حضرت خلیفۃالمسیح الثالث رحمہ اللہ تعالیٰ

ماہنامہ ’’تحریک جدید‘‘ ربوہ مارچ و اپریل 2009ء میں محترم چودھری حمیداللہ صاحب وکیل اعلیٰ تحریک جدید ربوہ کے قلم سے سیدنا حضرت خلیفۃالمسیح الثالث رحمہ اللہ تعالیٰ کے حوالہ سے چند یادداشتیں دو اقساط میں قلمبند کی گئی ہیں۔

محترم چودھری حمیداللہ صاحب

٭ جب حضرت خلیفۃالمسیح الثانیؓ کی وفات ہوئی تو فجر کی نماز کے بعد کثرت سے احباب حضورؒ سے مل رہے تھے۔ ایک دوست نے کہا کہ ہم یتیم ہوگئے ہیں۔ حضورؒ نے جو ملاقات کے دوران خاموش ہی تھے، اِس فقرہ کو سن کر قدرے بلند آواز سے فرمایا کہ ہمارا اللہ زندہ ہے۔
٭ 8؍مارچ 1973ء کی صبح حضورؒ نے مضمون نگار کو (جو اُس وقت مجلس خدام الاحمدیہ کے صدر تھے) قصرخلافت میں بلاکر یہ ہدایات دیں کہ ربوہ میں سائیکلوں کی رجسٹریشن کی جائے اور ربوہ میں کم از کم ایک ہزار سائیکلسٹ ہونے چاہئیں۔ سائیکل سفر کئے جائیں اور اجتماع پر خدام سائیکلوں کے ذریعہ آئیں۔ ناصرات بھی سائیکل چلانا سیکھیں اور اُن کی اتنی تربیت کرنی ہوگی کہ خواہ مخواہ گھبرائیں نہیں بلکہ مشکل کے وقت خود مدافعت کرسکیں۔ نیز فرمایا کہ خاموشی سے تیاری کرنی ہے، کسی قسم کا اعلان نہیں کرنا۔

٭ 26 مئی 1973ء کو حضورؒ نے ایوان محمود میں ایک ہنگامی شوریٰ طلب کی۔ بند اجلاس تھا حضورؒ کا ارشاد تھا کہ احاطہ اور ہال میں نمائندگان کے علاوہ اَور کوئی شخص داخل نہ ہو۔ صرف حضورؒ کی تقریر تھی جو چار گھنٹے پر محیط تھی۔ حضورؒ نے بتایا کہ آئندہ جماعت کو کیا خطرات درپیش ہیں اور جماعت نے کیا احتیاطیں کرنی ہیں۔
٭ 1975ء کے شروع میں کسی صاحب نے ایک ملاقات میں حضورؒ سے عرض کیا کہ بعض احباب یہ ذکر کررہے تھے کہ جماعت کو غیرمسلم قرار دینے کے بعد کوئی نشان ظاہر نہیں ہوا۔ اس پر حضورؒ نے بڑے جلال سے فرمایا کہ ہمارا اپنے ربّ سے کسی نشان کا مطالبہ نہیں، اُس کی مرضی ہے چاہے کوئی نشان دکھائے یا نہ دکھائے۔
٭ 1972ء میں جب حکومت نے سکولوں اور کالجوں کو نیشنلائز کرلیا تو جماعت کو اور سکول و کالج کے اساتذہ کو سخت صدمہ ہوا۔ اس موقعہ پر حضورؒ نے کالج کے واقفین زندگی اساتذہ کو چائے پر بلایا اور فرمایا کہ نیشنلائزیشن سے گھبرانے کی کوئی ضرورت نہیں، اصل چیز کسی ادارہ کی روایات ہوتی ہیں۔ اگر تعلیم الاسلام کالج کی روایات برقرار رہیں تو یہ سمجھیں کہ ادارہ ہمارے پاس ہی ہے۔ حضورؓ نے واقفین زندگی اساتذہ کی ڈیوٹی لگائی کہ وہ کالج کی روایات کی حفاظت کریں۔
جب احمدی اساتذہ کو ربوہ کے کالج سے ٹرانسفر کیا جانے لگا تو حضورؒ نے مکرم پروفیسر بشارت الرحمن صاحب اور مجھے کالج سے استعفیٰ دینے کا ارشاد فرمایا۔ پھر مجھے ناظر ضیافت مقرر فرمایا اور جلسہ سالانہ اور دارالضیافت کا کام بھی خاکسار کے سپرد ہوا۔
1975ء کے جلسہ سالانہ سے چند روز پہلے حکومت کی طرف سے پیغام ملا کہ تعلیمی ادارے جلسہ کے مہمانوں کو ٹھہرانے کے لئے اب نہیں ملیں گے۔ یہ اطلاع جب حضورؒ کی خدمت میں پیش ہوئی تو آپؒ نے فرمایا کہ اگر مہمان کھلے آسمان کے نیچے سوئیں گے تو مَیں بھی کھلے آسمان کے نیچے سوؤں گا۔ پھر حضورؒ کی ہدایت پر جماعت کا ایک وفد مکرم مرزا عبدالحق صاحب مرحوم کی قیادت میں کمشنر سرگودھا ڈویژن سے ملا۔ وفد میں خاکسار اور مکرم ظہور احمد باجوہ صاحب بھی شامل تھے۔ کمشنر بڑی اچھی طرح سے ملے اور 1974ء میں احمدیوں کی املاک کو پہنچنے والے نقصان پر معذرت کی اور کہا کہ مَیں نے تو D.C. اور S.P. کو قبل از وقت warn کردیا تھا۔ہم نے اُن سے گزارش کی کہ جماعت نے یہ ادارے بنوائے تھے۔ اگر جماعت کے مہمان جلسہ کے موقع پر ان اداروں میں ٹھہر جائیں تو یہ جماعت کا حق ہے۔ اور پھر چند دن کے نوٹس پر ہم ایک لاکھ آدمیوں کے ٹھہرانے کا متبادل انتظام نہیں کرسکتے۔ انہوں نے کہا کہ اس بارہ میں پنجاب حکومت ہی کوئی فیصلہ کرسکتی ہے۔ انہوں نے حکومت کے سامنے ساری صورتحال پیش کی تو حکومت نے اُس سال کے لئے تعلیمی اداروں میں مہمان ٹھہرانے کی اجازت دیدی۔ 1976ء میں حضورؒ نے ارشاد فرمایا کہ جماعتیں جلسہ کے موقع پر اپنی رہائش کے لئے ربوہ میں بیرکس تعمیر کریں اور اس کے لئے چندہ دیں۔ چنانچہ مردوں کی بیرکس مسجد اقصیٰ کے ساتھ اور خواتین کی بیرکس دارالضیافت کے قریب تعمیر ہوئیں۔
٭ حضورؒ کی دلداری کا انداز بھی عجیب تھا۔ ستمبر 1979ء میں میری والدہ عائشہ بی بی صاحبہ فوت ہوئیں تو حضورؒ نے نہ صرف جنازہ پڑھایا بلکہ کچھ دُور تک کندھا بھی دیا۔ میری اس سے زیادہ دلداری اور میری والدہ کی اس سے زیادہ خوش قسمتی نہ ہوسکتی تھی۔
٭ حضرت سیدہ منصورہ بیگم صاحبہ بیمار ہوئیں تو سبھی کسی نہ کسی رنگ میں خدمت میں شریک تھے۔ خاکسار اُس وقت دارالضیافت میں تھا جہاں بیرون ربوہ سے آنے والے ڈاکٹروں کے قیام و طعام کا انتظام کررہا تھا۔ جب حضرت بیگم صاحبہ کی وفات ہوگئی تو حضورؒ کے دل میں سب کام کرنے والوں کے لئے شکرگزاری کے جذبات تھے جس کا حضورؒ نے گھر میں بھی ذکر فرمایا۔ اُن دنوں عشاء کے بعد کچھ دیر کے لئے حضورؒ بیٹھ جاتے اور تعزیت کرنے والے دوست مل لیتے۔ ایک روز مَیں بھی حاضر ہوا اور سلام عرض کرکے آخر پر بیٹھ گیا۔ حضورؒ نے فرمایا: آپ آگے آجائیں۔ مَیں کچھ آگے جاکر بیٹھ گیا تو فرمایا : آپ میرے ساتھ آکر بیٹھ جائیں۔ چنانچہ خاکسار حضور کے ساتھ صوفہ پر بیٹھ گیا۔
٭ 1972ء یا 1973ء میں حضورؒ نے ارشاد فرمایا کہ مرکزی انجمنوں کے دفتروں پر لوائے احمدیت لہرائے جائیں۔ اسی طرح قصر خلافت پر بھی لوائے احمدیت لہرایا گیا۔ ذیلی تنظیموں کے دفاتر پر اُن کے جھنڈے لہرائے گئے۔ حضورؒ نے ایک خاص ہدایت یہ دی کہ عام طور پر جھنڈے صبح سے شام تک کے لئے لہرائے جاتے ہیں لیکن 1939ء میں لوائے احمدیت لہرانے کے لئے جو کمیٹی حضرت مصلح موعودؓ نے قائم فرمائی تھی، اُس میں مفتی سلسلہ حضرت مولانا سرور شاہ صاحبؓ بھی ممبر تھے اور اُن کی رائے تھی کہ اسلامی جھنڈا چوبیس گھنٹے لہراتے رہنا چاہئے اور اگر پھٹ جائے تو احترام سے تلف کردینا چاہئے۔
٭ جب مَیں کمیٹی امداد گندم مستحقین کا صدر مقرر ہوا تو ایک ملاقات میں پوچھا کہ فلاں فیملی کی گندم کی ضرورت کتنی ہے؟۔ پھر اُن کو گندم خرید کر دینے کا خرچ پوچھا۔ پھر اپنا بٹوا مجھے دے دیا کہ اس میں سے رقم لے لیں۔ مَیں نے رقم لے لی تو فرمایا اس فیملی سے میرا ذکر نہیں کرنا، اپنی طرف سے اُن کو دیں۔
٭ ایک جلسہ سالانہ پر افتتاحی خطاب فرمانے کے بعد حضورؒ واپس تشریف لے جانے لگے تو کار رُکواکر مجھے بلایا اور فرمایا کہ لنگروں کی فکر کریں۔ حضورؒ کے تشریف لے جانے پر ہم قریبی لنگر نمبر 3 میں پہنچے ہی تھے کہ وہاں شور مچا ہوا تھا کہ گیس کا پریشر ختم ہوگیا ہے، نہ تنور چل رہے ہیں نہ چولہے۔ یہ صورتحال دیکھ کر ہم مسجد مبارک کے پاس سوئی گیس سٹیشن پر پہنچے تو وہاں گیس کا دباؤ جو 100 ہونا چاہئے تھا، 30 ہوگیا تھا۔ ہمیں دیکھ کر کچھ لوگ بھی اکٹھے ہوگئے۔ ہم چاہتے تھے کہ سوئی گیس کے محکمہ کو فون کریں کہ فیصل آباد سے ٹیم بھیجے۔ ابھی اسی تگ و دو میں تھے کہ سوئی گیس کے محکمہ کی ایک گاڑی جو فیصل آباد سے سرگودھا جارہی تھی، گیس سٹیشن کے پاس جمگھٹا دیکھ کر رُک گئی۔ اُن کو صورتحال بتائی تو انہوں نے Master Key سے سٹیشن کھولا اور چند منٹ میں گیس کا پریشر ٹھیک کردیا۔
٭ 1966ء میں حضرت سید داؤد احمد صاحب مرحوم افسر جلسہ سالانہ تھے۔ جلسہ کی ایک رات حضورؒ کے ہاتھ کا لکھا ہوا ایک نوٹ ملا۔ سب نے پڑھنے کی کوشش کی لیکن کسی سے بھی پڑھا نہ گیا۔ عدسہ کی مدد سے بھی پڑھا نہ جاسکا۔
رات نصف شب کو نانبائیوں نے کسی وجہ سے ہڑتال کردی اور روٹی ضرورت کے مطابق نہ پک سکی۔ حضرت سید داؤد احمد صاحب نے نماز فجر سے قبل حاضر ہوکر حضورؒ کی خدمت میں صورتحال عرض کی تو حضورؒ نے فرمایا کہ مَیں نے رات آپ کو لکھ کر بھیجا تھا کہ کل کی فکر کریں۔ یہی وہ تحریر تھی جو ہم سے پڑھی نہ جاسکی تھی۔ پھر حضورؒ نے اس صورتحال کے پیش نظر دو ہدایات دیں یعنی سب لوگ ایک روٹی کھائیں اور دوسری یہ کہ گھروں والے روٹیاں پکاکر لنگر بھیجیں۔ چنانچہ یہ اعلان کردیا گیا اور جلد ہی صورتحال سنبھل گئی۔
٭ خدام الاحمدیہ کی ایک تربیتی کلاس کے موقع پر بعض طلباء نے لڑائی جھگڑا کیا تو اُن کے متعلق سفارش کی گئی کہ ان کو چھ چھ سوٹیاں ماری جائیں۔ حضورؒ نے فرمایا کہ سوٹیاں مارنے کی بجائے اتنے نفل پڑھائے جائیں۔

٭ خاکسار جب صدر مجلس خدام الاحمدیہ تھا تو ایک نوجوان کو مجلس نصرت جہاں کے تحت بطور استاد مغربی افریقہ بھجوانا تھا۔ سب رپورٹیں اُس نوجوان کے حق میں تھیں سوائے محلہ کے زعیم خدام الاحمدیہ کے جن کو شکایت تھی کہ وہ خادم رات کو ڈیوٹی کے لئے بلانے پر بھی نہیں آتے۔ حضورؒ نے فرمایا کہ یہ نوجوان افریقہ جائے گا تو وہاں بھی نافرمانی کرے گا۔ چنانچہ اُس نوجوان کا افریقہ جانا ملتوی کردیا گیا۔ پھر کچھ عرصہ بعد اُس کو افریقہ بھجوایا گیا تو اُسی نوعیت کی شکایت پیدا ہوئی اور اس بناء پر اُسے واپس بلوانا پڑا۔
٭ جب حضورؒ صدرانجمن احمدیہ کے صدر تھے تو کسی معاملہ کی تحقیقی کمیٹی کا ایک دوست کو صدر مقرر فرمایا۔ چند دن بعد اُس دوست کو کمیٹی میں تو رہنے دیا لیکن ان کی بجائے دوسرے کسی ممبر کو صدر نامزد فرمادیا۔ ایک روز مَیں ملنے گیا تو فرمایا کہ مَیں نے یہ تبدیلی ایک ہفتہ مسلسل دعا کے بعد کی ہے۔

50% LikesVS
50% Dislikes

اپنا تبصرہ بھیجیں