حضرت راجہ عطا محمد خان صاحبؓ

حضرت راجہ عطا محمد خانصاحبؓ کا شمار حضرت مسیح موعودؑ کے اوّلین صحابہؓ میں ہوتا ہے۔ آپؓ کے والد راجہ شیر احمد خان صاحب کرناہ درادہؔ کے حکمران تھے۔ مہاراجہ گلاب سنگھ کے زمانہ میں اُنہیں اسیرسلطان بناکر کشمیر میں یاڑی پورہ، نونہ مئی وغیرہ بطور جاگیر دیئے گئے۔ حضرت راجہ عطا محمد خان صاحبؓ کے بارہ میں ایک مضمون مکرم راجہ نصیر احمد خان صاحب کے قلم سے ماہنامہ ’’مشکوٰۃ‘‘ قادیان جون 2002ء میں شامل اشاعت ہے۔
حضرت راجہ صاحب کا تعلق اہلحدیث فرقہ سے تھا۔ دنیوی تعلیم کے علاوہ قرآن و حدیث کے ماہر تھے۔ علم طب پر بھی عبور تھا اور لوگوں کا علاج مفت کرتے تھے۔ ترقی کرتے کرتے وزیر بن گئے اور کشمیر کے علاوہ گلگت میں بھی تعینات رہے۔ حضرت حکیم مولوی نورالدین صاحبؓ کے ساتھ گہرے تعلقات تھے۔ جب حضرت مسیح موعودؑ کے دعویٰ کا اشتہار پڑھا تو بہت متأثر ہوئے اور دعاؤں میں لگ گئے۔ رؤیا میں حضور علیہ السلام کی صداقت کا انکشاف ہوا۔ اُن دنوں آنکھوں میں موتیابند کی وجہ سے بیمار تھے اس لئے اپنے چھوٹے بھائی حضرت راجہ محمد صدر خان صاحبؓ کو حضورؑ کی خدمت میں سلام پہنچانے کے لئے قادیان روانہ کیا۔ وہ پاپیادہ پیرپنچال سے ہوتے ہوئے براستہ جموں و سیالکوٹ، قادیان پہنچے۔ 21 دن یہاں رہ کر حضورؑ کے دست مبارک پر بیعت کی اور اپنے علاقہ کا پہلا احمدی ہونے کا شرف حاصل کیا۔ جب واپس جاکر حضرت راجہ عطا محمد خانصاحب کو سارے حالات سے آگاہ کیا تو آپ زار زار روئے اور باوجود بیماری کے، اپنے بیس سالہ بیٹے حضرت راجہ یار محمد خان صاحبؓ اور چند معتمد ملازمین کو ساتھ لے کر قادیان پہنچے۔ حضورؑ کی خدمت میں حاضر ہوتے ہی مصافحہ کیا اور فرط جذبات سے زمین پر گر پڑے۔ حضورؑ نے خود اٹھایا اور شربت منگواکر پلایا۔ پھر دستی بیعت کا شرف عطا فرمایا اور آپؓ کو اجازت دی کہ لوگوں سے حضورؑ کی بیعت لے لیا کریں۔ پھر آپؓ کو علاج کے لئے لاہور جانے کو کہا اور فرمایا کہ انشاء اللہ آپ کی آنکھیں بالکل ٹھیک ہوجائیں گی۔ چنانچہ علاج کے بعد آپؓ کی آنکھیں بالکل ٹھیک ہوگئیں۔ آپؓ دوبارہ قادیان آئے اور کچھ عرصہ مزید رہ کر روحانی فیض لے کر کشمیر واپس پہنچے اور دعوت الی اللہ کا سلسلہ شروع کردیا۔
قادیان سے واپسی پر آپؓ اپنے بیٹے اور ایک ملازم کے ہمراہ گڑھی حبیب اللہ کے رئیس خان محمد حسین کے ہاں مقیم ہوئے۔ وہاں پر ملاّؤں نے احمدیوں کو واجب القتل قرار دے رکھا تھا۔ جب اُنہیں آپؓ کی آمد کا علم ہوا تو ملاّؤں نے خان محمد حسین کو آمادہ کیا کہ ثواب کی خاطر اُسے آپؓ کو قتل کروا دینا چاہئے۔ وہ ملاّؤں کی باتوں میں آگیا اور اُس نے آپؓ کے قتل کے لئے آدمی بھی مقرر کردیئے۔ جب آپؓ اپنے بستر پر لیٹے اور ابھی سوئے ہی تھے تو حضرت مسیح موعودؑ آپؓ کو خواب میں نظر آئے اور فرمایا کہ راجہ صاحب! آپ اسی وقت یہاں سے اٹھ کر چلے جائیں، آپ کے قتل کا منصوبہ بن چکا ہے۔ آپؓ نے فوراً اپنے بیٹے اور ملازم کو جگایا اور خاموشی سے پیدل ہی چل پڑے۔ صبح کے وقت نماز ادا کی۔ دیکھا تو محمد حسین کا وزیر گھوڑے پر آپؓ کی طرف آ رہا ہے۔ اُس نے کھانا آپؓ کو پیش کیا اور پوچھا کہ آپؓ کو اس منصوبہ کا علم کیسے ہوا تھا۔ ساری بات کھل جانے پر وزیر بہت متأثر ہوا۔ کچھ عرصہ بعد جب راجہ صاحب دوبارہ قادیان گئے تو پھر خان محمد حسین کے پاس ٹھہرے۔ اُس نے اپنے فعل پر اظہار ندامت کیا اور معافی مانگ کر خاطر مدارات میں کوئی کسر نہ اٹھا رکھی۔
آپؓ کی نیکی اور راست بازی مسلمہ تھی۔ بہت سارے اقربا اور ملازمین نے احمدیت قبول کرلی۔ 2؍محرم الحرام 1898ء کو آپؓ نے ایک تبلیغی جلسہ منعقد کیا جس میں تحریری شہادت پیش کی کہ کس طرح آپؓ پر حضورؑ کی صداقت منکشف ہوئی۔ پھر شرائط بیعت سنائی گئیں اور دیگر مسائل پر تقاریر ہوئیں۔ شام تک آپؓ کے ہاتھ پر 80 ؍افراد نے قبول احمدیت کی توفیق پالی۔
حضرت راجہ صاحبؓ کی کچھ ذاتی زمین چک ایمریچھ (ڈیسنڈ) میں واقع تھی۔ آپؓ نے وہیں آخری ایام گزارے اور 14؍اپریل 1904ء کو وفات پائی اور چک ایمریچھ میں اپنے آبائی قبرستان میں دفن ہوئے۔ آپؓ کے فرزند حضرت راجہ یار محمد خان صاحبؓ جو کرگلؔ کے نائب تحصیلدار بھی رہے، صرف 29 سال کی عمر میں وفات پاگئے۔ تاہم حضرت راجہ صاحبؓ کی نسل اعلیٰ تعلیم یافتہ اور اعلیٰ سرکاری عہدوں پر فائز ہے اور جماعتی خدمت کی بھی سعادت پارہی ہے۔

50% LikesVS
50% Dislikes

اپنا تبصرہ بھیجیں