حضرت خلیفۃالمسیح الاوّل رضی اللہ عنہ سے متعلق کچھ یادیں کچھ باتیں

ماہنامہ ’’انصاراللہ‘‘ ربوہ اکتوبر 2009ء میں محترم صاحبزادہ مرزا غلام احمد صاحب کی حضرت خلیفۃالمسیح الاوّل رضی اللہ عنہ سے متعلق بعض ایسی باتیں شامل اشاعت ہیں جو خاندان کے بزرگوں کی بیان کی ہوئی ہیں۔ محترم صاحبزادہ صاحب نے ان خیالات کا اظہار ربوہ میں ایک خصوصی تقریب میں کیا۔
آپ نے فرمایا کہ میرے والد مرزا عزیز احمد صاحبؓ اپنی سرکاری ملازمت کے سلسلہ میں سیالکوٹ میں تعینات رہے۔ اُن سے قبل میرے داداحضرت مرزا سلطان احمد صاحب بھی وہاں سرکاری ملازمت کے سلسلہ میں مقیم رہے تھے اور اُن سے بھی بہت عرصہ قبل 1864ء سے1868ء تک حضرت مسیح موعود علیہ السلام بھی سرکاری ملازمت کے سلسلہ میں سیالکوٹ میں مقیم رہے۔ میرے والدصاحب بتاتے تھے کہ جب سیالکوٹ سے اُن کی تبدیلی ہوئی تو وہا ں سے روانگی کے وقت ایک آدمی جو میرا واقف بھی نہ تھا میرے پاس آیا۔ اُس نے مٹی کے بنے ہوئے دو گلدان مجھے دیئے اور کہنے لگا کہ یہ میں اپنی خوشنودی کے سرٹیفیکیٹ کے طور پر دے رہا ہوں۔ میں نے آپ کے دادا کو کچہری میں کام کرتے دیکھا اورپھر آپ کے والد کو اور اب آپ کو۔ اور مجھے خوشی ہے کہ جس دیانت اور محنت سے بڑے مرزا صاحب نے اپنے فرائض سرانجام دیئے تھے اُسی محنت اور دیانت سے آپ کے والد اور آپ نے کا م کیا ہے ۔
حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے کئی مرتبہ اپنی کتب میں ذکر فرمایا ہے کہ یہ سرکاری ملازمت حضورؑ کی طبیعت کے خلاف تھی اور حضورؑ نے صرف اپنے والد ماجد کے حکم کی تعمیل میں یہ نوکری کی تھی۔ مگر اس کے باوجود آپ نے حکومت اور مخلوق خدا کے حقوق وفرائض ایسی عمدگی سے ادا کئے کہ تقریباً ساٹھ سال کا لمبا عرصہ گزر جانے کے باوجود اس شخص پر اتنا اثر تھا کہ اُ س نے اس کا ا ظہار کرنا ضروری خیال کیا ۔
حضرت مرزا سلطان احمد صاحبؓ نے حضرت خلیفۃ المسیح اوّلؓ کی زندگی کے حالات پر مشتمل کتاب ’’مرقات الیقین فی حیات نورالدین‘‘ پر تبصرہ کرتے ہوئے لکھا تھا کہ ’’اس کتاب میں ناظرین کو بیسیوں ایسی باتیں ملیں گی جو بڑے بڑے حکیموں اور فلاسفروں کے حصہ میں بھی بمشکل آئی ہیں‘‘ ۔
پھر لکھتے ہیں کہ آپؓ کی پاک طبیعت بناوٹ، تصنّع، فریب دہی، خوشآمد، جاہ طلبی، خودغرضی اور خودپسندی سے نفرت کرتی ہے۔ احسان پر ور ی کی کوئی حد نہیں لیکن احسان فراموشی اور احسان خواہی سے کوسوں دُور ہے اور یہ بات کسی نمائش کے طور پر نہیں بلکہ طبیعت ہی ایسی واقعہ ہوئی ہے کہ نہیں پسند کرتے کہ کوئی دوسرا میری خاطر کیوں تکلیف اُٹھائے۔ حضرت مولوی صاحب نے ایک دفعہ مجھے خط لکھا کہ :
’’مکرم معظم مرزا یہ کتاب خاکسار نے مرزا محمود احمد سے لے کر کسی مُلّا کو دی اُس نے وہ غیر ناقص کتاب گم کردی اب مجھے محمود احمد سے حجاب آتاہے ان کی کتاب کیوں گم ہوئی۔ لکھنؤ، کانپور دہلی میں بہت جستجو کی مگر عمدہ بے نقص کتاب نہیں ملی۔ بہاولپور میں شاید اس کا نسخہ مل سکے ۔10روپے تک میں دے سکتا ہوں آپ لاہور میں سید نادر شاہ کیور باسٹنید سے پتہ لگائیں کتاب بے نقص مل جائے نورالدین‘‘۔
حضرت مرز ا سلطان احمد صاحب لکھتے ہیں کہ جس کتاب کا رقعہ میں ذکر ہے وہ حجم میں 14صفحے کی ہے اورایک آنے حد دو آنے سے اُس کی قیمت زیادہ نہیں جس کے بدلہ میں مولوی صاحب دس روپے تک میں خرید لینا چاہتے ہیں تاکہ میاں محمود احمد صاحب کو واپس دی جائے۔ اللہ اللہ کیسی غیرت پسند کیسی پُر حق کیسی خیرہ جُو طبیعت ــواقع ہوئی ہے۔
خاکسار نے کئی بار اپنے والد مرزا عزیز احمد صاحب سے سنا ہے کہ ایک بار ہماری دادی جو ہمارے چچا مرزا رشید احمد صاحب کی حقیقی والدہ تھیں بیمار ہوگئیں۔ رات بارہ ایک بجے کاوقت تھا۔ حضرت خلیفۃالمسیح اوّل تشریف لائے۔ جب مریضہ کو دیکھنے کے بعد واپس تشریف لے جارہے تھے تو حضر ت مرزا سلطان احمد صاحب نے آپ سے عرض کیا کہ میں بہت شرمندہ ہوں کہ آپ کو بے وقت تکلیف دی۔ یہ سُن کر حضرت خلیفہ اوّل نے مرزاسلطان احمدصاحب کی گردن میں بازو ڈال کراُن کو اپنے قریب کیااور فرمایا مجھے تکلیف کیسے ہوسکتی ہے میں تو مرزا (یعنی حضرت مسیح موعود علیہ السلام) کے غلاموں کے غلاموں کے غلاموں کا بھی غلام ہوں۔ یاد رہے کہ آپؓ نے یہ بات اُس وقت کہی تھی جب مرزا سلطان احمد صاحب ابھی جماعت میں داخل بھی نہیں ہوئے تھے ۔
حضرت خلیفہ اوّلؓ کے حضرت مسیح موعودؑ کے ساتھ عشق کے حوالہ سے حضرت نواب مبارکہ بیگمؓ بیان فرمایا کرتی تھیں کہ میرا بچپن ان کی گود میں کھیل کر گزرا اور بچپن سے ان سے پڑھنا شروع کیا۔ روز کاآناجانا تھا گویا ایک ہی گھر تھا … بلا مبالغہ قریباً روزہی بڑے پیار سے فرماتے تھے کہ یہ اولاد اور یہ عبدالحئی جو میری بڑھاپے کی نرینہ اولاد ہے یہ بھی تم لوگوں سے زیادہ مجھے پیارے نہیں۔ ہم سب کے لئے مجموعی طورپر بھی ایسے الفاظ استعمال فرماتے اور اکثر بہت زور دے کر فرماتے کہ ’’محمود سے زیادہ یہ اولاد مجھے پیاری نہیں ہے ‘‘۔ سالوں تک میں نے اس بات کو بتکرارسنا ہے۔ آپ کے صاحبزادے میاں عبدالسلام مرحوم چھوٹے تھے۔ میں جب پڑھنے کو روز صبح جاتی تو اُن کے لئے بادام اخروٹ وغیرہ لے جاتی اور جیسا کہ بچوں کے کھیل ہوتے ہیں پہلے پوچھتی کہ بتاؤ عبدالسلام تم کتنے اخروٹ کے نوکر ہو؟ وہ روز جواب دیتے دو اخروٹ کا نوکر ہوں۔ ایک دن میاں عبدالحئی مرحوم نے غصہ سے کہاکہ ’عبدالسلام نوکر کیوں کہتے ہو؟ تم کوئی نوکرہو؟ کہہ دو میں نوکر نہیں ہوں‘۔ اندر کمرہ میں حضرت خلیفہ اوّل سن رہے تھے نہایت جوش سے کڑک کر فرمایا: ’’عبدالحئی یہ کیاکہا تم نے! یہ نوکر ہے ‘‘۔ اور فرمایا: ’’عبدالسلام اندر آؤ‘‘۔ ہم دونوں اندر چلے گئے۔ فرمایا: کہو میرے سامنے ’میں نوکر ہوں‘۔ بچہ نے دہرا دیا۔ اس جذبہ کا اندازہ وہی لوگ لگا سکتے ہیں جو حضرت خلیفہ اوّلؓ کی طبیعت سے واقف ہوں۔ وہ کوہ وقار تھے غیور تھے خوددار تھے ان کا سر کبھی کسی کے سامنے نہ جھکا تھا۔ جھکا تو اپنے محبوب آقا کے سامنے۔ اور اسی عشق کامل کا نتیجہ تھا کہ ان کی ایک کم عمر لڑکی جو اُن کی شاگرد بھی تھی اس کے لئے بھی اپنے پیارے لڑکے کا اتنا کہنا کہ ’کہو میں نوکر نہیں ہوں‘ سخت ناگوار گزرا۔ آپؓ کے چہرہ پر ایسا اثر تھا کہ صر ف غصہ اور ناگواری نہیں بلکہ بہت صدمہ گزرا ہے۔ حالانکہ جیسا وہ والدین کی مانند بے انتہا لاڈ پیار مجھ سے کرتے تھے۔ بے تکلّف تھے ان کا حق تھا وہ بآسانی مجھے سمجھا سکتے تھے کہ بچہ سے ایسا نہیں کہلواتے، ذلیل ہوجاتا ہے، عزت نفس نہیں رہتی، تم اس کو جو چاہو ویسے ہی دے دیا کرو۔ اور مجھے بھی آپؓ کا روکنا ذرا بھی برُا معلوم نہ ہوتا کیونکہ ان کی محبت کا پلڑا بہت بھاری تھا۔ مگر انہوں نے اپنے طبعی وقارکے خلاف صرف اپنے خاص جذبہ عشق و محبت کے تحت اُلٹا بچہ سے سامنے کہلوایا کہ ’میں نوکر ہوں‘۔

حضرت خلیفۃ المسیح الاوّلؓ نیستی اور فنا کے اس مقام پر فائز تھے جس پر فائز ہونے والا اپنی ذات، اپنی اَنا، اپنے احوال اور اپنے عزیز وں سب کو اپنے ربّ کے قدموں پر نثار کرکے صرف خدا کا ہو جاتا ہے۔ اس سلسلے میں خالو مسعود جو حضرت نواب مبارکہ بیگم صاحبہؓ کے صاحبزادہ تھے یہ واقعہ سنایا کرتے تھے کہ ایک دفعہ مسجد مبارک میں نماز کی ادائیگی کے بعد حضرت مسیح موعودؑ نے کچھ اصحاب کو، جن میں حضرت حکیم نورالدین صاحبؓ اور حضرت نواب محمد علی خانصاحبؓ بھی شامل تھے، فرمایا کہ وہ حضور کا انتظار کریں پھر اکٹھے سید محمد علی شاہ صاحب کے بیٹے کے ختنہ کی دعوت میں چلیں گے۔ یہ کہہ کر حضورؑگھر تشریف لے گئے۔ حضرت نواب صاحبؓ نے حضرت مولوی صاحبؓ سے عرض کی کہ مولوی صاحب! یہ سب رسمیں وغیرہ چھوڑنے کے لئے ہی تو مَیں مالیر کوٹلہ سے قادیان آیا تھا۔ اب اگریہاں بھی ان رسوم میں شامل ہونا ہے تو …۔ اس پر حضرت مولوی صاحب نے نواب صاحب کی پشت پر تھپکی دیتے ہوئے فرمایا: محمدعلی خان! مرزا کے نزدیک مَیں اور تم بھی مؤلفۃا لقلوب میں شامل ہیں۔ یعنی ختنہ کی اس دعوت میں جانا دراصل تالیف قلب کے لئے ہے۔
مکرم سید محمد علی شاہ صاحب قادیان کے قدیمی باشندہ تھے اور حضرت مسیح موعودؑ کے ساتھ ان کے دیرینہ تعلقات تھے۔ حضورؑ دعویٰ سے قبل جب جائیداد کے مقدمات کے سلسلہ میں لاہور جاتے تھے تواِن کے پاس ٹھہرتے تھے۔ حضورؑ صحابہ کرام سمیت ان کے بیٹے کی ختنہ کی دعوت میں کیوں شریک ہوئے، اس پر حضرت مصلح موعودؓ کی اس روایت سے روشنی پڑتی ہے کہ سید محمد علی شاہ صاحب نے حضرت مسیح موعودؑ کی بیعت کرلی تھی لیکن حضورؑ نے بعض مصالح کے پیش نظر ان کو بیعت کے اظہار سے روک دیا تھا۔ چنانچہ حضورؑ کی وفات کے بعد انہوں نے اپنی بیعت کے بارہ میں حضرت خلیفۃالمسیح اوّلؓ کی خدمت میں عرض کیا تو انہوں نے اظہارِ بیعت کی اجازت عطا فرمائی۔
ہماری دادی، صاحبزادہ مرزا رشید احمد صاحب کی حقیقی والدہ، حضرت خلیفۃ المسیح اوّلؓ کے زمانۂ خلافت میں بیعت کرنے کے ارادہ سے حضورؓ کے گھر تشریف لے گئیں۔ حضورؓ گھر میں مستورات کے لئے درس بھی دیتے تھے۔ بیعت کے بعد درس میں شامل ہوئیں۔ حضورؓ درس دینے کے بعد اندر چلے گئے۔ کچھ دیر کے بعد کسی کام سے صحن میں تشریف لائے تو اُن کو وہاں بیٹھے دیکھا۔ حضورؓ فرمانے لگے: بی بی! گھر آپ کا ہی ہے، آپ جب تک چاہیں یہاں بیٹھیں، لیکن یہ بتائیں کہ کیا بات ہے آپ کیوں اس طرح بیٹھی ہیں؟ انہوں نے عرض کی کہ حضور میں نے بیعت کر لی ہے اور پھوپھی جی (مراد حضرت مرزاغلام قادر صاحب کی بیوہ جو جماعت میں تائی کے لفظ سے جانی پہچانی جاتی ہیں ) احمدیوں کی سخت دشمن ہیں وہ تو مجھے گھر سے نکال دیں گی۔ حضورؓ نے فرمایا: بی بی! آپ گھر جائیں وہ آپ کو کچھ نہیں کہیں گی۔ وہ کہتی تھیں کہ میں ڈرتے ڈرتے اور بہت گھبراتے ہوئے گھر واپس آئی لیکن جس طرح حضورؓ نے فرمایا تھا پھوپھی جی بالکل خاموش رہیں اور بیعت کے بارہ میں ایک لفظ بھی نہ کہا۔

ہماری یہ دادی مرزا امام دین صاحب جو حضرت مسیح موعودؑ کے چچا زاد تھے اورسخت معاند تھے، کی بیٹی تھیں۔ خدا کی قدرت ہے کہ ایسے معاند کی بیٹی نے حضرت خلیفۃ المسیح اولؓ کے ہاتھ پر بیعت کرکے حضرت مسیح موعودؑ کی صداقت کی گواہی دی بلکہ ایمان میں اس قدر ترقی کی کہ صاحب کشف و رؤ یا اور الہام ہوئیں اورحضرت خلیفۃ المسیح الثانیؓ نے ایک جگہ آپ کا ذکر کرتے ہوئے فرمایا ہے کہ عورتوں میں اتنی صاحب الہام اور کشف کم ہی ہوئی ہیں۔
میرے والد (حضرت مرزا عزیز احمد صاحبؓ) کہتے ہیں کہ ایک بار مجھے پیشاب جلن کے ساتھ آنے کی تکلیف ہوگئی۔ مَیں حضرت خلیفۃ المسیح اوّلؓ کی خدمت میں حاضر ہوا اور تکلیف بتاکر دوائی کے لئے عرض کیا۔ حضورؓ نے میری بات سن کر ایک کاغذ پر مجھے نسخہ لکھ کر عنائت فرمایا۔ جب میں نے دیکھا تواُس میں نیم اُبلا ہوا اُنڈہ کھانے کا بھی لکھا ہوا تھا۔ میری بیوقوفی کہ مَیں نے عرض کیا کہ حضور اس بیماری میں گرم چیز تو نہیں کھانی چاہیے اور آپ نے ا س میں انڈہ لکھا ہے جو گرم ہوتا ہے۔ میرے اس کہنے پر حضورؓ نے نسخہ میرے ہاتھ سے لے کر پھاڑ دیا اور فرمانے لگے نہ تم حکیم نہ تمہارا باپ حکیم نہ تمہارا دادا حکیم ہاں تمہارے پڑدادا یعنی حضرت مرزا غلام مرتضیٰ صاحب بہت بڑے حکیم تھے لیکن ’’پڑپیاتے ساک گیا‘‘۔ نیز فرمایا ہم نے تمہارے دادا کی حکیم سمجھ کر بیعت نہیں کی۔ آخر میرے بار بار عرض کرنے پر دوبارہ وہی نسخہ لکھ دیا ۔
میرے والد انٹرنس کرنے کے بعد علیگڑھ کالج میں داخل ہوئے جہاں اَور بھی کئی احمدی طالب علم موجود تھے ۔ایک موقعہ پر حضرت خلیفہ اولؓ نے علیگڑھ کے احمدی طلباء کو اُن کی ذمہ داریوں کے بارہ میں توجہ دلاتے ہوئے ایک خط لکھا تھا جس میں فرمایا:
’’نورالدین کی طرف سے بگرامی خدمت عزیزان مرزا عزیز احمد، میاں فقیر اللہ ، خیرالدین ،سردار خان، مولوی عبدالقادر، شیر محمد، بدرالحسن، محمود صاحب، عمر حیات، علاؤ الدین ۔ السلام علیکم ورحمۃاللہ وبرکاتہ
میرے پیاروجہاں تم ہو۔ وہ بڑے بڑے امتحانوں کی جگہ ہے وہاں بی۔اے، ایف۔اے کے ساتھ کیمرج، آکسفورڈ کی ہوا بھی چلتی ہے اور ہم لوگ وادی غیرزرع کی ہوا کے گرویدہ ہیں اوراس کے دلدادہ۔ ذرا ہمت سے کام لو… فاز فوزاً عظیمًا کا گروہ بنو۔ آمین یارب العا لمین
نورالدین 19؍جنوری 1910ء ‘‘
علیگڑھ سے B.A. کرکے اباجان M.A. اکنامکس کرنے کے لئے گورنمنٹ کالج لاہور میں داخل ہوئے۔آپ بتاتے تھے کہ بعض وجوہ سے میری توجہ پڑھائی کی طرف کم ہوگئی تھی اور اس کا نتیجہ یہ ہوا کہ مَیں کالج کے امتحانات میں عموماً فیل ہوجاتا تھا۔ جب یونیورسٹی کے امتحان نزدیک آئے تو میری تیاری کچھ بھی نہ تھی، امتحان میں چند روز باقی تھے۔ ایک رات پڑھتے پڑھتے مجھے دیر ہوگئی۔ سونے سے پہلے مجھے خیال آیا کہ وقت تو تہجد کاہو ہی گیا ہے تہجد ہی پڑھ لیتا ہوں ۔وضو کرکے میں نماز پڑھنے لگ گیا۔ سجدہ میں میرے دل میں خیال آیا کہ امتحان میں اوّل آنے کی دعا کیوں نہ مانگوں۔ مَیں نے دعا کی کہ یااللہ مجھے یونیورسٹی کے امتحان میں اوّل نمبر پر پاس کر دے۔ یہ دعا میری پڑھائی کی حالت کے پیش نظر ایسی عجیب تھی کہ نماز میں ہی میری ہنسی نکل گئی۔ خیر میں نماز مکمل کرکے سوگیا۔ رات مَیں نے خواب میں دیکھا کہ حضرت خلیفۃ المسیح اوّل تشریف فرما ہیں اور مجھے فرماتے ہیں کہ تم یونیورسٹی میں اوّل نمبر پر پاس ہوگے۔ مزید یہ فرمایا کہ تہجد کی نماز سے تمہارے بڑے بڑے کام ہوں گے۔ اس کے بعد میری آنکھ کھل گئی۔ امتحان سے فارغ ہونے کے بعد مَیں قادیان گیا تو حضورؓ کی خدمت میں اپنی خواب سناکر دعا کے لئے عرض کیا۔ حضورؓ نے فرمایا: تم یقینا یونیورسٹی میں اوّل نمبر پر پاس ہوگے۔ چونکہ مَیں اپنی تعلیمی حالت اور تیاری سے اچھی طرح واقف تھا اور جو پرچے میں نے دیئے تھے اُن کا بھی مجھے علم تھا اس لئے مَیں نے عرض کیا کہ حضور یہ بات توناممکن ہے۔ حضور فرمانے لگے: چلو شرط لگاتے ہیں۔ مَیں نے عرض کیا شرط تو حضور فرماتے ہیں جائز نہیں۔ فرمانے لگے: ہم جائز شرط لگائیں گے اگر تم اوّل آگئے تو پچاس روپے یتامیٰ کی امداد کے لئے دینا اور اگر تم اوّل نہ آسکے تو میں تمہیں پچاس روپے دیدوں گا۔
اباجان بتاتے تھے کہ اُن دنوں نتائج امتحان کے چند روز کے بعد ہی آجاتے تھے۔ اُسی روز یا اُس سے اگلے روز میاں شیخ محمد صاحب جو ڈاکیا تھے مجھے بازار میں ملے اور اونچی آوازمیں مبارکباد دیتے ہوئے کہا تم اوّل آئے ہو۔ پھر میرے دوستوں کی پندرہ بیس مبارکباد کی تاریں مجھے دیں۔ چونکہ نتیجہ میری توقع اور میری امتحان کی تیاری کے بالکل خلاف تھا اس لئے مجھے شبہ ہوا کہ دوستوں نے مجھ سے مذاق کیا ہے اور صحیح صورتحال پتہ کرنے کے لئے مَیں خو دلاہور گیا۔ وہاں جاکر معلوم ہوا کہ یہی نتیجہ ہے۔ مَیں قادیان واپس آیا اور حضور کی خدمت میں حاضر ہوکر اطلاع دی جس پر حضور نے فرمایا: میاں ہم نے تمہیں پہلے ہی بتا دیا تھا۔
اباجان یہ بھی بتاتے تھے کہ حضور کی دوسری بات کہ تہجد سے تمہارے بڑے بڑے کام ہوں گے کو بھی مَیں نے اپنی زندگی میں آزمایا اور جب بھی مَیں نے کسی امر کے متعلق تہجد میں دعا کی اللہ نے میرا وہ کام کرہی دیا۔
حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے ایک چچا زاد مرزا امام دین صاحب اسلام کے شدید مخالف تھے اور اسلامی احکام کا مذاق اُڑانا اُن کا معمول تھا۔ ان کے چھوٹے بھائی مرزا نظام دین صاحب بھی بڑے بھائی کے ساتھ مل کر مخالفت پر کمربستہ رہتے۔ حضرت مرزا بشیر احمدصاحبؓ سے میں نے یہ بات کئی مرتبہ سُنی ہے کہ حضور علیہ السلام کی وفات کے بعد حضورؑ کی پیشگوئی کے مطابق طاعون کے نتیجہ میں مرزا نظام دین صاحب کے گھر میں بہت سی اموات ہوئیں۔ آخرکار گھبرا کر وہ حضرت خلیفۃ المسیح اوّلؓ کی خدمت میں حاضر ہوئے اور روتے ہوئے عرض کی کہ مولوی صاحب! بھائی صاحب یعنی مرزا امام دین صاحب مخالفت کرتے تھے اور مجھے اُن کا ساتھ دینا پڑتا تھا۔ اب تو مَیں مخالفت نہیں کرتا۔ یہ عرض کرکے زارزار رونے لگ گئے۔ اُن کی حالت اور رونا دیکھ کر حضرت خلیفۃ المسیح اولؓ بھی روپڑے اور بھرّائی ہوئی آواز میں فرمانے لگے: مرز اصاحب! مَیں خدا کی تقدیرکو تو نہیں بدل سکتا۔
حضرت خلیفہ اولؓ کا یہ فرمان مخالفین صداقت کے ساتھ ہونے والے سلوک پر روشنی ڈالتا ہے۔ لیکن مرزا امام دین صاحب اور مرزا نظام دین صاحب کی مخالفت اور دشمنی کا خدا تعالیٰ نے ان سے عجیب رنگ میں انتقام لیا۔ چنانچہ صاحبزادہ مرزا رشید احمد صاحب کی والدہ (جو ہماری دوسری دادی ہیں) مرزا امام دین صاحب کی بیٹی تھیں۔ وہ اپنے خاوند حضرت مرزا سلطان احمدصاحب سے تقریباً بیس سال قبل حضرت خلیفہ اولؓ کے ہاتھ پر بیعت کرکے احمدی ہوئیں۔ اور مرزا نظام دین صاحب کی وفات کا وقت آیا تو انہوں نے حضرت خلیفۃ المسیح الثانیؓ کو کہلا بھیجا کہ میرے بعد میرے بیٹے مرزا گل محمد کا خیال رکھیں۔ اس پر حضرت مرزا سلطان احمد صاحب نے حضرت خلیفۃ المسیح الثانیؓ کو تنبیہ کرتے ہوئے کہاکہ یادرکھیں سانپ کابچہ سنپولیا ہی ہوتا ہے۔ لیکن حضورؓ کے حسن سلوک نے مرزا گل محمد صاحب پر ایسا اثر کیاکہ وہ نہ صرف احمدی ہوگئے بلکہ جماعت اور حضورؓ کے ساتھ انہوں نے وفا اور فرمانبرداری کا ایسا تعلق قائم کیا کہ جو قابل تحسین ہے۔

مرزا گُل محمد صاحب

گویا دونوں انتہائی شدید مخالفین کی اولادبیعت کرکے حضرت مسیح موعودؑکی روحانی اولاد میں شامل ہوگئی۔ بلکہ ہماری دادی بیعت کرنے کے بعد اپنی جن پھوپھی کی وجہ سے گھر جانے سے ڈر رہی تھیں اور جو مرزا امام دین صاحب اور مرزا نظام دین صاحب کی بڑی بہن اور حضرت مسیح موعودؑ کے بڑے بھائی حضرت مرزاغلام قادر صاحب کی بیگم تھیں اور حضرت مسیح موعودؑ کی زندگی میں حضورؑ کی سخت مخالف اور دشمن تھیں وہ بھی حضرت خلیفۃ المسیح الثانیؓ کے ہاتھ پر بیعت کرکے احمدی ہوگئیں اوراس طرح حضورؑ کا یہ الہام پورا ہو ا: ’’تائی آئی‘‘۔ کیونکہ وہ حضرت خلیفۃ المسیح الثانی ؓکی تائی تھیں۔
میرے نانا حضرت میر محمد اسحق صاحبؓ بیان کرتے ہیں کہ ایک دفعہ جب حضرت مولانا نورالدین صاحبؓ بیمار تھے تو حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے میری یہ ڈیوٹی لگائی کہ جب حضورؑ آپؓ کو دیکھنے تشریف لے جائیں تو میں آپؑ کے ساتھ جایا کروں۔ ایک دن حضرت مولوی صاحب کی طبیعت کچھ زیادہ ناساز تھی ۔ حضورؑ آپؓ کو دیکھنے کے بعد واپس اپنے مکان میں تشریف لائے تو ایک الماری میں سے کچھ دوائیں نکالیں اور حضرت اماّں جان کے دالان میں زمین پر بیٹھ گئے اور ان دواؤں میں سے کچھ دوائیں پڑیہ بنانے کے لئے نکالنے لگے۔ حضورؑ کی فکرمندی کو دیکھ کر حضرت اماں جان بھی آکر حضورؑ کے پاس بیٹھ گئیں اور جیسے کوئی کسی کو تسلّی دیتا ہے اس طرح سے حضورؑ سے کلام کرنا شروع کر دیا کہ جماعت کے بڑے بڑے عالم فوت ہو رہے ہیں۔ مولوی برہان الدین صاحب فوت ہوگئے مولوی عبدالکریم صاحب فوت ہوگئے، اب مولوی صاحب بھی بیمار ہوگئے ہیں خدا تعالیٰ مولوی صاحب کو صحت دے۔ یہ باتیں سن کر حضرت مسیح موعودؑ نے فرمایا: ’’یہ شخص ہزار عبدالکریم کے برابر ہے‘‘۔
اس فقرہ میں جس عبدالکریم کا ذکر ہے وہ کوئی عام احمدی نہ تھا بلکہ حضرت مسیح موعو دؑ کا ایک نہایت قریبی مرید تھا جس کے وصال پرحضورؑ نے فارسی میں ایک نظم تحریر کی جس میں یہ بھی فرمایا کہ:
’’عبدالکریم کی خوبیان کیونکر گنی جاسکتی ہیں جس نے شجاعت کے ساتھ صراط مستقیم پر جان دی ۔
ا گر چہ آسمان نیکوں کی جماعت بکثرت لاتا رہتا ہے مگر ایسا شفاف اور قیمتی موتی ماں بہت کم جنا کرتی ہے ۔‘‘
یہ خد اکے پاک مسیح کے حضرت مولوی عبدالکریم صاحبؓ کے بارہ میں جذبات تھے جبکہ خدا نے اپنی وحی میں آپؓ کا نام لے کر آپؓ کو مسلمانوں کا لیڈر قرار دیا تھا۔ حضرت مولوی صاحبؓ کے اس مقام اور مرتبہ کو ذہن میں رکھ کر پھر حضورؑ کے اس فقرہ پر غور کریں اور حضرت خلیفۃ المسیح اولؓ کے مقام کا اندازہ کریں کہ ’’یہ شخص ہزار عبدالکریم کے برابر ہے‘‘

50% LikesVS
50% Dislikes

اپنا تبصرہ بھیجیں