حضرت شیخ فضل احمد صاحبؓ بٹالوی

(مطبوعہ رسالہ انصارالدین یوکے، مئی جون 2010ء)
(مطبوعہ الفضل ڈائجسٹ 26 جولائی، 2 اگست و 9 اگست 2013ء)

(تلخیص و ترتیب: محمود احمد ملک)

حضرت شیخ فضل احمد صاحبؓ ایک زیرک اور دلیر طبع داعی الی اللہ تھے، جانبازی کی حد تک تبلیغ کے شائق تھے۔ خصوصاً بنوں اور لاہور میں اس بارے میں خاص مساعی کیں۔ اپنے انگریز افسران اور مسلم ، ہندو وغیرہ عوام کو بھی پیغام احمدیت پہنچانے کا شغف تھا۔ لاہور میں آپؓ سیکرٹری تبلیغ رہے۔ حضرت خلیفۃالمسیح اوّلؓ کی مجالس میں بکثرت بیٹھنے کے باعث حضور کی سیرت کے متعلق انمول باتیں کیں۔ خلافت اولیٰ ہی سے حضرت خلیفۃالمسیح الثانیؓ سے گہرا رابطہ تھا۔ آپ کی قائم کردہ مجلس انصاراللہ میں شامل ہوئے۔ اور اس کے بہ تردید غیرمبائعین ٹریکٹوں میں آپ کا نام شامل تھا۔ قیامِ خلافت ثانیہ پر غیر مبائعین کے سربراہ مولوی محمد علی صاحب کے خسر اور دست راست ڈاکٹر بشارت احمد صاحب راولپنڈی میں تھے۔ آپ نے ان کا اور ان کے رفقاء کا کامیاب مقابلہ کیا اور متعدد افراد کو مبائع بنایا۔ لاہور میں مولوی محمد علی صاحب کے ایک اور دستِ راست ڈاکٹر سید محمد حسین شاہ صاحب کا گفتگو میں ناطقہ بند کردیا۔ مجلس مشاورت میں کئی بار شریک ہوئے ۔ ارتدادِ ملکانہ کے وقت آپ نے وہاں بھی خدمت کی اور ایک خاص فریضہ سپرد ہونے پر آپ نے براہ راست حضرت خلیفۃالمسیح الثانیؓ کے تحت کام کیا۔ انفاق فی سبیل اللہ کی توفیق پائی۔ چندہ منارۃالمسیح میں شرکت کے باعث آپؓ اور آپؓ کی زوجہ اوّل کے اسماء اس پر کندہ ہیں۔ آپ دفتر اوّل کے تحریک جدید کے مجاہد ہیں۔ وقفِ جدید کے چندہ میں حصّہ لیتے رہے۔ارتداد ملکانہ کے موقعہ پر ممتاز مالی خدمت کی۔ بعد پنشن مراکز سلسلہ میں وقفِ زندگی کی پیش کش کی اور اراضیات سندھ اور دفتر امانت کے تعلق میں آپ نے خدمات کیں۔ خصوصاً بعد تقسیم برصغیر حضرت خلیفۃالمسیح الثانیؓ کے ارشاد پر صیغہ امانت صدر انجمن احمدیہ میں جو لاکھوں روپیہ اور زیورات وغیرہ کی امانتیں تھیں، حضرت صاحبزادہ مرزابشیراحمد صاحبؓ کی ہدایت پر آپ خاص تائید و نصرت الہٰی سے قادیان سے لاہور لے جانے میں کامیاب ہوئے۔خلفاء سلسلہ اور ابناء حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے علاوہ بزرگان سلسلہ کے ساتھ آپ کے گہرے مراسم تھے۔ 30؍اگست1968ء کو ربوہ میں بعمر چوراسی سال وفات پائی اور قطعہ صحابہ میں دفن ہوئے۔ آپؓ کے خودنوشت حالات زندگی ’’اصحاب احمد‘‘ جلد سوم میں بیان ہوئے ہیں۔ آپ خاکسار (محمود احمد ملک) کے دادا تھے-

حضرت شیخ فضل احمد صاحب بٹالویؓ

محمود احمد ملک

قسط اول میں بعض ایسے امور خلاصۃً ہدیۂ قارئین کئے جارہے ہیں جن کا تعلق حضرت شیخ صاحب کے قبول احمدیت، تقویت ایمان اور حضرت خلیفۃالمسیح الاول رضی اللہ عنہ کی سیرت سے ہے۔ دوسری قسط میں آپؓ کے سیدنا حضرت مصلح موعود رضی اللہ عنہ کے ساتھ تعلقات اور پھر خلافت ثانیہ کے بابرکت دَور میں آپؓ کو مختلف مقامات پر جن خدمات کی توفیق ملی، اُن میں سے بعض واقعات و مشاہدات کو حضرت شیخ صاحبؓ کے الفاظ میں ہی پیش کیا جارہا ہے۔جبکہ تیسری اور آخری قسط میں حضرت شیخ صاحبؓ کی بعض اہم خدمات اور سرگرم تبلیغی واقعات نیز خلفائے سلسلہ کے حوالہ سے بعض متفرق واقعات کو آپؓ کے الفاظ میں ہی خلاصۃً پیش کیا جارہا ہے۔

========================
قسط اول:
حضرت شیخ فضل احمد صاحب بٹالوی رضی اللہ عنہ 1883ء میں محترم شیخ علی بخش صاحب کے ہاں بٹالہ ضلع گورداسپور میں پیدا ہوئے۔ آپ کی پہلی والدہ کے ہاں صرف لڑکیاں ہی تھیں اور آپ کی والدہ کے ہاں بھی پہلی لڑکی ہی ہوئی۔ اس پر آپؓ کے والد نے اپنے مرشدکی خدمت میں اولادنرینہ کے لئے درخواست دعا کی۔ بعد دعا مرشد موصوف نے بتلایا کہ تمہیں ایسا لڑکا ملے گا جو بڑی عزت اور برکت پائے گا۔ حضرت شیخ صاحبؓ کو یقین تھا کہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی بیعت غلامی سے آپؓ کو یہ عزت اور برکت حاصل ہوئی ہے۔
آپؓ چھ سال کے تھے کہ والد کا سایہ سر سے اٹھ گیا۔ ابتدائی تعلیم بٹالہ سے حاصل کی۔ میٹرک 1901ء میں پرائیویٹ طور پر کیا۔ پھر مختلف شہروں میں ملازمتیں کرتے ہوئے 1905ء میں انبالہ چھاؤنی میں ملازم ہوگئے۔ جب آپ نے جوانی میں قدم رکھا تو ماحول میں عیسائیت کی یلغار نظر آئی۔ ملازمت اور دیگر لالچ دے کر عیسائیت میں داخل کیا جاتا تھا۔ حتّٰی کہ ایک مسجد کے امام مولوی قدرت اللہ صاحب نے بھی عیسائیت قبول کرلی جنہیں حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی کوشش سے دوبارہ قبول اسلام کی توفیق ملی۔ چنانچہ آپؓ عیسائیت سے بچنے کے لئے بہت دعا کیا کرتے تھے۔

زیارت، قبول احمدیت اور منتخب روایات

حضرت شیخ فضل احمد صاحب نے بچپن میں ایک دفعہ بٹالہ میں حضرت مسیح موعودؑ کی زیارت کی تھی۔ بعدازاں جب 1904ء میں آپؓ فوج کی ملازمت میں لاہور میں متعین تھے تو حضرت ڈاکٹر محمد طفیل صاحبؓ نے آپ کو رسالہ ’’ریویوآف ریلیجنز‘‘ کا کوئی پرچہ پڑھنے کے لئے دیا تھا۔ جسے پڑھ کر آپ نے رسالہ اپنے نام جاری کرنے کے لئے حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی خدمت میں ایک عریضہ لکھا۔ اس پر حضور علیہ السلام نے گزشتہ سارے پرچے آپ کو بھجوادیئے جن کا مطالعہ کرکے آپؓ نے بیعت کا خط لکھ دیا۔ بیعت کے بعد آپؓ خاص طور پر حضورؑ کی خدمت میں درخواست دعا کیا کرتے تھے کہ آپؓ کا دل دنیا سے نہ لگے۔
اپریل 1907ء میں آپؓ کی شادی بٹالہ میں محترمہ سردار بیگم صاحبہ کے ساتھ ہوئی۔ اسی سال آپؓ کو قادیان حاضر ہوکر دستی بیعت کی بھی سعادت ملی اور پھر آپؓ کے ذریعہ آپؓ کی اہلیہ اور اُن کے بھائیوں کو بھی قبول احمدیت کی توفیق عطا ہوگئی۔
حضرت شیخ صاحبؓ کو چونکہ حضرت مسیح موعودؑ کی صحبت میں رہنے کا زیادہ موقع نہیں ملا اس لئے آپؓ نے زیادہ تر دیگر اصحاب کی روایات ہی بیان فرمائی ہیں۔ چنانچہ آپؓ بیان فرماتے ہیں کہ آپؓ کو حضورؑ کے خادم خاص حضرت حافظ حامد علی صاحبؓ نے سنایا کہ ابتدائی زمانہ میں جب حضرت مرزا محمود احمد صاحبؓ چھوٹے بچے تھے تو آپؓ کی آنکھوں میں سوزش وغیرہ سے بہت تکلیف ہوگئی تو حضور انہیں اورحضرت امّ المؤمنین کو لے کر علاج کرانے کے لئے بٹالہ تشریف لے گئے۔ بٹالہ پہنچ کر مجھے فرمایا کہ شیخ محمد علی صاحب کے پاس جاکر پچاس روپے قرض لے آئیں۔ میں شیخ صاحب کے پاس گیا تو باتوں باتوں میں الہام کا ذکر آگیا، شیخ صاحب نے کہا کہ الہام کی بات کچھ ایسی نہیں کہ جس کو بہت وقعت دی جائے، مجھے بھی الہام ہوتے ہیں۔ اور پھر بڑی خشکی اور لاپرواہی سے حضرت اقدسؑ کا ذکر کیا۔ بات بڑھ گئی تو میں ان سے ناامید ہوکربیزاری کے ساتھ واپس آگیا اور حضورؑ کی خدمت میں تفصیل عرض کی۔حضورؑ نے غالباً خاموشی اختیار فرمائی۔ ایک دو روز بعد مَیں بازار کسی کام کے لئے گیا تو ایک چھٹی رساں نے آواز دے کر کہا کہ میں دو تین روز سے مرزا صاحب کی تلاش کررہا ہوں، ان کا پچاس روپے کا منی آرڈر آیا ہوا ہے۔ میں اسے حضورؑ کے پاس لایا اور حضور نے یہ رقم وصول کی۔


حضرت شیخ فتح محمد صاحبؓ نے حضرت شیخ فضل احمد صاحبؓ سے بیان فرمایا کہ ابتدائی زمانہ میں مَیں قادیان آیا تو حضور علیہ السلام نے مجھے اندر بلالیا جہاں حضور اشتہارات وغیرہ کے خود ہی پیکٹ بنارہے تھے اور پتہ وغیرہ بھی ان پر خود ہی لکھتے جاتے تھے۔ میں نے عرض کیا کہ میں یہ کام کرتا ہوں، حضور میری عرض سن لیں۔ فرمایا: آپ بھی میرے ساتھ یہ کام کرتے جائیں اور باتیں بھی کرتے جائیں۔ اس زمانہ میں حضورؑ خود ہی ساراکام کرتے تھے اور انتہائی محنت سے کام کرتے تھے۔
حضرت مفتی محمد صادق صاحبؓ کے حوالہ سے حضرت شیخ صاحبؓ بیان فرماتے ہیں کہ ایک احمدی دوست کے مالی تنگی کا ذکر کرنے پر حضور علیہ السلام نے فرمایا کہ یہ دعا مانگتے رہا کریں-

اللّٰھُمَّ اسْتُرْ عَوْرٰاتِیْ وَاٰمِنْ رَوْعَاتِیْ۔

ڈلہوزی میں تقویت ایمان کے واقعات

1910ء کے موسم گرما میں آپؓ کو دفتری امور کے سلسلہ میں ڈلہوزی جانا پڑا جہاں ایسے کئی واقعات پیش آئے جو آپؓ کے ایمان کی تقویت کا موجب ہوئے۔ اس سفر میں آپؓ کے ہمراہ اہلیہ کے علاوہ بعض دیگر عزیز بھی تھے۔ آپ بیان فرماتے ہیں کہ ہم ایک سرکاری پردہ دار بیلوں والے تانگے میں تھے۔تین چار تانگے ہندو کلرکوں کے تھے۔ ہم شام کے وقت دُنیرا کے پڑاؤ پر پہنچے تو وہاں کے ہندو سٹور کیپروں نے اپنے ہندو بھائیوں کوخیمے دے دیئے، جن میں ان کے اہل و عیال اتر پڑے اور میں کھڑا رہ گیا۔ ہر چند اِدھر اُدھر مکانات اور خیموں کی تلاش کی مگر بے سود۔ ایک عزیز نے گھبراکر مجھے کہا کہ رات سر پر آگئی ہے اب کیاہوگا؟۔ میں نے کہا ’’خداداری چہ غم داری‘‘۔ خدا ضرور کوئی سامان کرے گا۔ اتنے میں ایک گھڑ سوار آیا اور اس نے مجھے محبت سے سلام کیا اور کہا: ہیں آپ کہاں؟۔ میں نے قصہ سنایا تو کہنے لگا کہ آپ ذرا ٹھہریئے میں ابھی آتا ہوں۔ تھوڑی دیر میں وہ ایک خیمہ اور گھاس لایا اور چند سپاہی بھی۔ جن کے ذریعہ اس نے خیمہ لگوایا۔ اور گھاس اس میں بچھا کر کہا: اپنے گھر والوں کو اس میں اتار دیں۔ پھر ایک اور خیمہ بطور بیت الخلاء کے لگوا دیا۔پھر کہا کہ میں آپ کے لئے کھانا لاتا ہوں، مگر کچھ دیر ہوجائے گی، آپ معاف کریں۔ چنانچہ ضروری سامان پانی وغیرہ بھجواکر خود قریباً گیارہ بجے رات کے کھانا زردہ، دال روٹی وغیرہ لایا۔اور معذرت کرنے لگا کہ چونکہ دیر ہوگئی تھی گوشت نہیں مل سکا، دال ہی مل سکی، آپ یہی قبول فرمائیں۔پھر پوچھنے پر کہنے لگا کہ آپ مجھے نہیں جانتے۔ میں نے کہا معاف کریں مجھے آپ سے ایک دفعہ کی ملاقات کا شبہ پڑتا ہے وہ بھی کچھ یاد نہیں کہ کہاں ہوئی تھی۔ تو اس نے کہا کہ آپ نے میری درخواست لکھی تھی جس پر مجھے دفعداری مل گئی تھی۔اس لئے میں آپ کا شکرگزار ہوں۔ اور کہا اب رات بہت ہوگئی ہے، میں جاتا ہوں، چند آدمی چھوڑے جاتا ہوں جو رات کو آپ کا پہرہ بھی دیں گے تاکہ سامان چوری نہ ہو اور بعد روانگی خیمہ وغیرہ بھی سنبھال لیں گے۔ میں نے سجداتِ شکر ادا کئے۔اور اللہ تعالیٰ کی اس بندہ نوازی نے میرے ایمان میں بڑی ترقی بخشی۔
آپؓ مزید بیان فرماتے ہیں کہ ڈلہوزی میں ایک ایسے مکان میں اترا جہاں قریب کوئی احمدی نہ تھا۔ کوتوال عبدالغفار صاحب کا مکان راستہ میں پڑتا تھا۔ وہ مجھے آتے جاتے دیکھتے رہتے تھے۔ ان کے مکان پر اکثر بڑے بڑے لوگ اترتے تھے۔ میں کوتوال صاحب کو سلام کر کے گزرتا مگر کبھی ان کے پاس نہ بیٹھتا۔ ایک روز انہوں نے کہا آپ میرے پاس کیوں نہیں بیٹھتے؟۔ میں نے کہا کہ جن چیزوں کی آپ کے پاس افراط ہے ، جنہیں آپ کے مہمان پسند کرتے ہیں، میں ان اشیاء کا نہ شائق ہوں نہ طلب گار، مجھے تو ایسے لوگوں کے پاس بیٹھنے کی خواہش ہوتی ہے جو خدا کی باتیں کریں یا سنیں۔ اُن کی آنکھوں میں آنسو آگئے اور مجھے کہا کہ مجھے تو آپ جیسے لوگ پسند ہیں۔ میں اُنہیں باہر لے گیا۔ انہوں نے دل کھول کر باتیں کیں۔ اور کہا کہ یہ دنیادار تو میرے پاس کھانے پینے کے لئے آجاتے ہیں، حقیقت میں ان کو نہ مجھ سے محبت ہے نہ مجھے ان کی خواہش، مجھے تو باخدا لوگوں کی خواہش ہے۔ سو شکر ہے کہ آپ مل گئے ہیں۔ میں نے کہا ہمارے سلسلہ میں ایک نوجوان ایسا ہے جس کا تعلق خدا کے ساتھ ہے۔ کہنے لگا کہ وہ کون؟۔ میں نے کہا کہ ’مرزا محمود احمد صاحب آف قادیان‘۔اس پر انہوں نے ملنے کی بڑی خواہش ظاہر کی۔ اس خواہش صادق کو اللہ تعالیٰ نے یوں پورا کردیا کہ کچھ روز بعد جب مَیں قادیان گیا تو معلوم ہوا کہ حضرت صاحبزادہ مرزا محمود احمد صاحبؓ ڈلہوزی تشریف لے جارہے ہیں۔تھوڑی دیر میں آپ تشریف لائے تو میں نے عرض کیا وہاں کا کوتوال عبدالغفار خاں آپ سے ملنے کا بیحد مشتاق ہے۔ پھر میں نے اسی وقت ڈاک میں کوتوال صاحب کو اطلاع دی کہ وہ نوجوان صالح جن کا میں نے ذکر کیا تھا ڈلہوزی آرہے ہیں۔ بعد میں حضرت صاحبزادہ صاحبؓ نے مجھے خود بتایا کہ میراخط ملنے پر کوتوال نے شہر وچھاؤنی میں اپنے آدمی بھیجے کہ مرزا محموداحمد آف قادیان کا پتہ لگاؤ کہ وہ کہاں اترے ہیں۔ ان لوگوں نے سمجھا کہ وہ ایک بڑے پیر کے لڑکے ہیں اس لئے کسی خاص اہتمام اور خاص خدام کے ذریعہ آئے ہوں گے۔ آخر کوتوال صاحب ڈلہوزی شہر گئے تو انہیں معلوم ہوا کہ مَیں ایک احمدی بھائی کے مکان پر اترا ہوں۔ پھر انہوں نے آپ کا لفافہ دکھلاکر کہا کہ میں آپ کی تلاش کررہا ہوں۔ اب جو آپ مل گئے ہیں تو میرے مکان پر تشریف لائیں۔ پھر وہ مجھے چھاؤنی میں لائے اور چھاؤنی کے شرفاء کو دعوت دے کر بلایا اور مجھے کہا کہ آپ ان کو پہلے تبلیغ کریں، بعد میں کھانا کھلایا جائے گا۔ پھر مساجد میں لے جا کر بھی تبلیغی گفتگوکرائی۔

نماز کی ادائیگی کا شوق

حضرت شیخ صاحبؓ لکھتے ہیں کہ ڈلہوزی میں نماز ادا کرنے کے لئے میں دفترسے جایا کرتا تھا اس لئے مجھے ہندو کلرک اچھی نگاہ سے نہ دیکھتے تھے۔ ایک روز میجر جائرس کنٹریکٹ آفیسر کے پاس میری شکایت کی گئی تو اُس نے بلا کر پوچھا کہ کیا تم نماز کے لئے دفتر کے وقت میں چلے جاتے ہو؟ میں نے کہا یہ درست ہے۔ وہ کہنے لگا، جب تک میں اجازت نہ دوں تم نہیں جاسکتے۔ اُس وقت نماز ظہر کا وقت تھا۔ میں نے کہا: صاحب! میں نماز ضرور پڑھوں گا اور اگر آپ کو میری یہ بات ناگوار ہو تو میں آپ کو کہے دیتا ہوں کہ اب میں نماز کے لئے جاتا ہوں اور آپ مجھے اس سے روک نہیں سکتے۔
یہ کہہ کر میں اس کے سامنے دفتر سے نکل گیا اور سارے دفتر نے یہ نظارہ دیکھا۔ اس کے بعد چند روز تک دفتر نہ گیا۔ تو ہیڈ کلرک نے مجھے ایک رقعہ لکھا کہ دفتر میں آکر جواب دو کہ تم کیوں غیر حاضر ہورہے ہو۔ مَیں نے چپڑاسی کو جو چھٹی لایا تھا کہہ دیا کہ ہیڈ کلرک سے کہہ دو کہ اگر میرے ساتھ خط و کتابت کرنی ہے تو افسر کو کہو وہ مجھے لکھے پھر میں جواب دوں گا۔ افسر نے دوسرے روز مجھے رقعہ لکھ کر دفتر بلایا اور پوچھا کہ غیرحاضر کیوں ہو اور کیا چاہتے ہو؟۔ میں نے کہا دفتر سے اس لئے غیرحاضر ہوں کہ آپ مجھے نماز پڑھنے سے روکتے ہیں اور آپ جیسے افسر کے سامنے مجھے کسی قسم کی درخواست کرنے کی ضرورت نہیں۔ (حضرت خلیفۃالمسیح الثانیؓ نے میرے اس واقعہ کا ذکر اپنی کتاب ’’ملائکۃاللہ‘‘ میں کیا ہے)۔
افسر مذکور پر کچھ ایسا اثر ہوا جیسے کوئی ڈر جاتا ہے۔ زبان سے کچھ نہ بولا اور مجھے جرنیل کے دفتر میں لے گیا اور بغیر میری پیشی کے جو جرنیل کے پاس ہوئی تھی میرا استعفاء منظور کرالیا۔

حضرت خلیفۃالمسیح الاوّلؓ کی سیرت

حضرت شیخ صاحبؓ بیان فرماتے ہیں کہ ملازمت سے فارغ ہوکر مَیں اپنی بیمار بیوی کو لے کر قادیان آگیا اور مجھے صدر انجمن کے دفتر محاسب میں بطور کلرک بیس روپے ماہوار پر جگہ مل گئی۔ لیکن اس قلیل مشاہرہ میں گزارہ کرنا محال ہوگیا۔ بظاہر تو یہ ابتلاء تھا مگر حقیقت میں مَیں اس کو انعام ہی سمجھتا تھا۔ یہانتک کہ میری بیوی کی بیماری نے طول پکڑا۔ حضرت خلیفہ اوّلؓ نے علاج بھی بہت کیا مگر بخار نہ ٹوٹا، معلوم ہوتا تھا کہ مرض دق سل آخری منزل پر پہنچ چکا ہے۔ حضورؓ کے ارشاد پر کئی طبیبوں نے علاج کیا لیکن فرق نہ پڑا۔ ڈاکٹر بشارت احمد صاحب نے کہا کہ اس مریضہ میں اب کچھ نہیں رہا۔ حضورؓ کے احسانات دیکھ کر میرے دل میں حضرت خلیفہ اوّلؓ کے اخلاق حسنہ اور احسانات کی وجہ سے عشق کا رنگ پیدا ہوگیا تھا۔ ایک دفعہ رات کے تین بجے جب میری بیوی کا بخار بہت تیز ہوگیا تو مَیں حضورؓ کی خدمت میں حاضر ہوا۔ گھوڑی سے گرنے کی وجہ سے تکلیف کے باعث ان دنوں حضور مردانہ حصہ میں سوتے تھے اور احباب کو خدمت کرنے کا موقعہ ملتا تھا۔ میں حضرت کے حضور حاضر ہوکر چارپائی کے پاس خاموش ہوکر بیٹھ گیا۔ اتنے میں حضورؓ کی آنکھ کھلی تو حضورؓ نے السلام علیکم کہا اور فرمایا: کیا بات ہے؟ میں نے بخار کا حال عرض کیا تو فرمایا: پانی میں کپڑا تر کرکے ریڑھ کی ہڈی پر ملو یہانتک کہ بخار کم ہوجائے۔اور فرمایا ہم دعا کریں گے۔اور حضور کی دعا اور ارشاد پر عمل کرنے سے بخار کم ہوگیا۔

یہ واقعہ حضرت خلیفہ اوّلؓ کی سیرت کے ایک درخشندہ پہلو پر بھی روشنی ڈالتا ہے۔ حضور شدید بیمار ہیں۔ گھوڑے سے گر کر زخمی ہوئے ہیں اور مردانہ میں سونے کی تبھی ضرورت پڑی ہے تا ساری رات احباب کی خدمت میں رہ سکیں۔ ایسی حالت میں حضرت شیخ صاحبؓ تبھی طبی مشورے کے لئے حاضر ہوسکتے ہیں اور خدمت میں حاضر خدام بھی تبھی اجازت دے سکتے ہیں جب سب کو حق الیقین ہو کہ حضور خدمت خلق کے لئے وقف ہیں۔ اور ایسی شدید تکلیف میں بھی ایسے بے وقت مشورہ لینے کو ہرگز ناپسند نہ فرمائیں گے بلکہ اسے باعثِ ثواب وموجب راحت سمجھیں گے۔
حضرت شیخ صاحبؓ مزید بیان فرماتے ہیں کہ میری زوجہ اوّل کی بیماری کے ایام میں یہ بت میرے دماغ پر حاوی تھا کہ حضرت خلیفہ اوّلؓ کے علاج سے مریضہ کو شفاء کو ہوجائے گی کیونکہ آپؓ میرے مرشد ہیں اور باخدا ہیں اور پھر طبیب بھی اعلیٰ درجہ کے ہیں۔ مَیں حضور کو بار بار دعا کے لئے عرض کیا کرتا تھا۔ ایک روز بوقت عصر حضور نے مسجد مبارک کی سیڑھیوں کے پاس میرے کندھے پر ہاتھ رکھ کر فرمایا کہ بعض دفعہ ایسا ہوتا ہے کہ کسی جوان کو پیٹ درد محسوس ہوتی ہے تو وہ خیال کرتا ہے کہ ذرا چلنے پھرنے سے یا ورزش کرنے سے دُور ہوجائے گی۔ جب دُور نہیں ہوتی تو اپنی بیوی سے ذکر کرتا ہے جو کہتی ہے کہ میں ابھی چائے وغیرہ تیار کرکے دیتی ہوں اس سے آرام آجائے گا۔ جب اس سے بھی آرام نہیں آتا تو محلہ کے کسی طبیب سے دوائی پیتا ہے۔ پھر بھی آرام نہیں ہوتا تو شہر کے بڑے طبیب کے پاس جاتا ہے- اس کے علاج سے بھی آرام نہیں آتا تو اسے خیال آتا ہے کہ علاج سے تو شفاء نہیں ہوئی تب وہ کسی باخدا بزرگ کی خدمت میں حاضر ہوکر اپنا حال عرض کرتا ہے اور کہتا ہے کہ دنیا کے علاج ومعالجہ سے تو کچھ نہیں ہوا اگر حضور نے دعا کی تو امید ہے شفاء ہوجائے گی۔ مگر جب اس باخدا بزرگ کی دعاؤں سے بھی فائدہ نہیں ہوتا تو وہ خدا کے حضور سجدہ میں گرجاتا ہے یہ کہتے ہوئے کہ اے خدا میں نے ساراجہان دیکھ لیا مگر میری مصیبت دور نہیں ہوئی۔ اب تیرے دروازہ پر آیا ہوں۔ اب تو رحم فرما اور میرے گناہ بخش کر مجھے شفاء دے تو اللہ تعالیٰ اس پر رحم کرتا ہے اور اسے شفاء دے دیتا ہے۔ یہ فرماکر حضور مسجد مبارک کی سیڑھیوں پر چڑھنے لگ گئے اور میں بھی ساتھ مسجد مبارک میں چلا گیا۔
1912ء میں مَیں راولپنڈی سے مع اہلیہ اوّل دو ماہ کی رخصت لے کر قادیان آیا۔ تو ایک روز گھر آنے پر اہلیہ نے بتلایا کہ مولوی عبدالحیٔ صاحب خلف الصدق حضرت خلیفہ اوّلؓ آئے تھے اور مجھے گھر نہ پاکر واپس چلے گئے۔ مجھے فکر پیدا ہوا کہ کوئی خاص بات ہی ہوگی جو وہ میرے مکان پر آئے تھے۔ مَیں جلدی جلدی گیا تو وہ حضورؓ کے مکان کے بیرونی دروازہ پر ہی مل گئے۔ میں نے عرض کیا کہ آپ کو میرے مکان تک تکلیف کرنے کی کیا وجہ ہوئی۔ خیر تو تھی؟۔ انہوں نے بڑی خوشی کا اظہار کرتے ہوئے فرمایا کہ چونکہ ابّاجان کو آپ سے محبت ہے اس لئے میں آپ کے دولت خانہ پر آپ کی ملاقات کے لئے گیا تھا۔ اور پھر باتوں باتوں میں مجھے کہا کہ کیا آپ کو معلوم ہے کہ آپ کی اہلیہ صاحبہ کو بیماری سے شفاء کس طرح ہوئی ہے؟ میں نے کہا نہیں۔ تو بتایا کہ جن ایام میں آپ اباجان کی خدمت میں دعا کے لئے عرض کیا کرتے تھے۔ انہی دنوں ایک روز اباجان گھر میں تشریف لائے اور فرمایا کہ فضل احمد کو اپنی بیوی سے بڑی محبت ہے اور ہمیں فضل احمد سے محبت ہے۔ ان کی بیوی کا ہر چند ہم نے علاج کیا مگر فائدہ نہیں ہوتا، اس لئے ان کے لئے اب اللہ تعالیٰ کے حضور دعا کرتے ہیں۔ یہ کہہ کر حضور ایک مصلّٰی پر جو صحن میں پڑا تھا سجدہ میں گر گئے اور بڑی دیر تک دعا کی، جس کے بعد وہ صحتیاب ہو گئیں۔
آپؓ بیان فرماتے ہیں کہ 1911ء میں میرے گزارے کی تنگی کا ذکر میری ہمشیرہ نے حضورؓ سے کردیا۔ آپؓ کے دریافت فرمانے پر مَیں نے حالات بیان کئے تو فرمایا کہ کیا کوئی افسر واقف ہے؟۔ ایجاب میں جواب دینے پر فرمایا: اس کو لکھو اور ملازمت کے لئے کوشش کرو۔ چنانچہ میں نے اپنے ایک ا فسر کونوشہرہ خط لکھا تو اُس کا تار ملا کہ فوراً پہنچ کر رپورٹ کرو۔ تار دکھلانے پر حضور خوش ہوئے اور اجازت دی۔ میں نوشہرہ پہنچا تو فوراً قلعہ چکورہ بھجوایا گیا جہاں بطور نائب سٹورکیپر کام کرتا تھا۔ میری شہرت ہوچکی تھی کہ احمدی ہوں اس لئے وہاں کے نانبائی نے جو پٹھان تھا روٹی نہ دی۔ چنانچہ چند پیڑے منگواکر صبح ان کو بطور سحری کھا کر روزہ رکھ لیا مگر بہت ضعف ہو گیا۔ دوسرے تیسرے روز سٹورکیپر کو جو ہندو تھا اس تکلیف کا علم ہوا تو اُس نے سحری اور شام کی روٹی کا انتظام کردیا اور پھر وہ نانبائی بھی روٹی دینے لگ گیا۔
جب میں چکورہ جانے لگا تو کسی نے بتایا کہ وہاں کا ملیریا کا موسم بہت خطرناک ہے اور وہاں تو پتھروں کو بھی ملیریا ہوجاتا ہے۔ مجھے بہت فکر ہوا اور میں نے آنحضرت ﷺکی بتائی ہوئی دعا

اللّٰھم ربّ السّمٰوٰت السّبع (الخ)

بہت عاجزی سے پڑھی۔ حضرت خلیفہ اوّلؓ فرماتے تھے کہ اگر کسی وبازدہ شہر میں جانا پڑے تو اس دعا کے پڑھنے والے کو اللہ تعالیٰ اس وبا سے بچا لے گا۔ قلعہ چکورہ کے پاس دریا کا پانی وہاں کی فصل والی زمین میں سے گزرتا ہے جسے سب پیتے ہیں۔ اس لئے ملیریا ہوجاتا ہے۔
تین ماہ بعد میرے ایک مہربان افسر میجر AWD ہیرنگٹن کمانڈنٹ کیمل کور نے مجھے راولپنڈی بلالیا اور حکم دیا کہ رہائش ان کی کوٹھی پر ہی رکھوں۔ ہیڈکلرک کی اس آسامی کے لئے دوسرے لوگ بڑی کوششیں کر رہے تھے جو حضورؓ کی دعاؤں سے اللہ تعالیٰ نے مجھے عطا فرمادی۔ اسی دوران ایک لیفٹیننٹ پرتھی سنگھ جو راجپوتانہ کے کسی ہندو سردار کی اولاد میں سے تھے، وہاں متعین ہوئے۔ یہ شخص بڑا متعصب تھا اور مجھے نفرت سے دیکھتا تھا۔ میں نے ایک خواب میں دیکھا جس سے معلوم ہوا کہ یہ جلدی چلاجائے گا اور واپس نہ آئے گا۔ میں نے اس خواب کی خوب تشہیر کی۔ اس پر اُس نے اپنے بدارادے کا اظہار بھی کیا لیکن جلد ہی اُسے فیلڈ میں بھجوادیا گیا اور پھر وہ واپس نہ آیا۔

حضور خلیفۃالمسیح الاوّلؓ کی نظر میں
حضرت صاحبزادہ مرزا محمود احمد صاحبؓ کا مقام

حضرت خلیفہ اوّلؓ حضرت صاحبزادہ صاحبؓ( خلیفہ ثانی ) کا بہت احترام فرماتے تھے۔ حضرت شیخ فضل احمد صاحبؓ اس حوالہ سے متعدد چشم دید واقعات تحریر فرماتے ہیں۔ نیز آپ بیان فرماتے ہیں کہ میں اُس خطبہ جمعہ میں موجود تھا جس میں حضرت خلیفہ اوّلؓ نے فرمایا کہ سلیمان تونسوی بائیس سال کی عمر میں خلیفہ ہوئے اور اٹھہتر سال انہوں نے خلافت کی۔ یہ خطبہ آپ نے غالباً غیر توسیع شدہ مسجد اقصیٰ میں دیا تھا۔
آپ مزید فرماتے ہیں کہ ایک جلسہ مدرسہ احمدیہ کے صحن میں ہوا تھا۔ حضرت میاں محمود احمد صاحبؓ نے کوٹ پہننے کا ارادہ کیا تو حضرت خلیفہ اوّلؓ نے آپؓ کو کوٹ پہننے میں مدد دی۔
آپؓ مزید فرماتے ہیں کہ غالباً 1913ء میں حضرت خلیفہ اوّلؓ کی خدمت میں خاکسار آپ کے دولت خانہ میں حاضر تھا۔ اتنے میں میاں محمود احمد صاحبؓ خدمت میں حاضر ہوئے۔ آپ کی آمد پر حضرت خلیفہ اوّلؓ اپنی جگہ سے ہلے، جیسے کوئی معزز مہمان کے لئے جگہ خالی کرتا ہے۔ ایسی عزت افزائی آپ کی کسی اور کو کرتے میں نے نہیں دیکھا۔

حضرت مرزا بشیر الدین محمود احمد المصلح الموعود
6،7مئی1911 ء کواحمدیہ انجمن بٹالہ کا پہلا سالانہ جلسہ تھا جو حضرت صاحبزادہ صاحبؓ کی زیر صدارت منعقد ہوا۔ جلسہ سے قبل منتظم جلسہ حضرت شیخ عبدالرشید صاحبؓ نے مجھے قادیان بھیجا کہ حضورؓ کی خدمت میں عرض کروں کہ حضرت صاحبزادہ صاحبؓ کی ایک تقریر پروگرام میں شامل ہے لیکن احباب کی خواہش ہے کہ آپؓ دو تقریریں کریں۔ جب میں نے حضورؓ کی خدمت میں یہ عرض کیا توفرمایا کہ اس میں تو باپ والا رنگ ہے۔ میں اس کی تقریر نہیں برداشت کرسکتا تو بٹالہ والے ایسے کہاں کے آگئے کہ اس کی دو تقریریں سُن لیں گے۔
حضرت شیخ فضل احمد صاحبؓ مزید بیان فرماتے ہیں کہ تعلیم الاسلام ہائی سکول کی بنیاد رکھنے کے لئے جب حضرت خلیفہ اوّلؓ تشریف لائے تو بنیادی اینٹیں رکھ کر ارشاد فرمایا کہ حضرت مرزا محمود احمد صاحب ؓ، حضرت مرزا بشیر احمد صاحب ؓ، حضرت مرزا شریف احمد صاحبؓ اور حضرت نواب محمد علی خانصاحبؓ سے بھی رکھوائیں۔

حضرت خلیفہ اوّلؓ کے ساتھ ذاتی تعلق

حضرت شیخ صاحبؓ بیان فرماتے ہیں کہ حضرت خلیفہ اوّلؓ کی مجلس میں مجھے بکثرت بیٹھنے کا موقعہ ملا۔ پہلے تو حضورؓ مجھے ’آپ‘ کے لفظ سے مخاطب فرماتے تھے۔ پھر ’اوئے‘کہہ کر پکارنے لگے جس سے مجھے بڑی خوشی ہوتی۔
ایک زمانہ تھا کہ میں آپؓ کی خدمت میں جلدی جلدی عریضہ دعا بھیجا کرتا تھا۔ ان دنوں کارڈ کی قیمت ایک پیسہ تھی۔ میں کارڈ لیتا اور کوئی شعر یا فقرہ لکھ بھیجتا۔ میرے دل میں یہ ہوا کرتا تھا کہ حضورؓ کو تو خدا تعالیٰ نے جو توجہ اور کشش بخشی ہے کہ اگر آپ میرے جیسے خاک سے بھی بدتر انسان پردعا اور توجہ فرمائیں تو میں سونا بن سکتا ہوں۔ آپؓ کے دل پر میرے ان عریضوں کا اثر ہوتا تھا۔ مگر مجھے علم نہ تھا کہ اثر ہے بھی کہ نہیں اور اگر ہے تو کتنا!۔ لیکن 1910ء میں جب حکیم فضل حق بٹالوی صاحب نے میرے ذریعے بیعت کرلی تو مَیں انہیں لے کر قادیان آیا۔ مسجد اقصیٰ میں حضورؓ تشریف فرماتھے۔ حضورؓ نے میری طرف اشارہ کرکے حکیم صاحب کو فرمایا کہ خطوط کے ذریعہ محبت بڑھانا اِن سے سیکھیں۔ اُس وقت مجھے سمجھ آیا کہ میرے خطوط کا حضورؓ کے دل پر اتنا اثر تھا۔
ایک موقعہ پر حضورؓ کی زیارت کے لئے بہت سے احباب آپؓ کے مکان پر جمع تھے۔ بابو عبدالحمید صاحب پٹیالوی اور میں پیچھے سے آئے۔ ہمیں آپؓ تک پہنچنے میں قریباً ایک گھنٹہ لگ گیا۔ بابو صاحب کو دیکھتے ہی حضورؓ نے حال پوچھا۔ اتنے میں کوئی دوست سنگترے لایا۔ تو فرمایا کہ اتنے سنگترے بیوی صاحبہ (یعنی حضرت ام المؤمنینؓ) کو بھیج دیئے جائیں اور کچھ اندر زنانہ میں۔ اور ایک سنگترہ مجھے دیا جس سے میں نے سمجھا کہ حضور کو میرے حال پر توجہ ہے۔

حضرت خلیفۃالمسیح الاوّلؓ کی سیرۃ کے چند انداز

حضرت شیخ صاحبؓ نے حضرت خلیفہ اوّلؓ کی پاکیزہ سیرۃ سے متعلق بہت مفید اور اہم امور بیان فرمائے ہیں۔ جن میں سے چند ذیل میں پیش ہیں:


ذکر الٰہی: حضرت خلیفہ اوّلؓ نماز عصر سے نماز مغرب تک تنہائی میں درود شریف پڑھا کرتے تھے اور فرماتے تھے کہ جمعہ کے روز نماز عصر میں ایک خاص گھڑی دعا کی قبولیت کی آتی ہے۔
قبولیت دعا: ایک روز حضورؓ نے فرمایا کہ ایک احمدی فوجی انڈین آفیسر ہمارے پاس آئے اور کہنے لگے کہ حضور دعا فرمائیں کہ میں لڑائی میں بھی نہ جاؤں اور مجھے تمغہ بھی مل جائے۔ میں نے کہا ہمیں تو آپ کے قواعد کا علم نہیں، معلوم نہیں تمغہ کس طرح ملا کرتا ہے۔ اس نے کہا کہ میڈل اسے ملتا ہے جو لڑائی میں جائے۔ میں نے کہا کہ پھر آپ کو بغیر لڑائی میں جانے کے کیونکر مل سکتا ہے۔ وہ کہنے لگے کہ حضور دعا فرمائیں۔ ہم نے کہا اچھا ہم دعا کریں گے۔ کچھ عرصہ کے بعد وہ آئے اور بتلایا کہ حضور کی دعا سے مجھے تمغہ مل گیا ہے۔ اور دریافت کرنے پر بتلایا کہ میںBase میں تھا کہ میرے نام حکم پہنچا کہ لڑائی کے میدان میں پہنچو۔ میں ڈرا مگر چل پڑا۔ ابھی تھوڑی دُور ہی گیا تھا مگر وہ حد پار کر چکا تھا جس کے عبور کرنے پر ایک فوجی افسر تمغہ کا حقدار متصوّر ہوتا ہے کہ پھر حکم ملا کہ واپس چلے آؤ۔ صبح ہوگئی ہے اور لڑائی بند ہے۔ اس طرح حضور کی دعا سے میں لڑائی پر بھی نہیں گیا اور مجھے تمغہ بھی مل گیا۔
٭ حضرت شیخ صاحبؓ بیان فرماتے ہیں کہ میں اپنی جوانی اور بچپن میں بہت دبلا پتلا تھا۔ جب میں ڈلہوزی سے استعفاء دے کر آیا اور حضرت خلیفہ اوّلؓ سے پھر ملازمت کرنے کی اجازت چاہی تو آپ نے فرمایا کہ تم نے انبالہ سے کیوں تبدیلی کرائی تھی۔ عرض کیا کہ وہ نوکری پنشن والی نہ تھی، تو فرمایا کہ تم کو کیا علم ہے کہ تمہاری عمر اتنی لمبی ہوگی کہ تم پنشن پاؤ گے؟ …… مجھے یقین ہے کہ حضور نے میری اس خواہش کا خیال رکھتے ہوئے جہاں میری ملازمت وغیرہ کے لئے دعا کی ہوگی وہاں میری عمر اور پنشن کے لئے بھی دعا کی ہوگی۔ کیونکہ میرے وہم میں بھی نہ آتا تھا کہ میں اتنی لمبی عمر پاؤں گا یعنی چوراسی سال اور میں قریباً تینتیس33 سال سے پنشن پارہا ہوں۔
عشق رسولﷺ: ایک روز مَیں حضورؓ کی مجلس میں بیٹھا ہوا تھا۔ دیکھا کہ آپؓ ایک ہلکے گلابی رنگ کے پھول کو کبھی بوسہ دیتے ہیں اور پھر اسے اپنی آنکھ پر رکھ لیتے ہیں اور بار بار ایسا کرتے ہیں۔ کچھ دیر بعد فرمایا کہ مجھے حضرت نبی کریم ﷺ کی یاد آرہی تھی۔ حضورؐ کے رخسار مبارک بھی ایسے ہی گلابی رنگ کے تھے۔
بائبل کی تعظیم: مکرم شیخ محمد تیمور صاحب ایم – اے حضرت خلیفہ اوّلؓ کے ہاں رہتے تھے اور آپؓ اُن سے بڑے پیار اور محبت سے پیش آتے تھے۔ انہوں نے ایک دن کوئی کتاب آپؓ کے مکان میں ایک طاق میں کتابوں کے اوپر رکھ دی۔ حضرت کی نظر پڑ گئی۔ چونکہ وہ کتاب بائبل کے اوپر رکھی گئی تھی، فرمایا کہ توراۃ اگرچہ محّرف و مبّدل ہے مگر پھر بھی خدا کی کتاب ہے۔ اس کاا دب کرنا چاہئے۔ اور اس کے اوپر کوئی معمولی کتاب نہیں رکھنی چاہئے۔
تکلّفات سے نفرت: ایک دفعہ مطب میں سے آپؓ جانے لگے تو ہم سب اٹھ کر کھڑے ہوگئے۔ اور آپؓ کی واپسی پر پھر کھڑے ہوگئے۔ فرمایا کہ میں تمہارے اٹھنے بیٹھنے پر خوش نہیں ہوتا۔ گویا حضور اسے ایک رسمی عزت سمجھتے تھے، اس لئے ایسی عزت افزائی کو کچھ خیال میں نہ لاتے تھے۔
الحُبّ و البُغض للہ: راولپنڈی سے آمدہ ایک احمدی دوست سے حضرت خلیفہ اوّلؓ نے کمال مہربانی سے خاکسار کا حال پوچھا تو اُن صاحب نے اپنی خاص طرز سے جس میں مذاق کا رنگ زیادہ ہوتا تھا ، عرض کیا کہ فضل احمد تو کوئی راجہ اترا ہوا ہے، اس کے مکان پر بڑے کھانے تیار ہوتے رہتے ہیں۔ حضورؓ نے فرمایا کہ اگر ان کے پاس اتنا روپیہ ہے تو وہ ہمیں کیوں نہیں بھیج دیتے تاکہ غرباء پر خرچ کیا جائے۔ واپس آکر ان صاحب نے یہ واقعہ سنایا تو مجھے بہت رنج ہوا۔ میں نے خیال کیا کہ میں دعاؤں سے محروم ہوگیا ہوں اور حضور مجھ پرناراض ہیں۔ میں نے کہا کہ میں کہاں کا راجہ ہوں۔ آپ نے یہ کیا کہہ دیا؟… کچھ عرصہ کے بعد میں قادیان گیا تو حضورؓ کو اپنے مکان کے صحن میں کھڑا پایا۔ السلام علیکم عرض کیا تو فرمایا کہ ہم آپ پر خوش ہیں مگر قدرے ناراض بھی۔ عرض کیا کہ خوشی تو خوشی ہی ہے۔ میں حضورؓ کی ناراضگی کو بھی اس رنگ میں دیکھتا ہوں کہ آخر حضور مجھے اپنا خادم ہی سمجھتے ہیں جبھی تو ناراضگی کا ذکر فرماتے ہیں۔ اگر یہ خادم غیر ہوتا تو حضورؓ ناراض نہ ہوتے۔اس پر حضور بڑے خوش ہوئے اور پیدا شدہ ناراضگی کی بات آئی گئی ہوگئی۔
خدام کی دلداری: غالباً1905ء میں خاکسار قادیان آیا۔ میرے پاس زیادہ روپیہ نہ تھا، میں نے چند پیسوں کے کیلے بٹالہ سے خریدے۔ مگر یہ کیلے تازہ نہ تھے۔ بلکہ سیاہ رنگ کے ہوچکے تھے اور تھے بھی چھوٹے چھوٹے۔ وہی لے کر شرمندہ شرمندہ حضرت خلیفہ اوّلؓ کے حضور پہنچا۔ جب یہ پیش کئے اور دل ہی دل میں خوفزدہ ہورہا تھا کہ حضور شاید ناپسند کریں گے۔ مگر میری حیرت کی کوئی حد نہ رہی کہ حضرت نے خوشی سے لے کر کھانے شروع کر دیئے۔اور ایک یا دو میرے سامنے حضور نے کھائے اور باقی اپنے پاس رکھ لئے۔ الحمدللّہ، ثم الحمدللّہ
تعبیر رؤیا: ایک دفعہ میں نے حضرت خلیفہ اوّلؓ کی خدمت میں اپنی یا اپنی اورزوجہ اوّل کی خواب لکھی۔ جس میں یہ ذکر تھا کہ وہ حج کرکے آئی ہیں اور اپنی خواب میں بیت الخلاء کا ذکر کیا۔ جواب میں آپ نے رقم فرمایا : آپ کی بی بی انشاء اللہ تعالیٰ کسی اپنے مطلب میں کامیاب ہوگئی ہے، یا کامیاب ہو جائے گی۔ آپ کے متعلق بھی کامیابی کی امید ہے۔ مگر بیت الخلاء سے لگتا ہے کہ کچھ آپ کا خرچ ہوجائے گا۔ (28جون 1910ء )
1911ء میں یہ تعبیر ظاہر ہوئی جب میں کامیاب ہو کر کیمل کور میں ملازم ہوا اور جلد ہی ہیڈکلرک ہوگیا۔
النّصح للّٰہ : ایک دفعہ میری درخواست پر تحریر فرمایا:’’میں نے آپ کا اخلاص بھرا رقعہ پڑھا۔ قرآن میں لکھا ہے:

وأ تواالبیوت من ابوابھا۔

ہر ایک کام کا ایک دروازہ ہوتاہے اور اس ذریعہ سے وہ کام بابرکت ہوتا ہے۔ میری سمجھ میں ایسا آتا ہے کہ آپ اس آیت کونہیں سمجھے۔ سمجھ (دینا) اصل میں اللہ تعالیٰ کا ہی کام ہے۔…۔ اللہ تعالیٰ سمجھ دیدے گا۔‘‘ ( اگست 1908ء )
قرآن مجید سے عشق: حضرت خلیفہ اوّلؓ گھوڑے سے گرنے کے بعد ایک شام حفّاظ سے قرآن کریم سن رہے تھے۔ حافظ قاضی عبدالرحمن صاحب نے سورہ محمد سنائی۔ فرمایا کہ عام طور پر حفّاظ یہ سورت نہیں پڑھا کرتے کیونکہ اس میں ترنم کم ہوتا ہے۔ غالباً اسی شام حافظ محمود اللہ شاہ صاحب اور حافظ عزیز اللہ شاہ صاحبؓ نے قرآن سنایا تو فرمایا کہ مجھے تمہارے ماں باپ پر رشک آتا ہے کہ کیسی نیک اولاد اللہ تعالیٰ نے ان کو دی ہے۔
بطلانِ وحدت الوجودیت: ایک موقعہ پر باتیں کرتے ہوئے حضورؓ نے مجھ سے میرے ایک ماموں زاد بھائی کے حالات دریافت فرمائے تو میں نے کہا کہ حضور کے وہ عاشق ہیں۔ مگر ان کا عقیدہ یہ ہے کہ جو کچھ دنیا میں ہوتا ہے وہ خدا تعالیٰ ہی کراتا ہے۔ فرمایا کہ چکلے خدا تعالیٰ نے بنوائے ہیں!؟۔
تلقین صبرو رضا بالقضاء: ایک بار درس میں حضورؓ نے فارسی اشعار پڑھے جن کا مطلب یہ تھا کہ پہلے تو اس نے میرا مٹکا توڑ دیا اور میرا سرکہ جو اس میں تھا گرادیا۔ مگر میں نے کوئی گلہ نہ کیا کہ کیوں میرا نقصان کردیا۔ اس کے بعد ایک صد مٹکے عمدہ سر کہ کے مجھے صبر کے بدلے میں دیئے اور مجھے خوش کردیا۔ اس سے حضور نے سمجھایا کہ صبر کرنے والوں کو صبر سے بڑا انعام ملتا ہے۔
اسی طرح ایک دفعہ ایک شخص نے اپنی پریشانی کا ذکر کیا تو حضورؓ نے یہ شعر پڑھا:

سر نوشت ما بدستِ خودنوشت
خوش نویں است و نخواہد بدنوشت

اور فرمایا کہ جو خوش نویس ہوتا ہے وہ معمولی قلم سے بھی کچھ لکھے تو دوسروں کی نسبت سے اچھا لکھ لیتا ہے۔ برا لکھ ہی نہیں سکتا۔ (یعنی مالک تقدیر جو کچھ بھی لکھے گا اچھا ہی ہوگا)۔
وقار عمل: مسجد اقصیٰ کی توسیع خلافت اولیٰ میں ہوئی۔ میں نے دیکھا کہ حضرت خلیفہ اوّلؓ خود نیچے اترے اور ٹوکری مٹی کی بھری ہوئی اٹھانے لگے۔ اس پر احمدی احباب نے جلد ہی وہ جگہ صاف کردی۔ مٹّی باہر نکلوائی گئی۔ اور تعمیر کا کام شروع ہوگیا۔
یتیم پروری اور غریب پروری: ایک روز میاں عبدالوہاب صاحب حضرت کے پاس آئے اور پیسے مانگے۔آپؓ کسی کتاب کا مطالعہ کررہے تھے۔ آپؓ خاموش رہے۔ پاس ہی ایک زمیندار بھائی بیٹھے تھے۔ وہ اپنے پاس سے کچھ دینے لگے تو آپؓ نے انہیں منع فرمایا۔ انہوں نے اصرار کیا تو فرمایا کہ اس طرح بچوں کے اخلاق خراب ہوجاتے ہیں۔ وہ سمجھتے ہیں کہ ہمارے والد کے پاس جو لوگ بیٹھے ہیں وہ ہمیں کچھ نہ کچھ دیں گے۔ تھوڑی دیر تک آپؓ نے اپنے بچے کو کچھ نہ دیا اور وہ خاموش کھڑے رہے۔ اس وقت اُن کی عمر غالباً تین چار سال ہوگی۔ مگر تھوڑی دیر میں ایک یتیم بچہ آیا اور اس نے شاید رضائی بنوانے کے لئے پندرہ بیس روپے کا مطالبہ کیا جو آپ نے فوراً پورا کردیا۔
٭ ایک دن میں حضورؓ کی خدمت میں حاضر تھا۔ وہاں ایک نوجوان لڑکا جو بہت غریب تھا بیٹھا تھا۔ اتنے میں بعض احمدی معزز زمیندار آئے۔ اور اس غریب لڑکے کے متعلق سفارش کے طور پر عرض کیا کہ یہ واقعی غریب ہے۔ حضور خاموش رہے۔ جب ان افراد نے دوبارہ یہی بات کہی تو آپؓ نے حضرت حکیم صوفی غلام محمد صاحبؓ امرتسری کو ارشاد فرمایا کہ وہ بتلائیں کہ ہم اس نوجوان کے لئے کیا کررہے ہیں۔ صوفی صاحب نے بتایا کہ حضورؓ نے اس کے لئے پہلے فلاںاٹھارہ یا بیس روپے کی دوائی لاہور سے منگوائی جو موافق نہ آئی۔ پھر آپؓ نے فلاں دوائی منگوائی جس پر اتنے روپے خرچ ہوئے۔ پھر اس کے لئے پرہیزی کھانے کا انتظام کیا ہواہے۔اور اسے علیحدہ مکان دیا ہوا ہے اور اس پر بہت سا خرچ اب تک کیا ہے۔ حضورؓ نے ان زمیندار بھائیوں سے کہا کہ اگر ہمیں الٰہی خوف یا فرمایا کہ اگر الٰہی محبت نہ ہوتی تو کس طرح ہم اتنا خرچ اس پر کرتے۔ یہ بیچارہ تو بالکل نادار ہے۔
تمام حاضرین حضور کی فیاضی پر متعجب ہوئے۔
مثبت سوچ: حضورؓ کے سامنے کوئی بھینس لے کر آیا۔ اس نے گوبر کردی۔ چند لوگوں نے برا مانا اور تھوکنے لگے۔ حضورؓ نے فرمایا کہ تمہارے پاخانہ سے تو زیادہ بدبودار نہیں۔
جاذبیت: غالباً ملتان سے حضورؓ کے ایک غیر احمدی دوست علاج کے لئے آپؓ کے پاس آئے۔ آپؓ نے بڑی محبت اور محنت سے ان کا علاج کیا۔ شفایاب ہوکر انہوں نے بعض داڑھی منڈے نوجوانوں پر اعتراض کرتے ہوئے کہا کہ ایسے لڑکوں کو تنبیہہ کرنی چاہئے۔ فرمایا: آپ بھی عالم ہیں۔ آپ کا بھی حق ہے کہ نصیحت کریں۔ انہوں نے مسجد اقصیٰ میں غالباً صوبہ سرحد کے ایک نوجوان کو کچھ تنبیہہ کی تو وہ نوجوان غصہ سے کہنے لگا کہ ہم کو تو صرف حضور کا ڈر ہے ورنہ تمہیں اٹھا کر مسجد سے باہر پھینک دیتے۔ اُن صاحب نے جب حضورؓ کی خدمت میں یہ بات سنائی تو فرمایا کہ یہ جنّ ہمارے ہی قابو میں ہیں۔ مراد یہ تھی کہ آپ لوگوں کی نصیحت پر یہ بے قابو ہوجاتے ہیں، ہمارے کہنے پر عمل کرتے ہیں۔
غرباء کے السابقون بالایمان ہونے کی حکمت: ایک روز فرمایا کہ اگر انگلستان کا بادشاہ احمدی ہوجائے اور اس کے دل میں جوش پیدا ہو کہ میں اپنے مرشد و آقا کی زیارت کے لئے قادیان جاؤں اور وہ اپنے وزیر اعظم کو حکم دے کہ ہم قادیان جائیں گے، ہمارے لئے جہاز تیار کیا جائے۔ تو وزیر اعظم بھی فوراً کہے گا کہ مجھے بھی اجازت ہو کہ آپ کے ہمراہ جاؤں تو نتیجہ یہ ہوگا کہ جہازوں کا ایک قافلہ قادیان آنے کے لئے تیار ہوجائے گا اور وہ آخر کار جہازوں سے اتر کر سپیشل ٹرینوں میں بٹالہ آئے گا۔ …۔ پھر جب وہ قادیان پہنچ کر بادشاہ حضرت کے حضور حاضر ہوتا ہے، بیشمار تحفے تحائف حضرت اقدسؑ کی خدمت میں پیش کرتا ہے اور کچھ روز رہ کر واپس ولایت چلا جاتا ہے۔ تو وہاں جاکر اسے خیال آتاہے کہ میں نے حضرت صاحب کو کیا کچھ دیا۔ بے شمار تحفے تحائف، اور انہوں نے مجھے کیا دیا، کچھ نہیں۔ میں جیسا پہلے بادشاہ تھا، ویسا ہی اب بادشاہ ہوں۔ اس کا نتیجہ یہ ہوگا کہ اس کے دل میں وہ عزت وعظمت نہ رہے گی اور ایک منافقانہ کیفیت دل کی ہوجائے گی۔ دوسری طرف یہ معاملہ ہے کہ ایک غریب شخص حضرت اقدسؑ کی خدمت میں حاضر ہوکر ایمان لاتا ہے اور بیعت کرتا ہے، حضور کی دعاؤں کی برکت سے اعلیٰ سے اعلیٰ عہدے پر پہنچتا ہے تو وہ حضور کے احسان کو دیکھ کر قربان ہوجاتا ہے۔ اور کہتا ہے کہ میں غریب اورنادار تھا، حضور کی غلامی سے کیا سے کیا بن گیا اور وہ اخلاص میں ترقی کرجاتاہے ۔ پھر فرمایا کہ یہ حکمت الٰہی ہے جو بڑے بڑے لوگ سابقون میں نہیں آتے، غرباء ہی آتے ہیں۔ اگر پہلے بادشاہ آئیں تو منافق بن جائیں گے۔ مگر غرباء ایمان لاکر بادشاہ بن جاتے ہیں اور ایمان میں ترقی بھی کرجاتے ہیں۔
حساباً یسیراً کی لطیف تفسیر: ایک روز حکیم غلام محمد صاحبؓ امرتسری نے عرض کیا کہ قرآن شریف میں جو حساباً یسیراً آتا ہے، بتائیں وہ کس طرح ہوگا۔ فرمایا: اچھا۔
کچھ دن گزر گئے۔ اس اثناء میں جو رقم حضور کے پاس نذرانہ وغیرہ کی آئی، آپ حکیم صاحب موصوف کو اپنے پاس رکھنے کی ہدایت کرتے، اور جوجو خرچ ہوتا انہی سے کراتے۔ ایک دن حضور نے ان سے کہا کہ اس رقم کا حساب لکھ کر لائیں۔ چونکہ موصوف کو یہ خیال بھی نہ تھا اس لئے بہت گھبرائے۔ محض یادداشت کی بناء پر کچھ لکھا، کچھ یاد نہ آیا۔ آپؓ بار بار حساب طلب فرماتے۔ آخر وہی جو تھوڑا بہت لکھا تھا ڈرتے ڈرتے لے گئے۔ تو حضور نے دیکھ کر پوچھا کہ حساب میں فلاں فلاں آمد اور فلاں خرچ درج نہیں۔ تو حکیم صاحب کی گھبراہٹ کی کوئی حد نہ رہی۔ یہ حال دیکھ کر فرمایا کہ مولوی صاحب ہم جانتے ہیں کہ آپ دیانتدار ہیں، آپ نے خیانت نہیں کی، جاؤحساب ٹھیک ہے۔ پھر فرمایا آپ حساباً یسیراً کی تفسیر پوچھتے تھے، اسی طرح قیامت میں بھی ہوگا۔ تب مولوی صاحب کی جان میں جان آئی۔
کبھی بھوکا نہ رہنا: حضورؓ نے ایک بار فرمایا کہ ایک دفعہ ہم مہاراجہ کشمیر کے ساتھ سفر میں تھے، کہ راستہ میں لوگ منتشر ہوگئے۔ مہاراجہ اور مَیں اور مہاراجہ کے ایک دو غلام باقی رہ گئے۔ رات کو ایک ڈاک بنگلہ پر پہنچے تو دل لگی سے راجہ نے مجھے کہا کہ آپ کہا کرتے ہیں کہ میں رات کو بھوکا نہیں رہ سکتا، اب دیکھئے کیا ہوتا ہے۔ میں نے کہا کہ یہ درست ہے، میرے ساتھ بادشاہ ہے، میں بھوکا نہیں رہ سکتا۔ راجہ نے خیال کیا کہ بادشاہ سے مراد وہ خود ہیں اور اپنے ساتھ جو ملازم تھے اُن کو حکم دیا کہ مولوی صاحب کے لئے کھانا لاؤ خواہ کہیں سے لاؤ اور ان کو رات ہرگز بھوکا نہ رکھا جائے۔ ملازم میرے لئے کہیں سے کھانالائے اور مجھے جگا کر کھلایا۔ صبح ہوئی تو میں نے مہاراجہ سے کہا کہ آپ نے دیکھ لیا کہ کس طرح میرے بادشاہ (مراد حضرت رسول کریمﷺ) نے مجھے رات کھانا بھجوایا۔
1912ء میں مَیں حضورؓ کے بہت سے درسوں میں شامل ہوتا رہا۔ ایک درس نماز عشاء کے بعد ہوتا تھا جو آپ اپنی چھوٹی سی بیٹھک میں دیا کرتے تھے۔ اس درس میں ایک احمدی شیر فروش مسمّی محمد بخش صاحب آئے۔ ان کے ہاتھ میں ایک پیالہ تھا جو بالائی سے بھرا ہواتھا۔ انہوں نے کہا کہ حضور! آج سارا دن میرے دل میں یہی خواہش پیدا ہوتی رہی کہ آپ کے لئے بالائی لاؤں، سو دودھ کو جوش دیتا رہا اور جب ہلکی سی بالائی آجاتی تو اسے اتار کر پیالہ میں ڈال دیتا، حضور قبول فرمائیں۔ آپ نے پیالہ لے لیا اور فرمایا کہ ہم اندر گھر میں گئے تھے ۔ کھانا مانگنے پر کہا گیا کہ کھانا تو ختم ہوچکا ہے، بچوں نے کھا لیا ہے۔ مگر چونکہ ہمارا رات کا کھانا حضرت نبی کریمﷺ کے ذمہ ہے اس لئے وہ بالائی کی شکل میں آگیا ہے۔ اور یہ بھی فرمایا کہ ہلکی بالائی ثقیل نہیں ہوتی اور پھر وہیں درس میں بالائی کھالی۔
مہاراجہ سے مرعوب نہ ہونا: حضرت خلیفہ اوّلؓ نے بیان کیا کہ ایک دفعہ مہاراجہ صاحب جموں کشمیر کشتی میں جھیل ڈل کی سیر کررہے تھے۔ مہاراجہ کو پوجا کرانے والا پنڈت اور چند اَور افراد بھی ہمراہ تھے۔ عصر کی نماز کا وقت ہونے پر میں نماز پڑھنے لگا، پنڈت نے کہا مہاراج آپ نے دیکھا کہ مولوی صاحب نے آپ سے اجازت لئے بغیر نماز پڑھنی شروع کردی ہے۔ مہاراجہ نے بات سنی مگر جواب نہ دیا۔ تھوڑی دیر بعد پنڈت نے پھر یہی بات دہرائی۔ مگر مہاراجہ نے خاموشی اختیا رکئے رکھی۔جب میں نے نماز پڑھ لی تو مہاراجہ نے مجھے مخاطب کرکے کہا کہ مولبی جی! (یعنی مولوی جی! وہ مولبی تحقیر سے نہیں کہتا تھا، بلکہ اس کی طرز تکلم ایسی ہی تھی) کیا آپ نے سنا کہ اس پنڈت نے کیا کہا؟۔ میں نے کہا کہ میں نے تو نہیں سنا، پھر تھوڑی دیر کے بعد مجھ سے پوچھا اور تیسری بار بھی پوچھا، میں نے ہربار یہی جواب دیا۔ … پھر پنڈت کی طرف غصہ سے دیکھ کر ایک خاص قسم کی گالی نکال کر جس کی عادت تھی کہا کہ یہ نہیں جانتا کہ آپ ہم سے ڈرنے والے نہیں۔ اگر آپ ڈرنے والے ہوتے تو پہلے اجازت مانگتے پھر نماز پڑھتے۔ مگر آپ نے تو خدا کی نماز پڑھنی تھی، اس لئے آپ کو خدا کا ڈر تھا ہمارا نہیں۔
علم قرآن کا عطا ہونا: ایک دفعہ حضرت خلیفہ اوّلؓ نے قرآن کریم کا درس دیتے ہوئے فرمایا کہ اللہ تعالیٰ نے مولا نا روم (یعنی مولانا جلال الدین رومیؒ) کو قرآن کریم کے سات بطن سمجھائے تھے۔ مگر میں تحدیث بالنعمتہ کے طور پر کہتا ہوں کہ میرے مولا نے مجھے بڑا آدمی بلکہ بہت بڑا آدمی بنایا ہے۔ اور مجھے قرآن کریم کا بڑا علم عطا کیا ہے۔ مراد یہ معلوم ہوتی ہے کہ ان سے بڑھ کر مجھے علمِ قرآن عطا کیا ہے۔
تعلق باللہ: ایک روز آپ کی خدمت میں حاضر ہوا۔ آپ نے کسی بات پر فرمایا کہ اولیاء اللہ عام طور پر خلوت کو پسند کرتے ہیں۔ تم اپنے مرزاؑ کو ہی دیکھ لو کہ وہ کس طرح خلوت پسند ہیں۔ بخلاف ان تمام اولیاء اللہ کے ایک نورالدین ہے جو جلوت میں رہتا ہے مگر اس کی تار خدا کے ساتھ ہر وقت لگی رہتی ہے۔
(آئندہ شمارہ میں جاری ہے۔ انشاء اللہ)

============================================
(مطبوعہ رسالہ انصارالدین یوکے، جولائی و اگست 2010ء)

حضرت شیخ فضل احمد صاحبؓ بٹالوی(1884-1968) کے حالات زندگی ’’اصحاب احمد‘‘ جلد سوم میں تفصیل سے شائع ہوئے ہیں جن کی تلخیص گزشتہ شمارہ سے شامل اشاعت کی جارہی ہے۔ پہلی قسط میں سیدنا حضرت خلیفۃالمسیح الاوّلؓ کی سیرۃ کے بارہ میں حضرت شیخ صاحبؓ کے مشاہدات بیان کئے گئے تھے۔ اس دوسری قسط میں آپؓ کے سیدنا حضرت مصلح موعود رضی اللہ عنہ کے ساتھ تعلقات اور پھر خلافت ثانیہ کے بابرکت دَور میں آپؓ کو مختلف مقامات پر جن خدمات کی توفیق ملی، اُن میں سے بعض واقعات و مشاہدات کو حضرت شیخ صاحبؓ کے الفاظ میں ہی پیش کیا جارہا ہے۔

قسط دوم:

حضرت صاحبزادہ مرزا محمود احمد صاحبؓ سے تعلقات

٭ حضرت شیخ فضل احمد صاحبؓ بیان فرماتے ہیں کہ جب حضرت صاحبزادہ مرزا محمود احمد صاحبؓ 1912ء میں حج کے لئے قادیان سے روانہ ہوئے اور بٹالہ سے ریل کے ذریعے امرتسر پہنچے تو خاکسار بھی ریل میں آپؓ کے پاس ہی بیٹھ کر امرتسر تک گیا اور راستہ میں دعا کے لئے بار بار عرض کرتا رہا تا آپ حج میں اور سفر میں میرے لئے دعا کریں۔ امرتسر سے گاڑی روانہ ہونے لگی تو حضرت بھائی عبدالرحمن صاحب قادیانیؓ نے مجھے کچھ رقم دی اور ایک تار فارم دیا جو حضرت صاحب کے کسی احمدی رشتہ دارکو دی گئی تھی کہ ہماری گاڑی فلاں روزفلاں سٹیشن پر پہنچے گی۔ آپ سٹیشن پر ملاقات کے لئے آجائیں۔ یہ بھی ہدایت کی کہ امرتسر سٹیشن سے تار بھجوادوں۔


٭ مجھے اس زمانہ میں حضرت صاحبزادہ صاحبؓ سے محبت کا گہرا تعلق تھا۔ 1912ء میں مَیں نے آپؓ سے قرآن مجید پڑھنے کی خواہش بھی کی۔ لیکن آپؓ کی عدیم الفرصتی مانع ہوئی اور آپ نے اس کا عذر کیا، لیکن آپؓ کی توجہ سے مجھے قرآن مجید کی محبت مل گئی۔
خلافت ثانیہ کی سرگرم تائیدات
٭ جولائی تا ستمبر1913 ء کے دوران کوہ مری میں میرا قیام رہا اور مَیں سیکرٹری جماعت بھی تھا۔ انہی ایام میں مولوی محمد علی صاحب، ڈاکٹر بشارت احمد صاحب اور صفدر جنگ صاحب بھی وہاں مقیم تھے۔ مولوی صاحب تفسیرالقرآن انگریزی کا کام کرتے تھے۔ اور نماز مغرب کبھی میرے مکان پر ورنہ دیگر نمازوں کی طرح اکثر مولوی صاحب کے مکان پر ہوتی تھی۔ ایک دفعہ مولوی صاحب نے مجھے آٹھ یا دس روپے دئے اور کہا کہ یہ چندہ ہے رسید کاٹ دیں۔ اور پوچھنے پر بھی چندہ دہندہ کا نام نہ بتایا۔ بلکہ کہا کہ نامعلوم اسم لکھ کر رسید کاٹ دیں۔ چنانچہ اسی ہدایت کے ساتھ مولوی صاحب مجھے چندہ دیتے رہتے تھے۔ اور میں حیران ہوتا تھا کہ یہ نامعلوم الاسم شخص بڑاہی مخیر ہے جو اپنا نام ظاہر کرنا نہیں چاہتا۔ ایک شب مولوی محمد علی صاحب کوہ مری سے سنی بنک روانہ ہوئے، ان کے ساتھ ڈاکٹر بشارت احمد صاحب تھے اور خاکسار بھی۔ غالباً ایک اور شخص بھی تھا۔ سنی بنک میں شیخ حسن محمد صاحب کی کوٹھی میں سے حافظ فضل احمد صاحب گجراتی باہر آئے۔ اور انہوں نے کم وبیش 12صد روپے دیئے جو مولوی صاحب نے لے کر اپنے نام پر سیونگ بینک پوسٹ آفس مری میں جمع کرا دیئے۔ کہا گیا تھا کہ یہ روپیہ رشوت کا تھا جو اس نامعلوم الاسم صاحب کا ہے جن کی رقم مجھے چندہ میں ملا کرتی تھی۔
٭ کوہ مری پر مجھے بھی مولوی محمد علی صاحب کی خدمت کا کافی موقعہ ملتا تھا۔ مولوی صاحب مجھے سلسلہ کا سرگرم کارکن دیکھ کر چاہتے تھے کہ مجھے اپنا ہم خیال بنا لیں۔ مگر چونکہ حضرت صاحبزادہ مرزا محمود احمد صاحبؓ سے بھی بڑی محبت تھی اس لئے کبھی کبھی جوش کے ساتھ میری زبان سے ایسے الفاظ نکل جاتے تھے جن سے حضورؓ کی محبت کا پتہ مولوی صاحب کو بھی لگ جاتا تھا۔ انہی ایام میں کانپور کی ایک مسجد کا قضیہ شروع ہوا۔ حضرت صاحبزادہ صاحبؓ نے مجھے ان دنوں کئی خطوط لکھے، جن میں سے ایک میں لکھا کہ :
’’مکرم منشی صاحب! السلام علیکم۔ اس اخبار(الفضل) میں جو لیڈر درج ہے اسے غور سے پڑھیں اور اسے لوگوں کو سنادیں۔ خواہ کوئی سنے یا نہ سنے۔ یہ مضمون اصل میں حضرت خلیفۃالمسیحؑ کا لکھوایا ہوا ہے۔ مگر آپ نے فرمایا اپنی طرف سے لکھو، اس میں کچھ حکمت ہے۔ اور فرمایا کہ خوب زور سے لکھو، ڈرنا نہیں، مخالفت ہوگی مگر حق کی مخالفت ہوا ہی کرتی ہے۔ والسلام ۔خاکسار مرزا محموداحمد‘‘
( غالباً اگست یا ستمبر 1913ء کی تاریخ درج تھی)
مولوی محمد علی صاحب ان دنوں بڑے جوش میں تھے اور کسی کی نہیں سنتے تھے اور ’’پیغام صلح‘‘ میں کانپور سے متعلق حضرت صاحبزادہ صاحبؓ کے مضامین کے خلاف لکھا کرتے تھے۔ جیسا کہ مذکورہ خط سے ظاہر ہے کہ گویا دراصل حضرت خلیفۃالمسیح الاوّلؓ کی ہی مخالفت ہوا کرتی تھی۔
حضورؓ کا اعتماد اور انصاراللّہ کے ٹریکٹ
ستمبر1913 ء کے آخر میں خاکسار واپس راولپنڈی آگیا۔ ان دنوں انصاراللہ کے ٹریکٹ شائع ہوا کرتے تھے۔ میرا نام بھی ان میں شائع ہوتا تھا۔ حالانکہ میں نے خود اپنا نام نہیں لکھوایا تھا۔ مجھے حضرت حافظ روشن علی صاحبؓ نے بتلایا کہ جب ٹریکٹ لکھے جانے لگے تو میں نے اور حضرت صاحبزادہ صاحبؓ نے آپ کا نام لے کر پوچھا کہ ان کی تحریر تو کوئی نہیں آئی، نام لکھا جائے یا نہ۔ تو آپؓ نے فرمایا ان کا نام شائع کرادیں، ان سے پوچھنے کی ضرورت نہیں۔ اس سے معلوم ہوتا ہے کہ حضورؓ کو خاکسار پر بڑا اعتماد تھا۔
ڈاکٹر بشارت احمد صاحب کو انصاراللہ کے ٹریکٹوں سے بڑی نفرت تھی اور وہ پسند نہ کرتے تھے کہ میں بھی انصاراللہ میں شامل رہوں اس لئے انہوں نے بعض باتیں بیان کیں تاکہ میرے ایمان کو متزلزل کیا جائے۔ میں نے ان کے تمام اعتراضات بطور سوالات حضرت مرزا محمود احمد صاحبؓ کی خدمت میں لکھ کر جواب کے لئے عرض کیا۔ تو آپؓ نے جواب میں ایک مفصّل خط لکھا۔ ان ایام میں ڈاکٹر بشارت احمد صاحب سے بھی مجھے بڑی محبت تھی اور عام طور پر راولپنڈی میں ہمیں یک جان دو قالب سے تعبیر کیا جاتا تھا۔ جب حضرت میاں صاحبؓ کا خط میں نے ان کو سنایا تو انہوں نے گھبرا کر کہا کہ بابو صاحب! آپ نے ایک عظیم الشان آدمی (یعنی حضرت مرزا محمود احمد صاحبؓ) کا دل دکھا دیا ہے۔ میں نے کہا مجھے تو اپنے ایمان سے غرض ہے اور جو اس کو بچائے اور اس میں ترقی کا موجب ہو وہ مجھے پیارا ہے۔ اور چونکہ آپ بھی میرے محبوب ہیں اور مرزا محمود احمد صاحبؓ بھی۔ مگر آپ دونوں میں اختلاف ہے اس لئے میں دو کشتیوں میں پاؤں نہیں رکھ سکتا۔ آج سے مَیں آپ کو مرزا محمود احمد صاحبؓ پر قربان کرتا ہوں۔ یہ کہتے ہوئے میں بائیسکل پر سوار ہوکر چلاگیا۔ اس وقت سے ڈاکٹر صاحب کے دل میں میرے لئے بغض پیدا ہوگیا۔ دراصل میرے لئے کانپور کی مسجد والا جھگڑا خداتعالیٰ کے فضل وکرم سے ایک خاص نعمت بن گیا کیونکہ اگر ڈاکٹر صاحب موصوف سے میرے تعلقات قائم رہتے تو میرے لئے بدترین ساتھی بنتے۔ اور مجھے گمراہ کرکے پیغامیوں میں ملالیتے۔
خلافت ثانیہ کا قیام اور تبلیغ کا جوش
٭ مارچ 1914ء میں ہمیں اطلاعات قادیان سے ملنے لگیں کہ حضرت خلیفہ اوّلؓ کی طبیعت علیل ہے اور ایسا اتفاق ہوا کہ غالباً 13مارچ کو مجھے دفتر میں جب تار یا خط ملا تو وہ تاریخ ہمارے دفتر کے معائنہ ہونے کی تھی۔ اور میرے لئے رخصت حاصل کرنا تقریباً ناممکن تھا۔ ڈاکٹر بشارت احمد صاحب کو تو مولوی محمد علی صاحب کی طرف سے خاص اطلاع ملتی تھی۔ وہ قادیان چلے گئے۔ حضرت خلیفہ اوّلؓ کی وفات 13مارچ کو ہوئی اور14 مارچ کو حضرت خلیفہ ثانیؓ منصبِ خلافت پر متمکن ہوئے۔ میں نے اطلاع پاتے ہی بیعت کا خط لکھ دیا۔ 20مارچ کو ڈاکٹر صاحب ابھی قادیان میں تھے، اس لئے سب احباب نے مجھے جمعہ پڑھانے کوکہا تو میرا خیال تھا کہ ڈاکٹر صاحب کااحباب پر اثر بھی تھا اور وہ خوش الحان بھی تھے۔ اس لئے میں نے خطبے کے شروع میں کہا کہ جن دوستوں نے نماز ڈاکٹر صاحب کے پیچھے پڑھنے کی نیت کی ہوئی ہے وہ سمجھ لیں کہ ان کی نماز اللہ تعالیٰ کی نماز نہیں ۔ اللہ تعالیٰ کی نماز وہ ہے جو محض اُس کے لئے پڑھی جائے خواہ پڑھانے والا کوئی بھی احمدی ہو، بڑا ہو یا چھوٹا، خوش الحان ہو یا بھدی آواز والا۔ بڑے علم والا ہو یا کم علم والا۔ وغیرہ۔ اس کا اثر دوستوں کے دلوں پر ہوا۔
٭ ڈاکٹر بشارت احمد صاحب واپس آکر اس امر کی تشہیر کرنے لگے کہ قادیان میں سوائے چند قادیانیوں کے اَور لوگوں نے بیعت نہیں کی، دوست مولوی محمد علی صاحب کے ساتھ ہیں۔ نیز حضرت خلیفہ اوّلؓ کی وفات کے ساتھ ہی اہل پیغام نے ایک گمنام ٹریکٹ کی اشاعت شروع کردی تھی جس سے احباب بیعت کرنے سے رُک گئے تھے۔ اور اس کا زیادہ اثر راولپنڈی میں تھا کیونکہ یہاں ڈاکٹر بشارت احمد صاحب درس دیا کرتے تھے۔ اگلے جمعہ میں ڈاکٹر صاحب نے نماز پڑھائی اور خطبہ میں حضرت مولوی محمد احسن صاحبؓ پر پھبتیاں اڑائیں اور کہا کہ ان کو تو قرآن کریم کی ہر آیت سے خلافت محمود ہی نکلتی نظر آتی ہے۔ نماز کے بعد میں نے احباب کو کہا کہ ڈاکٹر صاحب کا مولوی محمد احسن صاحبؓ پر ہنسی اڑانا بہت ناپسندیدہ امر ہے۔ آپ دوست ڈاکٹر صاحب سے پوچھیں کہ ایسے شخص کے متعلق آپ کیا کہتے ہیں جو رشوت کا روپیہ لے کے اپنے پاس جمع رکھتا ہے، یہ شخص مولوی محمد علی صاحب ہیں اور اس واقعہ کے میرے ساتھ خود ڈاکٹر بشارت احمد صاحب بھی گواہ ہیں۔ اس پر لوگوں میں ایک شور پڑ گیا۔ پھر اُسی وقت دو دوستوں نے مجھے بتایا کہ وہ بھی بیعت کرچکے ہیں۔ چنانچہ میں نے کہاکہ اب ہم تین احمدی مبائع ہوگئے ہیں، ہماری جماعت بن جائے گی۔ انشاء اللہ تعالیٰ۔
٭ پھر بحثیں بڑے زور سے گرم ہونے لگیں۔ میں نے ان میں اتنا حصہ لیا کہ قریباً روزانہ حضرت خلیفہ ثانیؓ کی خدمت میں رپورٹ بھجواتا اور میں نے سنا کہ حضورؓ میرا ذکر قادیان میں کیا کرتے تھے۔ یہ ایام میرے لئے ایام جہاد تھے۔ میں ہر وقت اس کوشش میں رہتا تھا کہ کسی پیغامی کو اپنے اندر جذب کرلیا جائے۔
مولوی علی احمد حقانی صاحبؓ کی بیعت
مولوی علی احمد صاحبؓ حقانی جو عالم متبحر اورخاکسارانہ طرز کے انسان تھے اور ڈاکٹر بشارت احمد صاحب کے ساتھ قادیان گئے تھے اور انہی کاا ثر لے کر واپس آئے تھے۔ میں ان سے ملنے گیا تو اپنی عادت کے مطابق بڑی محبت سے پیش آئے۔ وہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے زمانہ میں احمدی رہ چکے تھے۔ مگر ایک خواب کی بناء پر جس میں انہوں نے دیکھا کہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام مشرق کی طرف منہ کر کے نماز پڑھ رہے ہیں، احمدیت سے علیحدہ ہوگئے تھے۔ پھر حضرت خلیفہ اوّلؓ کی بیعت کی اور سلسلہ میں دوبارہ داخل ہوگئے۔ مگر ڈاکٹر بشارت احمد صاحب کی بد صحبت کی وجہ سے اب پھر ابتلاء میں پڑ گئے تھے۔ ملاقات میں معلوم ہوا کہ حقانی صاحب پیغامی حضرات کو راہ راست پر سمجھتے ہیں۔ بعض باتوں کے بعد میں نے پوچھا کیا آپ نے اس شخص سے ملاقات کی جو اپنے آپ کو خلیفۃالمسیح کہتا ہے اور ببانگ دہل اپنادعویٰ پیش کرتا ہے اور خدا تعالیٰ کو گواہ کرکے کہتا ہے کہ میرے منکر خدا تعالیٰ کی گرفت میں آجائیں گے؟۔ کہنے لگے نہیں، انہیں تو میں نہیں مل سکا۔ میں نے کہا آپ تب تک صبر کریں جب تک میں آپ کی اُن سے علیحدگی میں ملاقات نہ کرادوں۔ وہ مان گئے اور وعدہ کیا کہ قادیان جائیں گے۔
چنانچہ میں اور سید محمد اشرف صاحب ان کو اپریل1914 ء میں قادیان لے گئے۔ میں نے حضور کی خدمت میں عرض کیاکہ میں مولوی علی احمد صاحب حقانی کو اس وعدہ پر لایا ہوںکہ حضور سے علیحدگی میں ان کی ملاقات کرائی جائے گی۔ حضور نے فرمایا کہ میں آج رات آپ دونوں کو بلاؤں گا، مسجد مبارک میں رات کے وقت انتظار کریں۔ ہم لوگ بڑی دیر تک وہاں رہے، مگر ہمیں کسی نے نہ بلایا۔ دوسرے دن میں نے عرض کیا کہ ہمیں نہیں بلایا گیا تو فرمایا آج رات بلاؤں گا۔ مگر وہ رات بھی گزر گئی۔ تیسرے دن میں نے عرض کیا کہ ہماری رخصت کا یہ آخری دن ہے، کل صبح ہم نے ضرور واپس جانا ہے۔ فرمایاآج رات ضروربلوایا جائے گا۔ چنانچہ رات کے دس بجے کسی نے کو بھیج کر حضورؓ نے بلوالیا۔ دستک دینے پر حضورؓ نے خود دروازہ کھولا اور ہم دونوں کو اپنے پاس بیٹھنے کا ارشاد فرمایا۔ (غالباً حضورؓ نے اس ملاقات کے دوران گزشتہ دو راتوں میں نہ بلانے کی وجہ بیان کی ہوگی لیکن حضرت شیخ صاحبؓ نے اپنی یادداشت میں اس کا ذکر نہیں فرمایا)۔
حضرت شیخ صاحبؓ بیان فرماتے ہیں کہ ہمارا دل ابھی خوشی کی لذت محسوس ہی کررہا تھا کہ دروزاہ پر پھر دستک ہوئی اور حضرت صاحب خود ہی دروازہ کھولنے گئے۔ دیکھاتومولوی محمدعلی صاحب ہیں اور ان کے ساتھ ماسٹرفقیراللہ صاحب۔ حضورؓ ان دونوں کو ہمراہ لے کر کمرہ میں تشریف لائے۔ بیٹھنے پر مولوی محمد علی صاحب نے کہا مَیں چندروز کے لئے لاہور جارہا ہوں، میری طرف سے بیوی صاحبہ (حضرت امّ المؤمنین) کی خدمت میں میرا سلام عرض کردیں۔ اس کے بعد ہر دو صاحبان رخصت ہوگئے۔ حضرت صاحب دروازہ تک گئے اور دروازہ بند کرکے آگئے۔
میں نے حضرت صاحب سے عرض کیا کہ مولوی احمد علی صاحب خلیفہ اوّلؓ کی وفات پر قادیان آئے تھے اور مولوی محمد علی صاحب کے مکان پر ٹھہرے تھے۔ اب حضورؓ کے سامنے بیٹھے ہیں تاکہ سوال کر کے اپنی تسلی کرلیں۔ مولوی صاحب نے کہا کہ میں تین روز تقریریں سنتا رہا ہوں میرا دل صاف ہوگیاہے اور کوئی بات پوچھنے والی باقی نہیں رہی۔ میں نے خوش ہوکر حضرت صاحب کی خدمت میں عرض کیا کہ حضور! یہ بات الگ رہی، میں چاہتا ہوں کہ مولوی صاحب حضور سے کچھ سوالات کر کے جواب لیں۔ مولوی صاحب نے پھر انکار کیا اور کہا کہ میرے دل میں کوئی شبہ نہیں رہا، مجھے کچھ پوچھنے کی ضرورت نہیں رہی۔ میں نے زور دیا نیز حضورؓ سے عرض کیا کہ مولوی صاحب کوکہیں کہ ضرور سوال کریں۔ تو حضرت صاحب نے حضرت مسیح موعودؑ کی الہامات کی کاپی جو ’’ازالۂ اوہام‘‘ طبع اوّل کے سائز کی تھی اور قریباً اتنی ہی موٹی تھی کھول کر اس کاایک صفحہ ہمیں دکھلایا اور پڑھا جس میں تحریرتھا کہ آج محمود نے مجھے اپنی خواب سنائی۔ اور فرمایا کہ دیکھو یہ تحریر حضرت صاحب کی ہے، میں اس وقت بچہ تھا، میری تحریر نہیں اور خواب کی تعبیر یہی ہے کہ میں خلیفہ بنوں گا۔ اور ہمیں یہ دکھلاکرکہ اس کے دوسرے صفحوں پر حضرت مسیح موعودؑ کے اپنے الہامات حضور کی اپنی قلم سے لکھے ہوئے ہیں جن سے ہر قسم کا شبہ رفع ہوجاتاہے۔ فرمایا کہ یہ کام بھی میں خود ہی کرسکتا تھا کہ خود ہی خواب بنالوں اور اس کی تعبیر بھی یہ ہو کہ میں خلیفہ بنوں گا!۔
بعد ازاں میں نے پھر مولوی احمد علی حقّانی صاحب سے کہا کہ آپ کوئی سوال تو کریں۔ آخر تنگ آکر مولوی صاحب نے کوئی سوال کیا جس کا حضورؓ نے جواب دیا۔ اتنے میں بڑی رات ہوگئی۔ میں نے کہا کہ حضور! میں حضرت خلیفہ اوّلؓ کی وفات پر نہ آسکا اور حضور کی تحریری بیعت کرلی تھی۔ اب دستی بیعت کرنا چاہتا ہوں تو حضور نے ہاتھ بڑھایا اور میں نے حضورؓ کے ہاتھ پر ہاتھ رکھ کر بیعت کی۔ اس کے بعد حضورؓ نے دعا فرمائی۔ جب دعا ہوچکی اور میں تعجب اور حیرت میں ہی گرفتار تھا کہ یہ کیا ہوا کہ مولوی صاحب کہتے تویہ ہیں کہ میرا دل صاف ہوگیا ہے مگر بیعت بھی نہیں کرتے۔ اتنے میں مولوی صاحب نے عرض کیا کہ حضور میں بھی بیعت کرنا چاہتا ہوں۔ حضور نے ان کی بیعت بھی قبول فرمائی۔ اور دعاکی۔
میں نے حضرت کے حضور کسی وقت عرض کیا کہ مولوی صاحب میں انکسار بہت ہے۔ مجھے ڈر رہتا ہے کہ کبھی پیغامی انہیں دھوکا نہ دیدیں۔ ان دنوں نماز جمعہ مَیں ہی پڑھایا کرتا تھا۔ حضور نے فرمایا کہ ان کو امام بنالو۔ مجھے اور بھی خوشی ہوئی اور مولوی صاحب موصوف کو نمازوں میں امام بنادیا گیا۔ (الحمد للہ کہ حضرت حقّانی صاحب کا انجام بخیر ہوا۔ ان کے ایک فرزند مکرم چوہدری بشیراحمدصاحب حقّانیؓ B.A; L.L.B. کچھ عرصہ حضرت خلیفۃالمسیح الثانیؓ کے پرائیویٹ سیکرٹری بھی رہے تھے۔ ایک اور فرزند مکرم ماسٹر نذیر احمد صاحب رحمانی مدرس مدرسہ تعلیم الاسلام قادیان وربوہ بھی بہت مخلص بزرگ تھے)۔
حضورؓ کی نوازشات خسروانہ
٭ غالباً اپریل1914 ء کی بات ہے کہ حضرت خلیفۃ المسیح الثانیؓ مسجد مبارک میں تشریف لاتے اور پھر کسی کام کے لئے اندرون خانہ تشریف لے جاتے مگر کسی کو اجازت نہیں تھی کہ راستہ میں یعنی محراب مسجد مبارک سے بیت الفکر تک حضور سے مصافحہ کرے یا کوئی بات چیت کرے۔ حضور کے پیچھے پیچھے جو خادم حضور کے ساتھ جاتا تھا، اُسے میں نے ایک چھوٹے سے پرزہ کاغذ پر یہ شعر لکھ کردیا ؎

دیدار می نمائی و پرہیز می کُنی
بازارِ خویش وآتشِ ماتیزمی کُنی

(یعنی دیدار کی تو اجازت ہے مگر بات کرنے کی نہیں۔
اس سے تو مرے جذبۂ شوق کی آتش کچھ زیادہ ہی تیز ہورہی ہے)۔

تو حضور نے فرمایا کہ آپ اندر یعنی بیت الفکر میں آجائیں۔ آپ کو کس نے روکا ہے؟۔ یہ حضورؓ کی نوازش خسروانہ تھی۔ اندر چند احباب بیٹھے ہوئے تھے۔ میں بھی وہاں جابیٹھا۔ حضورؓ کا کھانا آیا تو حضورؓ نے مجھے بھی کھانے میں شمولیت کا شرف بخشا۔ الحمدللہ، ثم الحمدللہ۔
٭ 1919ء یا1920 ء میں ایک دفعہ میں حضورؓ کی زیارت کے لئے قادیان گیا۔ حضور نے میری اور بابو عبدالحمید صاحب پٹیالوی کی دعوت کی۔ اس دعوت میں حضرت خلیفہ ثانیؓ، حضرت صاحبزادہ مرزا ناصر احمد صاحب سلمہ اللہ تعالیٰ، بابو صاحب اور خاکسار تھے۔ وہ کمرہ جس میں حضورؓ تشریف لائے تھے سنا گیا تھا کہ محترمہ سیدہ ناصرہ بیگم صاحبہ سلمہا اللہ تعالیٰ کا تھا۔
حضورؓ نے ایک مرغ بِریاں ہماری طرف کر کے فرمایا کہ چھری سے کاٹ کرکھائیں۔ پھر خود ہی اسے کاٹنے لگے اور فرمایا کہ سخت ہے نرم نہیں۔ باقی اور کھانے بھی تھے جو ہم سب نے کھائے۔
٭ غالباً 1916ء میں مَیں بنوں میں ملازم تھا کہ حضرت مولوی علی احمد صاحب حقانی راولپنڈی سے قادیان تشریف لے گئے اور واپس آکر مجھے خط میں لکھا کہ دوران ملاقات حضورؓ نے آپ کا ذکر کیا تھا۔ میں نے مولوی صاحب کی خدمت میں لکھا کہ کیا ذکرآیا تھا۔ اس کے جواب میں مولوی صاحب مرحوم نے یہ شعر تحریرفرمایا:

مانی از تصویر یار دلستان خواہد کشید
حیرتے دارم کہ نازش راچساں خواہد کشید

یعنی میں حضرت خلیفہ ثانیؓ کے اس اندازِ محبوبانہ کی کس طرح تصویر کھینچوں جو حضور کے بیان کے وقت حضور کے چہرہ اور بشرہ سے ظاہر ہوتا تھا۔
مجھے یاد ہے کہ میں مدتوں یہ شعر ہی پڑھ کر مزے لیتا رہا۔
٭ غالباً 1920ء میں حضرت خلیفہ ثانیؓ نے مجھے مخاطب کر کے حضرت مولوی علی احمد صاحب حقانی کا یہ شعر پڑھا ؎

صورتِ عکس پر آئینہ کو الٹا ہے غرور
منہ تو دکھلائے اِدھر جب رخ جاناں نہ ہو

اور فرمایا کہ حقانی صاحب کا یہ شعر بہت عمدہ ہے۔
حضرت شیخ فضل احمد صاحبؓ بیان فرماتے ہیں کہ حقانی صاحب نے اپنے اس شعر میں خواجہ کمال الدین صاحب کی تقاریر کی طرف اشارہ فرمایا ہے کہ اپنی تقاریر میں وہ حضرت مسیح موعودؑ کے بیان فرمودہ مضامین کو چھوڑ کر کچھ اَور بیان تو کرکے دیکھیں کہ اُن کے کلام میں کوئی چاشنی باقی بھی رہ جاتی ہے!۔
محترم سید حسن شاہ صاحب کی بیعت
٭ راولپنڈی میں 1918ء یا 1919 ء میں بعد نماز جمعہ سید حسن شاہ صاحب سے دوران گفتگو لاہور کے پیغامی احباب کے متعلق میری زبان سے کچھ سخت الفاظ نکل گئے۔ اس پر شاہ صاحب نے غصہ منایا۔ میں نے جوش سے دس روپے کا نوٹ نکال کر ان کے سامنے کیا اور کہا کہ یہ لیں اور قادیان جاکر اُس شخص کو تو دیکھیں جو خلافت کا دعویدار ہے۔ پھر اگر دل پر اثر نہ ہو تو آپ بری الذمہ۔ انہوں نے کہا کہ میں روپیہ نہیں لیتا، آپ میرے ساتھ چلیں۔ میں نے کہا بہت اچھا۔ چنانچہ ہم دونوں قادیان گئے، اور انہوں نے قادیان میں نہ صرف بیعت کی بلکہ قادیان کے ہی ہوگئے۔ الحمد للّہ۔
خلافت کی تائید میں تبلیغی سرگرمیاں
٭ ایک دفعہ تمام جماعت کے احباب اور بعض پیغامی احباب کو بلا کر کیمل کور راولپنڈی میں دعوت دی اور ساری رات بحث میں گزاردی۔ مگر پیغامی احباب پر کچھ اثر نہ ہوا۔ اللہ تعالیٰ نے مجھے ثواب دیدیا۔
٭ جب ڈاکٹر سید محمد حسین شاہ صاحب (جو مولوی محمد علی صاحب کے بڑے مضبوط بازوتھے اور جن کے مکان میں مولوی محمد علی صاحب رہتے تھے) کوہ مری تبدیل ہوکر آگئے۔ 1925ء میں بابو شاہ عالم صاحب احمدی ہیڈکلرک کیمل کور جہلم میرے پاس کوہ مری تشریف لے آئے تو انہوں نے چاہا کہ مَیں ڈاکٹرصاحب کے ساتھ تبادلہ خیال کروں۔ میں نے بہت عذر کیا اور کہا کہ شاہ صاحب بہت سخت ہیں اور ان کے بے ادبی سے حضرت خلیفہ ثانیؓ کا ذکر کرنے سے مجھے اشتعال آجاتا ہے اور بات کرنی مشکل ہوجاتی ہے۔ مگر انہوں نے میری ایک نہ سنی اور مجھے ان کی کوٹھی پر لے گئے۔ تعارف کرانے پر شاہ صاحب نے کہا کہ وہ مجھے جانتے ہیں اور بارہا میری غائبانہ تعریف مولوی محمد علی صاحب نے ان کے سامنے کی ہے۔ یہ سن کر میں نے دعا کی کہ الٰہی! یہ مجھے کسی پیچ میں لا کر خراب نہ کریں اور میں تعریفی الفاظ سن کر خاموش نہ ہوجاؤں بلکہ حق پر قائم رہوں۔
نماز ظہر کے وقت میں نے شاہ صاحب سے کہا کہ میں آپ کے پیچھے نماز نہیں پڑھوں گا، انہوں نے کہا کہ اگر آپ یہ بات نہ کہتے تو میں آپ کے پیچھے نماز پڑھنے کو تیار تھا۔ مگر اب چونکہ آپ نے انکار کردیا ہے اس لئے میں بھی الگ نماز پڑھوں گا۔ غرض میں اور بابو شاہ عالم صاحب ہر دو نے ان سے الگ نماز پڑھی۔ اس کے بعد گفتگو شروع ہوئی۔ میں نے عرض کیا کہ آپ صدر انجمن احمدیہ کے رُکن تھے اور حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی وفات پر قریباً تمام ارکان نے ہم لوگوں کو ہدایت کی تھی کہ سب احمدی حضرت خلیفہ اوّلؓ کی اسی طرح فرمانبرداری کریں، جس طرح حضرت مسیح موعودؑ کی کرتے تھے۔ ہم نے آپ کی ہدایت کی تکمیل کی۔ اب ہم پر اعتراض ہے کہ تم محمودی ہوکر مشرک ہوگئے ہو، اب خدا کے سامنے آپ کا گریبان ہوگا اور ہمارا ہاتھ، یہ کہتے ہوئے کہ الٰہی! یہی لوگ ہیں کہ جنہوں نے ہم کو خلیفہ کا فرمانبردار بنایا اور اب اگر اس فرمانبرداری کا نام خلیفہ پرستی ہے جیسا کہ یہ لوگ کہتے ہیں تو انہیں سزا ملنی چاہئے، نہ کہ ہمیں۔
سید محمد حسین شاہ صاحب نے کہا کہ میرا نام ان اشتہارات میں چھاپا گیا ہے حالانکہ میں نے شمولیت کا اظہار نہیں کیا۔ میں نے کہا کہ یہ اور بھی ظلم ہے کہ 1908ء سے یہ شائع ہورہا ہے اور اب 1925ء ہے، سترہ سال بعد آپ نے ظاہر کیا ہے کہ یہ غلط اشتہار ہے۔ آج تک آپ نے کیوں حق کو چھپایا اور لوگوں کو دھوکے میں رکھا؟۔ وہ اس کا کچھ جواب نہ دے سکے۔
پھر میں نے کہا کہ اگر حضرت مسیح موعودؑ کو آپ ایک مومن ہی سمجھ لیں ، تو آپ کوماننا پڑے گا کہ ایک پچھتر سال کا مومن جو آخر عمر میں بات کرے گا وہ زیادہ پختہ ہوگی۔ مگر یہ عجیب بات ہے کہ بقول آپ کے حضورؑ نے انجمن کو اپنا جانشین بنایا اور اس خلیفہ نے جسے آپ نے بھی متاع مانا، اپنی خلافت کے زمانہ میں صاف صاف کہہ دیا کہ جانشین میں ہوں نہ کہ انجمن، ایسا کیوں ہوا؟۔ ہونا تو یہ چاہئے تھا کہ حضرت مسیح موعودؑ کی آخری بات زیادہ وزن دار ہوتی اور خلیفہ اس کی تائید کرتا۔
شاہ صاحب نے کہا کہ پہلی دفعہ مریض کو دوا کی تین خوراک دیتے ہیں، زیادہ نہیں۔ اور لاجواب ہو کر گفتگو ختم کردی۔
قربانی پیش کرنے کا پھل
1918ء میں جب حضرت خلیفۃ المسیح الثانیؓ پر انفلوئنزا کے مرض کاسخت حملہ ہوا۔ یہاںتک کہ آپؓ نے وصیت بھی لکھ دی تو ان دنوں میں نے ایک خط آپ کی خدمت میں لکھا جس میں یہ دعا تھی کہ خدایا! میری نابکار زندگی کس کام کی ہے، میری عمر جو باقی ہے وہ حضور کو دیدے۔ اس دعا کے چند سال بعد قادیان میں ایک نوجوان نے جواس وقت حضور کے پرائیویٹ سیکرٹری تھے، ملاقات ہونے پر بڑی گرم جوشی سے بغل گیر ہوکر مجھے بتایا کہ آپ ان چھ دوستوں میں سے ایک ہیں جنہوں نے اپنی زندگی حضور پر قربان کرنے کے لئے دعا کی تھی۔ ان چھ احباب میں حضرت سید احمدشاہ صاحبؓ سیالکوٹی صحابی بھی تھے۔خدا تعالیٰ نے ان کی قربانی قبول کرلی۔ وہ وفات پاگئے۔ اور آپ پانچ جو باقی رہ گئے ان کو ثواب مل گیا۔ میں نے ان کی بات سن کر اللہ تعالیٰ کا شکر ادا کیا اور اپنی زندگی کے لمبا ہونے پر یہی دلیل سمجھی کہ چونکہ میں نے زندگی پیش کی تھی، خدا نے زندگی بڑھادی۔ اور حضرت خلیفہ ثانیؓ کے ساتھ مماثلت اور مشابہت بھی پیدا کردی۔ فالحمد للّہ ثم الحمدللّہ۔
حضورؓ کا اعتماد اور خدمت کی توفیق
٭ ایک دفعہ حضرت خلیفہ ثانیؓ نے مجھے راولپنڈی لکھا کہ ایک اونٹ اور ایک دیلر گھوڑا تانگہ کے لئے نیلام سے خرید کر بھجواؤ۔ قادیان سے بٹالہ تک کچی سڑک ہے۔معمولی گھوڑا کام نہیں دے سکتا یا فرمایا کہ تھک جاتاہے۔ خاکسار نے اونٹ تو بھجوادیا مگر گھوڑا دیلر نہ مل سکا۔
٭ 1917ء میں بنوں میں مجھے چند روز بخار آیا تو میجر ڈیل نے جو عارضی طور پر کمانڈر ہوکر آئے تھے، بڑی محبت سے کہا کہ آپ تبدیلی آب و ہوا کے لئے کسی پہاڑ پر چلے جائیں۔ مجھے خیال آیا ان دنوں حضرت خلیفہ ثانیؓ شملہ میں ہیں، میں آپ کے پاس چلا جاؤں۔ افسر موصوف نے مجھے ریل کا پاس وہاں سے بٹالہ اور بٹالہ سے شملہ اور اسی طرح واپسی کے لئے دیا۔ میں خوشی خوشی شملہ چلا گیا۔ ٹوٹی کنڈی کوٹھی حضرت نواب محمد علی خان صاحبؓ نے کرایہ پر لی ہوئی تھی اور اسی کے ایک حصہ میں حضورؓ قیام فرماتھے۔ میں حضورؓ کے پاس جا ٹھہرا۔ ان دنوں مکرم معظم چوہدری محمد ظفراللہ خان صاحبؓ اور حضرت مرزا عزیز احمد صاحبؓ بھی وہاں تھے۔ ایک ماہ کے قریب میرا وہاں قیام رہا ۔ واپسی پر میں نے حضورؓ کی خدمت میں عرض کیا کہ اگر اجازت ہو تو واپسی پر بٹالہ کے سٹیشن پر حضورؓ کے لئے کھانا میں لاؤں گا۔ فرمایا کہ کھانا گھر سے سٹیشن پر کس طرح لاؤ گے؟۔ میں نے ناسمجھی اور اخلاق میں کہا کہ لے آؤں گا۔ حضورؓ نے منظور فرمالیا۔
چنانچہ میں دو تین روز پہلے چلا آیا اور حضورؓ کے قافلہ کے لئے (جن میں حضرت امّ المؤمنینؓ اور حضورؓ کے حرم بھی تھے) کھانا تیار کروایا۔ جب اسے سٹیشن پر لے جانے لگے تو بڑی دقت پیش آئی۔ شوربے کا بڑا پتیلا چھلکنے لگا، فرنی گر گر پڑتی۔ ویسے ہی باقی اشیاء کا حال تھا۔ غرض مشکل سے بڑی دیر میں سٹیشن پر پہنچا تو حضرت مرزا بشیر احمد صاحبؓ نے مجھے ملتے ہی کہا کہ حضور ناراض ہیں۔ آپ نے کھانا لانے میں بہت دیر کردی۔ میں نے حضورؓ کے سامنے پیش ہوتے ہی کہا ؎

از خورداں خطا وِزر بزرگان عطا
(چھوٹوں سے خطا ہی سرزد ہوجاتی ہے اور اعلیٰ مرتبت معاف ہی کردیا کرتے ہیں)

آپؓ خاموش ہوگئے اور فرمایا: اچھا! ہمارے فلاں مہمان کو جو ریل میں جارہے ہیں کھانا جلدی دو، گاڑی چھوٹنے والی ہے۔
میں نے اسے بھی کھانا دیا اور حضورؓ کو اور قافلہ کو بھی کھانا پیش کیا، جو سب نے کھایا۔ میں نے اللہ تعالیٰ کا شکر ادا کیا۔
٭ میرے ایک داماد نے خلافت ثانیہ کے خلاف فتنہ انگیزی کرنے والوں کے ساتھ شرکت کی۔ میں نے اس کے ساتھ بیزاری کا اظہار کیا۔ حضور نے خوشی کا اظہار کیا اور میرا یہ جواب الفضل میں شائع کردیا۔
٭ غالباً 1921ء میں کشمیر سے حضرت خلیفۃالمسیح الثانیؓ واپس تشریف لائے تو حضرت مرزا شریف احمد صاحبؓ نے جو ساتھ تھے قافلہ کو ریل گاڑی پر سوار کرانے وغیرہ، ضروری امور انجام دینے کے لئے ارشاد فرمایا۔ راولپنڈی اسٹیشن کے بعض کلرکوں کی شرارت سے تکلیف پہنچی مگر قافلہ بخیریت روانہ ہوگیا۔ البتہ ریلوے سٹاف نے لاہور تار دی کہ قافلہ کے سامان کی پڑتال کی جائے۔ اس لئے لاہور میں اتروا کر تلوایا گیا۔ لیکن غفلت سے حضور کا بستر وہیں رہ گیا۔ جس کا علم قادیان پہنچنے پر ہوا۔ مکرم عبداللہ صاحب ٹیلر نے جو بہشتی مقبرہ میں مدفون ہیں، مجھے بتلایا تھا کہ انہوں نے راولپنڈی کے اسٹیشن پر خود یہ بستر اٹھا کر سیکنڈ کلاس کمپارٹمنٹ میں رکھا تھا جہاں حضور مع اہل و عیال سوار تھے اور یہ بھی بتایا کہ ایک عرصہ کے بعد نیلامی کے وقت اس بستر میں سے ایک لفافہ دیکھ کر جس میں حضور کا اسم مبارک اور پتہ درج تھا، آپ کی شان و حیثیت کو مد نظر رکھ کر بستر حضور کی خدمت میں بھجوادیا گیا۔
مجھے جب بھی یہ واقعہ یاد آتا ہے تو میں گھبرا جاتا ہوں کہ کہیں حضورؓ کے دل میں یہ خیال نہ آیا ہو کہ میری غفلت اس کی گمشدگی کا باعث بنی تھی۔ اللہ تعالیٰ ہی غفلتوں سے بچائے اور اس بات سے بھی کہ اپنی شامتِ اعمال سے یہ دن نہ آئے کہ غفلت کسی کی ہو اور نام کسی اَور کے لگ جائے۔ اور کسی پاک انسان کے دل پر میل آجائے اور گناہگار کو اس پاک دل کے پریشان ہونے کی وجہ سے تکلیف پہنچے۔
٭ میں نے 1913ء میں حضرت خلیفۃالمسیح الثانیؓ کو دعوت دی تھی کہ کوہ مری میں میرے پاس تشریف لائیں اور آپؓ نے معذوری ظاہر کی تھی۔1925 ء میں آپ کی اولاد اور خاندانِ حضرت مسیح موعودؑ کے دیگر افراد کو بھجواکر اللہ تعالیٰ نے میری یہ خواہش پوری کردی۔ چنانچہ جولائی 1925ء میں جو قافلہ میرے مکا ن پر اترا اُس میں حضرت صاحبزادہ مرزاناصر احمد صاحب(خلیفہ ثالثؓ) اور مکرم مرزا مبارک احمد صاحب (ابناء حضرت خلیفۃالمسیح الثانیؓ) ، مکرم مرزا مظفر احمد صاحب اور مکرم مرزا حمید احمد صاحب (ابناء حضرت مرزا بشیر احمد صاحبؓ)، مکرم مرزا منصور احمد صاحب ، مکرم ظفر احمدصاحب، مکرم مرزا داؤد احمد صاحب (ابناء حضرت مرزا شریف احمد صاحبؓ)۔ نیز مکرم مولوی عبدالرحمن صاحب فاضل جٹ مدرس مدرسہ احمدیہ (امیر جماعت احمدیہ قادیان) وغیرہ بھی شامل تھے۔
انہی دنوں حضرت چوہدی محمد نصراللہ خان صاحبؓ مع اہل بیت اور محترمی چوہدری محمد ظفراللہ خان صاحب پنڈی پوائنٹ مری میں واقع ایک کوٹھی میں تشریف لے آئے اور یوں کوہ مری پر ایک نہایت خوشنما نظارہ پیدا ہوگیا۔ صاحبزادگان کی موجودگی سے ہر ایک قسم کی برکت اور رونق ہوگئی۔ مجھے یاد ہے کہ ایک روز مکرم چوہدری صاحب نے مجھے انگریزی میں کہا: کاش میں آپ کی حیثیت میں ہوتا۔ مراد یہ تھی کہ جس طرح یہ صاحبزادگان آج آپ کے مہمان ہیں یہ نعمت مجھے بھی میسر آتی۔ واقعی یہ اللہ تعالیٰ کا احسان تھا ورنہ میرے جیسا بے حیثیت کب اس لائق تھا!۔ بقول غالب ؎

وہ آئے گھر پر ہمارے خدا کی قدرت ہے
کبھی ہم ان کو کبھی اپنے گھر کو دیکھتے ہیں

٭ غالباً 1921ء میں خاکسار نے حضرت خلیفہ ثانیؓ اور صاحبزادگان حضرت مرزا بشیر احمد صاحبؓ، حضرت مرزا شریف احمد صاحبؓ، حضرت نواب محمد عبداللہ خان صاحبؓ اور بعض دیگر معززاحباب کی دعوت کی۔ اور میاں مولابخش صاحب باورچی کے ذریعہ کھانا تیار کروایا اور ان سے کہا کہ کوئی ایسی چیز بھی تیار کریں جسے حضرت صاحب خاص طور پر پسند کرتے ہوں۔ تو انہوں نے سالم مرغ بریاں تیارکیا جسے حضرت نے پسند فرمایا اور کچھ تناول فرمایا۔ اس دعوت کے بعد میں نے قادیان کے ان دوستوں کی دعوت کی جو بظاہر غریب معلوم ہوتے تھے۔
غالباً 1922ء میں ایک دفعہ حضرت امّ المؤمنینؓ واقعہ محلہ دارالامان (باب الامن) میں میرے مکان پر تشریف لائیں۔ اہلیہ اوّل گھر میں موجود تھیں۔ میں آپؓ کے لئے مٹھائی لایا۔ آپ نے ازراہ کرم اسے قبول فرمایا اور آپ کے ارشاد کے مطابق آپ کے ہاں پہنچادی۔ پھر1923ء میں خاندان مسیح موعودؑ کی خواتین محترمات کی دعوت کی جس میں حضرت امّ المؤمنینؓ بھی تشریف لائیں۔
جہاد ملکانہ میں شرکت- خلافت کی اطاعت اور برکات
1923ء میں حضرت خلیفۃالمسیح الثانیؓ کا ارشاد پہنچا کہ احمدی احباب رخصت لے کر آگرہ آجائیں۔ جہاں آریہ قوم نے بہت سے مسلمانوں کو شدھی کرلیا ہے۔ مجھے اس ارشاد کے ملنے سے خوشی بھی ہوئی لیکن فکر بھی۔اس وجہ سے کہ کوہ مری میں اکیلا مَیں کمانڈنگ افسر میجر براٹسن کے ساتھ تھا اور دفتر کا سارا کام میرے سپرد تھا۔ میں نے ڈرتے ڈرتے افسر موصوف سے ذکر کیا کہ یہ مذہبی معاملہ ہے اور میرے مرشد کا حکم آیا ہے کہ میں بھی آگرہ آجاؤں اور ایک ماہ تک وہاں کام کروں۔ افسر نے کہا کہ آپ کے سوا اور کوئی کلرک بھی یہاں نہیں ہے، دفتر کا کام کون کرے گا۔ میں نے کہا مجبوری ہے، یہ مذہبی معاملہ ہے۔ افسر نے سوچ سوچ کر کہا اچھا چلے جاؤ مگر اس شرط پر کہ جب مجھے ضرورت پڑے گی تو آپ کو تار دیا جائے گا، آپ کو واپس آنا ہوگا۔ میں نے کہا کہ اگر آپ نے مجھے واپس بلایا تو کرایہ آمدورفت آپ کے ذمہ ہونا چاہئے۔ افسر نے یہ منظور کرلیا۔ سو میں آگرہ آگیا۔ اور پھر واپس بھی بلایا گیا۔ اس طرح اپنے مرشد کی فرمانبرداری کے نتیجہ میں مَیں نے ثواب بھی حاصل کرلیا اور میر اخرچ کچھ بھی نہ ہوا۔ بلکہ سفر الاؤنس کی وجہ سے فائدہ ہی رہا۔
حضورؓ کی پُراثر نصائح
ہمارا وفد 20جون1923 ء کو بعد نماز عصر روانہ ہوا۔ سیدنا حضرت خلیفۃالمسیح الثانیؓ حسب دستور سابق بیرونِ قصبہ تک الوداع کہنے کے لئے تشریف لے گئے۔ قادیان کے قریباً تمام احمدی احباب ساتھ تھے۔ حضور نے ارکان وفد کے لئے تقریر فرمائی، اور دعا کی۔ اور سب (21 ارکان) سے ہاتھ ملا کر رخصت کیا۔
اس موقعہ پر حضورؓ نے اپنی تقریر میں جو نصائح فرمائیں وہ مختصر مگر بڑی پُراثر تھیں مثلاً مومن بزدل نہیں ہوتا، خود فساد کھڑا نہ کرو، دوسروں کی کامل اطاعت کرو، لوگوں سے میل ملاقات کی عادت ڈالو، تبلیغی نظام کو نہ چھوڑو، جس جگہ متعین ہو اس کے ماحول کو بھی اپنا ہی علاقہ سمجھو، آریوں کے ایجنٹوں سے ہوشیار رہو، دعاؤں پر خاص زور دو، معترض کو عام فہم جواب دو، لوگوں سے ہمدردی کرو، اپنی کارگزاری کی یادداشت رکھو، پہلے مبلغین کاجنہوں نے سخت مشکل حالات میں کا کیا شکر گزار بنو۔
آگرہ میں خدمات اور حضورؓ کا اعتماد
آگرہ میں حضرت چوہدری فتح محمدسیال صاحبؓ ملکانہ کیمپ کے انچارج تھے۔ انہوں نے مجھے حضرت چوہدری نصراللہ خان صاحبؓ اور حضرت شیخ یعقوب علی صاحب عرفانیؓ کے ساتھ ریاست بھرت پور بھیجا تاکہ مہاراجہ کے وزیراعظم سے ملاقات کی جائے۔ ہندو وزیراعظم نے بڑی عہد شکنی کی اور بے اعتنائی بھی۔

آگرہ میں چوہدری فتح محمد سیال صاحبؓ کے پاس کچھ نہیں تھا۔ اور وہ روپیہ نہ ہونے کی وجہ سے بہت تنگ تھے۔ مجھے انہوں نے قادیان بھیجا کہ میں اُن کی طرف سے عرض کروں کہ روپیہ نہ ہونے کی وجہ سے بہت تکلیف ہے، حضور مزید رقم عنایت کریں۔ حضرت صاحب نے مجھے فرمایا کہ چوہدری صاحب پہلے روپے کا حساب دیں کہ کہاں کہاں خرچ ہوا پھر ہم مزید رقم دیں گے۔ میں نے عرض کیا کہ حضور وہ تو سخت تنگ آئے ہوئے ہیں۔ حضور ضرور کچھ رقم عنایت فرمائیں۔ حضرت نے فرمایا کہ ہم اس شرط پر ایک ہزار روپیہ دیتے ہیں کہ وہ پچھلا حساب دیں اور آپ جاکر اَور کوئی کام نہ کریں محض ان سے حساب لے کر پڑتال کریں اور ہمیں رپورٹ دیں۔ آج سے آپ ان کے ماتحت نہیں، براہ راست ہمارے ماتحت ہونگے اور ہمارے احکامات کی تعمیل کریں گے ورنہ یہ ایک ہزار روپیہ آپ سے لیا جائے گا۔ میں روپیہ لے کر آگرہ پہنچا اور چوہدری صاحب کو حضرت صاحب کا ارشاد سنایا اور حساب مانگا۔ انہوں نے مجھے کاغذاتِ حساب دیدئے ۔ جو میں نے پڑتال کر کے حضرت کے حضور پیش کئے تو مشکل حل ہوئی۔ حسابات دیکھنے سے معلوم ہوا کہ حضرت چوہدری صاحب موصوف کی رقم بیچ میں خرچ ہوچکی ہے جو چوہدری صاحب کو یاد نہیں رہی تھی۔ اور وہ رقم میں نے ان کو واپس دلائی جو ایک صد سے زیادہ تھی۔
احمدی رضاکار اور غیراحمدی تنخواہ یافتہ کا فرق
ایک احمدی دوست کسی گاؤں میں متعین تھے جہاں دیوبند کے علماء کی طرف سے کوئی چپڑاسی یا چوکیدار بھی تھا جو ہمارے مخالف مسلمانوں کو جوش دلا کر جھگڑاپیدا کرتا تھا۔ مجھے چوہدری فتح محمد صاحب سیال نے حکم دیا کہ میں دہلی جا کر مولانا کفایت اللہ صاحب سے (جو علماء دیو بند کے سرکردہ تھے) ملوں اور ان سے کہوں کہ وہ اپنے آدمی کو سمجھائیں کہ وہ ہمارے کام میں رکاوٹ نہ ڈالے۔ میں دہلی پہنچا اور وہاں ایک احمدی دوست عبدالرحمن صاحب فرنیچر ڈیلر کے ہمراہ مولانا صاحب سے ملاقات کی۔ وہاں مولانا احمد سعید صاحب بھی تھے۔ مولانا کفایت اللہ صاحب نے حالات سن کر اُن سے کہا کہ اپنے آدمی کو تنبیہہ کریں کہ وہ جھگڑا نہ کرے۔ انہوں نے ہمیں ایک رقعہ دیدیا کہ ہمارے فلاں دفتر کے انچارج کو دیدیں۔ جب ہم دونوں وہاں سے چلنے لگے تو مولانا احمد سعید صاحب کہنے لگے کہ یہ شدھی کا قصہ ختم ہوجائے تو ہم احمدیوں کے خلاف ایک محاذ قائم کریں گے اور آپ لوگوں کی ایسی خبر لیں گے کہ آپ کو ہوش آجائے گا۔ میں نے جوش سے عرض کیا کہ مولانا ہم تو چاہتے ہیں کہ آپ ہماری مخالفت میں سارا زور لگالیں اور پھر آپ بھی دیکھیں اور ہم بھی دیکھیں گے کہ اللہ تعالیٰ کس کی مدد کرتا ہے۔ مولانا کفایت اللہ صاحب بھی میری بات سن رہے تھے مگر انہوں نے کوئی بات نہ کی۔ واپسی کے راستہ میں مجھے عبدالرحمن صاحب نے کہا کہ سعید صاحب بڑے جوشیلے اور لڑاکے ہیں، خدا جانے یہ سب کچھ سن کر خاموش کیسے رہے۔ ہم نے اللہ تعالیٰ کا شکر ادا کیا کہ بات نے طول نہ پکڑا اور قصہ وہیں ختم ہوگیا۔
پھر ہم دفتر علمائے دیوبند پہنچے اور وہاں کے انچارج مولوی صاحب کو رقعہ دیا تو انہوں نے کہا کہ میں اس چوکیدار کو ہدایت کردوں گا کہ وہ جھگڑا نہ کرے۔ اُن کے پاس بہت سے علماء جمع تھے۔ ہمیں کہنے لگے ایک بات تو آپ لوگ بتلا جائیں۔ ہم حیران ہیں کہ جس کسی مولوی کو گاؤں میں شدھی وغیرہ روکنے کے لئے بھیجتے ہیں اس کو معقول تنخواہ دیتے ہیں، سفر خرچ دیتے ہیں۔ کسی گاؤں میں رہنے کے دیگر ضروری اخراجات بھی دیتے ہیں، مگر وہ مولوی تھوڑے دنوں کے بعد ہمیں کہتا ہے کہ میں وہاں نہیں رہ سکتا۔ وہاں یہ آرام نہیں، فلاں سہولت نہیں، فلاں تکلیف ہے، یہ ہے، وہ ہے۔ غرض وہ وہاں نہیں رہتا اور ناراض ہوکر چلا آتا ہے۔ آپ لوگوں کے پاس وہ کونسا جادو ہے جس کے اثر سے آپ کے آدمی اپنی تنخواہ اور اپنا کرایہ خرچ کر کے اپنے خرچ پر گاؤں گاؤں پھرتے ہیں۔ بھوکے پیاسے رہتے ہیں ، ماریں کھاتے ہیں، دکھ اٹھاتے ہیں، پھر بھی خوش ہیں؟ ہم تو آپ لوگوں کے متعلق سوچ کر حیران رہ جاتے ہیں۔ ہم نے کہا آپ دانا ہیں، خودہی سوچ لیں۔ وہ بڑے عالم تھے، مسکرا پڑے اور ہم چلے آئے۔
اسی ذکر میں کہ احباب نے علاقہ ملکانہ کے جہاد میں کیسی کیسی جانثاری دکھلائی اور کسی مشکلات کی زندگی کاٹی۔ میں حکیم فضل حق صاحب بٹالوی ؓمرحوم کا ذکر کرنا ضروری سمجھتا ہوں۔ وہ اَنَور میں متعین تھے جو اُس پہاڑی کے دامن میں ہے جہاں حضرت کرشن جی مہاراج عبادت کیا کرتے تھے۔ انہوں نے مجھے بتلایا کہ وہاں بے شمار سانپ ہیں۔ ہم نماز عشاء پڑھ کر جب چارپائیوں پر جاکر سو جاتے ہیں تو صبح تک نیچے نہیں اترتے کہ مبادا نیچے سانپ ہو اور وہ ہمیں کاٹ کھائے۔
دوسری بابرکت شادی
حضرت شیخ صاحبؓ بیان فرماتے ہیں کہ 1919ء میں مجھے معلوم ہوکہ ہمارے لئے کوئی متنبیّٰ تجویز ہورہا ہے۔ میں نے اہلیہ اوّل سے کہا کہ میں اس خلافِ شریعت امر پر عمل پیرا ہونے کی بجائے لاولد مرنا بہتر سمجھتا ہوں۔ لیکن اگر بات مان لو تو میں نکاح ثانی کرلوں۔ ممکن ہے اس طرح ہمیں اللہ تعالیٰ اولاد عطا کردے۔ لیکن وہ ناراض ہوگئیں۔
ایک خدائی خبر
1918ء یا1919 ء میں مَیں نے ایک خط کے ذریعہ حضرت مولانا غلام رسول صاحبؓ راجیکی کو دعا کی تحریک کی تا صاحب اولاد ہو جاؤں۔ آپؓ نے جواب میں تحریر کیا کہ میں نے دعا کی تو معلوم ہوا کہ موجودہ بیوی سے اولاد نہ ہوگی۔ اس بارہ میں حضرت مولوی غلام رسول راجیکی صاحبؓ خود بیان فرماتے ہیں:
’’مکرم شیخ فضل احمد صاحب بٹالوی جو ریٹائر ہونے کے بعد قادیان میں سلسلہ کے دفاتر میں بھی ایک عرصہ تک کام کرتے رہے ہیں۔ ان کی پہلی شادی بٹالہ میں اُن کے رشتہ داروں میں ہوئی تھی۔ ان کے ہاں جب اِس بیوی سے ایک عرصہ تک کوئی اولاد نہ ہوئی تو انہوں نے مجھ کو دعا کی تحریک کی۔ جب میں دعا کرتا ہوا رات کو سویا تو مَیں نے رؤیا میں دیکھا کہ شیخ صاحب کے مکان پر حضرت نبی کریمﷺ کی خچر بغلۃ الشھباء بندھی ہوئی ہے۔ اس خواب کی مجھے یہ تفہیم ہوئی کہ شیخ صاحب موصوف کی اہلیہ محترمہ گو بوجہ فطری سعادت کے آنحضرتﷺ سے مخلصانہ تعلق رکھتی ہیں لیکن خچّر کی عمومی سرشت کے مطابق ناقابل اولاد ہیں۔ چنانچہ میں نے اس رؤیا سے مکرمی شیخ صاحب کو اطلاع دیدی اور اس کی تعبیر سے بھی آگاہ کردیا۔ اس کے بعد سالہاسال گزرنے کے باوجود اُن کی اہلیہ محترمہ کے ہاں کوئی اولاد نہ ہوئی۔… شیخ صاحب موصوف نے حکیم سراج الحق صاحب احمدی آف ریاست پٹیالہ کی دختر سے شادی کی جس سے خدا تعالیٰ کے فضل سے کئی بچے تولد ہوئے جو اپنے والدین کے لئے قرۃالعین ہیں۔ فالحمدللہ علیٰ ذٰلک۔‘‘
(حیات قدسی جلد چہارم صفحہ 10)
حضورؓ کی خدمت میں درخواست دعا
حضرت شیخ صاحبؓ بیان فرماتے ہیں کہ اُن ایام میں مَیں نے جو خطوط حضرت صاحب کی خدمت میں لکھے تھے، ان میں سے ایک کا جواب درج ذیل تھا:
’’مکرمی! السلام علیکم۔ آپ کی طرف سے سو روپیہ پہنچ گیا تھا۔ جزاکم اللّہ احسن الجزاء۔ آپ کی اہلیہ کی طرف سے بھی دس روپے پہنچ گئے۔جزاکم اللّہ احسن الجزاء۔ چونکہ اس وقت روپیہ کی خاص ضرورت تھی اور خداتعالیٰ سے دعا کرنے پر وہ روپیہ آیا تھا اس لئے خاص طور پر دعا کی گئی۔
آپ کے نکاح ثانی کے متعلق دعا کروں گا۔ استخارہ کرلیں۔ کوئی اطلاع آنے پر اگر ممکن ہواتو جگہ بھی بتلا سکوں گا۔ خاکسار مرزا محمود احمد 4-11-1920‘‘
اس گرامی نامہ کے آنے پر میں نے استخارہ شروع کردیا اور قریباً ڈیڑھ پونے دوسال تک کرتا رہا اور حضور کی خدمت میں گاہے گاہے عریضے بھی روانہ کرتا رہا۔ جولائی 1922ء میں حضورؓ نے سری نگر سے تحریر فرمایا کہ دو خیمے بھجواؤ۔ میں نے تعمیل ارشاد کی۔ وقت گزرتا گیا، اور میرا دل نکاح ثانی کی طرف زیادہ مائل ہوتا چلاگیا۔ یہ معاملہ اکتوبر 1922ء تک پہنچ گیا اور میں انتظار کرتے کرتے تھک کر قادیان آگیا۔
خدمت اقدس میں حاضری اور رشتہ کی تجویز
ان ایام میں حضور مسجد مبارک کے نیچے گول کمرہ میں دفتری کام سرانجام دیتے تھے۔ جناب مولوی عبدالرحیم صاحب دردؓ پرائیویٹ سیکرٹری سے میں نے عرض کیا کہ آپ حضرت کے حضور عرض کریں کہ مجھے باریابی کا موقع بخشیں۔ انہوں نے کہا کہ حضور سخت مصروف ہیں اور فرماتے ہیں کہ ہم نے راولپنڈی کے پتہ پر خط لکھ دیا ہے، وہاں جا کر پڑھ لیں۔ میں نے عرض کیا آپ مجھے خط کے مضمون سے مطلع فرمائیں اور زیادہ نہیں تو چند منٹ حاضر ہونے کی اجازت بخشیں۔ چنانچہ اجازت مل گئی۔
میں حاضر ہوا تو حضورؓ نے ہنس کرفرمایا کہ میں نے آپ کی خواب کی وجہ سے پہلی تجویز کو چھوڑ دیا ہے۔ (یہ تجویز ایک خاتون سے متعلق تھی، جو کسی اَور شخص سے شادی ہوکرچھ ماہ کے اندر فوت ہوگئی)۔ نیز فرمایا کہ ابھی کوئی اَور جگہ میرے علم میں نہیں۔ پھر محترم درد صاحبؓ سے فرمایا کہ مولوی سراج الحق صاحب پٹیالوی نے اپنی لڑکی محمدی بیگم کے متعلق لکھا تھا، کیا اس کا رشتہ کہیں ہوگیا ہے؟۔
پھر مجھے فرمایا کہ: آپ کو یہ رشتہ منظورہے؟۔ میں نے عرض کیا کہ میں محض حضور کی پسندیدگی پر ہی یہ معاملہ رکھوں گا کیونکہ میں نے پہلی شادی اپنی خواہش سے کی تھی۔ مگر اس کا نتیجہ جو کچھ نکلا وہ ظاہر ہے۔
حضورؓ نے پھر فرمایا کیا آپ کو یہ رشتہ پسند ہے؟۔ پھر بھی میں نے منظوری کا معاملہ حضرت پر ہی رکھا تو حضورؓ نے فرمایا کہ جب میرے پہلے نکاح کا وقت آیا تھا تو حضرت مسیح موعودؑ نے مجھے بلا کر پوچھا کہ محمود! کیا تمہیں فلاں جگہ رشتہ (یعنی حضرت سیدہ امّ ناصر صاحبہؓ کا) پسند ہے۔ میں نے خاموشی اختیار کی۔حضورؑ نے دوبارہ فرمایا تو پھر بھی میں نے شرم سے خاموشی اختیار کی۔ تیسری بار حضورؑ نے فرمایا: محمود تمہارا نکاح ہونا ہے، بولو تمہیں وہ جگہ پسند ہے؟۔ مَیں بھی اسی طرح آپ سے پوچھتا ہوں کہ کیا آپ کو یہ رشتہ پسند ہے کیونکہ آپ کا نکاح ہونا ہے۔ اس پر میں نے عرض کیا کہ پسند تو حضور ہی کی ہوگی البتہ مجھے کوئی اعتراض نہیں۔
غرض یہ رشتہ تجویز ہوکر غالباً 22؍اکتوبر1922 ء کوبعد نماز عصر مسجد اقصیٰ میں درسِ قرآن سے پہلے حضورؓ نے نکاح کا اعلان فرمایا اور دعا کروائی۔ اسی شادی کے موقع پر حضرت حافظ روشن علی صاحبؓ مع مبلغین و طلباء (مدرسہ احمدیہ) پٹیالہ تشریف لے گئے۔ (اس کا ذکر اُس وقت کے اخبار الفضل میں بھی موجود ہے)
اس اہلیہ ثانی کے بطن سے اللہ تعالیٰ نے 20دسمبر1923 ء کوپہلی اولاد عزیزہ صادقہ سلمہا عطا کی۔ یہ درحقیقت حضرت امیرالمؤمنینؓ کی دعا کا نتیجہ تھا۔
1925ء میں اللہ تعالیٰ نے اپنے فضل و احسان سے عزیزم محمد احمد سلمہ، پہلے بیٹے، کی ولادت کی خوشی دکھائی۔ حضرت مولانا عبدالرحیم صاحبؓ نیرؔ جب حج پر تشریف لے گئے تو جدہ کے قریب کشف میں انہوں نے دیکھا کہ میری گود میں ایک لڑکا ہے اور ایک ہاتھ میں روپوں کی تھیلی ہے۔ عزیز کی ولادت سے یہ کشف بحمدللہ پورا ہوگیا۔
اہلیہ اوّل کی وفات
حضرت شیخ فضل احمد صاحبؓ کی اہلیہ اوّل محترمہ سردار بیگم صاحبہ کی وفات 4ستمبر 1939ء کو 47 سال کی عمر میں ہوئی اور وہ بہشتی مقبرہ قادیان میں مدفون ہیں۔ اُن سے حضرت شیخ صاحبؓ کا حسن سلوک آخر تک قائم رہا اور مرحومہ نے بھی ہمیشہ آپؓ کی دوسری اہلیہ کے بچوں سے مادرانہ شفقت اور محبت کا سلوک روا رکھا۔ اللہ تعالیٰ ان کی مغفرت فرمائے۔
(آئندہ شمارہ میں جاری ہے)

===========================================
(مطبوعہ رسالہ انصارالدین یوکے، ستمبر و اکتوبر 2010ء)

حضرت شیخ فضل احمدصاحبؓ (1884-1968ء) کے حالات زندگی ’’اصحاب احمد‘‘ جلد سوم میں تفصیل سے شائع ہوئے ہیں جن کی تلخیص گزشتہ دو شماروں سے شامل اشاعت کی جارہی ہے۔ اس تیسری اور آخری قسط میں حضرت شیخ صاحبؓ کی بعض اہم خدمات اور سرگرم تبلیغی واقعات نیز خلفائے سلسلہ کے حوالہ سے بعض متفرق واقعات کو آپؓ کے الفاظ میں ہی خلاصۃً پیش کیا جارہا ہے۔

قسط سوم- آخر:

خلافت کی برکت سے قرض سے نجات

حضرت شیخ فضل احمد صاحب ؓ بٹالوی تحریر فرماتے ہیں کہ خاکسار کی پہلی شادی اپریل1907 ء میں ہوئی تھی، اس کا سارا خرچ مجھ پر ہی تھا جس سے میں زیر بار ہوگیا۔ اس بارہ میں دعا کے لئے حضرت خلیفہ اوّلؓ کی خدمت میں عرض کرتا رہا اور جواب مجھے ملتے رہے۔ ایک بار حضورؓ نے تحریرفرمایا:
’’اگر قرض ادا کرنے کی سچی نیت ہو اور اس فکر میں آدمی لگا رہے اور جس قدر ممکن ہو اس کو ادا کرتا رہے تو خدا تعالیٰ ضرور سامان مہیا کردیتاہے کہ وہ اداہوجائے۔ توبہ استغفار اور لاحول کی کثرت کیا کریں۔ نمازوں میں عجزاور زاری سے دعائیں مانگا کریں۔‘‘ (قادیان 2مئی1907ء)
ایک خط کا یہ جواب ملا: ’’آپ قرضہ کے لئے توبہ استغفار، لاحول سے کام لیں اور ادا کرنے کا ارادہ کرلیں۔ جب تک خود دس بارہ روزآپ یہاں نہ رہیں، دعا کا منگوانا مشکل ہے‘‘۔ اگست 1907ء۔
ایک دفعہ اسی قرضہ کے بارے میں اپنی گھبراہٹ کا ذکر ایک خط میں کر کے دعا کی درخواست کی تو جواباً تحریر فرمایا: ’’آپ استغفار جس کے معنی ہیں الٰہی میں نے غفلت کی، اس کے بد نتائج سے مجھے محفوظ رکھ اور غفلت سے بچا۔ استغفراللہ اور لاحول جس کے معنی ہیں الٰہی تیرے فضل وکرم کے سوا کچھ نہیں بن سکتا تو بدی سے پھیر اور نیک بنا۔

لَاحَوْلَ وَلَاقُوَّۃَ اِلَّا بِاللہ

اور اَلْحَمْدُ شریف بلحاظ معنی اور درود بایں خیال کہ الٰہی! محمد رسول ﷺ نے ہمارے لئے بڑے دکھ درد اٹھائے اور بڑی محنت سے ہم تک تیرا دین پہنچایا۔ الٰہی اس کے بدلہ میں ہماری طرف سے اس پاک انسان پر خاص خاص اور عام رحمتیں اور سلام اور برکات پہنچادے۔ آمین۔ یہ چار باتیں آپ اختیار فرماویں۔ نورالدین 2اگست ‘‘
(یہ1907ء کا مکتوب ہے، اس کے عکس کے لئے ملاحظہ ہو تاریخ احمدیت جلد چہارم، صفحہ 644)
ایک بار تحریر فرمایا: ’’آپ استغفار اور لاحول (پڑھا) کریں۔ دعا تو ہر صورت مفید ہے مگر مسلمان خود فضول خرچیاں فرماتے ہیں اور دکھ میں مبتلا ہوتے ہیں۔ میں بھی انشاء اللہ تعالیٰ دعا کروں گا۔ 12رمضان الشریف، مطابق 22-10-07‘‘
ان نصائح پر اللہ تعالیٰ نے مجھے عمل کرنے کی توفیق عطا کی اور حضرت خلیفہ اوّلؓ کی توجہ اور دعا سے میرا قرض اتر گیا۔
ایک دفعہ حضرت خلیفۃالمسیح الاوّلؓ نے تحریر فرمایا:
’’اللہ تعالیٰ آپ کو صحت بخشے۔ آپ کی اولاد نہیں اور آپ کی بہن کے گھر بچہ علیل ہے۔ اس کا فکر آپ پر واجب ہے۔ بہت استغفار، صدقہ کے بعد دعا پر زور دو۔ اس کا باعث آپ کی مخفی روحانی بات ہے۔ فکر کرو۔میری بات پر آپ نے عقل مندانہ توجہ نہیں کی۔ یہ تو ہوا اصل علاج……‘‘۔(اس کے بعد حضورؓ نے کوئی نسخہ تحریر فرمایا تھا یا کوئی اور مشورہ دیا تھا جو اب موجود نہیں)۔

دورانِ ملازمت متفرق واقعات و خدمات

’’اسلامی اصول کی فلاسفی‘‘ کا غیرمعمولی اثر
حضرت شیخ فضل احمد صاحب ؓ بٹالوی رقم فرماتے ہیں کہ دسمبر1914 ء میں مجھے جنگ پر اپنی کور کے ہمراہ بنّوںاور میراں شاہ وغیرہ جانا پڑا۔ میں نے کمانڈنگ افسر میجر وارڈل کو ’’اسلامی اصول کی فلاسفی‘‘ (انگریزی) دی توبعد مطالعہ انہوں نے کہا کہ یہ کتاب بہت عمدہ تالیف ہے اور میں چاہتا ہوں کہ اس کا اردو ترجمہ کردو تاکہ اپنی یونٹ کے عہدیداروں میں اس کی نقول تقسیم کروں۔ جب مَیں نے بتایا کہ اصل کتاب اردو میں ہی ہے تو انہوں نے اس کی سینتیس جلدیں سرکاری خرچ پر منگوائیں۔ باوجود یکہ میں نے ان سے کہا کہ تقسیم سے فتنہ پیدا ہوگا اور غیر احمدی شکایت کریں گے کہ یہ احمدی بابو ان لوگوں کا مذہب تبدیل کرانا چاہتا ہے، افسر موصوف نے کہاکہ ہم کچھ پرواہ نہیں کرتے۔ میں نے کہا کہ آپ برطانوی افسر ہیں، آپ کو تو کوئی نہیں پوچھے گا لیکن ساری بلا میرے گلے آپڑے گی۔ مگروہ نہیں مانے اور کہا کہ ہم حکم دیتے ہیں۔


اسی اثناء میں میجر رسالدار راجہ راج ولی خان کو خاکسار کے بارہ میں غیراحمدیوں نے یہ شکایت کی کہ بابو فضل احمد کافرہے اور ہم اس کے ساتھ کام نہیں کرسکتے، یہ ہمارا مذہب خراب کررہاہے، اس کا تبادلہ کردیاجائے۔ غیراحمدیوں نے چاہا کہ میجر رسالدار صاحب کو اپنا نمائندہ بناکر میجر وارڈن صاحب کے پاس بھیجا جائے۔ لیکن اس رپورٹ کے پہنچنے پر راجہ موصوف پہلے میرے پاس آئے اور مجھے ہنس کر کہنے لگے کہ اگر مَیں یہ رپورٹ صاحب تک پہنچاؤں تو ڈر ہے مبادا بے عزتی ہو۔ کیونکہ وہ آپ کے ہاتھ پر ہیں اور آپ جو کہیں گے وہ اسے درست سمجھیں گے۔ آپ بتلائیں کہ آپ اس شکایت کا کیا جواب دیتے ہیں۔ میں نے کہا کہ میں کہوں گا کہ صاحب! آپ دیکھیں کہ قرآن کریم عیسائیوں کو پکا کافر کہتا ہے۔ پس جب آپ بڑے کافر ہوئے اور آپ کے ساتھ اِن لوگوں کا گزارہ ہوسکتا ہے تو میرے ساتھ کیوں نہیں ہوسکتا حالانکہ میں بقول اِن کے چھوٹا کافر ہوں۔ رسالدار صاحب سمجھ گئے اور وہ اُن لوگوں کو یہ کہنے ہی لگے تھے کہ شکایت نہ کرنا کہ اتنے میں سامنے سے افسر موصوف آگئے اور رسالدار نے فال ان (Fall In) کرادیا۔ پھر صاحب نے ہرایک کو ایک ایک نسخہ ’’اسلامی اصول کی فلاسفی‘‘ کا دیا اور ہر ایک نے شکریہ ادا کیا اور سلام کیا اور کتاب لے لی۔ اس کے بعد صاحب نے اس کتاب کی تعریف کی اور کہا کہ اسے پڑھاکرو، میری میم صاحب تو اس کتاب کی عاشق ہے۔ اس طرح اللہ تعالیٰ نے اپنے فضل سے دشمن کے بدارادوں سے مجھے نجات دی۔
چند روز بعد انگریز افسر مسٹر وارڈن کے تبادلہ پر ہم اُنہیں الوداع کہنے بنوں ریلوے سٹیشن پرگئے تو اُن کی اہلیہ نے مجھے مخاطب کر کے کہا کہ میں آپ کی اس کتاب کو ساتھ لے جارہی ہوں، میں اس سے علیحدگی پسند نہیں کرتی۔ پھر اس کتاب کی بہت تعریف کی۔ اس افسر کا یہ کہنا تھا کہ میرے دل پر اس کتاب کا ایسا اثر ہوتا ہے جیسے دہکتے ہوئے کوئلوں پرپانی کے گرنے سے ٹھس ٹھس کی آواز آتی ہے، ایسا ہی میرے دل کے شعلے اس سے ٹھنڈے ہوتے ہیں۔
ایک عسکری جھڑپ اور خدائی خبر
مارچ 1915ء میں تیس، تینتیس ہزار افراد (جن کا تعلق اقوام منگل اور ددران سے تھا) ہمارے بریگیڈ متعین میراںشاہ پر حملہ آور ہوئے۔ مگر جنرل فین (Fane) کے ہاتھوں شکست کھاکر بھاگ گئے۔ بریگیڈ کے توپخانہ کو جنرل مذکور نے راتوں رات پہاڑی کے عقب میں جانے کا حکم دیا لیکن وہ راستہ بھول گیا البتہ تباہ ہوتے ہوتے بچ گیا۔ میں نے قادیان آنے پر حضرت صاحبؓ سے حالاتِ جنگ کا ذکر کیا تو حضورؓ نے فرمایا کہ مجھے اللہ تعالیٰ نے پہلے ہی بتا دیا تھاکہ اگر انگریز احتیاط نہیں کریں گے تو نقصان اٹھائیں گے۔ پھر توپخانہ کا حال سن کر جو تباہ ہونے لگا تھا، فرمایا: شایداسی کی طرف اشارہ تھا۔
دفتر میں نماز پڑھنے کی اجازت
ایک جمعہ کے روز مَیں میجر جی-ایچ-ڈیوس کو حساب لکھوارہا تھا کہ نماز جمعہ کا وقت ہوگیا۔ میں نے کہا کہ آپ مجھے نماز پڑھ لینے دیں ۔وہ کہنے لگے کہ میں نے سفر پرجانا ہے۔ میں نے کہا کہ یہ نماز بڑی اہم ہے اوراس کا وقت جارہا ہے۔سوچ سوچ کر کہنے لگے: بہت اچھا، نماز پڑھ لو، میں حساب پھر کبھی لکھ لوں گا۔ یہی افسر جب کشمیر گیا تو اس نے مجھے وہاں سے ایک مصلّی لاکردیا اور کہا کہ اس پر نماز میرے دفتر میں پڑھاکرو۔ یہ ذکر میرا ہی ہے جو بغیر نام لئے حضورؓ نے اپنی تقریر ’’ملائکۃاللّہ‘‘میں کیا ہے۔ فرماتے ہیں:
’’اگر دفتر میں کام کرتے ہوئے نماز کا وقت آجائے تو بے شک وہاں پڑھ لو، مگر جہاں کوئی مجبوری نہیں، اس حالت کے متعلق میرا یہی عقیدہ ہے کہ نماز نہیں ہوتی۔ بعض دفعہ ملازموں کو ان کے افسر نماز نہیں پڑھنے دیتے۔ ایک افسر تھا وہ ایک احمدی کونماز نہیں پڑھنے دیتا تھا، اس نے ملازمت چھوڑ دی اور دوسری جگہ کرلی۔ دوسری جگہ اسے ایسا انگریزافسر ملا جس نے خود مصلّی لاکر دیا اور کہا کہ اس پر میرے سامنے نماز پڑھا کرو۔ تو جو شخص خداتعالیٰ کے لئے کام کرتا ہے، خداتعالیٰ خود اس کا انتظام کردیتاہے۔‘‘ ( ’’ملائکۃ اللّہ‘‘صفحہ 50، باراوّل)
اس کتاب ’’ملائکۃ اللّہ‘‘ میں حضور کی جلسہ سالانہ1920 ء کی تقریر درج ہے۔ جبکہ ملازمت ترک کرنے کا ذکر قبل ازیں گزر چکاہے۔
تبلیغ اور اس کے پھل
شروع 1917ء میں ہم لوگ بنوں سے واپس راولپنڈی آگئے۔ بنوں میں 1915ء تا1917 ء مجھے تبلیغ کی بہت توفیق ملی۔ میرے ساتھ مولوی محمد عبداللہ صاحب ساکن فتح پور ضلع گجرات تھے، جو بعد میں درویش قادیان بن گئے اور لائبریرین کا کام ان کے سپرد رہا اور وہیں وفات پاکر بہشتی مقبرہ میں مدفون ہوئے۔ آپ بہت معزز خاندان برلاس تھے اور بہت منکسرالمزاج۔ نیز میاں عبداللہ صاحب درزی (مدفون بہشتی مقبرہ) بھی وہاں تھے۔ ہم اکثر اکٹھے ہوتے اور حضرت خلیفۃالمسیح الثانیؓ کے مبارک کاموں کا ذکر کرکے لطف اٹھاتے۔
بنوں میں ہم دفتر جاتے ہوئے اپنے ساتھ سلسلہ کے ٹریکٹ لے جاتے اور انگریزوں، پٹھانوں، مسلمانوں اور ہندوؤں میں تقسیم کرتے تھے۔ وہاں عبدالہادی صاحب اور شیخ اللہ بخش صاحب غیر مبائع صاحبان تھے۔ کئی دن رات ان سے بحث ہوتی رہی۔ ایک شب میرے مکان پر ان سے بحث ہورہی تھی کہ نماز عشاء کا وقت ہوگیا۔ میں امام تھا اور یہ دونوں مقتدی۔ میں نے دعا کی کہ الٰہی! ان دونوں میں سے ایک دیدے۔ قدرت الہٰی کہ شیخ صاحب نے بیعت کرلی اور عبدالہادی صاحب غیر مبائعین کے بڑے بھاری رکن بن گئے۔ سنا تھا کہ بعد میں کسی نے ان کو قتل کردیا تھا۔
ایک مولوی صاحب سے تبلیغی مناظرہ
لکی مروّت کے ایک شریف الطبع مولوی بنوں تشریف لائے۔ کسی نے ان کے پاس شکایت کی کہ یہاں ایک مرزائی بابو آیا ہوا ہے جس کی وجہ سے بعض لوگ احمدی ہورہے ہیں۔ انہوں نے کہا کہ اس کومیرے پاس لاؤ، میں اس سے بات کروں گا۔ میں نے سنا تھا کہ یہ مولوی صاحب حضرت سید عبداللطیف صاحبؓ شہید کے خاص دوستوں میں سے تھے۔ جب وہ آپؓ کے وطن خوست گئے تھے تو حضرت محمدوح نے ان کو چار صد روپیہ کی قیمت کا گھوڑا بطور تحفہ دیا تھا۔ مکرم عبدالکریم صاحب سیکرٹری تبلیغ جو اُن دنوں ہماری کور میں ملازم تھے، رات کے دس بجے کے بعد مجھے بیدار کرکے یہ بتا کر لے گئے کہ فلاں مکان میں بہت سے پٹھان مولوی جمع ہیں اور آپ کو بحث کے لئے بلا رہے ہیں۔
ہم پہنچے تو دیکھا کہ ایک بڑی ڈیوڑھی میں بڑی بڑی چارپائیوں پر بڑے بڑے پٹھان مولوی بیٹھے ہیں۔ ان مولوی صاحب نے جو مجھے میانہ قد، شکیل اور شریف نظر آتے تھے۔ مجھے اپنے پاس جگہ دی اور رسمی گفتگو کے بعد پوچھا کہ ہم لوگ کیا کہتے ہیں۔ میں نے کہا کہ حضرت مرزا صاحبؑ نے ہمیں بتلایا ہے کہ حضرت عیسیٰ فوت ہوگئے ہیں۔کہنے لگا کوئی دلیل؟۔ میں نے غالباً آیت فلمّا توفّیتنی، پڑھ کر اس کی تفسیر بیان کی۔ فرمایا اور دلیل؟ ۔ میں نے ایک اور آیت پڑھ دی، پھر کہا کوئی اَور۔ میں نے ایک اور آیت پڑھ کر تفسیر شروع کردی۔ اللہ تعالیٰ نے مجھے خوب تبلیغ کرنے کی توفیق بخشی۔ جس پر میں بھی اور میرے ساتھی بھی متعجب تھے۔
جب رات بہت گزر گئی تو میں نے کہا کہ میں ایک عقلی دلیل دیتا ہوں کہ اگر یہ کہا جائے کہ جب تک پہلا جرنیل جو ابھی تبدیل ہوا ہے نہ بلایا جائے، اس حلقہ کا انتظام نہیں ہوسکتا اور سب کام خراب ہوجائے گا۔ تو کیا موجودہ جرنیل کی کوئی عزت باقی رہے گی؟۔ خدا جانے کس طرح مولوی صاحب کے منہ سے نکل گیا نہ سہی، نہ رہے۔ اس پر لوگوں نے مجھے کہا کہ اب آپ جائیں اور وہ پٹھان سخت شرمندگی محسوس کرنے لگے کہ مولوی صاحب نے یہ کیا کہہ دیا۔ میں اور میرے ساتھی وہاں سے چلے آئے اور اللہ تعالیٰ کا شکر ادا کیا کہ تبلیغ کی توفیق ملی۔ حالانکہ موقع بڑا خطرناک تھا۔ یہ لوگ ہمیں مار بھی ڈالتے تو کوئی گواہ نہ ملتا اور نہ مقدمہ ہو سکتا۔
قادیان سے تبلیغی وفد کی آمد
بنوں میں جب ہر طرف یہ شور اٹھا کہ مرزائی یہاں تبلیغ کررہے ہیں تو میں نے حضرت کے حضور عریضہ لکھا کہ حضرت حافظ روشن علی صاحبؓ اور کسی اَور مبلغ کو بھجوائیں۔حضورؓ نے درخواست کوشرف قبولیت بخشتے ہوئے حضرت حافظ صاحبؓ اور حضرت میر محمد اسحق صاحبؓ کو بنوں بھجوادیا۔ دونوں بزرگوں نے خوب تبلیغ کی اور سارے علاقہ میں شور پڑ گیا۔غرض اللہ تعالیٰ نے میرے ہاتھ سے یہ کام کرایا جبکہ اس زمانہ میں صوبہ سرحد میں تبلیغ احمدیت کرنابڑا مشکل کام تھا۔ اَلْحَمْدُلِلّٰہ
اللّٰہ تعالیٰ سے تعلق کا ثبوت
بنوں میں غالباً اواخر1916 ء میں ایک روز مَیں اپنے ساتھی کلرک بابو ہری سنگھ کے ساتھ دفتر سے گھر کی طرف آرہا تھا۔ ان کے ساتھ اکثر مذہبی گفتگو رہتی تھی۔ انہوں نے پوچھا: کیا آپ کا اللہ تعالیٰ سے تعلق ہے؟۔ میں نے کہا کہ آپ سوال کی تصحیح کر کے یہ پوچھیں کہ آپ کا میرے مقابل پر اللہ تعالیٰ سے زیادہ تعلق ہے؟۔ انہوں نے کہا یوں ہی سہی۔ اثبات میں جواب دینے پر انہوں نے ثبوت طلب کیا۔ میں نے کہا یہ کہ آپ میرے ہاتھ سے ڈسچارج ہوں گے۔
بات تو میرے منہ سے نکل گئی اور میں خود حیرت میںڈوب گیا کہ یہ کیا بات میرے منہ سے نکلی تھی۔ ادھر یہ سکھ بھی حیران تھا کہ یہ کیا جواب ملا ہے۔
اللہ تعالیٰ کی شان تھوڑے عرصہ میں ان کی آنکھوں میں تیز ککرے پڑگئے اور وہ کئی ماہ تک شفاخانہ میں داخل رہے۔ وہ صحت یاب ہوئے تو میں رخصت لے کر قادیان آگیا اور وہ کور کے ساتھ راولپنڈی آگئے۔ میں ابھی رخصت پر تھا کہ چاروں ہندوستانی افسران نے یہ سازش کی کہ مجھے ہری سنگھ کے ماتحت کردیا جائے تو میں تنگ آکرملازمت ترک کردوں گا۔ رخصت سے واپسی پر مجھے اس بات کا علم ہوا تو میں نے اللہ تعالیٰ کے حضور بڑے الحاح سے دعا کی کہ میں بڑا گناہگار ہوں، میرے گناہ معاف فرماکر میری عزت رکھیو۔ جب میں گھر سے دفترکی طرف جارہا تھا تو یکے بعد دیگرے چاروں ہندوستانی سرداروں سے سامنا ہوا اور ہر ایک نے معذرت کر کے شرارت کسی دوسرے کی بتائی اور کہا کہ اس میں وہ قصور وار نہیں۔ جب دفتر پہنچا تو بابو ہری سنگھ نے کہا کہ افسر آپ پر مہربان ہے۔ اُس کو کہیں کہ وہ مجھے ہسپتال لے جاکر طبی طور پر مجھے ناقابل ملازمت قرار دلادے تاکہ مجھے پنشن مل جائے۔ چنانچہ میرے کہنے پر افسر نے ایسا ہی کیا۔ جب ان کی ملازمت سے فراغت اور وظیفہ (پنشن) کے کاغذات بن گئے اور میں اُن کے ساتھ گھر کو آرہا تھا تو اچانک بنوں والی بات مجھے یاد آگئی اور میں نے ان کو کہا کہ لو بابو صاحب آج وہ بات پوری ہوگئی کہ آپ میرے ہاتھ سے ڈسچارج ہونگے اور یہ اسلام کی سچائی کا ثبوت ہے۔ وہ خاموش رہے ؎

اے خدا قربان احسانت شوم
کانِ احسانی بقربانت شوم

خدائی غیرت کا ایک نشان
1914ء میں ہمیں نوشہرہ جانا ہوا۔ جہاں ایک روز ایک رسالدار مجھے ایک سید کے مکان پر لے گئے جو نوشہرہ کا رئیس تھا۔ اُس بدزبان نے حضرت امّ المؤمنینؓ کی شان میں بے ادبی کے کلمات کہے جس سے میرا دل جل گیا۔ اور ابھی تیسرا دن نہ گزرا تھا کہ میرے دل کا شعلہ اس سید کے ٹال پہ جاپہنچا اور اسے آگ لگ جانے سے اُس کا ایک لاکھ روپیہ کا نقصان ہوگیا۔ میں اس کی پریشانی کو دیکھتا اور اللہ تعالیٰ کی حضور حضرت امّ المؤمنینؓ کی قدرومنزلت کو محسوس کرتا اور اُس کی قدرتوں کا تصور کرکے محو حیرت ہوجاتا کہ اس شدیدالبطش نے کتنی جلدی اس رئیس کو پکڑ ااور اس کا سینہ جلادیا ؎

میرے دل کی آگ نے آخر دکھایا یہ اثر
چند متفرق افضال باری تعالیٰ کا ذکر

1918ء میں کپتان پارس افسر بنے اور اِس افسر نے یونٹ کی مخفی کتاب میں تحریر کیا کہ اگر کبھی بابو فضل احمد اور یونٹ میں اختلاف پڑ جائے تو میں پُر زور سفارش کرتا ہوں کہ فضل احمد کی بات پر کمان افسر عمل کرے کیونکہ یہ بہت دیانتدار اور سچا آدمی ہے۔ وغیرہ وغیرہ۔
اُن کے بعد جب کپتان ڈیمیٹرآگئے تو میری غیرحاضری میں بعض ہندوستانی افسران نے اُن کو کہا کہ آپ کی کور کا کمان افسر تو دراصل بابو فضل احمد ہی ہے جو یہاں کا ہیڈ کلرک ہے۔ اُس نے جوش میں آکر کہا کہ ہم اسے دیکھیں گے اور وہ ہمارے زمانہ میں نہ رہ سکے گا۔ لیکن جب وہ کسی دوسرے افسر کو ملنے جلال آباد گیا تو اُس افسر نے کپتان ڈیمیٹر کو یونٹ کا چارج لینے پر مبارکباد دی اور کہا کہ وہاں ایک بابو فضل احمد نامی ہے اور کہا کہ تم اُس کی بات مانا کرنا اور اُس کے خلاف کسی کی شکایت نہ سننا۔ وہ حیران ہوا۔ چند دن بعد راولپنڈی آیا تو ہماری یونٹ کے سرداروں کے متعلق میری رائے پوچھی۔ مجھے علم تھا کہ وہ کہہ چکا ہے کہ ہمارے زمانہ میں فضل احمد نہیں رہے گا اور اب وہی افسر پوچھ رہا ہے کہ انڈین افسروں کے متعلق اپنی رائے بیان کروں۔ پہلے تو میں خوفزدہ ہوا مگر اُس کے اصرار پر میں نے اپنی رائے بیان کی تو اُس نے بہت خوش ہوکر کہا کہ آپ ہمارے زمانہ میں بھی ویسے ہی معزز رہیں گے جیسے پہلے افسران کے زمانہ میں رہے ہیں۔
میں اللہ تعالیٰ کے اس کام پر ابھی حیران ہی تھا کہ اس افسر نے واپس جاکر اپنے پاس مجھے بلانا چاہا اور میں نے روزانہ کی تلاوت میں ایک روز سورۃ فتح پڑھی اور جب پڑھا

اِنّا فتحنا لک فتحاً مبیناً۔

تو میرے دل میں گزرا کہ کوئی انعام الٰہی نازل ہوگا۔ تلاوت سے فارغ ہوا تھا کہ تارکے ذریعہ میرے نام اُس کا حکم آیا کہ میں کچا گڑھی (نزدپشاور) پہنچوں۔ میں وہاں پہنچا تو افسر مذکور کو جلال آباد آنے کا حکم آگیا۔ اسی جگہ پر ہمارے یونٹ کا قیام تھا۔ اتفاق ایسا ہوا کہ لڑائی سے ڈر کر بعض بارگیر بھاگ گئے اور اپنے مالکوں کے اونٹ چھوڑ گئے(اونٹوں کے مالک سرداراوران کے ملازم بارگیر کہلاتے تھے۔) چونکہ وہ لڑائی کے دن تھے۔ کمان افسر نے مالکان شطران کو حکم بھیجا کہ وہ اپنے فرار کردہ بارگیروں کی جگہ اور بارگیر بھیجیں۔ مگر کوئی نہ آیا اور نہ مالکان نے جواب ہی دیا۔ اس پر کمان افسر نے ناراض ہوکر اُن کے اونٹ فروخت کر دئے اور اپنے ماتحتوں کو دے دیئے۔ اس کمان افسر نے میرے نام پر دو اسامیاں (چھ اونٹ) لکھ دیئے۔ اور اسی طرح دیگر عہدیداران مثلاً انڈین افسروں وغیرہ کے نام پر اونٹوں کا اندراج کردیا۔ جس سے مجھے قریباً دو ہزار روپیہ مفت میں مل گیا۔
پھر لیفٹیننٹ اینڈرسن تبدیل ہوکر آئے ان کا زمانہ میرے لئے بڑی عزت اور حکومت کا تھا۔ 1920ء میں میجر براٹسن آئے، سنا گیا کہ یہ بڑا سخت افسر ہے۔ میں ان دنوں مری میں تھا۔ اُس کی تار آئی کہ اپنا دفتر نیچے لاؤ۔ چنانچہ میں راولپنڈی میں آیا اور ان سے ملا۔ افسر مذکور کو خدا نے ایسا موم کردیا جیسے کوئی مرید ہوتا ہے۔ اور ہربات مانتا ہے۔
1933ء میں میرا تبادلہ ڈیرہ اسماعیل خان ہوگیا اور گرمیوں میں رزمک جانا پڑا۔ یہ زمانہ میرے لئے پریشانی کا تھا اور میری توجہ دعاؤں کی طرف تھی۔ ہم ایک خیمہ میں سات آٹھ کلرک رہتے تھے۔ اُن میں سے ایک ہندو کلرک متأثر ہوکر مجھے بار بار نمازپڑھتے دیکھتا تو بے اختیار ہوکر کہتا کہ یہ شخص تو دنیا سے منہ پھیر کر عبادت میں ہی مصروف رہتا ہے، کاش ہم ہندو کلرک بھی ایسے ہی ہوتے۔
اس زمانہ میں لیفٹیننٹ نذیر احمد بھی وہاں تھے اور نئے نئے لیفٹیننٹ ہوکر گورا فوج میں کمانڈر دستہ مقرر ہوئے تھے اور ہر فرصت کے موقعہ پر ورزش جسمانی ہی کرتے رہتے تھے۔ مجھ سے بہت محبت رکھتے تھے اور چاہتے تھے کہ میں اُن کی سفارش خان بہادر محمد دلاور خان صاحب کے پاس کروں تاکہ انہیں وہ اپنے محکمہ میں لے لیں۔ خان بہادر صاحب اسسٹنٹ پولیٹیکل ایجنٹ بھی انہی دنوں رزمک میں تھے۔ یہ بالکل پیغامی خیال کے تھے۔ میری ان کے ساتھ اکثر بحث ہوتی رہتی تھی، مگر دل کے بہت نرم اور حد درجہ کے شریف الطبع تھے۔ حضرت خلیفہ ثانیؓ کے ذکر پر باتیں تو کرتے رہتے مگر مخالفِ شان کبھی کوئی بات نہ کرتے۔ ایک احمدی بھائی ملک الطاف خان صاحب محلہ دارالفضل قادیان میں رہتے تھے ان کے بہت مداح تھے اور ان کے الہامات کا بھی اکثر ذکر کرتے۔ یہی وجہ تھی کہ خدانے ان کو پھر جماعت میں شامل ہونے کی توفیق عطا فرمائی۔ (حضرت ملک محمد الطاف خان صاحبؓ مدفون بہشتی مقبرہ قادیان)۔
خلیفہ وقت کی اطاعت اور اس کی برکت
1923ء میں مجھے تنخواہ گورنمنٹ سے 75 روپے اور یونٹ سے الاؤنس ڈیڑھ سو روپیہ گویا کُل سوا دوصد روپے ماہوار ملتے تھے۔ ملٹری آڈٹ نے یہ سوال اٹھایا کہ سرکاری ملازمین کو دو جانب سے تنخواہ نہیں مل سکتی۔ پھرحکومت ہند نے بھی فیصلہ کردیا کہ صرف تنخواہ ملا کرے گی اور الاؤنس نہیں دیا جائے گا۔ اس طرح مجھے سوا دو صد کی بجائے صرف پچھتر روپے ملنے لگے۔ چونکہ مجھے سب سے زیادہ الاؤنس ملا کرتا تھا اس لئے مجھے نقصان بھی سب سے زیادہ پہنچا۔ خاکسار نے ہر چند چاہا کہ ملازمت چھوڑ کرتجارت شروع کردوں اور استعفیٰ دے دوں مگر امیرالمومنین خلیفۃالمسیح الثانیؓ نے اجازت نہ دی اور فرمایا کہ ملازمت ہی کرتے رہو۔ گو اُس وقت اس کامجھے سخت صدمہ ہوا کیونکہ میرا دل نہیں چاہتا تھا کہ میں اس حالت میں تھوڑی تنخواہ پر کام کروں۔ مگر اللہ تعالیٰ اپنے پاک بندوں کے کلام میں برکت رکھتا ہے۔ یہ اُس کا اثر اور حضور کااحسان ہے کہ مجھے1936 ء سے پنشن مل رہی ہے۔ الحمدللّہ
خلافت کی برکات اور احیائے نو کا نشان
حضرت شیخ صاحبؓ بیان فرماتے ہیں کہ 1929ء میں کوئٹہ میں قیام کے دوران نمونیہ کی وجہ سے مجھے ہسپتال میں داخل کیا گیا۔ میری زندگی کی اُمید منقطع ہوگئی تھی، مگر حضرت خلیفہ ثانیؓ کی دعا اور توجہ سے دوبارہ زندگی پائی اور حضورؓ کی توجہ سے ہی جماعت نے میری بے حد خدمت کی۔ تین احمدی ڈاکٹر اور کئی احباب میری دیکھ بھال میں مصروف رہتے تھے۔ وہ رات کو باری باری کئی گھنٹے میرے جسم کو دباتے رہتے اور تمام رات اسی خدمت میں گزار دیتے اور ساتھ ہی اپنے گھروں کے کام بھی کرتے اور اپنے دفتر میں بھی حاضر ہوتے تھے۔ فجزا ھم اللّہ احسن الجزائ۔ ایک غیر احمدی نے جب یہ نظارہ دیکھا تو سمجھا کہ یہ سب میرے رشتہ دار ہیں اور یہ معلوم کرکے حیران رہ گیا کہ یہ سب اخوت اسلام اور احمدیت کی برکت ہے۔ بحالی صحت پر جب میں نے حضرت خلیفہ ثانیؓ کی خدمت میں حالات لکھے اور احباب کے ایثار اور قربانی سے اطلاع دی تو حضورؓ نے جماعت کو مبارکباد کا خط لکھا۔
جماعت احمدیہ لاہور کا سیکرٹری تبلیغ
1930ء کے غالباً جون میں کوئٹہ سے میری تبدیلی لاہور چھاؤنی میں ہوگئی۔ لاہور میں مجھے سیکرٹری تبلیغ منتخب کیاگیا۔ حضرت خلیفۃالمسیح الثانیؓ کی صدارت میں یہ انتخاب ہوااور محترم پروفیسر قاضی محمد اسلم صاحب ایم-اے امیر جماعت لاہور مقرر ہوئے۔ انہی ایام میں مکرم عبدالرحمن صاحب خادم مرحوم اور مکرم قاضی محمد نذیر صاحب لائلپوری لاہور تشریف لاکر مباحثات کیا کرتے تھے۔ بہت کام اُن دنوں معزز احباب نے کیا اور میرے زمانہ سیکرٹری شپ میں لاہور میں اللہ تعالیٰ کے فضل و رحمت سے خوب تبلیغ ہوئی۔
خدا تعالیٰ کی غیرمعمولی مدد
گو عادتاً بھی مَیں حضرت خلیفہ ثانیؓ کے حضور دعا کے لئے لکھتا رہتا تھا لیکن ایک خاص معاملہ میں جب دعا کے لئے لکھا تو اُس کی قبولیت کا نظارہ بھی دیکھا۔
اگست 1931ء میں میری زوجہ ثانیہ بیمار ہوگئیں تو ہمارے کمانڈنٹ کرنل رائس نے میرے مطالبہ پر سپرنٹنڈنٹ لیڈی ریچسن اسپتال کے نام پُرزور سرکاری چٹھی لکھی کہ وہ ان کا علاج توجہ سے کریں۔ لیکن ساتھ ہی کرنل رائس نے یہ بھی مجھے بتایا کہ وہ سپرنٹنڈنٹ سے واقف نہیں ہے۔ لیکن جب مَیں نے لیڈی ڈاکٹر فیل انچارج شفاخانہ کو چٹھی دی تو وہ کہنے لگیں کہ کرنل صاحب تو میرے بڑے دوست ہیں اور اُنہیں شاید علم نہیں ہے کہ میں ایک ہفتہ پہلے ہی انچارج ہوکر لاہور آگئی ہوں۔ اُسی وقت لیڈی ڈاکٹر نے جواباً چٹھی لکھ کر مجھے دی کہ میں توجہ سے علاج کروں گی اور اپنے لاہور آنے کا بھی اس میں ذکر کیا اور مجھے ہر طرح سے تسلی دی۔
یہ اتنی بارُعب لیڈی ڈاکٹر تھی کہ کسی کو شفاخانہ کے احاطہ کے اندر آنے کی اجازت نہ دیتی تھی۔ مگر بخلاف عادت میرے لئے ملازموں کو حکم دیا ہوا تھا کہ اِن کو اور ان کے بچوں کو ہر وقت اندر آنے کی اجازت ہے۔ انہوں نے نہ صرف میری بیوی کا علاج ہر طرح مہربانی اور محبت سے کیا بلکہ اللہ تعالیٰ کا فضل ایسا ہوا کہ ان ہی دنوں میں بعض احمدیوں کو لیڈی موصوفہ کے پاس لے جاتا تو بڑی توجہ کرتیں، فیس نہ لیتیں اور ہر طرح امداد کرتیں۔ حالانکہ دوسروںپر اُن کی سختی کا یہ عالم تھا کہ لوگ احاطہ شفاخانہ سے باہر کھڑے رہتے اور دس روپے فیس اُن کو بھیج دیتے۔ بڑی دیر کے بعد وہ اپنے اردلی کے ذریعہ مریض کو بلواتیں۔ جبکہ مَیں دو چار بار کسی مریضہ کے ساتھ گیا تو موصوفہ نے کہا کہ آپ خود نہ آیا کریں، خودآنے میں تکلیف ہوتی ہے، اپنا رقعہ مریضہ کو دیدیا کریں مَیں آپ کے مریض کو دیکھ لیا کروں گی۔ اور حقیقتاً موصوفہ نے ایسا ہی کیا۔
ایک شام جب میں گھر کو آنے لگا جو احمدیہ مسجد بیرون دلّی دروازہ کے قریب تھا تو معلوم ہوا کہ مولوی تاج دین صاحب (سابق ناظم دارالقضاء ربوہ) اپنی اہلیہ کو جو سخت بیمار ہیں لائے ہوئے ہیں۔ استحاضہ کی وجہ سے مسجد کے ایک حصہ میں خون ہی خون نظر آتا تھا۔ میں گھبرا گیا۔ اللہ تعالیٰ پر بھروسہ کرتے ہوئے ایک چارپائی پر مریضہ کولٹا کر اسی وقت ہسپتال لے گئے۔ مریضہ کی حالت سخت نازک تھی۔ اتوار کے روز لیڈی ڈاکٹر ہسپتال نہ آتی تھی۔ اس کی نائب انگریز لیڈی نے کہا کہ اتوار کو ہم کسی مریض کو داخل نہیں کرتے مگر آپ کا لحاظ ہے، ہم مریضہ کو داخل تو نہیں کرتے مگر رات بھر اس کی دیکھ بھال کریں گے، کل لیڈی ڈاکٹر آئے گی تو مزید کارروائی ہوگی۔ رات بھر مولوی صاحب اور ہم سب فکر مند رہے۔ مگر دوسری صبح لیڈی ڈاکٹر نے میرا نام سن کر مریضہ کو داخل کرلیا اور خدا تعالیٰ کے فضل اور احسان سے مریضہ صحت یاب ہوگئیں۔
ایک روز حضرت قریشی محمد حسین صاحبؓ (امیر جماعت لاہور) نے مجھے کہا کہ سنا ہے کہ یہ لیڈی ڈاکٹر آپ کی سفارش پر بہت توجہ کرتی ہے۔ میری بہو بیمار ہے۔ سو میں نے سفارش کرتے ہوئے لکھا کہ مریضہ امیر عورت ہے اس سے فیس لے لیں۔ لیڈی ڈاکٹر نے ایسا ہی کیا اور مریضہ کا علاج کیا۔
جب لیڈی ڈاکٹر فیل واپس ولایت جانے لگیں تو میں نے ’’اسلامی اصول کی فلاسفی‘‘ (انگریزی) اور شاید کوئی اَور کتاب بھی اُن کو تحفۃً پیش کی اور ان کا بہت بہت شکریہ ادا کیا کہ آپ نے میری بڑی امداد فرمائی اور میری درخواستوں پر مریضوں پر رحم کیا۔ اُنہوں نے شکریہ کے ساتھ لٹریچر قبول کیا۔ مَیں سمجھتا ہوں کہ یہ سب کچھ حضرت مصلح موعودؓ کی دعاؤں کی برکت تھی۔ ؎

وگرنہ من آنم کہ من دانم

بعد پنشن خدماتِ سلسلہ اور رزقِ غیب کا سامان
حضرت شیخ فضل احمد صاحبؓ بیان فرماتے ہیں کہ غالباً اواخر1934 ء میں مجھے پھر لاہور چھاؤنی تبدیل کردیا گیا۔ بار بار کے تبادلوں سے میری طبیعت اکتاگئی تھی اور میں چاہتا تھا کہ کسی طرح مجھے پنشن مل جائے اور مَیں بقیہ زندگی قادیان میں گزاروں۔ سواللہ تعالیٰ نے میری خواہش پوری کردی اور میں طبی لحاظ سے ناقابل ملازمت قرار دیا گیا۔ اور پھر غالباً ستمبر 1935ء میں قبل سبکدوشی، طویل رخصت پر لاہور چھاؤنی سے اپنے گھرقادیان آگیا۔ یہاں میں نے کمرہ بند کر کے دعا مانگی کہ الٰہی! تُو مجھے اپنے رحم خاص سے میری خواہش کے مطابق قادیان لے آیا ہے۔ اب ایک اَور نظر رحم کرکہ مجھے کسی کے در پر رزق اور ملازمت وغیرہ کے لئے جانا نہ پڑے حتّٰی کہ خلیفہ کے در پر بھی نہ لے جائیو اور اپنے فضل سے ہی میرے رزق کے سامان کریو۔
دعا کے بعد میں نے کمرہ کا دروازہ کھولا تو ایک احمدی بھائی کو کھڑے پایا جو حضرت صاحبزادہ مرزا بشیر احمد صاحبؓ کی چٹھی لائے تھے جس میں مرقوم تھا کہ آپ مجھے کسی وقت آکر ملیں۔ میرے دل میں اللہ تعالیٰ نے یہ بات ڈالی کہ یہ قبولیت دعا کا نشان ہے۔ ملاقات میں حضرت میاں صاحبؓ نے فرمایا کہ میں احمدآباد سینڈیکیٹ کا سیکرٹری ہوں اور میں چاہتا ہوں کہ آپ میرے دفتر میں کام کریں۔ میں نے خوشی اور شکریہ کے ساتھ تعمیل ِ ارشاد کی۔ مجھے علاوہ پنشن تیس روپے ماہوار الاؤنس ملنے لگا۔ نیز مجھے احمدیہ سٹور کا مینجر مقرر کیا گیا اور پندرہ روپے الاؤنس مقرر ہوا۔ اور مجھے اتنی ہی آمدنی ہونے لگی۔ جتنی پنشن سے پہلے تھی۔ الحمدللہ کہ اللہ تعالیٰ نے دعا سن کر میری دستگیری فرمائی۔
میرا مشاہدہ ہے کہ حضرت مرزا بشیر احمد صاحبؓ نہایت باریکی سے تقویٰ کی راہوں پر قدم مارنے والے تھے۔ آپؓ نے اگر کبھی ایک لفافہ بھی ذاتی طور پر کسی کے نام لکھا تو اپنے پاس سے اُس کا ڈاک خرچ دیا اور اپنا حساب اتنا پاک صاف رکھا کہ مجھے اس پاکیزگی کا علم ہوکر بے حد خوشی ہوئی۔
فروری1941 ء میں محترم مرزا محمد شفیع صاحبؓ محاسب صدر انجمن احمدیہ نے بطور نگران افسر امانت مجھے لگانا چاہا۔ 1942ء میں حضرت خلیفۃالمسیح الثانیؓ نے مجھے علاقہ ناگپور میں پنڈھورنا کے مقام پر بھجوادیا۔ چونکہ مَیں سندھ کی زمینوں کے انتظام میں کام کر رہا تھا جہاں روئی کی جنس میں سے بنولہ الگ کرکے گانٹھیں بنانے کا کام صرف ایک ہندو کی فیکٹری میں کروانا پڑتا تھا۔ چنانچہ حضورؓ نے سوچا کہ کیوں نہ کنری فیکٹری میں جماعت کی اپنی ایسی مشین لگالی جائے ۔ اِس بارہ میں مختلف جگہوں سے کاغذات منگوائے گئے اور حضورؓ نے مجھے ہدایات دے کر ناگپور بھجوایا۔ یہاں سے ایک مشین خرید کر مَیں نے اُس کے پرزے لکڑی کے بکسوں میں پیک کرکے کنری فیکٹری میں لاکر اُس کی فٹنگ کروائی۔ اس کام کے تجربہ کار آدمی بھی تلاش کئے۔ اس پر حضورؓ کی خوشنودی بھی حاصل ہوئی اور بعد میں اس مشین سے روئی کی گانٹھیں بناکر بیرون پاکستان بھجوانے سے زرمبادلہ کمانے کا یہ نہایت مؤثر ذریعہ بھی بن گیا۔ بعد ازاں حضورؓ نے بیرونی ممالک سے تجارت کے لئے ایک فرم ایشوافریقن بھی قائم فرمائی۔
1950 ء میں مجھے افسر امانت بنا دیا گیا۔ لیکن چونکہ آنکھوں میں موتیا بند اتر رہا تھا اس لئے 1950ء میں ہی درخواست دے کر میں نے فراغت حاصل کرلی اور چنیوٹ میں خانہ نشین ہو گیا۔ پھر اکتوبر1956 ء میں ایک آنکھ کا اور اپریل 1959ء میں دوسری آنکھ کا لاہور میں آپریشن کروایا۔ ہر دو مواقع پر حضرت خلیفۃالمسیح الثانیؓ نے دعا کی اور نصف صد روپیہ کی امداد بھی کی۔ سو بحمدللہ آپریشن کامیاب ہوئے۔
حضرت مرزا بشیر احمد صاحبؓ کی قبولیتِ دعا
٭ 1935ء میں مجھے احمدیہ سٹور قادیان کا مینجر بنایا گیا تھا۔ اورمجھے یہ توفیق ملی کہ حضرت مرزا بشیر احمد صاحبؓ کی زیرہدایت میں نے سٹور کے مکانات و دوکانات کی نیلامی کا بندوبست کیا۔ اُس وقت عام خیال یہ تھا کہ احمدیہ سٹور کی اراضی حضرت مرزا بشیر احمد صاحبؓ سے ہی خریدی گئی تھی۔

جب ہم 1947ء کے انقلاب کے بعد ربوہ آئے اور الاٹمنٹ وغیرہ کی قیمتوں کا سرکار سے مطالبہ کیا گیا تو میں نے تمام خریدارانِ اراضیات دوکانات و مکانات کوبحیثیت مینجر تصدیق دی تھی۔ اس میں ایک ٹکڑا اراضی میرے ایک لڑکے کے نام پر میں نے خریدا ہوا تھا۔ جب میرا مطالبہ پیش ہونے کا وقت آیا تو خاندان حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے اراضیات کے ریکارڈ سے یہ پتہ نہیں لگتا تھا کہ سٹور کی اراضی اس خاندان سے خریدی گئی تھی۔ میں سخت حیران ہوا کیونکہ مجھے یہ خوف دامن گیر ہوا کہ افسر متعلقہ نے مجھ سے پوچھ لیا کہ بطور مینجر احمدیہ سٹور یہ اراضی کس سے خریدی تھی تو میں کیا جواب دوں گا۔ اور ثبوت نہ دے سکوں گا تو وہ مجھ پر مقدمہ بنا دے گا کہ یہ خود اپنی ملکیت ثابت نہیں کرسکتا، اس لئے یہ اراضی کسی غیر کی تو نہ تھی جو اس نے نیلام کردی۔ میں نے جب اس معاملہ کو حضرت مرزا بشیر احمد صاحبؓ کے سامنے رکھا اور عرض کیا کہ مجھے اپنی رقم کا تو فکر نہیں، فکر اس امر کا ہے کہ کہیں مجھ پر مقدمہ نہ بن جائے۔ آپ دعا کریں کہ اللہ تعالیٰ میری مدد فرمائے اور مجھے اس غم سے عزت کے ساتھ خلاصی بخشے۔ آپؓ نے دعا کا وعدہ فرمایا اور میں احمدیہ سٹور کے کاغذات لے کر جھنگ چلاگیا۔
افسر نے حالات سن کر ابھی یہ سوال کرنا ہی تھا کہ صدر انجمن احمدیہ کا ریکارڈ پیش کریں کہ اتفاق حسنہ سے بحیثیت مینجر احمدیہ سٹور، میری کاپی اُسے پیش کی گئی۔ اور اُس نے بغیر پس و پیش کے اسے درست تسلیم کر تے ہوئے مجھے گیارہ صد روپیہ کی ڈگری دیدی۔ جس وقت وہ افسر حکم لکھ رہا تھا میں محو حیرت تھا کہ اگر اس نے صفحہ اُلٹ کر دیکھا اور بحیثیت مینجر میرے دستخط اور مہر کو دیکھا تو ممکن ہے اس کے دل میں خیال آئے کہ اصل مالک سے ملکیت کا ثبوت مہیا کیا جائے مگر تصرّفِ الٰہی نے ایسا کرنے سے اُسے روکے رکھا اور میں نے اللہ تعالیٰ کا شکراداکیا۔
ربوہ آکر جب میں نے حضرت صاحبزادہ صاحبؓ کو یہ واقعہ سنایا تو آپؓ نے نہایت خوشی سے فرمایا کہ آپ کے ساتھ وہی معاملہ ہوا جو حضرت مسیح موعودؑ کو پیش آیا تھا، جب مرزامام دین صاحب نے مسجد مبارک کے سامنے دیوار بنادی تھی اور الہام ہوا تھا کہ چکی چلی اور فتح ہوئی۔
٭ 1952ء میں خاکسار نے ارادہ کیا کہ جو اراضی دو قطعے مجھے دارالرحمت شرقی میں میری خرید کردہ ہے اس پر مکان تعمیر کروں۔ لیکن اس قدر روپیہ نہ تھا۔ سو ارادہ کیا کہ ایک قطعہ فروخت کردوں۔ حضرت مرزا بشیر احمد صاحبؓ کی خدمت میں مَیں نے اس کا ذکر کیا۔ آپ کے دریافت فرمانے پر میں نے عرض کیا کہ اس ایک کنال کے قطعہ کی قیمت اٹھارہ صد روپیہ کے قریب مجھے مطلوب ہے۔ فرمایا: یہ تو زیادہ ہے۔ عرض کیا کہ دعا کریں کہ مجھے اتنی رقم مل جائے۔ آپؓ نے قطعہ دیکھ کر دعا کا وعدہ فرمایا اور اللہ تعالیٰ نے چند روز میں پونے انیس سو روپیہ میں اس کی فروخت کا سامان کردیا جس سے مجھے مکان کی تعمیر کی توفیق عطا کی۔ فالحمدللہ علی ذٰلک۔
قادیان سے ہجرت اور جماعتی اموال کی الٰہی حفاظت
تقسیم برصغیر کے نتیجہ میں کیسے ہولناک مصائب کا سامنا ہوا اور حضرت مصلح موعودؓ کی قیادت کیسے ایک قلیل تعداد اور اموال والی جماعت کے نفوس و اموال کی حفاظت کا باعث بنی۔ حضرت شیخ صاحبؓ نے اِس حوالہ سے جو واقعات بیان فرمائے ہیں وہ خود آپؓ کی سیرۃ پر بھی روشنی ڈالتے ہیں۔ آپؓ بیان فرماتے ہیں:
اگست 1947ء میں تقسیم ملک ہوئی۔ اور قادیان سے نکلنے کا سامان ہونے لگا۔یہ بڑی مصیبت کے دن تھے۔ مگر خدا تعالیٰ نے ہمارے دلوں پر اپنی رحمت کے مرہم کا پھاہا رکھا۔ حضرت امیرالمؤمنین خلیفۃالمسیح الثانیؓ لاہور تشریف لے گئے۔ اور وہاں سے حضرت صاحبزادہ مرزا بشیر احمد صاحبؓ کو (جو قادیان میں بحیثیت امیر تمام امور کے منتظم تھے)پیغامات بھیجے کہ قادیان میں جو لوگوں کی امانتیں ہیں وہ لاہور بھجوائی جائیں۔ اس پر حضرت ممدوح نے مجھے حکم دیا کہ مَیں وہ امانتیں لاہور لے جاؤں۔ اُن دنوں حضرت خلیفۃالمسیح الثانیؓ لاہور سے ٹرک بھجوایا کرتے تھے۔ جن میں قادیان کی مستورات اور بچے لاہور جاتے تھے۔ مگر اُن ٹرکوں میں لاہور جانا کارِداردوالا معاملہ تھا۔ قادیان کے غیر احمدی لوگ بڑابڑاکرایہ دے کر ٹرک والوں سے جگہ لے لیتے تھے اور بہت سے احمدی جگہ نہ پاکر واپس آجاتے تھے۔ یہی حالت میری تھی۔ میں صبح کو امانتوں کے ٹرنک دفتر سے حضرت مرزا شریف احمد صاحبؓ کی کوٹھی پر لاتا۔ جگہ نہ ملتی تو شام کو واپس خزانہ صدر انجمن احمدیہ میں لے جاتا۔ یہ دن نہایت پریشانی میں گزارے اور کسی کو ہمراز بھی نہ بناسکتا تھا۔
قادیان سے جانے والوں کے لئے حضرت میاں صاحبؓ کی کوٹھی کے صحن میں مرکز بنایا گیا تھا۔ جماعتی نظام کے تحت لاہور سے آکر ٹرک وہاں کھڑے ہوتے تھے اور جماعت کے پرمٹ پر لوگوں کو اُن میں جگہ دی جاتی تھی تاکہ عورتوں اور بچوں کو پہلے بھجوایا جاسکے۔
احمدیوں کے انخلاء کے ساتھ ساتھ احمدیہ بازار کی دکانوں پر مخالفین قبضہ کرتے چلے جارہے تھے۔ ان حالات میں مجھے 19 ستمبر کو اطلاع ملی کہ ریسرچ انسٹیٹیوٹ کا سامان لانے کے لئے لاہور سے بسیں روانہ کی گئی ہیں، امانتوں کے ساتھ اُن میں روانہ ہونے کے لئے مَیں بھی تیار رہوں۔ اس لئے ایک دن پہلے میں امانت کے ٹرنک (واپس دفتر لے جانے کی بجائے) حضرت میاں صاحبؓ کی کوٹھی سے اپنے گھر میں لے آیا جو پاس ہی تھا۔ ساری رات دعا میں مصروف رہا۔ 20؍ستمبر کو مجھے جگہ مل گئی اور میں یہ ٹرنک لے کر قادیان سے روانہ ہوا۔ اللہ تعالیٰ کی یہ عجیب حکمت ظاہر ہوئی کہ ریسرچ کی لائبریری کے ٹرنک بھی ہوبہو امانت کے ٹرنکوں کے سائز اور رنگ کے تھے۔ یہ خاص مشیٔت ایزدی تھی اور حضرت خلیفۃالمسیح الثانیؓ کی دعاؤں کا عجیب نشان۔
جب ہم قادیان سے ایک میل باہر آئے تو اس چھ بسوں والے قافلہ کو روک لیا گیا۔ اور سامان اور ٹرنک وغیرہ چیک ہونے کا انتظار کرنا پڑا۔ اتنے میں میاں روشن دین صاحب زرگر میرے پاس آئے اور منت سماجت سے کہنے لگے کہ میرا یہ پارسل لاہور لے جائیں۔ اس میں سونے کی تین سلاخیں ہیں۔ میں نے مان لیا اور ان کا پارسل اپنے کیش بکس میں رکھ لیا۔ اتنے میں ایک ڈوگرہ لیفٹیننٹ آگیا اور سامان چیک کرنے لگا۔ اس نے مجھے پوچھا کہ اس کیش بکس میں کیا رکھا ہے۔ میں نے کہا کہ مجھے ایک شخص نے یہ کہہ کر پارسل بطور امانت دیا ہے کہ اس میں تین سلاخیں سونے کی ہیں۔ اُس نے پارسل کھولا اور سونے کی سلاخیں اپنے ہاتھ پر رکھ کر کچھ دیر سوچا۔ پھر میری طرف مخاطب ہوکر کہا یہ دیکھ لیں مَیں آپ کی سونے کی سلاخیں آپ کو واپس دے رہا ہوں۔ اور پھر بس کے اندر دوسرے سامان کو چیک کرنے لگا۔ اس میں فضل عمر ریسرچ انسٹی ٹیوٹ کے جستی ٹرنک اور بڑے بڑے صندوق تھے۔ ان میں کتابیں ہی کتابیں تھیں۔ وہ جس صندوق کو کھولتا اوپر سے نیچے تک چیک کرتا کہ کتابوں کے علاوہ کوئی اور چیز اسلحہ وغیرہ تو نہیں۔ جب وہ دو تین ٹرنک دیکھ چکا اور اس کو اطمینان ہوگیا تو میری طرف آیا اور جہاں میرے والے امانتوں کے جستی ٹرنک رکھے تھے، اُن کو دیکھ کر از خود ہی کہنے لگا کہ یہ بھی ریسرچ کا ہی سامان ہے۔اور پھر اس نے قافلے کو جانے کی اجازت دیدی۔
بسیں روانہ ہوئیں تو میں نے اللہ تعالیٰ کا شکر اداکیا۔ کیونکہ میرے ساتھ جو امانت کے ٹرنک جارہے تھے ان میں لاکھوں روپے کی ڈبیاں اور پارسل تھے۔ کسی کے زروجواہر، کسی کے زیوارات، کسی میں پاؤنڈ وغیرہ وغیرہ۔ واللہ اَعلم کیا کچھ نہ تھا۔ اور اگر اس افسر کو شبہ بھی ہو جاتا کہ ان ٹرنکوں میں لاکھوں کا مال ہے تو وہ ضرور روک لیتا اور ٹرنک کھلواتا اور اندر سے ہر ایک ڈبہ کھولتا۔ تو خدا جانے وہ لالچ میں آکر کیا کچھ کہتا کہ ہم جانے نہیں دیں گے۔ یا بھارت سرکار کو رپورٹ ہوگی، اگر سرکار نے اجازت دی تو یہ مال جائے گا ورنہ نہیں۔ یہ ایسی مصیبت تھی جس کے تصوّر سے ہی میری جان پر بن جاتی تھی کہ کسی کو میری بات کا یقین کیسے آئے گا کہ یہ مال فلاں نے لے لیا ہے۔ نہ مجھے کوئی رسید دی جائے گی نہ کوئی اَور صورت اطمینان کی ہوگی۔ مگر میں اپنے خدا پر قربان جاؤں کہ حضرت خلیفۃالمسیح کی توجہ سے یہ مشکل یوں حل ہوئی کہ فوجی افسر نے بغیر دیکھے ہی یہ سمجھ لیا کہ یہ بھی ریسرچ کا سامان ہے۔ اور چونکہ وہ ریسرچ کے ٹرنک دیکھ کر اطمینان کر چکا تھا کہ ان میں کتابیں ہیں اور کچھ نہیں اس لئے اس نے یہی گمان کیا کہ ان میں بھی کتابیں ہیں۔
یہ کس قسم کا زمانہ تھا اور کیسی مصیبت کا وقت تھا۔ جن لوگوں نے وہ مصیبت نہیں دیکھی وہ اس کا قیاس بھی نہیں کرسکتے۔ اور میں نے چونکہ یہ نظارے دیکھے تھے اس لئے میرے دل پر یہی اثر ہوا کہ محض خدا تعالیٰ کافضل و رحم تھا جو حضرت خلیفہ ثانی کی توجہ اور دعاؤں سے مجھ پر ہوا۔ کیونکہ حضورؓ چاہتے تھے کہ امانتیں لاہور پہنچ جائیں اور اس پر زور دیتے تھے۔ جیسا کہ میں نے سنا ہے یہ کہتے ہوئے کہ حضرت نبی کریم ﷺ نے جب ہجرت فرمائی تو حضرت علیؓ کو حکم دیاتھا کہ امانتیں جلد مدینہ بھجوائی جائیں۔ یہ تڑپ تھی جو احمدیوں کامال بچا کر لانے کا ذریعہ بن گئی ورنہ بظاہر مجھے کوئی صورت نظر نہ آتی تھی۔
جب ہمارا قافلہ موضع تتلےؔ کی نہر کے قریب پہنچا تو بس کے کلینر نے شور کرنا شروع کردیا کہ سر نیچے کرو، سامنے سکھ بندوقیں لے کر مورچیں بنائے بیٹھے ہیں۔ قریب ہے کہ قافلہ پر حملہ کردیں۔
بسیں جب پل سے پار ہوئیں تو قافلہ کے انچارج حوالدار نے حکم دیا کہ بسیں اسی جگہ ٹھہر جائیں۔ اس نے اتر کر اپنی برین گن سیٹ کی۔ اسی طرح اس کے ایک ماتحت نے بھی۔ سکھوں نے جو کھیتوں کی منڈیروں کی اوٹ میں بیٹھے ہوئے تھے اور ایک قسم کا مورچہ بنائے ہوئے تھے۔ گولیاں چلانی شروع کردیں۔ مگر خدا تعالیٰ نے بچا لیا۔ قافلہ کے کسی فرد پر نہ لگیں۔ اور حوالدار اور اس کے ساتھی نے فائر کرنے شروع کئے۔ کہا جاتا تھا کہ تیس بتیس سکھ مارے گئے اور باقی بھاگ گئے۔ واللہ اَعلم۔ غرض قافلہ وہاں سے روانہ ہوا۔ اور کچھ دُور ہی گیا تھا کہ سامنے سے سکھوں یا ڈوگروں کی فوج کے ایک افسر جیپ میں آرہے تھے۔ ہمیں خیال آیا کہ جب وہ سکھوں کی لاشیں دیکھیں گے تو ہمارے قافلہ کا تعاقب کر کے ہمیں روک لیں گے۔ مگر خدا تعالیٰ نے رحم کیا اور ہم بٹالہ پہنچ گئے۔ وہاں سڑک پر دیکھا کہ ایک ڈھیر لگا ہوا ہے۔ اور اس میں سینکڑوں قرآن شریف پڑے ہوئے ہیں۔ ہم نے وہاں سے چند قرآن شریف اٹھا لئے۔ پھر بٹالہ میں قافلہ کو روکا گیا۔ بڑی دیر میں چلنے کی اجازت ملی۔ ہم نے خدا تعالیٰ کا شکر اداکیا اور روانہ ہوئے۔ امرتسر پہنچے تو وہاں بڑی دیر لگی۔ وہاں سے چلے تو راستہ میں چھ بسوں میں سے ایک بس خراب ہوگئی۔ غرض خدا خدا کر کے لاہور بارڈرپر پہنچے تو یوں معلوم ہوتا تھا کہ گویا جنت میں آگئے ہیں۔ رات کے دس بجے ہم جودھا مل بلڈنگ پہنچ گئے۔ الحمدللہ ثم الحمدللہ۔
رات کے دس بجے ہم جودھامل بلڈنگ پہنچے اور میں نے حضورؓ کی خدمت میں (رتن باغ) اطلاع دی کہ مَیں امانتوں کے بکس لے کر پہنچ گیا ہوں۔ دفتر کے ایک آدمی نے مجھے بتایا کہ حضورؓ بہت ہی فکرمند تھے اور برآمدہ میں دعائیں کرتے ہوئے ٹہل رہے تھے۔ اُنہی دعاؤں کو قبول کرتے ہوئے اللہ تعالیٰ نے تمام رکاوٹوں کو دُور کرکے بخیریت پہنچادیا۔ الحمدللہ۔
پاکستان پہنچ کر میاں روشن دین صاحب زرگر کو اُن کی امانت (سونے کی تین سلاخیں) دیں تو وہ بے حد ممنون ہوئے اور انہوں نے کہا کہ اُن سلاخوں میں سے ایک مَیں رکھ لوں۔ لیکن مَیں نے یہ بات نہیں مانی۔
چنیوٹ کی امارت
حضرت شیخ صاحبؓ بیان فرماتے ہیں کہ چنیوٹ میں قیام پر تھوڑا ہی عرصہ گزرا تھا کہ مجھے متفقہ طور پر امیر جماعت منتخب کرلیا گیا۔ (الفضل 5اگست 1950ء، ص5)
چونکہ مجھے وہم و گمان بھی نہ تھا کہ چنیوٹ جیسی جگہ میں جہاں مجھ سے بدرجہا بہتر، لائق اور قابل احمدی احباب موجود ہیں مجھے امیر بنایا جائے گا۔ اس لئے مجھے حیرت پر حیرت ہوئی۔ اور میں نے دعا مانگی کہ اے الٰہی! تجھے علم ہے کہ میں نے اس امارت کی خواہش نہیں کی، یہ تیری تقدیر کے ماتحت ہوا ہے۔ مگر میں عرض کرتا ہوں کہ اگر اس کا نتیجہ میری ذلّت اور گناہوںکی سزا ہے تو تیری صفات کا واسطہ دیتا ہوں کہ رحم فرما اور مجھے اس ذلّت سے بچا اور میرے گناہ معاف فرما جن کی سزا مجھے ملنے لگی ہے۔ اور اگر یہ کام تیرے دین کی خدمت کا ذریعہ بنے گا تو تیرااحسان اور کرم ہے پھر میری مدد کر اور میرا معین ہو جا۔ سو الحمد للہ کہ25 اکتوبر1951 ء تک میری مدد فرماتا رہا جس کے بعد میں ربوہ منتقل ہوگیا۔
حضرت مصلح موعودؓ کی قبولیتِ دعا سے احیائے نو کا نشان
قادیان میں ایک دفعہ حضرت شیخ صاحبؓ کو درد گردہ ہوا تو حضرت خلیفۃالمسیح الثانیؓ نے ہومیوپیتھک دوائی ’’پریرابریوا‘‘ استعمال کرنے کی ہدایت فرمائی۔ اس طرح تین پتھریاں خارج ہوئیں اور پھر یہ تکلیف کبھی نہ ہوئی۔ بعد ازاں درد گردہ کے بعض مریضوں کو حضورؓ فرمایا کرتے تھے کہ شیخ فضل احمد صاحب کو ایک دوائی مَیں نے بتائی ہوئی ہے، اُن سے پوچھ لیں۔ دراصل یہ حضورؓ کی ذرّہ نوازی تھی تاکہ ایک شفایاب مریض سے مل کر وہ زیادہ مطمئن ہوجائیں ورنہ دوائی تو حضورؓ خود بھی بتاسکتے تھے۔

پھر ربوہ میں بھی حضرت شیخ صاحبؓ کو ایک بار پیشاب کی شدید تکلیف ہوئی تو اُس تکلیف سے شفایابی بھی اللہ تعالیٰ کا خاص احسان اور حضرت مصلح موعودؓ کی قبولیت دعا کا ہی نشان تھا۔ چنانچہ حضرت شیخ صاحبؓ بیان فرماتے ہیں کہ ’’2 نومبر 1957 ء کو بندشِ بول سے بیمار ہوکر کوئی ایک ماہ سے اوپر شدید بیمار رہا۔ ایک وقت مجھ پر ایسا بھی آیا کہ میری آنکھیں پتھرا گئیں اور نزع کی سی کیفیت وارد ہوگئی۔چھت کی ایک کڑی پر میری نظر تھی لیکن بول نہ سکتا تھا۔ حضرت مصلح موعودؓ، حضرت مرزا بشیر احمد صاحب ؓاور حضرت مرزا شریف احمد صاحبؓ اور دوسرے بہت سے بزرگ میرے حق میں دعائیں کرتے تھے۔ حضرت مرزا بشیر احمد صاحبؓ کامنشاء تھا کہ لاہور لے جاکر میو ہسپتال میں علاج کرایا جائے۔ اس پر پسرم عزیز محمد احمد سلّمہ نے عرض کی کہ بس کے اڈّہ تک لے جانے پر ہی ابا جی کی وفات ہوجائے گی‘‘۔
اللہ تعالیٰ نے اپنے فضل سے حضرت مصلح موعودؓ کی دعا کے طفیل حضرت شیخ صاحبؓ کو صحت کاملہ سے نوازا اور احیائے نو کا نشان آپؓ کی زندگی میں ایک مرتبہ پھر دکھایا۔ اس حوالہ سے آپؓ کی وفات پر آپؓ کے بیٹے محترم ملک محمد احمد صاحب نے اپنے مضمون (مطبوعہ روزنامہ ’’الفضل‘‘ ربوہ) میں بیان کیا کہ:
’’بعض ڈاکٹر صاحبان نے اپنے اس خیال کا اظہار بھی کردیا تھا کہ ایک دو دن سے زیادہ یہ زندہ نہیں رہ سکیں گے اور اب کسی علاج یا پرہیز کی ضرورت نہیں ہے۔ Bed Sour کی تکلیف بھی ہوگئی تھی۔ اگرچہ اللہ تعالیٰ کے ارشاد کے تحت تدبیر کے طور پر ہومیوپیتھک علاج شروع کردیا گیا مگر آپؓیہ فرمایا کرتے تھے کہ اگر روپے پیسے انسان کو موت سے بچاسکیں تو بادشاہ کبھی نہ مریں اور اگر ڈاکٹر موت سے بچاسکتے ہوں تو وہ خود اور اُن کے خاندان کے لوگ کبھی نہ مریں۔ مگر یہ تقدیر، خدا تعالیٰ چاہے تو، دعا سے ٹل سکتی ہے۔
والد محترم (حضرت شیخ صاحبؓ) کو حضرت مولوی غلام رسول راجیکی صاحبؓ اور حضرت حافظ مختار احمد شاہجہانپوری صاحبؓ سے بڑی محبت تھی اور دوسرے کام چھوڑ کر بھی اِن بزرگوں کی خدمت میں حاضر ہوتے تھے۔ جب بیماری طول پکڑ گئی اور آثار نومیدی ظاہر ہونے لگے تو ایک دن آپؓ نے حضرت مولانا راجیکی صاحبؓ سے ملنے کی خواہش ظاہر کی۔ مَیں نے حضرت مولانا راجیکی صاحبؓ کی خدمت میں حاضر ہوکر آپؓ کی خواہش بیان کی تو وہ تشریف لے آئے۔ بیماری کی کیفیت کو سنا اور پھر انہوں نے اللہ تعالیٰ کی صفات اور قدرتوں کے جلوے اور قبولیت دعا کے مضمون پر تقریر فرمائی اور اسی دوران نہایت بلند اور پُرشوکت آواز سے ’’اللہ اکبر‘‘ کا نعرہ بلند کیا۔ اُس وقت حضرت مولانا صاحبؓ بے حس و حرکت جھکے ہوئے تھے، پگڑی چارپائی پر اور سوٹی زمین پر گر پڑی تھی۔ چند لمحوں بعد جب یہ کیفیت دُور ہوئی تو حضرت مولانا صاحبؓ نے فرمایا کہ مَیں نے کشف میں دیکھا ہے کہ فرشتے نُور کے پانی کی مشکیں بھر کر آپ (حضرت شیخ صاحبؓ) کو غسل دے رہے ہیں۔ اِس کی دو ہی تعبیریں ہیں اور دونوں مبارک۔ یا تو مرض دھل کر جسم سے نکل جائے گا اور صحت ہوجائے گی، یا پھر انجام بخیر ہوجائے گا۔ …
والد محترم فرمایا کرتے تھے کہ ایک روز محترم میاں غلام محمد صاحب اخترؔ عیادت کے لئے آئے۔ میری حالت بہت نازک تھی۔ میں نے چشم پُر آب ہوکر کہا کہ حضرت مصلح موعودؓ کی خدمت میں حاضر ہوں تو میری طرف سے بعد السلام علیکم عرض کریں کہ بادشاہوں وغیرہ کے ہاں شادی وغیرہ خوشی کی تقریبات پر قیدی رہا کر دئے جاتے ہیں۔ حضورؓ کے خاندان میں بھی ایک ایسی ہی تقریب ہے۔ میں مرض کا اسیر ہوں۔ دعا کر کے مجھے مرض سے آزاد کرائیں۔ اخترؔ صاحب نے بعد میں بتایا کہ جب میں نے یہ پیغام عرض کیا تو حضورؓ کے چہرے سے یوں معلوم ہوتا تھا کہ حضورؓ نے دعا کی ہے۔ اللہ تعالیٰ نے قبولیت دعا کا یہ نشان دکھا یا کہ ایک ماہ سے زائد عرصہ سے آلہ کے ساتھ پیشاب خارج کیا جاتا تھا۔ اس واقعہ کے بعد مجھے خیال آیا کہ خود پیشاب کر کے دیکھوں۔ میری حیرت کی انتہا نہ رہی جب پیشاب خود ہی خارج ہوگیا۔ اور بعد ازاں باقاعدہ آنے لگا۔ فالحمدللہ علی ذلک۔ میرے دل پر غالب اثر ہے کہ یہ حضورؓ کی قبول دعا کا نشان تھا۔ جس میں دوسرے بزرگوں کی دعائیں بھی شامل تھیں‘‘۔ (روزنامہ ’’الفضل‘‘ ربوہ 5,6,8اکتوبر 1967ء)
انفاق فی سبیل اللہ
حضرت شیخ صاحبؓ کو اللہ تعالیٰ کے فضل سے غیرمعمولی انفاق فی سبیل اللہ کی توفیق ملتی رہی۔ آپ ؓکے معیار اور تعہد سے ایک آریہ سماجی افسر بھی متعجب و متأثر ہوا۔ اس بارہ میں آپؓ تحریرفرماتے ہیں کہ ڈیرہ اسمٰعیل خان میں جہاں میں متعین تھا ایک عجیب لطیفہ ہوا۔ ہماراکرنل (جو انگریزتھا) رخصت یاپنشن پرولایت جانے لگا تو اس کو پارٹی دینے کی تجویز کلرکوں نے کر کے فیصلہ کیا کہ چیف کلرک ہر ایک کلرک کی تنخواہ سے کچھ رقم کاٹ لے اور یہ ساری رقم جمع کرکے پارٹی کے اخراجات میں صرف کی جائے۔ اس کے مطابق ایک فہرست بنائی گئی اور ہر ایک کلرک سے اس کے سامنے رقم لکھ کر دستخط کرائے گئے۔ میرے نام پر جو رقم لکھی گئی تھی وہ اتنی زیادہ تھی کہ میں اس کام کے لئے اس کو ادا کرنا پسند نہ کرتا تھا۔ اس لئے میں نے اپنا نام کاٹ دیا۔ اس پر دفتر میں شور پڑگیا۔ قریباً تمام کلرک اکٹھے ہوگئے۔ ان کو دیکھ کر چیف کلرک آیا۔ اس نے جب فہرست کٹی ہوئی دیکھی تو کہنے لگا کہ آپ نے یہ کیا کیا؟ میں نے کہا کہ آپ دیکھ رہے ہیں جو میں نے کیا ہے۔ کہنے لگا کہ آپ کرنل صاحب کو پارٹی نہیں دینا چاہتے۔ میں نے کہا میں اتنی رقم نہیں دے سکتا۔ کہنے لگا کیا آپ باقی کلرکوں کا ساتھ نہیں دیں گے؟ میں نے کہا یہ کوئی مذہبی بات نہیں جو مجھے مجبورکرے کہ میں ضرور دوں، کہنے لگا یہ بعد میں فیصلہ کریں گے، پہلے کرنل صاحب سے پارٹی کا وقت معلوم کرلیں۔ اُس کے پوچھنے پر کرنل صاحب نے کہا کہ پارٹی کے لئے میرے پاس کوئی وقت نہیں ہے۔ وہ لٹکا ہوا منہ لے کر واپس آگیا۔ دفتر بند ہونے پر ہم گھروں کو روانہ ہوگئے مگر تمام کلرک میری اس جرأت پر تعجب کرتے تھے۔ بازار میں پہنچنے پر چیف کلرک نے مجھ سے پوچھا کہ اس قسم کی دلیری کی وجہ کیا ہے۔ میں نے کہا میں احمدی ہوں اور ہر ایک احمدی ماہوار چندہ دیتا ہے۔ اس لئے وہ اپنے اخراجات پر غور کرتا ہے کہ کیا میرے چندہ پر تو اثر نہیں پڑے گا۔ میں نے بھی سوچا تو مجھے خیال آیا کہ یا میں چندہ نہ دوں یا گھروالوں کو مقررہ خرچ نہ دوں تب میں اتنی رقم جو آپ لوگ مانگتے ہیں، دے سکتا ہوں۔ اس لئے میں نے فیصلہ کیا کہ چندہ ضرور دینا ہوگا، آپ لوگ اگر ناراض ہوجاتے ہیں تو ہوں۔ چیف کلرک مجھ سے پوچھنے لگا کہ کتنا چندہ ماہوار تم دیا کرتے ہو۔ میں نے جب بتلایا تو تعجب سے کہنے لگا کہ میں تو اتنی رقم آریہ سماج کو (وہ آریہ تھا) سال بھر میں بھی نہیں دیتا جتنی آپ ایک ماہ میں دیتے ہیں۔ اور پھر کہا کہ اب مجھے سمجھ آئی کہ آپ لوگ اتنے دلیر کیوں ہیں۔ یہ کہہ کر اور اچھا اثر لے کر چلا گیا۔
٭ حضرت شیخ صاحبؓ مزید بیان فرماتے ہیں کہ اللہ تعالیٰ کے بعض انعامات بالکل اسی رنگ میں ملتے ہیں، جیسے حضرت مسیح موعودؑ نے فرمایا ہے ؎

گرچہ بھاگیں ، جبر سے دیتا ہے قسمت کے ثمار

منارۃالمسیؑح کی تعمیر کے لئے حضرت مسیح موعودؑ نے فرمایا ہے کہ:
’’اب جو دوست اس منارہ کی تعمیر کے لئے مدد کریں گے میں یقینًا جانتا ہوں کہ وہ ایک بھاری خدمت کو انجام دیں گے۔ اور میں یقینًا جانتا ہوں کہ ایسے موقعہ پر خرچ کرنا ہرگزگز ان کے نقصان کا باعث نہیں ہوگا۔ وہ خدا کوقرض دیں گے اور معہ سود واپس لیں گے۔‘‘ (خطبہ الہامیہ صفحہ28)
خدا تعالیٰ نے محض اپنے فضل سے مجھے اور میری زوجہ اوّل سردار بیگم کو اس چندہ کے اداکرنے کی اس حال میں توفیق بخشی جب کہ ہمارے پاس زیادہ مال نہ تھا اور ہمارا نام منارہ پر لکھوادیا۔ میں خدا کو گواہ کر کے کہتا ہوں کہ جیسا حضرت مسیح موعودؑ نے فرمایا تھا کہ ’’معہ سود واپس لیں گے‘‘ ایسا ہی اللہ تعالیٰ نے میرے ساتھ معاملہ کیا۔ مجھے اس چندہ کے اداکرنے کے بعد بہت سا روپیہ دیا، اولاد بھی دی اور زوجہ اوّل کو بھی بہت سا روپیہ دلادیا۔ الحمدللہ ثم الحمدللہ۔
حضرت شیخ صاحبؓ اور آپ کی زوجہ اوّل دونوں کے اسماء منارۃالمسیح پر نمبر41 و 42 پر کندہ ہیں۔
٭ حضرت شیخ صاحبؓ 1919-20ء میں مدرسہ احمدیہ کے طلباء کے لئے جاری کئے گئے فنڈ میں دو روپے ماہوار وظیفہ دیتے رہے۔ حضرت خلیفہ رشیدالدین صاحبؓ جنرل سیکرٹری صدر انجمن احمدیہ ایسے ’’بزرگوں‘‘ کے متعلق جنہوں نے اس مبارک تحریک میں حصہ لیا، تحریر فرماتے ہیں: ’’میں اس جگہ ان اصحاب کا شکریہ ادا کئے بغیر نہیں رہ سکتا۔ جو اگرچہ اپنے لڑکے تو مدرسہ میں نہیں بھیج سکے، لیکن انہوں نے اس خاکسار کی تحریک پر ایسے لڑکوں کے کل یا بعض اخراجات اپنے ذمہ لئے ہیں۔ جن کو انجمن خرچ نہیں دے سکتی۔ اللہ تعالیٰ ان کے مالوں میں برکت دے اور ان کے روپوں سے تعلیم حاصل کرنے والے طلباء کو توفیق دے کہ وہ ان کی خواہشوں کے مطابق دین کے سچے خادم بنیں اور ان کے لئے خدمتِ دین میں صدقہ جاریہ ہوں۔‘‘ (رپورٹ: صفحہ63 تا65)
آپ کا نام بابو فضل اللہ ہیڈ کلرک کیمل کور 31، چھاؤنی نوشہرہ مرقوم ہے۔ فضل احمد کی بجائے فضل اللہ سہوکتابت ہے۔
٭ علاقہ ملکانہ کے ارتداد کے سلسلہ میں ہنود کے جو منصوبے تھے ان کو ناکام بنانے کے لئے حضرت شیخ صاحبؓ کی خدمات کے ایک پہلو کا ذکر پہلے آچکا ہے۔ اس جہاد کے لئے مالی قربانی بھی درکار تھی۔ حضرت خلیفۃالمسیح الثانیؓ نے مجلس مشاورت 1923ء میں فرمایا کہ اسلام پر یہ نازک وقت آیا ہے۔ جیسے بچہ مری ہوئی ماں کو طمانچہ مارتا ہے اور سمجھتا ہے کہ وہ مخول کررہا ہے، اگر وہ سمجھ جائے کہ ماں مر گئی ہے تو خیال کرو کہ اس کا کیا حال ہوگا۔ اسی طرح اسلام پر دشمن کا جو حملہ ہے۔ اگر اسے پورے طور پر سمجھ لیا جائے تو کوئی قربانی مسلمان اس کے انسداد کے لئے اٹھا نہ رکھیں۔ اس فتنہ کے انسداد کے لئے چندہ خاص نصف لاکھ روپیہ کی فراہمی منظور کی گئی۔ جنرل اوصاف علی خان صاحب مالیرکوٹلوی کے نصف ہزار روپے کے چیک کو حضورؓ کی طرف سے اعلان کرنے پر احباب نے رقوم پیش کرنا شروع کیں۔ جن کی تعداد قریباً ساڑھے دس ہزار ہوگئی۔ بابو فضل احمد صاحب نے سوا دو صد روپیہ لکھوایا۔ (رپورٹ مشاورت: ص55)
مزید اس وقت سینتیس افراد نے ایک ایک صد، دونے ڈیڑھ ڈیڑھ صد، نو نے بشمول حضورؓ دودوصد، جناب چوہدری محمد ظفراللہ خان صاحب نے اڑہائی صد، ایک نے تین صد، ایک نے چار صدتیرہ، پانچ نے پانچ پانچ صد اور حضرت نواب محمد علی خان صاحبؓ نے ایک ہزار روپیہ پیش کیا۔
٭ حضرت شیخ صاحبؓ کو اللہ تعالیٰ نے تحریک جدید کے دفتر اوّل میںشمولیت کی بھی توفیق بخشی۔ اور کمزور مالی حالات کے باوجود چندہ وقف جدید میں شامل ہونے کی توفیق بھی عطا ہوتی رہی۔ (’’پانچ ہزار مجاہدین‘‘میں آپ کی اہلیہ دوم محترمہ محمدی بیگم صاحبہ کا چندہ انیس سالہ 778 روپے درج ہے۔ (صفحہ115,114)
٭ آپؓ کا نام اُن احباب کی فہرست میں بھی شامل رہا ہے جنہوں نے نظام کے کہنے پر رسالہ ’’ریویو آف ریلجنز‘‘ کے لئے ایک ایک خریدار مہیا کیا۔ (ریویو آف ریلیجنز اردو، جولائی 1913ء ،صفحہ 272 بمقام کوہ مری۔ نیز ستمبر، صفحہ 339)
٭ حضرت شیخ صاحبؓ نے 19 جولائی1913ء کو وصیت کی توفیق پائی تھی۔ گویا اس رنگ میں پچپن سال تک مالی قربانی کا موقعہ آپؓ نے پایا۔ آپؓ کا وصیت نمبر 597 ہے۔

لٹریچر میں ذکر اور بعض دیگر خدمات

٭ حضرت شیخ صاحبؓ کی قادیان میں آمد پر الفضلؔ میں بھی بعض اوقات ذکر ہوتا رہا۔ (الفضل قادیان 10؍اگست1915ء۔ نیز الفضل 9؍اکتوبر1922ء صفحہ2 کالم1)
٭ جماعتوں کے معائنہ اور چندہ کے بقایاجات کی وصولی کے لئے جب انتالیس اعزازی انسپکٹر بیت المال مقرر کئے گئے تو اُن دنوں حضرت شیخ صاحبؓ لاہور میں قیام رکھتے تھے اور آپؓ جماعت امرتسر کے لئے انسپکٹر مقرر کئے گئے تھے۔ (الفضل 24مارچ1931ء، صفحہ 8 کالم2)
٭ مجلس مشاورت میں اپنی جماعتوں کی نمائندگی کی توفیق پاتے رہے۔ مشاورت 1923ء میں شرکت ازطرف جماعت راولپنڈی اور کمیٹی بیت المال کی رکنیت کا موقع بھی ملا۔ اسی مجلس شوریٰ میں حضرت خلیفۃالمسیح الثانیؓ نے فرمایا تھا کہ نظارتوں کے قیام کے اعلان کے ساتھ میں نے کہا تھا کہ کچھ لوگ ایسے ہونے چاہئیں جو کبھی کبھی ان محکموں کا معائنہ کریں تاکہ غلطیوں کی اصلاح ہو سکے۔ سو جو احباب دفاتر کے کام سے واقف ہوں، میں درخواست کرتا ہوں کہ وہ اپنے نام پیش کریں۔ اس پر چار احباب نے (بشمول حضرت شیخ فضل احمد صاحبؓ) اپنے نام پیش کئے۔ (رپورٹ صفحہ 43,42,28,2)
چھاؤنی لاہور سے مجلس مشاورت میں شرکت (رپورٹ 1930ء صفحہ412) اور مشاورت اجلاس ثانی اکتوبر1936 ء میں شرکت قادیان سے (رپورٹ صفحہ 79)
٭ آپ کے خلفائے کرام اور ابناء حضرت مسیح موعودؑ کے علاوہ بہت سے بزرگوں سے مخلصانہ مراسم تھے۔ حضرت مفتی محمد صادق صاحبؓ جب بطور مبلغ امریکہ تشریف لے گئے تو ’’نامۂ صادق‘‘میں بعض احباب کے خطوط کا ذکر کرتے ہوئے تحریر فرمایا:
’’بابوشیخ فضل احمد صاحب نوشہرہ: آپ کے ساتھ اللہ تعالیٰ کا خاص فضل ہے جس کے لئے آپ کو اور بھی شکرگزار ہونا ضروری ہے۔ یہ بات میں نے کسی خاص ذوق اور نمایاں فرق کو مدّ نظر رکھ کر لکھی ہے‘‘۔ (الفضل 17جنوری 1921ء ص9)
٭ حضرت خلیفۃالمسیح الثانیؓ کے مطالبہ وقف پر حضرت شیخ صاحبؓ نے اپنی زندگی بھی وقف کی۔ (الفضل 20 مئی 1944 ء صفحہ 5 ، کالم3)۔ اور پھر لمبا عرصہ مرکزی دفاتر میں خدمت کی توفیق بھی پائی۔
٭ آپؓ انتخاب خلافت کمیٹی کی بھی رکن تھے اور خلافت ثالثہ کے انتخاب کے لئے کمیٹی کے اجلاس میں شمولیت کی توفیق بھی پائی۔
وفات اور اولاد
روزنامہ ’’الفضل‘‘ ربوہ یکم ستمبر 1968ء کے مطابق حضرت شیخ فضل احمد صاحب بٹالویؓ نے بعمر قریباً پچاسی سال لاہور میں وفات پائی اور بہشتی مقبرہ ربوہ کے قطعہ صحابہ میں تدفین عمل میں آئی۔
آپؓ کو اللہ تعالیٰ نے پانچ بیٹوں اور چار بیٹیوں سے نوازا جن میں سے دو بیٹوں (مکرم ملک محمد احمد صاحب حال جرمنی

اور مکرم لئیق احمد طاہر صاحب مبلغ انگلستان) کو زندگی وقف کرنے کی توفیق عطا ہوئی۔

100% LikesVS
0% Dislikes

اپنا تبصرہ بھیجیں