حضرت سیدہ نصرت جہاں بیگم صاحبہؓ

روزنامہ ’’الفضل‘‘ ربوہ 17؍اپریل 2003ء میں حضرت سیدہ نصرت جہاں بیگم صاحبہؓ کی فیاضیوں اور مالی قربانیوں کا تذکرہ مکرم محمد جاوید صاحب نے اپنے مضمون میں کیا ہے۔
سلسلہ کی کوئی تحریک ایسی نہیں جس میں حضرت سیدہؓ نے حصہ نہ لیا ہو۔ مساجد کی تعمیر، لنگر خانہ، لجنہ اماء اللہ، مسجد فضل لندن، برلن میں مسجد، لنگر کے لئے دیگوں کا انتظام، اخبار الفضل، منارۃالمسیح، تحریک جدید۔ صرف تحریک جدید کے پہلے نو سال میں آپؓ نے مجموعی طور پر 3142؍روپے پیش کئے۔
حضرت حافظ مولوی غلام رسول صاحبؓ وزیرآبادی جب 1917ء میں ماریشس جانے لگے تاکہ حضرت مولوی عبیداللہ صاحب مرحوم کے اہل خانہ کو وہاں سے لے آئیں تو حضرت اماں جانؓ نے آپؓ کو بیس روپے بھجوائے۔ وہ بیان فرماتے ہیں کہ بعد میں مَیں ہجرت کرکے قادیان آگیا اور بارہ سال سے یہاں مقیم ہوں اور تقریباً سات سال سے فالج کے مرض میں مبتلا ہوں۔ اس عرصہ میں حضرت اماں جان وقتاً فوقتاً مجھے اپنے عطیہ جات سے مستفیض فرماتی رہتی ہیں۔
حکیم محبوب الرحمن صاحب بنارسی کی اہلیہ نے اپنا چندہ دینے کے لئے ایک بار زیور گروی رکھا اور پھر زیور چھڑانے کے لئے حضرت اماں جانؓ کو خط لکھا کہ بیس روپے بھجوادیں جو آپؓ نے فوراً بذریعہ منی آرڈر بھجوادیئے۔
ماسٹر حکیم عبدالعزیز خان صاحب نے حضرت مسیح موعودؑ کی وفات کے بعد حضرت اماں جانؓ سے حضورؑ کا بستر حاصل کرنے کی خواہش کی۔ آپؓ نے فرمایا کہ وہ تو ڈاکٹر مرزا یعقوب بیگ صاحب اور شیخ رحمت اللہ صاحب بانٹ کر لے گئے ہیں۔ اس پر انہوں نے اس چادر کی فرمائش کی جو حضورؑ کے زیراستعمال رہتی تھی۔ آپؓ نے ایثار کرتے ہوئے وہ چادر عطا فرمادی اور سوال ردّ نہ فرمایا۔
محترمہ حسن بی بی صاحبہؓ بیان کرتی ہیں کہ جب مَیں پہلی بار قادیان آئی تو حضرت اماں جانؓ نے میرے بچوں کے لئے مٹھائی کا تھال منگوایا اور میرے پرانے رنگدار کپڑے بدلنے کے لئے ایک نیا جوڑا نکال کر دیا اور دوپٹہ بھی چُن کر دیا حالانکہ میری آپؓ سے کوئی واقفیت بھی نہیں تھی۔ پھر حضرت مصلح موعودؓ کی آمین پر آپؓ نے سب کے لئے جوڑے بنوائے اور مجھے بھی ایک اچھا جوڑا دیا۔
مئی 1900ء میں منارۃالمسیح کی تعمیر کے لئے آپؓ نے ایک ہزار روپیہ پیش کیا اور اس کے لئے اپنی دہلی کی جائیداد فروخت کردی۔ اسی طرح حضورؑ کو 1898ء میں دینی ضرورت کے لئے فوری رقم چاہئے تھی تو حضورؑ نے قرضہ لینے کی تجویز کا ذکر کیا۔ اس پر آپؓ نے عرض کیا کہ میرے پاس ایک ہزار روپیہ نقد ہے اور کچھ زیورات ہیں، وہ لے لیں۔ حضورؑ نے یہ بطور قرض لیا اور اس کے عوض ایک باغ کو رہن کردیا اور یہ تحریری طور پر رجسٹری بھی کروا دیا۔ اس طرح یہ تعلیم بھی دیدی کہ بیوی کا مال اُس کا اپنا ہوتا ہے۔
حضرت مسیح موعودؑ بعض علماء کے کفر و قتل کے فتووں کے نتیجہ میں راستہ میں امن نہ ہونے کی وجہ سے باوجود شدید خواہش کے حج نہ کرسکے۔ حضورؑ کی وفات کے بعد حضرت اماں جانؓ نے پہلے حضورؑ کا قرض ادا کرنے کا انتظام کیا اور پھر حافظ احمداللہ صاحب کو زاد راہ دے کر حضورؑ کی طرف سے حج بدل کروایا۔ نیز حضرت خلیفۃالمسیح الاوّلؓ کی خدمت میں بھی کئی بار رقوم پیش کیں جن کا ذکر حضورؓ نے ازخود فرمایا۔
1908ء کے جلسہ سالانہ پر حضرت بھائی عبدالرحمن صاحبؓ قادیانی نے جب حضرت مسیح موعودؑ کے مہمانوں کی نہایت اعلیٰ خدمت کی توفیق پائی تو انجمن نے حضرت حافظ عبدالرحیم صاحبؓ مالیرکوٹلوی اور انہیں دس دس روپے انعام دیا۔ حضرت اماں جانؓ بھی ازراہ کرم آپؓ کے گھر تشریف لائیں اور حضرت اقدسؑ کی ایک دستار بطور تبرک عطا فرمائی۔

50% LikesVS
50% Dislikes

اپنا تبصرہ بھیجیں