حضرت سردار محمد ایوب خان صاحبؓ

روزنامہ ’’الفضل‘‘ ربوہ 8؍فروری 2001ء میں حضرت سردار محمد ایوب خانصاحبؓ کا ذکر خیر کرتے ہوئے مکرم سلیم شاہجہانپوری صاحب رقمطراز ہیں کہ آپؓ کے دادا لطف اللہ خان صاحب اپنے بھائی کے ہمراہ افغانستان سے ہجرت کرکے ہندوستان آئے تھے۔ بھائی نے پنجاب میں اور آپؓ نے مرادآباد میں سکونت اختیار کرلی، یہیں شادی کی اور اولاد ہوئی۔
حضرت سردار محمد ایوب خانصاحب کا کوئی مقدمہ عدالت میں چل رہا تھا جس میں کامیابی ناممکن نظر آتی تھی۔ اس دوران آپ کی ملاقات کسی احمدی سے ہوئی جس کے مشورہ پر آپ نے حضرت مسیح موعودؑ کی خدمت میں دعا کی درخواست کی۔ مقدمہ میں خدا تعالیٰ آپ کو فتح دی اور آپ عقیدت و محبت کے جذبات لے کر قادیان پہنچ گئے۔ حضور علیہ السلام کو دیکھا تو دل نے سچائی کا اقرار کیا۔ چنانچہ بیعت کی سعادت حاصل اور داعی الی اللہ بن کر لَوٹے۔ شدھی تحریک کے دوران آپؓ کو نمایاں خدمت کی توفیق ملی۔ قادیان سے مرادآباد جانے والے وفد نے آپؓ کے مکان پر ہی قیام کیا۔
حضرت مصلح موعودؓ نے ایک بار فرمایا کہ مجھے ایک دوست رسالدار میجر محمد ایوب صاحبؓ کا احسان ساری زندگی نہیں بھول سکتا۔ آپؓ حضرت مسیح موعودؑ سے ملنے گورداسپور آئے اور دو باتیں ایسی کیں جو میرے لئے ہدایت کا باعث بنیں۔ ایک یہ کہ دلّی کا رواج تھا کہ بچے باپ کو تم کہہ کر مخاطب کرتے تھے، لکھنؤ وغیرہ میں آپ کہہ کر مخاطب کرتے ہیں۔ مَیں حتی الوسع حضرت مسیح موعودؑ کو مخاطب کرنے سے کتراتا تھا لیکن اگر ضرورت پڑ جاتی تو ’’تم ‘‘ کہہ کر مخاطب کرتا تھا۔ ایک بار مجھے اس دوست کی موجودگی میں حضورؑ سے تم کہہ کر بات کرنا پڑی تو انہوں نے مجھے بازو سے پکڑا اور مجلس سے ایک طرف لے جاکر کہا کہ میرے دل میں آپ کا بڑا ادب ہے لیکن یہ ادب ہی چاہتا ہے کہ آپ کو آپ کی غلطی سے آگاہ کروں اور وہ یہ کہ آپ کو حضرت مسیح موعودؑ کو مخاطب کرتے وقت ’’آپ‘‘ کہنا چاہئے نہ کہ ’’تم‘‘، ورنہ پھر آپ نے یہ غلط لفظ بولا تو جان لے لوں گا۔
اگرچہ میرے نزدیک تم اور آپ میں فرق نہ تھا لیکن اس دوست کی نصیحت کے بعد مَیں حضورؑ کے لئے آپ کا لفظ استعمال کرنے لگا۔ اسی طرح جب مَیں نے کچھ لڑکوں کو نکٹائی لگاتے دیکھا تو مَیں نے بھی ایک نکٹائی لگانی شروع کردی۔ اس پر وہی دوست مجھے پکڑ کر ایک طرف لے گئے اور کہنے لگے کہ آج آپ نے نکٹائی پہنی ہے تو ہم کل کنچنیوں کا تماشہ دیکھنے لگ جائیں گے کیونکہ ہم نے تو آپ سے سبق سیکھنا ہے۔ جو قدم آپ اٹھائیں گے، ہم آپ کے پیچھے چلیں گے۔ یہ کہہ کر انہوں نے مجھ سے نکٹائی مانگی اور مَیں نے اتار کر دیدی۔ مَیں سمجھتا ہوں کہ ایک مخلص متبع کو ایسا ہی ہونا چاہئے۔
مضمون نگار بیان کرتے ہیں کہ حضرت ایوب خانصاحبؓ بہت نیک دل، شفیق اور ہمدرد خلائق انسان تھے۔ دنیوی لحاظ سے بلند مرتبہ تھے لیکن انکسار کا مادہ کوٹ کوٹ کر بھرا ہوا تھا۔ 1936ء میں آپؓ کی وفات ہوئی، تدفین مراد آباد میں ہوئی اور موصی ہونے کی وجہ سے بہشتی مقبرہ قادیان کے قطعہ صحابہ میں یادگاری کتبہ نصب کیا گیا۔

50% LikesVS
50% Dislikes

اپنا تبصرہ بھیجیں