حضرت سیدہ فاطمۃالزھراء

آنحضرتﷺ کی والدہ ماجدہ حضرت آمنہ کی رحلت کے بعد حضرت ابوطالب کی زوجہ حضرت فاطمہ نے آپؐ کی پرورش کی۔ آنحضورﷺ نے انہیں ہمیشہ ماں کہہ کر پکارا اور وہی درجہ دیا۔ اُن کی وفات کے بعد آنحضرتﷺ کے ہاں حضرت فاطمہ الزھراء پیدا ہوئیں تو آنحضورﷺ نے اپنی چچی کی یاد میں ان کا نام فاطمہ رکھا۔ ایک بار آنحضورﷺ نے فرمایا کہ اس کا نام فاطمہ اس لئے رکھا گیا ہے کہ اللہ تعالیٰ نے اسے اور اس کی اولاد کو قیامت کے روز آگ سے محفوظ رکھا ہے۔ آنحضورﷺ نے آپؓ کو ’’امّ ابیھا‘‘ کی کنیت عطا کی۔ سفر پر روانہ ہوتے وقت سب سے آخر میں آپؓ سے الوداعی ملاقات کرتے اور واپسی پر بھی سب سے پہلے ملاقات فرماتے۔ حضرت خدیجہؓ کی وفات کے بعد حضرت فاطمہؓ ہی حضورؐ کے پاس آپؐ کی خدمت میں مصروف رہیں۔
حضرت فاطمۃالزہراء کے فضائل و مناقب کا بیان مکرم پروفیسر محمد اسلم صابر صاحب کے قلم سے ماہنامہ ’’انصاراللہ‘‘ ربوہ جنوری و فروری 2002ء میں شامل اشاعت ہے۔
حضرت فاطمہؓ کی پیدائش 20؍جمادی الآخر بروز جمعہ ہوئی جب قریش کعبہ کی تعمیر کر رہے تھے یعنی بعثت نبوی سے چند سال قبل۔ آپؓ کی پیدائش سے قبل آنحضورﷺ نے حضرت خدیجہؓ سے فرمایا کہ جبریل نے مجھے بشارت دی ہے کہ یہ لڑکی ہے، بڑی پاک روح ہے اور اللہ تعالیٰ میری نسل اس سے قائم رکھے گا۔
روایات میں حضرت فاطمہؓ کے نو نام آئے ہیں۔ ایک نام محدثہ ہے جس کی وجہ یہ ہے کہ فرشتے آسمان سے نازل ہوکر آپؓ سے باتیں کرتے تھے۔
حضرت امّ سلمیٰؓ بیان کرتی ہیں کہ فاطمہ بنت رسول تمام لوگوں سے بڑھ کر شکل و صورت میں رسول اللہﷺ سے مشابہت رکھتی تھیں۔ حضرت عائشہؓ کا بیان ہے کہ مَیں نے اللہ کی مخلوق میں گفتگو اور کلام میں فاطمہ سے بڑھ کر کسی کو رسول اللہﷺ کے مشابہ نہیں دیکھا۔ وہ جب بھی حضورؐ کے پاس آتیں، حضورؐ اُن کا ہاتھ تھام لیتے اور اُسے بوسہ دیتے اور اُن کو خوش آمدید کہتے، اُنہیں اپنی جگہ پر بٹھاتے۔ اسی طرح جب حضورؐ اُن کے پاس تشریف لاتے تو وہ بھی اٹھ کھڑی ہوتیں، خوش آمدید کہتیں اور آپؐ کا ہاتھ تھام کر بوسہ دیتیں۔
ایک بار حضرت علیؓ نے آنحضورﷺ سے دریافت کیا کہ ہم دونوں میں سے کون حضورؐ کو زیادہ پیارا ہے؟۔ فرمایا: اے علی! تُو میرے دل میں فاطمہ سے زیادہ عزت رکھتا ہے اور وہ تجھ سے بڑھ کر مجھے پیاری ہے۔
حضرت خدیجہؓ کی وفات کے بعد آنحضورﷺ نے حضرت فاطمہؓ کو حضرت امّ سلمیٰ کی تربیت میں دے دیا تھا۔ جب حضرت عبدالرحمنؓ بن عوف اور حضرت سعد بن معاذ انصاریؓ نے حضرت علیؓ کو رائے دی کہ وہ اپنے لئے حضرت فاطمہؓ کا رشتہ مانگیں تو ایک روز حضرت علیؓ آنحضورﷺ کی خدمت میں حضرت امّ سلمیٰؓ کے ہاں حاضر ہوئے اور زمین پر بیٹھ کر زمین کی طرف دیکھنے لگے گویا کوئی بات کہنا چاہتے ہیں مگر شرماتے ہیں۔ آنحضورﷺ کے پوچھنے پر مدعا عرض کیا تو آپؐ کا چہرہ خوشی سے تمتما اٹھا اور آپؐ نے حضرت علیؓ کی زرہ کے عوض حضرت علیؓ کا نکاح حضرت فاطمہؓ سے منظور فرمالیا۔ یہ زرہ بھی آنحضورﷺ نے ہی تحفۃً حضرت علیؓ کو عنایت فرمائی تھی۔یہ زرہ چارسو درہم میں فروخت ہوئی۔ پھر آنحضورﷺ نے حضرت انسؓ کے ذریعہ اپنے کئی صحابہؓ کو نام لے کر بلوایا اور اُن کی موجودگی میں خطبہ نکاح پڑھا۔ یہ 2ہجری کے آغاز کا واقعہ ہے جبکہ رخصتانہ اسی سال ذوالحجہ میں ہوا جبکہ حضرت فاطمہؓ کی عمر 15 سال اور حضرت علیؓ کی 21 سال تھی۔ رخصتی نہایت سادگی سے ہوئی۔ آنحضورﷺ نے اپنی خچر پر کمبل تہ کرکے ڈال دیا اور حضرت فاطمہؓ سے فرمایا کہ اس پر سوار ہوجائیں۔ پھر حضرت سلمان فارسیؓ کو حکم دیا کہ سواری کے آگے آگے چلیں اور خود حضورؐ حضرت حمزہؓ، حضرت عقیل بن ابوطالبؓ اور بنوہاشم کے دیگرافراد کے ہمراہ سواری کے پیچھے چلنے لگے۔ عورتوں کو حکم دیا کہ فاطمہؓ کے ساتھ چلیں اور خوشی کے اظہار کے طور پر رجز پڑھیں، حمد کریں مگر کوئی ایسی بات نہ کریں جو خدا کو ناپسند ہو۔ چنانچہ حضرت امّ سلمیٰؓ، حضرت عائشہؓ، حضرت حفصہؓ اور انصاری عورتوں کی نمائندگی میں حضرت امّ سعد بن معاذ انصاریؓ نے اس پُروقار محفل میں ایسے اشعار پڑھے جن میں آنحضورﷺ کے حوالہ سے حضرت فاطمہؓ کی فضیلت بیان کی گئی تھی۔

50% LikesVS
50% Dislikes

اپنا تبصرہ بھیجیں