حضرت خلیفۃ المسیح الخامس ایدہ اللہ تعالیٰ کا جلسہ سالانہ قادیان 2003ء سے اختتامی خطاب

اسلام نرمی، پیار ،محبت ، رواداری کا مذہب ہے۔ وہ تمام مذاہب کے انبیاء کی بلکہ ان کے ماننے والوں کی بھی عزت اور ا حترام کرتا ہے۔ ہر مذہب کے، ہر قوم کے رہنما کی عزت کرتاہے اور عزت کرنے کاحکم دیتاہے۔
مذہبی رواداری ، امن عالم، خدمت خلق اور ہمدردی ٔ بنی نوع انسان سے متعلق اسلامی تعلیم کے اعلیٰ نمونوں اور حضرت مسیح موعودعلیہ الصلوٰ ۃ والسلام کی اپنی جماعت سے توقعات کا تذکرہ
سیدنا حضرت خلیفۃ المسیح الخامس ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز کا جلسہ سالانہ قادیان 2003ء کے موقع پر
28 دسمبر 2003ء کو محمودہال مسجد فضل لندن سے ایم ٹی اے کے ذریعہ بر اہ راست اختتامی خطاب

(نوٹ: سیدنا حضرت خلیفۃالمسیح الخامس ایدہ اللہ تعالیٰ کے پرمعارف خطبات و خطابات قرآن کریم، احادیث مبارکہ اور حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے ارشادات کی لطیف تفسیر ہیں- چنانچہ دوستوں کی خواہش پر ویب سائٹ ’’خادم مسرور‘‘ میں حضورانور ایدہ اللہ تعالیٰ کے ارشاد فرمودہ تمام خطبات جمعہ اور خطابات upload کئے جارہے ہیں تاکہ تقاریر اور مضامین کی تیاری کے سلسلہ میں زیادہ سے زیادہ مواد ایک ہی جگہ پر باآسانی دستیاب ہوسکے)

أَشْھَدُ أَنْ لَّا إِلٰہَ اِلَّا اللہُ وَحْدَہٗ لَا شَرِیکَ لَہٗ وَأَشْھَدُ أَنَّ مُحَمَّدًا عَبْدُہٗ وَرَسُوْلُہٗ
أَمَّا بَعْدُ فَأَعُوْذُ بِاللہِ مِنَ الشَّیْطٰنِ الرَّجِیْمِ-
بِسْمِ اللہِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِیْمِ – اَلْحَمْدُللہِ رَبِّ الْعَالَمِیْنَ۔اَلرَّحْمٰنِ الرَّحِیْمِ۔مٰلِکِ یَوْمِ الدِّیْنِ ۔اِیَّا کَ نَعْبُدُ وَ اِیَّاکَ نَسْتَعِیْنُ۔ اِھْدِنَا الصِّرَاطَ الْمُسْتَقِیْمَ۔صِرَاطَ الَّذِیْنَ اَنْعَمْتَ عَلَیْھِمْ غَیْرِالْمَغْضُوْبِ عَلَیْھِمْ وَلَاالضَّآلِّیْنَ ۔

آج اللہ تعالیٰ کے فضل سے قادیان کا 112 واں جلسہ سالانہ اپنے اختتام کو پہنچ رہا ہے اور میرے اس خطاب کے بعد انشاء اللہ اس کا اختتام ہو گا۔ اس جلسہ سالانہ میں رپورٹس کے مطابق احمدیوں کے علاوہ بہت سے دوسرے مہمان دوست بھی شامل ہیں۔ اور ان کی اب تک کی رپورٹ کے مطابق ان کا خیال ہے کہ بتیس تینتیس ہزار آدمی اس میں شامل ہیں اور تعداد بڑھ رہی ہے۔
آج کے خطاب کے لئے میں نے اسلامی تعلیم کے اعلیٰ نمونے اور حضرت اقدس مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کی جماعت سے جو توقعات ہیں، اُس کے بارے میں مضمون چنا ہے کہ وہ جماعت کو کیسا بنانا چاہتے تھے ۔
حضرت اقدس محمد مصطفی صلی اللہ علیہ وسلم نے چودہ سو سال پہلے اسلام کی جس خوبصورت تعلیم کو دنیا کے سامنے پیش کیا، جس میں اپنوں کے لئے بھی چھوٹے سے چھوٹے خُلق کے ہر پہلو کو تفصیل سے بیان کیا۔ کس طرح بھائیوں کو، دوستوں کو آپس میں تعلقات رکھنے چاہئیں۔ اور اس معاشرے میں امن پیدا کرنے کے لئے کیا ضروری چیزیں ہیں۔ معاشرے کے وسیع تعلقات میں کیا ماحول پیدا کیا جائے کہ اس سے معاشرے میں امن پیدا ہو سکتا ہے۔ پھر اپنوں کے علاوہ غیروں سے بھی اعلیٰ اخلاق دکھانے کے سلیقے بتائے۔ اپنے ہم مذہبوں اور غیر مذہب والوں کے حقوق ادا کرنے کے بھی طریقے اور سلیقے سکھائے۔ اللہ تعالیٰ کی عبادت کے بھی طریقے سکھائے۔ تو گویا کوئی پہلو ایسا نہیں جس کو آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے خالی چھوڑا ہو۔ ایسی مکمل اور کامل تعلیم ہے۔ کیونکہ قرآنِ کریم جیسی کامل اور مکمل تعلیم آپ پر نازل ہوئی تھی۔ دین مکمل ہوا تھا اور شریعت کامل ہوئی اور پھر آپ نے صرف یہی نہیں کہ تعلیم دی بلکہ اپنے عمل سے اس خوبصورت تعلیم کو دنیا کے سامنے پیش کیا۔ آپ کے صحابہ نے اس حسین تعلیم کو اپناتے ہوئے اپنے اندر ایسی زبردست تبدیلیاں پیدا کیں کہ جو انسانی تصور سے باہر ہیں۔ اور پھر اس خوبصورت اور حسین تعلیم کو دنیا تک پہنچانے کے لئے کوششیں بھی کیں۔ لیکن پھر آہستہ آہستہ مسلمانوں نے اس تعلیم کو بھلا دیا اور دنیاداری غالب آنے لگی تو پھر اللہ تعالیٰ نے اپنے وعدوں کے مطابق آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے عاشقِ صادق اور آپ کے روحانی فرزند حضرت اقدس مرزا غلام احمد صاحب قادیانی کو مسیح موعود اور مہدی معہود کی صورت میں دنیا میں مبعوث فرمایا اور آپ نے پھر سے آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی اس خوبصورت تعلیم کو دنیا کے سامنے پیش فرمایا۔ معترضین کے اعتراضات کے دلائل سے جواب دئیے، اُن کو ردّ فرمایا اور ثابت کیا کہ اسلام ہی ایک ایسا مذہب ہے جو قیامت تک اب زندہ رہے گا۔ اور فرمایا میں تمہیں یہ بات یونہی نہیں کہہ رہا بلکہ دلائل سے، براہین سے یہ ثابت کرتا ہوں۔ اور ماننے والوں کو یہ سکھایا کہ اگر تم غور سے سنو، سمجھو تو میں تمہیں قرآنِ کریم کی معرفت سکھاتا ہوں اور پھر اس معرفت کے ساتھ اللہ تعالیٰ کے فضلوں کے ساتھ نکلو اور اللہ تعالیٰ کی اس آخری شریعت کی دنیا میں منادی کرو۔ اپنے ایمانوں کو مضبوط کرو اور انسانیت کو بھی اللہ تعالیٰ کے آستانہ پر لے کر آؤ۔ خالص توحید کا قیام کرو اور یاد رکھو کہ اب دنیا میں اسلام ہی ایک ایسا مذہب ہے جس کے جھنڈے تلے آنے میں اب انسانیت کی بقا ہے۔ آپ نے فرمایا کہ دنیا کو تباہی سے بچانے کے لئے خدا تعالیٰ کی اس تعلیم کو دنیا تک پہنچاؤ کہ

اِنَّ الدِّیْنَ عِنْدَاللہِ الْاِسْلَام (آل عمران: 20)۔

یقینا دین اللہ تعالیٰ کے نزدیک اسلام ہی ہے۔ اور پھر اللہ تعالیٰ فرماتا ہے کہ

وَمَنْ یَّبْتَغِ غَیْرَ الْاِسْلَامِ دِیْنًا فَلَنْ یُّقْبَلَ مِنْہُ۔ وَھُوَ فِی الْاٰخِرَۃِ مِنَ الْخٰسِرِیْنَ۔(آل عمران:86)

اور جو بھی اسلام کے سوا کوئی دین پسند کرے تو ہرگز اسے قبول نہیں کیا جائے گا اور آخرت میں وہ گھاٹا پانے والوں میں سے ہوگا۔
حضرت اقدس مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام قرآنِ کریم کی تعلیم کی تمام دوسری مذہبی کتابوں پر فوقیت بیان کرتے ہوئے کہ کیوں یہ آخری شرعی کتاب ہے اور اس کو کیا فوقیت ہے؟ فرماتے ہیں کہ :
’’حقیقتِ اسلامیہ جس کی تعلیم قرآنِ کریم فرماتا ہے کوئی نئی چیزنہیں ہے بلکہ تمام انبیاء علیہم السلام اسی حقیقت کے ظاہر کرنے کے لئے بھیجے گئے تھے اور تمام الٰہی کتابوں کایہی مدّعا رہا ہے کہ تا بنی آدم کو اس صراطِ مستقیم پر قائم کریں۔ لیکن قرآنِ کریم کی تعلیم کو جو دوسری تعلیموں پر کمال درجہ کی فوقیت ہے، تو اس کی دو وجہ ہیں‘‘۔ فرمایا ’’اول یہ کہ پہلے نبی اپنے زمانے کے جمیع بنی آدم کے لئے مبعوث نہیں ہوتے تھے‘‘۔ (جو چاہیں دیکھ لیں کہ پرانے جتنے بھی نبی آئے وہ ایک ایک وقت میں قریب قریب کے علاقوں میں کئی کئی نبی موجود ہوتے تھے اور اپنی قوم کو خدائے واحد و یگانہ کی طرف بلاتے تھے۔) فرمایا کہ ’’ پہلے نبی اپنے زمانہ کے جمیع بنی آدم کے لئے مبعوث نہیں ہوتے تھے بلکہ وہ صرف اپنی ایک خاص قوم کے لئے بھیجے جاتے تھے جو خاص استعداد میں محدود اور خاص طور کے عادات اور عقائد اور اخلاق اور روش میں قابلِ اصلاح ہوتے تھے۔ پس اس وجہ سے وہ کتابیں ، قانون مختص القوم کی طرح ہو کر‘‘ (یعنی صرف اُس قوم کے لئے خاص ہوتی تھیں)’’ صرف اسی حد تک اپنے ساتھ ہدایت لاتی تھیں‘‘۔ (جو بھی شرعی کتابیں ہوتی تھیں، اُس خاص قوم کے لئے ہوتی تھیں اور اس حد تک ہدایت لاتی تھیں)’’ جو اس خاص قوم کے مناسبِ حال اور ان کے پیمانہ استعداد کے موافق ہوتی تھی‘‘۔( یعنی جو جو اُن کی استعدادیں تھیں اُس کے مطابق تھیں)۔ پھر فرمایا کہ ’’ دوسری وجہ یہ کہ ان انبیاء علیہم السلام کو ایسی شریعت ملتی تھی جو ایک خاص زمانہ تک محدود ہوتی تھی اور خدا تعالیٰ نے ان کتابوں میں یہ ارادہ نہیں کیا تھا کہ دنیا کے اخیر تک وہ ہدایتیں جاری رہیں۔ اس لئے وہ کتابیں، قانون مختص الزمان کی طرح ہو کر صرف اسی زمانے کی حد تک ہدایت لاتی تھیں‘‘۔ (یعنی اُس زمانے کے لئے صرف خاص تھیں، اُس زمانے تک تھیں) ’’ جو اُن کتابوں کی پابندی کا زمانہ حکمتِ الٰہی نے اندازہ کر رکھا تھا۔‘‘ (آئینہ کمالات اسلام روحانی خزائن جلد 5صفحہ 126تا 128) ( یعنی وہ اُس حد تک ہدایت لاتی تھیں جس حد تک حکمتِ الٰہی نے اُس کا اندازہ کیا ہوا تھاکہ کس حد تک اُن کا دور چلے گا اور زمانہ چلے گا)۔
پھر حضرت اقدس مسیح موعود علیہ السلام خاص طور پر اپنے ماننے والوں کے لئے اس کامل اور مکمل شریعت کو مزید کھولتے ہوئے توجہ دلاتے ہیں کہ اس خوبصورت تعلیم کا خلاصہ یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ کی عبادت کرو اور اللہ تعالیٰ کی مخلوق سے سچی ہمدردی اور اُس کی خدمت کرو۔ جیسے کہ فرمایا :
’’خدا تعالیٰ کی راہ میں زندگی کا وقف کرنا جو حقیقتِ اسلام ہے دو قسم پر ہے۔ایک یہ کہ خدا تعالیٰ کو ہی اپنا معبود اور مقصود اور محبوب ٹھہرایا جاوے اور اس کی عبادت اور محبت اور خوف اور رجا میں کوئی دوسرا شریک باقی نہ رہے۔ … دوسری قسم اللہ تعالیٰ کی راہ میں زندگی وقف کرنے کی یہ ہے کہ اُس کے بندوں کی خدمت اور ہمدردی اور چارہ جوئی اور باربرداری اور سچی غم خواری میں اپنی زندگی وقف کر دی جاوے۔ دوسروں کو آرام پہنچانے کے لئے دکھ اُٹھاویں اور دوسروں کی راحت کے لئے اپنے پر رنج گوارا کر لیں‘‘۔ فرمایا ’’اس … سے معلوم ہوا کہ اسلام کی حقیقت نہایت ہی اعلیٰ ہے اور کوئی انسان کبھی اس شریف لقب اہلِ اسلام سے حقیقی طور پر ملقّب نہیں ہو سکتا جب تک کہ وہ اپنا سارا وجود معہ اس کی تمام قوتوں اور خواہشوں اور ارادوں کے حوالہ بخدا نہ کر دیوے اور اپنی اَنانیت سے معہ اُس کے جمیع لوازم کے ہاتھ اُٹھا کر اُس کی راہ میں نہ لگ جاوے۔ پس حقیقی طور پر اُسی وقت کسی کو مسلمان کہا جائے گا جب اُس کی غافلانہ زندگی پر ایک سخت انقلاب وارد ہو کر اُس کے نفسِ اَمّارہ کا نقشِ ہستی معہ اُس کے تمام جذبات کے یک دفعہ مٹ جائے۔ اور پھر اس موت کے بعدمُحسن لِلّٰہ ہونے کے لئے نئی زندگی اُس میں پیدا ہو جائے اور وہ ایسی پاک زندگی ہو جو اس میں بجز طاعتِ خالق اور ہمدردیٔ مخلوق‘‘ (یعنی اللہ تعالیٰ کی اطاعت اور اُس کی مخلوق کی ہمدردی کے)’’ اور کچھ بھی نہ ہو ‘‘۔ فرمایا’’… اور خَلق کی خدمت اس طرح سے کہ جس طرح سے خَلقت کی حاجات ہیں اور جس قدر مختلف وجوہ اور ترک کی راہ سے قَسّامِ ازل نے بعض کو بعض کا محتاج کر رکھا ہے، ان تمام امور میں محض لِلّٰہ اپنی حقیقی اور بے غرضانہ اور سچی ہمدردی سے جو اپنے وجود سے صادر ہو سکتی ہے، ان کو نفع پہنچاوے۔ اور ہریک مدد کے محتاج کو اپنی خداداد قوت سے مدد دے اور اُن کی دنیا و آخرت دونوں کی اصلاح کے لئے زور لگاوے‘‘۔ (آئینہ کمالات اسلام۔ روحانی خزائن۔ جلد 5۔صفحہ 60تا 62)
(اس) اقتباس کی تھوڑی سی تشریح کر دیتا ہوں۔ فرمایا کہ پہلی بات تو یہ ہے کہ صحیح مسلمان کہلانے کے لئے اپنی تمام تر صلاحیتوں کے ساتھ، چاہے وہ دماغی ہوں، چاہے جسمانی،اللہ تعالیٰ کی مرضی کے مطابق ہر کام کرو۔ جس طرح خدا تعالیٰ نے تعلیم دی ہے، اُس کے مطابق اپنے آپ کو بناؤ۔ اپنی خواہشات کو بھی ختم کرو۔ یہ نہیں کہ خدا تعالی تمہیں حکم دیتا ہے کہ اس وقت میری عبادت کا وقت ہے، نماز کا وقت ہے اور تم مسجد میں جانے کی بجائے اپنے دنیاوی کاموں میں مشغول ہو جاؤ۔ پھر فرمایا کہ اپنی اَنانیت کو بھی ختم کرو۔ کسی بھی صورت میں اپنی بڑائی کا، اپنی لیاقت کا، اپنے نیک ہونے کا خیال دل میں بھی نہ لاؤ۔ ذہن میں یہ احساس رہے کہ مَیں خدا تعالیٰ کا ایک عاجز انسان ہوں۔ تمام بڑائی اور کبریائی خدا تعالیٰ کی ہی ہے۔ یہ خیال نہ ہو کہ جماعت کی خاطر میں نے کچھ قربانیاں دی ہیں اب جماعت کو بھی میرا خیال رکھنا چاہئے۔جو قربانیاں دی ہیں، جو خدمات کی ہیں، خدا تعالیٰ کی خاطر کی ہیں۔ اپنی دنیا اور آخرت سنوارنے کے لئے کی ہیں۔ اس لئے اگر اس کا کوئی بدلہ ہے تو خدا تعالیٰ کی ذات ہی ہے، وہی اس کا بدلہ دے سکتی ہے۔ پھر دوسری اہم ڈیوٹی اور دوسرا اہم فرض جس کے بارے میں حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام فرمارہے ہیں کہ اسلام نے جس کا حکم دیا ہے وہ یہ ہے کہ وہ اللہ تعالیٰ کی مخلوق کی خدمت کرے۔ فرمایا کہ اللہ تعالیٰ کی مخلوق کی جس قدر ضروریات ہیں، قطع نظر اس کے کہ وہ کس قوم اور مذہب کا ہے اُن کو پورا کرنے کی کوشش کرو کیونکہ اللہ تعالیٰ نے مختلف لوگوں کو مختلف دوسرے لوگوں کے ماتحت کیا ہوا ہے۔ دنیا میں ایک معاشرے میں یہی طریق چل رہاہے۔ کوئی کسی کا کاروبار میں ملازم ہے تو کوئی کسی کا ذاتی ملازم ہے۔ اور پھر بعض دفعہ بعض ضرورتمند، بعض غریب اپنی ضرورت کے لئے تمہارے دروازے پر آ جاتے ہیں تو جس حد تک تمہیں طاقت ہے، جس حد تک تمہاری توفیق ہے اُن کی ہمدردی کرو۔ اُن کی مدد کرنے کی کوشش کرو۔ اُن کی ضروریات کا خیال رکھو۔ اُن کو دنیا کے بارے میں بتاؤ۔ اُن کی دنیاوی ضروریات پوری کرنے کے علاوہ اُن کو دین کے بارے میں بھی بتاؤ۔ اُن کو اسلام کی خوبصورت تعلیم کے بارے میں بھی بتاؤ۔ اُس سے بھی روشناس کرواؤ ۔اور اگر مسلمان ہیں تو پھر لوگوں کو آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے جو صحیح اسلام پیش فرمایا اس کی تعلیم پر عمل کرنے کی تلقین کرو۔ تو تب کہا جا سکتا ہے کہ تم جس مقصد کے لئے پیدا کئے گئے ہو، جس مقصد کے لئے تم نے اسلام کو قبول کیا ہے، اُس مقصد کو حاصل کرنے والے ہو۔ تو جس مذہب کا یہ خلاصہ ہو کہ اللہ کی عبادت کرو اور انسانیت کی خدمت کرو، اُس کے ماننے والوں سے یہ کیسے توقع کی جا سکتی ہے کہ وہ مذہب کے نام پر جنگیں کریں گے، جیسا کہ آجکل الزام لگایا جاتا ہے۔ اگر کوئی مسلمان کہلا کر ایسا کرتا ہے تو وہ اسلام کی تعلیم کے خلاف ایسا کرتا ہے۔ اسلام کی قطعاً یہ تعلیم نہیں ہے۔
اسلام تو نرمی، پیار، محبت، رواداری کا مذہب ہے۔ وہ تو تمام مذاہب کی، تمام مذاہب کے انبیاء کی بلکہ اُن کے ماننے والوں کی بھی عزت اور احترام کرتا ہے۔ ہر مذہب کے، ہر قوم کے رہنما کی عزت کرتا ہے اور عزت کرنے کا حکم دیتا ہے۔ بلکہ جیسا کہ مَیں نے کہا اسلام کی تعلیم نے عزت اور احترام کو اس انتہا تک پہنچایا ہوا ہے کہ حضرت ابن عمرؓ سے روایت ہے کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا۔

اِذَا اَتَاکُمْ کَرِیْمُ قَوْمٍ فَاَکْرِمُوْہُ۔

(سنن ابن ماجہ کتاب الادب باب اذا اتاکم کریم قوم فاکرموہ حدیث 3712) کہ جب تمہارے پاس کسی قوم کا معزز شخص آئے تو اُس کی عزت کرو۔
پھر صرف معزز شخص ہی نہیں۔ ایک اور روایت اس کو مزید کھولتی ہے۔ ایک دفعہ مدینہ میں ایک مسلمان اور یہودی کی لڑائی ہو گئی تو مسلمان نے کہا مجھے اُس ذات کی قسم! جس نے محمد صلی اللہ علیہ وسلم کو تمام جہانوں پر فضیلت دی ہے۔ یہودی نے کہا مجھے اُس ذات کی قسم! جس نے موسیٰ کو تمام جہانوں پر فضیلت دی ہے۔ یہودی کی یہ بات سن کر مسلمان نے اُسے تھپڑ مار دیا۔ یہودی فریاد لے کر حضور صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں حاضر ہوا تو حضور نے فرمایا کہ مجھے موسیٰ پر فضیلت مت دو۔ (صحیح البخاری کتاب فی الخصومات باب ما یذکر فی الاشخاص و الخصومۃ بین المسلم والیھود حدیث 2411)
تو یہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے اعلیٰ اخلاق کے نمونے ہیں کہ باوجود اس کے کہ آپ کو پتہ تھا اور یقینِ کامل تھا اور اللہ تعالیٰ کی طرف سے بتایا گیا تھا کہ آپؐ ہی آخری شرعی نبی اور خاتم الانبیاء ہیں۔ اللہ تعالیٰ نے آپ کو تمام انبیاء پر فوقیت دی ہوئی ہے۔ مگر آپ کو یہ گوارانہ تھا کہ آپ کو ماننے والا کوئی شخص کسی کے مذہبی جذبات کو مجروح کرے۔ اور آپ نے اس بات سے منع فرمایا۔ تو کجا یہ الزام کہ اسلام جنگ پسند مذہب ہے اور جنگجو اورجنگوں کو ہوا دینے والا مذہب ہے۔
پھر ایک روایت میں آتا ہے کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: کسی شخص کے لئے یہ جائز نہیں کہ وہ کہے کہ مَیں حضرت یونس بن متّٰی سے بہتر ہوں۔(صحیح البخاری کتاب احادیث الانبیاء باب قول اللہ تعالی وان یونس لمن المرسلین حدیث 3413)
حضرت اقدس مسیح موعود علیہ السلام فرماتے ہیں:
’’ یہ اصول نہایت صحیح اور نہایت مبارک اور باوجود اس کے صلح کاری کی بنیاد ڈالنے والا ہے کہ ہم ایسے تمام نبیوں کو سچے نبی قرار دیں جن کا مذہب جڑ پکڑ گیا اور عمر پا گیا اور کروڑہا لوگ اس مذہب میں آ گئے۔ یہ اصول نہایت نیک اصول ہے۔ اور اگر اس اصل کی تمام دنیا پابند ہو جائے تو ہزاروں فساد اور توہینِ مذہب جو مخالفِ امن عامہ خلائق ہیں، اُٹھ جائیں‘‘۔ (تحفہ قیصریہ روحانی خزائن جلد 12صفحہ 258)
فرمایا کہ اگر یہ یقین ہو جائے کہ تمام انبیاء سچے ہیں تو یہ جو ہر طرف سے آوازیں اُٹھتی ہیں، ہر مذہب والا دوسرے مذہب کو برا کہنا شروع کر دیتا ہے تو یہ سب باتیں ختم ہو جائیں۔ اور دنیا میں جو فساد پیدا ہوا ہوا ہے، جو مخلوق کو آپس میں لڑا رہاہے اور ایک بے امنی پیدا کی ہوئی ہے یہ سب چیزیں ختم ہو جائیں۔ تو یہی آپ نے فرمایا کہ اسلامی تعلیم کا اور صلح کی بنیاد ڈالنے کا یہی اصول ہے۔ اور ایسا خوبصورت اصول ہے کہ اگر اس کے پابند ہو جائیں تو تمام دنیا امن کا ایک گہوارہ بن جائے۔ ہر انسان دوسرے انسان کی عزت و احترام کرنے لگ جائے۔ اپنے مذہب کی خوبیاں تو بیان کریں لیکن دوسرے کے مذہب کو کبھی بُرا نہ کہیں۔ دوسرے کے مذہب پر الزام تراشی کرنے کا مطلب ہے کہ اپنے مذہب کے دفاع کے لئے دلائل نہیں ہیں۔ اور جس میں دلائل نہیں ہیں اس کا مطلب ہے اس میں جھوٹ شامل ہے۔ تو لڑنے مارنے پر وہی لوگ آمادہ ہوتے ہیں جن کے پاس دلائل نہ ہوں اور جن کو اپنی سچائی پر یقین نہ ہو۔ اب بعض مذاہب کے لوگ کہتے ہیں، اور اُن کے دلوں میں یہ بات اتنی راسخ ہو چکی ہے، اس بری طرح گاڑ دی گئی ہے کہ وہ یہ بات ماننے کو تیار ہی نہیں کہ اسلام امن پسند مذہب ہے۔ اعتراض یہ ہوتا ہے کہ اگر ایسا ہے تو اسلام میں ابتدا میں کیوں جنگیں ہوئیں؟ یہ باتیں صرف علم کی کمی کی وجہ سے ہیں اور سنی سنائی باتوں پر یقین کرنے کی وجہ سے ہیں اور اسلام کی دشمنی کی وجہ سے اسلام کے خلاف جو ایک محاذ کھڑا ہوا ہوا ہے کہ اتنا پروپیگنڈا کرو کہ جھوٹ بھی سچ نظر آنے لگ جائے تو یہ اُس وجہ سے ہے۔ ورنہ اگر تاریخ پڑھیں، اُس کا مطالعہ کریں تو پتہ چل جائے گا کہ اسلام نے کبھی بھی جنگوں کی ابتداء نہیں کی، بلکہ جنگیں ٹھونسی گئی ہیں۔
حضرت اقدس مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام فرماتے ہیں کہ :
’’ہم یہ ثابت کر سکتے ہیں کہ اسلامی جنگ بالکل دفاعی جنگ تھے اور ان میں وہ شدت اور سخت گیری ہرگز نہ تھی جو موسیٰ اور یشوع کے جنگوں میں پائی جاتی ہے۔ اگر وہ کہیں کہ موسیٰ اور یشوع کی لڑائیاں عذابِ الٰہی کے رنگ میں تھیں تو ہم کہتے ہیں کہ اسلامی جنگوں کو کیوں عذابِ الٰہی کی صورت میں تسلیم نہیں کرتے؟ موسوی جنگوں کو کیا ترجیح ہے۔ بلکہ ان اسلامی جنگوں میں تو موسوی لڑائیوں کے مقابلہ میں بڑی بڑی رعایتیں دی گئی ہیں۔ اصل بات یہی ہے کہ چونکہ وہ لوگ نوامیسِ الٰہیہ سے ناواقف تھے‘‘۔ (یعنی کہ اللہ تعالیٰ کی جو پہلی تعلیم تھی اُس سے ناواقف تھے)’’ اس لئے اللہ تعالیٰ نے اُن پر موسیٰ علیہ السلام کے مخالفوں کے مقابلہ میں بہت بڑا رحم فرمایا کیونکہ وہ غفور ورحیم ہے۔
پھر اسلامی جنگوں میں موسوی جنگوں کے مقابلہ میں یہ بڑی خصوصیّت ہے کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم اور آپؐ کے خادموں کو مکّہ والوں نے برابر تیرہ سال تک خطرناک ایذائیں اور تکلیفیں دیں اور طرح طرح کے دکھ اُن ظالموںنے دئیے۔ چنانچہ ان میں سے کئی قتل کئے گئے اور بعض بُرے بُرے عذابوں سے مارے گئے ۔چنانچہ تاریخ پڑھنے والے پر یہ امر مخفی نہیں ہے کہ بیچاری عورتوں کو سخت شرمناک ایذائوں کے ساتھ ماردیا گیا‘‘۔ (تکلیفوں کے ساتھ مارا گیا)’’یہاں تک کے ایک عورت کو دو اُونٹوں سے باندھ دیا اور پھران کو مختلف جہات میں‘‘ (مختلف طرفوں میں)’’ دوڑا دیا اور اس بیچاری کو چیر ڈالا ۔اس قسم کی ایذارسانیو ں اور تکلیفوں کو برابرتیرہ سال تک آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم اور آپؐ کی پاک جماعت نے بڑے صبر اور حوصلہ کے ساتھ برداشت کیا۔ اس پر بھی انہوں نے اپنے ظُلم کونہ روکا اور آخر کار خود آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے قتل کا منصوبہ کیا گیا۔ اور جب آپؐ نے خداتعالیٰ سے اُن کی شرارت کی اطلاع پاکر مکّہ سے مدینہ کو ہجرت کی۔ پھر بھی انہوں نے تعاقب کیا اور آخرجب یہ لوگ پھر مدینہ پر چڑھائی کرکے گئے تو اللہ تعالیٰ نے اُن کے حملہ کو روکنے کا حکم دیا۔ کیونکہ اب وہ وقت آگیا تھا کہ اہل مکّہ اپنی شرارتوںاور شوخیوں کی پاداش میںعذابِ الٰہی کا مزہ چکھیں‘‘۔ فرمایا: ’’ چنانچہ خداتعالیٰ نے جو پہلے وعدہ کیا تھا کہ اگر یہ لوگ اپنی شرارتوں سے بازنہ آئیں گے توعذابِ الٰہی سے ہلاک کئے جائیں گئے وہ پُوراہوا۔ خود قرآن شریف میں ان لڑائیوں کی یہ وجہ صاف لکھی ہے

اُذِنَ لِلَّذِیْنَ یُقَاتَلُوْنَ بِاَنَّھُمْ ظُلِمُوْا وَاِنَّ اللہَ عَلٰی نَصْرِِھِمْ لَقَدِیْرُ۔ الَّذِیْنَ اُخْرِجُوْا مِنْ دِیَارِہِمْ بِغَیْۡرِ حَقٍّ (الحج40-41:)

یعنی ان لوگوں کو مقابلہ کی اجازت دی گئی جن کے قتل کے لیے مخالفوں نے چڑھائی کی (اس لیے اجازت دی گئی ) کہ ان پر ظُلم ہوا۔ اور خداتعالیٰ مظلوم کی حمایت کرنے پرقادر ہے ۔ یہ وہ مظلُوم ہیں جو ناحق اپنے وطنوں سے نکالے گئے۔ ان کا گناہ بجزاس کے اَور کوئی نہ تھا کہ اُنہوں نے کہا کہ ہماراربّ اللہ ہے۔ یہ وہ آیت ہے جس سے اسلامی جنگوں کاسلسلہ شروع ہوتاہے۔پھر جس قدر رعائتیں اسلامی جنگوں میں دیکھوگے ممکن نہیں کہ مُوسوی یا یشوعی لڑائیوں میں اس کی نظیر مل سکے۔ موسوی لڑائیوں میں لاکھوں بیگناہ بچوں کا ماراجانا، بوڑھوں اور عورتوںکا قتل، باغات اور درختوں کا جلاکر خاک سیاہ کردینا تورات سے ثابت ہے۔ مگر ہمارے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے باوصفیکہ ان شریروں سے وہ سختیاں اور تکلیفیں دیکھی تھیں جو پہلے کسی نے نہ دیکھی تھیں۔ پھر ان دفاعی جنگوںمیں بھی بچوں کو قتل نہ کر نے، عورتوں اور بوڑھوں کو نہ مارنے، راہبوں سے تعلق نہ رکھنے اور کھیتوں اور ثمردار درختوں کو‘‘ (یعنی پھل والے درختوں کو) ’’نہ جلانے اور عبادت گاہوں کے مسمار نہ کرنے کا حکم دیا جاتاتھا۔ اب مقابلہ کر کے دیکھ لو کہ کس کا پلّہ بھاری ہے‘‘۔(ملفوظات جلد 2صفحہ 71-72 ۔ ایڈیشن 2003ئ۔مطبوعہ ربوہ)
تو جنگ میں جب آپ بھیجا کرتے تھے تو بڑی خاص ہدایات فرمایا کرتے تھے۔ حضرت مسیح موعودعلیہ السلام نے جو فرمایا اس کی مزید تفصیل ایک حدیث سے ملتی ہے کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم جب جنگ کرتے یا کوئی بھی فوج جنگوں کے لئے بھیجتے تو اُن کو سختی سے یہ حکم دیتے کہ کوئی عورت نہ ماری جائے، بچے نہ مارے جائیں، بوڑھوں سے تعرض نہ کیا جائے، بوڑھوں کو نہ چھیڑا جائے۔ (کنزالعمال جزء 4 صفحہ 205 کتاب الجھاد / قسم الافعال، باب فی احکام الجھاد فصل فی الاحکام المتفرقۃ ۔ حدیث 11421۔ دار الکتب العلمیۃ بیروت 2004ئ)
درویشوں، راہبوں اور تارک الدنیا لوگوں کو کچھ نہ کہا جائے۔
(مسند الاحمد بن حنبل جلد اول صفحہ 768 مسند عبداللہ بن عباس حدیث نمبر 2728 عالم الکتب بیروت 1998ئ)
کسی کو آگ سے نہ جلایا جائے۔ (سنن الترمذی کتاب السیر باب 20/20۔ حدیث 1571)
کسی جانور کو قتل نہ کیا جائے، کسی درخت کو نہ کاٹا جائے، اپنے مخالفوں کی طرح کسی دشمن مقتول کے ناک کان نہ کاٹے جائیں۔ پھرجب فتح ہو جاتی تو پھر یہ اعلان فرماتے کہ کسی زخمی کو قتل نہیں کرنا۔(کنزالعمال جزء 4 صفحہ 205 کتاب الجھاد / قسم الافعال، باب فی احکام الجھاد فصل فی الاحکام المتفرقۃ ۔ حدیث11419، 11420، 11421۔ دار الکتب العلمیۃ بیروت 2004ء)
کسی بھاگنے والے کا زیادہ تعاقب نہیں کرنا۔ (صحیح بخاری کتاب الجھاد و السیر باب من رأی العدو فنادی باعلی صوتہ…الخ۔ حدیث 3041)
پھر قیدیوں کے بارے میں فرماتے کہ ان سے حسنِ سلوک کرو۔ چنانچہ جنگِ بدر کے قیدی خود کہتے ہیں کہ خدا کی قسم مسلمان خود پیدل چلتے اور ہمیں سوار کرتے۔ خود بھوکے رہتے لیکن ہمیں کھانا کھلاتے۔ خود پیاسے رہتے مگر ہمیں پانی پلاتے۔ (کتاب المغازی للواقدی جزء اول صفحہ 116-117 ’’بدر القتال‘‘۔ دار الکتب العلمیۃ بیروت 2004ء)
تو اسلام کو جنگجو اور دہشت گرد مذہب قرار دینے والے ذرا سوچیں، کیا جنگجو مذہب اس قسم کی ہدایات دیا کرتے ہیں۔ چند لوگوں کے یا چند تنظیموں کے اپنے مفاد کو اسلام کی تعلیم کانام نہ دیا جائے۔ آج کی اس دنیا میں جب انسان اپنے آپ کو بہت زیادہ مہذب سمجھتا ہے اور سلجھا ہوا سمجھتا ہے لیکن کیا ان اعلیٰ اقدار کا مظاہرہ نظر آتا ہے۔ اب دیکھ لیں کہ جب ہوائی جہازوں سے بم برسائے جا رہے ہوتے ہیں یا توپوں کے گولے شہری آبادیوں پر داغے جا رہے ہوتے ہیں تو کس قدر معصوموں کا اور بچوں کا خون ہو رہا ہوتا ہے۔ اگر کوئی دہشت گرد ہے بھی تو کر کوئی رہا ہوتا ہے اور بھر کوئی رہا ہوتا ہے۔ اب دیکھ لیں کہ جن علاقوں میں بدامنی ہے، اخباروں میں روزانہ آتا ہے کہ وہاں بوڑھوں، عورتوں اور بچوں کے جنازے اُٹھ رہے ہوتے ہیں۔ تو پھر یہ کونسی حسین تعلیم ہوئی۔
حضرت اقدس مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام فرماتے ہیں کہ قرآنِ کریم میں تو اللہ تعالیٰ فرماتا ہے کہ:

’’مَنْ قَتَلَ نَفْسًا بِغَیْرِ نَفْسٍ اَوْفَسَادٍ فِی الْا َرْضِ فَکَاَنَّمَا قَتَلَ النَّاسَ جَمِیْعًا َ(سورۃ المائدہ:33)

یعنی جس شخص نے ایسے شخص کو قتل کیا کہ اُس نے کوئی ناحق کا خون نہیں کیا تھا یا کسی ایسے شخص کو قتل کیا جو نہ بغاوت کے طور پر امنِ عامہ میں خلل ڈالتا تھا اور نہ زمین میں فساد پھیلاتا تھا تو اس نے تمام انسانوں کو قتل کر دیا۔یعنی بے وجہ ایک انسان کو قتل کر دینا خدا کے نزدیک ایسا ہے کہ گویا تمام بنی آدم کو ہلاک کر دیا‘‘۔ فرمایا کہ ’’ان آیات سے ظاہر ہے کہ بے وجہ کسی انسان کا خون کرنا کس قدر اسلام میں جرمِ کبیر ہے‘‘۔ (چشمہ معرفت۔ روحانی خزائن جلد 23صفحہ 394)
پھر حضرت اقدس مسیح موعود علیہ السلام فرماتے ہیں کہ:
’’جو شخص ہمدردی کو چھوڑتا ہے وہ دین کو چھوڑتا ہے۔ قرآنِ شریف فرماتا ہے

مَنْ قَتَلَ نَفْسًا بِغَیْرِ نَفْسٍ اَوْفَسَادٍ … (سورۃ المائدہ:33)

یعنی جو شخص کسی نفس کو بلاوجہ قتل کر دیتا ہے وہ گویا ساری دنیا کو قتل کرتا ہے‘‘۔فرمایا’’ ایسا ہی مَیں کہتا ہوںکہ اگر کسی شخص نے اپنے بھائی کے ساتھ ہمدردی نہیں کی تو اس نے ساری دنیا کے ساتھ ہمدردی نہیں کی‘‘۔ (ملفوظات جلد 4صفحہ 271۔ ایڈیشن 2003ء۔ مطبوعہ ربوہ)
حدیث میں ایک روایت ہے۔ حضرت مصعب بن عمیر رضی اللہ عنہ کے بھائی ابو عزیز بن عمیر رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ بدر کی لڑائی میں مَیں بھی مسلمانوں کے ہاتھوں گرفتار ہو گیا تو آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کا کیونکہ قیدیوں سے حسنِ سلوک کرنے کا حکم تھا تو کہتے ہیں کہ مَیں انصار کے کچھ لوگوں کے پاس تھا۔ اُن لوگوں کا حال یہ تھا کہ دوپہر اور شام کا کھانا جب لاتے تو خود کھجور کھا لیتے اور مجھے روٹی کھلاتے۔ (السیرۃ النبویۃ لابن ہشام صفحہ ذکر رؤیا عاتکۃ بنت عبدالمطلب/مقتل النضر و عقبۃ صفحہ439دارالکتب العلمیہ بیروت2001ء)
حالت ایسی تھی کہ پوری طرح کھانا تو میسر نہیں تھا، جو تھوڑا بہت میسر آ تا تھا وہ قیدیوں کو لا دیتے تھے کیونکہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے قیدیوں سے اچھا برتاؤ کرنے کی نصیحت فرمائی ہوئی تھی۔
پھر حَسَن بن اَسود بیان کرتے ہیں کہ ایک غزوہ کے موقع پر مقتولین میں کچھ بچوں کی نعشیں بھی پائی گئیں۔ حضورؐ کو جب پتہ چلا تو آپ نے فرمایا کہ یہ کون لوگ ہیں جنہوں نے جنگجومَردوں کے ساتھ معصوم بچوں کو بھی قتل کر ڈالا۔ ایک شخص نے عرض کیا یا رسول اللہ! وہ مشرکوں کے بچے ہی تو تھے۔ نبی کریم ؐنے فرمایا آج تم میں سے جو بہترین لوگ ہیں وہ بھی کل مشرکوں کے بچے ہی تو تھے۔ (تم لوگ جو آج اسلام لے آئے ہو، کل تک تم بھی تو مشرکوں کے بچے ہی تھے۔) یاد رکھو کہ کوئی بچہ جب پیدا ہوتا ہے تو نیک فطرت پر پیدا ہوتا ہے۔ اُس کی یہ کیفیت اُس وقت تک باقی رہتی ہے جب تک وہ بولنا سیکھتا ہے۔ اس کے بعد اُس کے ماں باپ اُسے یہودی یا عیسائی بنا دیتے ہیں۔ (مصنف ابن ابی شیبۃ جزء 7 صفحہ 656۔ کتاب الجہاد باب من ینہی عن قتلہ فی دار الحرب۔ دار الفکر بیروت)
نصیحت کرنے کا مقصد یہ تھا کہ بچوں کو اس لئے قتل کرنا کہ وہ مشرکوں کے بچے ہیں، سخت گناہ ہے۔
تو دیکھیں یہ حسین تعلیم ہے جو اسلام پیش کرتا ہے اور اس پر عمل کرتا رہا ہے اور جماعت احمدیہ بھی اب اس پر عمل کرنے کا دعویٰ کرتی ہے اور کر رہی ہے۔ کیونکہ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کی آمد کے بعد سے جماعت احمدیہ کا مؤقف ہی یہ ہے کہ اب کسی قسم کا جو تلوار کا جہاد ہے وہ حرام ہو چکا ہے۔ لیکن یہ بچوں کا قتل اور یہ وہ باتیں جو مَیں نے بیان کیں ۔ آج کی دنیا میں دیکھ لیں تو یہ مہذب کہلانے والے جب جنگیں کر رہے ہوتے ہیں تو یہ سب کچھ وہ خود بھی کر رہے ہیں۔
پھر آزادیٔ ضمیر کی اور آزادیٔ مذہب کی جو اسلام نے اجازت دی ہے، وہ کسی اور مذہب میں اس طرح نہیں۔
اس کے لئے مَیں یہ روایت بیان کرتا ہوں جو یہ سمجھنے کے لئے کافی ہے کہ مخالفین کے بعض گروہ آنحضرت
صلی اللہ علیہ وسلم کی رعایا بن جانے کے باوجود اپنے پرانے مذہب پر قائم رہنا چاہتے تھے۔ اس لئے اُن کے دل میں یہ سوال پیدا ہوا کہ اب ان کا کیا بنے گا۔ کیونکہ وہ جانتے تھے کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کا مطالبہ ہی یہ تھا کہ ہر انسان کو یہ حق حاصل ہونا چاہئے کہ وہ جو مذہب چاہے اختیار کر لے۔ مخالف گروہ چونکہ آپ کے اس مطالبہ کو تسلیم نہیں کرتے تھے۔ اس لئے مخالفین کو یہ خیال تھا۔ گو اسلام کی تعلیم تو یہی ہے لیکن خود اُن کا عمل کیونکہ یہ نہیں تھا اور مسلمانوں پر وہ زبردستی کیا کرتے تھے اس لئے اُن کو خوف پیدا ہو رہا تھا ۔ اس لئے جب وہ مخالفین خود مغلوب ہو گئے اور جب مسلمانوں نے اُن پر غلبہ پا لیا تو پھر اُن میں خوف پیدا ہوا لیکن آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے اُن کی خفت مٹانے کے لئے ایک بار اُنہیں مخاطب کرتے ہوئے فرمایا کہ جس اصول کو منوانے کے لئے مَیں تم سے لڑا ہوں، اُسے تمہاری مخالفت کی وجہ سے ترک نہیں کیا جائے گا۔ بیشک تم نے اپنی ظالمانہ ذہنیت کے ماتحت ایک غلط روش اختیار کی تھی لیکن حق ہر حال میں قائم رہے گا۔ جاؤ تم پر کوئی گرفت نہیں۔ تم میں سے ہر ایک مذہب کے بارہ میں آزاد ہے۔ تم ہمارے ذمّی ہو۔ اللہ اور اُس کے رسول تمہاری ہر قسم کی حفاظت کے ذمہ دار ہیں۔ تو یہ ہے آزادیٔ مذہب۔
حضرت اقدس مسیح موعود علیہ السلام فرماتے ہیں کہ اسلام پر یہ الزام لگایا جاتا ہے کہ جبر سے پھیلا تو فرمایا:
’’مَیں نہیں جانتا کہ ہمارے مخالفوں نے کہاں سے اور کس سے سن لیا کہ اسلام تلوار کے زور سے پھیلا ہے۔ خدا تو قرآنِ شریف میں فرماتا ہے۔لَا اِکْرَاہَ فِی الدِّیْن(البقرہ:257)۔ یعنی دینِ اسلام میں جبر نہیں۔ تو پھر کس نے جبر کاحکم دیا۔ اور جبر کے کونسے سامان تھے۔ اور کیا وہ لوگ جو جبر سے مسلمان کئے جاتے ہیں اُن کا یہی صدق اور یہی ایمان ہوتا ہے کہ بغیر کسی تنخواہ پانے کے، باوجود دو تین سو آدمی ہونے کے ہزاروں آدمیوں کا مقابلہ کریں اور جب ہزار تک پہنچ جاویں تو کئی لاکھ دشمن کو شکست دے دیں۔ اور دین کو دشمن کے حملہ سے بچانے کے لئے بھیڑوں بکریوں کی طرح سر کٹا دیں۔ اور اسلام کی سچائی پر اپنے خون سے مہریں کر دیں۔ اور خدا کی توحید کے پھیلانے کے لئے ایسے عاشق ہوں کہ درویشانہ طور پر سختی اُٹھا کر افریقہ کے ریگستان تک پہنچیں اور اس ملک میں اسلام کو پھیلادیں اور پھر ہر یک قسم کی صعوبت اُٹھا کر چین تک پہنچیں۔ نہ جنگ کے طور پر بلکہ محض درویشانہ طور پر‘‘۔( ان جگہوں پر جنگ سے نہیں گئے بلکہ درویشانہ طور پر گئے۔ مبلغ بن کر گئے)’’ اور اس ملک میں پہنچ کر دعوتِ اسلام کریں۔… تم اِیماناً کہو کہ کیا یہ کام اُن لوگوں کا ہے جو جبراً مسلمان کئے جاتے ہیں؟ جن کا دل کافر اور زبان مومن ہوتی ہے؟ نہیں۔ بلکہ یہ اُن لوگوں کے کام ہیں جن کے دل نورِ ایمان سے بھر جاتے ہیں اور جن کے دلوں میں خدا ہی خدا ہوتا ہے‘‘۔
(پیغام صلح روحانی خزائن جلد 23صفحہ 468-469)
پھر حضرت اقدس مسیح موعود علیہ السلام فرماتے ہیں کہ :
’’ تمام سچے مسلمان جو دنیا میں گزرے ہیں، کبھی اُن کا عقیدہ یہ نہیں ہوا کہ اسلام کو تلوار سے پھیلانا چاہئے بلکہ ہمیشہ اسلام اپنی ذاتی خوبیوں کی وجہ سے دنیا میں پھیلا ہے۔ پس جو لوگ مسلمان کہلا کر صرف یہی بات جانتے ہیں کہ اسلام کو تلوار سے پھیلانا چاہئے وہ اسلام کی ذاتی خوبیوں کے معترف نہیں ہیں اور ان کی کارروائی درندوں کی کارروائی سے مشابہ ہے‘‘۔
فرمایا ’’قرآنِ کریم میں صاف حکم ہے کہ دین کے پھیلانے کے لئے تلوار مت اُٹھاؤ اور دین کی ذاتی خوبیوں کو پیش کرو اور نیک نمونوں سے اپنی طرف کھینچو۔ اور یہ مت خیال کرو کہ ابتدا میں اسلام میں تلوار کا حکم ہوا، کیونکہ وہ تلوار دین کو پھیلانے کے لئے نہیں کھینچی گئی تھی بلکہ دشمنوں کے حملوں سے اپنے آپ کو بچانے کے لئے اور یا امن قائم کرنے کے لئے کھینچی گئی تھی۔ مگر دین کے لئے جبر کرنا کبھی مقصد نہ تھا‘‘۔
(ستارہ قیصریہ روحانی خزائن جلد 15صفحہ 120-121)
اسلام کی رواداری کے اعلیٰ معیار کیا تھے؟ اس کی مثال دیتا ہوں۔
جب رسولِ کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس نجران کا عیسائی وفد آیا تو وہ لوگ عصر کے بعد مسجدِ نبوی میں آئے اور گفتگو کرتے رہے۔ گفتگو کرتے کرتے ان کی عبادت کا وقت آ گیا۔ غالباً اتوار کا دن ہو گا۔ چنانچہ وہ وہیں مسجد میں اپنے طریق کے مطابق عبادت کرنے کے لئے کھڑے ہو گئے۔ لوگوں نے، مسلمان صحابہ نے اُس وقت چاہا کہ اُنہیں روک دیں۔ مگر رسولِ کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ایسا مت کرو۔ چنانچہ انہوں نے اسی جگہ مشرق کی طرف منہ کیا اور اپنے طریق کے مطابق عبادت کی۔ (السیرۃ النبویۃلابن ہشام صفحہ 396 امر السید والعاقب و ذکر المباھلۃ/صلاتھم الی المشرق۔ دارالکتب العلمیہ بیروت 2001ء)
پھر فتح مکّہ کا واقعہ ہے کہ طائف سے بنو ثقیف کا ایک وفد آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں حاضر ہوا۔ آپ نے اُن کے لئے مسجد میں خیمے نصب کرائے اور وہاں اُن کو ٹھہرایا۔ لوگوں نے عرض کیا کہ یا رسول اللہ! یہ پلید مشرک قوم ہے، مسجد میں ان کا ٹھہرانا مناسب نہیں۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ ارشادِ الٰہی:

اِنَّمَا الْمُشْرِکُوْنَ نَجْسٌ

میں دل کی طرف اشارہ ہے۔ جسموں کی ظاہری گندگی مراد نہیں اور نہ کوئی انسان ان معنوں میں پلید ہے۔ کیونکہ سب انسان پاک ہیں اور وہ ہر مقدس جگہ میں بلا روک ٹوک جا سکتے ہیں۔
(احکام القرآن للجصاص جلد 4صفحہ 279 سورۃ التوبۃ زیر آیت ما کان للمشرکین ان یعمروا مساجداللہ… بحوالہ المکتبۃ الشاملۃcd)
اب انسان کون کون سے واقعات آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے بیان کرے۔
ایک اور واقعہ بیان کرتاہوں۔ اس کے سننے کے بعد تو کوئی گنجائش نہیں رہتی کہ انسان کہے کہ اسلام جبر سے پھیلا ہے یا جبر کا حکم دیتا ہے۔
صفوان بن امیہ مشرکینِ مکہ کے اُن سرداروں میں سے تھا جو عمر بھر مسلمانوں سے لڑائیاں کرتے رہے۔ فتح مکہ کے موقع پر اُس نے عکرمہ کے ساتھ مل کر مسلمانوں کے اعلانِ امن کے باوجود خالد بن ولید کے دستے پر حملہ کیا لیکن پھر بھی آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے ان لوگوں کے لئے کوئی خاص سزا کا اعلان نہیں فرمایا۔ مکّہ فتح ہونے کے بعد عکرمہ بھی اور یہ لوگ بھی خوفزدہ تھے، شرمندہ بھی تھے تو یمن کی طرف بھاگ کھڑے ہوئے۔ کیونکہ صفوان اپنے جرائم سے خوب واقف تھا اور اس کا یہ خیال تھا کہ اس کی معافی کی کوئی صورت نہیں ہے۔ تو اُس کے چچا حضرت عمیر بن وہب نے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں حاضر ہو کر عرض کیا کہ یا رسول اللہ! آپ نے تو ہر کالے گورے کو اَمان دے دی ہے۔ اپنے چچا زاد بھائی کا بھی خیال رکھیں، اُس کو بھی معاف کر دیں۔ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ ٹھیک ہے معاف کیا۔ اس بات پر وہ صفوان کے پاس گئے اور اُس کو معافی کی خبر دی۔ وہ یمن کی طرف جا رہا تھا، راستے میں پکڑ لیا۔ تو اُس کو یقین نہیں آتا تھا کہ میری معافی ہو سکتی ہے۔ اُس کے کرتوت ایسے تھے کہ جو بظاہر ناقابل معافی تھے۔ وہ حضرت عمیرؓ کو کہہ رہے تھے کہ جھوٹ بول رہے ہو، پرے ہٹ جاؤ، میری نظروں سے دُور ہو جاؤ۔ مجھے کس طرح معافی مل سکتی ہے؟ مجھے تو مسلمانوں سے اپنی جان کا خطرہ ہے۔ حضرت عمیرؓ نے اُسے سمجھایا کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم تمہارے تصور سے بھی کہیں بہت زیادہ احسان کرنے والے ہیں۔ اور حلیم اور کریم ہیں۔ اور اُن کی عزت تمہاری عزت اور اُن کی حکومت تمہاری حکومت ہے۔ اس یقین دہانی پر صفوان نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں حاضر ہوا اور آتے ہی پہلا سوال یہ کیا کہ کیا آپ نے مجھے امان دی ہے۔ رسولِ خدا صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ ہاں مَیں نے تمہیں اَمان دی ہے۔ پھر صفوان نے عرض کیا کہ مجھے دو ماہ کی مہلت دیں کہ اپنے مذہب پر قائم رہوں۔ (یعنی میں اسلام نہیں لاؤں گا) نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا تم دو ماہ کی مہلت مانگتے ہو مَیں تمہیں چار مہینے کی مہلت دیتا ہوں۔ تو یوں آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے اعلیٰ درجہ کا جو حسنِ سلوک تھا اور جو خُلقِ عظیم تھا، اُس کی ایک شاندار مثال قائم فرمائی۔ تو یہ جو مہلت اُس کو دی گئی تھی، اُس نے جب (اس میں) آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کا یہ حسنِ سلوک اور آپؐ کی سخاوت دیکھی تو وہ چند دن کے بعد ہی مسلمان ہو گیا اور اُس کا واقعہ بھی اس طرح ہوا کہ محاصرہ طائف سے واپسی پر جب حضور ایک وادی کے پاس سے گزرے۔ تو یہ صفوان بھی ساتھ تھا۔ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے مال ریوڑ وغیرہ وہاں اُس وادی میں چَر رہے تھے۔ سو صفوان حیران ہو کر اور بڑی لالچ سے اُس ریوڑ کو دیکھنے لگا۔ تو آنحضور صلی اللہ علیہ وسلم نے اُس کی نظر کو پہچان لیا اور فرمایا کہ اے صفوان! کیا یہ جانور تجھے بہت اچھے لگ رہے ہیں۔ اُس نے کہا ہاں۔ آپ نے فرمایا جاؤ یہ سب تمہیں بخش دئیے۔ صفوان بے اختیار کہہ اُٹھا کہ خدا کی قسم! اتنی بڑی عطا اتنی خوشدلی سے سوائے نبی کے کوئی نہیں کر سکتا۔ اور اُسی وقت کلمہ پڑھ کر مسلمان ہو گیا۔ (السیرۃ الحلبیۃ وھو الکتاب المسمی انسان العیون فی سیرۃ الامین والمأمون۔ جلد 3صفحہ 135۔ باب ذکر مغازیہ ﷺ/فتح مکۃ شرفھا اللہ تعالی دارالکتب العلمیہ بیروت 2002ء)
تو یہ اسلامی تعلیم کے وہ اعلیٰ معیار، وہ نظارے ہیں جو اس زمانے میں دوبارہ حضرت اقدس مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام نے ہمیں سکھائے اوران پرعمل کرنے کی تلقین فرمائی تا کہ تمام دنیا میں محبت، رواداری اور بھائی چارے کی فضا پیدا ہو جائے اور قائم ہو جائے اور انشاء اللہ تعالیٰ اسی عزم کے ساتھ جماعت احمدیہ ساری دنیا میں پیغام پہنچا رہی ہے۔
تو یہ اسلامی تعلیم کے وہ چند پہلو ہیں جن کا مَیں نے مختصراً ذکر کیا ہے۔ اور بہت سارے پہلو ہیں جن کی مثالیں دی جا سکتی ہیں لیکن وقت کے لحاظ سے اتنا ہی بیان کرسکتا تھا۔ اور یہ وہ چند پہلو ہیں جن کی آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے ہمیشہ تلقین کی اور اپنے عمل سے ان پر عمل پیرا ہو کر دکھایا۔ جیسا کہ مَیں نے کہا آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی زندگی ان اعلیٰ اقدار اور اخلاق سے بھری پڑی ہے لیکن وقت کی رعایت کی وجہ سے مَیں بیان نہیں کر سکتا۔ اور ان اعلیٰ اخلاق اور اقدار کی مثالیں ہمیں صرف آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی ذات میں ہی نظر نہیں آتیں بلکہ آپ کی قوتِ قدسی اور تربیت کا اثر یہ تھا کہ یہ اعلیٰ اخلاق اور یہ اعلیٰ معیار آپ کے صحابہ میں بھی پائے جاتے تھے۔ اس لحاظ سے مَیں توجہ دلانا چاہتا ہوں کہ ایک احمدی کا عمل بھی اپنے آقا و مطاع صلی اللہ علیہ وسلم کی پیروی میں یہی ہونا چاہئے اور ہر غیر جو دیکھنے والا ہے وہ احمدی کو دیکھ کر یہ کہے کہ اسلام کا اصل، صحیح اور ٹھیٹھ نمونہ اگر دیکھنا ہے تو ان احمدیوں میں دیکھو۔ ان احمدیوں میں تلاش کرو۔
حضرت اقدس مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کی جو ہم سے توقعات ہیں اور جیسا وہ ہمیں دیکھنا چاہتے ہیں، اس کے بارے میں آپ کے الفاظ میں کچھ بیان کرتا ہوں۔ اور ہر احمدی کی کوشش ہونی چاہئے کہ وہ ان پر عمل کرے۔ حضورؑ فرماتے ہیں کہ :
’’سو اے دوستو! اس اصول کو محکم پکڑو۔ ہر ایک قوم کے ساتھ نرمی سے پیش آؤ۔ نرمی سے عقل بڑھتی ہے اور بردباری سے گہرے خیال پیدا ہوتے ہیں۔ اور جو شخص یہ طریق اختیار نہ کرے وہ ہم میں سے نہیں ہے۔ اگر کوئی ہماری جماعت میں سے مخالفوں کی گالیوں اور سخت گوئی پر صبر نہ کرسکے تو اس کا اختیار ہے کہ عدالت کے رُو سے چارہ جوئی کرے۔ مگر یہ مناسب نہیں ہے کہ سختی کے مقابل سختی کر کے کسی مفسدہ کو پیدا کریں‘‘۔ (یعنی سختیوں کی وجہ سے کوئی فساد پیدا کرے) ’’یہ تو وہ وصیّت ہے جو ہم نے اپنی جماعت کو کر دی۔ اور ہم ایسے شخص سے بیزار ہیں اور اس کو اپنی جماعت سے خارج کرتے ہیں جو ان پر عمل نہ کرے‘‘۔ (کتاب البریہ روحانی خزائن جلد 13 صفحہ 17)
پھر آپ فرماتے ہیں کہ:
’’مَیں دیکھتا ہوں کہ بہت سے ہیں جن میں اپنے بھائیوں کے لئے کچھ بھی ہمدردی نہیں۔ اگر ایک بھائی بھوکا مرتا ہو تو دوسرا توجہ نہیں کرتا اور اس کی خبر گیری کے لئے تیار نہیں ہوتا۔ یا اگر وہ کسی اور قسم کی مشکلات میں ہے تو اتنا نہیں کرتے کہ اُس کے لئے اپنے مال کا کوئی حصہ خرچ کریں۔ حدیث شریف میں ہمسایہ کی خبر گیری اور اس کے ساتھ ہمدردی کا حکم آیا ہے بلکہ یہاں تک بھی ہے کہ اگر تم گوشت پکاؤ تو شوربا زیادہ کر لو تا کہ اُسے بھی دے سکو۔ اب کیا ہوتا ہے اپنا ہی پیٹ پالتے ہیں لیکن اُس کی کچھ پروانہیں۔ یہ مت سمجھو کہ ہمسایہ سے اتنا ہی مطلب ہے جو گھر کے پاس رہتا ہو بلکہ جو تمہارے بھائی ہیں وہ بھی ہمسایہ ہی ہیں، خواہ وہ سو کوس کے فاصلے پر بھی ہوں‘‘۔ (ملفوظات جلد چہارم صفحہ 215۔ ایڈیشن 2003ء۔ مطبوعہ ربوہ)
پھر آپ فرماتے ہیں کہ اللہ تعالیٰ کے’’ بندوں پر رحم کرو اور ان پر زبان یا ہاتھ یا کسی تدبیر سے ظلم نہ کرو اور مخلوق کی بھلائی کی کوشش کرتے رہو۔ اور کسی پر تکبر نہ کروگو اپنا ماتحت ہو۔ اور کسی کو گالی مت دو گو وہ گالی دیتا ہو۔ غریب اور حلیم اور نیک نیت اور مخلوق کے ہمدرد بن جاؤ تا قبول کئے جاؤ۔ …بڑے ہو کر چھوٹوں پر رحم کرو، نہ اُن کی تحقیر۔ اور عالِم ہو کر نادانوں کو نصیحت کرو، نہ خود نمائی سے اُن کی تذلیل۔ اور امیر ہوکر غریبوں کی خدمت کرو ،نہ خود پسندی سے اُن پر تکبر۔ ہلاکت کی راہوں سے ڈرو‘‘۔ (کشتی نوح روحانی خزائن جلد 19 صفحہ 11-12)
پھر آپ نے اپنی جماعت کو متنبہ کرتے ہوئے فرمایاکہ :
’’چاہئے کہ کسی مذہب اور کسی قوم اور کسی گروہ کے آدمی کو نقصان رسانی کا ارادہ مت کرو۔ اور ہر ایک کے لئے سچے ناصح بنو اور چاہئے کہ شریروں اور بدمعاشوں اور مفسدوں اور بدچلنوں کو ہرگز تمہاری مجلس میں گزر نہ ہو اور نہ تمہارے مکانوں میں رہ سکیں کہ وہ کسی وقت تمہاری ٹھوکر کا موجب ہوں گے‘‘۔ فرمایا’’ یہ وہ امور اور وہ شرائط ہیں جو مَیں ابتدا سے کہتا چلا آیا ہوں۔ میری جماعت میں سے ہر ایک فرد پر لازم ہو گا کہ ان تمام وصیتوں کے کاربند ہوں۔ اور چاہئے کہ تمہاری مجلسوں میں کوئی ناپاکی اور ٹھٹھے اور ہنسی کا مشغلہ نہ ہو اور نیک دل اور پاک طبع اور پاک خیال ہو کر زمین پر چلو۔ اور یاد رکھو کہ ہر ایک شر مقابلہ کے لائق نہیں ہے۔ اس لئے لازم ہے کہ اکثراوقات عفو اور درگزر کی عادت ڈالو اور صبر اور حلم سے کام لو اور کسی پر ناجائز طریق سے حملہ نہ کرو۔ اور جذباتِ نفس کو دبائے رکھو ۔اور اگر بحث کرو یا کوئی مذہبی گفتگو ہو تو نرم الفاظ اور مہذبانہ طریق سے کرو۔ اور اگر کوئی جہالت سے پیش آوے تو سلام کہہ کر ایسی مجلس سے جلد اُٹھ جاؤ‘‘۔ پھر فرمایا کہ’’ تم پنجوقتہ نماز اور اخلاقی حالت سے شناخت کئے جاؤ گے اور جس میں بدی کا بیج ہے وہ اس نصیحت پر قائم نہیں رہ سکے گا‘‘۔
(مجموعہ اشتہارات جلد دوم صفحہ 221 اشتہار بعنوان ’’اپنی جماعت کو متنبہ کرنے کے لیے ایک ضروری اشتہار‘‘ اشتہار نمبر 191مطبوعہ ربوہ)
آپ مسلمانوں سے بھی، اپنوں سے بھی، غیروں سے بھی، دوسرے مذہب والوں سے بھی ہمدردی کے بارے میں فرماتے ہیں کہ:
’’پس مخلوق کی ہمدردی ایک ایسی شئے ہے کہ اگر انسان اُسے چھوڑ دے اور اُس سے دُور ہوتا جاوے تو رفتہ رفتہ پھر وہ درندہ ہو جاتا ہے۔ انسان کی انسانیت کا یہی تقاضا ہے اور وہ اُسی وقت تک انسان ہے جب تک اپنے دوسرے بھائی کے ساتھ مروت، سلوک اور احسان سے کام لیتا ہے۔ اور اس میں کسی قسم کی تفریق نہیں ہے‘‘۔ فرمایا کہ’’ یاد رکھو ہمدردی کا دائرہ میرے نزدیک بہت وسیع ہے۔ کسی قوم اور فرد کو الگ نہ کرے۔ میں آجکل کے جاہلوں کی طرح یہ نہیںکہنا چاہتا کہ تم اپنی ہمدردی کو صرف مسلمانوں سے ہی مخصوص کرو۔ نہیں۔مَیں کہتا ہوں کہ تم خدا تعالیٰ کی ساری مخلوق سے ہمدردی کرو خواہ وہ کوئی ہو۔ ہندوہو یا مسلمان ہو یا کوئی اَور۔مَیں کبھی ایسے لوگوں کی باتیں پسند نہیں کرتا جو ہمدردی کو صرف اپنی ہی قوم سے مخصوص کرنا چاہتے ہیں۔ …یاد رکھو کہ خدا تعالیٰ نیکی کو بہت پسند کرتا ہے اور وہ چاہتا ہے کہ اس کی مخلوق سے ہمدردی کی جاوے۔ اگر وہ بدی کو پسند کرتا تو بدی کی تاکید کرتا۔ مگر اللہ تعالیٰ کی شان اس سے پاک ہے۔ سبحانہٗ تعالیٰ شانُہٗ ‘‘۔ پھر فرمایا ’’ پس تم جو میرے ساتھ تعلق رکھتے ہو یاد رکھو کہ تم ہر شخص سے خواہ وہ کسی مذہب کا ہو، ہمدردی کرو اور بلا تمیز ہرایک سے نیکی کروکیونکہ یہی قرآنِ شریف کی تعلیم ہے۔

وَیُطْعِمُوْنَ الطَّعَامَ عَلٰی حُبِّہٖ مِسْکِیْنًا وَّیَتِیْمًا وَّاَسِیْرًا(الدھر:9)‘‘۔

فرمایا کہ‘‘ وہ اسیر اور قیدی جو آتے تھے اکثر کفّار ہی ہوتے تھے۔(ملفوظات جلد چہارم صفحہ 216 تا 219 ۔ ایڈیشن 2003ء۔ مطبوعہ ربوہ)
تو یہ وہ خوبصورت تعلیم ہے جو حضرت اقدس مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام ہمیں دے رہے ہیں۔ اللہ تعالیٰ ہم سب کو حضرت اقدس مسیح موعود علیہ السلام کی نصائح پر عمل کرنے والا بنائے۔ ہمیں صحیح معنوں میں عباد الرحمن بننے کی توفیق عطا فرمائے اور ہم میں سے ہر ایک ہر وقت خدمتِ خلق اور خدمتِ انسانیت کے لئے تیار ہو۔ اللہ کرے کہ ایسا ہی ہو۔ اللہ تعالیٰ تمام دنیا کو انسانی زندگی کی اہمیت کا احساس دلائے اور دنیا میں امن، سلامتی اور بھائی چارے کی فضاپیدا ہو۔
قادیان میں جو لوگ اس وقت جلسہ سننے کے لئے آئے ہوئے ہیں، بیٹھے ہوئے ہیں، (رابطہ تو ٹھیک ہے۔) اب اُن کے لئے اللہ تعالیٰ اُن سب شاملین کو ویسے تو اس وقت ایم ٹی اے کے ذریعہ سے اللہ تعالیٰ کے فضل سے دنیا میں ہر جگہ لوگ جلسہ میں شامل ہیں، لیکن اس وقت جو قادیان میں لوگ موجود ہیں اللہ تعالیٰ سب کو) جلسہ کی برکات سے فیضیاب فرمائے اور ان تین دنوں میں دیارِ مسیح میں پہنچ کر جن روحانی فیوض سے ان سب نے فیض حاصل کیا ہے، اللہ تعالیٰ اُن کی نسلوں میں بھی یہ فیض ہمیشہ جاری رکھے اور ان دنوں میں وہاں آئے ہوئے لوگوں کو جو دعاؤں کی توفیق ملی ہے، شاملین کو جو دعاؤں کی توفیق ملی ہے، اللہ تعالیٰ اُنہیں قبول فرمائے۔ اللہ تعالیٰ اُن سب شاملین کو حضرت اقدس مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کی جلسہ میں شامل ہونے والوں کے لئے جو دعائیں ہیں،اُن کا وارث بنائے ۔اور آپ سب کو اسلام اور احمدیت کی پیاری تعلیم کو، اس امن پسند تعلیم کو دنیا میں پھیلانے کی توفیق عطا فرمائے جو آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے ہم تک پہنچائی اور جس پر مسلمانوں کو عمل کرنے کی نصیحت فرمائی اور توقع فرمائی۔ اللہ تعالیٰ سب شاملینِ جلسہ کو جو اس وقت قادیان میں موجود ہیں، خیر و عافیت سے اپنے گھروں میں لے جائے۔ اللہ تعالیٰ کے فضل سے وہ خیریت سے اپنے گھروں کو پہنچیں اور ہمیشہ اللہ تعالیٰ اُن کی حفاظت فرماتا رہے۔
اب دعا ہو گی لیکن ایک چھوٹی سی بات اور مَیں عرض کرنا چاہتا ہوں۔ گزشتہ دنوں ایران میں ایک خوفناک زلزلہ آیا ہے اور بڑی تباہی پھیلی ہے۔ ہمدردی کا تقاضا یہ ہے کہ اُن کے لئے دعائیں بھی کی جائیں اور مالی مدد بھی۔ میرا خیال ہے کہ مختلف ملکوں میں بہرحال کوئی ایسے طریقۂ کار رائج ہوئے ہوں گے جو مدد اُن تک پہنچ سکے۔ تو ہر ملک میں جو امراء ہیں وہ اپنے اپنے حالات کے مطابق جائزہ لے کر کوئی لائحہ عمل تجویز کریں اور ان لوگوں کی، آفت زدہ لوگوں کی ،خدمت کی کوشش کریں۔ اللہ تعالیٰ توفیق عطا فرمائے۔ آمین۔
اس موقعہ پر حضور انور نے منتظمین سے استفسار فرمایا کہ اس کے بعد تو کوئی رپورٹ نہیں آئی؟ ایم ٹی اے کی کوالٹی اور تعداد کے بارے میں تو کوئی رپورٹ نہیں؟ پھر فرمایا:
اُن کی تعداد کی پہلی رپورٹ یہ تھی کہ لوگ آ رہے ہیں۔ اس کے مطابق اُن کا اندازہ تھا کہ اللہ کے فضل سے پچاس ہزار تک حاضری پہنچ جائے گی۔اب پہنچی ہے یا نہیں، بہرحال ابھی تک اس کی رپورٹ نہیں آئی۔ لیکن جو بھی ہے قادیان کے لحاظ سے یہ بہت بڑی تعداد ہے اور الیکٹرانک اور پرنٹ میڈیا جتنا ہے ، جو پریس ہے وہ اللہ تعالیٰ کے فضل سے جلسہ کو بڑی کوریج دے رہا ہے ۔ اور سات ٹی وی چینلز بھی جلسہ کی کوریج دے رہے ہیں، الحمد للہ۔ اور وہاں کے منسٹر اور دوسرے جو اچھے لوگ ہیں وہ بھی جلسہ میں خود حاضر ہوئے یا پیغامات پہنچائے۔ بہر حال اللہ تعالیٰ ان سب کو جزا دے جو کھلے دل سے مذہب کی تفریق کے بغیر انسانیت کے جذبے سے کام کرنے والے ہیں۔ اب دعا کر لیں۔

50% LikesVS
50% Dislikes

اپنا تبصرہ بھیجیں