حضرت سیّدہ اُمّ حبیبہ رضی اللہ عنہا

لجنہ اماء اللہ جرمنی کے رسالہ ’’خدیجہ‘‘ (سیرت صحابیات نمبر 2011ء) میں آنحضور صلی اللہ علیہ وسلم کی زوجہ مطہرہ حضرت اُمّ حبیبہؓ کی مختصر سیرۃ و سوانح مکرمہ سلمیٰ منیر باجوہ صاحبہ کے قلم سے شامل اشاعت ہے۔
حضرت اُمّ حبیبہؓ کی کنیت رکھنے والی آنحضور صلی اللہ علیہ وسلم کی زوجہ مطہرہ کا اصل نام رملہ یا ہند تھا جو آنحضورؐ کے دعویٔ نبوت سے 17 سال قبل سردارِ مکّہ ابوسفیان کے گھر پیدا ہوئیں ۔
حضرت اُمّ حبیبہؓ کی پہلی شادی حضرت عبیداللہ بن جحش سے ہوئی۔ دونوں نے ابتدائی دَور میں اسلام قبول کیا جبکہ اُس وقت ابوسفیان کا مسلمانوں سے سلوک انتہائی معاندانہ تھا۔ تاہم آپؓ کے دل میں اسلام کی صداقت کا نُور چمک اُٹھا تھا۔ 6 نبوی میں دونوں میاں بیوی نے کفّار کے ظلم کی وجہ سے آنحضور صلی اللہ علیہ وسلم کے ارشاد پر حبشہ کی طرف ہجرت کرلی۔ یہاں آپؓ کے ہاں ایک بیٹی حبیبہ پیدا ہوئی۔ لیکن بدقسمتی سے آپؓ کا خاوند شراب نوشی کا عادی ہوگیا اور پھر مُرتد ہوکر عیسائیت اختیار کرکے اسی حالت میں وفات پاگیا۔ یہ دَور حضرت اُمّ حبیبہؓ کے لئے بڑی آزمائش کا تھا۔ آپؓ کے حالات کا تفصیلی علم جب آنحضور صلی اللہ علیہ وسلم کو ہوا تو آنحضورؐ نے آپؓ کی قربانیوں اور وفا کے پیش نظر حضرت اصمحہ نجاشیؓ شاہ حبشہ (جو مسلمان ہوچکے تھے) کو حضرت عمرؓ بن امیّہ کے ہاتھ خط بھیجا کہ اُمّ حبیبہؓ اگر پسند کرے تو اُس کا نکاح میرے ساتھ کردیا جائے۔شاہ حبشہ نے آپؐ کا خط ایک کنیز ابرہہ کے ذریعہ اُمّ حبیبہؓ کو بھجوادیا اور کہا کہ اگر آپؓ نکاح کے لئے رضامند ہوں تو اپنا کوئی وکیل مقرر کرلیں ۔ اس پر اُمّ حبیبہؓ نے خدا کا شکر ادا کیا اور ابرہہ کو چاندی کے دو کنگن اور انگوٹھیاں دیں اور حضرت خالدؓ بن سعید بن العاص کو اپنا وکیل مقرر کرلیا۔ شاہ نجاشی نے تقریبِ نکاح کا اہتمام کیا جس میں تمام مسلمانوں کو دعوت دی گئی۔ چار سو دینار حق مہر پر (جو اُسی وقت ادا کردیا گیا) یہ نکاح پڑھا گیا۔ یہ 6 یا 7ہجری کا واقعہ ہے۔ اُس وقت آپؓ کی عمر قریباً 37 برس تھی۔
حضرت اُمّ حبیبہؓ حاجتمندوں کے لئے بہت دردِ دل رکھنے والی تھیں ۔ روایت میں آتا ہے کہ آپؓ نے نکاح کے بعد کنیز ابرہہ کو مزید پچاس دینار یہ کہہ کر دیئے کہ اُس دن مفلسی کی وجہ سے مَیں تمہیں رقم نہ دے سکی تھی۔ لیکن کنیز ابرہہ نے یہ دینار اور پہلے سے دیا ہوا چاندی کا زیور یہ کہہ کر آپؓ کو واپس کردیئے کہ بادشاہ نے مجھے تاکید کی ہے کہ آپؓ سے کچھ نہ لوں اور یقین کیجئے کہ مَیں محمد رسول اللہ کی پیروکار ہوکر اللہ عزّوجل کے لئے دین اسلام قبول کرچکی ہوں ۔ آپ مدینہ جائیں تو آنحضور صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں میرا سلام عرض کردیں ۔
شاہ حبشہ نے دو کشتیوں کا بندوبست کیا اور حضرت جعفرؓ بن ابی طالب کی قیادت میں مسلمان مہاجرین کو مدینہ روانہ کیا۔ اُن میں حضرت اُمّ المومنین سیّدہ اُمّ حبیبہؓ بھی شامل تھیں ۔ بادشاہ نے حضرت شرجیلؓ بن حسنہ کو خاص طور پر آپؓ کی خدمت کے لئے مامور کیا اور کچھ تحائف دے کر بصد احترام آپؓ کو آنحضور صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں پہنچایا۔ (یہ قافلہ اُس وقت مدینہ پہنچا جب آنحضور صلی اللہ علیہ وسلم خیبر کی مہم پر تھے۔)
حضرت اُمّ حبیبہؓ آنحضور صلی اللہ علیہ وسلم کے احکامات پر دل و جان سے فدا تھیں اور آپؐ کی ذات اور شانِ اقدس کے لئے بڑی غیرت رکھتی تھیں ۔ چنانچہ صلح حدیبیہ کے معاہدہ کی توسیع کے لئے ابوسفیان حضورؐ کی خدمت میں حاضر ہونے کے لئے اپنی بیٹی اُمّ حبیبہؓ کے ہاں پہنچا۔ باپ بیٹی کی یہ پندرہ برس بعد ہونے والی ملاقات تھی۔ جب باپ بستر پر بیٹھنے لگا تو بیٹی نے بستر سمیٹ دیا اور کہا کہ یہ آنحضرتؐ کا بستر ہے جبکہ تم مشرک اور نجس ہو اور مجھے یہ پسند نہیں کہ تم آنحضور صلی اللہ علیہ وسلم کے بستر پر بیٹھو۔ وہ بولا کہ تم میرے بعد بہت خراب ہوگئی ہو۔ آپؓ نے فرمایا کہ ایسا نہیں ہے بلکہ اللہ نے مجھے اسلام کی نعمت سے سرفراز کیا ہے اور تم بہرے اور اندھے بتوں کی پرستش کرتے ہو حالانکہ تم قریش کے سردار ہو۔ آپؓ کی ایسی ہی باتوں نے ابوسفیان کی نفرتوں میں دراڑیں ڈال دیں اور فتح مکّہ کے موقع پر وہ ایمان لے آیا۔ محسنِ انسانیت نے یہ کہہ کر اُس کو عزّت بخشی کہ جو ابوسفیان کے گھر داخل ہوجائے گا اُس کو امان دی جائے گی۔
حضرت اُمّ حبیبہؓ نے حضور اکرمؐ کو ایک دفعہ فرماتے ہوئے سنا کہ جو روزانہ بارہ رکعات نفل پڑھے گا اُس کے لئے جنت میں گھر بنایا جائے گا۔ یہ ارشاد سننے کے بعد آپؓ زندگی بھر پابندی سے یہ نوافل ادا کرتی رہیں ۔
ایک دفعہ آنحضور صلی اللہ علیہ وسلم نے اُمّ حبیبہؓ کے پاس اُن کے بھائی معاویہ کو بیٹھے ہوئے دیکھا تو پوچھا: اُمّ حبیبہ! کیا تمہیں معاویہ پیارا ہے؟ انہوں نے کہا: ’’ہاں ، یارسول اللہ‘‘۔ اس پر آپؐ نے فرمایا: ’’اگر تمہیں پیارا ہے تو مجھے بھی پیارا ہے‘‘۔
آنحضور صلی اللہ علیہ وسلم کے ارشاد کی تعمیل آپؓ اپنے لئے واجب سمجھتی تھیں ۔جب آپؓ کے والد حضرت ابوسفیانؓ کا انتقال ہوا تو تین دن کے بعد آپؓ نے خوشبو منگواکر لگائی اور فرمایا کہ مجھے اس کی بھی پرواہ نہ ہوتی اگر مَیں نے رسول اللہ کو یہ فرماتے نہ سُن لیا ہوتاکہ ایماندار عورت کے لئے تین دن سے زیادہ سوگ کرنا جائز نہیں بجز شوہر کے کہ اس کے سوگ کی مدّت چار مہینہ دس دن ہے۔
علم و فضل میں آپؓ کو کمال حاصل تھا۔ متعدّد احادیث آپؓ سے مروی ہیں ۔ خلیفۂ وقت کی اطاعت اور نظام خلافت کے استحکام کے لئے آپؓ کسی قربانی سے دریغ نہ کرتیں ۔ چنانچہ جب مخالفین نے حضرت عثمانؓ کے گھر کا محاصرہ کیا تو آپؓؓ پانی کا ایک مشکیزہ اور کچھ کھانا لے کر خچّر پر سوار ہوکر حضرت عثمان ؓ کے گھر کی طرف چل دیں لیکن بُلوائیوں نے آپؓ کو حضرت عثمانؓ تک پہنچنے نہیں دیا۔
آپؓ کی وفات 44ہجری میں اپنے بھائی امیر معاویہؓ کے دَور اَمارت میں ہوئی۔ وفات سے قبل آپؓ نے حضرت عائشہؓ اور حضرت اُمّ سلمہ کو بلایا اور فرمایا کہ سوکنوں میں باہم جو کچھ ہوتا ہے وہ ہم لوگوں میں بھی ہوجایا کرتا تھا اس لئے مجھ کو معاف کردو۔

50% LikesVS
50% Dislikes

اپنا تبصرہ بھیجیں