حضرت سید زین العابدین ولی اللہ شاہ صاحبؓ

روزنامہ ’’الفضل‘‘ ربوہ 21؍اپریل 2007ء میں حضرت سید زین العابدین ولی اللہ شاہ صاحبؓ کی سیرۃ و سوانح تفصیل سے بیان کی گئی ہے۔
حضرت شاہ صاحبؓ موضع سہالہ چوہدراں ضلع راولپنڈی میں 13؍مارچ 1889ء کو پیدا ہوئے اور پرورش رعیہ ضلع سیالکوٹ میں ہوئی جہاں آپ کے والد حضرت ڈاکٹر سید عبدالستار شاہ صاحبؓ ہسپتال کے انچارج تھے۔ حضرت ڈاکٹر صاحب نے 1901ء میں احمدیت قبول کی۔ آپ نہایت متوکل، عابد، زاہد اور مستجاب الدعوات بزرگ تھے۔ حضرت امّ طاہر آپؓ ہی کی صاحبزادی تھیں۔
حضرت سید زین العابدین ولی اللہ شاہ صاحب نے پانچویں جماعت تک تعلیم نارووال مشن ہائی سکول میں حاصل کی اور 1903ء میں تعلیم الاسلام ہائی سکول قادیان کی چھٹی جماعت میں داخل ہوئے۔ اس وقت آپ کی عمر 14 سال تھی۔ اُنہی دنوں آپ کو سیدنا حضرت مسیح موعودؑ کے ہاتھ پر بیعت کی سعادت بھی حاصل ہوئی۔ اور پھر حضورؑ کے وصال تک حضورؑ کی پاک صحبت سے فیض پانے کا موقع ملا۔
آپؓ ہمیشہ انتظار میں رہتے کہ جب حضرت مسیح موعودؑ باہر نکلیں تو آپؑ کی صحبت سے مستفید ہوں۔ چنانچہ بیان فرماتے ہیں کہ ایک دن دس بجے کے قریب مدرسہ احمدیہ (جو اس وقت تعلیم الاسلام ہائی سکول تھا) کے صحن میں کھڑا تھا کہ چھوٹی مسجد سے حضرت مسیح موعودؑ کی آواز آئی۔ میں وہاں پہنچا تو دیکھا ایک شخص امرتسر سے تحقیق کے لئے آیا ہوا ہے اور حضورؑ اس کی خاطر سے تشریف لائے ہیں اور پانچ چھ اَور آدمی وہاں جمع ہیں۔ اس نے سوال کیا کہ آپؑ کی بیعت یا صحبت سے کیا فائدہ حاصل ہوتا ہے؟ اس کا جواب دیتے ہوئے حضورؑ جوش کی حالت میں تقریر فرمانے لگے۔ دوران تقریر میں بہت ہی گونجتی ہوئی بلند آواز سے فرمایا کہ ایک بچہ جس نے ایک ہفتہ بھی میری صحبت میں گزارا ہے، وہ مشرق اور مغرب کے لوگوں کو شکست دے سکتا ہے اور اپنے اندر وہ تاثیر رکھتا ہے جو ان لوگوں میں نہیں۔ اس پر آپ کی آنکھیں سرخ تھیں اور حضور میری طرف دیکھ رہے تھے۔ میری عمر اس وقت سترہ سال کی ہوگی۔ اس وقت اس مجلس میں میرے سوا اور کوئی بچہ نہ تھا اور اس وقت میں نے یہ دعا کی کہ الٰہی! حضور کے اس قول کا مَیں ہی مصداق بنوں۔ اس دعا کرنے کو میں نے اس لئے غنیمت سمجھا کہ میں نے سنا ہوا تھا کہ اولیاء اللہ کی نظر ایک منٹ میں وہ کچھ کرسکتی ہے کہ سینکڑوں سال کی محنت و اعمال نہیں کر سکتے اور میرا یہ یقین ہے کہ اس وقت جو مجھے مشرق و مغرب میں دعوت الی اللہ کی توفیق ملی اور بڑے سے بڑے عالم اور بڑے سے بڑے امیر نے میری باتوں کو سن کر میرے ہاتھوں کو چوما ہے، وہ محض مسیح موعود کی اس نظر کی برکت سے تھا۔
ایک بار آپ کو سیدنا حضرت مسیح موعودؑ کو پنکھا کرنے کی سعادت بھی حاصل ہوئی۔ حضور اس وقت بیٹھے کچھ لکھ رہے تھے۔ اسی طرح ایک مرتبہ کبڈی کھیلتے ہوئے آپؓ کے دائیں گھٹنے پر سخت چوٹ آگئی تھی۔ حضورؑ نے میٹھے تیل اور کافور کی مالش کرنے کا ارشاد فرمایا اور آپ کی ٹانگ خدا کے فضل سے اور حضرت مسیح موعودؑ کی دعا سے ٹھیک ہو گئی۔
1908ء میں میٹرک کے بعد آپ اپنے والد صاحب کے منشاء کے مطابق ڈاکٹری تعلیم حاصل کرنے کے لئے گورنمنٹ کالج لاہور میں داخل ہوئے۔ لیکن 1910ء میں حضرت خلیفۃ المسیح الاول نے آپ سے فرمایا: ’’جتنی انگریزی کی ہمیں ضرورت ہے اتنی آپ نے پڑھ لی ہے۔ اب نورالدین کی شاگردی اختیار کریں۔ جس راستے پر نورالدین چلائے گا اس میں آپ کے لئے کامیابی ہے‘‘۔ چنانچہ حضورؓ کے ارشاد پر لبیک کہتے ہوئے آپ حضورؓ کے قدموں میں حاضر ہو گئے اور قرآن مجید کے درس سے استفادہ کیا نیز حضورؓ سے اور حضورؓ کے ارشاد پر بعض علماء سے مختلف علوم حاصل کئے۔
جب حضرت مسیح موعودؑ نے مدرسہ احمدیہ قائم کرنے کا ارادہ فرمایا تو ہائی سکول کے طلباء کو وقف زندگی کی تحریک فرمائی۔ حضرت شاہ صاحب نے وقف کی نیت کرکے اسی وقت سے دعائیں شروع کر دیں۔ پھر جب حضرت مسیح موعودؑ کے وصال پر آپؓ حضورؑ کی آخری زیارت کرکے کمرہ سے باہر نکلے تو حضرت مرزا محمود احمد صاحب نے فرمایا: ’’میں نے حضرت مسیح موعود کو مخاطب کرکے یہ عہد کیا ہے کہ اگر ساری جماعت تجھے چھوڑ دے تو میں تیرے کام کی تکمیل کے لئے اپنی جان (قربان کرنے) سے دریغ نہ کروں گا‘‘۔ آپؓ نے حضرت شاہ صاحبؓ سے بھی فرمایا کہ وہ بھی یہ عہد کریں۔ اس پر انہوں نے بھی یہ عہد کیا۔
حضرت مصلح موعودؓ کی تحریک پر آپ 1913ء میں حصول تعلیم کے لئے مصر اور بعض دیگر عرب ممالک کے لئے روانہ ہوئے۔ حضرت خلیفۃ المسیح الاولؓ نے دعا کے ساتھ الوداع کیا۔ آپؓ قاہرہ پہنچے لیکن زیادہ دیر تک وہاں قیام نہ کر سکے اور عربی کی تدریس کے لئے بیروت اور بعد ازاں حلب چلے گئے، جہاں اعلیٰ پایہ کے اساتذہ سے تحصیل علوم کی۔ یہ اساتذہ بلامعاوضہ آپؓ کو پڑھانے کی انتہائی خواہش رکھتے تھے کیونکہ ان کا کہنا تھا کہ وہ مجھ میں خیروبرکت کو دیکھ رہے ہیں۔ بعدازاں آپؓ نے بیت المقدس میں امتحان دیا اور اعلیٰ نمبروں پر کامیاب ہوئے۔ پھر صلاح الدین ایوبیہ کالج بیت المقدس میں بطور پروفیسر تاریخ الادیان مقرر ہوئے۔ جہاں انگریزی اور اردو مضامین کی تدریس بھی آپ کے سپرد ہوئی۔ فن تعلیم و تدریس میں وزارت تعلیم استنبول کی طرف سے منعقدہ امتحان میں آپ اول آئے اور آپ نے تمغہ مجیدی اور پچاس اشرفیاں انعام حاصل کیا اور شام کی یونیورسٹی سے وزیرتعلیم کے دستخط کے ساتھ سند حاصل کی۔ بعد ازاں آپ سلطانیہ کالج کے وائس پرنسپل مقرر ہوئے اور علم النفس اور علم الاخلاق کے مضامین بھی آپ کو پڑھانے کا موقع ملا۔
حضرت شاہ صاحبؓ کے زمانہ قیام بیروت میں عثمانیہ حکومت ترکیہ، فلسطین، اردن، شام اور لبنان پر حکمران تھی۔ جنگ عظیم کا آغاز ہوا تو آپؓ نے ترک حکومت کا ساتھ دیا اور انگریزوں کے خلاف جنگ میں حصہ لیا۔ چنانچہ اکتوبر 1918ء کے آخر میں برٹش فوج آپؓ کو بطور جنگی اور سیاسی قیدی قاہرہ لے گئی جہاں سے مئی 1919ء میں آپؓ کو لاہور لایا گیا۔ یہاں سے حضرت مصلح موعودؓ کی کوششوں سے آپؓ کو آزادی ملی۔ پھر آپؓ کو نظارت امورعامہ کا کام سپرد کیا گیا۔ 1954ء تک سلسلہ احمدیہ کی مختلف نظارتوں پر فائز رہے۔ نیز آخری ایام تک سلسلہ کی خدمات بجالاتے رہے۔
1924ء میں جب حضرت مصلح موعودؓ لندن تشریف لے گئے تو راستہ میں دمشق میں بھی آپؓ نے قیام فرمایا۔ وہاں کے ادیب علامہ عبدالقادر مغربی نے حضورؓ سے کہا کہ ہمارا ملک دین سے خوب واقف ہے، عربی ہماری زبان ہے، یہاں آپ کی دعوت الی اللہ بے اثر ثابت ہوگی۔ حضورؓ نے فرمایا کہ میں واپس جا کر پہلا کام یہ کروں گا کہ آپ کے ملک میں مربی بھجواؤں گا۔ چنانچہ حضورؓ نے 1925ء میں مولانا جلال الدین صاحب شمسؓ کو دمشق بھیجا اور حضرت سید زین العابدین ولی اللہ شاہ صاحبؓ کو آپ کے ساتھ یہ جائزہ لینے کے لئے بھیجا کہ بلاد عربیہ میں ہمیں کس رنگ میں تبلیغ کرنی چاہئے۔ چنانچہ آپؓ نے وہاں چھ ماہ تک قیام کیا۔ ایک معزز خاندان میں وہاں آپؓ نے شادی بھی کی۔ آپ کے برادرنسبتی السید احمد فائق الساعاتی محکمہ پولیس میں ایک کلیدی عہدہ پر فائز تھے۔ دورانِ قیام آپؓ نے ’’کشتی نوح‘‘ کا ترجمہ کیا اور ایک کتاب بعنوان ’’حیاۃ المسیح و وفاتہ‘‘ بھی شائع کی۔ اور اسی طرح دینی امور کا جائزہ لینے کے بعد قادیان تشریف لائے۔
1931ء میں حضرت مصلح موعودؓ نے کشمیری مسلمانوں کو حقوق دلانے کے لئے جدوجہد شروع فرمائی تو جن افراد کو کشمیر بھجوایا ان میں حضرت ولی اللہ شاہ صاحبؓ بھی تھے۔ حضرت شاہ صاحب موصوف نے نہایت ہی کٹھن کام کئے اور دشوارگزار علاقوں میں پیدل سفر کرکے مظلوم مسلمانوں کی مدد کی۔ اسی اثناء میں کہ آپ کشمیر کے دور دراز علاقوں میں سفر پر تھے، کہ بیمار ہوئے اور پھر معجزانہ طور پر آپ کو اللہ تعالیٰ نے شفادی۔ چنانچہ آپ تحریر فرماتے ہیں: ’’میں راولپنڈی سے قادیان پہنچا۔ معلوم ہوا کہ پلورسی کا عارضہ ہے۔ میرے دوست ڈاکٹر حشمت اللہ صاحبؓ میرے معالج تھے اور میرے بھائی ڈاکٹر میجر سید حبیب اللہ شاہ صاحب ملتان میں تھے۔ انہیں مجھ سے بہت محبت تھی میری بیماری کا سن کر مع بیوی قادیان آئے۔ انہوں نے حالت دیکھ کر Lumbri Puncture کا علاج تجویز کیا۔ اس ذریعہ سے پھیپھڑوں کے پردہ سے پانی نکالا جارہا تھا کہ پچکاری کی سوئی جلد میں ٹوٹ گئی۔ ڈاکٹر حشمت اللہ صاحب نئی سوئی شفاخانہ نور سے لے آئے۔ میں ان دنوں اپنے مکان دارالانوار میں تھا۔ جمعہ کا دن تھا، سوئی نکالی گئی اور کچھ پانی بھی نکلا۔ لیکن میری حالات دگرگوں ہو گئی۔ حضرت خلیفۃ المسیح الثانی کو علم ہوا تو آپ مع خاندان تشریف لائے۔ حضرت اماں جانؓ، سیدہ امّ ناصر صاحبہؓ اور سیدہ ام ّطاہر صاحبہؓ دیکھ کر سخت رنج میں ڈوب گئیں۔ بھائی نے آبدیدہ ہو کر دیوار سے سہارا لیا۔ نبض کی حالت دیکھ کر مایوسی طاری تھی۔ اسی اثناء میں حضرت خلیفۃ المسیح الثانی ایک دوسرے کمرہ میں دعا کے لئے الگ ہو گئے۔ ادھر وہ دعا میں تھے، ادھر میں اپنے عزیزواقرباء کو بے بسی میں دیکھ رہا تھا۔ میں نے اچانک دیکھا کہ فضائے بالا سے فرشتوں کا اتار چڑھاؤ ہے۔ ان میں سے کسی نے میرے دل کو تھاما اور کسی نے پھیپھڑوں کو اور ایک نے شیشہ کا گلاس میرے سامنے پیش کیا۔ اس میں آب زلال تھا اور جلی حروف میں گلاس پر ’’سلامٌ‘‘ لکھا تھا۔ میں نے وہ پیا۔ یہ سب عین بیداری میں واقعہ ہوا جبکہ میں دوسروں کو دیکھ رہا تھا۔ حضرت خلیفۃ المسیح کو بحالت دعا مکاشفہ ہوا اور آپؓ کو تسلی دی گئی کہ فکر نہ کریں شاہ صاحب سلامت ہیں۔ حضورؓ نے ام طاہر صاحبہؓ سے اس کا ذکر کیا۔ اتنے میں ڈاکٹر حشمت اللہ صاحبؓ نے نبض دیکھی تو وہ بحالت صحیحہ چل رہی تھی اور میں روبصحت تھا۔ دو مختلف جگہوں میں دو مشاہدوں کا ایک ہی وقت میں مظاہرہ ہوا جو کن فیکون کی تخلیق کا نمونہ تھا جو اس زمانہ دہریت و کفر میں دکھایا گیا‘‘۔
1947ء میں قیام پاکستان پر پولیس نے قادیان میں جن احمدیوں کو گرفتار کیا ان میں حضرت شاہ صاحبؓ بھی تھے۔ آپ 14 ستمبر کو نظربند ہوئے اور کئی ماہ تک گورداسپور جالندھر کی جیل میں صبرآزما مشکلات کا سامنا کرنے کے بعد اپریل 1948ء میں بین المملکتی معاہدہ کے مطابق پاکستان منتقل ہوئے اور رہا کر دیئے گے۔ آپؓ کی قید کے دوران حضرت مصلح موعودؓ نے خواب دیکھا کہ آپؓ حضورؓ کے پاس آکر بیٹھ گئے ہیں۔ صرف قمیص پہنی ہوئی ہے۔ تھوڑی دیر تک باتیں کیں اور پھر یہ نظارہ غائب ہو گیا۔ حضورؓ نے اس خواب کے متعلق فرمایا کہ جو شخص قید میں ہو اس کے رہا ہونے کی دو ہی تعبیریں ہوتی ہیں یا وفات یا پھر واقعہ میں رہا ہو جانا۔ گویا اس رؤیا کی ایک تعبیر تو ا چھی ہے اور ایک منذر۔ دوستوں کو دعا کرنی چاہئے کہ اس رؤیا کی اچھی تعبیر ظاہر ہو۔
حضرت شاہ صاحبؓ کو تربیتی اور تنظیمی میدان میں سلسلہ کی گراں قدر خدمت کرنے کی توفیق ملی۔ آپؓ ناظر دعوۃ الی اللہ، ناظر تعلیم و تربیت، مبلغ بلاد عرب، ناظر تجارت، ناظر امورعامہ و امور خارجہ، قائمقام ناظر اعلیٰ اور ایڈیشنل ناظر اعلیٰ بھی تعینات رہے۔ نیز بطور رکن نظارت تالیف و تصنیف بحیثیت مصنف ترجمہ و شرح بخاری کی بھی توفیق پائی۔
حضرت شاہ صاحبؓ نہایت عابد، دعاگو، صاحب رؤیا و کشوف اور مستجاب الدعوات بزرگ تھے۔ کئی مواقع پر اللہ تعالیٰ نے رؤیا و کشوف کے ذریعہ آپ کی رہنمائی کی اور بشارتوں سے نوازا۔ عربی زبان پر عبور رکھتے تھے۔ تقریر نہایت فصیح عربی میں ہوتی تھی اور انداز بیان بھی جوشیلا ہوتا تھا۔ بعض اہم کتب کے تراجم کئے جو آپ کی عربی دانی پر گواہ ہیں۔ قرآن مجید کے ساتھ آپ کا طبعی لگاؤ تھا اور جب آپ کسی آیت کی تفسیر فرماتے تو وجد آ جاتا تھا۔ عربوں کے سامنے جب آپ قرآن مجید کی تفسیر فرماتے تو کئی عرب ساتھی اور اساتذہ دریافت کرتے کہ آپ نے قرآن مجید کہاں سے پڑھا؟ تو آپؓ جواب دیتے کہ میں نے یہ تفسیر حضرت مولوی نورالدین صاحبؓ سے سیکھی ہے۔
کئی سال جلسہ سالانہ پر علمی تقاریر فرماتے رہے جن میں سے 23کتابی صورت میں طبع ہوئیں۔ نیز اخبارات و رسائل میں جو مضامین اور تقاریر شائع ہوئیں، اُن کی تعداد 45 سے زائد ہے۔ آپؓ نے بخاری کے انیس اجزاء کی شرح اور ترجمہ مکمل کرلیا تھا لیکن بوقت وفات اظہار افسوس فرماتے کہ بخاری کا کام مکمل نہ ہوا۔
15 اور16 مئی 1967ء کی درمیانی شب 78 سال کی عمر میں حضرت شاہ صاحبؓ کی وفات ہوئی اور بہشتی مقبرہ ربوہ میں دفن ہوئے۔ حضرت خلیفۃ المسیح الثالثؒ نے نماز جنازہ پڑھائی، جنازہ کو کندھا دیا اور قبر تیار ہونے پر دعا کرائی۔
آپؓ نے اپنے پیچھے دو لڑکے اور پانچ لڑکیاں چھوڑیں۔ آپؓ کی وفات سے پہلے آپؓ کی اہلیہ محترمہ نے خواب دیکھا کہ آپؓ کے استقبال کے لئے حضرت مصلح موعودؓ تشریف لارہے ہیں اور یہ کہ نہایت عمدہ دروازے بنا کر لگوائے گئے ہیں۔

آپ کی وفات پر مکرم چودھری شبیر احمد صاحب نے جو نظم کہی، اُس میں سے انتخاب ملاحظہ کریں:

نازاں تیری زبان پہ تھی ام الالسنہ
عارف بنا گیا تجھے اک شوق بے پنہ
پروانۂ خلافتِ حقّہ رہا مدام
تھے دین مصطفی کیلئے تیرے صبح و شام
تو یادگارِ عہدِ مسیح الزمان تھا
فضل عمر کی بزم کا اک رازدان تھا
اے جانے والے جا تیرا فردوس ہو مقام
تجھ پر خدا کی رحمتیں اَفشاں رہیں مدام

50% LikesVS
50% Dislikes

اپنا تبصرہ بھیجیں