حضرت خلیفۃ المسیح الخامس ایدہ اللہ تعالیٰ کا جلسہ سالانہ برطانیہ 2003ء پر اختتامی خطاب

(نوٹ: سیدنا حضرت خلیفۃالمسیح الخامس ایدہ اللہ تعالیٰ کے پرمعارف خطبات و خطابات قرآن کریم، احادیث مبارکہ اور حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے ارشادات کی لطیف تفسیر ہیں- چنانچہ دوستوں کی خواہش پر ویب سائٹ ’’خادم مسرور‘‘ میں حضورانور ایدہ اللہ تعالیٰ کے ارشاد فرمودہ تمام خطبات جمعہ اور خطابات upload کئے جارہے ہیں تاکہ تقاریر اور مضامین کی تیاری کے سلسلہ میں زیادہ سے زیادہ مواد ایک ہی جگہ پر باآسانی دستیاب ہوسکے)

أَشْھَدُ أَنْ لَّا إِلٰہَ اِلَّا اللہُ وَحْدَہٗ لَا شَرِیْکَ لَہٗ وَأَشْھَدُ أَنَّ مُحَمَّدًا عَبْدُہٗ وَ رَسُوْلُہٗ۔
أَمَّا بَعْدُ فَأَعُوْذُ بِاللہِ مِنَ الشَّیْطٰنِ الرَّجِیْمِ- بِسْمِ اللہِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِیْمِ۔
اَلْحَمْدُ لِلہِ رَبِّ الْعَالَمِیْنَ۔ اَلرَّحْمٰنِ الرَّحِیْمِ۔مٰلِکِ یَوْمِ الدِّیْنِ ۔ اِیَّا کَ نَعْبُدُ وَ اِیَّاکَ نَسْتَعِیْنُ۔
اِھْدِنَا الصِّرَاطَ الْمُسْتَقِیْمَ۔صِرَاطَ الَّذِیْنَ اَنْعَمْتَ عَلَیْھِمْ غَیْرِالْمَغْضُوْبِ عَلَیْھِمْ وَلَاالضَّآلِّیْنَ۔

بعض دوستوں کے خطوط آئے ہیں کہ ہم نے تجدید بیعت تو کرلی ہے اور ہم نے شرائط بیعت پر پابندی کرنے کا اقرار اور عہدبھی کیا ہے۔ لیکن ہمیں پوری طرح ادراک نہیں اور نہ ہمیں پتہ ہے کہ وہ بیعت کی دس شرائط کیاہیں جن کو ہم نے ما ننا ہے۔ مجھے خیال آیا اور مَیں نے محسوس کیا کہ بہتر ہے کہ آج جلسہ کے موقع پر ہی اس عنوان پر کچھ کہوں ۔ چونکہ کافی لمبا مضمون ہے تمام شرائط کا احاطہ کرنا تویہاں مشکل ہے لیکن چند ایک کے بارہ میں کچھ تفصیل بتاؤں گا اور پھر آئندہ انشاء اللہ یہ مضمون خطبے میں یا کسی اور موقع پر پیش کروںگا۔

بیعت کیا ہے
سب سے پہلی بات تو یہ ہے کہ بیعت ہے کیا۔ اس کی وضاحت میں احادیث اور حضرت اقدس مسیح موعود علیہ السلام کے اقتباسات سے کرتاہوں۔
حضور علیہ السلام فرماتے ہیں:’’یہ بیعت جو ہے اس کے معنے اصل میں اپنے تئیں بیچ دینا ہے۔ اس کی برکات اور تاثیرات اسی شرط سے وابستہ ہیں جیسے ایک تخم زمین میں بویا جاتا ہے تو اس کی ابتدائی حالت یہی ہوتی ہے کہ گویا وہ کسان کے ہاتھ سے بویا گیا اور اس کا کچھ پتہ نہیں کہ اب وہ کیا ہوگا۔ لیکن اگر وہ تخم عمدہ ہوتا ہے اور اس میں نشوونما کی قوت موجود ہوتی ہے تو خدا کے فضل سے اور اس کسان کی سعی سے وہ اُوپر آتا ہے اور ایک دانہ کا ہزار دانہ بنتا ہے۔ اسی طرح سے انسان بیعت کنندہ کو اوّل انکساری اور عجز اختیار کرنی پڑتی ہے اور اپنی خودی اور نفسانیت سے الگ ہونا پڑتا ہے تب وہ نشوونما کے قابل ہوتا ہے لیکن جو بیعت کے ساتھ نفسانیت بھی رکھتا ہے اُسے ہرگز فیض حاصل نہیں ہوتا۔‘‘
(ملفوظات۔ جلد ششم۔ صفحہ ۱۷۳)

بیعت سے مراد خدا تعالیٰ کو جان سپرد کرنا ہے
پھر آپؑ فرماتے ہیں:’’بیعت سے مراد خدا تعالیٰ کو جان سپرد کرنا ہے۔ اس سے مراد یہ ہے کہ ہم نے اپنی جان آج خدا تعالیٰ کے ہاتھ بیچ دی۔ یہ بالکل غلط ہے کہ خدا تعالیٰ کی راہ میں چل کر انجامکار کوئی شخص نقصان اٹھاوے۔ صادق کبھی نقصان نہیں اٹھا سکتا۔ نقصان اسی کا ہے جو کاذب ہے۔ جو دنیا کے لئے بیعت کو اور عہد کو جو اللہ تعالیٰ سے اس نے کیا ہے توڑ رہا ہے۔ وہ شخص جو محض دنیا کے خوف سے ایسے امور کا مرتکب ہو رہا ہے، وہ یاد رکھے بوقت موت کوئی حاکم یا بادشاہ اُسے نہ چھڑا سکے گا۔ اس نے احکم الحاکمین کے پاس جانا ہے جو اُس سے دریافت کرے گا کہ تُو نے میرا پاس کیوں نہیں کیا؟ اس لئے ہر مومن کے لئے ضروری ہے کہ خدا جو مَلِک السمٰوات والارض ہے اس پر ایمان لاوے اور سچی توبہ کرے۔‘‘
(ملفوظات۔ جلد ہفتم۔ صفحہ ۲۹-۳۰)
حضرت اقدس مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام کے ان ارشادات سے واضح ہے کہ بیعت چیز کیاہے ۔اگر ہم میں سے ہر ایک یہ بات سمجھ جائے کہ میری ذات اب میری اپنی ذات نہیں رہی ۔اب ہمیں بہرحال اللہ تعالیٰ کے احکامات کی پابندی کرنی ہوگی ، ان کا تابع ہونا ہوگا اور ہمار ا ہر فعل خدا تعالیٰ کی رضا کے لئے ہوگا تویہی خلاصہ ہے دس شرائط بیعت کا ۔
اب مَیں مختلف احادیث پیش کرتاہوں جن میں بیعت کے متعلق مختلف الفاظ ملتے ہیں۔
عائذ اللہ بن عبد اللہ روایت کرتے ہیں کہ عبادہؓ بن صامت ان صحابہ میں سے تھے جنہوں نے غزوۂ بدر میں شمولیت اختیارکی اور جنہوں نے بیعت عقبہ میں شمولیت اختیار کی تھی۔ عبادہؓ بن صامت نے انہیں بتایا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم نے یہ بات اس وقت فرمائی جب آپ کے گرد صحابہ کی ایک جماعت موجود تھی کہ آؤ میری اس شرط پر بیعت کرو ’’ اَلَّا تُشْرِکُوْا بِاللّٰہِ شَیْئًا‘‘ کہ تم اللہ کا کسی چیز کو بھی شریک نہ قرار دوگے اور نہ تم چوری کروگے اور نہ ہی تم زنا کروگے اور نہ تم اپنی اولاد کو قتل کرو گے اور نہ تم بہتان طرازی کروگے اور نہ ہی تم کسی معروف بات میں میری نافرمانی کروگے۔
پس تم میں سے جس نے اس عہد بیعت کو پورا کر دکھایا تو اس کو اجر دینا اللہ تعالیٰ کے ذمہ ہے۔ اور جس نے اس عہد میں کچھ بھی کمی کی اور اس کی اسے دنیا میں سزا مل گئی تو یہ سزا ا س کے لئے کفاّرہ بن جائے گی۔اور جس نے ا س عہد بیعت میں کچھ کمی کی پھر اللہ تعالیٰ نے اس کی پردہ پوشی فرمائی تو اس کا معاملہ اللہ تعالیٰ کے ہاتھ میں ہے۔ اگر چاہے تو اسے سزا دے اور اگر وہ پسند فرمائے گا تو اس سے درگزر فرمائے گا۔
( صحیح بخاری۔ کتاب مناقب الانصار۔ باب وفود الانصار الی النبی ؐ بمکۃ وبیعۃ العقبۃ)
پھر ایک حدیث ہے۔حضرت عبادہ بن صامت ؓ روایت کرتے ہیں کہ ہم نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم کی بیعت اس شرط پر کی کہ ہم سنیں گے اور اطاعت کریں گے ، آسانی میں بھی اورتنگی میں بھی ، خوشی میں بھی اور رنج میں بھی اور ہم اُولوالامر سے نہیں جھگڑیں گے اور جہاں کہیں بھی ہم ہوں گے حق پر قائم رہیں گے اور کسی ملامت کرنے والے کی ملامت سے نہیں ڈریں گے۔
(سنن النسائی، کتاب البیعۃ۔ باب البیعۃ علی السمع والطاعۃ)
ام المومنین حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا روایت کرتی ہیں کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ و سلم آیت کریمہ

یَااَیُّھَا النَّبِیُّ اِذَا جَآءکَ الْمُوْمِنٰتُ یُبَایِعْنَکَ عَلٰٓی اَنْ لَّا یُشْرِکْنَ بِاللّٰہِ شَیْئًا وَ لَایَسْرِقْنَ وَ لَایَزْنِیْنَ وَلَایَقْتُلْنَ اَوْلَادَھُنَّ وَلَایَاْتِیْنَ بِبُھْتَانٍ یَّفْتَرِیْنَہٗ بَیْنَ اَیْدِیْھِنَّ وَ اَرْجُلِھِنَّ وَلَایَعْصِیْنَکَ فِیْ مَعْرُوْفٍ فَبَایِعْھُنَّ وَاسْتَغْفِرْلَھُنَّ اللّٰہَ۔ اِنَّ اللّٰہَ غَفُوْرٌ رَّحِیْمٌ۔

(یعنی اے نبی ! جب تیرے پاس عورتیں مسلمان ہو کر آئیں اور بیعت کرنے کی خواہش کریں ‘ اس شرط پر کہ وہ اللہ کا شریک کسی کو نہیں قرار دیں گی اور نہ ہی چوری کریں گی اور نہ ہی زنا کریں گی اور نہ ہی اولاد کو قتل کریں گی اور نہ ہی کوئی جھوٹا بہتان کسی پر باندھیں گی۔ اور نیک باتوں میں تیری نافرمانی نہیں کریں گی۔ تو ان کی بیعت لے لیا کر‘ اور ان کے لئے استغفار کیا کر۔ اللہ بہت بخشنے والا (اور) بے حد رحم کرنے والا ہے) کے مطابق عورتوں کی بیعت لیتے تھے۔
حضرت عائشہ ؓ فرماتی ہیں کہ بیعت لیتے وقت رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا دست مبارک کسی عورت کے ہاتھ سے مس نہ ہوتا تھا سوائے اس عورت کے جو آپ کی اپنی ہوتی۔
( صحیح بخاری۔ کتاب الاحکام۔ باب بیعۃ النساء)
حضرت اقدس مسیح موعود علیہ السلام کی بیعت لینے کے آغاز سے قبل بعض نیک فطرت اور اسلام کا درد رکھنے والے بزرگوں کو یہ احسا س تھاکہ اس وقت اسلام کی اس ڈولتی کشتی کو ڈوبنے سے بچانے والا اور اسلام کا صحیح درد رکھنے والا اگر کوئی شخص ہے تووہ حضرت مرزا غلام احمد صاحب قادیانی ہی ہیں اور یہی مسیح ومہدی بھی ہیں ۔ چنانچہ لوگ آپ سے درخواست کیا کرتے تھے کہ آپ بیعت لیں لیکن حضورہمیشہ یہی جواب دیتے تھے کہ ’’ لَسْتُ بِمَامُوْرٍ‘‘ (یعنی میں مامور نہیں ہوں)۔ چنانچہ ایک دفعہ آپ نے میر عباس علی صاحب کی معرفت مولوی عبدالقادر صاحب ؓ کو صاف صاف لکھا کہ ’’ اس عاجز کی فطرت پر توحید اور تفویض الی اللہ غالب ہے اور …… چونکہ بیعت کے بارے میں اب تک خداوند کریم کی طرف سے کچھ علم نہیں۔ اس لئے تکلف کی راہ میں قدم رکھنا جائز نہیں۔

لَعَلَّ اللّٰہَ یُحْدِثُ بَعْدَ ذٰلِکَ اَمْرًا-

مولوی صاحب اخوت دین کے بڑھانے میں کوشش کریں۔ اور اخلاص اور محبت کے چشمہ صافی سے اس پودا کی پرورش میں مصروف رہیں تو یہی طریق انشاء اللہ بہت مفید ہو گا۔
(حیات احمد۔ جلد دوم۔ نمبر دوم۔ صفحہ ۱۲-۱۳)

اللہ تعالیٰ کی طرف سے بیعت لینے کا حکم
آخر چھ سات سال بعد۱۸۸۸ء کی پہلی سہ ماہی یعنی شروع کے تین مہینوں میں اللہ تعالیٰ کی طرف سے آپ کو بیعت لینے کا ارشاد ہوا۔ یہ ربانی حکم جن الفاظ میں پہنچا وہ یہ تھے۔

’’اِذَا عَزَمْتَ فَتَوَکَّلْ عَلَی اللّٰہِ وَاصْنَعِ الْفُلْکَ بِاَعْیُنِنَا وَوَحْیِنَا- اَلَّذِیْنَ یُبَایِعُوْنَکَ اِنَّمَا یُبَایِعُوْنَ اللّٰہَ یَدُاللّٰہِ فَوْقَ اَیْدِیْھِمْ‘‘-

(اشتہار یکم دسمبر ۱۸۸۸ء۔ صفحہ۲)
یعنی جب تو عزم کر لے تو اللہ تعالیٰ پر بھروسہ کر اور ہمارے سامنے اور ہماری وحی کے تحت کشتی تیار کر۔ جو لوگ تیرے ہاتھ پر بیعت کریں گے۔ اللہ تعالیٰ کا ہاتھ ان کے ہاتھ پر ہو گا۔
حضور کی جو طبیعت تھی وہ ایسی تھی کہ اس بات سے کراہت کرتی تھی کہ ہر قسم کے رطب و یابس لوگ اس سلسلہ بیعت میں داخل ہو جائیں۔ اور دل یہ چاہتا تھا کہ اس مبارک سلسلہ میں وہی مبارک لوگ داخل ہوں جن کی فطرت میں وفاداری کا مادہ ہے اور کچے نہیں ہیں۔ اس لئے آپ کو ایک ایسی تقریب کا انتظار رہا کہ جو مخلصوں اور منافقوں میں امتیاز کر دکھلائے۔ سو اللہ جل شانہ نے اپنی کمال حکمت و رحمت سے وہ تقریب اسی سال نومبر ۱۸۸۸ء میں بشیر اول کی وفات سے پیدا کر دی۔ (حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے یہ بیٹے تھے) ملک میں آپ کے خلاف ایک شور مخالفت برپا ہوا اور خام خیال بدظن ہو کر الگ ہو گئے لہٰذا آپ کی نگاہ میں یہی موقعہ اس بابرکت سلسلے کی ابتداء کے لئے موزوں قرار پایا۔ اور آپ نے یکم دسمبر ۱۸۸۸ء کو ایک اشتہار کے ذریعہ سے بیعت کا اعلان عام فرما دیا۔حضرت اقدس نے یہ بھی ہدایت فرمائی کہ استخارہ مسنونہ کے بعد بیعت کے لئے حاضر ہوں۔
(ماخوذ از اشتہار تکمیل تبلیغ۔ ۱۲؍جنوری ۱۸۸۹ء)
یعنی پہلے دعا کریں، استخارہ کریں، پھر بیعت کریں۔
اس اشتہار کے بعد حضرت اقدس قادیان سے لدھیانہ تشریف لے گئے اور حضرت صوفی احمد جان صاحبؓ کے مکان واقع محلہ جدید میں فروکش ہوئے۔
(حیات احمد۔ جلد سوم۔ حصہ اول۔ صفحہ ۱۵)

بیعت کے اغراض و مقاصد
یہاں سے آپ نے ۴؍ مارچ ۱۸۸۹ء کو ایک اور اشتہار میں بیعت کے اغراض و مقاصد پر روشنی ڈالتے ہوئے لکھا:
’’ یہ سلسلہ بیعت محض بمراد فراہمی طائفہ متقین یعنی تقویٰ شعار لوگوں کی جماعت کے جمع کرنے کے لئے ہے ۔ تا ایسا متقیوں کا ایک بھاری گروہ دنیا پر اپنا نیک اثر ڈالے اور ان کا اتفاق اسلام کے لئے برکت و عظمت و نتائج خیر کا موجب ہو۔ اور وہ ببرکت کلمہ واحدہ پر متفق ہونے کے اسلام کی پاک و مقدس خدمات میں جلد کام آسکیں اور ایک کاہل اور بخیل و بے مصرف مسلمان نہ ہوں اور نہ ان نالائق لوگوں کی طرح جنہوں نے اپنے تفرقہ و نا اتفاقی کی و جہ سے اسلام کو سخت نقصان پہنچایا ہے اور اس کے خوبصورت چہرہ کو اپنی فاسقانہ حالتوں سے داغ لگا دیا ہے اور نہ ایسے غافل درویشوں اور گوشہ گزینوں کی طرح جن کو اسلامی ضرورتوں کی کچھ بھی خبر نہیں۔ اور اپنے بھائیوں کی ہمدردی سے کچھ بھی غرض نہیں اور بنی نوع کی بھلائی کے لئے کچھ جوش نہیں بلکہ وہ ایسے قوم کے ہمدرد ہوں کہ غریبوں کی پناہ ہو جائیں ۔ یتیموں کے لئے بطور باپوں کے بن جائیں اور اسلامی کاموں کے انجام دینے کے لئے عاشق زار کی طرح فدا ہونے کو تیار ہوں اور تمام تر کوشش اس بات کے لئے کریں کہ ان کی عام برکات دنیا میں پھیلیں اور محبت الٰہی اور ہمدردی بندگان خدا کا پاک چشمہ ہر یک دل سے نکل کر اور ایک جگہ اکٹھا ہو کر ایک دریا کی صورت میں بہتا ہوا نظر آئے …… خدا تعالیٰ نے اس گروہ کو اپنا جلال ظاہر کرنے کے لئے اور اپنی قدرت دکھانے کے لئے پیدا کرنا اور پھر ترقی دینا چاہا تا دنیا میں محبت الٰہی اور توبہ نصوح اور پاکیزگی اور حقیقی نیکی اور امن اور صلاحیت اور بنی نوع کی ہمدردی کو پھیلا دے۔ سو یہ گروہ اس کا ایک خاص گروہ ہو گا اور وہ انہیں آپ اپنی روح سے قوت دے گا اور انہیں گندی زیست سے صاف کرے گا۔ اور ان کی زندگی میں ایک پاک تبدیلی بخشے گا۔ اور وہ جیسا کہ اس نے اپنی پاک پیشینگوئیوں میں وعدہ فرمایا ہے اس گروہ کو بہت بڑھائے گا اور ہزارہا صادقین کو اس میں داخل کرے گا۔ وہ خود اس کی آب پاشی کرے گا اور اس کو نشوونما دے گا ۔ یہاں تک کہ ان کی کثرت اور برکت نظروں میں عجیب ہو جائے گی اور وہ اس چراغ کی طرح جو اونچی جگہ رکھا جاتا ہے دنیا کے چاروں طرف اپنی روشنی کو پھیلائیں گے اور اسلامی برکات کے لئے بطور نمونہ کے ٹھہریں گے۔ وہ اس سلسلہ کے کامل متبعین کو ہریک قسم کی برکت میں دوسرے سلسلہ والوں پر غلبہ دے گا اور ہمیشہ قیامت تک ان میں سے ایسے لوگ پیدا ہوتے رہیں گے جن کو قبولیت اور نصرت دی جائے گی۔ اس ربّ جلیل نے یہی چاہا ہے وہ قادر ہے جو چاہتا ہے کرتا ہے۔ ہر یک طاقت اور قدرت اسی کو ہے۔ ‘‘
اسی اشتہار میں آپ نے ہدایت فرمائی کہ بیعت کرنے والے اصحاب ۲۰؍مارچ کے بعد لدھیانہ پہنچ جائیں ۔
(مجموعہ اشتہارات۔ جلد اول۔ صفحہ ۱۹۶تا ۱۹۸)

سلسلۂ بیعت کا آغاز
چنانچہ اس کے مطابق حضرت مسیح موعودعلیہ السلام نے ۲۳؍مارچ ۱۸۸۹؁ء کو صوفی احمد جان صاحب کے مکان واقع محلہ جدید میں بیعت لی اورحضرت منشی عبداللہ سنوری صاحبؓ کی روایت کے مطابق بیعت کے تاریخی ریکارڈ کے لئے ایک رجسٹر تیار کیاگیا جس کا نام ’’بیعت توبہ برائے تقویٰ و طہارت‘‘ رکھاگیا۔
اس زمانہ میں حضور علیہ السلام بیعت کرنے کے لئے ایک کمرے میںہرایک کو الگ الگ بلاتے تھے اور بیعت لیتے تھے ۔چنانچہ سب سے پہلی بیعت آپ نے حضرت مولانا نورالدین رضی اللہ عنہ کی لی۔ بیعت کرنے والوں کو نصائح فرماتے ہوئے حضرت اقدس فرماتے ہیں :
’’ اس جماعت میں داخل ہو کر اول زندگی میں تغیر کرنا چاہئے۔کہ خدا پر ایمان سچا ہو اور وہ ہر مصیبت میں کام آئے۔ پھر اس کے احکام کو نظر خفت سے نہ دیکھا جائے بلکہ ایک ایک حکم کی تعظیم کی جائے اور عملاً اس تعظیم کا ثبوت دیا جائے۔ ‘‘
’’ ہمہ وجوہ اسباب پر سرنگوں ہونا اور اسی پر بھروسہ کرنا اور خدا پر توکل چھوڑ دینا یہ شرک ہے اور گویا خدا کی ہستی سے انکار ۔ رعایت اسباب اس حد تک کرنی چاہئے کہ شرک لازم نہ آئے۔ ہمارا مذہب یہ ہے کہ ہم رعایت اسباب سے منع نہیں کرتے مگر اس پر بھروسہ کرنے سے منع کرتے ہیں ۔ دست درکار دل بایار والی بات ہونی چاہئے۔‘‘
آپ فرماتے ہیں:’’ دیکھو تم لوگوں نے جو بیعت کی ہے اور اس وقت اقرار کیا ہے اس کا زبان سے کہہ دینا تو آسان ہے لیکن نبا ہنا مشکل ہے ۔ کیونکہ شیطان اسی کوشش میں لگا رہتا ہے کہ انسان کو دین سے لاپروا کر دے۔ دنیا اور اس کے فوائد کو تو وہ آسان دکھاتا ہے اور دین کو بہت دور۔ اس طرح دل سخت ہو جاتا ہے اور پچھلا حال پہلے سے بدتر ہو جاتا ہے۔ اگر خدا کو راضی کرنا ہے تو اس گناہ سے بچنے کے اقرار کو نبھانے کے لئے ہمت اور کوشش سے تیار رہو۔ ‘‘
فرمایا:’’ فتنہ کی کوئی بات نہ کرو ۔ شر نہ پھیلاؤ۔ گالی پر صبر کرو۔ کسی کا مقابلہ نہ کرو۔ جو مقابلہ کرے اس سے بھی سلوک اور نیکی کے ساتھ پیش آؤ۔ شیریں بیانی کا عمدہ نمونہ دکھلاؤ۔ سچے دل سے ہر ایک حکم کی اطاعت کرو کہ خدا راضی ہو جائے۔ اور دشمن بھی جان لے کہ اب بیعت کر کے یہ شخص وہ نہیں رہا جو پہلے تھا۔ مقدمات میں سچی گواہی دو۔ اس سلسلہ میں داخل ہونے والے کو چاہئے کہ پورے دل ،پوری ہمت اور ساری جان سے راستی کا پابند ہو جائے۔‘‘
(ذکر حبیب۔ صفحہ ۴۳۶ تا ۴۳۸)
مارچ ۱۹۰۳ء میں ۔عید کادن تھا ،چند احباب بیٹھے ہوئے تھے ۔ آپ نے فرمایا :
’’دیکھوجس قدر آپ لوگوں نے اس وقت بیعت کی ہے(لگتاہے بیعت کے لئے لوگ آئے ہوئے تھے) اور جو پہلے کر چکے ہیں ان کو چند کلمات بطور نصیحت کے کہتاہوں۔چاہئے کہ اسے پوری توجہ سے سنیں۔‘‘
’’آپ لوگوںکی یہ بیعت ، بیعتِ توبہ ہے۔ توبہ دو طرح ہوتی ہے۔ ایک تو گزشتہ گناہوں سے یعنی ان کی اصلاح کرنے کے واسطے جو کچھ پہلے غلطیاں کر چکاہے ان کی تلافی کرے اور حتی الوسع ان بگاڑوں کی اصلاح کی کوشش کرنا اور آئندہ کے گناہوں سے باز رہنا اور اپنے آپ کو اس آگ سے بچائے رکھنا۔
اللہ تعالیٰ کا وعدہ ہے کہ توبہ سے تمام گناہ جوپہلے ہو چکے ہیں معاف ہو جاتے ہیں بشرطیکہ وہ توبہ صدق دل اور خلوص نیت سے ہو اور کوئی پوشیدہ دغا بازی دل کے کسی کونہ میں پوشیدہ نہ ہو۔وہ دلوں کے پوشیدہ اور مخفی رازوں کو جانتاہے۔ وہ کسی کے دھوکہ میں نہیں آتا۔پس چاہئے کہ اس کو دھوکہ دینے کی کوشش نہ کی جاوے اور صدق سے ، نہ نفاق سے، اس کے حضور توبہ کی جاوے۔ توبہ انسان کے واسطے کوئی زائد یا بے فائدہ چیز نہیں ہے اور اس کا اثر صرف قیامت پر ہی منحصر نہیں بلکہ اس سے انسان کی دنیا اور دین دونوسنور جاتے ہیں۔اور اسے اس جہان میں اور آنے والے جہان دونو میں آرام اور خوشحالی نصیب ہوتی ہے۔‘‘
(ملفوظات۔ جلد پنجم۔ صفحہ ۱۸۷-۱۸۸)

پہلی شرط بیعت
’’ بیعت کنندہ سچے دل سے عہداس بات کا کرے کہ آئندہ اس وقت تک کہ قبر میں داخل ہو شرک سے مجتنب رہے گا‘‘۔

خدا تعالیٰ شرک کو معاف نہیں کرے گا
اللہ تعالیٰ سورۃ النساء آیت ۴۹ میں فرماتاہے:۔

اِنَّ اللّٰہَ لَا یَغْفِرُ اَنْ یُّشْرَکَ بِہٖ وَیَغْفِرُ مَادُوْنَ ذٰلِکَ لِمَنْ یَّشَآء ۔ وَمَنْ یُّشْرِکْ بِاللّٰہِ فَقَدِ افْتَرٰٓی اِثْمًا عَظِیْمًا

اس کا ترجمہ یہ ہے کہ یقینا اللہ معاف نہیں کرے گا اس کو کہ اس کا کوئی شریک ٹھہرایا جائے اوراس کے علاوہ سب کچھ معاف کردے گا جس کے لئے وہ چاہے۔ اورجو اللہ کا شریک ٹھہرائے تو یقینا اس نے بہت بڑا گناہ افتراکیاہے۔
حضرت اقدس مسیح موعود علیہ السلام اس ضمن میں فرماتے ہیں:
’’اسی طرح خدانے قرآن میں فرمایا

وَیَغْفِرُ مَا دُوْنَ ذٰلِکَ …الخ

یعنی ہر ایک گناہ کی مغفرت ہوگی مگر شرک کوخدانہیں بخشے گا۔پس شرک کے نزدیک مت جاؤ اور اس کو حُرمت کا درخت سمجھو‘‘۔
(ضمیمہ تحفہ گولڑویہ۔ روحانی خزائن۔ جلد۱۷۔ صفحہ ۳۲۳-۳۲۴۔ حاشیہ)
پھر فرمایا:’’یہاں شرک سے صرف یہی مراد نہیں کہ پتھروں وغیرہ کی پرستش کی جائے بلکہ یہ ایک شرک ہے کہ اسباب کی پرستش کی جاوے اور معبودات دنیا پر زور دیا جاوے۔ اسی کا نام شرک ہے‘‘۔
(الحکم۔ جلد۷۔ نمبر۲۴۔ مؤرخہ ۳۰ جون ۱۹۰۳ء۔ صفحہ۱۱)
پھر قرآن شریف میں اللہ تعالیٰ فرماتاہے

وَاِذْ قَالَ لُقْمٰنُ لِابْنِہٖ وَھُوَ یَعِظُہٗ یٰـبُـنَیَّ لَا تُشْرِکْ بِاللّٰہِ ۔اِنَّ الشِّرْکَ لَظُلْمٌ عَظِیْْمٌ (لقمٰن آیت ۱۴)

اس کا ترجمہ یہ ہے :اور جب لقمان نے اپنے بیٹے سے کہا جب و ہ اسے نصیحت کررہاتھا کہ اے میرے پیارے بیٹے اللہ کے ساتھ شریک نہ ٹھہرا یقینا شرک ایک بہت بڑا ظلم ہے ۔
آنحضرت ﷺکو اپنی امت میں شرک کا خدشہ تھا۔چنانچہ ایک حدیث ہے:
عبادہ بن نسی نے ہمیں شدادبن اوس کے بارہ میں بتایا کہ وہ رو رہے تھے۔ ان سے پوچھا گیا کہ آپ کیوں رورہے ہیں؟ اس پر انہوں نے کہا ۔مجھے ایک ایسی چیز یاد آگئی تھی جو میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم سے سنی تھی اس پر مجھے رونا آگیا۔ میں نے رسول اللہﷺسے سنا تھا آپؐ نے فرمایا ۔میں اپنی امت کے بارہ میں شرک اور مخفی خواہشوں سے ڈرتا ہوں۔ راوی کہتے ہیں۔ میں نے عرض کیا یا رسول اللہ! کیا آپ کی امت آپ کے بعد شرک میں مبتلا ہو جائے گی؟ اس پر رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم نے فرمایا۔ ہاں! البتہ میری امت شمس وقمر، بتوں اور پتھروں کی عبادت تو نہیں کریں گے۔ مگر اپنے اعمال میں ریا ء سے کام لیں گے اور مخفی خواہشات میں مبتلا ہو جائیں گے۔ اگر ان میں سے کوئی روزہ دار ہونے کی حالت میں صبح کرے گا پھر اس کو اس کی کوئی خواہش معارض ہو گئی تو وہ روزہ ترک کر کے اس خواہش میں مبتلا ہو جائے گا۔
(مسند احمد بن حنبل۔ جلد۴۔صفحہ۱۲۴۔ مطبوعہ بیروت)

شرک کی مختلف اقسام
گو جس طرح اس حدیث سے ظاہر ہے کہ ظاہری شرک، بتوں، مورتیوں، چاند کی عبادت کرکے نہ بھی ہو تو ریاء اور خواہشات کی پیروی بھی شرک ہے ۔ اگر ایک ماتحت اپنے افسر کی اطاعت سے بڑھ کرخوشامد کی حد تک اس کے آگے پیچھے پھرتاہے اور خیال کرتاہے کہ اس سے میری روزی وابستہ ہے تویہ بھی شرک کی ہی ایک قسم ہے۔ اگر کسی کو اپنے بیٹوں پر ناز ہے کہ میرے اتنے بیٹے ہیں اور یہ بڑے ہو رہے ہیں اور کام پر لگ جائیں گے ، کمائیں گے ، مجھے سنبھالیں گے اوراب مَیں آرام سے اپنی بقیہ عمر گزاروں گا۔یا میرے ان جوان بیٹوں کی وجہ سے میرے شریک میرا مقابلہ نہیں کرسکیں گے۔ (برصغیر میں بلکہ ساری تیسری دنیا میں شریکے کی ایک بڑی گندی رسم ہے)۔ مکمل انحصار ان بیٹوں پر ہے ۔اور وہ ناخلف نکلتے ہیں یا کسی حادثہ میں فو ت ہوجاتے ہیں یا معذور ہو جاتے ہیں تو ایسے شخص کے تو تمام سہارے ختم ہوگئے۔
حضرت اقدس مسیح موعود علیہ السلام فرماتے ہیں:
’’توحید صرف اس بات کا نام نہیں کہ منہ سے

لَا اِلٰہَ اِلَّا اللّٰہ

کہیں اور دل میں ہزاروں بت جمع ہوں۔ بلکہ جو شخص کسی اپنے کام اور مکر اور فریب اور تدبیر کو خدا کی سی عظمت دیتا ہے یا کسی انسان پر بھروسہ رکھتا ہے جو خداتعالیٰ پر رکھنا چاہئے یا اپنے نفس کو وہ عظمت دیتا ہے جو خدا کو دینی چاہئے۔ ان سب صورتوں میں وہ خداتعالیٰ کے نزدیک بت پرست ہے۔ بت صرف وہی نہیں ہیں جو سونے یا چاندی یا پیتل یا پتھر وغیرہ سے بنائے جاتے اور ان پر بھروسہ کیا جاتا ہے بلکہ ہر ایک چیز یا قول یا فعل جس کو وہ عظمت دی جائے جو خدا تعالیٰ کا حق ہے وہ خدا تعالیٰ کی نگاہ میں بت ہے۔ …… یاد رہے کہ حقیقی توحید جس کا ا قرار خدا ہم سے چاہتا ہے اور جس کے اقرار سے نجات وابستہ ہے یہ ہے کہ خدا تعالیٰ کو اپنی ذات میں ہر ایک شریک سے خواہ بت ہو، خواہ انسان ہو، خواہ سورج ہو یا چاند ہو یا اپنا نفس یا اپنی تدبیر اور مکرفریب ہو منزہ سمجھنا اور اس کے مقابل پر کوئی قادر تجویز نہ کرنا۔ کوئی رازق نہ ماننا۔ کوئی مُعِزّ اور مُذِلّ خیال نہ کرنا۔ کوئی ناصر اور مددگار قرار نہ دینا۔ اور دوسرے یہ کہ اپنی محبت اسی سے خاص کرنا۔ اپنی عبادت اسی سے خاص کرنا۔ اپنا تذلل اسی سے خاص کرنا۔ اپنی امیدیں اسی سے خاص کرنا۔ اپنا خوف اسی سے خاص کرنا۔ پس کوئی توحید بغیر ان تین قسم کی تخصیص کے کامل نہیں ہوسکتی۔ اوّل ذات کے لحاظ سے توحید یعنی یہ کہ اس کے وجود کے مقابل پر تمام موجودات کو معدوم کی طرح سمجھنا اور تمام کو ہالکۃ الذات اور باطلۃ الحقیقت خیال کرنا۔ دوم صفات کے لحاظ سے توحید یعنی یہ کہ ربوبیت اور الوہیت کی صفات بجز ذات باری کسی میں قرار نہ دینا۔ اور جو بظاہر رب الانواع یا فیض رسان نظر آتے ہیں یہ اسی کے ہاتھ کا ایک نظام یقین کرنا۔ تیسرے اپنی محبت اور صدق اور صفا کے لحاظ سے توحید یعنی محبت وغیرہ شعار عبودیت میں دوسرے کو خدا تعالیٰ کا شریک نہ گرداننا اور اسی میں کھوئے جانا‘‘۔
(سراج الدین عیسائی کے چارسوالوں کا جواب۔ روحانی خزائن۔ جلد ۱۲ صفحہ۳۴۹-۳۵۰)
اس کی پہلے مَیں نے مختصر وضاحت کردی ہے۔
حضرت خلیفۃ المسیح الاول رضی اللہ عنہ اس ضمن میں فرماتے ہیں:
’’ اللہ تعالیٰ کے سوا اس کے کسی اسم، کسی فعل اور کسی عبادت میں غیر کو شریک کرنا، یہ شرک ہے۔ اور تمام بھلے کام اللہ تعالیٰ ہی کی رضاکے لئے کرے اس کا نام عبادت ہے۔ لوگ مانتے ہیں کہ کوئی خالق خدا تعالیٰ کے سوا نہیں۔ اور یہ بھی مانتے ہیں کہ موت اور حیات خدا تعالیٰ ہی کے ہاتھ میں اور قبضۂ اقتدار و اختیار میں ہے۔ یہ مان کر بھی دوسرے کے لئے سجدہ کرتے ہیں‘ جھوٹ بولتے ہیں اور طواف کرتے ہیں۔ عبادت الٰہی کو چھوڑ کر دوسروں کی عبادت کرتے ہیں۔ خدا تعالیٰ کے روزوں کو چھوڑ کردوسروں کے روزے رکھتے اور خداتعالیٰ کی نمازوں کی پرواہ نہ کرتے ہوئے غیر اللہ کی نمازیں پڑھتے ہیں اور ان کے لئے زکوٰتیں دیتے ہیں۔ ان اوہام باطلہ کی بیخ کنی کے لئے اللہ تعالیٰ نے محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم کو مبعوث فرمایا۔‘‘
(خطبات نور۔ صفحہ ۷-۸)

دوسری شرط بیعت
’’یہ کہ جھوٹ اور زنا اور بدنظری اور ہر ایک فسق و فجور اور ظلم اور خیانت اور فساد اور بغاوت کے طریقوں سے بچتا رہے گا اور نفسانی جوشوں کے وقت ان کا مغلوب نہیں ہو گا اگرچہ کیسا ہی جذبہ پیش آوے‘‘۔

اس ایک شرط میں نو قسم کی برائیاں بیان کی گئی ہیں کہ ہر بیعت کرنے والے کو، ہراس شخص کو جو اپنے آپ کو حضرت اقدس مسیح موعود علیہ السلام کی جماعت میں شامل ہونے کا دعویٰ کرتاہے ان برائیوں سے بچناہے۔

سب سے بڑی برائی ۔ جھوٹ
اصل میں توسب سے بڑی برائی جھوٹ ہے ۔ اس لئے جب کسی شخص نے آنحضرت ﷺ سے یہ کہاکہ مجھے کوئی ایسی نصیحت کریں جس پر مَیں عمل کرسکوں کیونکہ میرے اندر بہت ساری برائیاں ہیں اورتمام برائیوں کومَیں چھوڑ نہیں سکتا۔ آپؐ نے فرمایا کہ یہ عہد کرو کہ ہمیشہ سچ بولو گے اور کبھی جھوٹ نہیں بولو گے ۔اس وجہ سے ایک ایک کرکے اس کی ساری برائیاں چھوٹ گئیں کیونکہ جب بھی اسے کسی برائی کا خیال آیا اور ساتھ ہی یہ خیال آتاکہ جب پکڑاگیا تو آنحضرت ﷺکے سامنے پیش ہوں گا۔جھوٹ نہ بولنے کا وعدہ کیاہے ۔سچ بولا تو یاتو شرمندگی ہوگی یا سزا ملے گی۔ اس طرح آہستہ آہستہ کرکے اس کی تمام برائیاں ختم ہوگئیں۔ اصل میں تو جھوٹ ہی تمام برائیوں کی جڑ ہے۔
اب اس کی مَیں مزید وضاحت کرتاہوں۔قرآن کریم میں اللہ تعالیٰ فرماتا ہے

ذٰلِکَ وَمَنْ یُّعَظِّمْ حُرُمٰتِ اللّٰہِ فَھُوَ خَیْرٌ لَّہٗ عِنْدَ رَبِّہٖ وَاُحِلَّتْ لَکُمُ الْاَنْعَامُ اِلَّا مَا یُتْلٰی عَلَیْکُمْ فَاجْتَنِبُوْا الرِّجْسَ مِنَ الْاَوْثَانِ وَاجْتَنِبُوْاقَوْلَ الزُّوْرِ (الحج: آیت۳۱ )

اس کاترجمہ یہ ہے : اور جو بھی اُن چیزوں کی تعظیم کرے گا جنہیں اللہ نے حرمت بخشی ہے تو یہ اس کے لئے اس کے ربّ کے نزدیک بہتر ہے۔ اور تمہارے لئے چوپائے حلال کر دئیے گئے سوائے ان کے جن کا ذکر تم سے کیا جاتا ہے۔ پس بتوں کی پلیدی سے احتراز کرو اور جھوٹ کہنے سے بچو۔
یہاں شرک کے ساتھ جھوٹ بھی رکھاگیاہے۔ پھر فرمایا:

لَا لِلّٰہِ الدِّیْنُ الْخَالِصُ ۔ وَالَّذِیْنَ اتَّخَذُوْا مِنْ دُوْنِہٖ اَوْلِیَآء مَا نَعْبُدُھُمْ اِلَّا لِیُقَرِّبُوْنَا اِلَی اللّٰہِ زُلْفٰی۔ اِنَّ اللّٰہَ یَحْکُمُ بَیْنَھُمْ فِیْ مَا ھُمْ فِیْہِ یَخْتَلِفُوْنَ۔ اِنَّ اللّٰہَ لَا یَھْدِیْ مَنْ ھُوَ کٰذِبٌ کَفَّارٌ (الزمر:آیت۴)

ترجمہ :خبردار! خالص دین ہی اللہ کے شایانِ شان ہے اور وہ لوگ جنہوں نے اُس کے سوا دوست اپنا لئے ہیں (کہتے ہیںکہ) ہم اس مقصد کے سوا اُن کی عبادت نہیں کرتے کہ وہ ہمیں اللہ کے قریب کرتے ہوئے قرب کے اونچے مقام تک پہنچادیں۔ یقینا اللہ اُن کے درمیان اُس کا فیصلہ کرے گا جس میں وہ اختلاف کیا کرتے تھے۔ اللہ ہرگز اُسے ہدایت نہیں دیتا جو جھوٹا (اور) سخت ناشکرا ہو۔
صحیح مسلم میں ایک حدیث ہے۔عبداللہؓ بن عمرو ابن العاصؓ روایت کرتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا چار باتیں ایسی ہیں جو جس میں پائی جائیں وہ خالص منافق ہے۔ اورجس میں ان میں سے ایک بات پائی جائے اس میں نفاق کی ایک خصلت پائی جاتی ہے یہاں تک کہ وہ اس کو چھوڑ دے۔
(۱)جب وہ گفتگوکرتاہے توکذب بیانی سے کام لیتاہے۔ (جب وہ باتیں کررہا ہوتا ہے تواس میں جھوٹ کی ملاوٹ ہوتی ہے اور جھوٹی باتیں کررہا ہوتا ہے)۔
(۲) اورجب معاہدہ کرتاہے توغداری کامرتکب ہوتاہے۔
(۳) اور جب وعدہ کرتاہے تو وعدہ خلافی کرتاہے۔ (یہ بھی جھوٹ کی ایک قسم ہے)۔
(۴) اورجب جھگڑتاہے تو گالی گلوچ سے کام لیتاہے ۔
یہ ساری باتیں جھوٹ سے تعلق رکھنے والی ہیں۔
پھر ایک حدیث ہے۔ حضرت امام مالکؒ بیان کرتے ہیں کہ مجھے یہ بات پہنچی ہے کہ عبد اللہ بن مسعودؓ کہا کرتے تھے۔ تمہیں سچائی اختیار کرنی چاہئے کیونکہ سچائی نیکی کی طرف راہنمائی کرتا ہے اور نیکی جنت کی طرف راہنمائی کرتی ہے۔ جھوٹ سے بچو کیونکہ جھوٹ نافرمانی کی طرف لے جاتا ہے اور نافرمانی جہنم تک پہنچا دیتی ہے ۔ کیا آپ کو معلوم نہیں کہ کہا جاتا ہے کہ اس نے سچ بولا اور فرمانبردار ہو گیا اور جھوٹ بولا تو مبتلاء فجور ہو گیا۔
(مؤطا امام مالک۔ کتاب الجامع۔ باب ماجاء فی الصدق و الکذب)
پھر مسند احمد بن حنبل کی ایک حدیث ہے۔حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ روایت کرتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم نے فرمایا کہ جس نے کسی چھوٹے بچے کوکہا آؤ مَیں تمہیں کچھ دیتاہوںپھر وہ اس کو دیتاکچھ نہیں تو یہ جھوٹ میں شمار ہوگا۔
(مسند احمد بن حنبل۔ جلد ۲۔ صفحہ ۴۵۲۔ مطبوعہ بیروت)
یہ تربیت کے لئے بہت ضروری ہے ۔ بچوں کی تربیت کے لئے دیکھیں مذاق مذاق میں بھی ایسی باتیں نہیں ہونی چاہئیں۔ورنہ اسی طرح مذاق مذاق میں ہی بچوں کو بھی غلط بیانی کی عادت پڑ جاتی ہے جو آگے چل کر جب پکی عادت ہوجائے تو جھوٹ بولنے میں بھی عار نہیں سمجھتے اوراس کااحساس ہی ختم ہوجاتا ہے ۔
حضرت ابن مسعود رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ آنحضرت ﷺنے فرمایا سچائی نیکی کی طرف لے جاتی ہے اورنیکی جنت کی طرف۔ اور جو انسان ہمیشہ سچ بولے اللہ تعالیٰ کے نزدیک وہ صدیق لکھا جاتاہے اورجھوٹ گناہ اورفسق وفجور کی طرف لے جاتاہے اور فسق وفجور جہنم کی طرف ۔ اور جو آدمی ہمیشہ جھوٹ بولے و ہ اللہ تعالیٰ کے ہاں کذّاب لکھا جاتاہے۔
(صحیح بخاری۔ کتاب الادب۔ باب قول اللّہ اتّقوا اللّہ وکونوا مع الصّادقین)
حضرت عبداللہ ؓ بن عمرو بن العاصؓ روایت کرتے ہیں کہ ایک شخص نبیﷺ کی خدمت میں حاضر ہوا اور عرض کیا یارسول اللہ جنت کاعمل کیاہے۔ آنحضورﷺ نے فرمایا: سچ بولنا۔ اور جب کوئی بندہ سچ بولتا ہے تو وہ فرمانبردار بن جاتاہے۔ او ر جب وہ فرمانبردار بن جاتاہے تو حقیقی مومن بن جاتاہے۔ اور جب کوئی حقیقی مومن ہوجاتاہے تو انجامکار وہ جنت میں د اخل ہو جاتاہے۔ اس شخص نے دوبارہ دریافت کیا کہ یارسول اللہ دوزخ میں لے جانے والا عمل کون ساہے ۔ آنحضرت ﷺنے فرمایا : جھوٹ ۔ ایک شخص جھوٹ بولتاہے تو نافرمانی کرتاہے اور جب کوئی نافرمانی کرتاہے توکفر کرتاہے اورجب کوئی کفر پر قائم ہو جاتاہے تو انجامکار وہ دوزخ میں داخل ہو جاتا ہے۔
(مسند احمد بن حنبل۔ جلد ۲۔ صفحہ ۱۷۶۔ مطبوعہ بیروت)
حضرت اقد س مسیح موعود علیہ السلام فرماتے ہیں :
’’ قرآن شریف نے جھوٹ کو بھی ایک نجاست اور رجس قرار دیا ہے ۔جیسا کہ فرمایا ہے۔ {فَاجْتَنِبُوْا الرِّجْسَ مِنَ الْاَوْثَانِ وَاجْتَنِبُوْا قَوْلَ الزُّوْرِ}(۱) دیکھو یہاں جھوٹ کو بت کے مقابل رکھا ہے اور حقیقت میں جھوٹ بھی ایک بت ہی ہے۔ ورنہ کیوں سچائی کو چھوڑ کر دوسری طرف جاتا ہے۔ جیسے بت کے نیچے کوئی حقیقت نہیں ہوتی اسی طرح جھوٹ کے نیچے بجز ملمّع سازی کے اور کچھ بھی نہیں ہوتا۔ جھوٹ بولنے والوں کا اعتبار یہانتک کم ہو جاتا ہے کہ اگر وہ سچ کہیں تب بھی یہی خیال ہوتا ہے کہ اس میں بھی کچھ جھوٹ کی ملاوٹ نہ ہو۔ اگر جھوٹ بولنے والے چاہیں کہ ہمارا جھوٹ کم ہو جائے تو جلدی سے دور نہیں ہوتا۔ مدت تک ریاضت کریں تب جا کر سچ بولنے کی عادت ان کو ہو گی۔‘‘
(ملفوظات۔ جلد سوم۔ صفحہ۳۵۰ )
حضرت اقد س مسیح موعود علیہ السلام مزید فرماتے ہیں :
’’اور منجملہ انسان کی طبعی حالتوں کے جو اس کی فطرت کا خاصہ ہے سچائی ہے۔ انسان جب تک کوئی غرض نفسانی اس کی محرک نہ ہو جھوٹ بولنا نہیں چاہتا۔ اور جھوٹ کے اختیار کرنے میں ایک طرح کی نفرت اور قبض اپنے دل میں پاتا ہے۔ اسی وجہ سے جس شخص کا صریح جھوٹ ثابت ہو جائے اس سے ناخوش ہوتا ہے اور اس کو تحقیر کی نظر سے دیکھتا ہے۔ لیکن صرف یہی طبعی حالت اخلاق میں داخل نہیں ہو سکتی بلکہ بچے اور دیوانے بھی اس کے پابند رہ سکتے ہیں۔ سو اصل حقیقت یہ ہے کہ جب تک انسان ان نفسانی اغراض سے علیحدہ نہ ہو۔ جو راست گوئی سے روک دیتے ہیں تب تک حقیقی طور پر راست گو نہیں ٹھہر سکتا۔ کیونکہ اگر انسان صرف ایسی باتوں میں سچ بولے جن میں اس کا چنداں ہرج نہیں(کچھ حرج نہیں) اور اپنی عزت یا مال یا جان کے نقصان کے وقت جھوٹ بول جائے اور سچ بولنے سے خاموش رہے تو اس کو دیوانوں اور بچوں پر کیا فوقیت ہے۔ کیا پاگل اور نابالغ لڑکے بھی ایسا سچ نہیں بولتے؟ دنیا میں ایسا کوئی بھی نہیں ہوگا کہ جو بغیر کسی تحریک کے خواہ نخواہ جھوٹ بولے۔ پس ایسا سچ جو کسی نقصان کے وقت چھوڑا جائے حقیقی اخلاق میں ہرگز داخل نہیں ہوگا۔ سچ کے بولنے کا بڑا بھاری محل اور موقع وہی ہے جس میں اپنی جان یا مال یا آبرو کا اندیشہ ہو۔ اس میں خدا کی تعلیم یہ ہے۔

فَاجْتَنِبُوْا الرِّجْسَ مِنَ الْاَوْثَانِ وَاجْتَنِبُوْا قَوْلَ الزُّوْرِ۔
وَلَایَاْبَ الشُّھَدَآء ُاِذَا مَا دُعُوْا۔
وَلَا تَکْتُمُوْا الشَّھَادَۃَ وَ مَنْ یَّکْتُمْھَا فَاِنَّہٗ اٰثِمٌ قَلْبُہٗ۔
وَ اِذَا قُلْتُمْ فَاعْدِلُوْا وَلَوْ کَانَ ذَا قُرْبٰی۔
کُوْنُوْا قَوَّامِیْنَ بِالْقِسْطِ شُھَدَآء لِلّٰہِ وَلَوْ عَلٰٓی اَنْفُسِکُمْ اَوِالْوَالِدَیْنِ وَالْاَقْرَبِیْنَ۔
وَلَا یَجْرِمَنَّکُمْ شَنَاٰنُ قَوْمٍ عَلٰٓی اَلَّا تَعْدِلُوْا۔
وَالصّٰدِقِیْنَ وَالصّٰدِقٰتِ۔ وَتَوَاصَوْا بِالْحَقِّ وَتَوَاصَوْا بِالصَّبْرِ۔
لَا یَشْھَدُوْنَ الزُّوْرَ۔

اس کے ترجمہ میں آپ فرماتے ہیں:۔
’’بتوں کی پرستش اور جھوٹ بولنے سے پرہیز کرو۔یعنی جھوٹ بھی ایک بت ہے جس پر بھروسہ کرنے والا خدا کا بھروسہ چھوڑ دیتا ہے۔ سو جھوٹ بولنے سے خدا بھی ہاتھ سے جاتا ہے۔ اور پھر فرمایا کہ جب تم سچی گواہی کے لئے بلائے جاؤ تو جانے سے انکار مت کرو۔ اور سچی گواہی کو مت چھپاؤ اور جو چھپائے گا اس کا دل گنہگار ہے۔ اور جب تم بولو تو وہی بات منہ پر لاؤ جو سراسر سچ اور عدالت کی بات ہے اگرچہ تم اپنے کسی قریبی پر گواہی دو۔ حق اور انصاف پر قائم ہو جاؤ۔ اور چاہیئے کہ ہر ایک گواہی تمہاری خدا کے لئے ہو۔ جھوٹ مت بولو اگرچہ سچ بولنے سے تمہاری جانوں کو نقصان پہنچے۔ یا اس سے تمہارے ماں باپ کو ضرر پہنچے یا اور قریبیوں کو جیسے بیٹے وغیرہ کو۔ اور چاہئے کہ کسی قوم کی دشمنی تمہیں سچی گواہی سے نہ روکے۔ سچے مرد اور سچی عورتیں بڑے بڑے اجر پائیں گے۔ ان کی عادت ہے کہ اوروں کو بھی سچ کی نصیحت دیتے ہیں۔ اور جھوٹوں کی مجلسوں میں نہیں بیٹھتے‘‘۔
(اسلامی اصول کی فلاسفی ۔روحانی خزائن۔ جلد۱۰۔ صفحہ۳۶۰-۳۶۱)

زنا سے بچو
پھر اسی شرط دوم میں زنا سے بچنے کی شرط ہے ۔ تو اس بارہ میں اللہ تعالیٰ فرماتا ہے:

وَلَا تَقْرَبُوْا الزِّنٰٓی اِنَّہٗ کَانَ فَاحِشَۃً۔ وَسَآئَ سَبِیْلًا (بنی اسرائیل: آیت ۳۳)

یعنی زنا کے قریب نہ جاؤ یقینا یہ بے حیائی ہے اور بہت برا راستہ ہے۔
ایک حدیث ہے ۔ محمد بن سیرین روایت کرتے ہیں کہ آنحضرت ﷺ نے درج ذیل امور کی نصیحت فرمائی ، پھر ایک لمبی روایت بیان کی جس میں سے ایک نصیحت یہ ہے کہ عفت یعنی پاکدامنی اور سچائی ، زنا اور کذب بیانی کے مقابلہ میں بہتر اور باقی رہنے والی ہے ۔
(سنن الدارمی۔ کتاب الوصایا۔ باب مایستحبّ بالوصیۃ من التشھد والکلام)
یہاں زنا اور جھوٹ دونوں کو اکٹھا بیان کیا گیا ہے اس سے یہ بھی پتہ چلتا ہے کہ جھوٹ کتنا بڑا گناہ ہے۔
حضرت اقدس مسیح موعود علیہ السلام فرماتے ہیں کہ :
’’ زنا کے قریب مت جاؤ یعنی ایسی تقریبوں سے دور رہو جن سے یہ خیال بھی دل میں پیدا ہو سکتا ہو۔ اور ان راہوں کو اختیار نہ کرو جن سے اس گناہ کے وقوع کا اندیشہ ہو۔ جو زنا کرتا ہے وہ بدی کو انتہا تک پہنچا دیتا ہے۔ زنا کی راہ بہت بری ہے یعنی منزل مقصود سے روکتی ہے اور تمہاری آخری منزل کیلئے سخت خطرناک ہے۔ اور جس کو نکاح میسر نہ آوے چاہئے کہ وہ اپنی عفت کو دوسرے طریقوں سے بچاوے۔ مثلاً روزہ رکھے یا کم کھاوے یا اپنی طاقتوں سے تن آزار کام لے۔‘‘
(اسلامی اصول کی فلاسفی۔ روحانی خزائن۔ جلد۱۰۔ صفحہ۳۴۲ )
آپ نے فرمایا ہے کہ ایسی چیزوں سے دوررہو جن سے خیال بھی دل میں پیدا ہو سکتا ہو۔ نوجوانوں میں بعض اوقات یہ احساس نہیں رہتا ۔فلمیں دیکھنے کی عادت ہوتی ہے اورایسی فلمیں دیکھتے ہیں جو اس قابل نہیں ہوتیں کہ دیکھی جائیں ۔بڑی اخلاق سے گری ہوئی ہوتی ہیں۔ ان سے بھی بچنا چاہئے ۔ یہ بھی زناکی ایک قسم ہی ہے۔

بدنظری سے بچو
پھر دوسری شرط میں تیسری قسم کی برائی بدنظری سے بچنے کی ہے ۔ا ب یہ کیاہے یہ غضِ بصر ہے۔
ایک حدیث ہے کہ ابوریحانہ روایت کرتے ہیں کہ وہ ایک غزوہ میں رسول اللہ ﷺ کے ساتھ تھے ۔ایک رات انہوں نے رسول اللہ ﷺکو یہ فرماتے ہوئے سنا: ’’آگ اس آنکھ پر حرام ہے جو اللہ تعالیٰ کی راہ میں بیدار رہی۔ اورآگ اس آنکھ پر حرام ہے جو اللہ تعالیٰ کی خشیت کی وجہ سے آنسوبہاتی ہے‘‘۔
ابوشریح کہتے ہیں کہ مَیں نے ایک ر اوی کو یہ کہتے ہوئے سنا ہے کہ آنحضرتﷺ نے یہ بھی فرمایا تھا کہ آگ اس آنکھ پر حرام ہے جو اللہ تعالیٰ کی حرام کردہ اشیا ء کو دیکھنے کی بجائے جھک جاتی ہے۔ اور اس آنکھ پر بھی حرام ہے جو اللہ عزوجل کی راہ میں پھوڑ دی گئی ہو۔
(سنن الدارمی۔ کتاب الجہاد۔ باب فی الذی یسھر فی سبیل اللّہ حارساً)
پھر ایک حدیث ہے عبادہ بن صامت رضی اللہ عنہ روایت کرتے ہیں کہ نبیﷺ نے فرمایا کہ تم اپنے بارہ میں چھ باتوں میں مجھے ضمانت دیدو۔
(رسول اللہﷺ فرما رہے ہیں کہ مَیں تمہیں جنت میں جانے کی بشارت دیتا ہوں)۔ فرمایا: جب تم گفتگو کرو تو سچ بولو۔ جب تم وعدہ کرو تووفا کرو۔ جب تمہارے پاس امانت رکھی جائے تو عند الطلب دے دیا کرو۔( ٹال مٹول نہیں ہونی چاہئے)۔ اپنے فروج کی حفاظت کرو، غض بصر سے کام لو۔ اور اپنے ہاتھوں کو ظلم سے روکے رکھو۔
(مسند احمد بن حنبل۔ جلد ۵۔ صفحہ ۳۲۳۔ مطبوعہ بیروت)
حضرت ابوسعید خدریؓروایت کرتے ہیں کہ نبی ﷺنے فرمایا :رستوں پر مجلسیں لگانے سے بچو۔ انہوں نے عرض کیا یا رسول اللہ ! ہمیں رستوں میں مجلس لگانے کے سوا کوئی چارہ نہیں۔ اس پر رسول اللہ ﷺ نے فرمایا :پھر رستے کا حق ادا کرو ۔ انہوں نے عرض کیا پھراس کا کیا حق ہے ؟ آپؐ نے فرمایا: ہر آنے جانے والے کے سلام کا جوا ب دو،غض بصر کرو، راستہ دریافت کرنے والے کی راہنمائی کرو، معروف باتوں کا حکم دو اور ناپسندیدہ باتوں سے روکو۔
(مسند احمد بن حنبل۔ جلد ۳۔ صفحہ ۶۱۔مطبوعہ بیروت)
حضرت اقدس مسیح موعود علیہ السلام فرماتے ہیں کہ:۔’’قرآن شریف نے جو کہ انسان کی فطرت کے تقاضوں اور کمزوریوں کو مدنظر رکھ کر حسب حال تعلیم دیتا ہے کیا عمدہ مسلک اختیار کیا ہے۔

قُلْ لِلْمُؤْمِنِیْنَ یَغُضُّوْا مِنْ اَبْصَارِھِمْ وَیَحْفَظُوْا فُرُوْجَہُمْ ۔ذٰلِکَ اَزْکٰی لَہُمْ۔

کہ تو ایمان والوں کو کہہ دے کہ وہ اپنی نگاہوں کو نیچا رکھیں اور اپنے سوراخوں کی حفاظت کریں۔ یہ وہ عمل ہے جس سے ان کے نفوس کا تزکیہ ہو گا ۔ فروج سے مراد صرف شرمگاہ ہی نہیں بلکہ ہر ایک سوراخ جس میں کان وغیرہ بھی شامل ہیں اور ان میں اس امر کی مخالفت کی گئی ہے کہ غیر محرم عورت کا راگ وغیرہ سنا جاوے۔ پھر یاد رکھو کہ ہزار در ہزار تجارب سے یہ بات ثابت شدہ ہے کہ جن باتوں سے اللہ تعالیٰ روکتا ہے آخر کار انسان کو ان سے رکنا ہی پڑتا ہے‘‘۔
(ملفوظات۔ جلد ۷۔ صفحہ ۱۳۵)
پھر آپ فرماتے ہیں :۔’’اسلام نے شرائط پابندی ہر دو عورتوں اور مردوں کے واسطے لازم کئے ہیں ۔ پردہ کرنے کا حکم جیسا کہ عورتوں کو ہے مردوں کو بھی ویسا ہی تاکیدی حکم ہے غض بصر کا ۔ نماز، روزہ، زکوۃ، حج ، حلال و حرام کا امتیاز، خداتعالیٰ کے احکام کے مقابلہ میں اپنی عادات رسم و رواج کو ترک کرنا وغیرہ وغیرہ ایسی پابندیاں ہیں جن سے اسلام کا دروازہ نہایت ہی تنگ ہے اور یہی وجہ ہے کہ ہر ایک شخص اس دروازے میں داخل نہیں ہو سکتا‘‘۔
(ملفوظات۔ جدید ایڈیشن۔ جلد ۵۔صفحہ ۶۱۴)
اس سے مردوں کو وضاحت ہو گئی ہوگی کہ ان کی بھی نظریں ہمیشہ نیچی رہنی چاہئیں۔ حیا صرف عورتوں کے لئے ہی نہیں مردوں کے لئے بھی ہے۔
پھر آپ فرماتے ہیں:’’خدائے تعالیٰ نے خُلق احصان یعنی عفت کے حاصل کرنے کیلئے صرف اعلیٰ تعلیم ہی نہیں فرمائی بلکہ انسان کو پاک دامن رہنے کیلئے پانچ علاج بھی بتلا دئیے ہیں۔ یعنی یہ کہ اپنی آنکھوں کو نامحرم پر نظر ڈالنے سے بچانا۔ کانوں کو نامحرموں کی آواز سننے سے بچانا۔ نامحرموں کے قصے نہ سننا۔ اور ایسی تمام تقریبوں سے جن میں اس بدفعل کے پیدا ہونے کا اندیشہ ہو اپنے تئیں بچانا۔ اگر نکاح نہ ہو تو روزہ رکھنا وغیرہ‘‘۔
آپ ؑنے فرمایا :’’اس جگہ ہم بڑے دعویٰ کے ساتھ کہتے ہیں کہ یہ اعلیٰ تعلیم ان سب تدبیروں کے ساتھ جو قرآن شریف نے بیان فرمائی ہیں صرف اسلام ہی سے خاص ہے اور اس جگہ ایک نکتہ یاد رکھنے کے لائق ہے اور وہ یہ ہے کہ چونکہ انسان کی وہ طبعی حالت جو شہوات کا منبع ہے جس سے انسان بغیر کسی کامل تغیر کے الگ نہیں ہو سکتا یہی ہے کہ اس کے جذبات شہوت محل اور موقع پاکر جوش مارنے سے رہ نہیں سکتے۔ یا یوں کہو کہ سخت خطرہ میں پڑ جاتے ہیں۔ اس لئے خدائے تعالیٰ نے ہمیں یہ تعلیم نہیں دی کہ ہم نامحرم عورتوں کو بلا تکلف دیکھ تو لیا کریں اور ان کی تمام زینتوں پر نظر ڈال لیں اور ان کے تمام انداز ناچنا وغیرہ مشاہدہ کرلیں لیکن پاک نظر سے دیکھیں اور نہ یہ تعلیم ہمیں دی ہے کہ ہم ان بیگانہ جوان عورتوں کا گانا بجانا سن لیں اور ان کے حسن کے قصے بھی سنا کریں لیکن پاک خیال سے سنیں بلکہ ہمیں تاکید ہے کہ ہم نامحرم عورتوں کو اور ان کی زینت کی جگہ کو ہرگز نہ دیکھیں۔ نہ پاک نظر سے اور نہ ناپاک نظر سے۔ اور ان کی خوش الحانی کی آوازیں اور ان کے حسن کے قصے نہ سنیں۔ نہ پاک خیال سے اور نہ ناپاک خیال سے۔ بلکہ ہمیں چاہئے کہ ان کے سننے اور دیکھنے سے نفرت رکھیں جیسا کہ مردار سے تا ٹھوکر نہ کھاویں۔ کیونکہ ضرور ہے کہ بے قیدی کی نظروں سے کسی وقت ٹھوکریں پیش آویں۔ سو چونکہ خدا تعالیٰ چاہتا ہے کہ ہماری آنکھیں اور دل اور ہمارے خطرات سب پاک رہیں اس لئے اس نے یہ اعلیٰ درجہ کی تعلیم فرمائی۔ اس میں کیا شک ہے کہ بے قیدی ٹھوکر کا موجب ہو جاتی ہے‘‘۔ (اگر روک ٹوک نہ ہو تو ٹھوکرکا موجب ہو جاتی ہے)۔ ’’اگر ہم ایک بھوکے کتّے کے آگے نرم نرم روٹیاں رکھ دیں اور پھر ہم امید رکھیں کہ اس کتّے کے دل میں خیال تک ان روٹیوں کا نہ آوے تو ہم اپنے اس خیال میں غلطی پر ہیں۔ سو خدائے تعالیٰ نے چاہا کہ نفسانی قویٰ کو پوشیدہ کارروائیوں کا موقع بھی نہ ملے اور ایسی کوئی بھی تقریب پیش نہ آئے جس سے بدخطرات جنبش کر سکیں۔‘‘
(اسلامی اصول کی فلاسفی۔ روحانی خزائن۔ جلد۱۰۔صفحہ۳۴۳-۳۴۴)

فسق وفجور سے اجتناب کرو
پھر اسی شرط دوم میں چوتھی برائی فسق وفجور سے اجتناب کے بارہ میں ہے ۔ اللہ تعالیٰ قرآن کریم میں فرماتاہے :

وَاعْلَمُوْآ اَنَّ فِیْکُمْ رَسُوْلَ اللّٰہِ لَوْ یُطِیْعُکُمْ فِیْ کَثِیْرٍ مِّنَ الْاَمْرِ لَعَنِتُّمْ وَلٰکِنَّ اللّٰہَ حَبَّبَ اِلَیْکُمُ الْاِیْمَانَ وَزَیَّنَہٗ فِیْ قُلُوْبِکُمْ وَکَرَّہَ اِلَیْکُمُ الْکُفْرَ وَالْفُسُوْقَ وَالْعِصْیَانَ۔ اُوْلٰٓئِکَ ھُمُ الرَّاشِدُوْنَ (الحجرات:۸)۔

اور جان لو کہ تم میں اللہ کا رسول موجود ہے۔ اگر وہ تمہاری اکثر باتیں مان لے تو تم ضرور تکلیف میں مبتلا ہوجاؤ۔ لیکن اللہ نے تمہارے لئے ایمان کو محبوب بنا دیا ہے اور اسے تمہارے دلوں میں سجا دیا ہے اور تمہارے لئے کفر اور بداعمالی اور نافرمانی سے سخت کراہت پیدا کردی ہے۔ یہی وہ لوگ ہیں جو
ہدایت یافتہ ہیں۔
ایک حدیث ہے کہ اَسْوَدْ ، ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت کرتے ہیںکہ انہوں نے بیان کیاکہ رسول اللہ ﷺنے فرمایا کہ جب تم میں سے کسی نے روزہ رکھاہو تو فحش کلامی نہ کرے ، فسق کی باتیں نہ کرے اور جہالت کی باتیں نہ کریں اور جو اس کے ساتھ جاہلانہ سلوک کرے تو اسے کہے کہ معاف کرنا مَیں ایک روزہ دار شخص ہوں۔
(مسند احمد بن حنبل۔ جلد ۲۔صفحہ۳۵۶۔مطبوعہ بیروت)
آنحضور ﷺنے فرمایا ہے کہ مومن سے گالی گلوچ کرنا فسق ہے اور اس سے قتال کرنا کفر ہے۔
(مسند احمد بن حنبل۔ جلد ۱۔صفحہ۴۳۹۔مطبوعہ بیروت)
عبدالرحمن بن شبل نے بیان کیا کہ رسول اللہ ﷺنے فرمایاکہ تاجر لوگ فاجر ہوتے ہیں۔راوی کہتے ہیں عرض کی گئی کہ یا رسول اللہ! کیا اللہ تعالیٰ نے تجارت حلال نہیں کی؟ رسول اللہ ﷺنے فرمایا کیوں نہیں؟مگر وہ جب سودابازی کرتے ہیں تو جھوٹ بولتے ہیں اور قسمیں اٹھا اٹھا کر قیمت بڑھاتے ہیں۔
راوی کہتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺنے مزید فرمایا کہ فاسق دوزخی ہیں ۔ عرض کی گئی یا رسول اللہ ! فُسّاق کون ہیں؟ اس پرآنحضور ؐنے فرمایا عورتیں بھی فُسّاق ہوتی ہیں۔ ایک شخص نے عرض کی کہ یا رسول اللہ !کیا وہ ہماری مائیں، بہنیں اور بیویاں نہیں ہیں۔ آنحضور ﷺ نے فرمایا کیوں نہیں؟ لیکن جب ان کو کچھ دیا جاتا ہے تو وہ شکر نہیں کرتیں اور جب ان پر کوئی آزمائش پڑتی ہے تو صبر نہیں کرتیں۔
(مسند احمد بن حنبل۔ جلد ۳۔ صفحہ ۴۲۸۔مطبوعہ بیروت)
تو یہ تاجروں کی بھی سوچنے والی بات ہے کہ بڑی صاف ستھری تجارت ہونی چاہئے۔ یہ بھی شرائط بیعت میں سے ایک شر ط ہے ۔
حضرت مسیح موعود علیہ السلام فرماتے ہیں :’’قرآن سے تو ثابت ہوتاہے کہ کافر سے پہلے فاسق کو سز ا دینی چاہئے… یہ خدا تعالیٰ کا دستور ہے کہ جب ایک قوم فاسق فاجر ہوتی ہے تو اس پرایک اور قوم مسلط کردیتا ہے‘‘۔
(ملفوظات۔ جدید ایڈیشن۔ جلد دوم۔ صفحہ ۶۵۳)
پھر فرمایا : ’’ جب یہ فسق و فجور میں حد سے نکلنے لگے اور خدا کے احکام کی ہتک اور شعائراللہ سے نفرت ان میں آ گئی اور دنیا اور اس کی زیب و زینت میں ہی گم ہوگئے تو اللہ تعالیٰ نے ان کو بھی اسی طرح ہلاکو، چنگیز خان وغیرہ سے برباد کروایا ۔ لکھاہے کہ اُس وقت یہ آسمان سے آواز آتی تھی

’اَیُّھَا الْکُفَّارُ اُقْتُلُوْاالْفُجَّار‘۔

غرض فاسق فاجرانسان خدا کی نظرمیں کافر سے بھی ذلیل اور قابل نفرین ہے‘‘۔ (ملفوظات۔ جدید ایڈیشن۔ جلد سوم۔ صفحہ ۱۰۸)
پھر فرمایا :’’ ظالم فاسق کی دعا قبول نہیں ہوا کرتی کیونکہ وہ خدا تعالیٰ سے لاپرواہ ہے اور خدا تعالیٰ بھی اس سے لاپرواہ ہے۔ ایک بیٹا اگربا پ کی پرواہ نہ کرے اور ناخلف ہو تو باپ کو اس کی پروا ہ نہیں ہوتی تو خدا کو کیوں ہو‘‘۔ (البدر۔ جلد۲۔ مؤرخہ ۱۳ فروری ۱۹۰۳ء۔ صفحہ۲۸۔ کالم نمبر۲)

ظلم نہ کرو
پھر شرط دوم میں ہے کہ ظلم نہیں کرے گا۔ قرآن کریم میں آتاہے:

فَاخْتَلَفَ الْاَحْزَابُ مِنْ بَیْنِھِمْ فَوَیْلٌ لِّلَّذِیْنَ ظَلَمُوْا مِنْ عَذَابِ یَوْمٍ اَلِیْمٍ (الزخرف:۶۶)۔

اس کا ترجمہ ہے : پس ان کے اندر ہی سے گروہوں نے اختلاف کیا۔ پس اُن لوگوں کے لئے جنہوں نے ظلم کیا ہلاکت ہو دردناک دن کے عذاب کی صورت میں۔
حضرت جابر رضی ا للہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ آنحضرت ﷺنے فرمایا ظلم سے بچو، کیونکہ ظلم قیامت کے دن تاریکیاں بن کر سامنے آئے گا ۔ حرص، بخل اورکینہ سے بچو کیونکہ حرص ، بخل اورکینہ نے پہلوں کو ہلاک کیا ، اس نے ان کو خونریزی پر آمادہ کیا اور ان سے قابل احترام چیزوں کی بے حرمتی کرائی ۔
(مسند احمد بن حنبل۔ جلد نمبر۳۔ صفحہ ۳۲۳ )
اسی طرح دوسرے کا حق دبانا بھی ظلم ہے۔ حضرت عبداللہؓ بن مسعود روایت کرتے ہیں کہ مَیں نے عرض کی یا رسول اللہ کون سا ظلم سب سے بڑا ہے ۔ تو آنحضور ﷺنے فرمایا :سب سے بڑا ظلم یہ ہے کہ کوئی شخص اپنے بھائی کے حق میں سے ایک ہاتھ زمین دبالے۔ اس زمین کا ایک کنکر بھی جو اس نے ازارہ ظلم لیا ہوگا تو اس کے نیچے کی زمین کے جملہ طبقات کا طوق بن کر قیامت کے روز اس کے گلے میں ڈال دیا جائے گا۔اور زمین کی گہرائی سوائے اس ہستی کے کوئی نہیں جانتا جس نے اسے پیدا کیاہے۔
(مسند احمد بن حنبل۔ جلد۱۔ صفحہ۳۹۶۔ مطبوعہ بیروت)
بعض لوگ جو اپنے بہنوں بھائیوں یا ہمسایوں کے حقوق ادا نہیں کرتے یا لڑائیوں میں جائیدادوں پر ناجائز قبضہ کرلیتے ہیں ، زمینیں دبا لیتے ہیںان کو اس پر غور کرنا چاہئے ۔احمدی ہونے کے بعد جبکہ اس شرط کے ساتھ ہم نے بیعت کی ہے کہ کسی کا حق نہیں دبائیں گے ، ظلم نہیں کریں گے ، بہت زیادہ خوف کا مقام ہے۔
ایک حدیث ہے حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ آنحضرت ﷺنے فرمایا کہ تم جانتے ہو مفلس کون ہے؟ ہم نے عرض کی جس کے پاس روپیہ ہو، نہ سامان۔آنحضور ﷺنے فرمایا کہ میری امت کا مفلس وہ ہے جو قیامت کے دن نماز، روزہ، زکوۃ وغیرہ اعمال لے کر آئے گا لیکن اس نے کسی کو گالی دی ہوگی، کسی پر تہمت لگائی ہوگی،کسی کا مال کھایا ہوگااور کسی کا ناحق خون بہایا ہوگا یا کسی کو مارا ہوگا۔ پس ان مظلوموں کو اس کی نیکیاں دے دی جائیں گی یہاں تک کہ اگر ان کے حقوق ادا ہونے سے پہلے اس کی نیکیاں ختم ہوگئیں تو ان کے گناہ اس کے ذمہ ڈال دئے جائیں گے ۔اوراس طرح جنت کی بجائے اسے دوزخ میں ڈال دیا جائے گا ۔ یہی شخص دراصل مفلس ہے۔
(صحیح مسلم۔ کتاب البرّ والصلۃ۔ باب تحریم الظلم)
اب سوچیں ، غورکریں ، ہم میں سے ہر ایک کو سوچنا چاہئے ۔ جو بھی ایسی حرکات کے مرتکب ہو رہے ہوں ان کے لئے خوف کا مقام ہے ۔ اللہ کرے کہ ہم میں سے کوئی بھی ایسی مفلسی کی حالت میں اللہ تعالیٰ کے حضور کبھی پیش نہ ہو۔
حضرت اقدس مسیح موعود علیہ السلام فرماتے ہیں :’’میری تمام جماعت جو اس جگہ حاضر ہیں یا اپنے مقامات میں بودوباش رکھتے ہیں اس وصیت کو توجہ سے سنیں کہ وہ جو اس سلسلہ میں داخل ہو کر میرے ساتھ تعلق ارادت اور مریدی کا رکھتے ہیں، اس سے غرض یہ ہے کہ تا وہ نیک چلنی اور نیک بختی اور تقوی کے اعلی درجہ تک پہنچ جائیں اور کوئی فساد اور شرارت اور بدچلنی ان کے نزدیک نہ آسکے۔ وہ پنجوقت نماز جماعت کے پابند ہوں۔ وہ جھوٹ نہ بولیں۔ وہ کسی کو زبان سے ایذا نہ دیں۔ وہ کسی قسم کی بدکاری کے مرتکب نہ ہوں۔ اور کسی شرارت اور ظلم اور فساد اور فتنہ کا خیال بھی دل میں نہ لاویں۔ غرض ہر ایک قسم کے معاصی اور جرائم اور ناکردنی اور ناگفتنی اور تمام نفسانی جذبات اور بیجا حرکات سے مجتنب رہیں اور خداتعالیٰ کے پاک دل اور بے شر اور غریب مزاج بند ے ہو جائیں۔ اور کوئی زہریلا خمیر ان کے وجود میں نہ رہے … اور تمام انسانوں کی ہمدردی ان کا اصول ہو اور خداتعالیٰ سے ڈریں اور اپنی زبانوں اور اپنے ہاتھوں اور اپنے دل کے خیالات کو ہرایک ناپاک اور فسادانگیز طریقوں اور خیانتوں سے بچاویں اور پنجوقتہ نماز کو نہایت التزام سے قائم رکھیں اور ظلم اور تعدی اور غبن اور رشوت اور اتلاف حقوق اور بیجاطرفداری سے باز رہیں۔ اور کسی بدصحبت میں نہ بیٹھیں۔ اور اگر بعد میں ثابت ہو کہ ایک شخص جو ان کے ساتھ آمد و رفت رکھتا ہے وہ خداتعالیٰ کے احکام کا پابند نہیں ہے … یا حقوق عباد کی کچھ پرواہ نہیں رکھتا اور یا ظالم طبع اور شریر مزاج اور بدچلن آدمی ہے اور یا یہ کہ جس شخص سے تمہیں تعلق بیعت اور ارادت ہے اس کی نسبت ناحق اور بے وجہ بدگوئی اور زبان درازی اور بدزبانی اور بہتان اور افترا کی عادت جاری رکھ کر خداتعالیٰ کے بندوں کو دھوکہ دینا چاہتا ہے تو تم پر لازم ہو گا کہ اس بدی کو اپنے درمیان سے دور کرو اور ایسے انسان سے پرہیز کرو جو خطرناک ہے۔ اور چاہئے کہ کسی مذہب اور کسی قوم اور کسی گروہ کے آدمی کو نقصان رسانی کا ارادہ مت کرو اور ہر ایک کے لئے سچے ناصح بنو ۔ اور چاہئے کہ شریروں اور بدمعاشوں اور مفسدوں اور بدچلنوں کو ہرگز تمہاری مجلس میں گزر نہ ہو اور نہ تمہارے مکانوں میں رہ سکیں کہ وہ کسی وقت تمہاری ٹھوکر کا موجب ہوں گے‘‘۔
اسی طرح فرمایا :’’یہ وہ امور اور وہ شرائط ہیں جو میں ابتداء سے کہتا چلا آیا ہوں۔ میری جماعت میں سے ہر ایک فرد پر لازم ہو گا کہ ان تمام وصیتوں کے کاربند ہوں اور چاہئے کہ تمہاری مجلسوں میں کوئی ناپاکی اور ٹھٹھے اور ہنسی کا مشغلہ نہ ہو اور نیک دل اور پاک طبع اور پاک خیال ہو کر زمین پر چلو۔ اور یاد رکھو کہ ہر ایک شر مقابلہ کے لائق نہیں ہے۔ اس لئے لازم ہے کہ اکثر اوقات عفو اور درگزر کی عادت ڈالو اور صبر اور حلم سے کام لو ۔ اور کسی پر ناجائز طریق سے حملہ نہ کرو۔ اور جذبات نفس کو دبائے رکھو اور اگر کوئی بحث کرو یا کوئی مذہبی گفتگو ہو تو نرم الفاظ اور مہذبانہ طریق سے کرو۔ اور اگر کوئی جہالت سے پیش آوے تو سلام کہہ کر ایسی مجلس سے جلد اٹھ جاؤ۔ اگر تم ستائے جاؤ اور گالیاں دیئے جاؤ اور تمہارے حق میں برے برے لفظ کہے جائیں تو ہوشیار رہو کہ سفاہت کا سفاہت کے ساتھ تمہارا مقابلہ نہ ہو ورنہ تم بھی ویسے ہی ٹھہرو گے جیسا کہ وہ ہیں۔ خداتعالیٰ چاہتا ہے کہ تمہیں ایک ایسی جماعت بناوے کہ تم تمام دنیا کے لئے نیکی اور راستبازی کا نمونہ ٹھہرو۔ سو اپنے درمیان سے ایسے شخص کو جلد نکالو جو بدی اور شرارت اور فتنہ انگیزی اور بدنفسی کا نمونہ ہے۔ جو شخص ہماری جماعت میں غربت اور نیکی اور پرہیزگاری اور حلم اور نرم زبانی اور نیک مزاجی اور نیک چلنی کے ساتھ نہیں رہ سکتا وہ جلد ہم سے جدا ہو جائے کیونکہ ہمارا خدا نہیں چاہتا کہ ایسا شخص ہم میں رہے اور یقینا وہ بدبختی میں مرے گا کیونکہ اس نے نیک راہ کو اختیار نہ کیا۔ سو تم ہوشیار ہو جاؤ اور واقعی نیک دل اور غریب مزاج اور راستباز بن جاؤ ۔ تم پنجوقتہ نماز اور اخلاقی حالت سے شناخت کئے جاؤ گے اور جس میں بدی کا بیج ہے وہ اس نصیحت پر قائم نہیں رہ سکے گا‘‘۔
(اشتہار مورخہ ۲۹؍مئی ۱۸۹۸ء۔ صفحہ۲۔ تبلیغ رسالت۔ جلد ہفتم۔ صفحہ۴۲-۴۴)

خیانت نہ کرو
پھر خیانت کے بارہ میں اللہ تعالیٰ فرماتاہے کہ

وَلَا تُجَادِلْ عَنِ الَّذِیْنَ یَخْتَانُوْنَ اَنْفُسَھُمْ ۔اِنَّ اللّٰہَ لَایُحِبُّ مَنْ کَانَ خَوَّانًا اَثِیْمًا} (النساء:۱۰۸)۔

اور ان لوگوں کی طرف سے بحث نہ کر جو اپنے نفسوں سے خیانت کرتے ہیں۔ یقینا اللہ سخت خیانت کرنے والے گنہگار کو پسند نہیں کرتا۔
ایک حدیث میں ہے۔حضرت ابوھریرہ رضی اللہ عنہ روایت کرتے ہیں کہ رسول اللہﷺ نے فرمایا۔ جو تمہارے پاس کوئی چیز امانت کے طور پر رکھتا ہے اس کی امانت اسے لوٹا دو۔ اور اس شخص سے بھی ہرگز خیانت سے پیش نہ آؤ جو تم سے خیانت سے پیش آچکا ہے۔
(سنن ابوداؤد۔ کتاب البیوع۔ باب فی الرجل یاخذ حقہ … )
حضرت اقدس مسیح موعود علیہ السلام فرماتے ہیں :’’دوسری قسم ترک شر کے اقسام میں سے وہ خلق ہے جس کو امانت و دیانت کہتے ہیں۔ یعنی دوسرے کے مال پر شرارت اور بدنیتی سے قبضہ کر کے اس کو ایذا پہنچانے پر راضی نہ ہونا۔ سو واضح ہو کہ دیانت اور امانت انسان کی طبعی حالتوں میں سے ایک حالت ہے۔ اسی واسطے ایک بچہ شیرخوار بھی جو بوجہ اپنی کم سنی اپنی طبعی سادگی پر ہوتا ہے اور نیز بباعث صغر سنی ابھی بری عادتوں کا عادی نہیں ہوتا اس قدر غیر کی چیز سے نفرت رکھتا ہے کہ غیر عورت کا دودھ بھی مشکل سے پیتا ہے‘‘۔
(اسلامی اصول کی فلاسفی۔ روحانی خزائن۔ جلد۱۰۔ صفحہ۳۴۴)

فسادسے بچو
پھر فساد کے بارہ میں اللہ تعالیٰ فرماتاہے

وَابْتَغِ فِیْمَا اٰ تٰـکَ اللّٰہُ الدَّارَ الْاٰخِرَۃَ وَلَا تَنْسَ نَصِیْبَکَ مِنَ الدُّنْیَا وَاَحْسِنْ کَمَا اَحْسَنَ اللّٰہُ اِلَیْکَ وَلَا تَبْغِ الْفَسَادَ فِی الْاَرْضِ۔ اِنَّ اللّٰہَ لَا یُحِبُّ الْمُفْسِدِیْنَ (القصص:۷۸)۔

اور جو کچھ اللہ نے تجھے عطا کیا ہے اس کے ذریعہ دارِآخرت کمانے کی خواہش کر اور دنیا میں سے بھی اپنا معیّن حصہ نظرانداز نہ کر اور احسان کا سلوک کر جیسا کہ اللہ نے تجھ سے احسان کا سلوک کیا اور زمین میں فساد (پھیلانا) پسند نہ کر۔ یقینا اللہ فسادیوں کو پسند نہیں کرتا۔
حضرت معاذ بن جبل رضی اللہ عنہ روایت کرتے ہیں کہ رسول اللہﷺ نے فرمایا: جنگ دو طرح کی ہے ۔ ایک وہ جو اللہ تعالیٰ کی رضا جوئی کے لئے امام کی اطاعت کی جاتی ہے۔ایسا شخص اپنا اچھا مال اللہ کی راہ میں خرچ کرتاہے اور اپنے شریک سفر کے لئے سہولت پیدا کرتاہے اور فساد سے اجتناب کرتاہے ۔پس ایسے شخص کا سونا جاگنا تمام کا تمام مستوجب اجرہے۔ اور ایک وہ شخص ہوتاہے جو فخرکے لئے اور دکھاوے کے لئے اور اپنی بہادری کے قصے سنانے کیلئے لڑتا ہے ۔ایسا شخص امام کی نافرمانی کرتاہے اور زمین میں فساد پھیلاتاہے۔ پس ایسا شخص اوپر والے شخص کا ہم پلّہ ہو کرنہیں لوٹتا۔
(سنن ابی داؤد ۔کتاب الجہاد ۔ باب فیمن یغزو ویلتمس الدّنیا)
حضرت اسماء بنت یزید روایت کرتی ہیں کہ نبی ﷺ نے فرمایا کہ کیا مَیں تم میں سے بہترین لوگوں کے بارہ میں تم کو نہ بتاؤں؟ صحابہؓ نے عرض کیا: کیوں نہیں یارسول اللہ ! ضرور بتائیں۔ اس پر رسول اللہ ﷺ نے فرمایا :جب وہ کوئی اچھا منظر دیکھتے ہیں تو ذکرالٰہی میں مصروف ہو جاتے ہیں ۔ پھر فرمایا : کیامَیں تم کو شریر ترین افراد سے نہ آگاہ کروں؟ شریر ترین لوگ وہ ہیں جو چغل خوری کی غرض سے چلتے پھرتے ہیں۔ محبت کرنے والوں کے درمیان بگاڑ پیدا کردیتے ہیں ۔ اورفرمانبردار لوگوں کے بارہ میں ان کی یہ خواہش ہوتی ہے کہ وہ گناہ میں مبتلا ہو جائیں ۔
(مسند احمد بن حنبل۔ جلد ۶۔ صفحہ ۴۵۹۔ مطبوعہ بیروت)
حضرت اقدس مسیح موعود علیہ السلام فرماتے ہیں :
’’تمہیں چاہئے کہ وہ لوگ جو محض اس وجہ سے تمہیں چھوڑتے اور تم سے الگ ہوتے ہیںکہ تم نے خداتعالیٰ کے قائم کردہ سلسلہ میں شمولیت اختیار کرلی ہے ان سے دنگہ یا فساد مت کرو بلکہ ان کے لئے غائبانہ دعا کرو کہ اللہ تعالیٰ ان کو بھی وہ بصیرت اور معرفت عطا کرے جو اس نے اپنے فضل سے تمہیں دی ہے۔ تم اپنے پاک نمونہ اور عمدہ چال چلن سے ثابت کر دکھاؤ کہ تم نے اچھی راہ اختیار کی ہے۔ دیکھو مَیںاس امر کے لئے مامور ہوں کہ تمہیں باربار ہدایت کرو ں کہ ہر قسم کے فساد اور ہنگامہ کی جگہوں سے بچتے رہو اور گالیا ں سن کر بھی صبر کرو۔ بدی کا جواب نیکی سے دو اور کوئی فساد کرنے پر آمادہ ہو تو بہترہے کہ تم ایسی جگہ سے کھسک جاؤ اور نرمی سے جواب دو۔ … …جب مَیںیہ سنتاہوں کہ فلاں شخص اس جماعت کا ہو کر کسی سے لڑا ہے ۔اس طریق کو مَیں ہرگز پسند نہیں کرتا اور خداتعالیٰ بھی نہیں چاہتا کہ وہ جماعت جو دنیا میں ایک نمونہ ٹھہرے گی وہ ایسی راہ اختیار کرے جو تقویٰ کی راہ نہیں ہے۔ بلکہ مَیں تمہیں یہ بھی بتادیتاہوں کہ اللہ تعالیٰ یہاں تک اس امر کی تائید کرتاہے کہ اگر کوئی شخص اس جماعت میں ہو کر صبر اور برداشت سے کام نہیں لیتا تو وہ یاد رکھے کہ وہ اس جماعت میں داخل نہیں ہے۔ نہایت کار اشتعال اور جوش کی یہ وجہ ہو سکتی ہے کہ مجھے گندی گالیاں دی جاتی ہیں تو اس معاملہ کو خداکے سپرد کردو۔ تم اس کا فیصلہ نہیں کر سکتے۔ میرا معاملہ خدا پر چھوڑ دو۔ تم ان گالیوں کو سن کر بھی صبر اور برداشت سے کام لو‘‘۔
(ملفوظات۔ جدید ایڈیشن۔ جلد چہارم۔ صفحہ ۱۵۷)

بغاوت کے طریقوں سے بچو
پھر اسی شرط دوئم میں اس بات کا بھی عہد ہے کہ بغاوت کے طریقوں سے بچتا رہے گا۔ حضرت اقدس مسیح موعود علیہ السلام فرماتے ہیں :

’’وَقَاتِلُوْھُمْ حَتّٰی لَا تَکُوْنَ فِتْنَۃٌ وَیَکُوْنَ الدِّیْنُ لِلّٰہِ۔

یعنی اس حد تک ان کا مقابلہ کرو کہ ان کی بغاوت دور ہو جاوے اور دین کی روکیں اٹھ جائیں اور حکومت اللہ کے دین کی ہو جائے۔ اور پھر فرمایا

قُلْ قِتَالٌ فِیْہِ کَبِیْرٌوَصَدٌّ عَنْ سَبِیْلِ اللّٰہِ وَکُفْرٌ بِہٖ وَالْمَسْجِدِ الْحَرَامِ وَاِخْرَاجُ اَھْلِہٖ مِنْہُ اَکْبَرُعِنْدَاللّٰہِ وَالْفِتْنَۃُ اَکْبَرُ مِنَ الْقَتْلِ وَلَایَزَالُوْنَ یُقَاتِلُوْنَکُمْ حَتّٰی یَرُدُّوْکُمْ عَنْ دِیْنِکُمْ اِنِ اسْتَطَاعُوْا

یعنی شہر حرام میں قتل تو گناہ ہے لیکن خداتعالیٰ کی راہ سے روکنا اور کفر اختیار کرنا اور اللہ تعالیٰ کے نیک بندوں کو مسجد حرام سے خارج کرنا یہ بہت بڑا گناہ ہے اور بغاوت کو پھیلانا یعنی امن کا خلل انداز ہونا قتل سے بڑھ کر ہے۔
(جنگ مقدس ۔روحانی خزائن۔ جلد ۶۔ صفحہ ۲۵۵)
فرمایا :’’چونکہ مَیں دیکھتا ہوں کہ ان دنوں میں بعض جاہل اور شریر لوگ اکثر ہندوؤں میں سے اور کچھ مسلمانوں میں سے گورنمنٹ کے مقابل پر ایسی ایسی حرکتیں ظاہرکرتے ہیں جن سے بغاوت کی بو آتی ہے۔ بلکہ مجھے شک ہوتاہے کہ کسی وقت باغیانہ رنگ ان کی طبائع میں پیدا ہو جائے گا۔ اس لئے مَیں اپنی جماعت کے لوگوں کو جو مختلف مقامات پنجاب اور ہندوستان میں موجود ہیں جو بفضلہ تعالیٰ کئی لاکھ تک ان کا شمار پہنچ گیاہے نہایت تاکید سے نصیحت کرتاہوں کہ و ہ میری اس تعلیم کو خوب یاد رکھیں جو قریباً ۲۶برس سے تقریری اور تحریری طورپر ان کے ذہن نشین کرتاآیاہوں یعنی یہ کہ اس گورنمنٹ کی پوری اطاعت کریں کیونکہ وہ ہماری محسن گورنمنٹ ہے……۔سو یاد رکھو اور خوب یاد رکھو کہ ایسا شخص میری جماعت میں داخل نہیں رہ سکتا جو اس گورنمنٹ کے مقابلہ پر کوئی باغیانہ خیال دل میں رکھے۔ اور میرے نزدیک یہ سخت بدذاتی ہے کہ جس گورنمنٹ کے ذریعہ سے ہم ظالموں کے پنجے سے بچائے جاتے ہیں اور اس کے زیر سایہ ہماری جماعت ترقی کر رہی ہے اس کے احسان کے ہم شکرگزار نہ ہوں۔ اللہ تعالیٰ قرآن شریف میں فرماتاہے

ھَلْ جَزَآء الْاِحْسَانِ اِلَّا الْاِحْسَانُ

یعنی احسان کا بدلہ احسان ہے اور حدیث شریف میں بھی ہے کہ جو انسان کا شکر نہیں کرتا وہ خدا کا شکر بھی نہیں کرتا۔ یہ تو سوچو کہ اگر تم اس گورنمنٹ کے سایہ سے باہر نکل جاؤ تو پھر تمہارا ٹھکانہ کہاںہے۔ ایسی سلطنت کا بھلا نام تو لو جو تمہیں اپنی پناہ میں لے لے گی۔ ہر ایک اسلامی سلطنت تمہارے قتل کے لئے دانت پیس رہی ہے کیونکہ ان کی نگاہ میں تم کافر اور مرتد ٹھہر چکے ہو۔ سو تم اس خداداد نعمت کی قدر کرو ……۔اب خواہ نخواہ ایسے اعتقاد پھیلانا کہ کوئی خونی مہدی آئے گا اور عیسائی بادشاہوں کو گرفتار کر ے گا یہ محض بناوٹی مسائل ہیں جن سے ہمارے مخالف مسلمانوں کے دل سیاہ اور سخت ہو گئے ہیں اور جن کے ایسے عقیدے ہیں وہ خطرناک انسان ہیں۔ اور ایسے عقیدے کسی زمانہ میں جاہلوں کے لئے بغاوت کا ذریعہ ہو سکتے ہیں بلکہ ضرور ہوں گے ۔سو ہماری کوشش ہے کہ مسلمان ایسے عقیدوں سے رہائی پاویں ۔یادرکھو کہ وہ دین خدا کی طرف سے نہیں ہوسکتا جس میں انسانی ہمدردی نہیں۔ خدانے ہمیں یہ سکھایا ہے کہ زمین پر رحم کرو تا آسمان سے تم پررحم کیا جائے‘‘۔
(مجموعہ اشتہارات۔ جلد ۳۔ صفحہ ۵۸۲تا ۵۸۵)

نفسانی جوشوں سے مغلوب نہ ہو
پھر اسی شرط دوئم میں اس طرف توجہ دلائی ہے کہ نفسانی جوشوں کے وقت اس کا مغلوب نہیں ہوگا۔ حضرت اقدس مسیح موعود علیہ السلام فرماتے ہیں:
’’روحانی وجود کا چوتھا درجہ وہ ہے جس کو خداتعالیٰ نے اس آیت کریمہ میں ذکر فرمایا ہے۔

وَالَّذِیْنَ ھُمْ لِفُرُوْجِھِمْ حٰفِظُوْنَ

یعنی تیسرے درجہ سے بڑھ کر مومن وہ ہیں جو اپنے تئیں نفسانی جذبات اور شہوات ممنوعہ سے بچاتے ہیں۔ یہ درجہ تیسرے درجہ سے اس لئے بڑھ کر ہے کہ تیسرے درجہ کا مومن تو صرف مال کو جو اس کے نفس کو نہایت پیارا اور عزیز ہے خداتعالیٰ کی راہ میں دیتا ہے لیکن چوتھے درجہ کا مومن وہ چیز خداتعالیٰ کی راہ میں نثار کرتا ہے جو مال سے بھی زیادہ پیاری اور محبوب ہے یعنی شہوات نفسانیہ۔ کیونکہ انسان کو اپنی شہوات نفسانیہ سے اس قدر محبت ہے کہ وہ اپنی شہوات کے پورا کرنے کے لئے اپنے مال عزیز کو پانی کی طرح خرچ کرتا ہے اور ہزارہا روپیہ شہوات کے پورا کرنے کے لئے برباد کر دیتا ہے اور شہوات کے حاصل کرنے کے لئے مال کو کچھ بھی چیز نہیں سمجھتا۔ جیسا کہ دیکھا جاتا ہے ایسے نجس طبع اور بخیل لوگ جو ایک محتاج، بھوکے اور ننگے کو بباعث سخت بخل کے ایک پیسہ بھی دے نہیں سکتے شہوات نفسانیہ کے جوش میں بازاری عورتوں کو ہزارہا روپیہ دے کر اپنا گھر ویران کر لیتے ہیں۔ پس معلوم ہوا کہ سیلاب شہوت ایسا تند اور تیز ہے کہ بخل جیسی نجاست کو بھی بہا لے جاتا ہے۔ اس لئے یہ بدیہی امر ہے کہ بہ نسبت اس قوت ایمانی کے جس کے ذریعہ سے بخل دور ہوتا ہے اور انسان اپنا عزیز مال خدا کے لئے دیتا ہے یہ قوت ایمانی جس کے ذریعہ سے انسان شہوات نفسانیہ کے طوفان سے بچتا ہے نہایت زبردست اور شیطان کا مقابلہ کرنے میں نہایت سخت اور نہایت دیرپا ہے کیونکہ اس کا کام یہ ہے کہ نفس امارہ جیسے پرانے اژدھا کو اپنے پیروں کے نیچے کچل ڈالتی ہے۔ اور بخل تو شہوات نفسانیہ کے پورا کرنے کے جوش میں اور نیز ریاء اور نمود کے وقتوں میں بھی دُور ہو سکتا ہے۔ مگر یہ طوفان جو نفسانی شہوات کے غلبہ سے پیدا ہوتا ہے یہ نہایت سخت اور دیرپا طوفان ہے جو کسی طرح بجز رحم خداوندی کے دُور ہو ہی نہیں سکتا اور جس طرح جسمانی وجود کے تمام اعضاء میں سے ہڈی نہایت سخت ہے اور اس کی عمر بھی بہت لمبی ہے اسی طرح اس طوفان کے دُور کرنے والی قوت ایمانی نہایت سخت اور عمر بھی لمبی رکھتی ہے تا ایسے دشمن کا دیر تک مقابلہ کر کے پامال کر سکے اور وہ بھی خداتعالیٰ کے رحم سے۔ کیونکہ شہوات نفسانیہ کا طوفان ایک ایسا ہولناک اور پرآشوب طوفان ہے کہ بجز خاص رحم حضرت احدیت کے فرو نہیں ہو سکتا۔ اسی وجہ سے حضرت یوسف کو کہنا پڑا

وَمَآ اُبَرِّیُٔ نَفْسِیْ۔ اِنَّ النَّفْسَ لَاَمَّارَۃٌ بِالسُّوْٓء اِلَّا مَا رَحِمَ رَبِّیْ

یعنی میں اپنے نفس کو بری نہیں کرتا۔ نفس نہایت درجہ بدی کا حکم دینے والا ہے اور اس کے حملہ سے مخلصی غیرممکن ہے مگر یہ کہ خود خداتعالیٰ رحم فرما دے۔ اس آیت میں جیسا کہ فقرہ

اِلَّا مَا رَحِمَ رَبِّیْ

ہے۔ طوفان نوح کے ذکر کے وقت بھی اسی کے مشابہ الفاظ ہیں کیونکہ وہاں اللہ تعالیٰ فرماتا ہے

لاَعَاصِمَ الْیَوْمَ مِنْ اَمْرِاللّٰہِ اِلَّا مَنْ رَّحِمَ

پس یہ اس بات کی طرف اشارہ ہے کہ یہ طوفان شہوات نفسانیہ اپنی عظمت اور ہیبت میں نوح کے طوفان سے مشابہ ہے۔‘‘
(براہین احمدیہ حصہ پنجم۔ روحانی خزائن۔ جلد ۲۱۔ صفحہ۲۰۶-۲۰۵)
خلاصہ کلام یہ کہ فرمایا ہے کہ شہوات تم پر ہمیشہ غلبہ پانے کی کوشش کریںگی۔ لیکن تم ان سے ہمیشہ بچو، اللہ تعالیٰ سے رحم مانگتے ہوئے ان سے بچو۔ آج کل کے زمانے میں تو اس کے بہت سے اور راستے بھی کھل گئے ہیں اس لئے پہلے سے بڑھ کر دعائیں کرنے کی، اللہ کی طرف جھکنے کی اور اس کا رحم مانگنے کی ضرورت ہے۔

اَلَا لِلّٰہِ الدِّیْنُ الْخَالِصُ۔ وَالَّذِیْنَ اتَّخَذُوْا مِنْ دُوْنِہٖ اَوْلِیَآء مَا نَعْبُدُھُمْ اِلَّا لِیُقَرِّبُوْنَآ اِلَی اللّٰہِ زُلْفٰی۔ اِنَّ اللّٰہَ یَحْکُمُ بَیْنَھُمْ فِیْ مَا ھُمْ فِیْہِ یَخْتَلِفُوْنَ۔ اِنَّ اللّٰہَ لَا یَھْدِیْ مَنْ ھُوَ کَاذِبٌ کَفَّار (الزمر:آیت ۴)

خبردار! خالص دین ہی اللہ کے شایانِ شان ہے اور وہ لوگ جنہوں نے اُس کے سوا دوست اپنا لئے ہیں (کہتے ہیں کہ) ہم اس مقصد کے سوا اُن کی عبادت نہیں کرتے کہ وہ ہمیں اللہ کے قریب کرتے ہوئے قرب کے اونچے مقام تک پہنچادیں۔ یقینا اللہ اُن کے درمیان اُس کا فیصلہ کرے گا جس میں وہ اختلاف کیا کرتے تھے۔ اللہ ہرگز اُسے ہدایت نہیں دیتا جو جھوٹا (اور) سخت ناشکرا ہو۔
حضرت اقدس مسیح موعودعلیہ السلام فرماتے ہیں: ’’اسی خدا کو مانوجس کے وجود پر توریت اور انجیل اور قرآ ن تینوں متفق ہیں۔ کوئی ایسا خدا اپنی طرف سے مت بناؤ جس کا وجود ان تینوں کتابوں کی متفق علیہ شہادت سے ثابت نہیں ہوتا۔ وہ بات مانو جس پر عقل اور کانشس کی گواہی ہے اور خدا کی کتابیں اس پر اتفاق رکھتی ہیں۔ خدا کو ایسے طورسے نہ مانو جس سے خداکی کتابوں میں پھوٹ پڑ جائے۔ زنا نہ کرو، جھوٹ نہ بولو اور بدنظری نہ کرو اورہر ایک فسق اور فجور اورظلم اور خیانت اورفساد اور بغاوت کی راہوں سے بچو۔ اور نفسانی جوشوں سے مغلوب مت ہو اور پنج وقت نماز ادا کرو کہ انسانی فطرت پر پنج طورپر ہی انقلاب آتے ہیں۔ اوراپنے نبی کریم کے شکرگزار رہو، اس پر درود بھیجو کیونکہ وہی ہے جس نے تاریکی کے زمانہ کے بعد نئے سرے خداشناسی کی راہ سکھلائی‘‘۔
فرمایا: ’’یہ وہ میرے سلسلہ کے اصول ہیں جو اس سلسلہ کے لئے امتیازی نشان کی طرح ہیں جس انسانی ہمدردی اور ترک ایذاء بنی نوع اور ترک مخالفت حکاّم کی یہ سلسلہ بنیاد ڈالتا ہے دوسرے مسلمانوں میں اس کا وجود نہیں۔ان کے اصول اپنی بے شمار غلطیوں کی وجہ سے اور طرز کے ہیں جن کی تفصیل کی حاجت نہیں اور نہ یہ ان کا موقع ہے‘‘ ۔
(ضمیمہ تریاق القلوب۔ روحانی خزائن۔ جلد ۱۵۔ صفحہ ۵۲۴ تا ۵۲۶)

تیسری شرط بیعت
’’ یہ کہ بلا ناغہ پنج وقتہ نماز موافق حکم خدا اوررسول کے ادا کرتا رہے گا۔ اورحتی الوسع نماز تہجد کے پڑھنے اور اپنے نبی کریم ﷺ پردرود بھیجنے اور ہر روز اپنے گناہوں کی معافی مانگنے اور استغفار کرنے میں مداومت اختیار کرے گا۔ اور دلی محبت سے خداتعالیٰ کے احسانوں کو یاد کرکے اس کی حمد اور تعریف کو اپنا ہرروزہ ورد بنائے گا ‘‘۔

پنج وقتہ نمازوں کا التزام کرو
اس شرط میں جو باتیں بیان کی گئی ہیں ان میں نمبر ایک تو یہی ہے کہ اللہ اوررسول کے حکم کے مطابق پانچ وقت نمازیں بلا ناغہ ادا کرے گا۔ اللہ اوررسول کا حکم ہے مردوں اور عورتوں دونوں کے لئے ۔ اور ان بچوں کے لئے بھی جو دس سال کی عمر کو پہنچ چکے ہیں کہ نماز وقت پر ادا کرو ۔ مردوں کے لئے یہ حکم ہے کہ نماز باجماعت کی ادائیگی کا اہتمام کرو۔ مسجدوں میں جاؤ ، ان کو آباد کرو، اس کے فضل تلاش کرو۔ پنج وقتہ نماز کے بارہ میں کوئی چھوٹ نہیں ۔ اورسفر میں بھی کچھ رعایت تو ہے یا بیماری میں بھی رعایت ہے۔ یا جیسے یہ ہے کہ جمع کرلو ،قصر کرلو۔اور اگر بیماری میں مسجد نہ جانے کی چھوٹ ہے تو ان باتوں سے اندازہ ہو جانا چاہئے کہ نماز باجماعت کی کتنی اہمیت ہے۔اس کی اہمیت کے بارہ میں اب میں مزید کچھ اقتباسات پڑھتاہوں لیکن یہ عرض کرنا چاہتاہوں کہ ہر بیعت کنندہ کو اپنا جائزہ لیناچاہئے کہ ہم اپنے آپ کو بیچنے کاعہد کررہے ہیں لیکن کیا اس واضح قرآنی حکم کی پابندی بھی کررہے ہیں ۔ ہر احمدی اپنے نفس کے لئے خود مذکر ہے، خود اپنا جائزہ لیں ، خود دیکھیں۔ اگرہم خود ہی اپنے آپ کو ،اپنے نفس کو ٹٹولنے لگیں تو ایک عظیم انقلاب برپا ہوسکتاہے۔
قرآن شریف میں اللہ تعالیٰ فرماتاہے :

وَاَقِیْمُوْا الصَّلٰوۃَ وَاٰتُوْا الزَّکٰوۃَ وَاَطِیْعُوْا الرَّسُوْلَ لَعَلَّکُمْ تُرْحَمُوْنَ(النور:آیت ۵۷ )۔

اور نماز کو قائم کرو اور زکوٰۃ ادا کرو اور رسول کی اطاعت کرو تاکہ تم پر رحم کیا جائے۔
پھر سورۃ طٰہٰ آیت ۱۵میں ہے۔

اِنَّنِیٓ اَنَا اللّٰہُ لَآ اِلٰہَ اِلَّا اَنَا فَاعْبُدْنِی وَاَقِم الصَّلٰوۃَ لِذِکْرِیْ۔

یقینا مَیں ہی اللہ ہوں ۔ میرے سوا کوئی معبود نہیں ۔پس میری عباد ت کرو اور میرے ذکرکے لئے نماز کو قائم کرو۔
اوراس طرح بے شمار دفعہ قرآن مجید میں نماز کے بارہ میں احکامات آئے ہیں۔ ایک حدیث مَیں پیش کرتاہوں۔ حضرت جابرؓ بیان کرتے ہیں کہ مَیں نے آنحضرتﷺ کو یہ فرماتے ہوئے سناکہ نماز کو چھوڑنا انسان کو شرک اورکفرکے قریب کر دیتاہے۔
(مسلم کتاب الایمان ۔ باب بیان اطلاق اسم الکفر علی من ترک الصلوٰۃ)
آنحضرت ﷺنے فرمایاکہ میری آنکھوں کی ٹھنڈک نماز میں ہے۔
(سنن النسائی۔ کتاب عِشرۃالنّساء۔ باب حُبّ النّساء)
حضرت ابوہریرہ ؓبیان کرتے ہیں کہ آنحضرت ﷺنے فرمایا :قیامت کے دن سب سے پہلے جس چیز کابندوں سے حساب لیا جائے گا وہ نمازہے۔اگریہ حساب ٹھیک رہا تو وہ کامیاب ہوگیا اوراس نے نجات پالی۔ اگر یہ حساب خراب ہوا تووہ ناکام ہو گیا اورگھاٹے میں رہا۔ اگراس کے فرضوں میں کوئی کمی ہوئی تو اللہ تعالیٰ فرمائے گا کہ دیکھو! میرے بندے کے کچھ نوافل بھی ہیں ۔ اگر نوافل ہوئے تو فرضوں کی کمی ان نوافل کے ذریعہ پوری کردی جائے گی ۔اسی طرح اس کے باقی اعمال کا معائنہ ہوگا اوران کا جائزہ لیاجائے گا۔
(سنن ترمذی۔ کتاب الصلوٰۃ۔ باب انّ اوّل ما یحاسب بہ العبد)
پھر حدیث میں آتا ہے: حضرت ابوہریرہ ؓ بیان کرتے ہیں کہ میں نے آنحضرتﷺ کو یہ فرماتے ہوئے سنا: کیا تم سمجھتے ہو کہ اگر کسی کے دروازے کے پاس سے نہر گزر رہی ہو اور وہ اس میں دن میں پانچ بار نہائے تو اس کے جسم پر کوئی میل رہ جائے گی؟ صحابہؓ نے عرض کیا: رسول اللہ ! کوئی میل نہیں رہے گی۔ آپؐ نے فرمایا۔ یہی مثال پانچ نمازوں کی ہے ، اللہ تعالیٰ ان کے ذریعہ گناہ معاف کرتا ہے اور کمزوریاں دُور کردیتا ہے۔
(صحیح بخاری۔ کتاب مواقیت الصلوٰۃ۔ باب الصلوۃ الخمس کفارۃ للخطاء)
حضرت اقدس مسیح موعود علیہ السلام فرماتے ہیںکہ:’’نماز پڑھو، نماز پڑھو کہ وہ تمام سعادتوں کی کنجی ہے‘‘۔
(ازالہ اوہام۔ صفحہ۸۲۹۔ طبع اول۔ روحانی خزائن۔ جلد نمبر۳۔ صفحہ۵۴۹)
حضور ؑ مزید فرماتے ہیں:۔’’نماز کا مغز اور روح بھی دعا ہی ہے‘‘۔
(ایام الصلح ۔ روحانی خزائن جلد نمبر۱۴۔صفحہ۲۴۱)
آپ مزید فرماتے ہیں:’’ اے وے تمام لوگو! اپنے تئیں میری جماعت شمار کرتے ہو۔ آسمان پر تم اس وقت میری جماعت شمار کئے جاؤگے جب سچ مچ تقویٰ کی راہوں پر قدم ماروگے۔ سو اپنی پنجوقتہ نمازوں کو ایسے خوف اور حضور سے ادا کرو کہ گویا تم خدا تعالیٰ کو دیکھتے ہو۔ اور اپنے روزوں کو خدا کے لئے صدق کے ساتھ پورے کرو۔ ہر ایک جو زکوٰۃ کے لائق ہے وہ زکوٰۃ دے اور جس پر حج فرض ہو چکا ہے اور کوئی مانع نہیں وہ حج کرے۔ نیکی کو سنوار کر ادا کرو اور بدی کو بیزار ہو کر ترک کرو۔ یقینا یاد رکھو کہ کوئی عمل خدا تک نہیں پہنچ سکتا جو تقویٰ سے خالی ہے۔ ہرایک نیکی کی جڑ تقویٰ ہے۔ جس عمل میں یہ جڑ ضائع نہیں ہو گی۔ وہ عمل بھی ضائع نہیں ہو گا۔‘‘
(کشتی نوح۔ روحانی خزائن۔ جلد۱۹۔ صفحہ ۱۵)
آپ فرماتے ہیں :’’نماز کیا چیز ہے۔ وہ دعا ہے جو تسبیح تحمید تقدیس اور استغفار اور درود کے ساتھ تضرع سے مانگی جاتی ہے۔ سو جب تم نماز پڑھو تو بیخبر لوگوں کی طرح اپنی دعاؤں میں صرف عربی الفاظ کے پابند نہ رہو۔ کیونکہ ان کی نماز اور ان کا استغفار سب رسمیں ہیں جن کے ساتھ کوئی حقیقت نہیں۔ لیکن تم جب نماز پڑھو تو بجز قرآن کے جو خدا کا کلام ہے۔ اور بجز بعض ادعیہ ماثورہ کے کہ وہ رسول کا کلام ہے باقی اپنی تمام عام دعاؤں میں اپنی زبان میں ہی الفاظ متضرعانہ ادا کر لیا کرو تاکہ تمہارے دلوں پر اس عجز و نیاز کا کچھ اثر ہو‘‘۔
(کشتی نوح ۔روحانی خزائن۔ جلد۱۹۔ صفحہ۶۸-۶۹)
پھر آپ نے فرمایا :’’نماز ایسی شئے ہے کہ اس کے ذریعہ سے آسمان انسان پر جھک پڑتاہے۔ نماز کا حق ادا کرنے والا یہ خیال کرتاہے کہ مَیں مر گیا اور اس کی روح گداز ہو کر خدا کے آستانہ پر گر پڑی ہے… جس گھر میں اس قسم کی نماز ہوگی وہ گھر کبھی تباہ نہ ہوگا ۔ حدیث شریف میں ہے کہ اگر نوحؑ کے وقت میں نماز ہوتی تو وہ قوم کبھی تباہ نہ ہوتی۔ حج بھی انسان کے لئے مشروط ہے ، روزہ بھی مشروط ہے ،زکوٰۃ بھی مشروط ہے مگرنماز مشروط نہیں۔ سب ایک سال میں ایک ایک دفعہ ہیں مگر اس کا حکم ہر روز پانچ دفعہ ادا کرنے کاہے۔ اس لئے جب تک پوری پوری نماز نہ ہوگی تو وہ برکات بھی نہ ہوں گی جو ا س سے حاصل ہوتی ہیں اور نہ اس بیعت کا کچھ فائدہ حاصل ہوگا‘‘۔
(ملفوظات۔ جدید ایڈیشن۔ جلد سوم۔ صفحہ ۶۲۷)
حضرت اقدس مسیح موعود علیہ السلام فرماتے ہیں:’’نماز ہر ایک مسلمان پر فرض ہے حدیث شریف میں آیا ہے کہ آنحضرتﷺ کے پاس ایک قوم اسلام لائی اور عرض کی کہ یارسول اللہؐ!ہمیں نماز معاف فرما دی جائے کیونکہ ہم کاروباری آدمی ہیں۔ مویشی وغیرہ کے سبب کپڑوں کا کوئی اعتماد نہیں ہوتا اور نہ ہمیں فرصت ہوتی ہے۔تو آپ ؐنے اس کے جواب میں فرمایا کہ دیکھو جب نماز نہیں ،تو ہے ہی کیا؟وہ دین ہی نہیں جس میں نماز نہیں۔ نماز کیا ہے؟یہی کہ اپنے عجزو نیاز اور کمزوریوں کو خدا کے سامنے پیش کرنا اور اسی سے اپنی حاجت روائی چاہنا۔ کبھی اس کی عظمت اور اس کے احکام کی بجاآوری کے واسطے دست بستہ کھڑا ہونا اور کبھی کمال مذلت اور فروتنی سے اس کے آگے سجدے میں گر جانا۔اس سے اپنی حاجات کا مانگنا یہی نماز ہے۔ایک سائل کی طرح کبھی اس مسؤل کی تعریف کرناکہ تو ایسا ہے، تو ایسا ہے۔اس کی عظمت اور جلال کا اظہار کرکے اس کی رحمت کو جنبش دلانا پھر اس سے مانگنا۔پس جس دین میں یہ نہیں، وہ دین ہی کیا ہے۔
انسان ہر وقت محتاج ہے اس سے اس کی رضا کی راہیں مانگتا رہے اور اس کے فضل کا اس سے خواستگار ہو کیونکہ اسی کی دی ہوئی توفیق سے کچھ کیا جاسکتا ہے۔
اے خدا! ہم کو توفیق دے کہ ہم تیرے ہوجائیں اور تیری رضا پر کاربند ہوکر تجھے راضی کرلیں۔ خدا کی محبت،اسی کا خوف ،اسی کی یاد میں دل لگا رہنے کا نام نماز ہے اور یہی دین ہے۔
پھر جو شخص نماز ہی سے فراغت حاصل کرنی چاہتا ہے اس نے حیوانوں سے بڑھ کر کیاکیا ؟ وہی کھانا پینااور حیوانوں کی طرح سو رہنا ۔ یہ تو دین ہرگز نہیں ۔ یہ سیرت کفار ہے بلکہ جو دم غافل وہ دم کافر والی بات بالکل راست اور صحیح ہے‘‘ ۔
(الحکم۔جلد۷۔ مؤرخہ ۳۱مارچ ۱۹۰۳ء۔ صفحہ۸)
نماز میں ذوق کس طرح حاصل ہو ۔اس بارہ میں حضرت اقدس مسیح موعود علیہ السلام فرماتے ہیں:
’’اے اللہ تو مجھے دیکھتا ہے کہ میں کیسا اندھا اور نابینا ہوں اور میں اس وقت بالکل مردہ حالت میں ہوں۔ میں جانتا ہوں کہ تھوڑی دیر کے بعد مجھے آواز آئے گی تو میں تیری طرف آجاؤں گا ۔اس وقت مجھے کوئی روک نہ سکے گا لیکن میرا دل اندھا اور ناشناسا ہے۔ تو ایسا شعلہ نور اس پر نازل کر کہ تیرا انس اور شوق اس میں پیدا ہو جائے۔ تو ایسا فضل کر کہ میں نابینا نہ اٹھوں اور اندھوں میں نہ جا ملوں۔
جب اس قسم کی دعا مانگے گا اور اس پر دوام اختیار کرے گا تو وہ دیکھے گا کہ ایک وقت اس پر ایسا آئے گا کہ اس بے ذوقی کی نماز میں ایک چیز آسمان سے اس پر گرے گی جو رقت پیدا کردے گی‘‘۔
(ملفوظات۔ ۔ جدید ایڈیشن۔ جلد دوم۔ صفحہ۶۱۶)

نماز تہجد کا التزام کریں
پھر اس تیسری شرط میں یہ ہے کہ نماز تہجد پڑھے۔
اللہ تعالیٰ فرماتا ہے:

وَ مِنَ الَّیْلِ فَتَھَجَّدْ بِہٖ نَافِلَۃً لَّکَ۔ عَسٰٓی اَنْ یَّبْعَثَکَ رَبُّکَ مَقَامًا مَّحْمُوْدًا۔(سورۃ بنی اسرائیل آیت۸۰)

اور رات کے ایک حصہ میں بھی اس (قرآن) کے ساتھ تہجّد پڑھا کر۔ یہ تیرے لئے نفل کے طور پر ہوگا۔ قریب ہے کہ تیرا ربّ تجھے مقامِ محمود پر فائز کردے۔
حضرت بلال ؓ بیان کرتے ہیں کہ آنحضرتﷺ نے فرمایا: تمہیں نماز تہجد کا التزام کرنا چاہئے کیونکہ یہ گزشتہ صالحین کا طریقہ رہا ہے اور قرب الہٰی کا ذریعہ ہے۔ یہ عادت گناہوں سے روکتی ہے، برائیوں کو ختم کرتی ہے اور جسمانی بیماریوں سے بچاتی ہے۔ (سنن ترمذی۔ کتاب الدعوات۔ باب فی دعاء النبیّﷺ)
ایک حدیث ہے ۔حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ روایت کرتے ہیں کہ رسو ل اللہ ﷺ نے فرمایا کہ جب رات کا آخری پہر ہوجائے تو اللہ تعالیٰ سماء دنیا پر نزول فرماتاہے اور فرماتاہے کوئی ہے جو مجھ سے دعا کرے اور مَیںاس کی دعا قبول کروں۔کوئی ہے جو مجھ سے مغفرت طلب کرے تو مَیں اس کو بخش دوں۔کوئی ہے جو مجھ سے رزق طلب کرے تو مَیں اسے رزق عطا کروں۔ کوئی ہے جو مجھ سے اپنی تکلیف کے دور کرنے کے لئے دعا کرے تو مَیں اس کی تکلیف کو دور کروں۔اللہ تعالیٰ یونہی فرماتا رہتاہے یہاں تک کہ صبح صادق ہو جاتی ہے۔ (مسند احمد بن حنبل۔ جلد نمبر۲۔ صفحہ ۵۲۱۔ مطبوعہ بیروت)
بہت سارے لوگ دعاؤں کے لئے لکھتے ہیں ۔ خود بھی اس طریق پر عمل کریں تو اللہ تعالیٰ کے فضلوں کی بارش بھی نازل ہوتے دیکھیں۔
حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ آنحضرتﷺ نے ایک دفعہ فرمایا: اللہ تعالیٰ فرماتا ہے جس نے میرے دوست سے دشمنی کی میں اس سے اعلان جنگ کرتا ہوں۔ میرا بندہ جتنا میرا قرب اس چیز سے، جو مجھے پسند ہے اور مَیں نے اس پر فرض کردی ہے، حاصل کرسکتا ہے، اتنا کسی اور چیز سے حاصل نہیں کرسکتا اور نوافل کے ذریعہ سے میرا بندہ میرے قریب ہوجاتا ہے یہاں تک کہ میں اس سے محبت کرنے لگ جاتا ہوں۔ اور جب میں اس کو اپنا دوست بنا لیتا ہوں توا س کے کان بن جاتا ہوں، جس سے وہ سنتا ہے ، اس کی آنکھیں بن جاتا ہوں جن سے وہ دیکھتا ہے ، اس کے ہاتھ بن جاتا ہوں جن سے وہ پکڑتا ہے، اس کے پاؤں بن جاتا ہوں جن سے وہ چلتا ہے۔ یعنی میں ہی اس کا کارساز ہوتا ہوں۔ اگر وہ مجھ سے مانگتا ہے تو میں اس کو دیتا ہوں اور اگر وہ مجھ سے پناہ چاہتا ہے تو میں اسے پناہ دیتا ہوں۔ (صحیح بخاری۔ کتاب الرقاق۔ باب التواضع)
حضرت ابوہریرہ ؓبیان کرتے ہیں کہ آنحضرت ﷺنے فرمایا :اللہ تعالیٰ رحم کرے اس شخص پر جو رات کو اٹھے اور نما ز پڑھے اور اپنی بیوی کو اٹھائے ۔ اگر وہ اٹھنے میں پس وپیش کرے تو اس کے منہ پرپانی چھڑکے تاکہ وہ اٹھ کھڑی ہو۔ اسی طرح اللہ تعالیٰ رحم کرے اس عورت پر جو رات کو اٹھی ، نماز پڑھی اور اپنے میاں کوجگایا ۔ اگر اس نے اٹھنے میں پس وپیش کیا تو اس کے منہ پر پانی چھڑکا تا کہ وہ اٹھ کھڑا ہو۔ (سنن ابوداؤد۔ کتاب التّطوّع۔ باب قیام اللّیل)
حضرت اقد س مسیح موعود علیہ السلام فرماتے ہیں:
’’ہماری جماعت کو چاہئے کہ وہ تہجد کی نماز کو لازم کر لیں۔ جو زیادہ نہیں وہ دو ہی رکعت پڑھ لے کیونکہ اس کو دعا کرنے کا موقع بہر حال مل جائیگا۔ اس وقت کی دعاؤں میں ایک خاص تاثیر ہوتی ہے کیونکہ وہ سچے درد اور جوش سے نکلتی ہیں۔ جبتک ایک خاص سوز اور درد دل میں نہ ہو اس وقت تک ایک شخص خواب راحت سے بیدار کب ہو سکتا ہے؟ پس اس وقت کا اٹھنا ہی ایک دردِ دل پیدا کر دیتا ہے جس سے دعا میں رقت اور اضطراب کی کیفیت پیدا ہو جاتی ہے اور یہی اضطراب اوراضطرار اور قبولیت دعا کا موجب ہو جاتے ہیں۔ لیکن اگر اٹھنے میں سستی اور غفلت سے کام لیتا ہے تو ظاہر ہے کہ وہ درد اور سوز دل میں نہیں کیونکہ نیند تو غم کو دور کر دیتی ہے۔ لیکن جبکہ نیند سے بیدار ہوتا ہے تو معلوم ہوا کہ کوئی درد اور غم نیند سے بھی بڑھ کر ہے جو بیدار کر رہا ہے‘‘۔
(ملفوظات۔ ۔ جدید ایڈیشن۔ جلد دوم۔ صفحہ۱۸۲)
حضرت اقد س مسیح موعود علیہ السلام فرماتے ہیں :
’’راتوں کو اٹھواور دعا کرو کہ اللہ تعالیٰ تم کو اپنی راہ دکھلائے۔ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے صحابہ نے بھی تدریجاً تربیت پائی ۔ وہ پہلے کیا تھے ۔ ایک کسان کی تخم ریزی کی طرح تھے۔ پھر آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے آبپاشی کی۔ آپ نے ان کے لئے دعائیں کیں۔ بیج صحیح تھا اور زمین عمدہ تو اس آبپاشی سے پھل عمدہ نکلا ۔ جس طرح حضور علیہ السلام چلتے اسی طرح وہ چلتے ۔ وہ دن کا یا رات کا انتظار نہ کرتے تھے۔ تم لوگ سچے دل سے توبہ کرو۔ تہجد میں ا ٹھو، دعا کرو، دل کو درست کرو، کمزوریوں کو چھوڑ دو اور خدا تعالیٰ کی رضا کے مطابق اپنے قول و فعل کو بناؤ‘‘۔
(ملفوظات۔ ۔ جدید ایڈیشن۔ جلد اول۔ صفحہ ۲۸)

آنحضرت ﷺپر درود بھیجنے میں مداومت اختیار کریں
اسی تیسری شرط بیعت میں یہ ہے کہ آنحضرتﷺپر درود بھیجنے کی کوشش کرتا رہے گا ، درود بھیجے گا، اس میں باقاعدگی اختیار کرے گا۔اس بارہ میں قرآن کریم میں اللہ تعالیٰ فرماتا ہے:

اِنَّ اللّٰہَ وَمَلٰٓئِکَتَہٗ یُصَلُّوْنَ عَلَی النَّبِیِّ یٰٓاَیُّھَا الَّذِیْنَ اٰمَنُوْا صَلُّوْا عَلَیْہِ وَسَلِّمُوْا تَسْلِیْمًا (الاحزاب: آیت ۵۷)

یقینا اللہ اور اس کے فرشتے نبی پر رحمت بھیجتے ہیں۔ اے وہ لوگو جو ایمان لائے ہو! تم بھی اس پر درود اور خوب خوب سلام بھیجو۔
حضرت عبداللہؓ بن عمرو بن العاص سے روایت ہے کہ انہوں نے حضرت نبی کریم ﷺ کو فرماتے سنا کہ جب تم مؤذن کو اذان دیتے ہوئے سنو تو تم بھی وہی الفاظ دہراؤ جو وہ کہتاہے۔ پھر مجھ پر درود بھیجو۔ جس شخص نے مجھ پر درود پڑھا اللہ تعالیٰ اس پر دس گنا رحمتیں نازل فرمائے گا ۔ پھر فرمایا :میرے لئے اللہ تعالیٰ سے وسیلہ مانگو جو جنت کے مراتب میں سے ایک مرتبہ ہے جو اللہ کے بندوں میں سے ایک بندہ کو ملے گا۔ اورمَیں امید رکھتاہوں کہ وہ مَیں ہی ہوں گا۔ جس کسی نے بھی میرے لئے اللہ سے وسیلہ مانگا اس کے لئے شفاعت حلال ہو جائے گی۔
(صحیح مسلم۔ کتاب الصلاۃ۔ باب القول مثل قول المؤذ ن لمن سمعہ ثم یصلی علی النبی ﷺ…)
تو یہ سب کو مدنظر رکھنا چاہئے کہ اللہ کی رضا کو حاصل کرنے کے لئے ،خداتک پہنچنے کے لئے، اپنی دعاؤں کو اللہ کے حضور قبولیت کا درجہ دلوانے کے لئے ضروری ہے کہ ہم آنحضرتﷺ کا وسیلہ اختیار کریں اور اس کا سب سے بہترین ذریعہ جس طرح حدیث میں آیاہے اور حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے بھی فرمایاہے ،یہی ہے کہ بہت زیادہ درود پڑھنا چاہئے۔

اَللّٰھُمَّ صَلِّ عَلٰی مُحَمَّدٍ وَّعَلٰی آلِ مُحَمَّدٍ کَمَا صَلَّیْتَ عَلٰی اِبْرَاہِیْمَ وَعَلٰی آلِ اِبْرَاھِیْمَ اِنَّکَ حَمِیْدٌ مَّجِیْدٌ۔ اَللّٰھُمَّ بَارِکْ عَلٰی مُحَمَّدٍ وَّعَلٰی آلِ مُحَمَّدٍ کَمَا بَارَکْتَ عَلٰی اِبْرَاہِیْمَ وَعَلٰی آلِ اِبْراھِیْمَ اِنَّکَ حَمِیْدٌ مَّجِیْدٌ۔

حضرت عامر بن ربیعہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ آنحضرتﷺ نے فرمایا ہے جو مسلمان بھی مجھ پر درود بھیجتا ہے تووہ جب تک مجھ پر درود بھیجتا رہتا ہے اس وقت تک فرشتے اس پر درود بھیجتے رہتے ہیں۔ اب چاہے تو اس میں کمی کرے اور چاہے تو اسے زیادہ کرے۔
حضرت عمر بن خطاب رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ دعا آسمان اور زمین کے درمیان ٹھہر جاتی ہے اور جب تک تو اپنے نبی ﷺ پر درود نہ بھیجے اس میں سے کوئی حصہ بھی (خداتعالیٰ کے حضور پیش ہونے کے لئے)اوپر نہیں جاتا۔ (سنن ترمذی۔ کتاب الوتر۔ باب ماجاء فی فضل الصلوۃ علی النبیﷺ)
حضرت عبد اللہ بن مسعودرضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا:
قیامت کے دن لوگوں میں سے سب سے زیادہ میرے نزدیک وہ شخص ہوگا جو اُن میں سے مجھ پر سب سے زیادہ درود بھیجنے والا ہوگا۔ (سنن ترمذی۔ کتاب الوتر۔ باب ماجاء فی فضل الصلوۃ علی النبیﷺ)
حضرت اقدس مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلا م درود کی برکات کا ذاتی تجربہ ان الفاظ میں بیان فرماتے ہیں ۔ فرمایا کہ’’ ایک مرتبہ ایسا اتفاق ہوا کہ درود شریف کے پڑھنے میں یعنی آنحضرت ﷺ پر درود بھیجنے میں ایک زمانہ تک مجھے بہت استدراک رہا کیونکہ میرا یقین تھا کہ خداتعالیٰ کی راہیں نہایت دقیق راہیں ہیں وہ بجز وسیلہ نبی کریمؐ کے مل نہیں سکتیں۔ جیساکہ خدا بھی فرماتاہے

وَابْتَغُوْا اِلَیْہِ الْوَسِیْلَۃ

تب ایک مدت کے بعد کشفی حالت میں مَیں نے دیکھاکہ دو سقّے یعنی ماشکی آئے ایک اندرونی راستے سے اور ایک بیرونی راہ سے میرے گھر میں داخل ہوئے اور ان کے کاندھوں پر نور کی مشکیں ہیں اور کہتے ہیں

’ھٰذا بمَا صَلَّیْتَ عَلٰی مُحَمَّدٍ‘‘

(حقیقۃالوحی۔ حاشیہ صفحہ ۱۲۸۔ روحانی خزائن۔ جلد نمبر۲۲۔ صفحہ۱۳۱ حاشیہ)
یعنی یہ برکات اس درُود کی وجہ سے ہیں جو توُ نے محمد ﷺپر بھیجاتھا۔
حضرت اقدس مسیح موعود علیہ السلام فرماتے ہیں:۔’’درود شریف کے طفیل … میں دیکھتا ہوں کہ اللہ تعالیٰ کے فیوض عجیب نوری شکل میں آنحضرتﷺ کی طرف جاتے ہیں اور پھر وہاں جاکر آنحضرتﷺ کے سینے میں جذب ہوجاتے ہیں۔ اور وہاں سے نکل کر ان کی لاانتہا نالیاں ہوجاتی ہیں اور بقدر حصہ رسدی ہر حقدار کو پہنچتی ہیں۔ یقینا کوئی فیض بدوں وساطت آنحضرتﷺ دوسروں تک پہنچ ہی نہیں سکتا۔ درود شریف کیا ہے؟ رسول اللہ ﷺ کے اس عرش کو حرکت دینا ہے جس سے یہ نور کی نالیاں نکلتی ہیں ۔ جو اللہ تعالیٰ کا فیض اور فضل حاصل کرنا چاہتا ہے اس کو لازم ہے کہ وہ کثرت سے درود شریف پڑھا کرے تاکہ اس فیض میں حرکت پیدا ہو‘‘۔
(الحکم۔ بتاریخ ۲۸؍فروری۱۹۰۳ء ۔صفحہ۷)
حضرت اقدس مسیح موعود علیہ السلام فرماتے ہیں:۔’’انسان تو دراصل بندہ یعنی غلام ہے۔ غلام کا کام یہ ہوتا ہے کہ مالک جو حکم کرے، اُسے قبول کرے۔ اسی طرح اگر تم چاہتے ہو کہ آنحضرتﷺ کے فیض حاصل کرو تو ضرور ہے کہ اس کے غلام ہوجاؤ۔ قرآن کریم میں خداتعالیٰ فرماتا ہے

قُلْ یٰعِبَادِیَ الَّذِیْنَ اَسْرَفُوْا عَلٰی اَنْفُسِھِمْ

اس جگہ بندوں سے مراد غلام ہی ہیں نہ کہ مخلوق ۔ رسول کریم ﷺ کے بندہ ہونے کے واسطے ضروری ہے کہ آپؐ پر درود پڑھو اور آپؐ کے کسی حکم کی نافرمانی نہ کرو، سب حکموں پر کاربند رہو‘‘۔
(البدر۔ جلد ۲۔نمبر۱۴۔بتاریخ ۲۴؍اپریل۱۹۰۳ء ۔ صفحہ۱۰۹)
حضرت اقدس مسیح موعود علیہ السلام فرماتے ہیں :۔

’’اَللّٰھُمَّ صَلِّ وَسَلِّمْ وَبَارِکْ عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ بِعَدَدِ ھَمِّہٖ وَ غَمِّہٖ وَ حُزْنِہٖ لِھٰذِہِ الْاُمَّۃِ وَاَنْزِلْ عَلَیْہِ اَنْوَارَ رَحْمَتِکَ اِلَی الْاَبَدِ‘‘۔

(برکات الدعا۔ روحانی خزائن۔ جلد۶۔ صفحہ۱۱)
ترجمہ:۔اے اللہ درود اور سلام اور برکتیں بھیج آپ اور آپ کی آل پر۔اتنی زیادہ رحمتیں اور برکتیں جتنے ہم وغم اور حزن آپ کے دل میں اس امت کے لئے تھے اورآپ پر اپنی رحمتوں کے انوار ہمیشہ نازل فرماتا چلا جا۔
استغفار میں مداومت اختیار کریں
پھر اس تیسری شرط میں استغفار کے بارہ میں بھی ہے ۔قرآن کریم میں اللہ تعالیٰ فرماتا ہے :

فَقُلْتُ اسْتَغْفِرُوْا رَبَّکُمْ ۔ اِنَّہٗ کَانَ غَفَّارًا ۔ یُّرْسِلِ السَّمَآئَ عَلَیْکُمْ مِّدْ رَارًا۔ وَّیُمْدِدْکُمْ بِاَمْوَالٍ وَّ بَنِیْنَ وَیَجْعَلْ لَّکُمْ جَنّٰتٍ وَّ یَجْعَلْ لَّکُمْ اَنْھٰرًا (نوح: آیات ۱۱ تا ۱۳)

پس میں نے کہا اپنے ربّ سے بخشش طلب کرو یقینا وہ بہت بخشنے والا ہے۔ وہ تم پر لگاتار برسنے والا بادل بھیجے گا۔ اور وہ اموال اور اولاد کے ساتھ تمہاری مدد کرے گا اور تمہارے لئے باغات بنائے گا اور تمہارے لئے نہریں جاری کرے گا۔

فَسَبِّحْ بِحَمْدِ رَبِّکَ وَاسْتَغْفِرْہُ۔ اِنَّہٗ کَانَ تَوَّابًا (النصر آیت ۴)

پس اپنے ربّ کی حمد کے ساتھ (اس کی) تسبیح کر اور اُس سے مغفرت مانگ۔ یقینا وہ بہت توبہ قبول کرنے والا ہے۔
اس بارہ میں ایک حدیث ہے ۔ابو بردہ بن ابی موسیٰ ؓ اپنے والد ابو موسیٰ ؓ کے حوالہ سے روایت کرتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺنے فرمایا۔ اللہ تعالیٰ نے مجھ پر میری امت کو دو امانتیں دینے کے بارہ میں وحی نازل کی جو یہ ہیں۔

وَمَا کَانَ اللّٰہُ لِیُعَذِّبَھُمْ وَاَنْتَ فِیْھِمْ۔ وَمَا کَانَ اللّٰہُ مُعَذِّبَھُمْ وَھُمْ یَسْتَغْفِرُوْنَ (الانفال:آیت۳۴)

یعنی اللہ ایسا نہیں کہ انہیں عذاب دے جب تک تو ان میں موجود ہو اور اللہ ایسا نہیں کہ انہیں عذاب دے جبکہ وہ بخشش طلب کرتے ہوں۔ پس جب میں ان سے الگ ہوا تو میں نے ان میں قیامت تک کے لئے استغفار چھوڑا۔ (جامع ترمذی۔ کتاب تفسیر القرآن۔ تفسیر سورۃ الانفال)
حضرت ابن عباس رضی اللہ عنہما سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم نے فرمایا۔ جو شخص استغفار کو چمٹا رہتا ہے (یعنی استغفار کرتا رہتا ہے) اللہ تعالیٰ اس کے لئے ہر تنگی سے نکلنے کی راہ بنا دیتا ہے اور اس کی ہر مشکل سے اس کی کشائش کی راہ پیدا کردیتا ہے اور اسے ان راہوں سے رزق عطا کرتا ہے جن کا وہ تصور بھی نہیں کر سکتا ۔
(سنن ابو داؤد۔ کتاب الوتر۔ باب فی الاستغفار)
حضرت اقدس مسیح موعود علیہ السلام فرماتے ہیں کہ:
’’… استغفار جس کے ساتھ ایمان کی جڑیں مضبوط ہوتی ہیں قرآن شریف میں دو معنے پر آیا ہے۔ ایک تو یہ کہ اپنے دل کو خدا کی محبت میں محکم کر کے گناہوں کے ظہور کوجو علیحدگی کی حالت میں جوش مارتے ہیں خداتعالیٰ کے تعلق کے ساتھ روکنا اور خدا میں پیو ست ہوکر اس سے مدد چاہنا۔ یہ استغفار تو مقربوں کا ہے جو ایک طرفۃالعین خدا سے علیحدہ ہونا اپنی تباہی کا موجب جانتے ہیں اس لئے استغفار کرتے ہیں تا خدا اپنی محبت میں تھامے رکھے۔ اور دوسری قسم استغفار کی یہ ہے کہ گناہ سے نکل کر خدا کی طرف بھاگنا اور کوشش کرنا کہ جیسے درخت زمین میں لگ جاتا ہے ایسا ہی دل خدا کی محبت کا اسیر ہو جائے تا پاک نشوونما پاکر گناہ کی خشکی اور زوال سے بچ جائے اور ان دونوں صورتوں کا نام استغفار رکھا گیا۔ کیونکہ غَفَرَ جس سے اِستغفار نکلا ہے ڈھانکنے اور دبانے کو کہتے ہیں۔ گویا استغفار سے یہ مطلب ہے کہ خدا اس شخص کے گناہ جو اس کی محبت میں اپنے تئیں قائم کرتا ہے دبائے رکھے اور بشریت کی جڑیں ننگی نہ ہونے دے بلکہ الوہیت کی چادر میں لیکر اپنی قدوسیت میں سے حصہ دے۔ یا اگر کوئی جڑ گناہ کے ظہور سے ننگی ہوگئی ہو پھر اس کو ڈھانک دے اور اس کی برہنگی کے بداثر سے بچائے۔ سو چونکہ خدا مبدء فیض ہے اور اس کا نور ہر ایک تاریکی کے دور کرنے کے لئے ہروقت تیار ہے اس لئے پاک زندگی حاصل کرنے کے لئے یہی طریق مستقیم ہے کہ ہم اس خوفناک حالت سے ڈر کر اس چشمہ ٔ طہارت کی طرف دونوں ہاتھ پھیلائیں تا وہ چشمہ زور سے ہماری طرف حرکت کرے اور تمام گند کو یکدفعہ لے جائے۔ خدا کو راضی کرنے والی اس سے زیادہ کوئی قربانی نہیں کہ ہم درحقیقت اس کی راہ میں موت کو قبول کر کے اپنا وجود اس کے آگے رکھ دیں۔‘‘
(سراج الدین عیسائی کے چار سوالوں کا جواب۔ روحانی خزائن۔ جلد۱۲۔ صفحہ ۳۴۶-۳۴۷)
پھرآپ ؑ نے فرمایا:’’ …جب خدا سے طاقت طلب کریں یعنی استغفار کریں تو روح القدس کی تائید سے ان کی کمزوری دور ہو سکتی ہے اور وہ گناہ کے ارتکاب سے بچ سکتے ہیں جیسا کہ خدا کے نبی اور رسول بچتے ہیں۔ اور اگر ایسے لوگ ہیں کہ گنہگار ہو چکے ہیں تو استغفار ان کو یہ فائدہ پہنچاتا ہے کہ گناہ کے نتائج سے یعنی عذاب سے بچائے جاتے ہیں کیونکہ نور کے آنے سے ظلمت باقی نہیں رہ سکتی۔ اور جرائم پیشہ جو استغفار نہیں کرتے یعنی خدا سے طاقت نہیں مانگتے۔ وہ اپنے جرائم کی سزا پاتے رہتے ہیں‘‘۔
(کشتیٔ نوح۔ روحانی خزائن۔ جلد۱۹۔ صفحہ۳۴)
حضرت اقدس مسیح موعود علیہ السلام فرماتے ہیں:
’’بعض آدمی ایسے ہیں کہ ان کو گناہ کی خبر ہوتی ہے اور بعض ایسے کہ ان کو گناہ کی خبر بھی نہیں ہوتی۔ اسی لئے اللہ تعالیٰ نے ہمیشہ کے لئے استغفار کا التزام کرایا ہے کہ انسان ہر ایک گناہ کے لئے خواہ وہ ظاہر کا ہو خواہ باطن کا ہو ا سے علم ہو یا نہ ہو اور ہاتھ اور پائوں اور زبان اور ناک اور کان اور آنکھ اور سب قسم کے گناہوں سے استغفار کرتا رہے۔ آج کل آدم علیہ السلام کی دعا پڑھنی چاہئے۔

رَبَّنَا ظَلَمْنَآ اَنْفُسَنَا۔ وَ اِنْ لَّمْ تَغْفِرْلَنَا وَ تَرْحَمْنَا لَنَکُوْنَنَّ مِنَ الْخَاسِرِیْن۔

یہ دعا اول ہی قبول ہوچکی ہے۔ غفلت سے زندگی بسر مت کرو۔ جو شخص غفلت سے زندگی نہیں گزارتا ہرگز امید نہیں کہ وہ کسی فوق الطاقت بلا میں مبتلا ہو۔ کوئی بلا بغیراذن کے نہیں آتی جیسے مجھے یہ دعا الہام ہوئی:

رَبِّ کُلُّ شَیْئٍ خَادِمُکَ رَبِّ فَاحْفَظْنِیْ وَانْصُرْنِیْ وَارْحَمْنِیْ‘‘۔
(ملفوظات۔ جدید ایڈیشن۔ جلد دوم۔ صفحہ۵۷۷)

استغفار اور توبہ
حضرت اقدس مسیح موعود علیہ السلام فرماتے ہیں:

’’وَ اَنِ اسْتَغْفِرُوْا رَبَّکُمْ ثُمَّ تُوْبُوْا اِلَیْہ۔

یاد رکھو کہ یہ دو چیزیں اس امت کو عطا فرمائی گئی ہیں۔ ایک قوت حاصل کرنے کے واسطے۔ دوسری حاصل کردہ قوت کو عملی طور پر دکھانے کے لئے۔ قوت حاصل کرنے کے واسطے استغفار ہے جس کو دوسرے لفظوں میں استمداد اور استعانت بھی کہتے ہیں۔ صوفیوں نے لکھا ہے کہ جیسے ورزش کرنے سے مثلاً مگدروں اور موگریوں کو اٹھانے اور پھیرنے سے جسمانی قوت اور طاقت بڑھتی ہے اسی طرح پر روحانی مگدر استغفار ہے۔ اس کے ساتھ روح کو ایک قوت ملتی ہے اور دل میں استقامت پیدا ہوتی ہے۔ جسے قوت لینی مطلوب ہو وہ استغفار کرے ۔ غفر ڈھانکنے اور دبانے کو کہتے ہیں۔ استغفار سے انسان ان جذبات اور خیالات کو ڈھانپنے اور دبانے کی کوشش کرتا ہے( جو) خدا تعالیٰ سے روکتے ہیں۔ پس استغفار کے یہی معنے ہیں کہ زہریلے مواد جو حملہ کر کے انسان کو ہلاک کرنا چاہتے ہیں ان پر غالب آوے اور خداتعالیٰ کے احکام کی بجاآوری کی راہ کی روکوں سے بچ کر انہیں عملی رنگ میں دکھائے۔
یہ بات بھی یاد رکھنی چاہئے کہ اللہ تعالیٰ نے انسان میںدو قسم کے مادے رکھے ہیں۔ ایک سمی مادہ ہے جس کا موکل شیطان ہے اور دوسرا تریاقی مادہ ہے۔ جب انسان تکبر کرتا ہے اور اپنے تئیں کچھ سمجھتا ہے اور تریاقی چشمہ سے مدد نہیں لیتا تو سمی قوت غالب آجاتی ہے۔ لیکن جب اپنے تئیں ذلیل و حقیر سمجھتا ہے اور اپنے اندر اللہ تعالیٰ کی مدد کی ضرورت محسوس کرتا ہے اس وقت اللہ تعالیٰ کی طرف سے ایک چشمہ پیدا ہو جاتا ہے جس سے اس کی روح گداز ہو کر بہہ نکلتی ہے اور یہی استغفار کے معنی ہیں۔یعنی یہ کہ اس قوت کو پاکر زہریلے مواد پر غالب آجاوے‘‘۔
(ملفوظات۔ جدید ایڈیشن۔ جلداوّل۔ صفحہ۳۴۸-۳۴۹)
اللہ تعالیٰ کی حمد کرتے رہیں
پھر اس تیسر ی شرط میں ایک یہ بات بھی شامل ہے کہ ہر وقت اللہ تعالیٰ کی حمد کرتارہے گا۔ اس بارہ میں قرآن کریم میں اللہ تعالیٰ فرماتا ہے :

اَلْحَمْدُلِلّٰہِ رَبِّ الْعٰلَمِیْنَ (الفاتحہ آیت ۲)

تمام حمد اللہ ہی کے لئے ہے جو تمام جہانوں کاربّ ہے۔

اَلْحَمْدُ لِلّٰہِ الَّذِیْ لَہٗ مَا فِی السَّمٰوٰتِ وَمَا فِی الْاَرْضِ وَ لَہُ الْحَمْدُ فِی الْاٰخِرَۃِ۔ وَھُوَ الْحَکِیْمُ الْخَبِیْرُ۔ (سورۃ سبا:آیت۲)

سب حمد اللہ ہی کی ہے جس کا وہ سب کچھ ہے جو آسمانوں میں ہے اور جو زمین میں ہے اور آخرت میں بھی تمام تر حمد اُسی کی ہوگی اور وہ بہت حکمت والا(اور)ہمیشہ خبر رکھتا ہے۔
حضرت ابوہریرہؓ بیان کرتے ہیں کہ آنحضرتﷺ نے فرمایا: ہر اہم کام اگر خداتعالیٰ کی حمد کے بغیر شروع کیا جائے وہ ناقص رہتا ہے۔
ایک دوسری روایت میں یہ الفاظ ہیں کہ ہر کلام جو اللہ کی حمد کے بغیر شروع کیا جائے وہ بے برکت اور بے اثر ہوتا ہے۔
(۱- سنن ابن ماجہ ۔کتاب النکاح۔ باب خطبۃالنکاح۔ حدیث نمبر ۱۸۹۴۔
۲- سنن ابو داؤد۔ کتاب الادب۔ باب الْھَدی فی الکلام۔ حدیث نمبر۴۸۳۲)
ایک حدیث میں آتا ہے۔ نعمانؓ بن بشیر روایت کرتے ہیں کہ نبی ﷺ نے اپنے منبر پر کھڑے ہو کر فرمایا : ’’ جو شخص تھوڑے پر شکر نہیں کرتا وہ زیادہ پر بھی شکر نہیں کرتا اور جو لوگوں کا شکریہ ادا نہیں کرتا وہ اللہ تعالیٰ کے احسانات کا بھی شکریہ ادا نہیں کر پاتا۔ اللہ تعالیٰ کی نعماء کا ذکر خیر کرنا بھی شکر ہے۔ اور اللہ تعالیٰ کی نعماء کا ذکر خیر نہ کرنا ناشکری ہے۔
(مسند احمد بن حنبل۔ جلد ۴۔ صفحہ ۲۷۸۔ مطبوعہ بیروت)
حضرت معاذ بن جبل رضی اللہ عنہ روایت کرتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے ان کا ہاتھ پکڑا اور فرمایا۔ اے معاذ! اللہ کی قسم! یقینا میں تجھ سے محبت رکھتا ہوں‘ پھر آپؐ نے فرمایا اے معاذ! میں تجھے وصیت کرتا ہوں کہ تو ہر نماز کے بعد یہ دعا کرنا نہ بھولنا۔

اَللّٰھُمَّ اَعِنِّیْ عَلٰی ذِکْرِکَ وَ شُکْرِکَ وَحُسْنِ عِبَادَتِکَ۔

اے اللہ تعالیٰ! تو مجھے توفیق عطاء کر کہ میں تیرا ذکر، تیرا شکر اور اچھے انداز میں تیری عبادت کر سکوں۔
(سنن ابی داؤد۔ کتاب الوتر۔ باب فی الاستغفار)
حضرت اقدس مسیح موعود علیہ السلام فرماتے ہیں:
’’اگر انسان غور اور فکر سے دیکھے تو اس کومعلوم ہوگا کہ واقعی طور پر تمام محامد اور صفات کامستحق اللہ تعالیٰ ہی ہے۔ اور کوئی انسان یا مخلوق واقعی اور حقیقی طور پر حمدوثنا کا مستحق نہیں ہے۔ اگر انسان بغیر کسی قسم کی غرض کی ملونی کے دیکھے تو اس پر بدیہی طور پر کھل جاوے گا کہ کوئی شخص جو مستحق حمد قرار پاتا ہے وہ یا تو اس لئے مستحق ہو سکتا ہے کہ کسی ایسے زمانہ میں جبکہ کوئی وجود نہ تھا اور نہ کسی وجود کی خبر تھی وہ اس کا پیدا کرنیوالا ہو۔ یا اس وجہ سے کہ ایسے زمانہ میں کہ کوئی وجود نہ تھا اور نہ معلوم تھا کہ وجود اور بقاء وجود اور حفظ ِصحت اور قیام زندگی کے لئے کیا کیا اسباب ضروری ہیںاس نے وہ سب سامان مہیا کئے ہوں۔ یا ایسے زمانہ میں کہ اس پر بہت سی مصیبتیں آسکتی تھیںاس نے رحم کیا ہو اور اس کو محفوظ رکھا ہو۔ اور یا اس وجہ سے مستحق تعریف ہو سکتا ہے کہ محنت کرنے والے کی محنت کو ضائع نہ کرے اور محنت کرنے والوں کے حقوق پورے طور پر ادا کرے۔ اگرچہ بظاہر اجرت کرنے والے کے حقوق کا دینا معاوضہ ہے لیکن ایسا شخص بھی محسن ہو سکتا ہے جو پورے طور پر حقوق ادا کرے۔ یہ صفات اعلیٰ درجہ کی ہیں جو کسی کو مستحق حمدوثنا بناسکتی ہیں۔ اب غور کر کے دیکھ لو کہ حقیقی طور پر ان سب محامد کا مستحق صرف اللہ تعالیٰ ہی ہے جو کامل طور پر ان صفات سے متصف ہے اور کسی میں یہ صفات نہیں ہیں۔ …… غرض ا وَّلاً بالذات اکمل اور اعلیٰ طور سے خدا تعالیٰ ہی مستحق تعریف ہے۔ اس کے مقابلہ میں کسی دوسرے کا ذاتی طور پر کوئی بھی استحقاق نہیں۔ اگر کسی دوسرے کو استحقاق تعریف کا ہے تو صرف طفیلی طور پر ہے۔ یہ بھی خدا تعالیٰ کا رحم ہے کہ باوجودیکہ وہ وحدہ‘ لاشریک ہے۔ مگر اس نے طفیلی طور پر بعض کو اپنے محامد میں شریک کر لیا ہے‘‘۔
(روئیداد جلسہ دعا۔ روحانی خزائن۔ جلد۱۵۔ صفحہ۵۹۸تا۶۰۲)
جماعت کو عمومی نصیحت کرتے ہوئے آپ فرماتے ہیں:’’ اگر تم چاہتے ہو کہ آسمان پر فرشتے بھی تمہاری تعریف کریں تو تم ماریں کھائو اور خوش رہو اور گالیاں سنو اور شکر کرو۔ اور ناکامیاں دیکھو اور پیوند مت توڑو۔ تم خدا کی آخری جماعت ہو۔ سو وہ عمل نیک دکھلاؤ جو اپنے کمال میں انتہائی درجہ پر ہو۔ ہر ایک جو تم میں سست ہو جائے گا وہ ایک گندی چیز کی طرح جماعت سے باہر پھینک دیا جائے گا اور حسرت سے مریگا اور خدا کا کچھ نہ بگاڑ سکے گا۔ دیکھو میں بہت خوشی سے خبر دیتا ہوں کہ تمہارا خدا درحقیقت موجود ہے۔ اگرچہ سب اسی کی مخلوق ہے لیکن وہ اس شخص کو چن لیتا ہے جو اس کو چنتا ہے۔ وہ اس کے پاس آجاتا ہے جو اس کے پاس جاتا ہے۔ جو اس کو عزت دیتا ہے وہ بھی اس کو عزت دیتا ہے۔ تم اپنے دلوں کو سیدھے کر کے اور زبانوں اور آنکھوں اور کانوں کو پاک کر کے اس کی طرف آجائو کہ وہ تمہیں قبول کریگا۔‘‘
(کشتی نوح۔ روحانی خزائن۔ جلد۱۹۔ صفحہ۱۵)
حضرت اقد س مسیح موعود علیہ ا لسلام مزید فرماتے ہیں ۔
’’یہ مت خیال کرو کہ خدا تمہیں ضائع کر دے گا۔ تم خدا کے ہاتھ کا ایک بیج ہو جو زمین میں بویا گیا۔ خدا فرماتا ہے کہ یہ بیج بڑھے گا اور پھولے گا اور ہر ایک طرف سے اس کی شاخیں نکلیں گی اور ایک بڑا درخت ہو جائے گا۔ پس مبارک وہ جو خدا کی بات پر ایمان رکھے اوردرمیان میں آنے والے ابتلائوں سے نہ ڈرے کیونکہ ابتلائوں کا آنا بھی ضروری ہے تا خدا تمہاری آزمائش کرے کہ کون اپنے دعویٔ بیعت میں صادق اور کون کاذب ہے۔ وہ جو کسی ابتلاء سے لغزش کھائے گا وہ کچھ بھی خدا کا نقصان نہیں کرے گا اور بدبختی اس کو جہنم تک پہنچائے گی۔ اگر وہ پیدا نہ ہوتا تو اس کے لئے اچھا تھا۔ مگر وہ سب لوگ جو اخیر تک صبر کریں گے اور ان پر مصائب کے زلزلے آئیں گے اور حوادث کی آندھیاں چلیں گی اور قومیں ہنسی اور ٹھٹھا کریں گی اور دنیا ان سے سخت کراہت کے ساتھ پیش آئے گی۔ وہ آخر فتحیاب ہوں گے اور برکتوں کے دروازے ان پر کھولے جائیں گے۔
خدا نے مجھے مخاطب کر کے فرمایا کہ میں اپنی جماعت کو اطلاع دوں کہ جو لوگ ایمان لائے ایسا ایمان جو اس کے ساتھ دنیا کی ملونی نہیں اور وہ ایمان نفاق یا بزدلی سے آلودہ نہیں اور وہ ایمان اطاعت کے کسی درجہ سے محروم نہیں ایسے لوگ خدا کے پسندیدہ لوگ ہیں اور خدا فرماتا ہے کہ وہی ہیں جن کا قدم صدق کا قدم ہے‘‘۔
(رسالہ الوصیت۔ روحانی خزائن۔ جلد ۲۰۔ صفحہ ۳۰۹)
اللہ تعالیٰ ہم سب کو اس پر قائم رہنے کی توفیق عطا فرمائے ۔اللہ تعالیٰ ہمیں حقیقی معنوں میں سچا اور احمدی مسلمان بنائے ،ہمیں اپنے عہد بیعت پر قائم رہنے اور اس پر عمل کرنے والا بنائے ۔ خدا اوراس کے رسول ﷺکی سچی اور کامل اطاعت کرنے والا بنائے۔ ہم سے کبھی کوئی ایسا فعل سرزد نہ ہوجس سے حضرت اقدس مسیح موعو د
علیہ السلام کی اس پیاری جماعت پر کوئی حرف آئے ۔اے اللہ تو ہماری غلطیوں کو معاف فرما۔ ہماری پردہ پوشی فرما۔ ہمیں ہمیشہ اپنے فرمانبرداروں اور وفاداروں میں لکھ ۔ ہمیں ہمارے عہد وفا اور بیعت پر قائم رکھ، ہمیں اپنے پیاروں میں شامل رکھ،ہماری نسلوں کو بھی اس عہد کو نبھانے کی توفیق دے ۔کبھی ہمیں اپنے سے جدا نہ کرنا۔ ہمیں اپنی سچی معرفت عطا کر۔ اے ارحم الراحمین خدا ہم پر رحم فرما اورہماری ساری دعائیں قبول فرما۔ ہمیں ان تمام دعائوں کا وارث بنا جو حضرت اقدس مسیح موعود علیہ السلام نے اپنی جماعت کے لئے ، اپنی جماعت میں شمولیت اختیار کرنے والوں کے لئے کیں۔

50% LikesVS
50% Dislikes

اپنا تبصرہ بھیجیں