حضرت حکیم مولانا نورالدین صاحب خلیفۃالمسیح الاوّل کی چند نصائح

حضرت خلیفۃالمسیح الاولؓ کی بعض منتخب تحریرات ماہنامہ ’’مصباح‘‘ مئی 2000ء میں شامل اشاعت ہیں۔ آپؓ فرماتے ہیں:
٭ ’’ہم مکتب میں پڑھا کرتے تھے۔ ایک دفعہ ہمارے استاد نے ہمیں مسجد میں نمازپڑھنے کے لئے بھیجا۔ ہم میں ایک لڑکا تھا اُس نے وضو کرلینے کے بعد سب کو مخاطب کرکے کہا یارو کیسی نماز؟ کون نماز پڑھتا ہے، یہ کہہ کر اُس نے اپنی پیشانی ایک کچی دیوار سے رگڑی۔ مٹی کا نشان ماتھے پر نظر آنے لگا جس سے یہ معلوم ہوتا تھا کہ یہ مسجد میں نماز پڑھ کر آیا ہے۔ اُس نے ہم سب کو نماز نہ پڑھنے اور جھوٹ بولنے کی اٹکل سکھائی۔ پھر اس کا نتیجہ یہ ہوا کہ وہ بڑا نامی گرامی چور ہوا … میری اس نصیحت کو یاد رکھو کہ نماز دل سے پڑھو‘‘۔
٭ ’’مَیں حضرت صاحب کے زمانہ میں التحیات پڑھ رہا تھا۔ پڑھتے ہوئے مجھے مثنوی کی ایک حکایت یاد آئی کہ ایک تاجر تھا اور اُس کا ایک طوطا تھا۔ جب وہ ہندوستان آنے لگا تو اس کے دوستوں نے اس سے مختلف فرمائشیں کیں، سو اُس نے اپنے پنجرے میں بیٹھے ہوئے طوطے سے بھی پوچھا کہ تم بھی کچھ کہو۔ اس نے کہا اَور کچھ نہیں، بس میرے بھائی طوطے فلاں فلاں جگہ رہتے ہیں، اُن کو میرا سلام دینا۔ اتفاق ایسا ہوا کہ جب طوطوں کی ڈار سے اُس نے پیغام کہا تو اُن میں سے ایک طوطا گر پڑا۔ تاجر کو بڑا افسوس ہوا۔ سو جب تاجر واپس آیا تو اس نے طوطے سے سارا واقعہ بیان کیا۔ طوطا واقعہ سن کر نیچے گر پڑا اور تڑپ تڑپ کر جان دیدی۔ مالک کو افسوس ہوا۔ خیر اُس نے طوطے کو باہر پھینک دیا۔ اتنے میں طوطا اُڑ کر درخت پر جا بیٹھا اور اُس نے کہا: مجھے گویا اس طوطے نے پیغام دیا تھا کہ جب تک موت اختیار نہ کروگے ، نجات نہ ملے گی۔
اس واقعہ کو یاد کرنے کے بعد مَیں نے سب انبیاء علیہم السلام کو سلام پہنچایا کہ اے طوطیانِ چمنِ رسالت! میرا تم پر سلام، مجھے بھی کوئی نجات کی راہ بتادو‘‘۔
٭ ’’ایک مرتبہ ایک موچی میرے پاس فروخت کیلئے جوتی لایا۔ دُور سے تو اچھی معلوم ہوتی تھی۔ جب مَیں نے ہاتھ میں لے کر دیکھا تو اس میں بھراؤ معلوم ہوا۔ مَیں نے کہا: اس میں تو کھوٹ معلوم ہوتا ہے۔ بوڑھا موچی کہنے لگا کہ میاں کھوٹ نہ کریں تو روٹی کیسے کھائیں، بھلا سچ سے کہیں روٹی ملتی ہے؟۔ مَیں نے کہا کہ تُو اتنا بوڑھا ہوگیا ہے، اب تک تجھ کو جھوٹ ہی کے ذریعہ سے روٹی ملی ہے!‘‘۔

50% LikesVS
50% Dislikes

اپنا تبصرہ بھیجیں