حضرت سیٹھ عبدالرحمٰن صاحب مدراسیؓ

روزنامہ ’’الفضل‘‘ ربوہ 17 و 18؍دسمبر 2005ء میں حضرت سیٹھ عبدالرحمٰن صاحب مدراسیؓ کی ایمان افروز آپ بیتی شائع ہوئی ہے جو حضرت شیخ یعقوب علی عرفانی صاحبؓ نے حضرت مسیح موعودؑ کے ارشاد پر تحریر کرکے شائع فرمائی تھی۔
حضرت سیٹھ عبدالرحمٰن صاحبؓ مدراس کے ایک مشہور تاجر خاندان کے چشم و چراغ تھے۔ آپؓ کو حضرت مسیح موعودؑ کی کتاب ’’فتح اسلام‘‘ کے ذریعہ سے حضورؑ کے دعاوی کا علم ہوا۔ بعض اور کتب بھی مطالعہ میں آئیں۔ چنانچہ حضرت مولوی حسن علی صاحب بھاگلپوری کی رفاقت میں 2؍جنوری 1894ء کو قادیان پہنچے اور 11؍جنوری1894ء کی شام ہر دو احباب نے بیعت کر لی۔ آپؓ کے نام حضورؑ کے مکتوبات سے اُس محبت کا اندازہ ہوسکتا ہے جو حضورؑ کو آپؓ سے تھی۔ مثلاً ایک خط یوں شروع فرمایا: ’’مشفق مکرمی ہمارے بہادر پہلوان حاجی سیٹھ عبدالرحمٰن صاحب سلمہ اللہ تعالیٰ‘‘۔ ایک دوسرے مکتوب کی ابتدا یوں ہوتی ہے: ’’مخلص و محب یک رنگ حاجی سیٹھ اللہ رکھا عبدالرحمٰن سلمہ‘‘۔
اسی طرح اپنے مخلص خادم کے نام لکھے گئے چند خطوط کی عبارات کے نمونہ ملاحظہ کیجئے:
٭ ’’کل بذریعہ تار مبلغ یکصد روپیہ مرسلہ آنمکرم مجھ کو پہنچ گئے ہیں ۔ جزاکم اللہ احسن الجزاء واحسن الیکم فی الدنیا و العقبیٰ۔ یہ ایک الطاف رحمانیہ ہے اور قبولیت خدمت کی نشانی ہے کہ آپ کی خدمات مالی سے اکثر پیش از وقت مجھ کو خبر دی جاتی ہے‘‘۔
٭ ’’جس قدر آپ اس محبت کے جوش سے جو بندگان خدا کو خدا تعالیٰ کی راہ میں ہوتے ہیں خدمت مالی کر رہے ہیں اس عوض ہماری یہی دعا ہے کہ خداوند کریم و رحیم آپ کو دنیا و آخرت میں لازوال رحمتوں سے مالا مال کرے اور ہر ایک امتحان اور ابتلا ء سے بچاوے ۔ آمین ثم آمین‘‘۔
٭ ’’اس روپیہ کے پہنچنے سے تخمیناً سات گھنٹے پہلے مجھ کو خدائے عزوجل نے اس کی اطلاع دے دی۔ سو آپ سے راضی ہے۔ اس کی رضا کے بعد اگر تمام جہان ریزہ ریزہ ہوجائے تو کچھ پرواہ نہیں یہ کشف اور الہام آپ ہی کے بارہ میں مجھ کو دو دفعہ ہوا ہے۔‘‘
٭ ’’اللہ جل شانہ آنمکرم کو للّہی خدمات کا دونوں جہاں میں اجر بخشے اور آپ کو محبت میں … ترقیات عطا فرما وے اور آپ کے ساتھ ہو۔ میں آپ سے دلی محبت رکھتا ہوں کہ اپنی کسی کتاب میں محض بھائیوں کے دعا کیلئے آنمکرم کی دینی خدمات کا کچھ حال لکھوں کیونکہ اس میں دوسروں کو نمونہ ہاتھ آتا ہے۔…‘‘۔
٭ ’’الحمدللہ و المنت آپ میں … اخلاص اور صدق کا رنگ پایا جاتا ہے۔ خدا تعالیٰ آپ کا نگہبان ہو اور تمام مکروہات سے آپ کو محفوظ رکھے۔۔۔۔۔۔‘‘
٭ ’’…میں چند روز سے بعارضہ درد پہلو اور تپ اور کھانسی بیمار ہوں اورآپ کی نہایت محبت اس خط کے لکھنے کا موجب ہوئی۔ ورنہ میں اپنے ہاتھ سے بباعث ضعف کے خط نہیں لکھ سکتا…‘‘۔
٭ ’’انشاء اللہ سفر سے واپس آکر برابر چالیس روز تک دعا کروں گا۔اور امید رکھتا ہوں کہ اللہ تعالیٰ آپ کی حا لت پر رحم فرمادے۔ آپ حمایت سلسلہ میں ایسے سرگرم ہیں کہ دل وجان سے آپ کیلئے دعا نکلتی ہے۔ اللہ تعالیٰ غفور و رحیم ہے آپ تسلی رکھیں کہ بہت ہی توجہ سے آپ کیلئے دعا کی جاتی ہے…‘‘
٭ ’’آپ کیلئے میرے دل میں عجیب جوش تضرع اور دعا ہے اگر عمیق مصالح جس کا علم بشر کو نہیں ملتا توقف کو نہ چاہتیں تو خدا تعالیٰ کے فضل و کرم سے امید تھی کہ اس قدر توقف ظہور میں نہ آتا۔ بہرحال میں آپ کی بلاؤں کے رفع کیلئے ایسا کھڑا ہوں جیسا کوئی شخص لڑائی میں کھڑا ہوتا ہے۔ خدا داد قوت استقلال اور ثابت قدمی اور صدق اور یقین کے ہتھیاروں سے اور عقد ہمت کی پیش قدمی سے اس میدان میں خدا تعالیٰ سے کامیابی چاہتا ہوں۔۔۔۔۔ آپ کو وہ اخلاص بخشاہے کہ جو وفادارجاں نثار جوانمرد میں ہوتا ہے۔ میں نے پہلے بھی لکھا تھا کہ بوجہ اس کے آپ ہر وقت مالی امداد میں مشغول رہتے ہیں۔ اس لئے ایسے چندہ سے آپ مستثنیٰ ہیں۔ آپ کابہت چندہ پہنچ چکا ہے۔‘‘
حضور علیہ السلام نے حضرت سیٹھ صاحبؓ کو بعض خطوط میں لکھا کہ اپنی نہایت شدید تکلیف کے باوجود بھی حضورؑ آپؓ کے لئے دعا کرتے رہے۔ حضورؑ نے آپؓ کو صدر انجمن احمدیہ کا ٹرسٹی بھی مقرر فرمایا۔
حضرت سیٹھ عبدالرحمٰن صاحبؓ مدراسی نے اپنی آپ بیتی میں بیان فرمایا کہ مَیں بچپن ہی سے صحبت صالحین کی تلاش میں رہتا اور اکثر ایسے بزرگوں کو مہمان بناکر گھر بھی لے آتا۔ چودہ سال کی عمر میں شادی ہوئی لیکن دل باطنی صفائی کی طرف ایسا مائل تھا کہ ساری رات مصلّے پر گزر جاتی۔ تنہائی کی تلاش رہتی۔ دو تین سال گزرے تو میرے چھوٹے بھائی زکریا کی بھی شادی ہوگئی۔ پھر میرے والدین سارے کنبہ کو لے کر حج کے لئے چلے گئے۔ وہاں حج کے بعد میرے والد کا انتقال ہوگیا تو سارا بوجھ میرے سر پر آپڑا۔ چچازاد وغیرہ میں جو اتفاق تھا وہ بھی کم ہی رہ گیا اور مَیں اتنے بڑے کاروبار کو کسی شناسائی کے بغیر سنبھالنے کی کوشش میں لگ گیا۔ آہستہ آہستہ شعور بیدار ہونے لگا اور اچھے بُرے کی تمیز بھی آنے لگی۔ میرا بھائی زکریا میرے ساتھ رہا، بڑے بھائی حاجی ایوب نے راہنمائی کی، باقی سب الگ ہوگئے۔ اسی دوران تجارت میں بڑی خوفناک حالت پیدا ہوئی۔ زوال ناموس کا دھڑکا رہنے لگا۔ 1891ء اور 1892ء میں دو لاکھ روپے کا خسارہ برداشت کرنا پڑا۔ منہ سے شکوہ بھی نکلتا لیکن اللہ تعالیٰ نے مجھے ٹھوکر سے بچالیا۔ البتہ ایسی حالت تھی کہ موت کو زندگی پر ترجیح دیتا تھا۔ اسی اثناء میں بڑے بھائی کی وفات ہوگئی اور چھوٹا بھائی شدید بیمار ہوگیا تو اُسے تبدیلی آب و ہوا کے لئے بنگلور لے گیا۔ پھر میں ہفتہ میں دو دن بنگلور جاتا تھا۔ ایک بار وہاں میرا چھوٹا بھائی صالح ایک کتاب لایا اور بتایا کہ یہ کتاب سننے اور پڑھنے کے قابل ہے۔ یہ ’’فتح اسلام‘‘ تھی۔ ہم سب سننے والوں کے دل اس کلام کی صداقت کے قائل ہوگئے تھے۔ اگرچہ مجھے مسیحیت کے دعویٰ پر کچھ تعجب سا رہا۔
اگلے ہی روز ساری کتابیں بھجوانے کے لئے خط لکھ دیا جو آگئیں۔ اسی اثناء میں لکھنؤ کے ایک اخبار میں شائع ہوا کہ مرزا غلام احمد دعویٰٔ مسیحیت سے دستبردار ہوگئے ہیں۔ یہ پڑھ کر اتنا صدمہ ہوا کہ ساری کتابیں ایک طرف ڈال دیں۔ اسی اثناء میں بمبئی جانا پڑا تو معلوم ہوا کہ یہ خبر غلط ہے۔ چنانچہ پھر خوشی خوشی کتابیں پڑھنا اور پڑھانا شروع کردیا۔ پھر کسی کا ساتھ ڈھونڈنے لگا جسے لے کر قادیان جاسکوں۔ ایک مولوی صاحب سے ذکر کیا کہ اُن کے اخراجات میرے ذمہ ہوں گے، وہ قادیان چلے چلیں تو مرزا صاحب سے آمنے سامنے بات ہوسکے گی۔ لیکن اُن کو مخالفت میں زیادہ فائدہ نظر آیا اس لئے میری بات پر دھیان نہ دیا۔ پھر مجھے مولوی حسن علی صاحب بھاگلپوری یاد آگئے۔ رات خدا تعالیٰ سے دعا کہ مَیں ارادہ کرچکا ہوں، اب جو میرے لئے بہتر ہے، وہی کر۔ اگلی صبح ناشتہ کرکے گھر سے باہر نکلا تو ڈاکیہ نے رسالہ ’’الحق‘‘ دیا جس میں پہلے صفحہ پر پیر صاحب جھنڈے والے کا واقعہ اور عبداللہ عرب صاحب کا حضورؑ کے پاس حاضر ہونے کا ذکر تھا۔ چنانچہ میرا عزم صمیم ہوگیا۔
مدراس سے بمبئی پہنچا۔ مولوی حسن علی صاحب بھاگلپوری کو ہمراہ لیا۔ انہوں نے استخارے بھی کئے اور قرآن سے فال بھی نکالے۔ ہر پہلو یہی جواب ملا کہ چلے چلئے۔ تاہم وہ یہی کہتے رہے کہ مرزا صاحب بڑے نیک آدمی ہیں مگر اُن کا یہ دعویٰ اُن کی ظاہری وجاہت سے بہت کچھ بڑھا ہوا ہے۔ جب ہم امرتسر پہنچے تو وہاں مولوی محمد حسین بٹالوی کا ایک چیلا مل گیا۔ اُس کو بڑی جھڑکیاں دے کر دفعان کیا۔ بٹالہ پہنچے تو وہاں بھی ایک سدّراہ ہوا لیکن زیادہ جرأت نہ کرسکا۔ ہم یکّہ لے کر قادیان پہنچے۔ وہاں پہنچتے پہنچتے دل پر ایک خاص پُرلذّت کیفیت طاری ہوگئی۔ کچھ دیر بعد حضور اقدسؑ کی خدمت میں حاضر ہوا تو چہرہ مبارک پر نظر پڑی۔ حلفاً گزارش کرتا ہوں کہ حضورؑ کا سراپا ایک نور مجسم نظر آیا اور مَیں آنکھ بند کرکے دست بوسی کرنے لگا۔ جوش محبت سے آنسو نکل پڑے۔ اندر ہی اندر مولوی حسن علی صاحب کو ملامت کرتا تھا کہ انہوں نے حضورؑ کی وجاہت کیا بتلائی تھی اور یہاں کیا کچھ نظر آرہا ہے۔ اور منتظر تھا کہ حضورؑ یہاں سے تشریف لے جائیں تو اُن کی خبر پورے طور سے لوں۔ جونہی حضورؑ اندر تشریف لے گئے تو مولوی صاحب نے بلند آواز سے اللہ اکبر کہا اور فرمایا کہ خدا کی قسم یہ وہ مرزا نہیں جن کو کچھ برس پہلے میں نے دیکھا تھا، یہ تو کوئی اَور ہی وجود نظر آرہا ہے۔ اور مجھے کہا کہ بے شک تم بیعت کرلو۔ میری اپنی حالت یہ تھی کہ اگر اُن کا مشورہ برخلاف بھی ہوتا تو بھی حلقہ بگوش ہوئے بغیر اس مبارک آستانہ سے جدا نہ ہوتا۔ پھر دو روز بعد بیعت کرلی اور پھر دو مزید دن ٹھہر کر روانہ ہوئے اور ایک ماہ تک پھرتے پھراتے مدراس پہنچ گئے۔
مدراس میں میرے جاتے ہی مخالفت کی آگ بہت تیز ہوگئی۔ لیکن مجھے بیعت سے کیا فائدہ ہوا۔ یہ کہ ایسی بُری عادتیں جنہیں سوچ کر مَیں رو دیا کرتا تھا کہ ان سے نجات کیسے حاصل ہوگی، وہ سب باتیں یکے بعد دیگرے کسی تکلیف کے بغیر دُور ہوگئیں۔ اگرچہ اب تک اپنے آپ کو گندہ بشر سمجھتا ہوں مگر اس مولا کریم کی جناب میں قوی امید رکھتا ہوں کہ وہ اپنے حبیب کی جوتیوں کے صدقے میری مغفرت کردے گا۔

50% LikesVS
50% Dislikes

اپنا تبصرہ بھیجیں