حضرت حافظ فتح محمد خانصاحبؓ مندرانی

روزنامہ الفضل ربوہ 10 فروری 2012ء میں مکرم آصف احمد ظفر بلوچ صاحب کے قلم سے اُن کے پڑدادا اور قبیلہ مندرانی کے اوّلین احمدی حضرت حافظ فتح محمد خان صاحبؓ کی سیرت و سوانح پر ایک مضمون شائع ہوا ہے۔

آصف احمد ظفر بلوچ صاحب

ضلع ڈیرہ غازی خان کی تحصیل تونسہ شریف میں کوہ سلیمان کے دامن میں ایک چھوٹی سی بستی مندرانی واقع ہے جن کے باشندوں کی اکثریت مندرانی قبیلے پر مشتمل ہے جو بلوچوں کے نتکانی قبیلے کی ایک شاخ ہے۔
حضرت حافظ فتح محمد خان صاحب احمدیت قبول کرنے سے پہلے اہل سنت و الجماعۃ سے تعلق رکھتے تھے۔ آپ کے والد میر محمود احمد خان مندرانی اپنی بستی مندرانی کے سب سے بڑے زمیندار تھے اور انتہائی نڈر، بے باک اور سچے انسان تھے۔ پورے علاقہ کے لوگ اُن کی بہادری کے معترف تھے۔ انہوں نے اپنے بیٹے فتح محمد خان کی تعلیم کے لئے دو اساتذہ کا انتخاب کیا ان میں سے ایک حضرت میاں رانجھا خان صاحب، فارسی کے فاضل اور صاحبِ کشف و کرامات بزرگ تھے۔ بستی کے نوجوان اُن سے علوم قرآنیہ، مثنوی رومی اور دیگر کتب دینیہ کی تعلیم حاصل کرتے تھے۔انہوں نے ایک دفعہ فتح محمد خان صاحب سے کہا کہ حافظ صاحب! میں اس دنیا سے گزر جاؤں گا اور آپ زندہ ہوں گے، امام مہدی کے ظہور کا زمانہ قریب ہے جب وہ ظہور فرمائیں تو ان کا انکار نہ کرنا۔
حضرت میاں رانجھا خان صاحب نے آخری عمر میں یہ کہتے ہوئے ایک تلوار بھی خریدی کہ جب امام مہدی کا ظہور ہوگا تو مَیں اس کے ساتھ مل کر جہاد کروں گا۔ اپنے استاد کی تقلید میں پھر خود حافظ صاحب نے بھی اپنے لئے ایک تلوار بنوا لی۔
اُنہی ایام میں بستی کے ایک شخص محمد ولد محمود حصولِ تعلیم کی خاطر پندرہ سولہ سال پنجاب کے مختلف علاقوں میں مقیم رہے اور بالآخر راولپنڈی جاکر حکیم شاہ نواز صاحب سے طبابت سیکھنے لگے۔ حکیم صاحب احمدی تھے۔ اُن سے حضرت مسیح موعودؑ کا نام سنا تو قادیان چلے گئے۔ وہاں جا کر حضورؑسے شرفِ بیعت حاصل کیا اور حضرت مولوی نورالدین صاحبؓ کی شاگردی اختیار کرلی اور مولوی محمد شاہ صاحبؓ کے نام سے مشہور ہوئے۔ آپ کی رہائش حضورؓ کے کتب خانہ میں ہی تھی۔ بعد ازاں حضرت خلیفۃالمسیح الاولؓ کے ارشاد پر مربی بنا کر کشمیر بھجوائے گئے۔ موضع آسنور میں انہوں نے شادی کی۔ 18مارچ 1920ء کو 65برس کی عمر میں کشمیر میں فوت ہوئے اور وہیں مدفون ہیں۔ بوجہ موصی ہونے کے یادگاری کتبہ بہشتی مقبرہ قادیان میں لگایا گیا۔ رشتہ میں آپ مولانا ظفر محمد ظفر صاحب کے ماموں تھے۔
1901ء میں حضرت مولوی محمد شاہ صاحبؓ نے حضرت حافظ فتح محمدخان صاحب کو بذریعہ خط امام مہدی کی آمد کی اطلاع دی اور ساتھ ہی حضرت اقدسؑ کا کچھ منظوم کلام بھی بھیجا۔ پھر حافظ صاحب کی درخواست پر مولوی صاحب موصوف حضرت صاحب کی کچھ کتب لے کر بستی مندرانی پہنچے۔ آپؓ کے ذریعہ جن احباب نے تحریری بیعت کی اُن میں حضرت حافظ فتح محمد خان صاحبؓ اور ان کے برادر کلاں نور محمد خان صاحب ، نور محمد خان صاحب مچھرانی، بخشن خان صاحب اور میاں محمد صاحب، حافظ محمد خان صاحب و گوہر علی صاحب برادر کلاں مولوی محمد شاہ صاحب شامل تھے۔ اس کے بعد حضرت مولوی محمد شاہ صاحبؓ واپس تشریف لے گئے۔
محترم حافظ فتح محمد خان صاحبؓ کی بیعت کا اعلان 24ستمبر 1901ء کو الحکم میں شائع ہوا۔مارچ 1903ء میں حضرت نور محمد خان صاحبؓ مچھرانی، حضرت حافظ محمد خان صاحبؓ اور حضرت میاں محمد صاحبؓ قادیان گئے لیکن حضرت مسیح موعودؑ مقدمہ کرم دین کی پیروی کے لئے گورداسپور میں تھے۔ چنانچہ یہ بزرگ قادیان میں ٹھہرے رہے اور حضورؑ کی بیعت کرکے واپس بستی مندرانی آئے۔ اِن کی تبلیغ سے بستی کے مزید چند لوگوں نے بھی بیعت کرلی اور اس طرح بستی مندرانی میں مضبوط جماعت قائم ہو گئی۔
1903ء میں ہی حضرت حافظ فتح محمدخان صاحبؓ، عثمان خان صاحبؓ اوربخشن خان صاحبؓ نے قادیان جاکر حضورؑ کی دستی بیعت کا شرف حاصل کیا اور پندرہ بیس دن تک برکاتِ صحبت سے فیضیاب ہوتے رہے۔ اور رسالہ ریویو بھی اپنے نام پر جاری کرواکے واپس آئے۔
1907ء میں حضرت مولوی محمد شاہ صاحبؓ دوبارہ بستی مندرانی تشریف لائے تو دسمبر 1907ء میں آپؓ کی معیت میں نور محمدخان صاحب، محمد مسعود خان صاحب اور میاں محمد صاحب نے قادیان جاکر دستی بیعت کا شرف حاصل کیا اور جلسہ سالانہ 1907ء میں شریک ہوئے۔ چنانچہ اس بستی کے 15 افراد کو تحریری جبکہ آٹھ کو دستی بیعت کی سعادت حاصل ہوئی۔
اگرچہ حضرت حافظ صاحبؓ زمیندار تھے لیکن زمین کا زیادہ ترکام آپ کے بڑے بھائی نورمحمد خان صاحبؓ کیا کرتے تھے جبکہ آپؓ اکثر مسجد میں ہی رہا کرتے تھے۔ مکانات بھی مسجد کے قریب تھے۔ آپ نے اکیلے ہی مسجد احمدیہ بستی مندرانی تعمیر کروائی اور احباب جماعت کو باقاعدگی سے درس دیتے اور قرآن شریف کا ترجمہ بھی پڑھایا کرتے تھے۔
حضرت حافظ فتح محمد خان صاحبؓ مندرانی کا شمار علاقہ کے پڑھے لکھے سنجیدہ طبقہ میں ہوتا تھا۔ آپؓ بہت نیک، پارسا اور تہجد گزار بزرگ تھے۔ حافظ قرآن ہونے کے علاوہ ایک جیّد عالم بھی تھے۔ ذاتی شوق سے عربی اور فارسی کے علوم کی تحصیل کی۔ فارسی کے اعلیٰ پایہ کے شاعر بھی تھے اور اپنے علاقہ میں اپنے علم و فضل کی بدولت مشہور تھے۔ آپ نے حضرت مسیح موعود کی تائید میں ایک فارسی کی منظوم کتاب بھی لکھی تھی مگر افسوس کہ وہ قبل از اشاعت ہی ضائع ہوگئی۔ اس کتاب کی پہلی نظم کا عنوان سلام بنام امام مہدی تھا جس کا پہلا شعر یہ تھا:

السلام اے یوسف کنعان ما
السلام اے نوح کشتی بانِ ما

مثنوی رومی اور صرف و نحو پر بھی حافظ صاحب کو عبور حاصل تھا۔ بلوچ اور پٹھان باقاعدگی سے آپؓ کے حجرے میں حاضر ہوتے اور قرآن کریم، احادیث نیز مثنوی رومی کا در س لیتے۔ خوش الحان اس قدر تھے کہ صبح کھیتوں کی طرف جانے والے دہقان آپؓ کی تلاوت کی آواز سن کر کھڑے ہو جاتے۔آپؓ کے ہاتھ کا لکھا ہوا قرآن مجید آج بھی محفوظ ہے۔ آپؓ قرآن پاک کی تلاوت کرتے وقت اکثر اپنی معصوم پوتی بی بی غلام سکینہ کو اپنی گود میں لے لیتے۔ بچی ہمہ تن گوش ہو کر سنتی رہتی۔ آپؓ فرمایا کرتے تھے کہ میری اس پوتی (غلام سکینہ ) کو قرآن پاک سے بے انتہا عشق ہوگا۔ آپؓ کا یہ فرمان بعد میں من وعن پورا ہوا اور بستی بزدار کی ہزاروں خواتین کو قرآن کریم پڑھانے کی سعادت اُن کو عطا ہوئی۔
حضرت حافظ صاحبؓ کے بیٹے محترم مولانا ظفر محمد صاحب ظفرنے اپنے بچپن میں یہ خواب دیکھا کہ قرآن شریف اُن کے سینے میں چمک رہا ہے۔ تو اُن کے والد محترم حضرت حافظ صاحبؓ نے اسی خواب کی بنیاد پر دینی تعلیم کے حصول کیلئے مارچ 1921ء میں جبکہ وہ ابھی بمشکل 13سال ہی کے تھے، اُن کو قادیان چھوڑ آئے۔ محترم مولانا صاحب کو دینی علم حاصل کرنے کے بعد تصنیف معجزات القرآن کو پیش کرنے کی توفیق بھی ملی جس سے ظاہر ہوتا ہے کہ حروف ابجد کی تہ میں بہنے والے قرآنی معارف کو کس طرح اللہ تعالیٰ نے اُن پر کھولا ۔

محترم مولانا ظفر محمد ظفر صاحب

حضرت حافظ صاحبؓ کے ایک شاگرد حضرت محمد مسعود خان صاحبؓ مچھرانی کو 1914ء میں مولوی محمد علی صاحب کی طرف سے ایک ٹریکٹ موصول ہوا جس میں لکھا ہوا تھا کہ جماعت کو چاہئے کہ میاں محمود احمد صاحب کے ساتھ تعاون نہ کریں، اب خلافت انجمن احمدیہ کی ہو گی۔ اس ٹریکٹ کا جب حضرت حافظ صاحبؓ کو علم ہوا تو آپؓ نے ساری جماعت کو اکٹھا کیا اور جماعت سے مشورہ کے بعد حضرت خلیفۃ المسیح الثانیؓ کی خدمت اقدس میں تحریری بیعت کا خط لکھ دیا۔ پھر دسمبر 1914ء کے جلسہ سالانہ پر بستی مندرانی کے پندرہ افراد نے قادیان جاکر حضورؓ کے دست مبارک پر بیعت کرلی۔
شروع میں جمعہ بستی مندرانی میں نہیں پڑھا جاتا تھا۔ احمدیت قبول کرنے کے بعد حضرت حافظ صاحبؓ نے باقاعدہ نماز جمعہ کا بھی انتظام کیا اور نماز عیدین بھی اپنی بستی میں پڑھایا کرتے تھے۔ ان دنوں غیراحمدیوں نے بائیکاٹ کیا اور بہت مخالفت کی۔ کئی مُلّاؤں نے آکر بستی میں سلسلہ کے خلاف تقاریر کیں۔ انہی ایام میں آپ نے ایک مناظرہ کروایا۔ احمدیوں کی طرف سے مناظر مولوی محمد شاہ صاحبؓ تھے۔ اس مناظرہ کے نتیجہ میں بستی بزدار کے ایک بااثر اور شریف النفس زمیندار حضرت شیر محمد خان صاحب (نمبردار) نے احمدیت قبول کرلی۔
حضرت حافظ صاحب جب احمدی نہیں ہوئے تھے تو تونسہ شریف کی محمودیہ گدّی کے گدی نشین خواجہ اللہ بخش صاحب تھے آپ کے بڑے معتقد تھے اور اُن کے دربار میں حافظ صاحب کو ایک اعلیٰ مقام حاصل تھا۔ احمدیت قبول کرنے کے بعد آپؓ نے خواجہ صاحب کے پاس جانا چھوڑ دیا۔ اس پر انہوں نے آپؓ کو احمدیت سے برگشتہ کرنے کے لئے کوششیں کیں اور آخر مخالفت اور بائیکاٹ پر اُتر آئے۔ تاہم حضرت حافظ صاحبؓ نے واضح طور پر یہ پیغا م خواجہ صاحب کو کہلوا بھیجا کہ میں اب جس مُرشد کا مرید بن گیا ہوں، اس کے بعد مجھے کسی اور مُرشد کی ضرورت نہیں رہی۔
حضرت حافظ صاحبؓ نے دو شادیاں کیں۔ پہلی بیوی سے دو بیٹے اور ایک بیٹی پیدا ہوئی ۔جبکہ دوسری بیوی کے بطن سے چار بیٹے پیدا ہوئے۔ جن میں سب سے چھوٹے محترم مولانا ظفر محمد ظفر خان صاحب مندرانی لمبا عرصہ تک جامعہ احمدیہ میں استاد رہے۔
حضرت حافظ فتح محمد خان صاحبؓ نے 65سال کی عمر میں دسمبر 1925ء میں وفات پائی اور لال اصحاب نامی قبرستان واقع دامن کوہ سلیمان بستی مندرانی میں دفن ہوئے۔ وفات کے وقت آپ کی عمر 65 برس تھی۔
آپؓ کی وفات پر علاقہ کی ایک معزز شخصیت سید مسعود شاہ صاحب کے بیٹے سید نور شاہ صاحب نے (جو آپؓ کے پاس تحصیل علم کے لئے حاضر ہوا کرتے تھے) جنازہ پڑھنا چاہا تو کچھ لوگوں نے شاہ صاحب کی مخالفت کی۔ اس پر شاہ صاحب نے دو ٹوک جواب دیا کہ وہ میرے بزرگ استاد تھے اس لئے میں اُن کی نماز جنازہ ضرور پڑھوں گا۔ اس پر وہ تمام مخالفین جو حافظ صاحبؓ کا دل سے احترام کرتے تھے، حوصلہ پا کر آگے بڑھے اور الگ سے نماز جنازہ پڑھ ڈالی۔
ایک عجیب بات یہ ہے کہ حضر ت حافظ فتح محمد خان صاحبؓ اور پانچ دیگر اصحابِ احمد جس قبرستان میں دفن ہیں اس کا نام پہلے سے ہی قبرستانِ صحابہ تھا۔ کیونکہ مشہور ہے کہ اس میں حضرت نبی کریم ﷺکے دو صحابہ کی قبریں موجود ہیں۔

50% LikesVS
50% Dislikes

اپنا تبصرہ بھیجیں