حضرت خلیفۃالمسیح الرابعؒ کا اندازِ راہنمائی

(مطبوعہ ’’الفضل ڈائجسٹ‘‘، الفضل انٹرنیشنل لندن 26؍ جولائی تا 08؍ اگست 2022ء(سالانہ نمبر))
’’الفضل انٹرنیشنل‘‘ 5؍جون 2009ء کے کالم ’’الفضل ڈائجسٹ‘‘ میں مکرم عبداللہ واگس ہاؤزر صاحب امیر جماعت احمدیہ جرمنی کے ایک مضمون کا خلاصہ شائع ہوا تھا جس کا تعلق حضرت خلیفۃالمسیح الرابعؒ کے اخلاق حسنہ سے تھا۔ روزنامہ ’’الفضل‘‘ ربوہ 11، 12 اور 13؍نومبر 2014ء میں یہ مضمون نمایاں اضافے کے ساتھ شامل اشاعت ہے۔

حضرت خلیفۃالمسیح الرابعؒ کی دُوررس نگاہ اور اندازِ راہنمائی کے حوالے سے مضمون نگار رقمطراز ہیں کہ حضرت خلیفۃالمسیح الرابعؒ کو جماعت جرمنی کے ساتھ خاص تعلق تھا۔ اس کی ایک وجہ تو جماعت جرمنی کی تجنیدتھی اور دوسری یہاں کے احمدیوں کا جذبۂ قربانی۔ 1988ء میں ناصر باغ کی خرید کے بعد یہاں بڑے اجتماعات کا انعقاد شروع ہوا۔ حضورؒ اکثر اس بات کا ذکر فرماتے کہ آپؒ کو یہاں آکر بہت تسکین ملتی ہے اور اس سے ربوہ کی یادیں تازہ ہوجاتی ہیں۔ حضورؒ نے اُس وقت اپنے خطبات اور خطابات میں خدام کی تربیت اور خلافت سے تعلق مضبوط کرنے پر بہت زور دیا۔ چنانچہ ہم میں سے ہر ایک کا صرف جلسے اور اجتماعات کا ہی نہیں بلکہ ذاتی ملاقاتوں اور خطوط کے ذریعے بھی حضورؒ سے گہرا رابطہ تھا۔ احباب خطوط میں اپنی تجاویز حضورؒ کی خدمت میں ارسال کرتے اور حضورؒ صرف جماعت جرمنی کی دفتری رپورٹس پر ہی اکتفا نہیں کرتے تھے بلکہ آپؒ کو ہمیشہ علم ہوتا تھا کہ ملکی حالات اس وقت کیسے ہیں۔ جب آپؒ نے اجتماع اور جلسے کا معائنہ کرنا اور ہر شعبے کا تفصیلی جائزہ لینا شروع کیا تو یہ ہماری ایسی ٹریننگ تھی جس کی اشد ضرورت تھی۔ آپؒ ہر چھوٹی سے چھوٹی بات کا خیال رکھتے۔ شعبہ جات میں جاکر اُن کی مشکلات کے بارے میں پوچھتے اور قیمتی نصائح سے نوازتے۔ ایک روایت سے زیادہ یہ وقت کی اہم ضرورت بھی تھی تاکہ انتظامیہ کو اُس نظام اور طریقے سے آگاہی ہو جو جماعت میں رائج تھا۔ شعبہ ضیافت کو خاص ہدایات دی جاتی تھیں کہ کون سا کھانا کون سے وقت میں پکایا جانا چاہیے۔ مثلاً دال دوپہر میں پکے اور شام کو کوئی اَور سالن ہو۔ بازار کی دکانوں سے بھی پکوان چیک کرتے لیکن اپنی پلیٹ میں ہمیشہ بہت کم ڈالتے۔
حضورؒ کھیلوں کے مقابلہ جات کے لیے بڑی گرمجوشی دکھاتے۔ آپؒ کو علم ہوتا کہ کون سی ٹیمیں اچھی ہیں اور کون سی کمزور ہیں۔ کبڈی کے مقابلہ جات دیکھنے کی خواہش تھی لیکن فٹ بال اور والی بال کے میچ دیکھنے کے لیے صرف اس لیے وقت نکال لیتے تاکہ خدام کی حوصلہ افزائی ہو۔

حضورؒ کے دورہ جات کا بڑا حصہ دعوت الی اللہ کے کاموں میں صرف ہوتا تھا۔ مجھے اپنی وہ پہلی تبلیغی میٹنگ یاد ہے جس کا اہتمام مکرم ڈاکٹر قریشی صاحب نے گروس گیراؤ میں کیا تھا جہاں وہ ڈینٹسٹ تھے۔ انہوں نے ایک شام اپنے مکان پر اپنے جرمن دوستوں کے ساتھ تبلیغی نشست کا اہتمام کیا۔ حضورؒ کے ہمراہ آٹھ افراد پر مشتمل ہمارا قافلہ وہاں پہنچا۔ ڈاکٹر صاحب نے پہلے اپنا اور شہر کے کونسلر کا تعارف کروایا۔ پھر خاموشی چھانے لگی تو حضورؒ نے گفتگو کو سنبھالا اور یورپ میں کی گئی اپنی سیاحت کے واقعات سنانے لگے۔ حاضرین مجلس انگشت بدنداں تھے۔آپؒ نے بتایا کہ آپؒ کے پاس ایک بہت پرانی گاڑی تھی جو آپؒ نے ایک امیر آدمی کی نئی گاڑی کے ساتھ بدل لی۔ لوگ آپؒ کے چہرہ مبارک میں گم ہو کر باتیں سنتے رہے۔ کافی دیر بعد آپؒ نے محسوس کیا کہ محفل اب معمول کی باتوں میں تبدیل ہو رہی ہے تو رخصت لے کر وہاں سے نکل آئے۔ ایسی صورتحال پر کبھی تکلّفات میں نہیں پڑے۔ مجھے ہمیشہ ہی حددرجہ حیرانی ہوتی کہ کس طرح لوگوں پر حضورؒ کی شخصیت کا جادو چھا جاتا۔ حضورؒ اکثر اپنی نوجوانی کے واقعات بتایا کرتے تھے مثلاً جب آپؒ یونیورسٹی میں طالب علم تھے تو آپؒ نے وہاں ایسی نفسیاتی گیمیں پیش کیں جن کے ذریعے دوسروں پر یہ واضح کیا کہ ایک دوسرے کے ساتھ Communication بغیر الفاظ کے بھی ہوسکتی ہے۔ جسے ماورائے نفسیات (Parapsychology) کہتے ہیں۔
علم میں اضافے کے لیے حضورؒ کے ساتھ تبلیغی میٹنگ میں شمولیت بہترین ذریعہ تھا۔ ہم نے یہ بھی سیکھا کہ آپؒ بعض مخصوص سوالات کے جوابات کس طرح دیا کرتے ہیں۔ مَیں نے محسوس کیا کہ اس طرح اپنے خیالات کو آپؒ کی سوچ کے مطابق ڈھالنے میں بہت مدد ملتی تھی۔ ہدایت اللہ ہیوبش صاحب حضورؒ کی میٹنگ میں ترجمانی کے فرائض انجام دیتے تھے اور آہستہ آہستہ خود بھی حضورؒ کے طرز فکر سے ہم آہنگ ہو گئے تھے لیکن جب ترجمانی ٹھیک نہ ہو پاتی تو حضورؒ اُن کی طبیعت کے بارے میں پوچھتے۔ پھر کچھ عرصے تک حضورؒ نے مکرم ہیوبش صاحب پر خاص توجہ دی اور اس طرح انہیں وہ طاقت مہیا ہوئی جو کہ ترجمہ کرنے کے لیے ضروری تھی۔ پھر ایسا نظارہ بھی ہم نے دیکھا کہ حضورؒ لمبی گفتگو فرماتے اور ہیوبش صاحب اس آدھے گھنٹے کی گفتگو کا لفظ بلفظ ترجمہ کرلیتے۔ جب حضورؒ بوسنین، البانین، جرمن اور دوسری قوموں سے اکٹھی گفتگو فرماتے تو آپؒ کو ہمیشہ علم ہوتا کہ اب کس انداز میں گفتگو کرنی بہتر ہے۔ اُن میں چاہے کوئی غصے والا ہوتا یا کوئی اَور، سب محظوظ ہوتے۔ یہ بات حیران کُن تھی کہ حضورؒ ہر قسم کے حالات کو اپنے مطابق ڈھال لینے کا فن جانتے تھے۔
آپؒ نے ہمیں یہ بھی سکھایا کہ مہمانوں کا خیال رکھنا کس قدر ضروری ہوتا ہے۔ جب مہمان آتے تو آپؒ ان کی مہمان نوازی کے لیے ہمیشہ مصروف نظر آتے۔ انہیں دروازے میں آکر خوش آمدید کہتے اور ان کو پورا وقت دیتے۔ ان کا ہر طرح سے خیال رکھتے۔ ان سے باتیں کرتے اور ان کی ذاتی زندگی کے بارے میں معلومات حاصل کرتے۔ حتیٰ کہ بوقت الوداع ان کی گاڑی تک آتے اور اگر بارش ہوتی تو چھتری لے کر ان کو گاڑی تک چھوڑنے کے لیے ساتھ آتے۔ آپؒ کو اپنے ان فرائض کی انجام دہی سے کوئی بھی غافل نہ کرسکا۔ حضور اقدسؒ نے ہمیشہ اس بات کا خیال رکھا کہ مہمانوں کو تحائف بھی دیے جائیں، چاہے ایک چھوٹی سی چیز ہی کیوں نہ ہو۔ لیکن مہمانوں نے کبھی بھی ا س کو منفی انداز میں نہیں دیکھا کیونکہ حضورؒ یہ تحائف بڑی سادگی اور پیارے انداز میں دیتے تھے۔
مجالس عرفان تو ایک فیملی ملاقات کی طرح ہوتی تھیں۔ یہ ایک ذاتی سا معاملہ ہو گیا تھا۔ چاہے باہر گرمی ہوتی یا سردی جب اکٹھے بیٹھتے تو بڑا خاص قسم کا ماحول ہوتا تھا۔ خیمے کے اندر تقریباً پانچ ہزار لوگ ہوتے تھے مگر یہی احساس رہتا کہ ہم سب اکٹھے ہیں۔ حضورؒ ایک ایسا ماحول پیدا کردیا کرتے کہ ہر کوئی آپؒ کے جادو میں جکڑا جاتا۔ ایک لمحے میں مزاح ہوتا تو دوسرے ہی لمحے آپؒ سنجیدہ ہوتے۔ یہ ایک ایسا ماحول تھا جس میں محبت اور اجتماعیت پنپ رہی تھی۔ حضورؒ ایک ایسے ہیرے کی مانند تھے جس سے ہر قسم کی روشنی پھوٹتی تھی۔ جب حضورؒ ہمارے درمیان تشریف فرماہوتے تو دوسروں سے ممتاز ہو کر نہ بیٹھتے بلکہ ایسے بیٹھتے جیسے آپؒ سب کا حصہ ہوں۔

حضورؒ نے ہمیں بار بار فرمایا کہ ہماری جماعت عیسائی دنیا کے مقابلے میں بیشک چھوٹی ہے لیکن یہ سوچ کر ہم اپنے فوجی (مربیان) تیار کرنے چھوڑ نہیں سکتے۔آپؒ نے فرمایا کہ ہمیں آفیسر بنانے چاہئیں جس طرح پہلی جنگ عظیم کے بعد جرمنی کو بڑی آرمی رکھنے کی اجازت نہ تھی تو انہوں نے زیادہ آفیسر تیار کرنے کی طرف توجہ شروع کر دی۔ بعینہٖ اسی طرح ہمیں بھی کرنا چاہیے۔ آپؒ نے ہمیشہ یہ ہدایت بھی دی کہ باثمر داعیان الی اللہ تیار کرنے کے لیے زیادہ سے زیادہ تبلیغی سیمینار منعقد کرنے کی ضرورت ہے۔پھر آپؒ نے ہمیں دعوت الی اللہ کے ٹارگٹ دینے شروع کیے جن کو ہم نے کم و بیش پورا بھی کیا۔ ہم پر اللہ تعالیٰ کا یہ خاص فضل تھا کہ بوسنیا اور بالقان کی جنگ کے بعد جرمنی میں ہر طرف مسلمان گھومتے پھرتے نظر آتے تھے۔ لیکن اُن کے سر پر سایہ نہ تھا یعنی وہ پیدا تو مسلمان ہوئے تھے لیکن اسلام سے واقف نہ تھے اور نہیں جانتے تھے کہ اسلام میں کون سی خوبیاں ہیں۔ جب ہم حقیقی اسلام سے ان کو متعارف کرواتے تو ان کی خوشی کی انتہا نہ رہتی اور وہ ہمارے قریب ہوجاتے۔
جب دس ہزار افراد اکٹھے جماعت میں شامل ہوں گے تو لازمی بات ہے کہ ان کو سنبھالنا مشکل ہو گا۔ حضورؒ نے ایک مرتبہ مجھے فرمایا کہ مجھے پہلے سے ہی اس کا اندازہ تھا اس لیے ہمیں چاہیے کہ کم ازکم ان لوگوں تک جماعتی لٹریچر ہی پہنچا دیں تاکہ ان کو اسلام کی بنیادی تعلیمات سے ہی آگاہی ہوجائے اور کم ازکم یہ ہم سے وہ علم حاصل کرلیں جو غیروں کی دسترس میں ہوتے ہوئے یہ کبھی بھی ہم سے نہ حاصل کرسکتے۔ حضورؒ نے فرمایا کہ بیشک ہماری دن رات کی تبلیغی کوششیں ہمیں کوئی پھل نہ بھی عطا کریں لیکن پھر بھی بہتر ہے کہ ہم ان پر اسلام کا کوئی بھی پاکیزہ اثر ضرور چھوڑیں۔
بعدازاں وقت نے ثابت کیا کہ ان ممالک میں جہاں سے یہ پناہ گزین آئے تھے ہماری جماعتیں قائم ہوگئیں۔ گو اُن جماعتوں نے آہستہ آہستہ ترقی کی لیکن مسلسل کی اور ان ممالک میں آج احمدیت کی ایک پہچان ہے۔ لوگ ہمارا لٹریچر پڑھتے ہیں اور جانتے ہیں کہ یہ کہاں سے ملے گا۔ جبکہ دوسری طرف جرمنی میں اس وقت لاکھوں ترک آباد ہیں جو بڑی آسانی سے ہماری تعلیمات تک رسائی حاصل کرسکتے ہیں مگر اپنے مُلّاں کی دی ہوئی تعلیم کی وجہ سے ہمارا لٹریچر تک نہیں پڑھتے۔ اس کے برعکس بوسنین لوگوں کے گھروں میں ہماری کتابیں موجود ہیں اور وہ کچھ نہ کچھ انہیں پڑھتے بھی ہیں۔ اگرچہ اُن کے لیے اسلام کی مکمل تعلیمات پر عمل پیرا ہونا فوری طور پر ممکن نہیں تھا لیکن اُن کی سوچ کو اسلام کی طرف لانا ایسا کام تھا جو صرف حضورؒ کی وجہ سے ہی ممکن ہوا تھا۔ اُن دنوں ناصر باغ میں حضورؒ کی زیر نگرانی ایک تبلیغی نشست کا انعقاد ہوا جس میں آٹھ دس ہزار بوسنین شریک ہوئے۔ یہ ایک غیرمعمولی نشست تھی لیکن اس وقت جماعت ایسی پوزیشن میں نہیں تھی کہ اتنے زیادہ افراد کے لیے ایک بڑا ہال کرایہ پر لے سکے۔ تاہم اس ماحول نے ہمیں نئے انداز سے سوچنے پر مجبور کر دیا کہ اگر ہم (خلیفہ وقت کی سوچ کے ساتھ) ایک خاص سمت میں کام کریں تو بہت کچھ حاصل کرسکتے ہیں۔ حضورؒ نے ان بوسنین پر بہت محنت کی۔ جب بھی حضورؒ جرمنی تشریف لاتے تو اکثر ہم ایک دن میں ایک سے زیادہ تبلیغی نشستوں کا اہتمام کرتے۔ ان دنوں ہم نے جرمنی بھر کے متعدد سفر کیے۔
ایک ایسی ہی تقریب کے لیے ہم پہلی مرتبہ کسی جگہ گئے اور وہاں حضورؒ نے لوگوں سے گفتگو شروع کی تو اس گفتگو اور لیکچر کا لوگوں پر اتنا اچھا اثر ہوا کہ آج بھی وہاں کا تعلیم یافتہ طبقہ کتابوں وغیرہ کی نمائش پرملتا ہے تو بلامبالغہ اس بات کا اظہار کرتا ہے کہ آپ لوگ ہمارے ہاں اپنی جماعت کا قیام کریں اور احمدی اُن کے علاقے میں آکر آباد ہوں۔
حضورؒ کو دعوت الی اللہ سے بے پناہ محبت تھی۔ آپؒ نے اس کی اہمیت صرف اپنے خطابات میں ہی واضح نہیں فرمائی بلکہ خط و کتابت اور ذاتی روابط کے ذریعے بھی ہر احمدی پر اس کی اہمیت کو اجاگر کیا۔ بہت سارے لوگ اپنے تبلیغی تجربات حضورؒ کی خدمت میں لکھتے تو آپؒ ان کو مفید مشوروں سے نوازتے۔

آپؒ نے ایک دفعہ ہمیں فرمایا کہ نومسلموں کو سنبھالنے کے لیے مواخات کا نظام قائم کریں اور نگہداشت کرنے والی فیملیز تیار کریں۔ اگرچہ چند شہروں میں ہم نے یہ نظام شروع کیا لیکن ہم ذہنی طور پر اس کے لیے تیا رنہ تھے۔ چنانچہ حضورؒ کی ہدایت پر پوری طرح عمل نہ کرنے کا نقصان اُس وقت سامنے آیا جب یہ لوگ شادی کی عمر کو پہنچے اور انہوں نے اپنے پرانے روابط میں شادیاں کرنا شروع کر دیں۔ وہاں ان کے میل جول تھے اور ہم ان کی اچھی تربیت بھی نہ کرسکے تھے۔ اسی لیے بہت کم مخلوط شادیاں ہوئیں جو کہ تبدیلی کا باعث بن سکتی تھیں۔ اگر ہم نے اس وقت حضورؒ کی ہدایات پر عمل کیا ہوتا تو ہم یہاں کے کافی گھروں کو تباہ ہونے سے بچاسکتے تھے۔
حضورؒ کی خواہش تھی کہ ہر مرکز اور ہر جماعت میں ایسا تبلیغی مواد بہم پہنچایا جائے جو ہر ملک کی ہر زبان میں ہو۔ آپؒ نے مزید ہدایات یہ دیں کہ ہر پمفلٹ یا کتاب کی پشت پر انگریزی زبان میں اس کتاب کا مختصر تعارف تحریر کیا جائے۔ آپؒ نے مختلف زبانوں اور اقوام کے لیے ڈیسک سسٹم بھی تشکیل دیے۔ حضورؒ کی ہدایت کے تابع ہم نے غیرملکی سیاحوں کو اسلام کا پیغام پہنچانے کے لیے بھی کام کرنا شروع کر دیا اور حضورؒ کی ہدایات کے تحت سپین اور دیگر چھوٹی جماعتوں کی مدد کے لیے اُن کے ہاں بھی گئے۔ آج تقریباً ان تمام ممالک میں مضبوط نظام جماعت قائم ہوچکا ہے۔
حضورؒ نے ہمیں ہمیشہ نئی نئی تجاویز دیں۔ قرآن کریم کا جرمن ترجمہ حضورؒ کی شدید دلی خواہش تھی۔ اسی طرح کتاب ’’اسلامی اصول کی فلاسفی‘‘کا ترجمہ بھی آپؒ کی اوّلین خواہشات میں سے ایک تھا۔ نیز 1989ء میں صدسالہ جشن تشکر کے موقع پر کئی چھوٹے پمفلٹ شائع کروائے۔ حضورؒ نے ہمارے اندر کسی بھی تبلیغی موقع کو ہاتھ سے نہ جانے دینے کا شعور بیدار کیا۔ یعنی دنیا میں ہر انسان تک ہم نے پہنچنا تھا۔
ایک بار انشورنس سے کچھ رقم مجھے ملی تو مَیں نے ایک گھر خریدا اور حضورؒ کی نئے گھر میں دعوت کی۔ ایک اَور موقع پر بھی حضورؒ ہمارے ہاں تشریف لائے۔ لیکن میرے بچے سارا وقت حضورؒ کے ساتھ رہنا چاہتے تھے۔ چنانچہ حضورؒ کھانا تناول فرماتے تو میرا ایک بچہ ایک ران پر اور دوسرا دوسری ران پر بٹھالیتے۔ یہ حضورؒ کے لیے یقیناً آرام دہ نہیں تھا لیکن جب بھی مَیں بچوں کو حضورؒ سے علیحدہ کرنے کی کوشش کرتا تو آپؒ فرماتے کہ رہنے دو، ایسے ہی ٹھیک ہے۔ اس حالت میں کھانا کھانا واقعۃً مشکل تھا لیکن پھر بھی آپؒ نے بچوں کو اپنے سے نہ ہٹایا۔ یہ آپؒ کی شفقت کی انتہا تھی۔
حضورؒ کے ساتھ رہ کر مجھے غیرمعمولی تجربات ہوئے۔ آپؒ کی ایک تقریر کے دوران جو حضورؒ نے خدام الاحمدیہ کے اجتماع پر فرمائی، ہر فقرہ اتنا پُراثر تھا کہ سیدھا میرے دل میں اُترتا رہا اور مَیں بےقرار ہوکر روتا رہا۔ اس پُرحکمت خطاب میں کوئی لفظ فالتو نہیں تھا۔جب حضورؒ اپنے خطاب سے فارغ ہوئے تو میں آپؒ کے قریب ہو گیا۔ آپؒ نے مُڑکر مجھے دیکھا اور گلے سے لگا لیا۔ یہ ایک ایسا عمل تھا جیسے کسی کو ایسا علم گھوٹ کر پلادیا جائے جو اُس کی تمام زندگی راہ راست پر چلنے کے لیے ممد ہوجائے۔ سچ یہ ہے کہ جب میں حضورؒ کے ساتھ ہوتا تھا تو مجھے ایک خاص قسم کی حفاظت میں ہونے کا احساس رہتا تھا۔ ہِپی ازم کے دَور میں ہمارا ایک خواب تھا کہ ہم ایسی شعوری حالت حاصل کرلیں کہ جس کے بعد ہم عام لوگوں کو اپنے ساتھ ملاکر اس دنیا کو بدل ڈالیں۔ ایسا معلوم ہوتا تھا کہ حضورؒ میں یہ قوت اور صلاحیت موجود ہے۔ آپؒ لوگوں کے ساتھ صرف بات چیت کرتے تو وہ تمام مخالفت چھوڑ کر آپؒ کے ساتھ ہولیتے۔ اور جب بھی ہم حضورؒ کے ساتھ ہوتے تو یہ بات ہمیشہ ہمارے ذہنوں میں رہتی کہ آپؒ کو ہر صورتحال پر مکمل کنٹرول حاصل تھا۔ ایک جادوئی قوت تھی جو حضورؒ میں موجود تھی۔ لوگوں نے آپؒ کے اندر سے نکلنے والی خاص شعاعوں کے بارے میں بھی بارہا اظہار کیا۔ لوگ اکثر اس بات کا اعتراف کرتے کہ حضورؒ کے قرب میں انہوں نے کچھ ایسا محسوس کیا جو انہوں نے اس سے پہلے کبھی بھی محسوس نہیں کیا تھا۔
جرمنی میں منعقد ہونے والے اجتماعات نے ذہنی اور روحانی سطح پر نیز کھیلوں کے لحاظ سے بہت ترقی کی ہے مثلاً ہم نے کھیل کے میدان میں قومی سطح کی کھیلوں کے معیار حاصل کرنے کی کوشش کی۔ حتیٰ کہ حضورؒ کبڈی کے کھلاڑیوں کی ٹریننگ کے طریقہ کار پر بھی توجہ دیتے اور ہدایات سے نوازتے۔ حضورؒ نے ایک دفعہ جرمنی کی نیشنل عاملہ کا کبڈی میچ اپنے قافلے کی ٹیم سے کروایا۔ اس میچ کا اپنا ہی مزہ تھا کیونکہ سب جانتے تھے کہ یہ میچ حضورؒ کی آنکھوں کے سامنے کھیلا جارہا تھا۔ حضورؒ بہت لطف اندوز ہوئے۔ میں بھی پہلی بار اس کھیل کی جدّت اور روح کو سمجھاکہ کس طرح اس کبڈی نے ہمیں اپنے ڈر اور غصے پر قابو پانا سکھایا۔ اس کھیل نے ہمیں عاجزی اور ڈسپلن سکھایا اور سکھایا کہ ایک ٹیم کی صورت میں نبردآزما ہونے پر کون سے اصول اختیار کرنے چاہئیں۔ اللہ تعالیٰ کے فضل سے یہ میچ ہم جیت گئے جس کی ہمیں بالکل توقع نہیں تھی۔ ہماری مخالف ٹیم نے اپنی اس ہار کو بہت سنجیدگی سے لیا۔ چنانچہ اگلے سال یہ میچ دوبارہ کھیلا گیا۔ لیکن چونکہ ہم نے اسے سنجیدہ نہ لیا چنانچہ کوئی خاص تیاری نہ کی۔ جب حضورؒ کو اس میچ کا علم ہوا تو آپؒ نے ہمیں مفید مشورے دیے۔ حضورؒ دونوں ٹیموں سے محبت رکھتے تھے اور یہ ملکہ بھی آپؒ میں ہی تھا کہ دونوں کو یکساں احساس محبت سے نوازتے تھے۔ آپؒ نے کبھی کسی کوترجیح نہیں دی بلکہ اس طرح خیال کرتے جس سے سب کو مزہ آئے۔ بہرحال وہ میچ ہم ہار تو گئے لیکن بالآخر جرمنی کی ایک بہترین کبڈی کی ٹیم تیار ہوگئی۔ اگلے ہی برس کینیڈا کی کبڈی ٹیم نے تیاری کرکے حضورؒ کی خدمت میںعرض کیا کہ وہ ہمارے ساتھ کھیلنا چاہتے ہیں۔ اجازت ملنے پر ہم نے بھی اپنی ٹیم کی بھرپور ٹریننگ شروع کر دی اور ٹیم کی تیاری میں حضورؒ نے بھی ازراہ شفقت راہنمائی فرمائی۔ 2000ء کے اجتماع میں جس میں حضورؒ نے شمولیت کی، یہ ٹیم کینیڈا سے آئی۔ میرے خیال کے مطابق یہ کبڈی کا سب سے بہترین ٹورنامنٹ تھا جو ہمیں جرمنی میں دیکھنے کو ملا۔ اس کا معیار بہت اعلیٰ تھا۔ اگرچہ ہمارے کھلاڑی بہت بہتر تھے لیکن مہمان ٹیم کے کھلاڑیوں کو دیکھ کر معلوم ہوتا تھا کہ انہوں نے انتہا درجہ کی ٹریننگ کی ہوئی تھی۔ ہمارے کھلاڑیوں کے پاس اچھی تکنیکی مہارت تھی لیکن وقت کے ساتھ ساتھ یہ سست ہوچکے تھے۔ انہوں نے صرف اپنی مہارت کو کافی سمجھا اور محنت پر زور نہیں دیا۔ یہ میچ اتنا سخت تھا کہ کینیڈین ٹیم بمشکل جیتی۔ ہمارے خدام کے لیے یہ بڑا سبق آموز میچ تھا کیونکہ کافی عرصے سے ان کو ایک اچھا مدّمقابل نہیں ملا تھا اس لیے ان کی چستیوں پر سستیاں غالب آگئی تھیں۔ یہ میچ حضورؒ کے دل کو بہت بھایا اور آپؒ بہت لطف اندوز ہوئے۔ آپؒ نے کبھی بھی سطحی خوشی کا اظہار نہیں کیا اور نہ اپنی باتوں میں کبھی ایسا ظاہر کیا بلکہ آپؒ کی ہر خوشی دلی خوشی ہوتی۔

حضورؒ جرمنی میں اس لیے بہت خوش رہتے کہ یہاں ایک ملٹی کلچرل ماحول تھا۔ ہمارے ہاں افریقن، عرب، بالقان ممالک اور دوسری بہت ساری مختلف اقوام سے تعلق رکھنے والے افراد تھے۔ جلسہ سالانہ انگلینڈ کے موقع پر بوسنین افراد شامل ہوتے تھے لیکن ان کے پروگرام بالکل علیحدہ ہوتے تھے۔ لیکن جرمنی کے جلسے میں وہ بالکل ہمارے ساتھ شامل ہوتے گویا کہ وہ ہمارے ساتھ کندھے سے کندھا ملا کر چل رہے تھے۔ ایک وقت تک ہم نے بھی جلسہ کے دوران ایسے پروگرام ترتیب دیے جو صرف غیراحمدی مہمانوں کے لیے مخصوص تھے۔ لیکن جب محسوس کیا کہ ان کو اپنے اندر سمونے کی ضرورت ہے تو یہ سلسلہ ختم کر دیا گیا۔
حضورؒ نے ہمیشہ فرمایا کہ جماعت احمدیہ جرمنی ایک فعال جماعت ہے جو مستقل بنیادوں پر ترقی کی منازل طے کر رہی ہے۔ خصوصاً مالی قربانی میں۔ جرمنی کی جماعت کو یہ اعزاز ملا کہ جب MTA شروع ہوا تو سالانہ 15 لاکھ مارک حضورؒ کی خدمت میں پیش کیے جاتے۔ حضورؒ نے ہماری اس قربانی کو بڑی قدر کی نگاہ سے دیکھا کیونکہ اس سے MTA کا نہایت اہم اور قابل قدر نظام اپنے پاؤں پر کھڑا کرنے میں بڑی مددملی۔ اسی طرح وقف جدید میں ہمیں تیسری یا چوتھی پوزیشن برقرار رکھنے کی توفیق بھی ملتی رہی۔
1989ء کا صد سالہ جوبلی کا سال بہت اہم سال تھا۔ اسی سال دیوارِ برلن گرائی گئی۔ اس خاص صورتحال کے متعلق حضورؒ ہمیں ہدایات سے نوازتے رہے۔ اسی عرصے میں حضورؒ نے مباہلے کا چیلنج بھی دیا ہوا تھا۔ حضورؒ کو اللہ تعالیٰ کی تائید و نصرت کا اس قدر یقین تھا کہ آپؒ نے اس کا بار ہا اظہار بھی فرمایا اور ہم نے بھی دیکھا کہ اللہ تعالیٰ نے کس طرح اپنی قہری تجلی دکھائی اور دشمن نیست و نابود ہو گیا۔ دیکھنے والی آنکھ کے لیے اَور کون سا نشان چاہیے کہ وہ ایمان لائے۔
حضورؒ نے جرمنی میں ریسرچ ٹیمیں بنانے کی طرف بھی توجہ دلائی۔ ہم اس وقت اس قابل نہیں تھے لیکن حضورؒکی براہ راست راہنمائی میں یہ کام بڑے اعلیٰ انداز میں شروع ہوگیا۔ حضورؒ نے ذاتی طور پر لوگوں سے رابطہ کیا، انہیں کام سمجھایا، اس کی اہمیت سے آگاہ کیا اور پھر ان کا حوصلہ بھی بڑھاتے رہے۔ چنانچہ بظاہر ناممکن کو بھی حضورؒ کی براہ راست راہنمائی نے ممکن بنا دیا۔ میں نے ہمیشہ محسوس کیا کہ حضورؒ ہم سے چند قدم آگے سوچتے تھے لیکن ہم اپنی کمزوریوں کی وجہ سے آپؒ کی مکمل پیروی نہیں کرسکتے تھے۔
اسی طرح 100 مساجد کی تعمیر کا منصوبہ ہے جس کی حضورؒ نے 1989ء میں تحریک کی۔ اس وقت ہمارے پاس کوئی انجینئر یا نقشہ نویس یا تعمیراتی کاموں کا تجربہ رکھنے والے دوست موجود نہیں تھے اور دس سال تک ہم صحیح معنوں میں اس منصوبے کا حق ہی ادا نہیں کرسکے۔ اسی طرح اخبارات اور میڈیا میں بھی جماعت کی اتنی پہنچ نہیں تھی۔ یہ وہ دَور تھا جب ہم اس معیار تک نہیں پہنچ سکے تھے جہاں حضورؒ ہمیں دیکھنا چاہتے تھے۔ اس وقت ہمیں اس کی اہمیت کا اندازہ ہی نہیں تھا۔ لیکن اب اس منصوبے کے ثمرات کھل کر ہمارے سامنے آرہے ہیں۔ گو کہ ہمیں آج بھی مشکلات کا سامنا ہے لیکن آج ہم اس مقام پر پہنچ گئے ہیں کہ ہم خود بھی مساجد تعمیر کرسکتے ہیں اور مختلف کمپنیوں سے بھی بنواسکتے ہیں۔ یہ احساس بہرحال ہوتا ہے کہ اگر ہم نے حضورؒ کی ہدایات پر اُس وقت عمل کیا ہوتا تو ہم یقیناً آج بہت آگے ہوتے۔ اللہ تعالیٰ کے فضل سے آج جرمنی میں اس منصوبے پر عملدرآمد کے لیے ایک فعال تنظیم قائم ہے۔ لیکن شاید ہم حضورؒ کی ہدایات کو اچھی طرح سمجھ نہیں سکے یا پھر اپنی صورتحال سے حضورؒ کو اچھی طرح آگاہ ہی نہیں کرسکے۔ مثلاً حضورؒ ہمیں فرما رہے تھے کہ سادہ مساجد بناؤ۔ لیکن جب مساجد بنانے کا وقت آیا تو کوئی بھی جماعت اس کے لیے تیار نہ تھی اور آج بھی نہیں ہے۔ ابھی کچھ عرصہ قبل مَیں نے ایک چھوٹی جماعت کا دورہ کیا جن کی تعداد ساٹھ کے قریب تھی۔ انہیں میں نے کہا کہ حضورؒ کی ہدایت کے مطابق ہم ایک چھوٹی مسجد بنانے کے لیے تیار ہیں۔ لیکن مقامی جماعت والے فوراً بول اٹھے کہ یہ تو جلد ہی چھوٹی پڑ جائے گی۔
حضورؒ کو اللہ تعالیٰ نے یہ صفت بھی ودیعت کی تھی کہ وہ لوگوں سے ذاتی رابطے کے ذریعے اُن کے دل جیت لیا کرتے تھے اور اس میں کوئی نسلی یا قومی حدود حائل نہیں تھیں۔ اس صفت سے ہر قوم کے لوگوں نے فیض پایا۔ ہمارے لیے حضورؒ صرف ایک پاکستانی نہیں تھے بلکہ ایک عالمی شخصیت کے حامل انسان تھے۔ ایک ایسا انسان جو رنگ و نسل کے امتیاز سے بالا تھا۔ باوجود اس کے کہ حضورؒ پاکستان سے جذبہ حبّ الوطنی کے تحت بہت پیار کرتے تھے۔ لیکن نہیں کہہ سکتے کہ باقی ممالک سے وہ کم پیار کرتے تھے۔ ان کا پیار سب سے یکساں تھا۔ ہم سب نے حضورؒ کو ایک ایسا انسان پایا جو انسانوں میں بلند مرتبہ اور انسانیت کے اعلیٰ مقام پر فائز تھا۔ ہر شخص جو حضورؒ سے ایک بار ملتا وہ یہی سمجھتا تھا کہ حضورؒ اس سے سب سے زیادہ پیار کرتے ہیں۔ اس سے ظاہر ہوتا ہے کہ آپؒ کی شخصیت کس قدر مسحور کن اور قابل جذب تھی کہ ہر کسی کو اس طرح اپنی طرف متوجہ کرلیتی تھی جو انسانی سوچ سے بہرحال بالا تھی۔ مثلاً بوسنین ابراہیم بھائی یا موسیٰ جو کہ اب Kosovo کے صدر جماعت ہیں یا ہمارے افریقن بھائی، سب نے حضورؒ سے محبت کارشتہ قائم کیا اور پھر اس محبت کے اسیر ہو کر رہ گئے۔ حضورؒ ان کی فیملیوں کو بھی جانتے تھے اور ان کی ترقی بھی حضورؒ نے دیکھی۔ اسی طرح میری شادی بھی حضورؒ کی خاص توجہ سے ہوئی۔ آپؒ نے ذاتی دلچسپی سے تمام معاملات کو طے کروایا اور خصوصی شفقت کا سلوک فرمایا۔ دوسری طرف ہم یہ بھی دیکھتے ہیں کہ جماعت اب بڑھ رہی ہے اور اب خلیفہ وقت کی مصروفیات کی وجہ سے اُن سے ملاقات کے مواقع بھی کم ہورہے ہیں۔

پھر ہم نے دیکھا کہ حضورؒ کی صحت آہستہ آہستہ کمزور ہونا شروع ہوئی اور حضورؒ کے معمولات بھی تبدیل ہوئے۔ یہ ایک عام فہم سی بات ہے کہ 50 سال کی عمر میں انسان 70 سال کی عمر کی نسبت زیادہ تندہی اور چستی کے ساتھ اپنے کاموں کو سرانجام دے سکتا ہے۔ اس لحاظ سے ہماری بھی ذمہ داری تھی کہ حضورؒ کی صحت کا خیال رکھیں۔ حضورؒ کی بیماری میں جب کبھی حضورؒ نماز پر تشریف نہ لاسکتے تھے تو لوگ بڑے درد کے ساتھ حضورؒ کی صحت یابی کے لیے دعائیں کیا کرتے تھے۔ اس سے مجھے حضرت خلیفۃ المسیح الثالثؒ کا دَور یاد آگیا کہ جب آپؒ دانت کے درد کی وجہ سے علیل تھے اور احباب جماعت نماز کے لیے تقریباً گھنٹہ بھر آپؒ کی تشریف آوری کا انتظار کیا کرتے تھے لیکن آخر میں کوئی دوسرے بزرگ نماز پڑھا دیا کرتے تھے۔ اس دَور میں یہ اتنا زیادہ محسوس نہیں ہوتا تھا بہ نسبت آج کے دَور کے۔ کیونکہ آج ہمیں ٹیلی فون، انٹرنیٹ اور پھر MTA کے ذریعے Live خطبے سننے کی عادت پڑ چکی ہے اور حضورؒ کی تھوڑی سی غیرحاضری بھی بہت زیادہ محسوس ہوتی ہے۔
ٹائم میگزین نے اپنے ایک شمارے میں حضورؒ کے ایک دن کے معمولات شائع کیے جس میں بتایا کہ کس قدر مصروفیت کے ساتھ حضورؒ اپنی زندگی گزار رہے ہیں۔ صبح تین بجے حضورؒ نماز تہجد سے دن کا آغاز فرماتے تھے۔ اس کے بعد تلاوت قرآن کریم پھر فجر پھر سیر، پھر دوسری دفتری اور نجی مصروفیات جو کہ رات تک جاری رہتی تھیں۔ اس وقت ہمیں احساس ہوا کہ خلیفۃالمسیح کی زندگی کتنی مصروف ہے اور ایسا مسلسل کام ہے جو کہ الٰہی تائید و نصرت کے بغیر ممکن ہی نہیں۔ پھر حضورؒ اپنے کاموں کو احسن انداز میں سرانجام دینے اور جماعتی ترقی کے لیے سوچنے کی غرض سے اکیلے بھی سیر کیا کرتے تھے۔
جب حضورؒ نے ہدایت فرمائی کہ جماعت کا اپنا ریڈیو اسٹیشن ہونا چاہیے تاکہ زیادہ سے زیادہ لوگوں تک پیغام حق پہنچایا جاسکے توجماعت نے اس طرف کوششیں شروع کیں لیکن پھر توجہ TV کی طرف ہوگئی۔ جرمنی سے بھی کئی لوگ اپنے جذبات اور خیالات سے حضورؒ کو آگاہ کرتے رہے۔ پہلے ہم حضورؒ کے خطبات سے بذریعہ آڈیو یا ویڈیو کیسٹ ہی مستفیض ہو رہے تھے جو کہ ایک ہفتہ کی تاخیر سے ہمیں موصول ہوتی تھیں لیکن جب ہم نے حضورؒ کا پہلا Live خطبہ بذریعہ MTA سنا تو اس وقت ہمیں اس بات کا احساس ہوا کہ حضورؒ ہمیں کہاں لانا چاہتے تھے۔ کیونکہ تب تو دنیا ہی بدل چکی تھی اور جماعت ایک نئے دَور میں داخل ہوگئی تھی۔ پھر حضورؒ نے تکنیکی اور فنی کاموں اور MTA کے پروگراموں کی تیاری کی خود ہدایات دیں۔ حضورؒ کی ہدایات کے تابع مکرم مبشر باجوہ صاحب نے ٹیمیں تیار کیں۔ وہ ذاتی طور پر اس فیلڈ سے بالکل نابلد تھے لیکن حضورؒ کی ہدایات سے وہ دیوانہ وار کام میں لگ گئے اور نوجوانوں کو آگے لانے میں کامیاب ہوئے جن میں سے کئی تکنیکی مہارت بھی رکھتے تھے۔ ان میں ایسے نوجوان بھی تھے جو کہ پہلے جماعت سے کچھ دُور تھے لیکن حضورؒ کی ہدایات اور برکت سے وہ پھر جماعت میں پروئے گئے اور اس حیرت انگیز تبدیلی کی ان کے والدین کو بھی سمجھ نہیں آئی۔ پھر ہم نے اسٹوڈیوز تیار کیے اور ہم ایک نئے دَور میں داخل ہو گئے۔ پھر جب حضورؒ نے جرمنی کا دورہ فرمایا تو اس سے اسٹوڈیوز کو ایک نئی زندگی عطا ہوئی۔ حضورؒ نے چھوٹی سے چھوٹی معلومات مثلاً سپیکر یا لائٹ وغیرہ تک کاتفصیلی معائنہ فرمایا اور ہدایات دیں اور ہم ان ہدایات کے تابع ترقی کرتے گئے۔ بعض دوستوں نے غیرمعمولی محنت اور لگن سے کام کیا۔ ہمیں سامان بھی بہت مناسب قیمت پر مل گیا تھا اور یہ سب کچھ اللہ تعالیٰ کے خاص فضل کے بغیر ممکن نہیں تھا اور اللہ تعالیٰ کے یہ فضل حضورؒ کی دعاؤں اور توجہ کے طفیل ہمیں عطا ہوئے۔
ایک دفعہ میں لندن گیا ہوا تھا تو اس وقت مجھے یہ اعزاز ملا کہ حضورؒ کے ساتھ بعض نشستوں میں شامل ہوسکوں جو MTA کے لیے ریکارڈ ہورہی تھیں۔ تب مجھے احساس ہوا کہ حضورؒ کس توجہ اور تندہی کے ساتھ MTA کی ترقی کے لیے کاموں کو آگے بڑھا رہے ہیں۔ اسی غرض سے حضورؒ نے بچوں کے ساتھ کلاس کا آغاز فرمایا۔ گو کہ شروع میں بعض دوستوں کو اس حکمت کی سمجھ نہیں آئی لیکن بعد میں احساس ہوا کہ حضورؒ کا یہ قدم کتنا اہم اور دُور رس نتائج کا حامل تھا۔ حضورؒ نے کلاسز کے ذریعہ نہ صرف بچوں کی تربیت کی بلکہ بچوں سے حسن سلوک کرنے کی طرف بھی توجہ دلائی۔ حضورؒ نے مختلف پروگراموں کے ذریعہ احباب جماعت کی ہر پہلو سے تربیت کی۔ حضورؒ بلاتکلّف تمام امور کو نہایت دلچسپی کے ساتھ سرانجام دیتے رہے۔

حضرت مرزا طاہر احمد صاحب رحمہ اللہ تعالیٰ
حضرت مرزا طاہر احمد صاحب رحمہ اللہ تعالیٰ

حضورؒ نے جماعت کو نظام شوریٰ کی اہمیت سے بھی آگاہ کیا۔ حضورؒ نے اپنے ایک دورۂ جرمنی کے دوران یہاں شوریٰ کا نظام جاری کیا۔ حضورؒ ذاتی طور پر خود اس میں شامل ہوتے تاکہ تمام احباب کو سکھاسکیں۔ اس وقت یہ مجلس شوریٰ مسجد نور فرینکفرٹ کے ایک چھوٹے سے کمرے میں ہوا کرتی تھی۔ نمائندگان کی تجاویز پر حضورؒ بڑی تفصیل کے ساتھ اُن کی راہنمائی فرماتے اور ہدایات دیتے۔ پھر سپین میں بھی انٹرنیشنل شوریٰ منعقد ہوئی۔ مجھے بہت جلد نظام شوریٰ کی سمجھ آگئی اور مَیں نے مختلف معاملات پر شوریٰ میں بولنے کی اجازت طلب کی اور حضورؒ سے اجازت ملنے پر میں نے اپنا نقطہ نظر بیان کیا تو حضورؒ نے میری تجاویز کو نہ صرف پسند کیا بلکہ تعریفی کلمات بھی کہے کہ امیر صاحب جرمنی ہمیشہ بڑی گہرائی سے معاملات پر روشنی ڈالتے ہیں۔ اس انٹرنیشنل شوریٰ کا ماحول بڑا مسحورکُن تھا اور حضورؒ کا انداز بھی بہت اعلیٰ، پُراثر اور ناقابل بیان تھا۔ حضورؒ تجویز سنتے اور پھر اس پر ہدایات سے نوازتے۔
اور ایک خاص حیرت انگیز بات جو مَیں بیان کرنا چاہتا ہوں وہ یہ ہے کہ بعض اوقات حضورؒ نے مجھے خواب میں بھی ہدایات دیں اور وہ ایسی پختہ اور میری ذات کے لیے اہم تھیں کہ مَیں نے کسی سے بھی ان کا ذکر نہیں کیا۔ ان میں سے بعض میرے ذاتی مسائل سے متعلق تھیں۔
حضورؒ کی بیماری کے ایّام میں ہم حضورؒ کو پہلے کی طرح MTA پر نہیں دیکھ سکتے تھے۔ حضورؒ کی طبیعت کے بارے میں بذریعہ فون علم ہوتا اور دعا کی طرف توجہ رہتی۔ حضورؒ کی ہمیشہ خواہش رہی کہ آپؒ کی وجہ سے جماعت پر کسی بھی قسم کا کوئی حَرف نہ آئے اور نہ ہی حضورؒ جماعت پر بوجھ بنیں۔ یہ صورتحال ان تمام احباب کے لیے تو یقیناً بہت کرب کا موجب تھی جنہیں علم تھا کہ ایک ایسا شخص جو ساری زندگی ان سے ماں سے بھی زیادہ پیار کرتا رہا ہو، اپنی بیماری کے دَور میں کسی پر بوجھ نہ بننا چاہتا ہو۔ اس لیے احباب جماعت نے بڑے ہی درد کے ساتھ حضورؒ کی صحت یابی کے لیے دعائیں کیں اور حضورؒ کی بیماری کے ایام میں ہر کوئی ہمہ وقت حضورؒ کے صحت کے بارے میں نئی خبر کی آمد کا منتظر رہتا تھا۔ جب رضائے الٰہی کے مطابق حضورؒ کی وفات ہوئی تو یہ ناگہانی خبر سن کر میں لندن پہنچا۔ مجھے حضورؒ کے سونے والے کمرے میں لے جایا گیاجہاں حضورؒ اپنے بستر پر لیٹے تھے اور یوں لگ رہا تھا کہ جیسے مَیں ملاقات کی غرض سے حاضر ہوا ہوں اور حضورؒ سوئے ہوئے ہیں۔ ہم سب جانتے ہیں اللہ تعالیٰ کے کتنے فضل و احسان جماعت پر اور خلیفۃ المسیح پر ہر وقت نازل ہوتے ہیں۔ آپؒ کی وفات کے وقت بھی اللہ تعالیٰ نے آپؒ پر اپنے فضلوں کا سلسلہ جاری رکھا۔ چنانچہ ڈاکٹری اعتبار سے آپؒ کی وفات ایسے طریق سے ہوئی کہ کوئی درد آپؒ کو نہیں ہوا۔ ہمیں معلوم ہے کہ حضورؒ ایک باخدا انسان تھے۔ اللہ تعالیٰ ان سے بولتا تھا اور ہم سب حضورؒ کو دعا کے لیے کہا کرتے تھے اور حضورؒ کی دعائیں قبول ہوتی تھیں۔ ہم حضورؒ سے ہر قسم کے سوالات پوچھاکرتے تھے اور حضورؒ ہمیں ہمیشہ تسلی بخش جوابات دیا کرتے تھے۔
ملاقات کے دوران ہر فیملی حضورؒ سے ایک دلی تعلق محسوس کرتی تھی۔ لوگ حضورؒ سے اپنے بچوں کے نام رکھوایا کرتے تھے اور محسوس ہوتا تھا کہ حضورؒ جرمنی میں پیدا ہونے والے ان تمام بچوں کو جانتے ہیں۔ حضورؒ کا حافظہ بلا کا تھا۔ پھر جب حضورؒ نے وقف نو کی تحریک کی تو والدین نے اپنے ہونے والے بچوں کو اس تحریک میں پیش کردیا اور تھوڑے ہی عرصہ میں ان واقفین نو بچوں کی تعداد ایک ہزار سے تجاوز کرگئی۔ آج قریباً 3600 بچے جرمنی میں اس بابرکت تحریک میں شامل ہیں۔ یہ انتظامیہ کی کارگزاری نہیں تھی بلکہ حضورؒ کی ذاتی توجہ اور ہر فیملی کے ساتھ حضورؒ کا ایک خاص تعلق تھا جس کے نتیجہ میں یہ ممکن ہوا۔ ملاقاتوں کے دوران حضورؒ احباب کا دل جیت لیا کرتے تھے اور یہ تربیت کا بہترین ذریعہ تھیں۔ اسی طرح حضورؒ سے مصافحہ بھی اپنے اندر ایک جذب کی طاقت رکھتا تھا اور لوگ کھچے چلے آتے تھے۔ باوجود جماعت بہت بڑھ جانے کے حضورؒ ہر فردِ جماعت سے ذاتی تعلق رکھتے تھے اور ہمیں شروع میں اُس دَور کے لیے تیار کر رہے تھے جب جماعت نے جلد جلد بڑھنا ہے اور فوج در فوج لوگوں نے جماعت میں داخل ہونا ہے اور وہ دَور پھر ہم سب نے دیکھا۔

اسی طرح حضورؒ ہمیں ان پیش گوئیوں اور پیش خبریوں سے آگاہ کرتے رہے جو کہ پہلے خلفاء نے جماعت جرمنی کے متعلق فرمائی تھیں۔ حضورؒ کو علم تھا کہ جرمنی میں کچھ ہونے والا ہے اور حضورؒ ہمیں اس سلسلے میں ہماری ذمہ داریوں سے آگاہ بھی فرماتے رہے۔ چنانچہ حضورؒ کی ہدایات کے نتیجے میں جماعت احمدیہ جرمنی نے جو ترقی کی ہے وہ دیگر بڑی جماعتوں مثلاً یوکے، کینیڈا یا امریکہ کسی سے بھی کم نہیں ہے۔
ہم سب اس بات کے گواہ ہیں کہ خلفائےکرام کی تمام پیشگوئیاں اپنے وقت پر پوری ہورہی ہیں۔ سیّدنا حضرت خلیفۃ المسیح الخامس ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز اپنے خطابات اور خطبات میں بار بار اس بات کا اظہار فرما چکے ہیں کہ اس خلافت خامسہ کے دَور میں بہت بڑی عالمی تبدیلیاں رونما ہونی ہیں۔ ان شاء اللہ۔ آج جماعت کافی مضبوط ہوچکی ہے اور ہمارے پاس ایسے لوگ بھی موجود ہیں جو کہ حضور کے ارشادات کی روشنی میں کاموں کو احسن انداز میں آگے بڑھاسکتے ہیں۔ ہم اب ان شاء اللہ 100 مساجد منصوبہ کی تکمیل کے بہت قریب پہنچ گئے ہیں۔ جب ہم یہ مساجد تعمیر کرلیں گے اور پھر ان کو عبادات سے روشن کریں گے اور ان میں زندگی بھردیں گے تو پھر اس حرارت اور روشنی سے احمدیت کا نُور پورے ملک میں پھیل جائے گا۔ ان شاء اللہ

50% LikesVS
50% Dislikes

اپنا تبصرہ بھیجیں