حضرت شہزادہ عبداللطیف صاحب ؓشہید

14؍جولائی 1903ء کو حضرت صاحبزادہ عبداللطیف صاحبؓ کو کابل کی سرزمین پر نہایت ظالمانہ طریق پر سنگسار کرکے شہید کردیا گیا- شہید مرحوم صوبہ خوست کے گاؤں سیدگاہ کے رہنے والے تھے اور خوست کے رئیس اعظم تھے- آپؓ تمام علوم مروّجہ کے عالم تھے اور قرآن و حدیث کے مدرس تھے- کئی ہزار حدیثیں آپؓ کو از بر تھیں- سرکاری طور پر آپؓ کا بہت اعزاز کیا جاتا تھا اور نئے امیر کی دستار بندی آپؓ کیا کرتے تھے-سرکاری طور پر آپ کو گیارہ سو روپے سالانہ ملا کرتے تھے- جب انگریزوں کے ساتھ سرحدی تقسیم ہوئی تو آپؓ نے افغانستان کی نمائندگی کی- اسی دوران آپؓ تک حضرت مسیح موعودؑ کی کتب پہنچیں جنہیں پڑھ کر آپؓ کا حضور علیہ السلام سے دور رہنا مشکل ہوگیا- حضورؑ نے آپؓ کے بارے میں فرمایا ’’میں نے اُن کو اپنی پیروی اور اپنے دعویٰ کی تصدیق میں ایسا فناشدہ پایا کہ جس سے بڑھ کر انسان کے لئے ممکن نہیں اور جیسا کہ ایک شیشہ عطر سے بھرا ہوا ہوتا ہے ایسا ہی میں نے اُن کو اپنی محبت سے بھرا ہوا پایا اور جیسا کہ اُن کا چہرہ نورانی تھا ایسا ہی اُن کا دل مجھے نورانی معلوم ہوتا تھا-

Hazrat Syed Abdul Latif Shaheed Kabul

شہید مرحوم امیر کابل سے چھ ماہ کی رخصت لے کر قادیان آئے تھے چنانچہ جب واپس جانے لگے تو حضورؑ اور بعض دیگر صحابہؓ تقریباً ڈیڑھ میل تک چھوڑنے آئے- جب رخصت ہونے لگے تو شہید مرحوم مٹی میں حضرت مسیح موعودؑ کے قدموں پر گرے اور دونوں ہاتھوں سے پاؤں پکڑ لئے اور عرض کیا میرے لئے دعا کریں- حضورؑ نے فرمایا اچھا میں دعا کرتا ہوں تم میرے پاؤں چھوڑ دو- انہوں نے پاؤں نہ چھوڑے تو حضورؑ نے فرمایا- الاَمرُ فَوقَ الاَدَب– تب شہید مرحوم نے پاؤں چھوڑے-
قادیان سے روانہ ہوکر آپؓ پہلے لاہور پہنچے اور تین چار روز بعد براستہ کوہاٹ بنوں پہنچے – وہاں اپنی زمینوں کا انتظام کیا اور خوست تشریف لے گئے اور جاتے ہی اپنے قبولِ احمدیت کا اعلان کردیا- آپؓ نے پانچ درباریوں کو بھی خطوط لکھ کر اپنی بیعت کی اطلاع دی- یہ خطوط جب امیر حبیب اللہ خان کے سامنے پیش ہوئے تو امیر نے مولویوں سے مشورہ لیا- مولویوں نے کہا کہ یہ قادیانی مسیح آدھا قرآن مانتا ہے اور آدھا نہیں مانتا اس لئے شہزادہ صاحب کو ڈھیل نہیں دینی چاہئے ورنہ ملک میں فساد کا اندیشہ ہے- چنانچہ آپؓ کو گرفتار کرکے امیر کے سامنے پیش کیا گیا جس نے آپؓ سے سخت تحقیر آمیز سلوک کیا اور پھر قلعہ میں قید کرکے زنجیر غراغراب لگانے کا حکم دیا- ہتھکڑی والی یہ زنجیر ایک من چوبیس سیر وزنی ہوتی ہے اور کمر سے گردن تک گھیر لیتی ہے- اسی طرح آٹھ سیر وزنی بیڑی پاؤں میں ڈال دی گئی- آپؓ چار ماہ قید رہے اور آپؓ کو مسلسل یہ پیشکش کی جاتی رہی کہ توبہ کرلوگے تو عزت سے رہا کئے جاؤ گے- لیکن آپؓ فرمایا کرتے کہ میں صاحبِ علم ہوں اور حق سے کیسے انکار کر سکتا ہوں- نیز آپؓ نے مولویوں سے بحث کرنے کا مطالبہ کیا- اس پر امیر نے آٹھ مفتی بحث کے لئے مقرر کئے اور ایک لاہوری ڈاکٹر کو جو سخت مخالف تھا ثالث مقرر کیا- لیکن یہ مباحثہ صرف تحریری تھا اور حاضرین کو کچھ بھی نہ بتایا جاتا تھا اور شہید مرحوم کو سوال کرنے کی اجازت نہیں تھی بلکہ صرف جواب دینے کی اجازت تھی- یہ مباحثہ صبح 7 بجے سے سہ پہر 3 بجے تک جاری رہا اور بوقتِ عصر آپؓ پر کفر کا فتویٰ لگا کر آپؓ کو پابہ زنجیر قید خانہ میں بھیج دیا گیا-
رات کو امیر نے بحث کے کاغذات دیکھے بغیر فتوے پر مہر لگادی اور اگلی صبح آپؓ کو دربار میں بلاکر پھر توبہ کرنے کو کہا لیکن شہید مرحوم نے زور سے انکار کیا اور یہ بھی کہا کہ میں قتل کے بعد چھ روز تک پھر زندہ ہو جاؤں گا- حضرت مسیح موعودؑ فرماتے ہیں کہ شہید مرحوم کا یہ قول وحی کی بنیاد پر تھا کیونکہ آپؓ اس وقت منقطعین میں داخل ہوچکے تھے اور فرشتے آپؓ سے مصافحہ کرتے تھے- قول کا مطلب تھا کہ وہ زندگی جو اولیاء اور ابدال کو دی جاتی ہے چھ روز تک مجھے مل جائے گی اور قبل اس کے جو خدا کا دن آوے یعنی ساتویں دن میں زندہ ہو جاؤں گا-
آخر امیر نے ایک لمبا چوڑا کاغذ لکھا اور اس میں مولویوں کا فتویٰ درج کرکے سنگسار کرنے کا حکم دیا- تب وہ کاغذ شہید مرحوم کے گلے میں لٹکا دیا گیا اور امیر کے حکم سے شہید مرحوم کے ناک میں چھید کرکے رسی ڈال کر اُنہیں کھینچتے ہوئے مقتل کی طرف لے گئے- ہزارہا لوگ ٹھٹھا کرتے ہوئے ساتھ گئے اور امیر اپنے تمام ساتھیوں، قاضیوں مفتیوں اور دیگر اہلکاروں کے ساتھ یہ دردناک نظارہ دیکھتا ہوا مقتل پہنچا- مقتل میں شہید مرحوم کو کمر تک گاڑ دیا گیا اور پھر امیر نے اُن کو اہل و عیال کا حوالہ دے کر توبہ کرنے کو کہا-آپؓ نے فرمایا سچائی سے کیونکر انکار ہو سکتا ہے اور جان کی کیا حقیقت ہے اور عیال اور اطفال کیا چیز ہیں جن کے لئے میں ایمان چھوڑ دوں- تب مولویوں نے شور مچایا کہ ایسے کافر کو جلد سنگسار کرو- امیر نے قاضی کو پہلا پتھر چلانے کا حکم دیا لیکن قاضی نے کہا کہ آپ بادشاہ وقت ہیں لیکن امیر نے کہا کہ شریعت کے بادشاہ تم ہی ہو- اس پر قاضی نے گھوڑے سے اتر کر پتھر چلایا جس سے شہید مرحوم کو کاری زخم لگا اور گردن ایک طرف جُھک گئی- پھر بدقسمت امیر نے پتھر چلایا اور اس کے بعد ہزاروں پتھر چلائے گئے کہ شہید مرحوم کے سر پر ایک ڈھیر پتھروں کا جمع ہوگیا- حضرت مسیح موعودؑ فرماتے ہیں ’’اے عبداللطیف تیرے پر ہزاروں رحمتیں کہ تو نے میری زندگی میں ہی اپنے صدق کا نمونہ دکھایا اور جو لوگ میری جماعت میں سے میری موت کے بعد رہیں گے میں نہیں جانتا کہ وہ کیا کام کریں گے‘‘-
حضرت شہزادہ صاحبؓ کے خاص شاگرد حضرت مولوی احمد نور کابلی صاحبؓ کو جب شہادت کی اطلاع ہوئی تو آپؓ کابل پہنچے اور ایک دوست کو ساتھ لے کر رات کو شہید مرحوم کی نعش پتھروں سے نکالی-اُن کا بیان ہے کہ اُس وقت ایسی خوشبو آئی جیسی مشک سے آتی ہے- جب نعش اٹھانے لگے تو وہ اتنی بھاری تھی کہ اٹھائی نہیں جاتی تھی- اس وقت میں نے کہا ’جناب یہ وقت بھاری ہونے کا نہیں‘- تب نعش اسی وقت اتنی ہلکی ہوگئی کہ ہم نے آسانی سے اٹھالی اور شہر کے شمال کی طرف ایک پہاڑی بالائی سار نامی کے دوسری طرف اپنے آباؤ اجداد کے قبرستان میں دفنادی- ایک سال بعد ایک اور شاگرد نے قبر سے میت نکالی اور سید گاہ لے جاکر دفنادی اور ایک اچھی سی قبر بنادی- جب لوگوں کو پتہ چلا تو دور دور سے آکر قبر پر چڑھاوے چڑھانے لگے- تب امیر حبیب اللہ کے بھائی امیر نصراللہ خان نے خوست کے گورنر کو حکم دیا کہ لاش نکال کر آگ میں جلا دی جائے یا دریا میں ڈال دی جائے اور اُن کی لاش نکالنے والے کو سزا دی جائے- چنانچہ گورنر نے آدمی بھیج کر قبر سے ہڈیاں نکلوالیں اور یا دریا میں ڈلوا دی گئیں یا کسی مقبرے میں دفنادی گئیں اور اس طرح اللہ تعالیٰ نے آپؓ کی قبر کو شرک کی ملونی سے پاک رکھا-
شہزادہ صاحبؓ کی قید کے وقت آپؓ کے اٹھارہ لڑکے لڑکیاں اور چار بیویاں تھیں جنہیں نہایت ذلّت اور عذاب کے ساتھ خوست سے گرفتار کرکے بلخ کے قید خانہ میں پہنچادیا گیا جہاں سے صرف ایک بیوی اور چھ لڑکے لڑکیاں ہی زندہ بچے-
امیر کے ظلم کا بیان کرنے کے بعد حضرت مسیح موعودؑ اپنی کتاب ’’تذکرۃ الشہادتین‘‘ میں فرماتے ہیں ’’آسمان کے نیچے ایسے خون کی اس زمانہ میں نظیر نہیں ملے گی- ہائے اس نادان امیر نے کیا کیا کہ ایسے معصوم شخص کو کامل بے دردی سے قتل کرکے اپنے تئیں تباہ کرلیا- اے کابل کی زمین تو گواہ رہ کہ تیرے پر سخت جرم کا ارتکاب کیا گیا- اے بدقسمت زمین تو خدا کی نظر سے گر گئی کہ تُو اس ظلمِ عظیم کی جگہ ہے-‘‘
یہ مضمون روزنامہ ’’الفضل‘‘ ربوہ 23؍ جولائی 1998ء میں مکرم اسامہ منظور صاحب کے قلم سے شامل اشاعت ہے-

50% LikesVS
50% Dislikes

اپنا تبصرہ بھیجیں