حضرت سیدہ چھوٹی آپا

ماہنامہ مصباح ربوہ کی خصوصی اشاعت بیاد حضرت سیدہ چھوٹی آپا میں حضرت چھوٹی آپا کے نواسے مکرم ڈاکٹر سید غلام احمد فرخ صاحب بیان کرتے ہیں کہ مَیں ابھی صرف دو ماہ ہی کا تھا کہ میری نانی نے مجھے اپنا بیٹا بنالیا اس لئے مَیں اُنہیں امی کہتا ہوں۔ مَیں بچپن میں امی کو شرارتوں کی وجہ سے بہت تنگ کرتا تھا لیکن کبھی شرارت پر سزا نہیں ملی۔ ہاں تعلیم کے معاملے میں سختی کرتی تھیں، چاہے دینی تعلیم ہو یا دنیاوی۔ قرآن کریم پڑھنے کے دوران، شرارتاً غلطی کی تو بہت ناراض ہوئیں۔ جمعہ کی ادائیگی میں سستی پر بھی ناراضگی کا اظہار کرتی تھیں۔ ناراضگی بھی ایسی ہوتی کہ صرف بے رُخی سے بات کرتی تھیں یا اس طرح دیکھتی تھیں کہ ناراضگی کا پتہ لگ جائے۔

سیّد غلام احمد فرخ صاحب

بچپن میں ہی یہ بات مَیں نے نوٹ کی کہ حضرت خلیفۃالمسیح الثالثؒ اور دیگر بزرگوں کا بہت ادب کرتی تھیں۔ کوشش کرتیں کہ حضورؒ کی طرف پیٹھ نہ ہو۔ پھر یہی ادب کا طریق حضرت خلیفۃالمسیح الرابع ایدہ اللہ کے لئے بھی تھا۔ حضرت سیدہ مہر آپا سے آپ کا تعلق ایک بہن کی طرح تھا۔
گھر پر آئے ہوئے ہر مہمان کے ساتھ شفقت کا سلوک کرتی تھیں۔ بعض اوقات ایسی خواتین کو جن سے خونی رشتہ نہیں ہوتا تھا، اپنا کمرہ دیدیتی تھیں اور جلسہ سالانہ میں تو اپنا بستر برآمدہ میں بچھالیتیں۔ مَیں نے ایک بار ایسا نہ کرنے کو کہا تو بہت ناراض ہوئیں اور کہا کہ مَیں نے مہمان نوازی حضرت مصلح موعودؓ سے سیکھی ہے اور اُن کے بعد اس طریق کو بدل نہیں سکتی۔
آپ نے گھر میں کسی کی کبھی برائی نہیں کی۔ ہمیشہ ایسے رنگ میں لوگوں کا ذکر کیا کہ اس سے دلوں میں عزت نہ کم ہو۔ مطالعہ کا بے حد شوق تھا، ہمیشہ آپ کے ہاتھ میں کتاب دیکھی۔ پڑھنے کی رفتار تیز تھی لیکن مضمون کی سمجھ بھی حیران کن تھی۔ رمضان میں قرآن کریم کے کئی دَور کرلیتی تھیں اور یہ نمازوں، تہجد، درس القرآن، اور روزمرہ کے لجنہ کے کاموں کے ساتھ تھا۔
گو آپ کو حضرت مصلح موعودؓ کی یاد ستاتی تھی لیکن بالعموم اس کا ذکر نہیں کرتی تھیں۔ لیکن ایک دو مواقع پر شدید اظہار کیا۔ 1991ء میں قادیان جلسہ پر گئیں۔ یہ 1947ء کے بعد آپ کا قادیان کا پہلا سفر تھا۔ اس جلسہ کے بعد مجھے خط لکھا کہ ’’بعض دفعہ تو لگتا تھا کہ اُن کے قدموں کی چاپ سنائی دے رہی ہے اور یہ ابھی آجائیں گے‘‘۔
آپ کا وجود ایک دعاگو وجود تھا۔ بارہا اس بات کا ذکر کیا کہ مَیں تو اللہ سے وہی دعا کرتی ہوں جو حضرت مسیح موعودؑ کیا کرتے تھے یعنی

یہ ہو مَیں دیکھ لوں تقویٰ سبھی کا
جب آوے وقت میری واپسی کا

50% LikesVS
50% Dislikes

اپنا تبصرہ بھیجیں