حضرت صاحبزادہ مرزا بشیر احمد صاحب رضی اللہ عنہ

روزنامہ ’’الفضل‘‘ ربوہ 30؍اپریل 2009ء میں حضرت صاحبزادہ مرزا بشیر احمد صاحبؓ کی سیرت کے بعض پہلو محترمہ ناصرہ بیگم صاحبہ کے قلم سے شامل اشاعت ہیں۔

حضرت صاحبزادہ مرزا بشیر احمد صاحب کی پوری زندگی سلسلہ احمدیہ کی خدمت کے لئے وقف رہی اور اس پیارے وجود کی خدمت کا موقعہ اللہ تعالیٰ نے مجھے بھی عطا کیا۔ ایک لمبا عرصہ میں نے آپ کے گھر میں گزارا۔ اس وقت تو بچپن کی عمر تھی۔ عموماً اس عمر میں کسی بابرکت ہستی کی اہمیت کا اندازہ نہیں ہوتا لیکن عمر گزرنے کے ساتھ ساتھ انسان جب پختگی کو پہنچتا ہے تو احساس ہوتا ہے کہ گزرا ہوا وقت بہت ہی قیمتی تھا۔
حضرت میاں صاحب بہت ہی ملنسار، شفقت فرمانے والے، حلیم الطبع اور دعا گو شخصیت کے حامل تھے، ایک رمضان میں جب آپ بہت علیل تھے۔ شوگر کے ساتھ ساتھ عارضہ دل میں بھی مبتلا تھے۔ کمزوری بہت ہوگئی تھی۔ گھر میں ہم لڑکیوں نے روزہ رکھنا ہوتا تھا۔ آپ گھڑی کا الارم لگا کر گھڑی اپنے پاس رکھ لیتے اور صبح جب سحری کا ٹائم ہوتا تو ہمیں جگاتے۔ ایک دفعہ میں نے عرض کیا کہ آپ خود کیوں تکلیف اٹھاتے ہیں۔ گھڑی مجھے دے دیں میں سب کو جگا دیا کروں گی تو فرمانے لگے میں بیمار ہوں۔ روزہ نہیں رکھ سکتا تو تم مجھے اتنا بھی ثواب نہیں لینے دیتی ۔ یہ بھی فرماتے: میں نے کبھی روزے نہیں چھوڑے لیکن اب بیماری کی وجہ سے نہیں رکھ سکتا۔ یہ کہتے ہوئے آپ کی آنکھیں ڈبڈبا جاتیں بے اختیار آنسو گرنے لگتے۔ اس قدر رمضان کی محبت اور تڑپ تھی آپ کے دل میں کہ زبان سے بمشکل الفاظ نکلتے، آواز رندھ جاتی۔
جب ہم لڑکیاں سحری کھا رہی ہوتیں تو آپ کمرہ میں ٹہلتے ہوئے دعائیں کرتے رہتے۔ ساتھ احادیث اور رمضان کے فضائل کے متعلق بھی بتاتے جاتے۔ آپ ہمارے ساتھ بیٹھ کر ایک نوالہ ضرور کھاتے اور کہتے کہ یہ سنت نبویؐ ہے، میرے پیارے آقا کا فرمان ہے کہ سحری ضرور کھاؤ اس میں برکت ہے۔
کبھی جب آپ کوئی مضمون تحریر فرمارہے ہوتے تو میں پیچھے سے آپ کے کندھے دبارہی ہوتی۔ آہستہ آہستہ کندھے دبائے جاتی اور کندھوں کے اوپر سے آپ کی تحریر کو بھی دیکھتی۔ آپ مضمون لکھنے کے ساتھ ساتھ نظرثانی بھی کرتے جاتے اور پھر کچھ الفاظ کے اوپر دائرہ لگاتے اور کچھ کو مٹا دیتے تو میں پوچھتی۔ میاں صاحب یہ آپ کیا کررہے ہیں۔ اتنا اچھا تو لکھا تھا یہ کیوں مٹا دیا ہے۔ آپ میری طرف دیکھ کر مسکرا دیتے اور زبان سے کچھ نہ کہتے۔ اس طرح ایک عرصہ گزر گیا۔
بعض اوقات جب آپ مضمون تحریر فرمارہے ہوتے تو میں اس بات سے بے خبر کہ آپ کا وقت کتنا قیمتی ہے یا وہ مضمون کتنا اہم ہے! میں عجیب بے ڈھنگے سوال پوچھنا شروع کر دیتی۔ مجھے یاد ہے کہ ایک مرتبہ آپ لکھ رہے تھے تو میں نے پوچھا چاند پر کیا ہے پھر سورج تاروں کے متعلق سوال کرنا شروع کر دیتی۔ آپ اطمینان سے سب سوالوں کے جواب دیتے۔
جب حضرت ام مظفرؔ کو کولہے کے فریکچر کی وجہ سے لاہور لے جانا پڑا تو میں بھی ساتھ ہی گئی۔ کافی عرصہ حضرت میاں مظفر احمد صاحب کے ہاں ہم رہے۔ ایک مرتبہ آپ نے مجھے اور ایک اور ملازم لڑکے کو (جو فوت ہوچکا ہے) گاڑی پر لاہور کی بہت سیر کروائی۔ اور ہر تاریخی عمارت کے بارہ میں تفصیل سے بتایا۔
ایک بارآپ اپنے کسی عزیز کو خط لکھوارہے تھے جس میں لکھوایا کہ ’’میں نے جب اپنا گھر بنوایا تو اس میں ہر قسم کے پھلدار پودے لگائے اور جتنے پودے لگائے تھے تقریباً سب کا پھل بھی کھایا ہے۔ نہیں کھایا تو وہ صرف انگور کا ہے‘‘۔ آپ کے کمرہ کی کھڑکی کے ساتھ انگور کی بیل لگی تھی۔ اتنا لکھنے کے بعد آپ نے نظر اٹھائی۔ میری بھی نظر کھڑکی کے پار پڑی تو ایک انگور کا گچھا لٹک رہا تھا۔ انہوں نے مجھے بھیجا، مَیں توڑ کر لائی اور آپ نے انگور کا ایک دانہ لیا اور پھر گھر میں موجود سب لوگوں نے ایک ایک دانہ کھایا۔
آپ پانچوں نمازیں باجماعت مسجد میں ادا کرتے۔ آخری دنوں میں بہت علیل ہوگئے اور مسجد نہ جاسکتے تو بڑے دکھ کا اظہار فرماتے۔ ایک دن کہنے لگے: تم میرے پیچھے کھڑی ہو جاؤ اور ہم باجماعت نماز پڑھیں مگر نماز پڑھنے لگے تو طبیعت بہت زیادہ خراب ہوگئی اور اتنا کرب میں نے آپ کی آنکھوں میں دیکھا جو بیان سے باہر ہے۔ آنسو بہتے جاتے آپ انہیں صاف کرتے جاتے۔ اس طرح آپ نے مکرم چودھری شبیر احمد صاحب سے حج بدل کروایا۔ جب حج کا وقت آیا تو آپ اِدھر اتنے بیقرار تھے کہ نہ دن کو سوتے نہ رات کو، بہت دعائیں کیں اور نوافل ادا کئے۔
حضرت محمد ﷺ سے عشق تھا۔ گھر میں جب بھی کدو پکتا۔ آپ بڑے شوق سے کھاتے پھر پلیٹ کو اپنی انگلیوں سے صاف کرتے اور ساتھ ساتھ فرماتے جاتے یہ میرے آقا کو بہت پسند تھا۔ محمدﷺ کا نام مبارک زبان پر آتے ہی زبان سے درود شریف ادا ہونے لگتا۔ آپ کے دل کی عجیب حالت ہوجاتی۔ آنکھیں روتے روتے سرخ ہو جاتیں۔ آپ ایک سرخ رنگ کے رومال سے جو آپ کے پاس ہوتا تھا اکثر آنسو صاف کرتے جاتے اور اپنے پیارے آقا ﷺ کے ذکر خیر کو سناتے جاتے تھے۔
ایک مرتبہ آپ لیٹے ہوئے تھے میں پاس بیٹھی تھی کہ اچانک اٹھ کر بیٹھ گئے اور فرمایا تم تین بار اقرار کرو کہ بیشک تمہارے جسم کے ٹکڑے کر دیئے جائیں مگر تم حضرت مسیح موعودؑ کا انکار نہ کروگی۔ خدارا انکار نہ کرنا۔ آپ نے تین مرتبہ یہ الفاظ دہرائے اور میری زبان سے نکلوائے۔ آپ کا جسم کانپ رہا تھا۔ آنکھیں سرخ ہوگئی تھیں۔ آنسو بہتے چلے جاتے تھے اور آواز بمشکل نکل پارہی تھی۔ پھر 1974ء میں آپ کی دعاؤں کے طفیل سرگودھا میں ہمارے گھر کو جب فسادیوں نے لُوٹ لیا، تو بھی میرے ایمان میں ذرہ برابر لغزش نہیں آئی۔
آپ نے میری شادی کی تو مجھے بلاکر فرمایا کہ میں نے نہ تو تمہارا بہت زیادہ حق مہر رکھا ہے نہ کوئی جیب خرچ لکھوایا ہے۔ میری دعائیں ہیں جو تمہیں ایک عرصہ بعد تک پہنچیں گی اور دیکھنا تمہیں حق مہر یا جیب خرچ کی ضرورت نہ رہے گی۔ آپ نے ایک سو کا نوٹ اپنی جیب سے نکالا اور قعدہ کی حالت میں چلے گئے اور کافی دیر دعا کرتے رہے۔ آپ نے نوٹ پر مجھے دستخط کرکے دیئے۔ میں نے سنبھال کر یہ نوٹ صندوقچی میں رکھ لیا جسے فسادات کے دوران پڑوسی لڑکا اٹھا کر لے گیا۔
ایک مرتبہ جب میں آپ کو وضو کروارہی تھی۔ مجھے کہنے لگے ناصرہ میں نے ساری عمر دعا کی ہے کہ اے اللہ! مجھے بے حساب بخش دینا۔ میرا حساب نہ لینا اور اگر مجھے دنیا میں ہی پتہ چل جائے کہ میرے اللہ نے مجھے بخش دینا ہے تو میری تسلی ہو جائے۔ میری یہ دعا اب پوری ہوئی ہے کہ میں نے خواب میں دیکھا ہے کہ عدالت لگی ہوئی ہے اور ایک جج فیصلہ کے لئے بیٹھا ہوا ہے جس کا نام عبدالمالک یا عبدالخالق ہے اچھی طرح یاد نہیں کہ ان دونوں میں سے ایک نام تھا۔ جب میری پیشی ہوئی تو جج نے نظر اٹھائی اور مجھے دیکھتے ہی کہا کہ یہ بری ہے اس کو لے جاؤ۔ یہ خواب سناتے ہوئے اتنا روئے کہ ہچکی بندھ گئی اور جسم کانپنے لگا۔
ایک دن مجھے ایک پیسہ کی ضرورت پڑی تو میں نے آپ سے کہا کہ مجھے ایک ٹیڈی پیسہ دیں۔ آپ نے کہا ادھار لینا ہے کہ ویسے۔ میں نے مذاق میں کہہ دیا کہ اُدھار لینا ہے۔ آپ نے کہا واپس کب کرو گی؟ میں نے کہا ہفتے بعد دوں گی۔ جب آٹھ دن گزر گئے تو آپ نے فرمایا: تمہارا وعدہ تھا آج پیسہ واپس کرنے کا۔ آج ہر حالت میں مجھے وہ پیسہ دو۔ میں حیران تھی کہ ایک پیسہ مانگ رہے ہیں۔ مگر آپ نے تومجھے وعدہ کی اہمیت کا احساس دلادیا۔ یہ نصیحت میں نے ہمیشہ یاد رکھی۔ اسی طرح آپ نے مجھے کہا کہ دیکھو! زندگی میں ہر قسم کا وقت آتا ہے لیکن کبھی کسی کے آگے ہاتھ نہیں پھیلانا اور نہ کسی سے اُدھار مانگنا۔ جتنا ہو اسی میں اللہ تعالیٰ کا شکر ادا کرنا اور گزارا کرنا۔ میں نے اس نصیحت پر ہمیشہ عمل کیا اور آپ کی دعاؤں سے اللہ تعالیٰ نے کوئی ایسا وقت نہیں دیا کہ مجھے کسی سے اُدھار مانگنے کی ضرورت پڑی ہو۔
ایک بار آپ نے میرے سسر کو خط لکھا کہ ناصرہ کو ادھر چھوڑ جائیں۔ میرے سسر بہت مخلص احمدی تھے۔ وہ فوراً ہی مجھے سرگودھا سے ربوہ لے آئے۔ دوپہر کا وقت تھا جب میاں صاحب نے ہمیں دیکھا تو بے اختیار میرے سسر کا شکریہ ادا کرنے لگے کہ میں نے آپ کو تکلیف دی، میں بہت معذرت چاہتا ہوں۔ مجھے ایسا لگتا تھا کہ جیسے اللہ تعالیٰ نے آپ کو بتا دیا ہے کہ آپ کا وقت قریب ہے کیونکہ آپ روزانہ کسی کو خط لکھتے یا لکھواتے تو ایسا لگتا یہ آپ کی زندگی کا آخری خط ہے۔ خط کامضمون ہی کچھ ایسا ہوتا تھا نصیحتوں سے بھرا ہوا۔ ایک دفعہ ایک صاحب سے آپ خط لکھوا رہے تھے کہ لکھتے لکھتے اُن صاحب کی قلم رُک گئی کہنے لگے میں نہیں لکھ سکتا۔ وہ بہت ہی افسردہ ہو گئے تھے۔ آپ فرمانے لگے جب میں کہہ رہا ہوں کہ لکھیں تو لکھتے کیوں نہیں۔
ایک دفعہ آپ کے ایک داماد آئے تو کھانا پکانے والی نے اُن کے لئے مرغ کا سالن تیار کیا۔ اس سے پہلے آپؓ نے اُسے مرغ کی یخنی کے لئے کہا ہوا تھا۔ آپ نے اسے بلوایا اور پوچھا کہ یخنی تیار ہوگئی ہے؟ تو اس نے کہا کہ مرغ تو مہمان کے لئے پکا لیا ہے۔ آپ فرمانے لگے وہ مہمان نہیں، میں مہمان ہوں اور آپ نے تین مرتبہ کہا کہ میں مہمان ہوں۔ مجھے برا محسوس ہوا کہ کیوں آپ یہ الفاظ کہہ رہے ہیں۔ جب زیادہ بیمار ہوگئے تو ڈاکٹر اصرار کرتے تھے کہ آپ لاہور علاج کے لئے چلے جائیں لیکن آپ نہیں مانتے تھے۔ ایک دفعہ میں نے کہا جب ڈاکٹر کہتے ہیں تو آپ کیوں ان کی بات مان نہیں لیتے۔ کہنے لگے میں نہیں چاہتا تھا کہ میرا جنازہ لاہور سے آئے لیکن اب مجھے اللہ تعالیٰ نے کہہ دیا ہے کہ لاہور چلے جاؤ تو اب میں چلاجاؤں گا۔ کچھ دیر بعد ڈاکٹر یعقوب صاحب کا فون آگیا جو میں نے ہی اٹھایا اور کہا کہ حضرت میاں صاحب مان گئے ہیں۔ آپ آکر انہیں لے جائیں۔ تو وہ فوراً آگئے۔ جب آپ جانے لگے اُس وقت گیلری میں کھڑے ہوکر مجھے بلوایا، بہت شفقت اور پیار سے سر پر ہاتھ رکھا اور کہنے لگے میں تمہارے لئے کچھ نہیں کرسکا مجھے اتنا موقعہ نہیں ملا۔ میرے سسرال کی طرف اشارہ سے کہا کہ پتہ نہیں ان کا تم سے کیسا سلوک ہے۔ پھر اپنی جیب کا رومال اور ایک انگوٹھی جو آپ نے پہنی ہوئی تھی اتار کر دی۔ جو ابھی تک خاکسار کے پاس محفوظ ہے۔ کہنے لگے تم جب بھی ربوہ آؤ تو میری قبر پر ضرور آنا۔ اب میں دعا کرتی ہوں خدایا! مجھ یتیم سے انہوں نے شفقت اور رحم کا سلوک کیا، انہیں بے حساب بخش دے۔ جنت کے اعلیٰ مقامات نصیب ہوں۔ صرف مجھ پر ہی نہیں بلکہ گھر کے تمام ملازموں کے ساتھ آپ کا رویہ مشفقانہ تھا۔ کبھی کسی کو ڈانٹتے نہیں سنا اور نہ کسی ملازم کی غلطی پر سرزنش کی۔

50% LikesVS
50% Dislikes

اپنا تبصرہ بھیجیں