حضرت سید مختار احمد شاہجہانپوری صاحبؓ

روزنامہ ’’الفضل‘‘ ربوہ 16؍اکتوبر 2006ء میں حضرت سید مختار احمد صاحب شاہجہانپوریؓ کی سیرۃ کے حوالہ سے مکرم لئیق احمد طاہر صاحب کا مضمون شامل اشاعت ہے۔

قبل ازیں ’’الفضل انٹرنیشنل‘‘ کے شماروں 25؍جولائی 1997ء، 29؍جنوری 1999ء، 28؍اپریل 2000ء اور 17؍ستمبر 2004ء کے ’’الفضل ڈائجسٹ‘‘ میں بھی آپؓ کی سیرۃ پر روشنی ڈالی جاچکی ہے۔ چنانچہ ذیل میں صرف اضافی محاسن کا ہی ذکر کیا جارہا ہے۔
پورانام مختار احمد، تخلص مختار تھا۔ 1857ء کے قریب شاہجہانپور میں پیدا ہوئے۔ والد حضرت حافظ سید علی احمد میاں اپنے دور کے جید عالم، مدرس، متعدد کتب کے مصنف۔ قرآن فہمی، فقہ اور حدیث میں خاص ملکہ رکھتے تھے۔ دادا سید ضیاء الدین احمد بہت بڑی جاگیر کے مالک تھے اور رؤسائے شاہجہانپور میں ممتاز حیثیت کے مالک تھے۔
شاعری کے لئے نہایت موزوں طبیعت پائی تھی۔ ابتدا میں کچھ اصلاح اپنے استاد حضرت فضل احمد سے لی بعدازاں امیر مینائی سے شر ف تلمذ حاصل کیا۔ اس زمانہ کے نامور شعراء اور ادباء آپ کی غیر معمولی لیاقت کے معترف اور قدر دان تھے۔
ابتدا میں تعلیم گھر میں ہی حاصل کی۔ دین سے ہمیشہ شغف رہا۔ آپ کی نظم اور نثر ساری عمر تصوف ، ادب، روحانیات اور الہٰیات کے ابلاغ کیلئے وقف تھے۔ قرآن مجید حفظ کیا۔ گھر میں نماز ودعا کے بعد بڑا مشغلہ باغبانی تھا۔
عین زمانہ شباب میں حضرت مسیح موعودؑ کی ایک زیر طبع کتاب کی پُرمعرفت تحریر نے آپ کی روح گداز کر دی۔ اور 1892ء میں بیعت کر کے داخل سلسلہ ہوگئے۔ قرآن مجید میں خدا تعالیٰ نے آنحضرتﷺ کیلئے

’’وَجَدَکَ ضَالًّا فَھَدیٰ‘‘

کے الفاظ استعمال کئے ہیں اس کے عام معروف ترجمہ سے آنحضرت ؐکی کسر شان ہوتی تھی۔ حضرت مسیح موعود نے فرمایا کہ ضال کے معنے محبت میں گم ہو جانے کے ہیں۔ جیسے کوئی انسان کسی کے فراق اور ہجر کی وجہ سے غم اور حزن کی وجہ سے وفور عشق و محبت کی وجہ سے کھو سا جاتا ہے یہی حال عشق ایزدی میں رسول اللہ ﷺ کا تھا۔
حضرت حافظ صاحب کے دربار کی عجیب شان خسروانہ تھی۔ پُروقار گفتگو، باادب اہل مجلس، نفیس طبیعت۔ مزاج شناس۔ خصوصاً جب کوئی زیر تبلیغ مجلس میں بیٹھے ہوں توپھر تو سماں بندھ جاتا تھا۔
شعر و شاعری میں عموماً لوگ آپ سے اصلاح لیتے تھے۔ لیکن جن کی طبیعت اس فن کیلئے موزوں نہ ہوتی اُنہیں روک دیتے۔ ہزاروں ہزار اشعار یاد تھے۔ سیدنا حضرت مسیح موعودؑ کے فارسی یا اردو اشعار پر اگر کوئی مخالف اعتراض کرتا تو جھٹ مستند شعراء کے کلام سے بیسیوں اشعار اسی بحر اور قافیہ کے پیش کر دیتے۔ محض اسی ایک مثال سے آپ کے وسعت مطالعہ اور ادب سے محبت کا علم ہو سکتا ہے۔ کئی دفعہ فرمایا کہ ہم جب شعر کہتے ہیں تو پانچ دس شعر کہنا ہمارے اختیار سے باہر ہے۔ پھر تو ایک بارش برسنا شروع ہو جاتی ہے اور جب تک خود بخود سو پچاس شعر موزوں نہ ہو جائیں طبیعت سیر نہیں ہوتی۔ سلسلہ کے پرانے رسائل فاروق، الحکم اور الفضل میں آپ کی نعتیں اور حمد باری تعالیٰ سے معمور نظمیں آپ کے بلند مقام کی شاہد ناطق ہیں ۔
صاحب الہام و رؤیا و کشوف تھے۔ جامعہ احمدیہ کے سالانہ امتحانات کے بعد مَیں اپنے ایک دوست کے ہمراہ حاضر ہوا اور حضرت حافظ صاحب سے امتحان میں کامیابی کے لئے ہم نے دعا کی درخواست کی۔ اس پر آپ نے فرمایا: میاں جائو اور خوش رہو، تم امتحان میں پاس ہوگئے ہو۔ چنانچہ ایسا ہی ہوا۔
اسی طرح میرے ایک عزیز دوست کی والدہ حضرت حافظ صاحب کے زیرتبلیغ تھیں۔ بحث و مباحثہ میں کئی مہینے صرف ہوئے۔آخر ایک روز والدہ نے اپنے بیٹے کو بیعت فارم پُر کرکے بند لفافہ میں ڈال کر دیا کہ حضرت حافظ صاحب کو دے آؤ۔ جب وہ لفافہ آپ کو دیا تو بیٹے نے عرض کیا کہ آپ نے اسے کھول کر دیکھا نہیں کہ اس میں کیا ہے ۔ فرمایا: ہمیں معلوم ہے اس میں تمہاری والدہ کا بیعت فارم ہے۔ پھر فرمایا: میاں یاد رہے ’’ اگر ہم پر بارش نہیں پڑتی تو پھوار تو ضرور پڑتی ہے۔‘‘ گویا آپ کو کشفاً یا الہاماً خدا تعالیٰ نے قبل از وقت اس سارے واقعہ کی خبر دے رکھی تھی۔
کئی بار فرمایا کہ اگر زیر تبلیغ شخص میرے پاس ایک دفعہ آنے کے بعد دوبارہ چلا آئے۔ تو ہمیں یقین ہو جاتا ہے کہ اب یہ احمدیت کی نعمت سے محروم نہیں رہے گا۔ اور ہم نے اس کا نظارہ بیسیوں دفعہ دیکھا ہے۔ دعوت الی اللہ کے بارے میں فرماتے کہ مخالف کو ہمیشہ مسکت جواب نہیں دینا چاہئے کیونکہ مسکت جواب سے سلسلہ دعوت الی اللہ رک جاتا ہے۔ اسی طرح فرمایا مناظرہ میں یہ کوشش نہیں کرنی چاہئے کہ مخالف کے ایک ایک اعتراض کا جواب دیا جائے بلکہ اس کے موٹے اور ٹھوس اعتراضات کا مدلّل جواب دینا چاہئے اس سے حاضرین زیادہ اثر لیتے ہیں۔
خلافت سے عشق اپنی انتہا کو پہنچا ہوا تھا حضرت خلیفۃ المسیح الثانیؓ کی وفات پر نوجوانوں کو خلافت سے گہرا تعلق پیدا کرنے کی تلقین اس کثرت سے کی کہ ابتدائی چند ہفتوں میں انہیں اسی موضوع پر بولتے ہوئے پایا۔ آپ کو انتخاب خلافت سے پہلے ہی علم تھا کہ کس نے خلیفہ بننا ہے اور اس کا اظہار بھی فرمادیا تھا۔
ایک بار فرمایا کہ ایک دفعہ حضرت خلیفہ ثانی جبکہ بہت ہی چھوٹی عمر کے تھے اپنے گھر کے سامنے کھیل رہے تھے۔ حضرت خلیفہ ا ول وہاں سے گزرے میں بھی ساتھ تھا۔ حضرت خلیفہ اول پیار اورمحبت سے پاس بیٹھ گئے اور فرمایا: میاں آپ یہاں کھیل رہے ہو۔ آپ کے ابّا تو بہت محنت کرتے ہیں ۔ اس پر حضرت خلیفہ ثانی نے فرمایا ہم بڑے ہو کربہت کام کریں گے۔حضرت خلیفہ اول نے فرمایا ’’تواڈھے پیو داوی ایہی خیال اے‘‘ یعنی حضرت مسیح موعودؑ کا بھی یہی خیال ہے۔ حضرت حافظ صاحب فرمایا کرتے تھے کہ مجھے پنجابی میں ’’ پیو‘‘ (باپ) کے معنے نہ آتے تھے اس لئے مجھے کچھ سمجھ نہ آئی۔ میں نے کسی سے پوچھا کہ ’’ پیو‘‘ کسے کہتے ہیں۔ اس پر مجھے حقیقت کا علم ہوا۔
حضرت حافظ صاحب کو سالہا سال کی بیتی ہوئی باتیں جس تفصیل سے یاد تھیں انسان سن کر دنگ رہ جاتا تھا۔ جن لوگوں کا حافظہ اچھا تھا آپؓ اُن کی بھی بہت تعریف فرماتے۔ ایک بار محترم حافظ محمد رمضان صاحب کے حافظہ کا ایک پُرلطف واقعہ سنایا کہ قادیان میں مَیں ایک دفعہ متعدد احباب کے ساتھ کہیں جا رہا تھا کہ ہم نے دُور سے حافظ صاحب کو آتے دیکھا اور احباب سے کہا کہ آپ میں سے کوئی میرا نام نہ لے۔ سب سلام کریں اور مصافحہ کریں اور میں خاموشی سے ہاتھ ملاؤں گا اور پھر دیکھیں گے کہ وہ ہمیں قوت لمس سے پہچان سکتے ہیں یا نہیں۔ فرمایا سب دوستوں نے بلند آواز سے السلام علیکم کہہ کر مصافحہ کیا۔ بیچ میں ہم نے بھی چپکے سے مصافحہ کیا ۔ حافظ صاحب چند ساعت کیلئے خاموش رہے اور پھر ہاتھ تھام کے کہنے لگے: ’’حضرت حافظ سید مختار احمد صاحب ہیں ؟‘‘ ان کے اس غضب کے حافظہ پر سارے لوگوں نے بہت داد دی۔
حضرت حافظ صاحب کی محفل میں ایک بار دوچار بڑی عمر کے لوگوں نے ایک شخص کا ایسے الفاظ میں ذکر کیا جس سے اس شخص کی توہین ہوتی تھی اور یہ بات ’’غیبت‘‘ کے حکم میں آتی تھی۔ حضرت حافظ صاحب فرمانے لگے: میاں کمزوری کس میں نہیں، ہمیں تو اس شخص کی ایک خدمت کبھی نہیں بھولے گی۔ ایک زمانہ میں ایک اخبار میں سیدنا حضرت مسیح موعود پر چند اعتراض کئے گئے۔ اس شخص نے چار اقساط میں ایسے دندان شکن جواب دئیے کہ دشمن کا منہ پھیر کے رکھ دیا۔
بدظنی سے احتراز کی تلقین ہمیشہ فرمائی ۔ فرمانے لگے ہجرت کے بعد لاہور میں قیام کے دوران ایک صاحب ایک بہت بڑی رقم امانتاً میرے پاس رکھوا گئے۔ میں نے غسل خانہ کو محفوظ جگہ پا کر اخباروں کے ایک بڑے بنڈل میں یہ رقم سنبھال کر رکھ دی۔ اس کے کچھ عرصہ بعد ایک خاتون نے وہ غسل خانہ استعمال کیا۔ چند روز بعد مجھے رقم کا خیال آیا، دیکھا تو رقم موجود نہ تھی۔ بہت پریشان ہوا۔ بار بار یہی خیال آتا تھا کہ اس ایک خاتون کے علاوہ غسل خانہ میں کوئی گیا نہیں، کئی بار اخباروں کے بنڈل کی تلاشی لی لیکن مایوسی کے سوا کچھ نتیجہ نہ نکلا۔ دل یہ نہیں چاہتا تھا کہ اس خاتون سے اس بارہ میں پوچھا جائے کیونکہ یہ ایک طرح سے الزام ٹھہرتا تھا ۔ بالآخر دل کو تسلی دی اور سوچنا شروع کیا کہ کہاں کہاں سے قرض لے کر یہ امانت چکائی جاسکتی ہے۔ آخر تھک ہار کر ایک بار پھر غسل خانہ میں گیا اور اخباروں کے بنڈل کو زور زور سے ہلاکر دیکھنا چاہا تو اچانک وہ رقم نیچے آگری۔ خدا کا شکر ادا کیا کہ نقصان سے بچائے رکھا۔ ہم نے اس واقعہ کا ذکر کسی سے نہ کیا ۔ دراصل ہم نے یہ سبق حضرت خلیفہ اولؓ سے سیکھا تھا۔ ایک بار کسی شخص نے اُنہیں کوئی صدری (یا ٹوپی) تحفۃً پیش کی۔ اسے آپ نے اپنے کھیس میں رکھ دیا۔ وہ کھیس کئی تہوں والا تھا۔بعد میں جو وہ چیز تلاش کی تو غائب تھی۔ حضورؓ نے کسی سے اس کا تذکرہ نہ فرمایا۔ ایک عرصہ بعد اسی کھیس کو جو کھولا تو اس کی ایک تہَ سے وہ تحفہ برآمد ہو گیا۔
حضرت حافظ صاحب کو آم بہت مرغوب تھے۔ ایک بار بیسیوں قسم کے آموں کا ذکر فرمایا۔ پھر فرمانے لگے غالب نے کہا ہے کہ ’’آم میٹھے ہوں اور بہت ہوں‘‘ فرمایا اگر میٹھا ہونا ہی آم کی نشانی ہے تو پھر اس کی جگہ شکر ہی کیوں نہ کھا لی جائے اور ’’بہت ہونا ‘‘ یا کم ہونا بھی کوئی ایسی بات نہیں ہے۔ آم کا ایک خاص ذائقہ ہے اگر وہ ذائقہ ہو اور خواہ آم کم ہی دستیاب ہوں تو مزا ہے۔
ایک بار فرمایا: خدا تعالیٰ کتنا مہربان ہے ہمیں باپ دیا تو کامل ، پیر دیا تو کامل (حضرت مسیح موعودؑ) اور استاد دیا تو کامل (یعنی امیر مینائی)۔
بعض لوگ استعداد کی کمی کی وجہ سے الفاظ میں کمی بیشی کر کے ردیف اور قافیہ اور وزن شعر میں مناسبت پیدا کر دیتے ہیں اور اس کی وجہ ضرورتِ شعری قرار دیتے ہیں۔ اس ضمن میں حضرت حافظ صاحب نے فرمایا کہ ’’مولانا شمس صاحب نے حضرت مسیح موعودؑ کے عربی قصیدہ ’’یا عین فیض اللہ والعرفان‘‘ کی شرح تالیف کی اور نظر ثانی کیلئے ہمارے پاس لائے۔ ہم نے ایک جگہ لکھا ہوا پایا کہ ’’حضرت مسیح موعودؑنے اس شعر میں یہ الفاظ ضرورت شعری کی وجہ سے استعمال فرمائے ہیں‘‘۔ ہم نے یہ الفاظ کاٹ پھینکے، ہمارے لئے حضور کے بارہ میں ایسے الفاظ کا استعمال ایک خاص وجہ سے گراں گزرا۔ سیدنا حضرت مسیح موعودؑ نے ایک محفل میں جس میں مَیں بھی موجود تھا۔ فرمایا کہ ’’ اگر ضرورت شعری کی وجہ سے غلط شعر کہنا ہے اور غلط الفاظ استعمال کرنا ہیں تو ایسے شعر کے کہنے کی ضرورت ہی کیا ہے؟‘‘۔
ایک روز میرے قرآن مجید میں آپؓ نے نشانی کے طور پر رکھا ہوا کاغذ کا ٹکڑا دیکھا جو غالباً کسی اخبار یا رسالہ کا حصہ تھا۔ فرمایا یہ قرآن مجید کے احترام کے خلاف ہے کہ ا س میں ایسی چیز رکھی جائے، صاف ستھرا سفید کاغذ رکھنا چاہئے۔ پھر فرمایا کہ بعض اوقات قرآن مجید میں ابتدا میں مفسر کا نام اور مطبع وغیرہ کا ذکر ہوتا ہے ہم تو یہ پسند کرتے ہیں کہ ان چیزوں کا ذکر آخری صفحہ پر ہو نہ کہ ابتدا میں۔
حضرت حافظ صاحب کی روحانیت ،للہیت، تصوف، تقویٰ، ا نکساری، بے نفسی، احمدیت کے لئے جوش، غریبوں کی دلجوئی اور ان سے ہمدردی ، سلسلہ کے کارکنوں اور مربیوں سے محبت اور دلی احترام، دعوت الی اللہ سے والہانہ لگاؤ، نفسیات کا گہرا مطالعہ، زباندانی میں بے نظیری … الغرض آپ کا وجود فی ذاتہٖ حضرت مسیح موعودؑ کی صداقت کا زندہ جاوید نشان تھا۔

50% LikesVS
50% Dislikes

اپنا تبصرہ بھیجیں