے ایک معزّز گھرانہ سے تعلق رکھتی تھیں ۔ والد کا نام سہیل اور والدہ عاتکہ تھیں ۔آغاز نبوت میں اپنے شوہر حضرت عبداللہ ؓبن اسد (ابوسلمہ مخزومی) کے ساتھ ہی اسلام قبول کیا۔ وہ غزوۂ اُحد میں زخمی ہوئے اور اسی وجہ سے 4 ہجری میں وفات پاگئے۔ اس کے بعد آپؓ دعا کیا کرتیں کہ اے اللہ! مجھے ابوسلمہ سے بہتر جانشین دے۔ پھر سوچتیں کہ ابوسلمہؓ سے بہتر کون ہوسکتا ہے۔ ابوسلمہؓ کو آنحضور صلی اللہ علیہ وسلم کا رضاعی بھائی ہونے کا شرف بھی حاصل تھا۔
جب امّ سلمہؓ کی عدّت کا زمانہ گزر گیا تو آنحضور صلی اللہ علیہ وسلم کو خود اپنے لئے اِن کا خیال آیا جس کی بڑی وجہ یہ تھی کہ وہ اپنی ذاتی خوبیوں کی وجہ سے ایک شارع نبی کی بیوی بننے کی اہل تھیں ۔ آپؐ نے حضرت عمرؓ کے ذریعہ انہیں شادی کا پیغام بھجوایا۔ پہلے تو حضرت امّ سلمہؓ نے عذر کیا کہ میری عمر اب بہت ہوگئی ہے اور مَیں اولاد کے قابل بھی نہیں رہی۔ لیکن چونکہ آنحضور صلی اللہ علیہ وسلم کی غرض اَور تھی اس لئے بالآخر رضامند ہوگئیں اور اُن کے بیٹے نے اُن کی طرف سے ولی کے فرائض سرانجام دیئے۔ اُس وقت حضرت اُمّ سلمہؓ کی عمر 30 سال تھی اور پہلے شوہر سے اِن کا ایک بیٹا اور تین بیٹیاں تھیں ۔ آنحضور صلی اللہ علیہ وسلم سے ان کی کوئی اولاد نہیں ہوئی۔
حضرت امّ سلمہؓ زاہدانہ زندگی بسر کرتی تھیں ۔اپنی یتیم اولاد کی پرورش ثواب کی نیت سے کرتیں ۔ ہر مہینہ تین روزے رکھتیں ۔ امر بالمعروف اور نہی عن المنکر کی پابند تھیں ۔ فیاض تھیں ۔ آنحضورؐ سے بہت محبت تھی اور آپؐ کے موئے مبارک تبرّکاً رکھے ہوئے تھے۔ نہایت فہیم، ذکی اور ایمان و اخلاص میں اعلیٰ مرتبہ کی حامل تھیں ۔
آنحضور صلی اللہ علیہ وسلم کے ارشاد پر پہلے حبشہ اور پھر مدینہ کی طرف ہجرت کرنے والی خواتین میں آپؓ اوّل نمبر پر تھیں ۔ لکھنا پڑھنا بھی جانتی تھیں اور مسلمان عورتوں کی تعلیم و تربیت میں خاص حصہ لیتی تھیں چنانچہ بہت سی روایات اور 378 ؍احادیث آپؓ سے مروی ہیں ۔ اس وجہ سے آپؓ کا درجہ ازوا ج النبیؐ میں دوسرا اور کُل صحابہ و صحابیات میں بارہواں ہے۔ اکابر صحابہؓ کے انتقال کے بعد آپ مرجع عام بن گئیں ۔ فقہ کے مسائل بھی بیان کرتیں جو کسی ابہام کے بغیر صاف اور سیدھے ہوتے۔
حضرت امّ سلمہؓ بہت معاملہ فہم اور صائب الرائے تھیں ۔ صلح حدیبیہ کے موقع پر آپؓ کے ہی مشورہ پر آنحضور صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنے جانور کی قربانی دی اور احرام اُتار دیا جسے دیکھ کر وہ سارا لشکر جو شکستہ دلی کے باعث آنحضورؐ کے تین بار ارشاد فرمانے کے باوجود شش و پنج کا شکار تھا یکلخت لبّیک کہہ اُٹھا اور قربانی کے جانوروں کی گردنوں پر چھریاں چلادیں ۔
حضرت امّ سلمہؓ آنحضور صلی اللہ علیہ وسلم کے ہر ارشاد پر سچّے دل سے عمل کرتیں ۔ اپنے مہربان خاوند کی خوشیوں پر بھرپور خوشی کا اظہار کرتیں ۔ آپؓ کی موجودگی میں ایک بار حضرت جبرائیلؑ بھی آنحضور صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس آئے اور کچھ باتیں کرکے چلے گئے۔ اُن کے جانے کے بعد آنحضورؐ نے آپؓ سے پوچھا کہ یہ کون تھے؟ آپؓ نے ایک صحابی دحیہ کانام لیا۔ بعد میں آپؓ کو علم ہوا کہ واقعہ کیا ہے۔
حضرت امّ سلمہؓ کو متعدد غزوات میں آنحضور صلی اللہ علیہ وسلم کی معیت میں سفر کا شرف حاصل ہوا۔ آپؓ ازواج مطہّرات میں سب سے آخر میں (یزید بن معاویہ کے زمانہ میں ) 84 سال کی عمر میں فوت ہوئیں ۔

50% LikesVS
50% Dislikes

اپنا تبصرہ بھیجیں