حضرت خلیفۃ المسیح الثانی ؓ کی حسین یادیں

ماہنامہ ’’النور‘‘ امریکہ جولائی و اگست 2008ء میں مکرمہ امتہ العزیز ادریس مرزا صاحبہ کے قلم سے حضرت خلیفۃالمسیح الثانیؓ کی چند حسین یادیں شامل اشاعت ہیں۔
آپ بیان کرتی ہیں کہ میری والدہ محترمہ سراج بی بی صاحبہ اہلیہ ڈاکٹر بدرالدین احمد صاحب کا بچپن سے حضرت خلیفۃ المسیح الاولؓ کے ساتھ بہت عقیدت اور پیار کا تعلق تھا۔ اور حضورؓ کی وفات کے بعد حضرت خلیفۃالمسیح الثانیؓ سے بھی کیونکہ حضرت سیّدہ امتہ الحئی صاحبہ سے بہنوں جیسے تعلقات تھے جو کہ حضورؓ کی زوجیت میں آئیں۔ اس وجہ سے والدہ محترمہ کا حضورؓ کے گھر آنا جانا رہتا اور میں بھی بچپن سے ہی والدہ صاحبہ کے ساتھ ہوتی۔
جب میری والدہ افریقہ سے واپس قادیان آئیں تو حضرت سیدہ امتہ الحئی صاحبہؓ وفات پاچکی تھیں۔ اُس زمانہ میں حضورؓ کا اکثر دیدار ہوجاتا کیونکہ آپؓ مسجد مبارک سے نماز پڑھانے کے بعد اُس دروازہ سے تشریف لاتے جو حضرت اماں جانؓ کے صحن میں کھلتا تھا۔ میں نے ہمیشہ محسوس کیا کہ حضورؓ کا چہرہ مبارک بہت نورانی تھا اور ایک خداداد رعب تھا لیکن ساتھ ہی شفقت اور ہمدردی بھی انتہاء کی تھی۔ ہمیشہ تیز چلتے۔ اصلاح اور نصیحت بھی ساتھ کے ساتھ ہوتی۔ایک بار ہم کچھ بچیاں مسجد کے دروازہ کے سامنے کھڑی تھیں۔ کسی بچی کی قمیص کا گلا بالکل گردن کے ساتھ نہیں تھا بلکہ ذرا نیچا تھا۔ حضورؓ نے اشارہ سے فرمایا کہ ’’یہ کیا؟‘‘ ۔ حضور کو مناسب لباس میں تربیت کا بہت خیال تھا۔
کئی بار حضورؓ کو خط دینے میری والدہ نے مجھے اور بھائی کو بھجوایا تو ہم حضرت اُمّ ناصرؓ کی اجازت سے حضورؓ کے دفتر تک پہنچ جاتے۔ حضورؓ دروازہ کھول کر ہمیں دیکھتے، سروں پر ہاتھ پھیرتے اور خط لے لیتے۔ ایک بار حضورؓ قالین کے فرش پر بیٹھے تھے اور سامنے حضور کی بیٹیاں تھیں۔ حضور قرآن مجید کا درس دے رہے تھے یا نوٹس بھی لکھوارہے تھے۔ وہاں ایک بنگالی خاتون ایک بنگالی کھانے کی ڈش بھی بنا کر لے آئیں۔ حضور نے پسندیدگی کا اظہار فرمایا اور فرمایا رکھو بعد میں کھائیں گے۔
ایک دفعہ مَیں اپنی والدہ کے ہمراہ لجنہ کے اجلاس کے لئے حضرت سیدہ ام طاہرؓ کے گھر گئی تو لکڑی کے ایک تخت پر پھولوں کا بہت بڑا سا ڈھیر لگا تھا۔ اتنے میں حضورؓ تشریف لائے اور فرمایا کہ ان میں سے جتنے چاہو جھولی بھر کر گھر لے جاؤ۔ میری امی نے بہت زیادہ پھول میری جھولی میں بھر دیئے۔ … حضورؓ کو عطر بنانے کا بہت شوق تھا۔ اور اسی سلسلے میں پھولوں کا اتنا بڑا ڈھیر وہاں پر تھا۔
دوسری عالمی جنگ میں میرے والد انگریز فوج میں حضورؓ کے ارشاد کے تحت ملازم ہوگئے اور یورپ بھجوائے گئے جہاں آئے دن بمباری ہوتی رہتی تھی۔ اپنی والدہ کے کہنے پر مَیں اکثر حضورؓ کو دعا کا خط دینے جایا کرتی تھی۔ حضورؓ کی دعاؤں کی برکت سے میرے والد جنگ ختم ہونے پر خیریت سے واپس قادیان پہنچ گئے اور جنگ کی تباہ کاریوں کے واقعات سنا کر بتاتے کہ کس طرح اﷲتعالیٰ انہیں بال بال بچالیتا تھا۔
میں نے میٹرک کا امتحان 1944ء میں پاس کیا تو میں حضورؓ کی خدمت میں حاضر ہوئی اور کانوں کے زیور کی جوڑی بھی لے گئی۔ میں نے عرض کیا کہ حضور میں نے زندگی وقف کرنی ہے اور یہ کانوں کے کانٹوں کی جوڑی چندہ میں دینی ہے۔حضورؓ نے میری بات سنی اور فرمایا کہ یہ کانٹوں کی جوڑی تو تم گھر لے جاؤ۔ اور زندگی وقف کیلئے کچھ ارشاد نہ فرمایا۔ اس وقت میری عمر 14 سال تھی۔ حضورؓ سے یہ بھی پوچھا کہ آگے کالج کی تعلیم حاصل کروں تو آپؓ نے فرمایا کہ اگر تو اُستانی بننا چاہتی ہو تو کرو۔ورنہ دینی تعلیم حاصل کرو۔ الحمدللہ کہ میں نے دینی علم چار سال تک جامعہ نصرت میں حاصل کیا۔
1953 کے جلسہ سالانہ میں شمولیت کیلئے ہم پہلی بار ربوہ آئے تو حضورؓنے میرا نکاح محترم مرزا محمد ادریس صاحب واقف زندگی سے پڑھایا۔ حضرت سیّدہ اُمّ ناصرؓ نے اپنے گھر میں ایک چھوٹی سی تقریب منعقد فرمائی۔ تقریب کے بعد میں مع والدہ اور بہن کے حضورؓ سے ملنے دفتر میں گئی۔ حضورؓ نے مجھے مبارکباد دی اور اپنے ہاتھوں سے بنائے ہوئے عطرکی ایک بوتل بطور تحفہ عنایت فرمائی اور میرے لئے دعا کی۔
1963ء میں جب خاکسار اپنے شوہر کے ہمراہ مستقل طور پر ربوہ آئی تو اُن دنوں حضور بیمار تھے لیکن کبھی حضرت سیدہ چھوٹی آپا سے لجنہ کے دفتر ی کام سے متعلق ہدایات لینے کے لئے جاتی تو حضورؓ کے کمرہ میں بھی جاتی، سلام عرض کرتی اور دعا کے لئے کہتی۔

50% LikesVS
50% Dislikes

اپنا تبصرہ بھیجیں