حضرت خلیفۃالمسیح الرابع ؓ کی حسین یادیں

رسالہ ’’نورالدین‘‘ جرمنی کے ’’سیدنا طاہرؒ نمبر‘‘ میں مکرم لئیق احمد منیر صاحب بیان کرتے ہیں کہ حضرت خلیفۃ المسیح الرابع ؒسے میری ملاقاتیں تو خلافت سے پہلے بھی ہوتی رہی ہیں۔ جلسہ سالانہ پر لنگرخانہ 2پرناظم دیگ پکوائی کی ڈیوٹی بھی دی۔ حضورؒ اُس وقت ناظم لنگر خانہ تھے۔ 1977ء میں ہی میری تقرری جرمنی کے لئے ہوئی تو جرمن سفارتخانہ نے لکھا کہ اپنا پاسپورٹ، ہیلتھ سرٹیفیکیٹ اور NOC لاؤ اور ویزا لے جاؤ۔ لیکن پولیس نے NOC میں احمدی کا لفظ کاٹ کر غیرمسلم لکھ دیا۔ مَیں نے کہا بھی کہ غیرمسلم کوئی مذہب نہیں ہے لیکن کسی نے بات نہ سنی۔ حضرت خلیفہ المسیح الثالثؒ کی خدمت میں یہ معاملہ پیش کیا۔ آپؒ نے فرمایا کہ غیر مسلم کے طور پر ہمارا کوئی بھی معلم باہر نہیں جائے گا۔ حضور ؒ نے یہ معاملہ حل کرنے کے لئے حضرت مرزا طاہر احمد صاحبؒ کو مقرر فرمایا۔ چنانچہ آپؒ نے اس سلسلے میں بہت کام کیا اور کئی افسران بلکہ لاہور کے ہوم سیکرٹری سے بھی ملاقات کی مگر کوئی افسر بھی اس کام کو کرنے کے لئے تیار نہ ہوتا تھا۔ آخر میں نے ارادہ کر لیا کہ سفارتخانے میں NOC نہیں دکھاؤں گا۔ خدا کا کرنا ایسا ہوا کہ انہوں نے صرف میرا پاسپورٹ اور ہیلتھ سرٹیفیکیٹ لیا اور مجھے چھ ماہ کا ویزا دے دیا۔ یہ صرف خدا کا فضل اور دو خلفاء کی دعائیں تھیں کہ افسران نے NOCکا پوچھا تک نہیں۔
1980ء میں حضرت مرزا طاہر احمد صاحبؒ ہمبرگ (جرمنی) تشریف لائے۔ میں وہاں مربی تھا چنانچہ آپ کو ہمبرگ کی سیر کروانے کا موقع ملا۔ اس وقت ہمیں حضورؒ کی دو باتوں کا علم ہوا کہ ایک تو یہ کہ حضورؒ بہت تیز چلتے ہیں اور دوسرا یہ کہ دو دنوں کا کام ایک دن میں ختم کر لیتے ہیں۔ اس دوران میرے اصرار کے باوجود مجھے ہی نماز پڑھانے کے لئے کہا۔ بعد میں مَیں نے حضورؒ کی ہمبرگ میں تصاویر آپؒ کو بھجوائیں تو آپؒ نے فرمایا کہ اس سیر کے دوران جتنے گروپ ممبران تھے ان سب کے نام مجھے بھجوائیں۔ قریباً دو ہفتے کے بعد حضورؒکا ایک اَور خط آ گیا کہ میں نے آپ سے درخواست کی تھی کہ گروپس کے نام مجھے بھجوائیں۔ مجھے بہت شرمندگی ہوئی۔ میں نے نام بھجوا دیئے۔ بعد میں جب خلافت کے بعد حضورؒ پھر جرمنی تشریف لائے تو ان سب کو حضورؒ نے خاص طور پر یاد رکھا ہوا تھا۔ اور ان کے نام بھی حضورؒ کو یاد تھے۔ آپؒ نے ان کارکنان کے ساتھ بہت ہی پیار اور شفقت کا سلوک فرمایا۔
ہمبرگ میں حضورؒ جب خلافت کے بعد پہلی مرتبہ تشریف لائے تو اس وقت خطبہ جمعہ میں ہمبرگ جماعت کی بہت زیادہ تعریف کی اور فرمایا کہ ہمبرگ کی جماعت نے میری اس قدر خدمت کی ہے کہ خدا کرے میری ساری دعائیں آپ کو لگ جائیں۔ حالانکہ ہم کوئی خاص خدمت نہیں کرسکے تھے۔ جرمنی کی جماعت کے ساتھ حضورؒ کاخاص تعلق تب پیدا ہوا جب حضورؒ نے دعوتِ اللہ کی تحریک فرمائی۔ چھوٹے بڑے، ان پڑھ پڑھے لکھے غرض سب اپنے اپنے دائرے میں تبلیغ کرنے لگے۔ تب حضورؒ نے بارہا محبت سے جماعت جرمنی کا ذکر فرمایا۔
انتظامات کے سلسلے میں حضورؒ بڑی نظر رکھتے تھے۔ ہمبر گ میں ہم نے خواتین کے لئے ایک خیمہ لگایا ہو ا تھا۔ زمین گیلی تھی اس لئے اوپر ہم نے خشک گھاس بچھا کر صفیں بچھا دیں تاکہ نماز پڑھی جاسکے۔ لیکن کسی خا تون نے شکایت کردی کہ خیمہ میں لکڑی کا فرش نہیں لگایا ہوا۔ حضورؒ نے مجھے لجنہ کے سامنے ڈانٹا کہ آپ نے یہ کام کیوں نہیں کیا۔ میں یہ سمجھتا ہوں کہ حضورؒ کی اس قسم کی ڈانٹیں نہیں ہوتی تھیں بلکہ ہماری راہنمائی ہوتی تھی۔ جلد ہی کسی بات سے پتہ چل جاتا کہ حضورؒ کے دل میں غصہ نہیں ہے۔ یہ میں نے خاص طور پر دیکھا ہے کہ خلیفۂ وقت کا اللہ تعالیٰ کے ساتھ اس طرح کا تعلق اور واسطہ ہو تا تھا کہ ہر ایک واقعہ کا آپ کو علم ہوجاتا ہے اورزیادہ وضاحتیں یا لمبی تقریریں کرنے کی ضرورت بھی نہیں ہوتی اور ویسے بھی یہ گستاخی ہوتی ہے کہ آدمی اپنی وضاحتیں لے کر بیٹھ جائے۔ خلیفہ وقت جو ارشاد فرماتے ہیں خاموشی سے سننا چاہئے اور اپنی غلطی پر استغفار ہی کرنا چاہئے، اپنے حقوق کو لے کر نہیں بیٹھنا چاہئے۔
جرمنی میں اُس وقت دو مراکز ہوا کرتے تھے، ایک فرینکفرٹ کی مسجد اور ایک ہمبرگ کی مسجد۔ اور اُس وقت ہمارا تصور بھی نہیں تھا کہ اتنے بڑے بڑے مراکز جماعت خرید لے گی اور خلیفۃالمسیح الرابع ؒ کی خاص توجہ جرمنی پر اس لحاظ سے بھی تھی کہ انہیں جرمنی کا مستقبل نظر آرہا تھا۔ چنانچہ حضورؒ نے بڑے بڑے مراکز خریدنے کی اجازت دی۔ کولون کا جو مرکزخریدا گیا وہ بہت بڑ ا تھا۔ جب نا صر باغ خرید اتو حیرت ہوئی کہ اتنے بڑے بڑے مراکز۔ پھر حضورؒ نے جرمنی جماعت کو سو مساجد کی تعمیر کا جو تحفہ دیا ہے اس کے نتیجے میں پورے جرمنی میں جگہ جگہ مسجدیں بنانے کا ولولہ پیدا ہو چکا ہے۔
یہاں چند جرمن احمدی ہوئے تھے۔ ان کی تربیت کی ذمہ داری میری تھی۔ ہر ہفتہ میں ان کے پاس بھی جاتا تھا۔ وہ لوگ لاہوریوں کے کچھ زیادہ زیراثر آگئے تھے۔ پہلے پہل بڑا اخلاص اور جذبہ ان کے اندر تھا۔ لیکن آہستہ آہستہ پھر انہوں نے خلافت پر باتیں کرنی شروع کردیں۔ یہ با تیں حضر ت خلیفۃ المسیح الرابع رحمہ اللہ کے علم میں بھی آئیں۔ حضور ؒ ایک د فعہ تشر یف لائے تو مجھ سے اُن کا مسئلہ پوچھا۔ میں نے کہا کہ وہ کہتے ہیں کہ خلیفہ وقت بھی غلطیاں کرسکتے ہیں۔ حضورؒ نے پوچھا کہ پھر آپ نے ان کو کیا کہا؟ میں نے کہا کہ یہ تو انسانی کمزوریاں ہیں ہر انسان کر سکتا ہے۔ حضورؒ نے فرمایا کہ ان لوگوں کا اصل مسئلہ لاہوریوں والا ہی ہے کہ چندے کے پیسے ہمیں دئیے جائیں، اموال ہمارے قبضے میں دیئے جائیں اور اس کے علاوہ ان کا کوئی مسئلہ نہیں۔ حضورؒ کی بات سو فیصد درست تھی ان لوگوں کے بعد میں یہی خاص تقاضے تھے کہ جو سہولتیں امیر صاحب کو ہیں، جو گھر جماعت ان کو دیتی ہے ہمیں بھی دے یعنی وہ جماعت میں قربانی کر نے نہیں آئے تھے بلکہ سمجھ رہے تھے کہ اب جماعت ہمیں تنخواہیں دینی شروع کردے گی کیونکہ ہم احمدی ہیں۔ حضور ؒنے پھر یہی کہا کہ ان لوگوں کو ان کے حال پر چھوڑ دیں۔ بعد میں پھر انہوں نے جماعت کو چھوڑ دیا۔

50% LikesVS
50% Dislikes

اپنا تبصرہ بھیجیں