حضرت خلیفۃالمسیح الثالثؒ کی یادیں

(مطبوعہ الفضل ڈائجسٹ، الفضل انٹرنیشنل 16 اکتوبر 2020ء)

رسالہ ’’انصارالدین‘‘ یوکے مارچ اپریل 2013ء میں ہومیوڈاکٹر رانا سعید احمد صاحب (مدیر سہ ماہی رسالہ ’’ھوالشافی‘‘) نے سیّدنا حضرت خلیفۃالمسیح الثالث رحمہ اللہ کے حوالے سے اپنی چند یادیں سپرد قلم کی ہیں۔

حضرت مرزا ناصر احمد صاحب رحمہ اللہ تعالیٰ

مضمون نگار رقمطراز ہیں کہ 9 مئی 1978ء کا دن میری یادوں میں محفوظ ہے جب حضرت خلیفۃالمسیح الثالثؒ فرینکفرٹ کی مسجد نور میں نماز مغرب و عشاء کے بعد اپنے احباب میں رونق افروز تھے۔ محترم نواب منصور احمد خان صاحب جرمنی کے مبلغ انچارج تھے۔ اُس زمانہ میں لوگ اتنے کم تھے کہ مسجد نُور بھی پوری نہ بھر سکی تھی۔ حضورؒ کرسی پر تشریف فرما تھے اور لوگ مختلف سوالات کررہے تھے۔ کوئی اپنی بیماری کا ذکر کرکے دوا پوچھتا تو کوئی اپنے ذاتی مسائل و پریشانیوں کا اظہار کرکے دعا کی درخواست کرتا۔ حضورؒ مسکراتے ہوئے سب کو اطمینان بخش جوابات عطا فرماتے رہے۔
دورانِ مجلس حضورؒ کی خدمت میں کافی پیش کی گئی جس میں condensed milk استعمال کیا گیا تھا۔ دودھ کا ڈبّہ بھی کافی کے ساتھ ہی میز پر موجود تھا۔ حضورؒ نے کافی کا گھونٹ لیا تو فوراً پوچھا کہ اس میں کونسا دودھ استعمال کیا گیا ہے؟ اس پر حضورؒ کی خدمت میں ایک کمپنی کا تیار کردہ ٹن پیک پیش کیا گیا۔ حضورؒ نے اسے ملاحظہ کرنے کے بعد ارشاد فرمایا کہ اس دودھ کو لمبا عرصہ محفوظ رکھنے کے لیے اس میں ایک کیمیکل شامل کیا جاتا ہے۔ اگر وہ کیمیکل شامل نہ کیا جائے تو دودھ بہت جلد خراب ہوجائے گا۔ لیکن یہی کیمیکل انسانی جسم پر بُرے اثرات مرتب کرتا ہے اور بیماری پیدا کرنے کا سبب بنتا ہے۔ اس لیے یہ دودھ مضر صحت ہے اور اس سے بچنا چاہیے اور ہمیشہ تازہ دودھ استعمال کرنا چاہیے۔
اُس دن سے حضورؒ کی یہ نصیحت میرے دل پر ایسے نقش ہوگئی کہ بعد میں بہت تکلیف اٹھانے کے باوجود بھی Longlife Milk کے استعمال پر دل آمادہ نہیں ہوا۔ اسی طرح بچوں کو بھی ہمیشہ بازار میں دستیاب تازہ دودھ ہی پینے کے لیے مہیا کیا۔ حالانکہ اُس وقت Longlife Milk خریدنا اور گھر میں محفوظ کرنا آسان تھا۔ لیکن اس میں موجود کیمیکل (جو ایک قسم کا زہر ہی ہے) کے بداثرات کے بارے میں لوگ زیادہ فکرمند نہیں ہوا کرتے تھے۔
بعد میں حضرت خلیفۃالمسیح الرابع رحمہ اللہ کی خدمت میں بھی متعدد مرتبہ خاکسار کو کافی پیش کرنے کی توفیق ملی۔ حضورؒ بھی چائے اور کافی میں ہمیشہ تازہ دودھ استعمال کرنا پسند فرماتے تھے۔
بعض لوگ کہتے ہیں کہ اتنی معمولی مقدار کے کیمیکل سے اتنے بڑے انسانی جسم پر کون سے ایسے مہلک اثرات مرتب ہورہے ہیں اور یہ دلیل بھی دی جاتی ہے کہ خود جرمن قوم اور دیگر ترقی یافتہ قوموں کے افراد بھی تو لمبے عرصے سےLonglife Milkکا استعمال کررہے ہیں۔ تو اُن کو یہ سمجھنا چاہیے کہ ہمیں صراط مستقیم پر چلانے کے لیے اللہ تعالیٰ نے اپنے فضل سے ہمیں خلافت جیسی نعمت عطا کی ہے۔ خلیفۂ وقت ہماری جسمانی اور روحانی نشوونما کے لیے حکمت سے بھرپور ہدایات دیتے ہیں اور ہر پہلو سے ہماری رہنمائی فرماتے ہیں۔ آج دنیا میں اکثر بیماریاں ایسے ہی زہروں کی وجہ سے پھیل رہی ہیں جو خوراک کے ساتھ ہمارے جسم میں داخل ہوتے ہیں پس خلیفۃالمسیح کی اس ہدایت پر عمل کرنے کے نتیجے میں یقیناً ہم خود کو کئی بیماریوں سے محفوظ رکھ سکتے ہیں۔
بے شک دودھ اپنی ذات میں تو بیماری کا باعث نہیں ہوتا لیکن Longlife Milk میں جو زہر شامل کیا جاتا ہے وہ آہستہ آہستہ انسانی جسم میں سرایت کرتا جاتا ہے اور کئی بیماریوں کا پیش خیمہ بن جاتا ہے۔
اسی مجلس کی ایک اَور بات بھی مجھے یاد ہے۔ حضورؒ نے ایک نوجوان کی طرف دیکھ کر دریافت فرمایا کہ کیا تم فٹ بال کے کھلاڑی ہو؟ اُس نوجوان نے نفی میں سر ہلایا تو مسکراتے ہوئے فرمایا: پھر بال اتنے لمبے کیوں رکھے ہوئے ہیں! یہ نوجوان اپنے سر پر رومال بھی باندھے ہوئے تھا۔ اس پر حضورؒ نے فرمایا کہ جو رومال ہم صفائی کے لیے استعمال کرتے ہیں، اُسے نماز کے وقت سر پر باندھنا مجھے پسند نہیں ہے۔
حضرت خلیفۃالمسیح الثالثؒ کے حوالے سے یہ بھی عرض کردوں کہ حضورؒ بڑے ہی شفیق، دُوراندیش اور گہری نظر رکھنے والے انسان تھے۔ خاکسار 1981ء میں جب پاکستان گیا تو حضورؒ سے شرف ملاقات حاصل کیا۔ حضورؒ نے ازراہ شفقت کافی وقت عنایت فرمایا۔ حضورؒ چونکہ خاکسار کے خاندان کو بھی جانتے تھے چنانچہ خاکسار نے حضور انورؒ سے مشورہ کرتے ہوئے عرض کیا کہ حضور! اب مَیں نے واپس جرمنی نہیں جانا بلکہ ربوہ میں ہی ڈیری فارم وغیرہ بنانے کا ارادہ ہے۔ اس پر حضورؒ نے کچھ توقف فرمایا اور پھر مسکراتے ہوئے فرمایا کہ نہیں، تم واپس جرمنی جاؤ۔ مَیں نے عرض کیا کہ پھر حضور دعا کریں کہ وہاں پر ویزے کا کوئی بندوبست ہوجائے کیونکہ حالات تو سازگار نہیں ہیں۔ تب حضورؒ نے نہایت شفقت سے دعائیں دیں اور فرمایا کہ واپس جانے سے پہلے مجھے مل کر جانا۔ اس پر خاکسار کو بہت خوشی ہوئی کہ دوبارہ دیدار حاصل ہوگا۔ چنانچہ مئی 1981ء میں خاکسار حضورؒ کی خدمت میں حاضر ہوا اور دریافت کرنے پر عرض کیا کہ چند روز تک واپس جرمنی جانے کا ارادہ ہے۔ اس پر حضورؒ نے دعا دی اور خاکسار کے رخسار پر تھپکی دیتے ہوئے فرمایا: جاؤ، اللہ حافظ۔
اللہ تعالیٰ کے فضل سے پھر مَیں نے واقعۃً ہر قدم پر معجزات دیکھے۔ نہ صرف ربوہ سے جرمنی تک پہنچنے اور وہاں سیٹ ہونے تک بلکہ اُس کے بعد سے آج تک بھی وہ معجزات جاری ہیں۔ یہ حضورؒ کی دعاؤں کا ثمر ہے کہ خاکسار آج بھی یورپ میں موجود ہے اور ساری مشکلات اللہ تعالیٰ نے آسان فرمادی ہیں۔ دنیا کی نعماء سے بھی نوازا ہے اور دین کی خدمت کی توفیق بھی عطا فرمائی ہے۔ مخلوق خدا کی خدمت کی سعادت بھی مل رہی ہے۔ الحمدللہ علیٰ ذالک۔

50% LikesVS
50% Dislikes

اپنا تبصرہ بھیجیں