حضرت خلیفۃ المسیح الرابع کو غیروں کا خراج تحسین

روزنامہ ’’الفضل‘‘ ربوہ 27؍دسمبر 2003ء (سیدنا طاہر نمبر) میں ایک مضمون اُس خراج تحسین پر مشتمل ہے جو غیروں نے حضرت خلیفۃالمسیح الرابعؒ کی عظیم شخصیت کو پیش کیا۔
٭ جرمنی کا ایک معروف اخبار رقمطراز ہے: ایک ’’سچے خلیفہ‘‘ کے ذریعہ مشرقی ہیرو کا ایک نیا تصور ابھرا ہے۔ احمدیہ مسلم جماعت کے سربراہ کیلئے ظاہری نہیں بلکہ باطنی روحانی دنیا اہمیت رکھتی ہے۔ … آپ کے پیغام میں سب سے متاثر کرنیوالی بات یہ ہے کہ آپ امن کے شہزادے ہیں۔ دس ملین سے زیادہ پیروکاروں کے پیشوا نے کہا: ’’ہتھیار ہاتھ میں لے کر بنی نوع انسان کے دل فتح نہیں کئے جا سکتے اس طرح کے جہاد مقدس کا کوئی وجود نہیں۔‘‘
(NEUE PRESSEفرینکفرٹ 27؍ اکتوبر 1986ء)
٭ کوپن ہیگن کے ایک اخبار نے آپ کے بارہ میں لکھا: خلیفۃ المسیح بلا شبہ پر اثر شخصیت کے مالک ہیں۔ یہی نہیں بلکہ آپ مسلم فرقہ جماعت احمدیہ کے عالمی سربراہ بھی ہیں جس کے ممبران کی تعداد ایک کروڑ بیس لاکھ ہے۔
(روزنامہ Aktulet بابت12؍اگست 1982 ء ص10)
٭ ڈنمارک کا ایک اخبار لکھتا ہے: گزشتہ شام ہمیں خلیفۃ المسیح سے پندرہ منٹ کی ملاقات کا موقع عنایت ہوا لیکن اعلیٰ صلاحیتوں کی مالک اس پر کشش شخصیت کے ساتھ جسے قدرت نے مزاح کی حس سے بھی حصہ وافر عطا کیا ہے ہماری ملاقات طول پکڑتی چلی گئی اور پندرہ منٹ کی بجائے پنتالیس منٹ تک جاری رہی۔ (روزنامہ ’’بی ٹی‘‘ 13؍اگست1982ء)
٭ سوئٹزرلینڈ کا ایک اخبار لکھتا ہے: حضرت مرزا طاہر احمد بہت خلیق اور ملنسار ہیں آپ اپنی ذات کے بارہ میں بات کرنے کی بجائے اپنے فرائض منصبی اور جماعت کے بارہ میں بات کرنازیادہ پسند کرتے ہیں۔
(روزنامہ وائن لینڈ ٹاگ بلٹ زیورک سوئٹزر لینڈ۔ 3؍ ستمبر1982ء)
٭ آسٹریلیا کے معروف صحافی جیمز ایس مرے لکھتے ہیں: احمدیہ جماعت کے سربراہ جو ایک منتخب خلیفہ کی حیثیت میں زبردست خود اعتمادی کے مالک ہیں، یہ بات کسی قسم کی چشم نمائی کا باعث نہیں۔ وہ کہتے ہیں کہ احمدیوں کو جس قسم کے جبرو تشدد کا سامنا کرنا پڑرہا ہے اس سے ان کی مشابہت ابتدائی عیسائیوں سے ثابت ہوتی ہے اور آخرکار وہ بھی ان ہی کی طرح فتح حاصل کر کے رہیں گے۔
(دی آسٹریلین 29؍ستمبر1983ء)
٭ جلسہ سالانہ برطانیہ 1992ء کے موقع پر سیرالیون کے صدر کے ذاتی نمائندہ اور وزیر صحت ، سماجی امور و مذہبی امور مسٹر ایکن اے جبریل تشریف لائے اور حا ضرین جلسہ سے اپنے تاثرات میں کہا: ’’میں نے پہلی بار حضرت خلیفۃ المسیح الرابع سے ملاقات کی تو اس کا گہرا اثر میرے دل پر پڑا۔ میں حضرت امام جماعت احمدیہ سے بار بار ملنا چاہتا ہوں۔
(روزنامہ الفضل 4؍ اگست1992ء)
٭ سوئٹزرلینڈ کا ایک اخبار لکھتا ہے: مرز اطاہر احمد اس وقت تو خوب کھل کر بات کرتے تھے جب آپ کی جماعت کے عقائد کے متعلق کچھ دریافت کیا جاتا لیکن جب آپکی ذات کے متعلق کچھ دریافت کیا جاتا تو آپ کھل کر بات کرنے سے کسی قدر اجتناب فرماتے۔ آپ نے بتایا کہ آپ ایک سادہ اور عاجز انسان ہیں بقول آپ کے آپ نے کوئی خاص قابل لحاظ تعلیم حاصل نہیں کی ۔آپ سکول میں پچھلے بنچوں پر بیٹھنے والوں میں سے تھے۔ آپ خود اس امر پر حیران تھے کہ خدا تعالیٰ نے آپ کو جماعت احمدیہ کا سر براہ چن لیا…آپ بات کو مزاح کا رنگ دینے کی طرف طبعی میلان رکھتے ہیں۔
(Neue Zurcher Zettung Zurich 31؍اگست 1982 )
٭ 1986ء میں ایک کیتھولک پادری جناب شیل آرلد پولیستاد نے حضورؒ سے ناروے میں ملاقات کی اور وہاں کے اخبار “Stavanger Aftenbla” میں ستمبر 1986ء میں اپنے تاثرات میں انہوں نے بیان کیا: امام جماعت احمدیہ بغیر کسی ظاہری شان وشوکت کے موجود تھے۔ مگر وہ طبعی وقار جو ایک حقیقی مذہبی رہنما کا طرہ ٔامتیاز ہے ان میں بدرجہ اتم نظر آرہاتھا۔ آپ سیاہ رنگ کی شیروانی اور سفید طرہ دارعمامہ میں ملبوس تھے۔ آپ کا سارا وجود ایک ایسی طمانیت کا مظہر تھاجس کی بنیاد خدا تعالیٰ کی ہستی پر گہرے ایمان سے نصیب ہوسکتی ہے۔ بلا شبہ یہ مقام طمانیت انہیں اسی راہ کو بہترین اور مسلسل طور پر اپنانے سے ملا ہے جسے وہ بر حق جانتے ہیں۔ہاں وہی مذہب جو کامل فرمانبرداری کا پیامبر ہے۔
(سو ونیئر86۔87مجلس خدام الاحمدیہ کراچی صفحہ17)
٭ لارڈ ایرک ایو بری ، لندن نے جلسہ سالانہ برطانیہ 2002ء کے موقع پر خطاب کرتے ہوئے کہا: میں خاص طور پر آپ کے سربراہ حضرت مرزا طاہر احمد کو خراجِ تحسین پیش کرتا ہوں جن کی دانشمندانہ قیادت نے آپ کو مشکلات کے گرداب سے بچا لیا اور امید واثق ہے کہ ان کی قیادت جماعت احمدیہ کے لئے نہ صرف برطانیہ میں بلکہ پوری دنیا میں ایک روشن مستقبل پیدا کرے گی جس سے ساری انسانیت کو فائدہ ہو گا۔ (روزنامہ الفضل سالانہ نمبر2002ء ص66)
٭ جلسہ سالانہ برطانیہ 1994ء کے موقع پر مکرم Mahmood Basik (جو کینیڈا میں بوسنیا ریلیف سنٹر کے ڈائریکٹر ہیں) نے کہا کہ میں نے حال ہی میں کروشیا اور زاغرب کا دورہ کیا ہے جہاں میری بوسینیا کے صدر علی جاہ عزت بیگوچ سے ملاقات ہوئی۔انہوں نے میرے توسط سے حضرت خلیفۃ المسیح الرابع اور تمام احمدیوں کو سلام بھجوایا ہے۔ مکرم محمود باثق صاحب نے دعا کی کہ حضورؒ ایسی قیادت بوسنیا کو بھی نصیب ہو۔
(روزنامہ الفضل 11؍اگست 1994ء)
٭ کرشن ریلے چیف ایڈیٹر انڈیا لنکر لنڈن لکھتے ہیں: میں ایک روحانی لیڈر کے بارہ میں مزید جاننے کا خواہش مند تھا جو چند دن پہلے اپنے مریدوں کے دس ہزار کے مجمع کو جلسہ سالانہ ٹلفورڈ (سرے) کے موقع پر اپنی تقریر سے مسحور کررہا تھا۔ہر شخص ان کی تقریر خاموشی کے ساتھ غور سے سن رہا تھاکہ جیسے ہر لفظ وحی کی طرح نازل ہورہا ہو۔ حضرت مرزا طاہر احمد ایک سکالر تھے۔ جنہوں نے اپنی زندگی کو نیک مقاصد کے لئے وقف کر رکھا تھا۔ ان کی زندگی میں نظم وضبط تھا اور وہ فی زمانہ کی جدید سائنسی اور سوشل ترقیات سے بخوبی واقف تھے۔
(ہفت روزہ لاہور۔ 4؍اکتوبر 2003ء)
٭ برطانوی سیکنڈری سکولوں کے لئے شائع ہونے والی ایک کتاب Religion in Life میں اسلام کے سربرآوردہ لوگوں میں حضورؒ کا تعارف اور تصویر بھی شامل اشاعت کی گئی ہے۔
(ضمیمہ انصاراللہ۔ ستمبر 1987ء)
٭ 1987ء میں جب حضورؒ نے امریکہ کا دورہ فرمایا تو واشنگٹن ڈی سی میں 7؍اکتوبر کا دن وہاں کے میئر نے آپ کے نام کرنے کا اعلان کیا۔ نیز امریکی سینیٹ کے نمائندہ جناب وینس ہارک نے ’’نشان امریکہ‘‘ کا اعزاز حضورؒ کی خدمت میں پیش کیا۔
(ضمیمہ مصباح فروری 1988ء)
٭ برطانوی ممبر آف پارلیمینٹ ٹام کاکس نے حضورؒ کی کتاب “Revelation,….” پر تبصرہ کرتے ہوئے کہا: آپؒ ہمہ جہت صلاحیتوں کی مالک شخصیت ہیں اور مختلف النوع علوم کے ماہر ہیں۔ آپ ایک حاذق طبیب ہیں اور سائنسی علوم سے بہرہ ور ہیں، ایک جید فلاسفر اور منجھے ہوئے شاعر ہیں۔ دراصل آپ ابن سینا اور ابن رشد کی طرح علم کا بے پناہ خزانہ ہیں اور انواع و اقسام کے مضامین اور علم کی مختلف شاخوں پر خوب دسترس رکھتے ہیں۔ اس انہایت وسیع اور گہرے علم کے ساتھ ساتھ جو مختلف جہتوں سے آپ کو حاصل ہے، آپ اسلام کی تعلیمات کی حکمت اور عظمت کو سمجھنے میں دیگر تمام دنیا سے بلند ایک ممتاز مقام پر فائز ہیں۔ حقیقت کے منکر اور دہریوں کے خلاف آپ کے دلائل قاطع ہیں اور ایسے ہیں کہ انہیں اُن کے ناقابل فہم اور بعد از عقل خیالات کے بارہ میں دوبارہ سوچنے پر مجبور کردیں۔ اس کتاب کی سب سے اہم خصوصیت قرآن کا وہ گہرا اور عظیم علم ہے جو آپ کسی نظریئے کی تائید میں پیش فرماتے ہیں۔ دراصل مذہبی صحائف کا علم محض ذاتی مطالعہ کی بنا پر حاصل نہیں کیا جاسکتا۔ یہ تحفہ خداوندی ہے جو صرف چند لوگوں کے حصہ میں آتا ہے اور مَیں یقین رکھتا ہوں کہ آپؒ ان خوش نصیب لوگوں میں سے ہیں جو الہام کی نعمت سے حصہ پاتے ہیں اور جنہیں خدا تعالیٰ اپنی جناب سے اس نعمت عظمیٰ کے لئے چن لیتا ہے۔ مَیں نہایت وثوق سے کہہ سکتا ہوں کہ اسلامی دنیا کے علم و فضل سے بہرہ ور لوگوں کے سردار ہیں اور مَیں آپ کی عظمت کو سلام کرتا ہوں۔
٭ متحدہ قومی موومنٹ کے بانی لیڈر جناب الطاف حسین نے حضورؒ کی وفات پر کہا: ایک عظیم رہنما اور سکالر اس دنیا سے رخصت ہوا ہے اور اپنے پیچھے ایک بڑا خلا چھوڑ گیا ہے۔ ان کی یاد انمٹ اور ہمیشہ رہنے والی ہے۔
(محرر۔ 20؍اپریل 2003ء)

50% LikesVS
50% Dislikes

اپنا تبصرہ بھیجیں