حضرت خلیفۃالمسیح الرابع: انٹر ویو مکرم خلیفہ فلاح الدین صاحب

محبتوں اور شفقتوں کا بحر زخّار

(انٹر ویو مکرم خلیفہ فلاح الدین احمد صاحب: از طارق احمد چوہدری +محمود احمد ملک)
(مطبوعہ رسالہ طارق لندن، سیدنا طاہر نمبر )

مکرم خلیفہ فلاح الدین صاحب (ابن مکرم خلیفہ صلاح الدین صاحب) کے دادا حضرت ڈاکٹر رشید الدین صاحبؓ چونکہ حضرت مصلح موعودؓ کی حرم محترم حضرت ام ناصرؓ کے والد تھے اس حوالہ سے حضرت خلیفۃالمسیح الرابع ؒ سے بھی آپ کی قرابت داری تھی۔ مجلس خدام الاحمدیہ کے رسالہ ’’طارق‘‘ کے لیے انٹر ویو دیتے ہوئے مکرم خلیفہ فلاح الدین احمد صاحب نے بتایا کہ:

خلیفہ فلاح الدین احمد صاحب

میں حضور ؒ کو1947ء سے جانتا ہوں جب میرے والد قادیان میں حفاظت مرکز کے لیے مقیم تھے اور ان کی ڈیوٹی حضرت مرزا شریف احمد صاحب ؒ کے ساتھ لگائی گئی تھی۔ ایک بار جب چند لوگوں کے ساتھ آپ کو قادیان کے قریبی گاؤں میں مقیم مسلمانوں کی حفاظت کے لیے بھجوایا گیا اور یہ ٹیم واپس آئی تو میرے والد ان میں شامل نہیں تھے۔ میری عمر اس وقت 7سال تھی۔ لوگوں کا خیال تھا کہ میرے والد کو شہید کر دیا گیا ہے۔ یہ اطلاع جب حضرت مصلح موعودؓ کو دی گئی جو ان دنوں لاہور میں مقیم تھے تو حضورؓ نے ہمیں بلایا اور بہت شفقت کا سلوک فرمایا لیکن ہمارے والد صاحب کے بارے میں کوئی بات نہ کی۔
اسی وقت میرا صاحبزادہ مرزا طاہر احمد صاحب سے پہلا تعارف ہواجن کی عمر قریباً اٹھارہ سال تھی۔ بہر حال تین دن کے بعد قادیان سے اطلاع آ گئی کہ میرے والد کرفیو کی وجہ سے گاؤں سے واپس نکل نہیں سکے تھے اور کرفیو ختم ہونے کے بعد وہ واپس آگئے ہیں۔ تب حضور ؓ نے ہمیں دوبارہ بلایا اور فرمایا کہ تین دن پہلے یہ اطلاع آئی تھی لیکن چونکہ لاش کسی نے نہیں دیکھی تھی اس لیے اس اطلاع کی تصدیق نہیں ہو سکی تھی اور اسی لیے ہمٰیں بتا یا نہیں گیا تھا لیکن اب چونکہ میرے والد صاحب واپس قادیان آ چکے تھے اس لیے ہمیں بتا یا گیا کہ سب خیریت ہے۔
1951ء میں ہم لاہور سے ربوہ منتقل ہو گئے جہاں ہمارے والد صاحب نے ایک مکان تعمیر کر لیا۔ اس کے بعد میری حضرت مرزا طاہر احمد ؒ سے اکثر ملاقات رہنے لگی۔ ہم ایک دوسرے کے گھر بھی آتے جاتے ، دریا اور جھیلوں پر شکار کے لیے بھی اکٹھے جاتے۔ کئی بار میں نے حضور ؒ سے کار بندوق اور کیمرہ وغیرہ عاریتہً لیا۔ آپ نے کبھی بھی انکار نہیں کیا۔ بہت ہی شفیق انسان تھے۔
جب حضرت مرزا طاہر احمد صاحبؒ خدام الاحمدیہ مرکزیہ میں مہتمم مقامی ربوہ بنے تو اس وقت میں اپنے محلہ کا زعیم تھا۔ اس وقت بھی مجھے ربوہ میں آپ کے ساتھ کام کرنے کا بہت موقع ملا۔ اس دوران جب سیلاب آیا تو آپ نے ایک گروپ بنا کر سیلاب کے علاقے میں بھیجا تو میں اس کا انچارج تھا۔ پھر جب 1965ء میں خلافتِ ثالثہ کا انتخاب ہو ا تو اس وقت میں نائب قائد ضلع لاہور تھا۔ اس وقت بھی مجھے آپ کے ساتھ کام کرنے کا موقع ملا۔ حضوربہت شفیق اور بہت اعلیٰ منتظم تھے۔ بعدازاں آپ ؒ نے بحیثیت صدر بھی خدام الاحمدیہ کو بہت چست بنا دیا۔ اس وقت کا زمانہ خدام الاحمدیہ کا Golden Era تھا۔ جہاں بھی وقارعمل کی ضرورت ہوتی تھی آپ کی ٹیم تیار ہو تی تھی۔ ربوہ میں حفاظت مرکز کے لیے بھی خاص طور پر بہت کام کیا۔ حفاظت کے لیے آپ نے جو سکیمیں بنائی تھیں ان میں سے ایک کا ذکر کرتا ہوں۔ ربوہ کے اندر سے جو بڑی سڑک گزرتی ہے رات کو جب اس پر سے ٹرک گزرتے تھے تو حکم یہ تھا کہ دس آدمی سڑک کے ایک طرف اور دس دوسری طرف بندوقیں پکڑ کر چکر لگاتے رہیں۔ جب ٹرک کی روشنی آدمیوں پر پڑتی تھی تو وہ یہی سمجھتے تھے کہ مسلح آدمیوں نے پور ے ربوہ کو گھیر ے میں لے رکھا ہے۔
1982ء میں جب حضرت خلیفۃالمسیح الثالثؒ کی وفات کی اطلاع ملی تو حضور ؒ کے جنازہ کے لیے محترم صاحبزادہ مرزا منور احمد صاحب (جو اُن دنوں لندن میں میرے پاس ٹھہرے ہوئے تھے)، حضرت چوہدری محمد ظفر اللہ خان صاحب ؓ اور میرے علاوہ بعض اَور لوگ بھی ایک ہی جہاز میں پاکستان گئے تھے۔ جب ہم ربوہ پہنچے تو میرے بھائی صباح الدین احمد صاحب کی بھی وہاں ڈیوٹی لگی ہوئی تھی۔ وہ مجھے اندر لے گئے اور میں حضرت خلیفۃالمسیح الثالثؒ کے جسد اطہر کے پاس دو گھنٹے بیٹھا رہا۔ اس دوران حضرت مرزا طاہر احمد صاحب ؒ نے تین چار چکر انتظامات دیکھنے کے لیے وہاں کے لگائے۔ وہیں میری حضورؒ سے ملاقات ہوئی۔ یہ انتخاب خلافت سے پہلے کی بات ہے۔ مجھے یاد ہے کہ خلیفہ بننے کے بعد دوسرے دن ہی حضورؒ نے اپنی سائیکل پکڑی اور اپنی زمینوں پر چلے گئے جو احمد نگر میں ہیں جو کہ ربوہ سے ساڑھے تین میل کے فاصلے پرہے۔ آپ کے پیچھے ہی کاریں بھاگیں، باڈی گارڈ بھاگے۔ سب ہم نڈھال تھے۔

ایک سوال کے جواب میں آپ نے بتایا کہ انگلینڈ آنے کے کچھ دن بعد میں نے خواب میں دیکھا کہ میں مسجد مبارک میں حضور کی خدمت میں سامنے کے دروازہ سے حاضر ہوا ہوں اور دائیں طرف کے دروازے سے محترم مرزا غلام احمد صاحب اور میرے بڑے بھائی صباح الدین صاحب داخل ہوئے ہیں لیکن حضور ان کی طرف نہیں گئے بلکہ سیدھا میری طرف آئے ہیں۔ میں نے حضورؒ کو سلام کیا اور حضورؒ نے پوچھا:اچھا کب آئے ہو؟ پھر میں نے حضور کی خدمت میں کچھ تحائف پیش کیے۔ ایک سویٹرتھا جس کو دونوں طرف سے پہن سکتے تھے ، ایک چھتری تھی اور ایک سلیپر۔ حضورؒ نے وہ چیزیں لے لیں اور بڑی خوشی کا اظہار کیا۔ پھر جب حضورؒ یہاں تشریف لائے تو ایک بار جب ہم لندن سے بریڈفورڈ Bradford جارہے تھے تو میں نے یہ خواب حضور کو سنایا۔ میں نے وہ چیزیں پہلے ہی حضور کو بھیج دی تھیں۔ اور اس کے بدلہ میں حضور ؒ نے مجھے ایک گھڑی بھجوائی تھی جو اب تک میرے پاس موجود ہے۔ تو میں نے حضورؒ کو وہ خواب سنائی اور پوچھا کہ اس کا کیا مطلب ہو گا۔ حضور نے فرمایاکہ سلیپر کا مطلب تھا کہ میں سفر کروں گا۔ چھتری کا مطلب تھا کہ بارش والے علاقے کی طرف سفر کروں گا اور سویٹر کا مطلب تھا کہ اللہ تعالیٰ میری حفاظت فرمائے گا۔ فرما یا کہ میں آیا ہوں فلاح الدین کی طرف یعنی دین کی کامیابی کی طرف اور صبا ح الدین یعنی دین کی صبح کو اور غلام احمد یعنی اپنے دوستوں کو اپنے پیچھے چھوڑ آیا ہوں۔
حضورؒ کی ہجر ت کے حوالہ سے سوال کے جواب میں آپ نے بتایا کہ 30؍اپریل 1984ء کی صبح چار بچے مجھے مکرم عطاء المجیب راشد صاحب کا فون آیا کہ فوراً مسجد پہنچ جائیں۔ میں جب وہاں پہنچا تو کہنے لگے کہ مشن ہاؤس کا یہ فلیٹ خالی کرنا ہے (جس میں وہ رہتے تھے )۔ تو ہم نے ان کا سب سامان اٹھا کر وہاں پہنچایا جہاں وہ اب رہتے ہیں۔ وہاں پر ایک ہی کمرہ خالی تھا، باقی کمروں کو لائبریری بنایا ہوا تھا۔ سار ا سامان ہم نے اس کمرہ میں رکھا۔ پھر اگلے دن صبح لجنہ کی چند ممبرات نے مشن ہاؤس میں آ کر وہاں صفائی کی اور حضور ؒ کے لیے فلیٹ کو صاف کیا۔
حضور کے انگلینڈ تشریف لانے کی اطلاع میرے علاوہ چند لوگوں کو ہی تھی۔ جب تک حضور کا جہاز مڈل ایسٹ کراس نہیں کر گیا ہماری جانیں ہو ا ہوئی ہوئی تھیں۔ کیونکہ حکومت پاکستان وہاں کے کسی بھی ملک کو کہہ کر جہاز اتروا سکتی تھی۔ جب جہاز مڈل ایسٹ کو کراس کر کے یورپ میں داخل ہو گیا تو ہم نے اللہ تعالیٰ کا بہت شکر ادا کیا۔ پھر حضور ہالینڈ میں دو گھنٹے ٹھہرے اور گیا رہ بجے انگلینڈ پہنچے۔ جب حضورؒ کو ائیر پورٹ سے لینے کے لیے گئے تو میرے سپرد حضور کو ڈرائیو کر کے لانے کا کام تھا۔
ہم ائر پورٹ سے باہر کھڑے تھے۔ جب میں حضور ؒ سے ملا تو مجھے بالکل سمجھ نہیں آ رہی تھی کہ میں کیا کہوں۔ خوشی کا اظہار کروں یا افسوس کا اظہار کروں۔ میں بہت خوش تھا کہ حضورؒ ہمارے پاس آئے ہیں۔ لیکن جن حالات میں حضورؒ آئے تھے وہ بہت مشکل حالات تھے۔ حضور جب کار میں بیٹھ گئے تو اس وقت قریباً پونے بارہ بجے تھے۔ حضورؒ نے گاڑی میں بیٹھے ہی جو پہلا سوال پوچھا وہ تھا کہ ظہر کی نماز کا کیا وقت ہے؟ امام صاحب نے کہا کہ حضور ایک بجے ہے تو حضور نے فرمایا تو پھر ٹھیک ہے ہم ایک بجے تک مسجد پہنچ جائیں گے۔ اس وقت حضورؒ بہت تھکے ہوئے تھے لیکن پہلا کام جو کرنا چاہتے تھے وہ نماز تھی۔ اس کے بعد کچھ دن تو حضورؒ ربوہ اور پاکستان والوں کے لیے بہت پریشان اور بے حد مصروف رہے۔ پھر آہستہ آہستہ اللہ تعالیٰ نے فضل فرمایا اور حالات کچھ ٹھیک ہوئے تو حضور ؒ نے سیر کے لیے بھی جانا شروع کر دیا۔
جب سیر کا پروگرام بنایا تو پھر جگہ پسند کرنی تھی سیر کے لیے۔ پہلے ہم دو تین دن Innerparkمیں سیر کے لیے گئے مگر حضورؒ نے فرمایا کہ ادھر مزہ نہیں آیا۔ پھر کچھ دن ہم Rohampton Common کی طرف سیر کے لیے جاتے رہے۔ حضورؒ فرمانے لگے کہ یہاں پر گند بہت ہے۔ پھر میں نے Wimbledon Common والی جگہ ڈھونڈی اور حضور ؒ کو جا کر بتا یا۔ حضورنے جاکر دیکھا تو فرمایا کہ ہاں یہ جگہ بالکل ٹھیک ہے۔ یہاں پہاڑی بھی ہے اور جھیل بھی ہے۔ Natureبھی ہے۔ آخر تک پھر حضور وہیں پر سیر کے لیے جاتے رہے۔ جب تک موقعہ ملا اللہ تعالی کے فضل سے تقریباً روز ہی میں حضور ؒ کے ساتھ سیر کے لیے جایا کرتا تھا۔ 1991ء تک میں ہی لیڈ کرتا رہا۔ شاید ہی کبھی ہوا ہو کہ میں حاضر نہ ہو سکا ہوں۔ ایک دفعہ مجھے مسجد پہنچنے میں دیر ہو گئی۔ مسجد فون کیا تو پتا لگا کہ سب واک کے لیے نکل چکے ہیں۔ میں فوراً بھاگا اور سیدھا سیر گاہ پہنچ گیا۔ دیر سے پہنچنے پر حضور ؒ نے جو سب سے پہلا سوال مجھ سے پوچھا وہ یہ تھا کہ آپ نے نماز پڑھی ہے؟حضور کو لگا کہ میں بھاگا آیا ہوں کہیں ایسا تو نہیں ہوا کہ میں نے جلدی میں نماز چھوڑ دی ہو۔ حضور کو یہ بہت خیال ہوتا تھا کہ جو لوگ میرے ساتھ چلتے ہیں یا کام کرتے ہیں وہ نماز کے پابند ہوں۔ اس طرح آپ ہماری جسمانی صحت کے ساتھ ساتھ روحانی صحت کا بھی خیال رکھتے تھے۔
حضور ؒ کے خطبات اور تقاریر کے دوران مجھے قہوہ پیش کرنے کا موقع بھی ملتا رہا۔ اس کی کہانی بہت پرانی ہے۔ یہ ربوہ میں حضرت خلیفۃالمسیح الثانی ؓ کے زمانہ کی بات ہے جب میں خادم تھا۔ اس زمانہ میں مکرم صاحبزادہ ڈاکٹرمرزا منور احمد صاحب چائے بنا کر حضورؓ کو پیش کیا کرتے تھے۔ جب میری ڈیوٹی سٹیج پر ہوتی تھی تو وہ مجھے کہتے تھے کہ تم ذرا حضورؓ کے سامنے پیالی رکھ دو۔

حضرت خلیفۃ المسیح الثالثؒ کی بیگم صاحبہ سٹیج کے پیچھے کار میں بیٹھ کر قہوہ بناتی تھیں اور ہم وہاں سے لے کر آتے اور حضورؒ کی خدمت میں پیش کرتے تھے۔ پھر جب میں قائد ضلع لاہور تھا تو تب بھی مجھے حضرت خلیفۃالمسیح الثالثؒ کو (جب وہ پہلی دفعہ ربوہ سے لاہور آئے تو) تقریر کے دوران قہوہ پیش کرنے کا موقع ملا۔

لندن میں جب حضرت خلیفۃالمسیح الرابع ؒ کی پہلی تقریر ہوئی تو محترم ہدایت اللہ بنگوی صاحب نے قہوہ بنا یا تو کبھی قہوہ گاڑھا ہو تا تھا،کبھی ہلکا ہو تا تھا۔ پھر حضرت بیگم صاحبہ ؒ کی نگرانی میں لجنہ نے اوپر قہوہ بنانا شروع کیا مگر وہ بھی نیچے پہنچتے پہنچتے کبھی ٹھنڈا ہو جاتا تھا تو کبھی ٹھیک نہیں بنتا تھا۔ پھر میں نے حضرت بیگم صاحبہ ؒ سے کہا کہ اگر آپ کی اجازت ہو تو میں نیچے قہوہ بنا دیا کروں۔ تو انہوں نے فرمایا کہ ہاں یہ تو بہت اچھا کام ہو گا۔ لیکن ایک بات کا خیال رکھنا کہ برتن تودھل جاتے ہیں مگر شہد نہیں دھل سکتا۔ ان کا مطلب یہ تھا کہ خیال رکھنا کہ دشمن کوئی چیز نہ ملانے پائے۔ احتیاط کرنا، تم لے تو رہے ہو یہ کام مگر ہے بہت بڑی ذمہ داری۔ تو یہ نصیحت تھی آپ کی جس کا میں نے ہمیشہ خیال رکھا۔ کہیں جانا ہوتا تھا تو میں باقی سامان تو چھوڑ دیتا مگر شہد اپنے ساتھ لے جاتا تھا۔ ہمیشہ اپنی جیب میں ہی رکھتا تھا۔ ویسے بھی شہد قہوے میں سب سے آخر میں ہی ڈالتے ہیں ورنہ قہوے کا رنگ بھی بدل جاتا ہے اور ٹھنڈا بھی ہو جاتا ہے۔
اس قہوہ کی Recipeیوں ہے کہ اس میں Long green teaجو کہ کشمیر سے آتی ہے پڑتی ہے اس کی دو یا تین پتیاں اور تین چار الائچی بغیر چھلکے کے کیونکہ چھلکا گلے کو خراب کرتا ہے اور شہد۔ سب سے پہلے تھرموس کو گرم کر کے اس میں چائے کی پتی اور الائچی ڈال دیں۔ پھر اس میں دو تین کپ ابلتا ہوا پانی ڈال دیں اور کچھ دیر رہنے دیں۔ پھر جب پیش کرنے لگیں تو اوپر سے شہد ڈال دیں۔ کوئی بھی خالص شہد ڈال سکتے ہیں۔ ویسے حضورؒ کے لیے شہد پشاور سے آتا تھا۔ جرمنی سے بھی آتا تھا۔ ایک دفعہ کالا شہد آ گیا تھا۔ جس میں ڈالو وہ چیز کالی ہو جاتی تھی۔ پھر یہ کہ حضورؒ سپیشل چائے پیتے تھے۔ پھر جب ہم سپین گئے تو سفر کے دوران کہیں سے اچھی چائے نہیں ملی۔ حضور جب بھی چائے پیتے تو کہتے تھے کہ چائے کا مزہ نہیں آیا پھر قرطبہ میں قیام کے دوران میں خود ہوٹل کے کچن میں گیا اور حضور ؒ کے لیے چائے بنا کر لایا۔ حضور ؒ نے چائے بہت پسند فرمائی اور خوش ہوکے مجھے دس پاؤنڈ انعام میں دیئے۔ وہ ابھی بھی میرے پاس رکھے ہوئے ہیں۔
حضور نے لندن آنے کے بعد پہلے گیسٹ ہاؤس نمبر 41خریدا تھا اور پھر اسلام آباد خریدا تھا۔ جب حضور نے اسلام آباد خریداتو حضور نے سارے اسلام آباد کا چکر لگایا اور بڑی خوشی کا اظہار فرما یا تھا۔ اور فرمایا تھا کہ یہ جگہ ہمارے جلسے اور دوسرے کاموں کے لیے کافی ہو گی۔
ایک دفعہ ہم جرمنی سے واپس آ رہے تھے. میں ڈرائیو کر رہا تھا۔ رات کے دو بج رہے تھے۔ مجھے بہت سخت نیند آ رہی تھی۔ تو میں نے حضورؒ سے پوچھا کہ حضور ریڈیو لگا لوں؟ حضور فرمانے لگے کہ کچھ فائدہ ہو گا؟ میں نے کہا کہ حضو رطبیعت ذرا Fresh ہو جاتی ہے۔ تو حضور ؒ فرمانے لگے کہ لگا لو۔ حضورؒ کا مطلب یہ تھاکہ اگر کسی چیز کا فائدہ زیادہ ہے تو اس کے استعمال میں کوئی حرج نہیں ہے۔ اور بہت ساری باتیں ہیں جن سے میں نے سبق سیکھا۔ یہ سب انعام اور تحفے حضور کی مہر بانیاں اور عنایتیں ہیں۔ جب بھی آپ کہیں سفر پر جاتے امریکہ، جرمنی یا کینیڈا۔ کہیں بھی میرے لیے ضرور کچھ نہ کچھ لاتے۔
سب سے بڑا سفر جس میں خاکسارحضور ؒ کے ساتھ گیا اور حضور کی کار ڈرائیو کرنے کی سعادت پائی وہ سپین کا سفر تھا جس میں ہم یہاں سے ہالینڈ گئے تھے۔ وہاں سے جرمنی پھر سوئٹزر لینڈ پھر واپس جرمنی اور پھر وہاں سے ناروے اور ڈنمارک سے ہوتے ہوئے واپس جرمنی اور پھر فرانس کے راستہ سپین گئے اور پھر وہاں سے لندن واپس آئے تھے۔ میرا خیال ہے کہ 1987ء یا1988ء میں تھا۔
1990ء میں حضور نے مجھے اپنے پاس بلایا اور کہا کہ دیکھو اب اور بھی بہت لوگ ٹرینڈ ہو گئے ہیں اس لیے اب تم اپنا کام شروع کر و۔ تو میں نے کہا کہ حضور میں وقف زندگی کرتا ہوں۔ حضور نے فرمایا نہیں مجھے پتہ ہے کہ تم وقف کرنے کے بغیر بھی زیادہ وقت دو گے ، تمہارے بیوی بچوں کا بھی حق ہے اب تم کوئی کام شروع کرو۔ اس سے پہلے حضور نے میری والدہ کو خط لکھا تھا کہ فلی (فلاح الدین) میرے کمرے کی دیوار کی طرح ہے۔ میں جب بھی باہر نکلتا ہوں تو سامنے کھڑا ہو تا ہے۔
جب حضورؒ کا حکم ہو گیا کہ کام شروع کرو تو میں نے پوچھا کہ حضورؒ میں کیا کام شروع کروں؟ حضور نے فرمایا کہ منی کیب(Mini Cab) کا کام شروع کرو اور بلڈنگ کا سائیڈ بزنس رکھو۔ الحمدللہ۔ الحمد للہ۔ حضور کی دعاؤں سے میرے کام میں برکت پڑی اور مسائل حل ہو گئے۔ تو میرا مشورہ یہ ہے کہ اگر آپ نے خلیفہ وقت سے کوئی صلاح مانگی ہے۔ چاہے وہ کسی کام کے بارہ میں ہو یا شادی وغیرہ کے بارہ میں تو پھر اس صلاح کو مانیں۔ اسی میں برکت ہے اور کامیابی ہے۔ ہاں اگر آپ دعا کے لیے کہیں تو وہ الگ بات ہے لیکن اگر آپ صلاح مانگیں تو پھر اس کو مانیں۔ میری زندگی کا یہ سبق مجھے ملا ہے۔

50% LikesVS
50% Dislikes

اپنا تبصرہ بھیجیں