حضرت حاجی غلام احمد صاحبؓ آف کریام

ماہنامہ ’’انصاراللہ‘‘ ربوہ اکتوبر 2006ء میں مکرم محمد اشرف کاہلوں صاحب کے قلم سے حضرت حاجی غلام احمد صاحب ؓ کے بارہ میں ایک مضمون شائع ہوا ہے۔ قبل ازیں بھی آپؓ کا ذکر خیر ’’الفضل انٹرنیشنل‘‘ 16؍اگست 1996ء کے اسی کالم میں کیا جاچکا ہے۔
حضرت حاجی غلام احمد 1875 ء میں موضع کریام ضلع جالندھر میں چوہدری گامن خاں صاحب کے ہاں پیدا ہوئے۔ معزز راجپوت خاندان کے چشم و چراغ اور والدین کے اکلوتے نونہال تھے۔ تین مربع زمین کے مالک تھے۔ مڈل تک تعلیم پائی۔ ابتدا ہی سے دین کی طرف میلان تھا اور عبادات کا شغف، بکثرت آنحضرتؐ پر درود پڑھنے کی برکت سے آنحضرتؐ کی زیارت کا شرف پایا۔ مطالعہ کے عادی تھے۔ زمانہ طالب علمی میں ہی ’’حکایۃ الصالحین‘‘ اور ’’مقصد الصالحین‘‘ کتابیں پڑھیں۔ پھر کریم بخش نامی شخص کے ذریعہ سے حضرت مسیح موعودؑ کی کتاب ’’ ازالہ اوہام‘‘ ہاتھ لگی، مطالعہ کیا اور صداقت نے اپنا اثر دکھایا۔ شوق بڑھا اور ’’ست بچن‘‘، ’’نورالقرآن‘‘ اور چند اشتہارات کا مطالعہ کیا۔ مولویوں سے ذکر کیا تو آراء کو مختلف پایا۔ مخالفانہ لٹریچر بھی پڑھا۔ تشفی کے لئے دعائیں شروع کر دیں۔ عمر 22اور 24سال کے درمیان تھی تو استخارہ شروع کر دیا۔ چنانچہ ایک دوپہر خواب دیکھا کہ آسمان پر موٹے اور سنہری حروف میں مسیح موعود ؑ لکھا ہوا ہے۔ دعاؤں کا سلسلہ جاری تھا کہ ایک خواب میں مجمع دیکھا۔ لوگوں کا لباس سفید براق ہے گویا فرشتے ہیں۔ ایک شخص نے کہا یہ زمانہ مسیح موعود کا ہے۔ دوسرے نے دلیل پوچھی تو اُس نے کہا صدی پر مجدد ہوتاہے اس صدی میں سوائے حضرت صاحب کے کسی نے مجدد ہونے کا دعویٰ نہیں کیا۔ پوچھنے والے نے تصدیق کی: ٹھیک ہے، ٹھیک ہے۔
جب احمدیت کی صداقت خوب منکشف ہو گئی جنوری یا فروری 1903ء میں قادیان پہنچے۔ نماز عصر ہو چکی تھی۔ اپنی نماز پڑھ کر حضرت مولوی نورالدین صاحبؓ کے درس قرآن میں شامل ہو گئے۔ اُن کے بیان فرمودہ معارف قرآن نے دل پر گہرا اثر چھوڑا تو قریب بیٹھے ہوئے کسی شخص سے پوچھا کیا یہی مسیح موعود ہیں؟ جواب ملا یہ تو مولوی نور الدین صاحب ہیں۔ اس پر آپ نے کہا جس دربار کے مولوی ایسے با کمال ہوں وہ خود کیسے بے نظیر ہوں گے۔ مغرب کی نماز پر مسجد مبارک میں حضرت اقدسؑ کی زیارت سے مشرف ہوئے۔ چار پانچ دن بعد حضورؑ کی خدمت میں بیعت کے لئے عرض کیا۔ عرضداشت قبول ہوئی۔
آپؓ کو حقہ نوشی کی عادت تھی۔ قادیان میں اپنے قیام کے دوران آپؓ نے کہیں حقّہ نہ دیکھا اور اس ماحول سے متاثر ہو کر حقّہ پینا ترک کر دیا۔ دیانت داری کا یہ نمونہ دیکھا کہ شیخ غلام احمد صاحب نومسلم شِیرفروش کی دوکان پر لوگ آتے، حسب ضرورت دودھ پی لیتے اور خود ہی قیمت رکھ دیتے۔ دینی اور اخلاقی حالت ایسی اعلیٰ دیکھی کہ ایک دفعہ ایک ماہ تک مسلسل قادیان رہ کر جب واپس گاؤں پہنچے تو ایک آدمی کو گالی نکالتے سنا۔ آپؓ نے کہا کہ ایک ماہ بعد یہ ناشائستہ آواز میرے کا ن میں پڑی ہے۔
قبول احمدیت کے بعد آپ کی زندگی میں ایک انقلاب عظیم آ گیا۔ انابت الی اللہ میں ترقی ہو گئی۔ بیعت کے بعدبھی آپ کو آنحضرت ﷺ کی زیارت نصیب ہوئی۔ خدماتِ دینیہ بجالانے میں ایک جنون کی کیفیت پیدا ہو گئی۔ خلافت اولیٰ میں بذریعہ خط مع مقامی احباب جماعت احمدیہ بیعت کی۔ خلافت ثانیہ میں بھی بلا تأمل بیعت کی اور بیرونی جماعتوں کو بیعت کی تحریک کرنے والے اعلان کنند گان میں آپ کا نام بھی شامل ہے۔ کریام میں احمدیہ مسجد نصف کنال پر ساڑھے تین سو روپے میں تعمیر ہوئی۔ آپؓ نے یہ رقبہ خرید کر مسجد تعمیر کروائی اور مصارف کا کثیر حصہ خود ادا کیا۔ نیز احمدیہ پرائمری سکول موضع کریام جاری کروایا اور آغاز میں اس کے اخراجات خود برداشت کئے۔ پھر شدھی کی تحریک میں حصہ لیا۔ تحریک نکاح بیوگان میں سرگرمی سے حصہ لیا۔ اسی طرح مالی تحریکات میں بھی کشادہ دلی سے شریک رہے۔ تعمیر منارۃ المسیح کے چندہ میں حصہ لیا، چندہ دہندگان میں آپ کا نمبر 81واں ہے۔ 1906ء میں وصیت کا حصہ جائیدا دبحق صدر انجمن احمدیہ ہبہ کر دیا تھا۔
آپؓ بیان کرتے ہیں کہ میں حضرت مسیح موعودؑ کی خدمت بابرکت میں حاضر تھا کہ احساس ہوا کہ میرے جسم سے دھواں نکل رہا ہے اور آسمان تک چلا گیا ہے جیسے بھٹہ کی چمنی سے نکل کر بادل کی طرح جا رہا ہو۔ کافی دیر تک یہ کیفیت رہی۔ آخر دھواں ختم ہو گیا اور ایسا محسوس ہوا کہ میرا قلب صاف ہو گیا ہے گویا کہ دھویا گیا ہے۔ روح کو تسکین ملی نئی زندگی محسوس ہونے لگی اس کے بعد دل میں گناہ کا خیال بھی پیدا نہ ہوا۔ نیک کاموں کی لذّت اور کشش میں اضافہ ہوا۔
ایک غیر احمدی نے آپؓ سے پوچھا کہ آپکو بیعت سے کیا ملا ہے؟ فرمایا میں بیعت سے قبل خود کو نیک سمجھتا تھا۔ ہر فرقہ کے لوگ میرے پاس آتے تھے سب کی حالت سے واقف تھا میں محسوس کرتا تھا کہ میں ان سے بہتر ہوں لیکن بیعت کر کے میں نے محسوس کیا کہ میں گناہ گار ہوں اللہ تعالیٰ کے طالب بہت آگے نکلے ہوئے ہیں۔
آپ مالی معاملات میں بہت محتاط تھے۔ ایک بار کسی دوست سے دو تین صدر روپے قرض لیا۔ آپؓ نے رقم کو تحریر میں لانے کو کہا دوست نے انکار کیا لیکن آپؓ نے باوجود اُس کے انکار کے ایک ورق پر رسیدی ٹکٹ لگا کر نوٹ لکھ دیا اور فرمایا کہ اللہ تعالیٰ کا حکم ہے کہ جب لین دین کا معاملہ کرو تو تحریر میں لایا کرو۔
آپؓ عہد کی پاسداری کرنے والے تھے۔ آپ نے ایک صاحب سے پانچ روپے لئے اور وعدہ کیا کہ جمعہ تک واپس کر دوں گا۔ بعد میں غلطی کا احساس ہوا کیونکہ اگلا دن جمعہ کا تھا۔ بہرحال آپ نے ایک دوسرے دوست سے پانچ روپے لے کر پہلے صاحب کو واپس کردیئے۔ دوسرے دوست نے کہا کہ اپنا آدمی ہے تاخیر ہو بھی گئی تو کوئی مضائقہ نہیں لیکن آپؓ نے وعدہ خلافی کو نا پسند فرمایا۔
آپ انقطاع الی اللہ کے رنگ میں زندگی گزارنے والے بزرگ تھے۔ اکثر دعا کرتے اے اللہ! تو مجھے اتنا مال دے کہ جس سے میں با ایمان زندگی گزار سکوں، مجھے ایسے مال و زر کی ضرورت نہیں جو میری ایمان والی زندگی میں حائل ہو۔ آپ متوکل انسان تھے۔ ایک بار بیماری کے دوران روپیہ ختم ہوا تو عزیزوں کو فکر ہوا۔ اسی اثناء میں ایک بزرگ بیمار پُرسی کو آئے اور پانچ صد روپے خدمت میں پیش کئے۔ آپؓ نے فرمایا: اللہ تعالیٰ نے مجھے صاحب جائیداد بنایا ہے، وہ میرا کفیل ہے۔ پھر آپؓ نے اُن کی دلجوئی کی خاطردس روپے رکھ لئے اور ان پیسوں کا پھل منگوا کر مریضوں میں تقسیم کروا دیا۔ آپؓ اتنی سچی گواہی دینے والے تھے کہ عدالت میں غیر احمدی مدعی کی طرف سے بطور گواہ، احمدی مدعاعلیہ کے خلاف، پیش ہوئے اور مجسٹریٹ نے آپؓ کے بیان پر فیصلہ مدعی کے حق میں کردیا۔
آپؓ بڑے غریب پرور تھے۔ ایک مرتبہ آپ کو آپکی اہلیہ محترمہ نے یکصد روپیہ ایک زیور بنوانے کی غرض سے دیا۔ سنار کی طرف جاتے ہوئے راستہ میں ایک ضرورت مند احمدی عورت نے اپنی مکان کی مرمّت کے لئے آپؓ سے سو روپے اُدھار مانگے تو آپؓ نے زیور والی رقم اُسے دیدی اور جب یہ رقم واپس ملی تو زیور بنوایا۔ اسی طرح بھینسوں کا دودھ گھر لاتے ہوئے راستہ میں ایک غریب عورت کے گھر ایک گلاس دودھ دے کر آتے اور مدتوں یہ سلسلہ جاری رہا۔
آپؓ تقویٰ کی باریک راہوں پر قدم مارنے والے انسان تھے۔ ایک بارآپؓ بابو غلام جیلانی صاحب (جو ڈاکخانہ میں ملازم تھے) سے ملنے گئے تو دفتر کے باہر اُن کی چھٹی کے انتظار میں بیٹھ گئے۔ اسی دوران بابو صاحب کو کسی کام کی غرض سے باہر آنا ہوا تو انہوں نے آپؓ سے باہر بیٹھ جانے کی وجہ پوچھی۔ فرمایا: آپ اس وقت سرکاری کام کر رہے تھے جس کا آپ معاوضہ لیتے ہیں لہٰذا اس وقت نجی ملاقات شرعاً مناسب نہیں ۔
ایک بار آپؓ کے ایک مزارع نے دریافت کیا کہ گندم تیار ہو گئی ہے اسے کہاں رکھیں فرمایا: منڈی بھجوا دو اور جو بھاؤ ہو فروخت کر کے قیمت لے لو۔ نیز فرمایا کہ جب جنس تیار ہو جائے تو جو بھاؤ ہو اُس پر فروخت کر دینی چاہیے زیادہ قیمت کا انتظار نہ کیا جائے، یہ گناہ ہے اور آنحضرتؐ نے بھی منع فرمایا ہے۔ میں ہمیشہ ایسا ہی کرتا ہوں، اللہ تعالیٰ رزق میں برکت دینے والا ہے۔
آپؓ کو دعوت الی اللہ سے عشق کی حد تک لگاؤ تھا۔ آپؓ نے جماعت احمدیہ کریام کو دس حصوں میں تقسیم کیا ہوا تھا۔ہفتہ وار یوم ’’دعوت الی اﷲ‘‘ منایا جاتا اور تبلیغی وفد بھجوایا جاتا۔ آپؓ کی دعوت الی اللہ کے نتیجہ میں تحصیل ہائے نواں شہر اور گڑھ شنکر میں حضرت مسیح موعودؑ کے عہد میں ہی جماعتیں قائم ہو گئیں مثلاً راہواں، کاٹھ گڑھ، سٹروعہ اور بنگہ وغیرہ علاقوں میں۔
ایک بار آپؓ نے ایک تبلیغی بحث کے لئے گڑھ شنکر پہنچنا تھا لیکن چلنے میں اتنی تاخیر ہوگئی کہ ریل گاڑی پکڑنے کی امید جاتی رہی۔ چنانچہ آپؓ پیدل ہی ریلوے لائن کے ساتھ ساتھ روانہ ہوئے۔ فاصلہ چار پانچ میل کا تھا اور جون کا مہینہ سخت گرمی …۔ آپؓ دعا کرتے جارہے تھے کہ کوئی سواری مل جائے کہ اچانک گڑھ شنکر جانے والی ریل گاڑی عین سامنے آ رُکی حالانکہ اسٹیشن بھی نہ تھا۔ آپؓ نے سوار ہوکر گارڈ کو کرایہ ادا کیااور گاڑی رکنے کا سبب پوچھا۔ معلوم ہوا کہ ایک سردار صاحب نے اپنا روٹی کا رومال اُس ہینڈل کے ساتھ لا علمی سے لٹکا دیا تھا جو بوقت ضرورت گاڑی روکنے کے کام آتا ہے، رومال اتارتے وقت سردار جی سے ہینڈل کھینچا گیا اور اس وجہ سے گاڑی رک گئی۔
آپؓ مستجاب الدعوات اور صاحب رؤیا و الہام بزرگ تھے ۔ ایک دفعہ کریام میں ایک مجلس میں آپ اور شیر محمد صاحب آف بنگہ موجود تھے ایک غیر احمدی چھجو خان نامی شخص نے کہا اگر آج بارش ہو جائے تو مَیں احمدی ہو جاؤں گا۔ گرمی شدت کی تھی آپ نے احمدی احباب کی معیت میں نہایت سوزوگداز سے دعا کی تھوڑی دیر ہوئی کہ بادل گھر آیا اور زور کی بارش شروع ہو گئی اس پر چھجو خان نے احمدیت قبول کر لی۔
میاں سکندر علی صاحب کا مقدمہ جالندھر میں زیر سماعت تھا۔ وہ آپؓ کے پاس بغرض دعا آئے۔ آپؓ نے خاطر مدارت کی اور پھر مسجد جاکر دو نفل پڑھے۔ بڑے سوز و گداز سے دعا کی اور اطمینان حاصل ہو گیا کہ دعا قبول ہو گئی ہے۔ چنانچہ میاں صاحب کو کامیابی کی بشارت دی۔
ایک بار آ پؓ نے خواب میں دیکھا کہ آپؓ کے چچا زاد بھائی چوہدری مہر خانصاحب نمبر دار مقرر ہوئے ہیں۔ اس کے جلد بعد وہ ایک موضع کے نمبردار بن گئے۔ پھر اراضی فروخت کرنے پر نمبرداری ختم ہو گئی لیکن پاکستان بننے کے بعد لائل پور میں ایک گاؤں کے نمبر دار مقرر ہوگئے۔
آپؓ کی ایک رشتہ دار خاتون بیمار ہو گئیں، مرض میں شدت آ گئی تو آپؓ نے فرمایا کہ دعا اور صدقہ سے کام لینا چاہیے۔ پھر صدقہ دیا اور مسجد میں تضرع سے دعا کی۔ پھر ایک شربت پلوانے کو کہا۔ خارق عادت طور پر دعا قبول ہوئی اور مریضہ صحت یاب ہو گئی۔
آپؓ نے عمر بھر دین کو دنیا پر مقدم رکھا۔ شورش احرار کے زمانہ میں1935/36ء میں ایک ایک ماہ وقف کیا۔ روانگی سے قبل خواب دیکھا کہ ہاتھی پر سوار ہوکر جا رہے ہیں۔ خوف محسوس ہوا کہ کہیں طاعون تعبیر نہ ہو۔ دوسرے روز حضرت خلیفہ المسیح الثانیؓ کا تار آیا کہ علاقہ مکیریاں میں تبلیغ کا امیر مقرر کیا جاتا ہے۔ اسی طرح شدھی کی تحریک کے موقعہ پر ’’الفضل‘‘ میں اعلان ہوا کہ 15جون تک حصہ لینے والے قادیان پہنچ جائیں۔ آپؓ 15جون کو قادیان کے لئے روانہ ہو گئے حالانکہ ایک عزیز کی شادی ہونے میں چند ہی دن تھے لیکن عزیز و اقارب کے اصرار کے باوجود نہ رکے قادیان چلے آئے وفد میں شامل ہوئے اور تین ماہ ملکانہ میں کام کیا ۔
اللہ تعالیٰ نے آپؓ کو 1911ء میں حج بیت اللہ کی توفیق بھی عطا فرمائی۔
مورخہ 3جولائی1943ء کو کریام میں آپ کی وفات ہوئی۔ قطعہ خاص بہشتی مقبرہ قادیان میں تدفین ہوئی۔

50% LikesVS
50% Dislikes

اپنا تبصرہ بھیجیں