حضرت حاجی محمد امیر خان صاحبؓ بنوری

روزنامہ ’’الفضل‘‘ ربوہ 9؍اپریل 2009ء میں حضرت حاجی محمد امیر خان صاحب بنوریؓ یکے از 313 کے بارہ میں ایک مختصر مضمون مکرم غلام مصباح بلوچ صاحب کے قلم سے شامل اشاعت ہے۔
حضرت محمد امیر خان صاحبؓ ولد چوہر خان صاحب بنور ریاست پٹیالہ کے رہنے والے تھے۔ آپ حضرت صوفی احمد جان صاحبؓ لدھیانوی کے مرید تھے اور اُن سے خاص عقیدت رکھتے تھے۔ حضرت صوفی صاحبؓ 1885ء میں جب حضرت مسیح موعودؑ سے اجازت لے کر حج پر تشریف لے گئے تو حضرت امیر خان صاحبؓ کو بھی ان کے ساتھ جانے کی سعادت حاصل ہوئی۔ حضرت صوفی صاحبؓ کے بیٹے حضرت پیر منظور محمد صاحبؓ یکے از 313 آپ کے بہنوئی لگتے تھے کیونکہ آپؓ اُن کی بیوی کے رشتہ میں بھائی تھے۔
1892ء میں حضرت اقدس مسیح موعود کپورتھلہ تشریف لے گئے اس موقع پر حضرت امیر خان صاحبؓ نے حاضر ہوکر حضورؑ کی بیعت کی۔ رجسٹر بیعت میں آپ کی بیعت کا اندراج اس طرح ہے۔
21 فروری1892ء۔ محمد امیر خان ولد چوہر خان ساکن بنور ریاست پٹیالہ بمقام کپور تھلہ مقیم سہارنپور
حضرت حاجی محمد امیر خان صاحبؓ ایک نیک سیرت اور دیندار انسان تھے۔ حضرت شیخ عبد الوہاب صاحب ( وفات 10 اکتوبر 1954ء مدفون بہشتی مقبرہ ربوہ ) جو ہندوؤں سے احمدی ہوئے تھے فرماتے ہیں :
حاجی امیر محمد صاحبؓ کا مجھے نیاز حاصل ہوا وہ ایک نیک سیرت بزرگ تھے اور اب بہشتی مقبرہ میں مدفون ہیں ، ان کی خدا ترسی اور نیک اخلاق نے میرے دل کو موہ لیا اور ان کے نیک نمونے نے مجھے اسلام کی کتابیں پڑھنے کی طرف راغب کیا ان کی وساطت سے غنیۃ الطالبین، فتوح الغیب، اکسیر ہدایت اور احیاء العلوم وغیرہ کتابیں دیکھیں۔اسلام سے محبت تو پہلے سے ہی تھی اب میں علی الاعلان ہندو دھرم چھوڑ کر مسلمان ہوگیا ‘‘۔
1897ء میں حضور نے اپنی تصنیف لطیف ’’انجام آتھم ‘‘ میں اپنے 313 کبار رفقاء کی فہرست شائع فرمائی جس میں حضرت حاجی محمد امیر خان صاحبؓ کا نام 106 نمبر پر درج ہے۔
اسی طرح حضور نے ایک اشتہار میں مخالفین کی طرف سے گورنمنٹ کو پہنچائی گئی خلاف واقعہ اطلاعات کی تردید فرماتے ہوئے اپنے خاندان اور سلسلہ کے صحیح حالات بیان فرمائے۔ چنانچہ 24 فروری 1894ء کو دیے گئے اس اشتہار میں بطور نمونہ اپنی جماعت کے 316 احباب کے نام درج فرمائے ہیں جس میں حضرت حاجی محمد امیر خان صاحب کا نام بھی 243 نمبر پر موجود ہے۔ آپ کے نام کے ساتھ مہتمم گاڑی شکرم سہارنپور لکھا ہے۔ (کتاب البریہ)
حضرت حاجی صاحبؓ نے حضرت اقدس کی زندگی میں ہی 5 جنوری 1908ء کو 55 سال کی عمر میں وفات پائی۔ اخبار ’’الحکم‘‘ نے اس حوالہ سے لکھا:
’’منشی محمد امیر خان جو راجپورہ کی ایجنسی میں ملازم تھے اور حضرت کے ایک مخلص خادم تھے، بیمار ہوکر دارالامان میں آگئے تھے 5 جنوری1908ء کو انتقال کرگئے …۔ مرحوم ایک رشید، کم گو احمدی تھا، الحکم جب سے جاری ہوا ہے اس دن سے وہ اس کے خریدار تھے۔ مقبرہ بہشتی میں جگہ پائی۔ مرحوم نے ایک لڑکی اور ایک لڑکا اپنی یادگار چھوڑا ہے۔
جس دن آپ کی وفات ہوئی اس دن حضور نے ایک کشف دیکھا۔ فرمایا : 5 جنوری1908ء: مرحوم امیر خان کی بیوہ جس دن اس کا خاوند فوت ہوا میں نے دیکھا کہ اس بیوہ کی پیشانی پر 5یا 6 یا 7 کا عدد لکھا ہوا ہے میں نے وہ مٹا دیا اور اس کی جگہ اس کی پیشانی پر 6 کا عدد لکھ دیا ہے۔
آپ کی بیوہ حضرت اصغری بیگم صاحبہؓ بنت حضرت محمد اکبر خان صاحب ساکن سنور تھیں جو بعد میں حضرت راجہ مدد خان صاحبؓ کے عقد میں آئیں۔ خدا کے مامور کا کشف میں آپ کے گھر والوں کو دیکھنا آپ کے لیے ایک سعادت ہے۔ حضرت اصغری بیگم صاحبہؓ 1890ء میں پیدا ہوئیں۔ بچپن حضرت اقدسؑ کے گھر میں گزرا۔ 8جنوری 1978ء کو بعمر 88سال وفات پائی اور بہشتی مقبرہ ربوہ میں دفن ہوئیں۔

50% LikesVS
50% Dislikes

اپنا تبصرہ بھیجیں