حضرت حسن دین رہتاسی صاحب رضی اللہ عنہ

روزنامہ ’’الفضل‘‘ ربوہ 20 جون 2009ء میں مزاح کے نامور احمدی شاعر حسن رہتاسی کی شاعری اور حالات کے حوالہ سے جناب ابن آدم کا ایک مضمون (مرسلہ:سید رضا احمد صاحب) شامل اشاعت ہے۔

حضرت محمد حسن رہتاسیؓ

رہتاس کا قدیم نام منڈی تھا۔ یہاں کی آبادی لاکھوں نفوس پر مشتمل تھی جو قلعہ کے باہر تک پھیلی ہوئی تھی۔ شیر شاہ سوری کا دور حکومت 1540ء سے 1545ء تک صرف پانچ سال رہا لیکن اس مختصر دَور میں گکھڑوں کے حملہ کو روکنے کے لئے قلعۂ رہتاس کی بنیاد ڈالنا بھی شامل ہے۔ اس قلعہ میں تیس ہزار پیدل، تیس ہزار سوار، ایک ہزار بڑی اور چھوٹی توپیں موجود تھیں۔ جہانگیر بادشاہ وادیٔ کشمیر جاتے ہوئے اکثر یہاں ٹھہرا کرتا تھا۔ یہ قلعہ 1839ء سے 1849ء تک سکھوں کے قبضے میں رہا۔ مارچ 1849ء میں انگریزوں کے قبضے میں آیا۔ اس قلعے کے ساتھ سے جی ٹی روڈ پشاور سے کلکتہ تک جاتی تھی۔ انگریز حکومت نے یہ سڑک رہتاس سے ساڑھے چار میل دُور دینہ سے گزاری جس سے رہتاس نظروں سے اوجھل ہو گیا۔ اب یہ قلعہ ویرانی کا نمونہ ہے کیونکہ وہاں بنیادی انسانی ضروریات تک مفقود ہیں۔
’’حسن رہتاسی‘‘ کے والد حضرت منشی گلاب دین صاحب رہتاسی قبول احمدیت سے قبل اہل تشیع تھے اور علاقہ کے مشہور واعظ و ذاکر تھے۔ آپ نے رہتاس میں لڑکوں کے لئے پہلا مڈل سکول بھی قائم کیا۔ 1892ء میں احمدیت قبول کی۔ کچھ عرصہ بعد قادیان تشریف لائے اور جلسہ سالانہ میں بھی شرکت کی۔ حضرت مسیح موعودؑ نے ’’آئینہ کمالات اسلام‘‘ میں شاملین جلسہ میں بیالیسویں نمبر پر ان کا نام درج فرمایا۔ اور اپنی کتاب ’’انجام آتھم‘‘ میں درج 313 صحابہ کی فہرست میں ان کا نام 34ویں نمبر پر درج ہے۔ حضورؑ نے اپنی کتاب ’’سراج منیر‘‘ کے آخر میں حضرت منشی صاحبؓ کی ایک نظم شامل کرکے آپؓ کو حیات دوام بخش دی۔ اس نظم کے چند اشعار ملاحظہ ہوں:

اللہ اللہ چودھویں صدی کا جاہ و جلال
رحمتِ حق سے ملا اسے کیا فضل و کمال
خضر کے پیچھے چلے جاؤ عقیدت سے گلابؔ
خیر و خوبی سے اگر چاہتے ہو تم حال و قال

حضرت منشی صاحبؓ نے 23نومبر 1920ء کو وفات پائی اور قلعہ رہتاس کے باہر دروازہ خواص خانی کے قریب مدفون ہیں۔ آپؓ موصی تھے۔ آپؓ کا ذکر قبل ازیں 11 اکتوبر 2002ء کے شمارہ کے ’’الفضل ڈائجسٹ‘‘ کی زینت بن چکا ہے۔
حضرت منشی حسن دین صاحبؓ رہتاسی کی پیدائش اور ابتدائی حالات کے بارہ میں زیادہ معلومات نہیں ہیں۔ البتہ آپ نے 1896ء میں حضرت مسیح موعودؑ کی بیعت کی اور خود کو ’’شاعر دارالاماں‘‘ کہا کرتے تھے۔ برصغیر کے قریباً تمام مشہور شہروں کی سیاحت کی لیکن گھوم پھر کر آخر قادیان آ جاتے۔ اس بارہ میں کہتے ہیں:

قادیان! ہم عمر قیدی ہیں ترے
دھوپ میں اپنی کٹے یا چھائوں میں
ہتھکڑی تیری کشش کی ہاتھ میں
اور زنجیرِ محبت پاؤں میں
عظمتِ دارالاماں اور شوکتِ فضل عمر
یا حسنؔ سے یا کسی ایسے ہی دیوانے سے پوچھ

٭ حضرت خلیفۃ المسیح الرابعؒ آپؓ کا تذکرہ یوں فرماتے ہیں: ’’بہت زندہ کلام تھا اُن کا۔ جماعت کے پہلے ہجو گو شاعر تھے۔ وہ جس کی ہجو لکھتے اس کا حلیہ بگاڑ کے رکھ دیتے تھے… ایک دفعہ حسن رہتاسیؔ نظارت امورعامہ سے ناراض ہوئے۔ اس وقت میرے ماموں سید ولی اللہ شاہ صاحب ناظر امورعامہ تھے ان کے بعد خان صاحب فرزند علی خاں صاحب آئے۔ امورعامہ کے فیصلے کسی ذاتی عناد کی بنا پر تو ہوتے نہیں تھے ان کے فیصلے تو خدا کے فضل و کرم سے تقویٰ پر مبنی ہوتے تھے۔ انہوں نے تنگ آ کر دونوں پر یہ شعر کہا:

ہوئے ابنِ علی رخصت تو فرزندِ علی آئے
ہمارے واسطے سارے ولی ابنِ ولی آئے

دونوں مصرعوں میں بڑا شاندار اندرونی جوڑ ہے، کیسی سلاست ہے، دونوں کا کس طرح استعمال کیا ہے۔ اگرچہ محل بڑا خطرناک تھا مگر کلام کا حُسن بڑا نمایاں ہے۔‘‘
حسنؔ نے مذکورہ بالا موقعہ پر جو بند کہا وہ یہ ہے:

جو زین العابدیں نکلے تو فرزندِ علی آئے
ولی وہ بھی تو کامل تھے مگر یہ بھی ولی آئے
ان عالیجاہ امیروں کی وجاہت کے تو کیا کہنے
سر آنکھوں پر بٹھاتے ہیں جو اُن کا اردلی آئے

٭ حسن رہتاسی مزاحیہ شعراء کے سرخیل اور ہجو گوئی میں لاجواب تھے لیکن ان کی ہجو بازاری اور عامیانہ نہیں بلکہ ادبی شہ پارے ہیں جنہیں سن کر مخاطب بھی لطف اندوز ہوتا۔ شعراء نوابوں اور رئیسوں سے اکثر ملنے جایا کرتے تھے۔ حضرت چودھری سر ظفراللہ خانؓ سے حسن رہتاسیؓ کی ملاقات بھی اسی نوعیت کی ہوتی تھی۔ ایک مرتبہ وہ ملنے گئے تو چوہدری صاحب بیمار تھے۔ انہوں نے کاغذ کے ٹکڑے پر لکھ بھیجا کہ دردِ سرلاحق ہے، اس لئے ملنے سے معذور ہوں۔ حسن رہتاسیؔ نے اسی کاغذ پر شعر لکھ کر اندر بھجوا دیا۔ ؎

آپ ہیں ’’سر‘‘ میں سراپا دردِ سر
درد سر کو چھوڑ کر جائے کدھر

یہ دلچسپ اوربر جستہ شعر سن کر چوہدری صاحب اپنی تکلیف بھول گئے اور ملاقات کے لئے بلا لیا۔
٭ ایک مرتبہ حسنؓ نے ڈلہوزی کا سفر اختیار کیا۔ دنیانگر میں ایک حکیم کے بورڈ پر نظر پڑی ’’مقبول طب‘‘۔ حکیم صاحب نے حسنؔ کے مہندی لگے سر اور داڑھی کو دیکھا اور کہا: ’’اس بڈھے کو دیکھو! اس کے سر اور داڑھی کو آگ لگی ہوئی ہے ‘‘۔ حکیم صاحب کے اس دلچسپ تبصرے کی بازگشت حسنؔ کے کانوں سے ٹکرائی تو انہوں نے ایک کوئلہ سے قریبی کھمبے پر یہ شعر لکھ دیا:

شاذ و نادر ہی کبھی دیکھے گی چشم بدنصیب
ایسی ’’نامقبول طب‘‘ اور ایسا نالائق طبیب

حسنؓ یہ شعر لکھ کر ڈلہوزی چلے گئے۔ جب حکیم صاحب نے یہ شعر پڑھا تو سر پیٹ لیا۔ اتفاق تھا کہ چند روز بعد حسنؓ دوبارہ دنیانگر آئے اور حکیم صاحب کی دکان کے سامنے سے گزرے۔ حکیم صاحب نے آپؓ کو دیکھا تو تیزی سے لپکے اور آپؓ کے گھٹنے پکڑ لیے اور انتہائی لجاجت سے معافی مانگی اور پھر منّت سماجت کرکے دکان میں لائے اور خوب خاطر تواضع کی۔
٭ حسنؒ کو کسی نے دعوت ولیمہ پر مدعو کیا۔ لیکن وہاں اِن کا لباس دیکھ کر کسی نے خاطر نہ کی۔ ایک منتظم نے اتنی مہربانی کی کہ پلیٹ میں چاول ڈال کر اس کے اوپر ایک بوٹی رکھ دی۔ حسنؔ نے چاول کھائے اور کہا:

ہم گئے کھانے بیاہ کی روٹی
سر پہ ٹوپی تھی ہاتھ میں سوٹی
چند چاول تھے جن کی چوٹی پر
وحدہٗ لاشریک تھی بوٹی

٭ ایک جلسہ کے اختتام پر حسنؔ نے فرمائش پر یہ فی البدیہہ شعر سنائے:

مجھ کو اخیر وقت دیا نظم کے لئے
شایاں نہ تھا ضرور میں اس بزم کے لئے
ناراض ہوں نہ آپ تو اتنا میں پوچھ لوں
ملاّں تھا میں کہ مجھ کو رکھا ختم کے لئے

٭ ایک مرتبہ یونیورسٹی ہال لاہور میں، سرعبدالقادر کی صدارت میں مشاعرہ ہو رہا تھا۔ مشاہیر شعراء میں سے کوئی بھی اپنا رنگ نہ جما سکا۔ سر عبدالقادر نے حسنؔ کو بلایا تو آپؓ نے فی البدیہہ یہ قطعہ پڑھا:

کچھ تو اس بزم میں ہیں شائقِ اقبال
اور کچھ طالبِ حقیقت حال
میچ کو آئی شاعروں کی ٹیم
مجھ کو پھینکا گیا ٹرائی بال

٭ حسنؔ رہتاسی کو نعت گوئی میں کمال حاصل تھا۔ آپؓ کی نعت کا نمونہ پیش ہے: ؎

سرِ عرشِ بریں جونہی شہ ہر دوسرا پہنچے
فضا گونجی خدا کے پاس محبوبِ خدا پہنچے
ملائک حورو غلماں وجد میں ایسے ہوئے بے خود
اچھلتے، کودتے، پڑھتے ہوئے صلِّ علیٰ پہنچے
مقام ارفع و اعلیٰ پہ اکثر انبیاء پہنچے
نہ پہنچا کوئی اس حد تک جہاں خیر الوریٰ پہنچے
سرِ سینا بصد مشکل پہنچ کر تھک گئے موسیٰ ؑ
ہر عرش عُلا لیکن محمد مصطفیؐ پہنچے
جہاں وہم ملائک نَے گمانِ انبیاء پہنچے
وہاں برقِ جہاں بن کر براقِ مصطفی ؐ پہنچے
جہاں غلمانِ احمدؐ کی نگاہِ دلربا پہنچے
دم عیسیٰ ؑ وہاں پہنچے نہ موسیٰ ؑ کا عصا پہنچے

٭ قادیان میں ایک زمانہ میں مشاعروں کا سلسلہ چل نکلا تھا جن کی روحِ رواں حضرت ذوالفقار علی خان صاحب گوہر ہوتے تھے۔ ایک بار مصرع طرح یہ تھا:

ایسی ہوا ہو ، ایسی فضا ہو

صدرمشاعرہ خان صاحب نے آخر میں اپنا کلام سنایا۔

حضرت ذوالفقار علی خان گوہرؓ

اُن کی آواز بڑی گرجدار تھی۔ مطلع پڑھا:

پھول کھلے ہوں ، بادِ صبا ہو
ایسی ہوا ہو ، ایسی فضا ہو

یہ مطلع اس زور و شور سے پڑھا گیا کہ حسنؔ کھڑے ہوئے اور اظہارِ معذرت کے بعد کہنے لگے: ’’سامعین! میں اپنی نظم تو پڑھ چکا مگر صدر مجلس نے جس انداز سے مطلع پڑھا ہے اس پر ایک شعر ہو گیا ہے‘‘۔ ہر طرف سے آواز آئی ’ارشاد ! ارشاد!! ‘۔ حسنؔ نے کہا:

دیکھئے کیسا حشر بپا ہو
اُن کی گلی ہو اِن کا گلا ہو

٭ مرزا گل محمد صاحب حضرت مسیح موعودؑ کے چچا مرزا نظام الدین کے بیٹے تھے اور انتہائی شریف النفس انسان تھے۔ یہی وجہ ہے کہ اللہ تعالیٰ نے ان کو ہدایت بخشی اور احمدیت قبول کر لی۔ حضورؑ کو الہاماً بتایا گیا تھا کہ:’’ہر ایک شاخ تیرے جدی بھائیوں کی کاٹ دی جائے گی‘‘۔ ابھی مرزا گل محمد صاحب نے بیعت نہ کی تھی اور نہ ہی آپ صاحب اولاد تھے کہ شاید اسی الہام کے پیش نظر مرزا نظام الدین کے متعلق جو حضرت اقدسؑ کے شدید مخالف تھے حسنؔ نے ہجو لکھی کہ:

ہر سمت قادیان میں برپا ہے شور و غل
مرزا نظام دین کے گھر کا چراغ گُل

کچھ عرصہ بعد جب مرزا گل محمد صاحب نے احمدیت قبول کی اور حضرت مسیح موعودؑ کے روحانی فرزند بن گئے اور صاحب اولاد بھی ہو گئے۔ تب حسن ؔ صاحب نے اپنے شعر میں یوں ترمیم کی:

میری دعا یہی ہے حسنؔ حشر تک نہ ہو
مرزا نظام دین کے گھر کا چراغ گُل

مرزا گُل محمد صاحب

ایک مرتبہ مرزا گل محمد صاحب کار میں بیٹھے ساتھیوں کے ساتھ شکار کو جا رہے تھے۔ حسنؔ نے دیکھا تو کہا:

جا رہے ہیں کار میں بہر شکار
گُل ہے ان میں ایک باقی ہیں خار

یہ برجستہ اور برمحل شعر سن کر مرزا گل محمد صاحب نے حسنؔ صاحب کو بطور انعام پانچ روپے دیئے۔
٭ حسنؔ رہتاسی قادیان میں اپنی آمد کا اشارہ مسجد اقصیٰ کے بلیک بورڈ پر کچھ لکھ کر یا احمدیہ چوک میں بیٹھ کر دیتے۔ قادیان کی پاکیزہ ثقافت میں آپؓ چلتی پھرتی ’بزم مشاعرہ‘ تھے۔ ایک بار مسجد کے بلیک بورڈ پر لکھا:

اے نمازی! نماز کھیل نہیں
پھلے بن آب یہ وہ بیل نہیں
یہ روکھے سوکھے ترے رکوع و سجود
یہ وہ تل ہیں کہ جن میں تیل نہیں

٭ حسنؔ نے ایک مرتبہ ایک تولیہ خریدا۔ ابھی استعمال کا حق بھی ادا نہ ہوا تھا کہ تولیہ لاپتہ ہو گیا۔ آپؓ نے تولیے کا مرثیہ لکھ کر اپنا یہ غم ہلکا کیا۔ جب یہ نظم شائع ہوئی تو کئی مداحوں نے آپؓ کو تولیے ارسال کئے۔

تحفہ توران میرا تولیہ
شاہوں کے شایان میرا تولیہ
کون تھا کیا جانے لے کر چل دیا
جان نہ پہچان میرا تولیہ

٭ حسنؔ مرحوم جہلم کے ’’محلہ ملاحاں‘‘ میں رہتے تھے۔ ایک دن گوشت خریدنے گئے اور اپنی پسند کا گوشت طلب کیا تو قصاب کہنے لگا کہ وہ حصہ تو بک چکا، آپ بند لے جائیں۔ آپؓ بند گوشت پسند نہ کرتے تھے، اس لئے انہوں نے دکان چھوڑ دی۔ مگر اس ’’بند ‘‘ نے تخیل کے کئی دروازے کھول دیے۔ چنانچہ یہ شاہکار نظم معرضِ وجود میں آئی جس کا ردیف ’’بند‘‘ ہے اور سلسلہ کے لٹریچر میں یہ ایک بے نظیر نظم ہے۔ چند اشعار ملاحظہ ہوں:

دریا ہی نہیں کرتے ہیں کوزہ میں جری بند
گر چاہیں تو کر سکتے ہیں شیشہ میں پری بند
جو بند کیا حق نے اسے کھول دیا
نَے شرک خفی بند ہے نَے شرکِ جلی بند
ان سادہ مزاجوں سے کوئی اتنا تو پوچھے
فیضانِ خداوند بھی ہوتے ہیں کبھی بند
کیوں کوثرِ نبویؐ میں ہوا بند تموّج
جب تشنہ لبوں کی ہی نہیں تشنہ لبی بند
کیوں مصطفویؐ فیض کو بند آپ ہیں کرتے
اب تک نہیں دنیا میں اگر بولہبی بند
جس راہ سے ملتا ہے حسنؔ آخری انعام
یہ لوگ اسے کرتے ہیں اللہ غنی بند

٭ سرگودھا میں ڈپٹی کمشنر کی زیر صدارت ایک مشاعرے کا اہتمام کیا گیا۔ سامعین سے بھرا ہال کسی شاعر کو قبول نہیں کر رہا تھا۔ حسنؔ وہاں بن بلائے پہنچے تھے اور آپؓ نے منتظمین سے کہا کہ آپؓ کو موقع دیں۔ چنانچہ سٹیج سیکرٹری نے اعلان کیا: ’’سامعین! ایک باباجی جو اس مشاعرے میں مدعو نہیں ہیں، اُن کی ضد ہے کہ میں کلام پڑھوں گا اور ساتھ یہ دعویٰ بھی کرتے ہیں کہ سامعین مجھے ضرور سنیں گے‘‘۔ جس ہیئت کذائی کے ساتھ بابا جی نے سٹیج پر قدم رکھا وہ بہت مضحکہ خیز تھا۔ ہوٹنگ نے ایک نیا انداز اختیار کر لیا۔ حسنؔ رہتاسی نے کہا: ’’پہلے آپ ایک قطعہ سن لیں، پھر جتنا چاہیں شور مچا لیں‘‘۔اور کہا:

بڑھے ہیں جانبِ محفل قدم اٹھائے ہوئے
ہم اپنے پیٹ کی خاطر ہیں آپ آئے ہوئے
وہ اَور تھے جو یہ کہتے تھے اگلے وقتوں میں
خدا کے گھر بھی نہ جائیں گے بن بلائے ہوئے

حسنؔ کے پاس کوئی بیاض تو ہوتی نہیں تھی۔ انہوں نے اپنے حافظہ کے زور پر درجنوں قہقہہ آور قطعے سنائے اور خوب داد سمیٹی اور آخر میں اپنی مشہور نظم ’’ٹکیہ صابن کی‘‘ سنا کر مشاعرہ لوٹ لیا۔ ڈپٹی کمشنر سرگودھا نے خوش ہو کر اپنی جیبِ خاص سے حسنؔ کو 50روپیہ انعام دیا جو ایک بہت بڑی رقم تھی۔
٭ حسنؔ اپنی منظوم خود نوشت میں فرماتے ہیں:

نحیف و ناتواں لاغر بدن معلوم ہوتا ہے
اسیرِ پنجۂ رنج و محن معلوم ہوتا ہے
کبھی آوارہ گردی سے، کبھی صحرا نوردی سے
بروزِ قیس، ظلِ کوہکن معلوم ہوتا ہے
زبانِ حال سے کہتی ہے اس کے تن کی عریانی
کوئی نادار محتاجِ کفن معلوم ہوتا ہے
اگرچہ تلخ گوئی میں جواب اپنا نہیں رکھتا
مگر اسٹیج پر شیریں سخن معلوم ہوتا ہے
بتوں سے اس کو نفرت ہے کہ ہے ’محمود‘ کا خادم
عقیدت اور عمل سے بت شکن معلوم ہوتا ہے
خدا کی شان جو گھر کل گلابستان تھا وہ بھی
خزاں کے ہاتھ سے اجڑا چمن معلوم ہوتاہے
سنی جب داستانِ غم تو نکتہ رس پکار اٹھے
ستم جس پر یہ ٹوٹے ہیں حسنؔ معلوم ہوتا ہے

٭ ایک موقعہ پر اپنے اوقات کا نقشہ ان الفاظ میں کھینچا:

کچھ تو جوشِ شباب میں گزری
کچھ حساب و کتاب میں گزری
عہد طفلی سے بے خبر ہیں ہم
باقی ماندہ خضاب میں گزری

٭ ایک مرتبہ حسرت سے دعا کی:

بن مانگے حسنؔ کو جو دیا تو نے بڑھاپا
اب مانگے پہ تھوڑی سی جوانی بھی عطا کر

٭ حسنؔ رہتاسی لائلپور (فیصل آباد) میں آ وارد ہوئے اور مسجد میں ڈیرہ جما لیا۔ یہاں دو ماہ رہے۔ یہیں بیمار ہوئے اور 10 مارچ 1951ء کو وفات پائی۔ وفات سے پہلے کسی نے ان سے پوچھا کہ آجکل کہاں رہائش ہے تو کہنے لگے: ؎

نہ ابا کے نہ دادا کے نہ اپنے گھر میں رہتا ہوں
چھٹا ہے جب سے گھر اپنا خدا کے گھر میں رہتا ہوں

جناب حسنؔ رہتاسی کو ایک مقامی قبرستان میں سپرد خاک کیا گیا۔

50% LikesVS
50% Dislikes

اپنا تبصرہ بھیجیں