حضرت بھائی عبدالرحیم صاحبؓ

حضرت بھائی عبدالرحیم صاحبؓ سکھوں کی قوم میں سے ہونے کے باوجود توحید پرستی کے شیدائی تھے۔ چنانچہ اکیس سال کی عمر میں جب فوج کی ملازمت کے دوران آپؓ کا تعلق سردار سندر سنگھ صاحب سے ہوا تو انہوں نے آپؓ کو قبول احمدیت کی ترغیب دی۔ کئی بار دونوں کے درمیان مذہبی بحث بھی ہوئی جس میں ہمیشہ سردار صاحب ہی غالب رہتے کیونکہ انہوں نے حضرت مسیح موعودؑ کی کتب کا مطالعہ کیا ہوا تھا۔
حضرت بھائی عبدالرحیم صاحبؓ بیان کرتے ہیں کہ آخر میں نے ایک روز کہا کہ سردار صاحب! کہانیاں تو ہر مذہب میں موجود ہیں، آپ فی زمانہ اپنے دین میں کسی ایسے بزرگ کا نام لیں جو مقبول ایزد ہو، اُس کی دعائیں سنی جاتی ہوں اور معجزات ہوں۔ اُنہوں نے فوراً حضرت اقدس کا نام لیا اور آپؑ کے چند معجزوں کا ذکر کیا۔ چنانچہ مجھے جو پہلی رخصت گھر جانے کے لئے ملی ، میں نے اُسی میں قادیان کی راہ لی اور تقریباً ایک ہفتہ وہاں قیام کیا۔ ایک روز حضرت مولوی نورالدین صاحبؓ سے عرض کیا کہ کیا ایسا بھی ہو سکتا ہے کہ میں حضرت صاحبؑ کی بیعت بھی کرلوں اور رہوں سکھ مذہب میں ہی۔ آپؓ نے فرمایا کہ میں حضرت صاحب سے دریافت کرکے ہی بتا سکتا ہوں۔ پھر جب حضرت مولوی صاحبؓ نے حضورؑ کی خدمت میں ذکر کیا تو حضرت صاحب نے فرمایا ، ہاں ہم ان کی بیعت لے لیں گے۔ چنانچہ 1894ء میں ایک ظہر کی نماز کے بعد آپؑ نے میری بیعت لی۔ پھر میں نے اپنے گاؤں میں نماز بھی سیکھی اور درود و وظائف بھی پڑھتا رہا، کچھ دن حضرت مولوی عبدالکریم صاحبؓ کا درس القرآن بھی سنا۔ ایک دن دوپہر کے وقت میں کچھ پڑھتا پڑھتا سوگیا تو خواب میں اپنے آپ کو اندھا پایا۔ گھبرا کر اٹھا، ظاہری آنکھیں بخیریت تھیں، کچھ تسلی ہوئی۔حضرت مسیح موعودؑ کی خدمت میں کارڈ تحریر کیا تو آپؑ نے جواب دیا کہ استغفار بہت پڑھا کرو اور دعا کرو، دین کی کمزوری پر دلالت کرنے والا خواب ہے۔ اس کے چند دن بعد میرے بھائیوں نے مجھے درس قرآن سے روک دیا۔
پھر حضورؑ کی دعا اور توجہ نے روز بروز احمدیت کی طرف میرے قدموں میں تیزی پیدا کردی اور دنیاوی ترقی کی میرے دل میں زیادہ حیثیت نہ پیدا ہوئی۔ گو میں چھپ کر نماز پڑھتا، رمضان کے روزے بھی رکھتا، جھٹکا کا گوشت نہ کھاتا لیکن دنیاوی زندگی میں نظر آنے والے انعامات مجھے اکثر پریشان کرتے کہ کیا کروں اور کیا نہ کروں۔ آخر حضرت اقدسؑ کو خط لکھا کہ اگر میں موجودہ صورت میں دینی شعار کو پورا کرتا رہوں تو کیا یہ موجب نجات ہوسکے گی یا نہیں؟ جواب آیا نہیں۔ اور اس جواب نے سارے شکوک رفع کردیئے۔
آخر میرے ساتھیوں کو علم ہوگیا ، تو انہوں نے پہلے خود سمجھایا، پھر افسر سے شکایت کی اور پھر مجھ پر غضب ٹوٹ پڑا۔ چنانچہ 1895ء میں ہی میں استعفیٰ دے کر قادیان پہنچ گیا۔ یہاں تمام پریشانیاں دور ہوگئیں اور خدا تعالیٰ نے ڈھارس دی۔ میرے بھائی، تایا، خسر اور دیگر عزیز مجھے سمجھانے اور واپس لے جانے آئے لیکن ناامید واپس گئے۔ حضرت مسیح موعودؑ نے تعلیم و تربیت کیلئے مجھے حضرت مولوی نورالدین صاحبؓ کے سپرد کرتے ہوئے تاکیدی ارشاد فرمایا اور حضرت مولوی صاحبؓ نے جتنا بھی اُن کے بس میں تھا قرآن، حدیث، صرف، نحو، معانی وغیرہ سے استعداد بہم پہنچادی۔ جتنی کمی رہی وہ میری طرف سے رہی نہ کہ اُن کی طرف سے۔
میں ہائی سکول میں انتیس سال مدرس رہا، میں نے اپنی دنیاوی ترقی چھوڑی تو خدا خود میرا کفیل ہوگیا اور مجھے کبھی محتاج نہیں کیا۔ ایک بار اٹھارہ سال کی عمر میں آبائی رسم کے مطابق گورو گرنتھ صاحب کے سامنے سجدہ کیا تھا، اب بھی اپنی اس نازیبا حرکت کا خیال آنے پر افسوس کئے بغیر نہیں رہ سکتا۔ خدا تعالیٰ نے مجھے توحید سے دوری کی زندگی سے نجات بخشی اور اپنی ایمان افروز آوازوں، رؤیائے صالحہ اور کھلے کھلے مکاشفات سے بہرہ اندوز بھی رکھا۔ مجھے خدا تعالیٰ کی ہستی پر ایسا ہی یقین ہوگیا گویا کہ میں اُس کو ہر وقت اپنی آنکھوں کے سامنے پاتا ہوں۔
حضرت بھائی عبدالرحیم صاحبؓ کی پہلی شادی سکھ ہونے کی حالت میں ہوئی تھی، احمدی ہوئے تو اُس سے لاتعلقی کے بعد دوسری شادی ایک احمدی بیوہ سے ہوئی۔ ایک بیٹے میجر ڈاکٹر عبدالرحمٰن صاحب اور تین بیٹیاں عطا ہوئیں۔
حضرت بھائی صاحبؓ کو حضرت اقدسؑ کے گھروں کا رات کو پہرہ دینے کی سعادت بھی نصیب ہوئی۔ سفر جہلم (1903ء) اور سفر دہلی (1905ء) میں حضورؑ کی مشایعت کا شرف بھی حاصل رہا۔ ایک بار حضورؑ کے ارشاد پر آپؓ نے حضرت مولوی محمد دین صاحبؓ کی تیمارداری کمال ایثار و قربانی سے کی۔
حضرت بھائی صاحبؓ کی تحریر میں تاثیر، جاذبیت اور تصوف کی چاشنی ہے۔ آپؓ کے بیشمار مضامین شائع ہوئے۔بطور مدرس اور بورڈنگ کے سپرنٹنڈنٹ کے بھی آپؓ خدمات بجالائے۔ تحریک شدھی کے دوران سفر آگرہ تک کے امیر مقرر ہوئے اور بعد ازاں ضلع متھرا میں خدمت بجا لائے۔ 31؍جولائی 1923ء کو حضرت مصلح موعودؓ نے آپؓ کی خدمات کو سراہا اور تعریفی کلمات کے ساتھ مبارکباد دی۔
حضرت بھائی عبدالرحیم صاحبؓ کی وفات 9؍جولائی 1957ء کو بروز عید چوراسی سال کی عمر میں ہوئی۔ حضرت مصلح موعودؓ نے نماز جنازہ پڑھائی اور بہشتی مقبرہ ربوہ کے قطعہ خاص میں تدفین عمل میں آئی۔ روزنامہ ’’الفضل‘‘ ربوہ 26؍نومبر 1998ء میں حضرت بھائی عبدالرحیم صاحبؓ (سابق جگت سنگھ) کا تفصیلی ذکر خیر مکرم ملک صلاح الدین صاحب کے قلم سے شامل اشاعت ہے۔

50% LikesVS
50% Dislikes

اپنا تبصرہ بھیجیں