حضرت حافظ حکیم فضل دین صاحب بھیرویؓ

(مطبوعہ الفضل ڈائجسٹ، الفضل انٹرنیشنل 21 اگست 2020ء)

ماہنامہ ’’تشحیذالاذہان‘‘ ربوہ جولائی2012ء میں حضرت مولوی حاجی حافظ حکیم فضل دین صاحب بھیروی ؓکا ذکرخیر مکرم رانا کاشف نذیر صاحب کے قلم سے شائع ہوا ہے۔
حضرت مولوی حاجی حافظ حکیم فضل دین صاحبؓ بھیرہ کی ایک معزز خواجہ فیملی میں 1842ء میں پیدا ہوئے۔ بچپن سے حضرت مولانا نورالدین صاحبؓ کے ساتھ دوستانہ تعلق تھا۔ آپؓ کی بیعت 1891ء کی ہے۔ آپؓ کی دونوں بیویوں حضرت فاطمہ بی بی صاحبہؓ اور حضرت مریم بی بی صاحبہؓ نے بھی ساتھ ہی بیعت کی سعادت حاصل کی۔
آپؓ سلسلہ کی خدمت دل کھول کر کرتے تھے۔ ’’ازالہ اوہام‘‘ میں آپؓ کے صدق و اخلاص اور مالی قربانی کا ذکر ہے۔
ایک روز آپؓ نے حضور علیہ السلام سے عرض کیا کہ یہاں (قادیان میں) مَیں نکمّا بیٹھا کیا کرتا ہوں، مجھے حکم ہو تو بھیرہ چلا جاؤں وہاں درس القرآن دیا کروں گا، یہاں مجھے شرم آتی ہے کہ مَیں حضورؑ کے کسی کام نہیں آتا اور شاید بے کار بیٹھنے میں کوئی معصیت ہو۔ حضورؑ نے فرمایا کہ آپ کا بے کار بیٹھنا بھی جہاد ہے اور یہ بے کاری ہی بڑا کام ہے۔
آپؓ بیان فرماتے ہیں کہ حضورعلیہ السلام نے بڑے دردناک اور افسوس بھرے الفاظ میں قادیان نہ آنے والوں کی شکایت کی اور فرمایا کہ یہ عذر کرنے والے وہی ہیں جنہوں نے رسول کریم ﷺ کے حضور میں عرض کیا تھا کہ ہمارے گھر کھلے ہوئے ہیں اور خداتعالیٰ نے ان کی تکذیب کردی۔
آپؓ نے قادیان میں مطبع ضیاء الاسلام قائم کیا جس میں حضورعلیہ السلام کی کتب چھپتی تھیں۔ اس کے علاوہ مدرسہ احمدیہ کے سپرنٹنڈنٹ اور کتب خانہ حضرت اقدسؑ کے مہتمم بھی رہے۔ لنگرخانہ کا کام بھی آپؓ کے سپرد تھا۔ حضورعلیہ السلام کے ساتھ چار گروپ فوٹوز میں شامل ہونے کا اعزاز آپؓ کو حاصل ہوا۔ حضورؑ ’’ازالہ اوہام‘‘ میں فرماتے ہیں:
’’حبّی فی اللہ حکیم فضل دین صاحب بھیروی۔ حکیم صاحب اخویم مولوی حکیم نورالدین کے دوستوں میں سے اور اُن کے رنگ اخلاق سے رنگین اور بہت بااخلاص آدمی ہیں۔ مَیں جانتا ہوں کہ ان کو اللہ اور رسول سے سچی محبت ہے اور اسی وجہ سے وہ اس عاجز کو خادم دین دیکھ کر حُبّ لِلّہ کی شرط کو بجالارہے ہیں۔ معلوم ہوتا ہے کہ انہیں اسلام کی حقّانیت پھیلانے میں اُسی عشق کا وافر حصہ ملا ہے جو تقسیم ازلی سے میرے پیارے بھائی مولوی حکیم نوردین صاحب کو دیا گیا ہے۔ وہ اس سلسلہ کے دینی اخراجات کو بنظر غور دیکھ کر ہمیشہ اس فکر میں رہتے ہیں کہ چندہ کی صورت پر کوئی ان کا احسن انتظام ہوجائے۔‘‘
حضورعلیہ السلام نے اپنی متعدد کتب مثلاً ’’فتح اسلام‘‘ ، ’’تحفہ قیصریہ‘‘ ، ’’سراج منیر ‘‘ ، ’’کتاب البریہ ‘‘ اور ’’آریہ دھرم ‘‘ میں بھی اپنی پُرامن جماعت اور چندہ دہندگان کے ضمن میں آپؓ کا ذکر فرمایا ہے۔ ضمیمہ رسالہ ’’انجام آتھم ‘‘ میں حضورؑ حاشیہ کے ایک نوٹ میں آپؓ کے بارے میں تحریر فرماتے ہیں:
’’حکیم صاحب مال اور جان سے اس راہ میں ایسے ہیں کہ گویا محو ہیں۔ ‘‘
حضرت حکیم صاحبؓ کی وفات 8؍اپریل 1910ء کو لاہور کے سفر کے دوران ہوئی اور تدفین بہشتی مقبرہ قادیان میں عمل میں آئی۔ آپؓ کی اولاد نہیں تھی۔ قبل ازیں الفضل انٹرنیشنل29؍نومبر1996ء،22؍ستمبر2000ء اور6؍ فروری 2015ء کے شماروں کے ’’الفضل ڈائجسٹ ‘‘ میں بھی آپؓ کا ذکرخیر شامل اشاعت کیا جاچکا ہے۔

50% LikesVS
50% Dislikes

اپنا تبصرہ بھیجیں