حضرت صاحبزادہ مرزا سلطان احمد صاحب

حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام کے سب سے بڑے فرزند ارجمند کی سیرۃ و سوانح کے دلکش نقوش
حضرت صاحبزادہ مرزا سلطان احمد صاحب
(تحقیق: میرانجم پرویز صاحب اور مرتبہ: فرخ سلطان محمود)

میر انجم پرویز
فرخ سلطان محمود

(مطبوعہ انصارالدین مئی جون 2016ء)

حضرت مسیح موعود علیہ السلام ابھی پندرہ سولہ سال کی عمر کے ہی تھے جب آپ کی شادی اپنے ماموں مرزا جمعیت بیگ صاحب کی چھوٹی صاحبزادی حرمت بی بی صاحبہ سے ہو گئی۔ محترمہ حرمت بی بی صاحبہ سے آپؑ کے دو فرزند پیدا ہوئے یعنی حضرت صاحبزادہ مرزا سلطان احمد صاحب اور صاحبزادہ مرزا فضل احمد صاحب۔
صاحبزادہ مرزا سلطان احمدصاحب 1853ء میں اور صاحبزادہ مرزا فضل احمد صاحب 1855ء میں پیدا ہوئے۔ مرزا فضل احمد صاحب کا عین جوانی میں انتقال ہو گیا۔ ان کی پہلی شادی اپنے ماموں مرزا علی شیر صاحب کی بیٹی سے ہوئی جس کا نام عزت بی بی تھا لیکن اُن سے کوئی اولاد نہ ہوئی۔ پھر اُن کی دوسری شادی کشمیر کی رہنے والی بیگم بی بی صاحبہ سے ہوئی۔ مرزا فضل احمد صاحب کے انتقال کے بعد صاحبزادہ مرزا سلطان احمد صاحب ہی اُن کی بیوہ کی سرپرستی فرماتے رہے۔
تعلیم
صاحبزادہ مرزا سلطان احمدصاحب نے اگرچہ باقاعدہ طور پر تو تعلیم حاصل نہیں کی تھی لیکن اردو کے علاوہ فارسی میں بھی آپ کی ادیبانہ شان تھی۔ اور عربی کی اَدبیات پر بھی عبور حاصل تھا۔ انگریزی زبان سے بھی ضروریات زمانہ کے لحاظ سے بہت واقف تھے۔ بچپن میں آپ نے حضرت مسیح موعودؑ سے بھی چند کتب سبقاً پڑھی تھیں، جن میں تاریخ فرشتہ، نحو میر اور گلستان و بوستان شامل ہیں۔ آپ خود بیان کرتے ہیں کہ’’ والد صاحب پچھلا پڑھا ہوا سبق بھی سنا کرتے تھے مگر پڑھنے کے متعلق مجھ پر کبھی ناراض نہیں ہوئے، حالانکہ میں پڑھنے میں بے پرواہ تھا۔ لیکن آخردادا صاحب نے مجھے والد صاحب سے پڑھنے سے روک دیا اور کہا کہ میں نے سب کو ملاّں نہیں بنا دینا، تم مجھ سے پڑھا کرو۔ مگر ویسے دادا صاحب والد صاحب کی بڑی قدر کرتے تھے‘‘۔
تحصیلداری
1884ء میں صاحبزادہ مرزا سلطان احمد صاحب نے تحصیلداری کا امتحان دینا چاہا۔ اس موقع پر آپ نے حضرت مسیح موعودؑ کی خدمت میں دعا کے لئے ایک رقعہ لکھ کر بھیجا۔ لیکن چونکہ یہ دنیاداری کا معاملہ تھا اور حضورؑ کی طبیعت ایسے معاملات میں دعا کی طرف مائل نہ ہوتی تھی اس لئے حضورؑ کو کراہت پیدا ہوئی۔ اس بارہ میں حضور علیہ السلام فرماتے ہیں: ’’اس عاجز کے فرزند نے ایک خط لکھ کر مجھ کو بھیجا کہ جو میں نے امتحان تحصیل داری کا دیا ہے اس کی نسبت دعا کریں کہ پاس ہو جاوے اور بہت کچھ انکسار اور تذلل ظاہر کیا کہ ضرور دعا کریں۔ مجھ کو وہ خط پڑھ کر بجائے رحم کے غصہ آیا کہ اس شخص کو دنیا کے بارے میں کس قدر ہم اور غم ہے۔ چنانچہ اس عاجز نے وہ خط پڑھتے ہی بہ تمام تر نفرت و کراہت چاک کر دیا اور دل میں کہا کہ ایک دنیوی غرض اپنے مالک کے سامنے کیا پیش کروں۔ اس خط کے چاک کرتے ہی یہ الہام ہوا کہ ’’پاس ہو جاوے گا‘‘ چنانچہ وہ لڑکا پاس ہوگیا۔‘‘
EAC میں کامیابی
حضرت سید شفیع احمد صاحبؓ محقق دہلوی کی روایت کے مطابق حضرت مرزا سلطان احمد صاحب جب E.A.C. کا امتحان دینے کے لئے قادیان سے لاہور تشریف لے گئے تو دوسرے امیدواروں نے آپ کا خوب مذاق اڑایا کیونکہ اُن کے نزدیک صاحبزادہ صاحب کسی ایسے امتحان میں بیٹھنے کے بھی لائق نہیں تھے۔ یہ باتیں سن کر آپ دل ہی دل میں کہنے لگے کہ میں حضرت والد صاحب کی خدمت میں دعا کی درخواست کرکے آیا ہوں اور آپ نے دعا کا وعدہ بھی کیا ہے، خدا کرے کہ میں کامیاب ہو جاؤں۔ انہی خیالات کے ہجوم میں آپ سو گئے اور قریباً چار بجے صبح خواب دیکھا کہ حضرت صاحب تشریف لائے ہیں اور آپ کا ہاتھ پکڑ کرایک کرسی پر بٹھا دیا ہے۔ اس خواب کی آپ نے یہ تعبیر فرمائی کہ میں ضرور کامیاب ہو جاؤں گا اور یہی بات آپ نے صبح امتحان سے قبل ہی تحدی کے ساتھ مذاق اڑانے والوں سے بھی کہہ ڈالی۔ چنانچہ آپ بفضلہ تعالیٰ کامیاب ہوگئے۔
علم طبّ
حضرت مرزا سلطان احمدصاحب نے طب بھی پڑھی تھی لیکن اسے بطور پیشہ اختیار نہیں فرمایا۔ حضرت مسیح موعود علیہ السلام اپنی اولاد کو علم طب پڑھنے کی بطور خاص تاکید فرمایا کرتے تھے۔ حضرت مرزا سلطان احمد صاحب کچھ دنوں تک دیوبند میں بھی پڑھتے رہے تھے اور دیوبند ہی سے نکل کر گھر والوں کو اطلاع دیئے بغیر آپ نے سرکاری نوکری بھی کرلی تھی۔ دہلی میں بھی سلسلۂ حصول تعلیم کے حوالہ سے آپ کا قیام رہا۔
1899ء میں جب آپ پہلی بار بسلسلہ ملازمت لاہور وارد ہوئے تو اُن دنوں میں آپ نے اپنی حصول تعلیم کی مساعی کے بارہ میں کہا تھا کہ آپ نے شاہی طریقہ سے تعلیم نہیں پائی بلکہ طالب علمی کی ہے۔ کیونکہ وہ وقت بھی آیا کہ آپ دہلی کی کسی مسجد میں رہتے تھے اور تعلیم پاتے تھے۔ آپ کو بچپن ہی سے مطالعہ اور کتب بینی کا بے حد شوق تھا اور یہ شوق آپ اپنے والد صاحب اور دادا صاحب کے کتابوں کے ذخیرہ سے پورا کیا کرتے تھے۔
بچپن کے واقعات
حضرت صاحبزادہ صاحب نے اپنی زندگی نہایت شرافت اور دیانتداری کے ساتھ بسر کی۔ آپ اپنے والد محترم کی سچے دل سے عزت کرتے تھے اور شروع سے ہی ان کی سچائی ا ور بزرگی کے قائل تھے، لیکن دین کے معاملہ میں آپ کو زیادہ شوق اور شغف نہیں تھا۔ آپ نے خود لکھا ہے کہ میرے والد صاحب میری بعض کمزوریوں کی وجہ سے میرے فائدہ کے لئے مجھ پر ناراض بھی ہوئے اور میں صدق دل سے اعتراف کرتا ہوں کہ ان کی ناراضگی واجبی اور حق تھی۔ ایک بار آپ سے دریافت کیا گیا کہ کیا حضرت صاحب کبھی کسی پر ناراض بھی ہوتے تھے؟ تو آپ نے جواب دیا کہ ’’ان کی ناراضگی بھی صرف دینی معاملات میں ہوتی تھی۔ بعض اوقات مجھے نماز کیلئے کہا کرتے تھے مگر میں نماز کے پاس تک نہ جاتا تھا‘‘۔
حضرت مسیح موعودؑ کو چونکہ دنیاوی اموال اور جائیدادوں سے کوئی غرض نہ تھی اور کاروبار اور جائیداد کے سب انتظامات آپؑ کے بڑے بھائی مرزا غلام قادر صاحب کے ہاتھ میں تھے۔ چنانچہ حضرت مرزا سلطان احمد صاحب اپنی ضروریات کیلئے اپنے تایا کی طرف ہی رجوع کرتے تھے اور اپنے والد صاحب سے بھی زیادہ تعلق اپنے تایا سے رکھتے تھے۔ وہ بھی آپ کو بیٹوں کی طرح عزیز رکھتے تھے۔ چنانچہ 9؍جولائی 1883ء کو جب وہ لاولد فوت ہوگئے تو اُن کی اہلیہ حرمت بی بی صاحبہ حضورؑ کے پاس آئیں اور التجا کی مرزا غلام قادر کی جائیداد مرزا سلطان احمد کے نام بطور متبنّٰی کرا دیں۔ چنانچہ حضورؑ نے اپنی بھاوج کی دلداری کی خاطر تمام جائداد مرزا سلطان احمد صاحب کے نام داخل خارج کرادی اور اپنے نام نہیں کرائی۔ حالانکہ قانون کے مطابق وہ ساری جائیدار آپؑ کے نام منتقل ہوجانی تھی۔
شادی اور اولاد
حضرت مرزا سلطان احمدصاحب کی پہلی شادی نومبر 1884ء میں اُسی دن ہوئی تھی جس دن حضرت مسیح موعود علیہ السلام اپنی دوسری اہلیہ یعنی حضرت امّ المؤمنین سیدہ نصرت جہاں بیگم صاحبہؓ کو دلّی سے بیاہ کر قادیان لائے تھے۔ صاحبزادہ صاحب کی پہلی بیوی ایمہ ضلع ہوشیارپور کی رہنے والی تھیں۔ اُن سے حضرت صاحبزادہ مرزا عزیز احمد صاحبؓ پیدا ہوئے۔ پھر پہلی بیوی کی زندگی میں ہی صاحبزادہ مرزا سلطان احمد صاحب نے مرزا امام الدین کی لڑکی خورشید بیگم سے نکاح ثانی کرلیا تھا۔ اس کے بعد اہلیہ اوّل جلد ہی فوت ہوگئیں۔

حضرت صاحبزادہ مرزا عزیز احمد صاحب 3؍ اکتوبر 1890ء کو پیدا ہوئے۔ تعلیم الاسلام ہائی سکول قادیان میں ابتدائی تعلیم کے بعد اعلیٰ تعلیم کے لئے علیگڑھ تشریف لے گئے۔ عملی زندگی میں آپؓ نے ایک لمبا عرصہ ایک محنتی، فرض شناس اور دیانتدار افسر کی حیثیت سے سرکاری ملازمت میں گزارا۔ 1945ء میں ADM کے اعلیٰ عہدہ سے ریٹائرہوکر آپؓ نے اپنی زندگی وقف کردی۔ قیام پاکستان کے بعد 16جولائی 1949ء کو حضرت مصلح موعودؓ نے آپؓ کو صدر انجمن احمدیہ پاکستان کا ناظراعلیٰ مقرر فرمایا۔ اس عہدہ پر آپؓ 1971ء تک فائز رہے۔ اپنی پہلی بیوی کے انتقال کے بعد مارچ 1930ء میں آپؓ کی شادی حضرت میر محمد اسحاق صاحبؓ کی صاحبزادی محترمہ نصیرہ بیگم سے ہوئی جن کے بطن سے پانچ بیٹیاں اور دو بیٹے پیدا ہوئے۔ آپؓ کے دونوں صاحبزادوں کو خدمت دین کی غیرمعمولی توفیق عطا ہورہی ہے۔ یعنی محترم صاحبزادہ مرزا خورشید احمد صاحب ناظر اعلیٰ و صدر صدرانجمن احمدیہ اور محترم صاحبزادہ مرزا غلام احمد صاحب ناظر دیوان۔
حضرت صاحبزادہ مرزا عزیز احمد صاحبؓ کا وجود باجود اپنے نہایت اعلیٰ اوصاف اور اہم دینی خدمات کے علاوہ اس لحاظ سے بھی اللہ تعالیٰ کا ایک نشان تھا کہ حضورؑ کو بذریعہ خواب 1899ء میں آپ کے قبول احمدیت کا نظارہ یوں دکھایا گیا تھا کہ فرمایا: ’’ایک لڑکا ہے جس کا نام عزیز احمد ہے اور اس کے باپ کے نام کے سر پر سلطان کا لفظ ہے۔ وہ لڑکا پکڑ کر میرے پاس لایا گیا اور میرے سامنے بٹھایا گیا۔ میں نے دیکھا کہ وہ ایک پتلاسا لڑکا گورے رنگ کا ہے‘‘۔ چنانچہ اللہ تعالیٰ نے حضرت مرزا عزیز احمد صاحبؓ کو 1906ء میں حضورؑ کے دست مبارک پر ہی بیعت کرنے کی توفیق عطا فرمائی۔ جب تائی صاحبہ نے آپؓ کی بیعت کا شکایت کے رنگ میں ذکر مرزا سلطان احمد صاحب سے کیا تو انہوں نے جواباً کہا کہ: ہم سے تو اچھا ہی رہے گا، نمازیں تو پڑھے گا۔
الہامات
حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی وفات کے حوالہ سے صاحبزادہ مرزا سلطان احمد صاحب بیان کرتے ہیں کہ مَیں جالندھر کے نواحی دیہات کے دورہ پر تھا اور گھوڑے پر سوار ہوکر جا رہا تھا کہ اچانک مجھے زور سے آواز سنائی دی: ’’ماتم پرسی‘‘ اور اس کے ساتھ ہی مجھ پر شدید ہم و غم کی کیفیت طاری ہو گئی۔ چونکہ میرا زیادہ تعلق تائی صاحبہ سے تھا۔ اس لئے میرا ذہن سب سے پہلے اُنہی کی طرف منتقل ہوا کہ شاید ان کی وفات ہو گئی ہو۔ لیکن معاً بعد مجھے خیال پیدا ہوا کہ تائی صاحبہ کا مقام اللہ تعالیٰ کے حضور اتنا بلند نہیں کہ اللہ تعالیٰ خود ان کے لئے ماتم پرسی کرے، چنانچہ مجھے یقین ہوگیا کہ حضرت والد ماجد وفات پا گئے ہیں اور وہی علو مرتبت کے اعتبار سے یہ مقام رکھتے ہیں کہ اللہ تعالیٰ ان کے لئے اظہار تعزیت فرمائے۔ اس یقین کے پختہ ہونے پر گھوڑا تیز کرکے مَیں جالندھر شہر پہنچا اور سیدھا کچہری میں انگریز ڈپٹی کمشنر کے پاس جاکر درخواست دی کہ میرے والد صاحب کا انتقال ہوگیا ہے اس لئے مجھے پانچ دن کی رخصت دی جائے۔ وہ میری درخواست پڑھ کر کہنے لگے کہ آپ کے والد صاحب مشہور خلائق شخصیت تھے، ان کی علالت کی کوئی خبر یا اطلاع شائع نہیں ہوئی۔ کیا آپ کو تار ملا ہے کہ ان کی وفات اچانک ہو گئی ہے۔ میں نے جواباً کہا کہ مجھے الہام ’’ماتم پرسی‘‘ ہوا ہے جس سے میں یقین کرتا ہوں کہ میرے والد صاحب وفات پاگئے ہیں۔ میری یہ بات سن کر وہ ہنس پڑے اور کہنے لگے کہ الہام ولہام کوئی چیز نہیں۔ یہ محض آپ کا وہم ہے۔ پھر کہا میں رخصت دینے میں روک نہیں ڈالتا۔ اگر آپ چاہیں تو پانچ دن سے زیادہ رخصت لے لیں لیکن اطمینان رکھیں کہ آپ کے والد صاحب خیریت سے ہیں۔ پھر جب مَیں سفر کی تیاری کررہا تھا تو حضورؑ کی لاہور میں وفات اور جنازہ قادیان لے جانے کا تار بھی آگیا جس میں قادیان پہنچنے کی ہدایت کی گئی تھی۔ اس پر مَیں تار لے کر حجّت تمام کرنے دوبارہ کچہری گیا تو ڈپٹی کمشنر صاحب تار دیکھ کر حیرت زدہ ہو گئے اور منہ میں انگلی ڈال کرکہنے لگے کہ:’’یہ بات میری سمجھ سے بالا ہے‘‘۔
اس سے کئی سال قبل بھی جب حضرت صاحبزادہ مرزا سلطان احمد صاحب کے برادر خورد صاحبزادہ مرزا فضل احمدصاحب کی وفات ہوئی تو بھی صاحبزادہ صاحب کو کشفاً ایک پوسٹ کارڈ دکھایا گیا جس پر درج تھا: أَخُوْکَ ڈائیڈ (Died) یعنی تیرا بھائی فوت ہو گیا ہے۔
سفر ولایت اور حج بیت اللہ
حضرت مرزا سلطان ا حمد صاحب نے 1913ء یا 1914ء میں سفر ولایت بھی کیا اور حج بیت اللہ اور زیارت روضۂ نبی کریم ؐ سے بھی مشرف ہوئے۔
خان بہادر کا خطاب
اگرچہ صاحبزادہ صاحب کو ’’خان بہادر‘‘ کا خطاب ملا ہوا تھا لیکن آپ اس خطاب کو اپنے لئے باعث شرف نہ سمجھتے تھے اور نہ ہی عام طور پر اپنے نام کے ساتھ یہ لکھا کرتے۔ ایک دفعہ کسی انگریز افسر نے پوچھا کہ آپ اپنے دستخطوں کے ساتھ ’’خان بہادر‘‘ کیوں نہیں لکھتے تو آپ نے جواباً کہا کہ یہ خطاب سرکار سے مجھے اب ملا ہے اور مرزا کا لقب مجھے اَبًا عَنْ جِدٍّ حاصل ہے۔ پھر ’’خان بہادر‘‘ کا خطاب مشروط ہے اور مرزا کا خطاب غیرمشروط۔ اس لئے میں وہی خطاب اپنے نام کے ساتھ لکھتا ہوں جو ہر حال میں میر ے نام کے ساتھ رہا ہے اور رہے گا۔
ملازمت
حضرت مرزا سلطان احمد صاحب نے سرکاری ملازمت پٹواری کے عہدہ سے شروع کی اور درجہ بدرجہ ترقی کرتے ہوئے ڈپٹی کمشنر کے عہدے تک پہنچے۔ اور قائم مقام حاکم ضلع یا ڈپٹی کمشنر کے فرائض بھی آپ نے انجام دئیے۔ پنجاب کے اکثر اضلاع میں بحیثیت افسر محکمہ بندوبست فرائض بھی سرانجام دئیے۔ گورنمنٹ کی طرف سے ریاست بہاولپور میں مشیر مال بنا کر بھی بھیجے گئے۔ آپ نے ہمیشہ اپنے فرائض بڑی محنت، ذہانت اور انتہائی دیانت داری سے سرانجام دئیے اور جس جگہ بھی رہے، نیک نام رہے۔ سادہ لباس، سادہ طبیعت، انکسار اور مروت آپ کے مزاج کا خاصہ تھا۔ جب ریاست بہاولپور کے وزیر بنا کر بھیجے گئے تو وہاں پہنچتے ہی نہایت اعلیٰ قسم کا سارا فرنیچر اور دیگر سازو سامان ایک کمرہ میں مقفل کروا دیا اور اپنے رہنے کے لئے صرف ایک سادہ کمرہ منتخب کیا۔ لباس اور رہائش کی طرح آپ کھانا بھی سادہ کھاتے تھے۔
فرائض کی سرانجام دہی میں دیانتداری کا یہ عالم تھا کہ جب آپ بہاولپور میں وزیرمالیات اور ایک بااختیار حاکم تھے تو آپ کو نواب صاحب کی دادی صاحبہ کے ایک پروردہ خادم کی بدعنوانیوں کی شکایات ملنے لگیں۔ آپ نے تحقیق کرنے پر شکایات کو درست پایا تو بے دھڑک اس کو پکڑ کر حوالات میں بھجوا دیا۔ اِس پر اُس خادم کے ورثاء نے بیگم صاحبہ کے حضور دہائی دی۔ چنانچہ بیگم صاحبہ نے آپ کو اپنی ڈیوڑھی پر طلب کرکے پوچھا کہ تم نے ہمارے آدمی کو جیل کیوں بھیجا؟ آپ نے جواب دیا: حضور کے ہی حکم سے۔ انہوں نے پوچھا: وہ کیسے؟ آپ نے کہا کہ: مجھے حضور کی ریاست کی طرف سے رعایا کے حقوق اور اُن کی جان و مال و عزت و آبرو کی حفاظت کے لئے مقرر کیا گیا ہے۔ جب مجھ پر ثابت ہو گیا وہ شخص رعایا کے لئے سبب زحمت ہے تو میں نے حضور کے ہی دئیے ہوئے اختیارات سے کام لے کر اس کو سزا دیدی۔ اگر میں ایسا نہ کرتا تو اُس فرض کی بجا آوری میں کوتاہی ہوتی جس کے بجا لانے کے لئے مجھے مقرر کیا گیا ہے۔ بیگم صاحبہ اس جواب سے بہت خوش ہوئیں اور منہ چڑھے خادم نے اپنے کئے کی سزاپائی۔
بے داغ کردار
حضرت مرزا سلطان احمد صاحب کا دامن ہر موقعہ پر ترغیب و تحریص کی آلائشوں سے پاک رہا۔ کئی بدنام علاقوں میں بھی آپ نے قانون کی عملداری قائم کی اور اپنی ذات کو ہر قسم کی تہمت سے بچائے رکھا۔
پہلی جنگ عظیم کے بعد جب برطانوی حکومت کے خلاف تحریکِ ترکِ موالات شروع ہوئی تو اُن دنوں حضرت صاحبزادہ صاحب گوجرانوالہ میں ڈپٹی کمشنر تھے۔ جب لاہور کے بعد گوجرانوالہ بھی ہنگاموں کی لپیٹ میں آگیا تو شدید بدامنی کے حالات پیدا ہوگئے۔ نہ صرف عوام نے آئینی حدود کو توڑدیا اور بعض سرکاری عمارتوں کو نقصان پہنچایا بلکہ ریلوے سٹیشن تو پورا جلا دیا۔ ایسے وقت میں آپ سے امن بحال کرنے کے لئے ہجوم پر گولی چلانے کو کہا گیا لیکن آپ نے کہا کہ میں ان معصوم بچوں اور ان بے خبر لوگوں پر گولی چلانے کا حکم نہیں دے سکتا۔ کیونکہ میرے نزدیک شورش کے ذمہ دار یہ نہیں کوئی اَور ہیں جو ا س مجمع میں موجود نہیں۔ پھر آپ نے پُرجوش ہجوم کے سامنے ایسی سلجھی ہوئی تقریر کی کہ نفرت و غصہ کی آگ ٹھنڈی ہو گئی اور وہی جلوس مرزا سلطان احمد کی سرکردگی میں شہر کو واپس ہوا۔ جن کی زبانوں پر ’’انگریزمردہ باد‘‘ کے نعرے تھے، وہ اب ’’مرزا سلطان احمد زندہ باد‘‘ کے نعرے لگانے لگے۔ بعد میں گورنر پنجاب نے ایک ملاقات کے دوران صاحبزادہ صاحب سے شکوہ کیا کہ آپ گوجرانوالہ کا انتظام ٹھیک طور پر نہیں کرسکے۔ اس پر آپ نے جواب دیا کہ لاہور میں تو ’’یور ایکسی لینسی‘‘ بہ نفس نفیس موجود تھے لیکن پھر بھی یہاں کے ہنگاموں کو نہیں روک سکے۔ اگر آپ یہاں پر ہی روک دیتے تو یہ ہنگامے گوجرانوالہ نہ پہنچتے۔
قبول احمدیت
حضرت مرزا سلطان احمد صاحب کو شروع ہی سے حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے ساتھ بے حد عقیدت و شیفتگی تھی اور آپ کی روح تحریک احمدیت کو قبول کر چکی تھی مگر آپ کو اس کے اظہار و اعلان میں بہت تأمل تھا۔ اور اس بات کا علم حضرت خلیفۃ المسیح الثانیؓ کو بھی تھا۔ چنانچہ جون 1924ء میں حضورؓ نے آپ کے فرزند محترم مرزا رشید احمدصاحب کے خطبۂ نکاح میں ارشاد فرمایا کہ: ’’ان کے خاندان میں اب ایک ہی وجود ایسا ہے جس نے ابھی تک اس ہدایت کو قبول نہیں کیا جو حضرت مسیح موعودؑ لائے۔ … جب سے میں نے ہوش سنبھالی ہے میں برابر ان کے لئے دعا کرتا رہتا ہوں کہ خداتعالیٰ ان کو ہدایت دے۔ مَیں سنتا رہتا ہوں کہ وہ احمدیت کو ہدایت کی راہ ہی خیال کرتے ہیں مگر کوئی روک ہے جس کے لئے دعا کرنی چاہئے کہ خداتعالیٰ اس روک کو ہٹا دے۔ آمین‘‘
آخر یہ دعائیں مقبول ہوئیں اور اکتوبر 1928ء کے پہلے ہفتہ میں حضرت مرزا سلطان احمد صاحب نے احمدیت قبول کرنے کا اعلان شائع کروادیا۔ اور دوسال بعد یعنی 25؍دسمبر 1930ء کو حضرت مصلح موعودؓ کی دستی بیعت کی توفیق پائی۔ حضورؓ ازراہ شفقت خود اپنے بڑے بھائی کے گھر تشریف لے گئے۔ آپ کی بیعت کے ساتھ اللہ تعالیٰ کی پیشگوئی جو موعود فرزند کے بارہ میں تھی کہ ’’وہ تین کو چار کرنے والا ہو گا‘‘ پوری ہوئی۔
حضرت خلیفۃالمسیح الاوّلؓ کو صاحبزادہ مرزا سلطان احمد صاحب سے انتہا درجہ کی محبت و الفت تھی اور وہ اکثر حضرت مسیح موعودؑ کے سامنے آپ کی بعض کتب کی تعریف کیا کرتے تھے اور منشاء یہ ہوتا تھا کہ حضورؑ کی نظرکرم صاحبزادہ صاحب کی طرف ہو جائے اور ان کے لئے دعا کریں۔ ایک دفعہ آپؓ نے اپنے معمول کے مطابق جب ذکر کیا تو حضورؑ نے فرمایا : ’’مرزا سلطان احمد سے کہو کہ خدا سے صلح کرلے‘‘۔
مرزا سلطان احمد صاحب کو بھی مدتوں قبل بذریعہ رؤیا یہ دکھایا گیا تھا کہ حضرت مسیح موعودؑ کھڑے ہیں اور وہاں ایک جگہ پر چار کرسیاں بچھی ہیں۔ حضورؑ نے آپ سے کہا کہ ایک کرسی پر تم بیٹھ جاؤ۔
ایک عظیم الشان نشان
حضرت صاحبزادہ مرزا سلطان احمد صاحب کی وفات کے بعد حضرت مصلح موعودؓ نے اپنے خطبہ جمعہ فرمودہ 3؍جولائی1931ء میں فرمایا:
’’حضرت مسیح موعودؑ کا ایک الہام یعنی ہم تیرے متعلق ایسی تمام باتوں کو جو تیرے لئے شرمندگی یا رسوائی کا موجب ہو سکیں مٹا دیں گے۔ اس الہام کو میں دیکھتا ہوں کہ ان عظیم الشان کلماتِ الٰہیہ میں سے ہے جو متواتر پورے ہوتے رہتے ہیں اور جن کے ظہور کا ایک لمبا سلسلہ چلا جاتا ہے۔ حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے متعلق جو اعتراض کئے جاتے تھے۔ ان میں سے ایک اہم اعتراض یہ بھی تھا کہ آپؑ کے رشتہ دار آپؑ کا انکار کرتے ہیں اور پھر خصوصیت سے یہ اعتراض کیا جاتا تھا کہ آپؑ کا ایک لڑکا آپؑ کی بیعت میں شامل نہیں۔ یہ اعتراض اس کثرت کے ساتھ کیا جاتا تھا کہ جن لوگوں کے دلوں میں سلسلہ کا درد تھا وہ اس کی تکلیف محسوس کئے بغیر نہیں رہ سکتے تھے۔ میں دوسروں کو تو نہیں کہہ سکتا لیکن اپنی نسبت میں کہہ سکتا ہوں کہ میں نے متواتر اور اس کثرت سے اس امر میں اللہ تعالیٰ سے دعائیں کیں کہ میں کہہ سکتا ہوں کہ میں نے ہزار ہا دفعہ اللہ تعالیٰ سے دعا کی ہوگی اور میں یقین سے کہہ سکتا ہوں، بغیر ذرّہ بھر مبالغہ کے، بیسیوں دفعہ میری سجدہ گاہ آنسوؤں سے تر ہوگئی۔ اس وجہ سے نہیں کہ جس شخص کے متعلق اعتراض کیا جاتا تھا وہ میرا بھائی تھا۔ بلکہ اس وجہ سے کہ جس شخص کے متعلق اعتراض کیا جاتا تھا وہ حضرت مسیح موعودؑ کا بیٹا تھا اور اس وجہ سے کہ یہ اعتراض حضرت مسیح موعودؑ پر پڑتا تھا۔ میں نے ہزاروں دفعہ اللہ تعالیٰ سے دعا کی۔ اور آخر کار اللہ تعالیٰ نے اس کا نتیجہ یہ دکھایا کہ مرزا سلطان احمد صاحب جو ہماری دوسری والدہ سے بڑے بھائی تھے اور جن کے متعلق حضرت خلیفۃالمسیح الاولؓ کی وفات کے بعد عام طور پر یہ خیال کیا جاتا تھا کہ ان کے لئے اب احمدیت میں داخل ہونا ناممکن ہے، احمدی ہوگئے ‘‘۔
حضرت خلیفۃ المسیح الرابعؒ نے اردو کلاس میں حضرت مرزا سلطان احمد صاحب کا تذکرہ کرتے ہوئے فرمایا: ’’حضرت مسیح موعودؑ کی دعائیہ نظموں میں ان کا نام نہیں آتا اس کی کیا وجہ ہے؟۔ اس لئے کہ اللہ تعالیٰ نے ان کا نام الہام میں چھپا دیا تھا۔ مصلح موعود کے متعلق الہام یہ ہوا تھا کہ وہ تین کو چار کرنے والا ہوگا۔ تین بھائی تھے اور یہ چوتھے ہو گئے۔ پیشگوئی اس میں یہ تھی کہ جب تک حضرت مصلح موعودؓ خلیفہ نہیں ہوں گے اس وقت تک یہ بیعت نہیں کریں گے ۔ حضرت مصلح موعودؓ تین کو چار کرنے والے بنے۔
مرزاسلطان احمد صاحب بیعت نہیں کرتے تھے مگر حضرت مسیح موعود علیہ السلام کا ان کے دل میں بہت احترام تھا۔ سچا کہتے تھے مگر بیعت نہیں کرتے تھے۔ لوگوں کو بھی سمجھ نہیں آ رہی تھی کہ بیعت کیوں نہیں کرتے اور ان کو بھی سمجھ نہیں آ رہی تھی کہ بیعت کیوں نہیں کررہا۔ یہ کہا کرتے تھے کہ میرے اعمال اتنے اچھے نہیں ہیں کہ میں اس باپ کی طرف منسوب ہوں۔ اس لئے کہ ان کی طبیعت میں ایک انکسار تھا۔ ہمیشہ اپنے آپ کو چھوٹا کہتے تھے۔ بہت سادہ مزاج، بہت کثرت سے لوگوں پر احسان کئے ہوئے ہیں۔ …‘‘۔
(باقی آئندہ شمارہ میں)

—————————–

(مطبوعہ انصارالدین جولائی اگست 2016ء)

بیعت کے بعد اخلاص
= قبول احمدیت سے قبل بھی حضرت صاحبزادہ صاحب حضرت مصلح موعودؓ کا بے حد احترام کرتے تھے۔ ایک بار چند متعصب لوگوں نے آپ کو غصہ دلانے کے لئے بتایا کہ آپ کی زمین کے دو چھوٹے ٹکڑے میاں محمود آپ کی اجازت کے بغیر زیر کاشت لے آئے ہیں تو آپ اُن لوگوں پر سخت ناراض ہوئے اور فرمایا: ’’فوراً یہاں سے چلے جاؤ۔ میاں محمود میرے بھائی ہیں۔ اگر وہ میرے مکان کی چھت پر بھی ہل چلوادیں تو بھی میں ان سے اختلاف نہیں کروں گا‘‘۔
= حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے وصال کے بعد مخالفین نے یہ کوشش شروع کی کہ کسی طرح صاحبزادہ مرزا سلطان احمد صاحب کو حضرت سیدہ نصرت جہاں بیگم صاحبہؓ کی اولاد کی مخالفت پر آمادہ کیا جائے۔ اُن دنوں میں آپ نے ایک دوست کے نام خط تحریر کرتے ہوئے اپنے جن جذبات کا اظہار فرمایا وہ آپ کی قلبی کیفیات کے آئینہ دار ہیں۔ آپ کا یہ خط پیسہ اخبار میں بھی شائع ہو گیا تھا۔ آپ نے لکھا کہ:
’’… میری رائے میں جو دین یہ سکھاتا ہے کہ باپ کی بے عزتی اور بے وقری کی جائے اور باپ کے پسماندگان کے ساتھ فساد کیا جائے وہ کفر اور ارتداد سے بھی بدتر ہے۔ اگر ایسے شرمناک دین کی وجہ سے بہشت بھی مل سکے تو میری رائے میں وہ دوزخ سے بھی بدتر ہے۔ لعنتی ہے وہ بیٹا اور کم بخت ہے وہ لڑکا جو باپ کی میت کو خراب کرے اور چھوٹے بھائیوں سے ناحق الجھے۔ … قادیان کی جماعت خدا کے فضل و کرم سے بمقابلہ میرے ہزاروں درجہ نیک، متقی، عامل شریعت، شب بیدار اور پرستار خدائے لایزل ہے اور میرے اعمال آپ خوب جانتے ہیں کیا ہیں۔ کیا باوجود ان اعمال کے ایسی جماعت کی مخالفت کر سکتا ہوں۔ لوگ انہیں کافر سمجھیں اور قابلِ دار۔ وہ مجھ سے حد درجہ نیک اور قابل عزت ہیں…‘‘۔
= حضرت صاحبزادہ صاحب حضرت مسیح موعودؑ کی شان میں ذرا سی گستاخی بھی پسند نہ فرماتے تھے۔ ایک مرتبہ لاہور میں پنجاب کے سینئر افسران کی دعوت تھی۔ جس میں بشپ آف لاہور نے غالباً اس خیال سے کہ آپ بھی حضورؑ کے مخالفین میں شامل ہیں، حضورؑ کے خلاف زبان درازی کرنی چاہی۔ آپ نے اُنہیں دو ایک بار ایسا کرنے سے روکا لیکن وہ باز نہ آئے۔ جس پر آپ نے کھانے سے بھری ہوئی پلیٹ اُنہیں دے ماری۔
حضرت مسیح موعودؑ اور خلافت سے عقیدت
= مکرم علی محمد صاحب افسر مال راولپنڈی لکھتے ہیں کہ سید فقیرافتخارالدین صاحب اور حضرت مرزا سلطان احمد صاحب مرحوم کے آپس میں نہایت پرانی اور گہری دوستی و یگانگت کے تعلقات تھے۔ میں بھی کسی کسی موقعہ پر جناب سید صاحب کی خدمت میں احمدیت کی صداقت کے متعلق عرض کر دیتا تھا۔ آپ نے ایک دن اس ضمن میں فرمایا کہ مَیں اور مرزا سلطان احمد صاحب اس لئے غیراحمدی نہیں ہیں کہ ہم احمدیت کو حق اور صداقت نہیں سمجھتے۔ بلکہ ہم نہیں چاہتے کہ اس پاک سلسلہ میں ہمارے جیسے آدمی شامل ہوکر اس کی بدنامی کا موجب ہوں۔
= حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے اپنی کتاب ’’سراج منیر‘‘ میں یہ خواب بیان فرمایا ہے کہ: ’’پھر ایک آواز دینے والے نے آواز دی کہ ایک شخص جس کا نام سلطان بیگ ہے جان کندن میں ہے۔ میں نے کہا کہ عنقریب وہ مرجائے گا کیونکہ مجھے خواب میں دکھلایاگیا ہے کہ اُس کی موت کے دن صلح ہوگی‘‘۔
یہ پیشگوئی بھی صاحبزادہ صاحب کی بیعت کے بعد اُن کے جلد انتقال سے پوری ہوئی۔ آپ کا نام سلطان تھا اور بیگ کا اشارہ آپ کی مغل ذات ہونے کی طرف تھا۔ پھر صلح کے دن موت سے مراد یہی معلوم ہوتا ہے کہ بیعت کرنے کے بعد اُسی سال کے اندر آپ کی وفات ہوجائے گی۔
( حضرت مرزا سلطان احمد صاحب نے 25؍دسمبر 1930ء کو حضرت مصلح موعودؓ کی دستی بیعت کی توفیق پائی۔اور صرف چھ ماہ بعد وفات پاگئے)۔
= حضرت مسیح موعود علیہ السلام کو صاحبزادہ صاحب کے بارہ میں ایک الہام یہ بھی ہوا تھا کہ: ’’پاس ہوجائے گا‘‘۔
خدا کا کلام ذوالوجوہ اور ذوالمعنی ہوا کرتا ہے۔ عمومی تشریح کے علاوہ ایک اور تشریح اس الہام کی یہ ہے کہ آپ انجام بخیر کے ساتھ وفات پاکر بہشتی مقبرہ میں مدفون ہوں گے۔ اور اس دار الابتلاء کے روحانی امتحان میں بھی پاس ہوں گے۔
= ایک روز حضرت مولوی عبدالکریم صاحبؓ نے حضور علیہ السلام کی خدمت میں بیان کیا کہ رات کو مَیں نے خواب میں دیکھا کہ سلطان احمد آئے ہوئے ہیں۔ حضورؑ نے فرمایا کہ میرے گھر میں بھی ایک ایسی ہی خواب آئی تھی کہ اس کی وہی تعبیر بتلائی جو آپ نے سمجھی یعنی خدا تعالیٰ کی طرف سے کوئی نشان ظاہر ہو گا۔ سلطان سے مراد براہین اور نشان ہوا کرتا ہے۔
= حضرت صاحبزادہ صاحب جب میانوالی میں مال افسر تھے تو آپ کے پاس قادیان کے دو احمدی دوست بطور خدمتگار رہتے تھے۔ یہ آپ کو مجبور کرتے تھے کہ بیعت کرلی جائے۔ بعض اوقات صاحبزادہ صاحب اُن کے اصرار پر چِڑ بھی جاتے تھے مگر یہ باز نہیں آتے تھے۔ آپ فرمایا کرتے تھے کہ ان کے علاوہ اور بھی بہت سے دوست مجھے بیعت کرنے کے لئے کہتے رہتے تھے مگر میرا ان سب کو یہی جواب تھا کہ میں حضرت والد صاحب کو خوب جانتا ہوں وہ بے شک اللہ تعالیٰ کے مُرسل ہیں مگر میری حالت ایسی نہیں کہ بیعت کو نبھا سکوں۔
= جب حضرت مرزاعزیز احمد صاحبؓ علی گڑھ کالج میں زیر تعلیم تھے تو کالج میں طلبہ نے سٹرائیک کی جس میں آپؓ بھی شریک ہوئے۔ چونکہ یہ امر سلسلہ کی تعلیم کے خلاف تھا اس لئے اطلاع ہونے پر حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے آپؓ کو خارج از بیعت کر دیا۔ اس پر آپؓ نے ایک معافی نامہ حضرت اقدس علیہ السلام کی خدمت میں ارسال کیا جو دراصل حضرت مرزا سلطان احمد صاحب نے اپنے ہاتھ سے لکھ کر اپنے بیٹے کو دیا تھا اور کہا تھا کہ اس کی نقل کرکے اپنے دستخط کے ساتھ حضرت اقدسؑ کی خدمت میں بھجوادو۔ چنانچہ آپؓ نے ایسا ہی کیا۔ اس معافی نامہ کے جواب میں حضرت مسیح موعودؑ نے فرمایا کہ: ’’ہم وہ قصور معاف کرتے ہیں۔ آئندہ اب تم پرہیزگار اورسچے مسلمان کی طرح زندگی بسر کرو اور بُری صحبتوں سے پرہیز کرو۔ بُری صحبتوں کا انجام آخر بُرا ہی ہوا کرتا ہے۔‘‘
= حضرت مرزا سلطان احمد صاحب کی شکل و شباہت بہت کچھ حضرت مسیح موعودؑ کے مشابہ تھی اور کچھ لکھا ہوا پڑھتے وقت گنگنانے کی آواز حضرت مسیح موعودؑ کی آواز سے بالکل ملتی تھی۔ آپ نہایت متواضع اور وسیع الاخلاق انسان تھے۔ قوت تحریر اور زور قلم آپ نے ورثہ میں پایا تھا۔
= حضرت صاحبزادہ مرزاعزیز احمد صاحبؓ بیان کرتے ہیں کہ جب حضرت مسیح موعود علیہ السلام کا وصال ہوا تو میں اپنے پہلے خسر کے گاؤں اعظم آباد میں تھا۔ حضرت والد صاحب کی طرف سے تار ملا مگر مَیں اپنی بیماری یا اپنی بدقسمتی کی وجہ سے وقت پر قادیان نہ پہنچ سکا۔ کچھ عرصہ بعد جب میں قادیان گیا تو آپ مجھے حویلی کے احاطہ میں ملے اور فرمایا کہ ’’میرے تو والد فوت ہو گئے تھے، تمہارے تو دادا اور پیر بھی تھے مگر تم وفات کے وقت نہیں آئے تمہیں شرم کرنی چاہئے تھی‘‘۔ آپ نے مجھے اس سے سخت الفاظ پھر کبھی نہ کہے اور نہ کبھی اس واقعہ سے قبل کہے تھے۔
= حضرت صاحبزادہ صاحب کو حضرت مسیح موعودؑ کے بعد آپؑ کے مکان میں رہنے کا شرف بھی حاصل ہوا۔ حضرت مسیح موعودؑ کی پیدائش جس کمرہ میں ہوئی وہ بھی آپ کے زیراستعمال رہا۔ 1890ء میں حضرت اقدس علیہ السلام کئی ماہ تک شدید بیمار رہے حتیٰ کہ بظاہر زندگی کی امید منقطع ہو گئی۔ مئی میں آپ علاج کے لئے لاہور تشریف لائے اور مرزا سلطان احمد صاحب کے مکان پر ٹھہرے۔
= اگرچہ مرزا سلطان احمد صاحب خلافت اولیٰ میں بیعت سے محروم رہے تھے تاہم حضرت خلیفۃالمسیح الاوّل رضی اللہ عنہ کے بلند روحانی مقام سے آپ پوری طرح آگاہ تھے۔ چنانچہ حضرت صاحبزادہ مرزا عزیز احمد صاحبؓ بیان کرتے ہیں کہ میری پہلی شادی مکرم مرزا محمداعظم بیگ صاحب کی دختر سے ہوئی۔ ہم بارات لے کر لاہور گئے۔ میاں صاحب (حضرت مرزا محمود احمد صاحبؓ) بھی ہمارے ساتھ تھے۔ جب ہم دلہن لے کر واپس قادیان پہنچے تو حضرت والد صاحب (صاحبزادہ مرزا سلطان احمد) نے فرمایا کہ دلہن کو پہلے حضرت خلیفۃ المسیح الاولؓ کے پاس سلام اور دعا کے لئے لے جاؤ پھر گھر لانا۔
= خلافتِ ثانیہ کا آغاز ہوچکا تھا۔ جب خواجہ کمال الدین صاحب نومبر 1914ء میں لندن سے واپس ہندوستان آئے تو اتفاقاً حضرت مرزا سلطان احمد صاحب سے بھی اُن کی ملاقات ہوگئی۔ خواجہ صاحب نے آپ سے عرض کیا کہ درحقیقت حضرت مسیح موعودؑ کی جانشینی اور خلافت کے حقدار تو آپ ہیں۔ آپ لاہور چلیں اور خلافت کا اعلان فرمائیں اور ہم سب آپ کی بیعت کریں گے۔
حضرت مرزا سلطان احمد صاحب نے ہنس کر جواب دیا کہ میں تو ابھی احمدی بھی نہیں، میرا خلافت کا کیا حق ہے؟
رئیس پنجاب
’’تذکرہ رؤسائے پنجاب‘‘ میں لکھا ہے:
’’غلام مرتضیٰ جو ایک لائق حکیم تھا 1876ء میں فوت ہوا اور اس کا بیٹا غلام قادر اس کا جانشین ہوا۔ غلام قادر حکّام مقامی کی امداد کے لئے ہمیشہ تیار رہتا تھا اور اس کے پاس ان افسران کے جن کا انتظامی امور سے تعلق تھا بہت سے سرٹیفکیٹ تھے۔ یہ کچھ عرصہ تک گورداسپور میں دفتر ضلع کا سپرنٹنڈنٹ رہا۔ اس کا اکلوتا بیٹا کم سنی میں فوت ہو گیا اور اس نے اپنے بھتیجے سلطان احمد کو متبنیٰ کر لیا جو غلام قادر کی وفات یعنی 1883ء سے خاندان کا بزرگ خیال کیا جاتا تھا۔ مرزا سلطان احمد نے نائب تحصیلداری سے گورنمنٹ کی ملازمت شروع کی اور اکسٹرا اسسٹنٹ کمشنر کے عہدہ تک ترقی پائی۔ یہ قادیان کا نمبردار بھی تھا مگر اس نمبرداری کا کام بجائے اس کے اس کا چچا نظام الدین کرتا تھا جو غلام محی الدین کا سب سے بڑا بیٹا تھا۔
مرزا سلطان احمد کو خان بہادر کا خطاب اور ضلع منٹگمری میں 5مربعہ جات اراضی عطا ہوئے اور 1930ء میں اس کا انتقال ہوگیا۔ اس کا سب سے بڑا لڑکا مرزا عزیز احمد ایم۔ اے اب خاندان کا سرکردہ اور پنجاب میں اکسٹرا ا سسٹنٹ کمشنر ہے۔ خان بہادر مرزا سلطان احمد کا چھوٹا بیٹا رشید احمد ایک اولوالعزم زمیندار ہے اور اس نے سندھ میں اراضی کا بہت بڑا رقبہ لے لیا ہے۔ نظام الدین کا بھائی امام الدین جس کا انتقال 1902ء میں ہوا دہلی کے محاصرہ کے وقت ہاڈسن صاحب کے رسالہ میں رسالدار تھا اور اس کا باپ غلام محی الدین تحصیلدار تھا‘‘۔
سیرت کے چند نمایاں پہلو
٭…جب حضرت صاحبزادہ مرزا عزیز احمد صاحبؓ نے اپنی ملازمت شروع کی تو حضرت صاحبزادہ مرزا سلطان احمد صاحب نے تین باتیں انہیں بطور نصیحت بیان فرمائیں۔ آپ نے فرمایا:
پہلی بات جس کے بارے میں مجھے یقین ہے کہ تم کبھی اس کے مرتکب نہ ہوگے یعنی رشوت نہیں لوگے۔
دوسرے اگر کبھی تمہارا کوئی ماتحت کسی سے تھوڑے بہت پیسے لے لے تو اس پر زیادہ سختی نہ کرنا۔
تیسرے اگر کوئی شخص تمہارے پاس آئے تو اسے انتظار نہ کروانا۔
٭…حضرت صاحبزادہ مرزا سلطان احمد صاحب میں دینی غیرت اس قدر تھی کہ ایک دفعہ ایک انگریز افسر نے حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا کے خلاف کوئی بیہودہ گوئی کی۔ حضرت مرزا صاحب نے اسے کہا: دوعورتیں ہیں جن پر الزام تراشی کی جاتی ہے ایک وہ تھی جو کنواری ہوتے ہوئے حاملہ ہوگئی اور ایک شادی شدہ ہوکر بھی حاملہ نہ ہوئی۔ اس جواب پر وہ انگریز افسر شرمندہ ہوگیا۔
٭…جولائی 1932ء میں صاحبزادہ صاحب نے اپنی ذاتی لائبریری جماعت کو پیش کردی جسے صادق لائبریری میں ضم کرکے خلافت لائبریری بنادیا گیا۔
وراثت میں ملنے والا ذوق شعروسخن
حضرت مسیح موعودؑ بھی اردو، عربی اور فارسی میں نہایت بلند پایہ شعر کہتے تھے، مگر بطور پیشہ یا برائے دل لگی نہیں بلکہ آپؑ نے اپنی صلاحیت کو عشق حقیقی کے اظہار اور پیغام حق کی منادی کا ذریعہ بنایا تھا۔ ابتداء میں آپ ’’فرخؔ‘‘ تخلص کرتے تھے پھر اسے چھوڑ دیا۔
حضرت مرزا بشیر احمد صاحبؓ کو حضرت مرزا سلطان احمد صاحب سے حضرت مسیح موعودؑ کی شعروں کی ایک کاپی ملی تھی جو غالباً حضورؑ کی نوجوانی کا کلام ہے۔ بطور نمونہ چند شعر درج ذیل ہیں: ؎

عشق کا روگ ہے کیا پوچھتے ہو اس کی دوا
ایسے بیمار کا مرنا ہی دوا ہوتا ہے
کچھ مزا پایا مرے دل! ابھی کچھ پاؤ گے
تم بھی کہتے تھے کہ اُلفت میں مزا ہوتا ہے
……………
ہائے کیوں ہجر کے الم میں پڑے
مفت بیٹھے بٹھائے غم میں پڑے
اس کے جانے سے صبر دل سے گیا
ہوش بھی ورطۂ عدم میں پڑے
……………
سبب کوئی خداوندا بنا دے
کسی صورت سے وہ صورت دکھا دے
کرم فرما کے آ او میرے جانی
بہت روئے ہیں اب ہم کو ہنسا دے
کبھی نکلے گا آخر تنگ ہو کر
دلا اک بار شور و غل مچا دے
……………
نہ سر کی ہوش ہے تم کو نہ پا کی
سمجھ ایسی ہوئی قدرت خدا کی
مرے بت اب سے پردہ میں رہو تم
کہ کافر ہو گئی خلقت خدا کی
……………
نہیں منظور تھی گر تم کو اُلفت
تو یہ مجھ کو بھی جتلایا تو ہوتا
مری دل سوزیوں سے بے خبر ہو
مرا کچھ بھید بھی پایا تو ہوتا
دل اپنا اس کو دوں یا ہوش یا جاں
کوئی اک حکم فرمایا تو ہوتا
……………
کوئی راضی ہو یا ناراض ہووے
رضامندی خدا کی مدّعا کر
……………

حضرت مرزا بشیر احمد صاحبؓ رقم فرماتے ہیں کہ اس ڈائری میں کئی شعر ناقص ہیں۔ یعنی ایک مصرعہ موجود ہے مگر دوسرا نہیں ہے۔ بعض اشعار نظرثانی کیلئے بھی چھوڑے ہوئے معلوم ہوتے ہیں اور کئی جگہ ’فرخؔ‘ تخلص استعمال کیا ہے۔
حضرت مرزا سلطان احمد صاحب کے دادا مرزا غلام مرتضیٰ صاحب نے بھی طبیعت رسا پائی تھی۔ فارسی زبان میں نہایت عمدہ شعر کہتے تھے اور ’’تحسینؔ‘‘ تخلص کرتے تھے۔ حضرت مرزا سلطان احمد صاحب نے ایک دفعہ ان کا کلام جمع کرکے حافظ عمر دراز صاحب ایڈیٹر پنجابی اخبار کو دیا تھا، مگر وہ فوت ہوگئے اور ان کے ساتھ ہی یہ قیمتی خزانہ بھی معدوم ہو گیا۔
مرزا سلطان احمد صاحب کے تایا مرزا غلام قادر بھی شعر کہتے تھے اور ’’مفتون‘‘ تخلص کرتے تھے۔
حضرت صاحبزادہ صاحب کا علمی ذوق
حضرت مرزا سلطان احمد صاحب کو ذوق شعر و سخن وراثت میں ملا تھا۔آپ خود بھی شعر کہتے تھے۔ آپ کی منظومات و غزلیات پر مشتمل ایک کتاب ’’چند نثری نظمیں‘‘ کے عنوان سے شائع شدہ ہے۔ علاوہ ازیں آپ اردو و فارسی شاعری کا نہایت گہرا مطالعہ اور انتہائی اعلیٰ ذوق رکھتے تھے۔ اپنی رواں تحریر میں نہایت عمدہ اشعار اور مصرعوں کا بے ساختہ اور برمحل استعمال کرتے۔ آپ کے شعری ذوق کی وسعت و عظمت اور گہرائی کا اندازہ آپ کے ان سینکڑوں مضامین سے بخوبی ہو سکتا ہے جو آپ نے زبان و ادب اور شعر کے متعلق تحریر کئے ہیں۔
علاوہ ازیں آپ نے ’’فن شاعری‘‘ کے عنوان سے ایک انتہائی شاندار کتاب تحریر کی جس میں فن شعر پر فلسفیانہ تنقید و تبصرہ کیا ہے۔
ادب میں اپنی پسندیدگی کے حوالہ سے آپ خود فرماتے ہیں کہ:
’’ اوائل عمر میں مجھے ہمیشہ وہ کتاب اور وہ تصنیف یا تالیف پسند ہوا کرتی تھی جس میں حقیقت الامور پر بحث کی گئی ہو، جو نرا قصہ اور کہانی نہ ہو۔ مَیں صوفیانہ رنگ کی تصانیف خواہ کسی مذہب کی ہوں زیادہ پسند کرتا ہوں۔ فلسفی رنگ کی کتابوں اور تصانیف سے مجھے شروع سے ایک خاص قسم کا شوق رہا ہے۔ دواوین اور اشعار میں سے میں وہ سلسلہ پسند کرتا ہوں کہ جن میں سوز وگداز ہو اور جن میں شاعر نے کوئی حقیقت ظاہر کی ہو، اُن کا ایک مصرع بھی میرے دل پر خاص اثر کرتا اور مجھے ایک خاص حظ بخشتا ہے۔
اسی طرح فلسفی رنگ کی بحثیں اور صوفیانہ رنگ کی تصانیف سے مَیں ایک خاص خوشی کا احساس کرتا ہوں۔ بعض دفعہ مجھے ساری کتاب ناپسند ہوئی، کبھی اس کا ایک جملہ بمقابلہ ساری کتاب کے میرے لئے ایک خوش کن ذخیرہ ثابت ہوا۔
ایک دفعہ مجھے ہندی دوہوں کی ایک کتاب ملی۔ میرے دل پر ان دوہوں نے اتنا اثر کیا کہ میں کبھی کبھی اکیلا ہو کر انہیں بار بار پڑھتا تھا۔ اس وقت میرے دل سے ایک جوش اٹھتا تھا اور میں اپنے دل میں ایک خاص قسم کا سرور محسوس کرتا تھا۔
بعض دفعہ ایک شعر نے وہ حالت کی ہے کہ ہزاروں شعر سے بھی وہ سماں نہیں پیدا ہوا۔ مجھے یہاں تک خبط ہے کہ میں ایسے ہی مضامین یا اشعار، فقرات، جملوں کی تلاش میں صد ہا صفحے پڑھ ڈالتا ہوں۔ اگر ایک ہزار صفحہ کی کتاب سے ایک فقرہ بھی میرے مذاق کے مطابق آیا تو میں سمجھ لیتا ہوں کہ کتاب کی قیمت وصول ہوگئی اور میرا وقت رائیگاں نہیں گیا۔ بعض دفعہ ایک ہی فقرہ اور ایک ہی بیت نے مجھ پر وہ اثر کیا کہ میں بیٹھے بیٹھے صدہا صفحے لکھ گیا۔ نہ ہاتھ روکے سے رُکا اور نہ قلم رُکتا ہے۔
اگر کوئی شخص بانسری خوش الحانی سے بجا رہا ہو اور اردگرد کوئی شور وشغب نہ ہو تو میرے دل و دماغ میں مضامین جدید کا ایک خاص تموج پیدا ہوتا ہے اور لکھنے میں کوئی تکلیف نہیں ہوتی۔ موسم کی خوشگواری بھی مجھ پر یہی اثر کرتی ہے۔ کبھی کبھی مایوسی اور اداسی کا بھی یہی فوری اثر ہوتا ہے۔ ایک د فعہ طبیعت کُند پڑی ہوئی تھی۔ بہتیرا چاہا کہ کچھ لکھوں یا لکھ سکوں مگر طبیعت کہنے میں نہ آئی۔ دیوان حضرت مینائی اٹھا لیا کھولتے ہی اس شعر پر نظر پڑی ؎

ہر جام میں ہے جلوہ مستانہ کسی کا
میخانہ ہمارا ہے جلو خانہ کسی کا

نہیں معلوم اس بزرگ شاعر کے اس شعر میں کیا کچھ اثر بھرا تھا، طبیعت پڑھتے ہی کھل گئی اور قلم خود بخود عرصہ قرطاس پر چل پڑا۔
یہ کہنا کسی قدر مشکل ہے کہ کونسی کتاب میری تصنیفات میں سے بہترین کے درجہ میں ہے۔ فن شاعری پر ایک چھوٹا سا رسالہ لکھا ہے وہ میری اور چند مبصرین کی رائے میں ایک اچھے پیرایہ میں لکھا گیا ہے۔ ایک کتاب 700 صفحہ کی موسوم بہ ’’اساس الاخلاق‘‘ ہے۔ میری رائے میں اس رنگ میں اردو زبان میں بہت کم کتابیں لکھی گئی ہیں۔ اس کتاب میں خاص اصولوں کی پابندی سے اساس الاخلاق پر بحث کی گئی ہے۔ میری رائے میں میری پینتالس چھیالیس تصانیف میں سے یہ کتاب بہترین ہو گی اور شاید بعض کی نظروں میں یہی کتاب بہترین میں سے شمار ہو۔‘‘
(باقی آئندہ شمارہ میں)

—————————–

(مطبوعہ انصارالدین ستمبر اکتوبر 2016ء)

حضرت صاحبزادہ صاحب کا ادبی مقام
حضرت مرزا سلطان احمد صاحب کا انتقال ادب اردو کے لئے بہت بڑا نقصان تھا جو ادبی حلقوں میں بہت محسوس کیا گیا۔
رسالہ ’’ادبی دنیا‘‘ کے ایڈیٹر، شمس العلماء احسان اللہ خاں تاجور نجیب آبادی، نے اپنے رسالہ میں حضرت صاحبزادہ صاحب کی تصویر دے کر لکھا کہ:
’’دنیائے ادب اس ماہ اردو کے نامور، بلند نظر اور فاضل ادیب خان بہادر مرزا سلطان احمد صاحب سے بھی محروم ہوگئی۔ آپ نہایت قابل انشاء پرداز تھے۔ اردو کا کوئی حصہ ان کی رشحات قلم سے محروم نہ رہا ہو گا۔ … اردو زبان کے بہت سے مضمون نگاروں نے ان کی طرزانشاء کو سامنے رکھ کر لکھنا سیکھا۔ افسوس کہ ایسا ہمہ گیر و ہمہ رس انشاء پرداز موت کے ہاتھوں نے ہم سے چھین لیا۔ … اردو میں بیش قیمت لٹریچر آپ نے اپنی یادگار کے طور پر چھوڑا ہے۔ علم اخلاق پرآپ کی کتابیں اردو زبان کی قابل قدر تصانیف میں سے ہیں‘‘۔
انجمن حمایت اسلام لاہور کے ترجمان ’’حمایت اسلام‘‘ نے اپنی 9جولائی 1931ء کی اشاعت میں لکھا: ’’خان بہادر صاحب مرحوم نے علم و ادب پر جو احسانات کئے ہیں وہ کبھی آسانی سے فرمواش نہیں کئے جا سکتے۔ ان کے شغفِ علمی کا اس امر سے پتہ چل سکتا ہے کہ وہ ملازمت کی انتہائی مصروفیتوں کے باوجود گراں بہا مضامین کے سلسلے میں پیہم جگرکاری کرتے رہے۔ ‘‘
حضرت مرزا سلطان احمد صاحب کے بارہ میں یہ کہنا غلط نہیں ہو گا کہ وہ فطرتاً ادیب اور قلمکار تھے اور عادتاً لکھتے تھے۔ صناع کامل نے لکھنے کی خاص صلاحیت آپ کو ودیعت کی ہوئی تھی۔ حکیم انشاء اللہ خان انشاء کا یہ شعر آپ کی تلاطم خیز طبیعت پر خوب صادق آتا ہے۔

بولے ہے یہی خامہ کہ کس کس کو مَیں باندھوں
بادل سے چلے آتے ہیں مضمون مرے آگے

محترم سید میر محمود احمد ناصر صاحب بیان کرتے ہیں کہ میں نے سنا ہے کہ صاحبزادہ مرزا سلطان احمد صاحب کا قلم اس قدر رواں تھا کہ دو مقدموں کے دوران جو تھوڑا سا وقت ملتا تھا اس میں مضمون لکھ لیتے تھے اور خاص طور پر قابل ذکر بات یہ ہے کہ مضمون لکھنے کے لئے سرکاری قلم استعمال نہیں فرماتے تھے بلکہ ذاتی قلم د وات رکھی ہوئی تھی۔ دفتر کا قلم صرف دفتری امور کے لئے مختص تھا۔
٭ محمد عالم صاحب ایڈیٹر ’’العالم‘‘ لکھتے ہیں:
’’العالم کے عنوان کی تحت میں جو مضمون آپ کے پیش نظرہے، یہ ہمارے محترم کرم فرما جناب مرزا سلطان احمد خاں صاحب اکسٹرا اسسٹنٹ کمشنر کا نتیجہ فکر ہے جو ایک کہنہ مشق اور شہرہ آفاق شہرنگار ہیں۔ آپ کی وسعت نظر اور تحقیق ادیبات مسلم ہے اور اس دعویٰ کے ثبوت کے لئے ان کا مندرجہ ذیل محققانہ مضمون کافی ہے۔ ہندوستان کا کوئی ایسا رسالہ نہیں جس کو آپ کی قلمی اعانت کا فخر حاصل نہ ہو … آپ کے فلسفیانہ مضامین کی شہرت، عالمانہ قابلیت اور قوت استدلال جس قدر مسلم ہے وہ کسی تشریح مزید کی محتاج نہیں۔ فنِ زراعت سے آپ کو خاص دلچسپی ہے جس میں آپ نے کئی ایک کتابیں تصنیف فرمائی ہیں۔ کارکنان تعلیم کے لئے آپ کا یہ وصف قابل تقلید ہے کہ باوجود سرکاری فرائض کی بوجہ احسن ادائیگی کے، آپ کئی ایک اخبار و رسائل میں متواتر اور مسلسل بیش قیمت علمی مضامین لکھتے اور تصنیف و تالیف کا سلسلہ مزیدبرآں رکھتے ہیں۔ مدینہؔ کانفرنس ، فنونؔ لطیفہ وغیرہ آپ کی عالی قدر علمی یادگاریں اردو لٹریچر میں بیش قرار اضافہ کررہی ہیں‘‘۔
٭ حضرت مرزا سلطان احمد صاحب کے پیدا کردہ شاندار لٹریچر سے تاریخ ادب میں بیش بہا اضافہ ہوا۔ چنانچہ جناب ڈاکٹر حافظ قاری فیوض الرحمن (M.A., M.O.L., Ph.D.) اپنی کتاب ’’معاصرین اقبال‘‘ (مطبوعہ 1993ء) میں لکھتے ہیں کہ مولانا ابوالکلام آزاد خواجہ حسن نظامی، مفتی کفایت اللہ ، اکبرالہ آبادی ان کو قدر کی نگاہ سے دیکھتے تھے۔
اس سلسلہ میں مزید تحریر کرتے ہیں کہ: ’’مرزا سلطان احمد کو مسلمانوں کے رفاہی کاموں سے بڑی دلچسپی تھی۔ وہ انجمن حمایت اسلام کے جلسوں میں بڑی سرگرمی سے حصہ لیتے تھے۔ اقبال سے ان کی پہلی ملاقات انجمن ہی کے جلسوں میں ہوئی تھی۔ اس کے بعد علامہ اقبال اور ان میں دوستانہ تعلقات قائم ہوگئے۔ 1916ء میں انجمن کے ایک اجلاس کی دوسری نشست کی صدارت انہوںنے کی جس میں علامہ اقبال نے شمع و شاعردو نشستوں میں پڑھی‘‘۔
لسان العصرجناب اکبر حسین اکبر الہ آبادی آپ کے کس درجہ مداح تھے؟ اس کا اندازہ ان مکتوبات سے ہو سکتا ہے جو انہوں نے حضرت صاحبزادہ صاحب کے نام رقم فرمائے اور جنہیں آپ نے قادیان سے ’’مکتوبات اکبر‘‘ کے نام سے شائع کر دیا۔ ایک مراسلہ میں اکبر الہ آبادی نے لکھا:
’’آپ کی کثرت معلومات اور زوردار قلم اور بلند خیالی اور عارفانہ طبیعت آپ کے لئے بڑی نعمتیں ہیں۔‘‘
ایک دوسرے مکتوب میں تحریر کیا:
’’میں آپ کو نیاز نامہ لکھنا چاہتا تھا۔ ایک مضمون تصوف کی نسبت بہت اچھا تھا اور حال میں کسی اخبار میں آپ کا ایک عمدہ مضمون دیکھ کر آپ کے ثبات قدم اور صحیح الخیالی پر خوش ہوا تھا۔ اس کی داد دینی تھی اگرچہ آپ کو اس کی ضرورت نہیں ہے۔ جس طرح ایک تندرست جوان اپنی تندرستی کا احساس راحت کے ساتھ کرتا ہے اسی طرح آپ ایسا ایک صحیح الخیال فلاسفر اپنے خیالات کی لذات سے متمتع ہوتا ہے مدح ہو یا نہ ہو۔ آپ کی تصنیفات حال میں کتاب النساء فی الاسلام نہایت عمدہ کتاب ہے۔ قومی اور مذہبی لٹریچر میں نہایت قیمتی اضافہ ہے۔ اس لائق ہے کہ انگریزی میں ترجمہ ہو‘‘۔
ایک گرامی نامی کا آغاز ہی ان الفاظ سے کیا: ’’آپ کی تصانیف کا کیا پوچھنا نہایت واضح، قرآن کے موافق، مذاق اسلامیہ کے مطابق۔ اللہ جزاء خیر دے۔‘‘
٭ رسالہ ’’سیاست جدید‘‘ کانپور لکھتا ہے:
’’اس بیسویں صدی کے شروع کے بیس سالوں میں اردو کے کسی بھی قابل ذکر رسالہ کو اٹھا کر دیکھ لیجئے۔ اس کے مضمون نگاروں میں ایک نام مرزا سلطان احمد کا ضرور نظر آئے گا۔ عمومی، علمی و فلسفیانہ موضوعوں پر قلم اٹھاتے تھے۔ ان کے مضامین عام اور عوامی سطح سے بلند اور سنجیدہ مذاق والوں کے کام کے ہوتے تھے۔ رسالہ الناظرؔ مشہور زمانہ کانپور۔ ادیبؔ الہ آباد۔ مخزن لاہور۔ پنجاب۔ لاہور وغیرہ میں ان کی گلکاریاں نظر آتی تھیں۔ رفتہ رفتہ اردو والوں نے انہیں بالکل ہی بھلادیا۔ ان کے قلم سے چھوٹی بڑی بہت سی کتابیں نکلی تھیں۔ جن کی میزان چالیس درجن سے کم نہ ہوگی۔ کسی کتاب کو ان کے خصوصی طرز تحریر کے باعث قبولیت عام نصیب نہ ہوئی اور اب جبکہ پاکستان کے قیام کے بعد اس سرزمین میں اردو کی خدمت ہورہی ہے اور بہت پرانے مصنفوں اور مؤلفوں کی کتابیں جوگمنام اور مثل گمنام کے ہوچکی تھیں۔ وہاں بڑے آب و تاب سے چھاپی جا رہی ہیں۔ ان کے ذخیرہ تصانیف کی طرف سے کسی کو بھی تاحال توجہ کی توفیق نہیں ہوئی۔‘‘
٭ محسنین اردو میں حضرت مرزا سلطان احمد صاحب کا نام نمایاں طور پر سامنے آتا ہے اور اس کی وجہ یہ ہے کہ اردو زبان کو فروغ دینے کے لئے جو مختلف ذرائع استعمال کئے جا سکتے ہیں، آپ نے تقریباً ان تمام ذرائع کو استعمال کیا اور ایسے وقت میں جب کہ اردو زبان کو خاص طور پر اس بات کی ضرورت تھی کہ صاحب اقتدار لوگ اسے سہارا دیں اور نہ صرف قلمی خدمت انجام دیں بلکہ اشاعت و ترویج کے لئے قلمی جواہر پاروں کو اپنی جیب سے روپیہ خرچ کرکے شائع کریں اور ملک مختلف طبقوں تک اس کی رسائی کا سامان بہم پہنچائیں۔ آپ نہ صرف ایک اچھے نثرنگار تھے بلکہ ایک اچھے ناظم بھی۔ آپ نے اپنی ساٹھ (60) کے قریب کتب کو زیادہ تر اپنی جیب سے روپیہ خرچ کرکے چھپوایا اور اس طرح اردو کی قلمی خدمت کے ساتھ ساتھ مالی خدمت بھی کی۔… نیز یہ کتب اسلامی خدمت کا بھی شاندار نمونہ ہیں۔
٭ یہ بات تو عام طور پر دیکھی گئی ہے کہ کسی مصنف نے ایک ہی موضوع پر متعدد کتب تصنیف کی ہوں۔ یہ بھی علمی تبحر کی دلیل ہے۔ لیکن یہ کہ کوئی مصنف ایک سے زیادہ موضوعات پر ایک ہی جیسی قدرت اور روانی و سلاست کے ساتھ قلم اٹھا سکے، بہت ہی کم دیکھنے میں آتی ہے اور جس مصنف میں یہ بات پائی جاتی ہو اس کے تبحر علمی کا تو پھر کہنا ہی کیا! مرزا سلطان احمد صاحب نے مذہبیات پر قلم اٹھایا تو نہایت بیش قیمت جواہرپارے یادگار چھوڑے۔ اخلاقیات پر لکھا تو یوں محسوس ہوا کہ گویا اخلاقیات آپ کا خاص موضوع ہے۔ فلسفہ کے متعلق گوہرفشانی کی تو فلاسفروں کو دنگ کردیا۔ ان سب باتوں سے مختلف لیکن ایک نہایت ہی اہم مضمون جس کے ساتھ مسلمانوں کی بہبود وابستہ تھی اس پر بھی لکھا وہ تھا، زمیندارہ بنکاری۔ …… یہ ہیں حضرت مرزا سلطان احمد صاحب سلیس اور عام فہم نثر میں مذہبیات، اخلاقیات معاشیات اور ایسے ہی دیگر متعدد موضوعات پر بے شمار کتابیں لکھنے والے اورپرانی اقدار کو قائم رکھتے ہوئے نئی نظم کے پیش روؤں کی صف اول کے شاعر۔
٭ رسالہ ’’نیرنگ خیال‘‘ (مئی جون 1934ء) لکھتا ہے: ’’اردو زبان کا وہ زبردست فلسفی، مضمون نگار اور بلند پایہ مصنف جو قریباً نصف صدی تک اردو کی ادبی دنیا پر چھایا رہا اور جس کے زمانہ میں اردو کا کوئی ادبی اور علمی رسالہ اپنی ابتداء نہیں کیا کرتا تھا اور نہ کر سکتا تھا جب تک اپنے قلمی معاونین کی فہرست میں بکمال امتیاز واختصاص و افتخار مرزا سلطان احمد مرحوم کا نام سرِلوح درج نہ کرلیتا ہو‘‘۔
کتب و مضامین
٭ حضرت مرزا سلطان احمد صاحب نے 59 سے کتب اور بے شمار مضامین تحریر فرمائے۔ چند کتب کا مختصر تعارف پیش ہے:
= ’’امثال‘‘: 315صفحات پر مشتمل یہ کتاب ایک معرکۃ ا لآراء تصنیف ہے جو مئی 1911ء میں طبع ہوئی۔ اس کتاب میں ضرب الامثال پر فلسفیانہ رنگ میں بحث کی گئی ہے۔ ابتداء میں پنجابی اور اردو میں جو نسبت ہے اس پر تبصرہ کیا گیاہے اور یہ ثابت کیا ہے کہ ارد وزبان دراصل پنجابی کی ہی اصلاح یافتہ شکل ہے۔ ازاں بعد امثال پر مختلف جہات سے بحث کی ہے جس میں ضرب المثل یا کہاوت کی تعریف، مآخذ واسنادِ امثال، امثال اور اقوال و محاورات، امثالِ شعریہ، اقسامِ امثال، امثال باعتبار مفہوم عامہ و مفہوم خاصہ اور تنقید امثال و غیرہ موضوعات شامل ہیں۔ آخر پر پنجابی زبان کی 1464 ضرب الامثال اردو ترجمے کے ساتھ درج کی گئی ہیں اور ساتھ ساتھ حواشی میں ضروری تشریحات بھی دی گئی ہیں۔
= ’’صدائے الم‘‘: 58صفحات پر مشتمل یہ رسالہ اپریل 1886ء میں شائع ہوا۔ اس میں مسٹر ابیٹسن صاحب بہادر کمشنر مردم شماری پنجاب کی اُن نکتہ چینیوں کا جواب دیا ہے جو انہوں نے اپنی مردم شماری کی رپورٹ میں اسلام پر کی تھیں؟ کتاب کے دو ابواب ہیں۔ پہلے باب میں آپ نے مسٹر ابیٹسن صاحب کے اعتراضات درج کرکے لکھا ہے کہ اسلام کے بارہ میں ان کی رائے ان کی اسلام سے ناواقفیت پر دلالت کرتی ہے مگر ہم اس بات سے انکار نہیں کر سکتے کہ ان کی رائے مسلمانوں کی موجودہ حالت کے موافق ہے۔ پھر آپ نے مسلمانوں کی موجودہ حالت کا نقشہ کھینچ کر ان کو اسلامی تعلیم کے مطابق اپنے اندر تبدیلی کرنے اور اسلامی تاریخ کی اعلیٰ اقدار وروایات کو زندہ کرنے کی تحریک کی ہے۔ دوسرے باب میں آپ نے مسٹر ابیٹسن کی نکتہ چینیوں کے مسکت اور مدلّل جوابات دئیے ہیں اور قرآن و احادیث سے اسلام کی حقیقی تعلیم پر روشنی ڈالی ہے۔
= ’’ایک اعلیٰ ہستی‘‘: یہ رسالہ 1919ء کی تحریر ہے جس میں خداتعالیٰ کی ہستی پر عقلی رنگ میں منطقی دلائل سے بحث کی گئی ہے۔
= ’’قوت اور محبت‘‘: 1920ء میں آپ نے یہ رسالہ تصنیف کیا جس میں آپ نے قوت اور محبت، دونوں کششوں یا جذبوں پر فلسفیانہ رنگ میں بحث کی ہے اور بتایا ہے کہ انہی دو جذبوں کی وجہ سے ہر چھوٹی طاقت بڑی طاقت کی طرف متوجہ ہوتی ہے اور یہی دو باتیں ہیں جو ہمیں خداتعالیٰ کی طرف لے جاتی ہیں۔
= ’’الصلوٰۃ‘‘: 88 صفحات کے اس کتابچہ میں تمام مذاہب میں دعا اور عبادت کی ضرورت کو تسلیم کیا گیا ہے۔ نیز دعا کیوں کی جاتی ہے؟ عبادت اور دعا کے کس قدر طریق ہیں؟ دعا پر ہونے والے مختلف اعتراضات اور ان کے جوابات پر بحث کرنے کے بعد اسلامی عبادت اور اس کی جامعیت پر قلم اٹھایاہے۔
= ’’مرآۃ الخیال یعنی مینٹل فلاسفہ‘‘: 1882ء میں شائع ہونے والے اس رسالہ کے 64 صفحات ہیں۔
مختصر تمہید کے بعد کتاب کو پانچ ابواب میں تقسیم کیا ہے۔ یعنی ’’تعریف و فوائد و مقام و اقسام و طاقت و میعاد قوت متخیلہ ‘‘۔ ’’طریق مدوت خیالات‘‘۔ ’’تسلسل خیالات‘‘۔ ’’اُن عوارض اور امراض کا بیان جو قوت متخیلہ پر وارد اور مؤثر ہوسکتے ہیں‘‘۔ اور ’’فوائد و تدابیر آراستگی و صحتِ قوت متخیلہ‘‘۔
= ’’زمیندارہ بینک‘‘ 60صفحات پر مشتمل یہ رسالہ 1903ء میں شائع ہوا جس میں زمینداران پنجاب کے اسباب افلاس و آسودگی پر بحث کرکے زمیندارہ بینک کے قائم کرنے کی ایک عملی تجویز بتائی گئی ہے۔ نیز اس کی افادیت پر روشنی ڈالی گئی ہے۔کتاب کے آخر میں قواعد زمیندارہ فنڈ بیان کئے گئے ہیں اور پھر حساب کتاب کے بارہ میں مختلف نقشہ جات دئیے گئے ہیں۔
= ’’الوجد‘‘: تصوّف کے بارہ میں یہ گرانقدر تصنیف 88صفحات پر مشتمل ہے۔ جس میں یہ بھی بیان ہے کہ خدا تعالیٰ تک پہنچنے کے لئے بزرگان دین کی اہمیت اور ضرورت کیا ہے۔
= ’’فنِ شاعری‘‘: یہ رسالہ 1907ء میں شائع ہوا۔ 165سے زائد صفحات پر مشتمل ہے۔ اس کتاب میں صاحبزادہ صاحب نے شاعری اور فن شاعری پر نئے اور پرانے خیالات کے اعتبار سے نہایت عمدہ پیرایہ میں بحث کی ہے۔ شاعری کا شروع، شاعری کے اولیات، ضرورت، مماثلات اور تناسبات، شاعری کے اقسام اور متعلقات، شاعری باعتبار مختلف واقعات، درد و سوز و باعتبار تفریح، شاعری کا نتیجہ یا شاعر کی علمی خدمات اور شاعر کی زندگی وغیرہ اس کتاب کے اہم موضوع ہیں۔ تحریر میں جابجا فارسی اور اردو اشعار کا برجستہ استعمال کیا ہے، جس سے آپ کے مطالعۂ شعر کی وسعت کا خوب اندازہ ہوتا ہے۔ اس کتاب میں آپ نے اردو شاعری کے نقائص اور محاسن بھی بتائے ہیں اور الزامی طور پر یورپین شاعری کے نقائص کی طرف بھی اشارہ کیا ہے۔
= ’’فنون لطیفہ‘‘: 1912ء کے اواخر میں شائع ہونے والی اڑھائی سو کے قریب صفحات پر مشتمل اس کتاب کے دو حصے ہیں۔ پہلے حصے میں فنون کی اقسام پر عمومی بحث اور نیچر کے ساتھ اس کے تعلق کو بیان کیا گیا ہے اور دوسرے حصے میں فنون لطیفہ کی اقسام پر بحث ہے۔
علم کی مختلف شاخوں میں سے بعض کو فنون سے تعبیر کیا جاتا ہے۔ فن کیا ہے؟ جب انسان نیچر اور مواد نیچر میں دست اندازی کرتاہے اور ایک خاص طریق کے ساتھ سامان نیجر کو اپنے تصرف میں لاتا ہے تو وہ ایک فن سے کام لیتا ہے۔ مشاہدات، محسوسات تخیلات کی اختراعی صورتیں ایک فن ہے۔ فن کو دو بنیادی اقسام میں تقسیم کیا ہے(1) فنونِ متعارفہ (2) فنونِ لطیفہ
فنون ِ متعارفہ وہ ہیں جن پر عام زندگیوں کا بہت کچھ مدار ہے مثلاً کاشتکاری، کفش سازی، خیاطی، معماری، نجاری، قصابی ، حجام گری، ظروف سازی، کشیدہ کاری، رنگ سازی اور قالین بافی وغیرہ۔
فنونِ لطیفہ دراصل فنونِ متعارفہ ہی کا دلآویز اور نرالا روپ ہے۔ فنون متعارفہ چند منزلوں پر ہی رہ گئے ہیں اور فنون لطیفہ عام لوگوں سے نکل کر مشاہیر کی گود میں پرورش پا کر نکلتے ہیں۔
فنون لطیفہ کی پانچ قسمیں ہیں: 1۔ فن شاعری۔ 2۔فن موسیقی۔ 3۔ فنِ تعمیر۔ 4۔ فن سنگ تراشی۔ 5۔فن مصوری۔ کتاب کے دوسرے حصے میں انہی پانچ فنون پر تفصیل کے ساتھ روشنی ڈالی گئی ہے۔
= ’’علوم القرآن‘‘: 1920ء میں شائع ہونے والی اس کتاب کے 317 صفحات ہیں۔ اس میں قرآن کریم میں بیان شدہ مختلف علوم پیش کئے گئے ہیں اور قرآنی آیات سے جن علوم پر روشنی ڈالی ہے اُن میں علم الاخلاق ، سیرت، علم الحیوانات، نباتات، جمادات، آب و ہوا، آتش، ہیئت، ریاضی علم النفس والقوٰی ، علم الانسان، علم طب، علم زبان، منطق، علم کلام ، تاریخ ، جغرافیہ، سیاحت، علم المعیشت، فنِ زراعت، تجارت، علم خواب اور دیگر علوم شامل ہیں۔
= ’’اساس الاخلاق‘‘: ساڑھے سات سو صفحات پر مشتمل اس کتاب میں اخلاق کے ہر شعبہ پر اصولی رنگ میں بحث کی گئی ہے۔ یعنی سب اخلاق کامأخذ اور مرجع کیا کچھ ہے اور ان کی ضرورت کہاں تک ہے اور ان میں کن کن وجوہ سے ترقی اور تنزل ہوتا رہتا ہے۔ نیز محبت، دیانت، عدالت، صداقت اور شجاعت پر نمبروار بحث کی گئی ہے۔ نیز اس کتاب میں حکماء قدیم وجدید کے خیالات و آراء اخلاق کے محاسن و نقائص ہر باب میں پیش کئے ہیں۔
علاوہ ازیں اس میں بتایا گیا ہے کہ اخلاق کی تکمیل اسی صورت میں ہوسکتی ہے کہ جب بالخصوص شخصیت، قومیت، سوسائٹی، قدرت اور حکومت وقت کے فرائض کا تحفظ مدنظر رہے۔ اگر شخصیت کامل ہے تو اخلاق بھی کامل ہیں اور اگر شخصیت کامل نہیں تو اخلاق بھی کامل نہیں۔ شخصیت کے بعد قوم اور سوسائٹی کی نوبت آتی ہے۔
= ’’ریاض الاخلاق‘‘: 150صفحات پر مشتمل یہ رسالہ دراصل 52 متفرق مضامین کا مجموعہ ہے جس کو مکرم مولوی سید ممتاز علی صاحب نے مرتب کیا ہے اور یہ مجموعہ 1900ء میں طبع ہوا۔
= ’’خیالات‘‘: 340 صفحات پر مشتمل یہ کتاب ان 30 مضامین کا مجموعہ ہے جو معروف رسائل میں وقتاً فوقتاً شائع ہوتے رہے۔ ان رسائل میں مخزن، دکن ریویو، زمانہ، اردو ئے معلّی، منتھلی، تہذیب اور عصرجدید شامل ہیں۔ جون 1907ء میں یہ مجموعہ شائع ہوا۔
= ’’جبر و قدر‘‘: یہ رسالہ 54صفحات پر مشتمل ہے جس میں جبر وقدر کے مسئلہ پر مذاہب دنیا سے الگ ہوکر بحث کی گئی ہے اور بتایا ہے کہ ہم ایک حد تک مختار بھی ہیں اور اس حد سے نکل کر مجبور بھی۔ تخیّل اور ارادہ میں مختار ہیں لیکن تکمیل تخیّل اور تکمیل ارادہ کے بعض حصوں میں مجبور ہیں۔ جس نے یہ اختیارات دے رکھے ہیں اس نے اپنے ہاتھ میں بھی ان کی ڈوری رکھی ہے۔
= ’’نبوت‘‘: 1918ء میں طبع ہونے والی اس کتاب کے56صفحات ہیں۔ اس میں نبوت کے بارہ میں مباحث بیان کئے گئے ہیں۔ امت واحدہ اور امت وسطیٰ سے مراد، کل امتوں کے نبی ، نبیوں کی درجہ بندی، اقسام نبوت، شروع ہی میں کیوں ایک نبی نہ بھیجا گیا اور نبوت و الہام کی ضرورت وغیرہ جیسے اہم سوالات اٹھائے گئے ہیں۔ نیز اس رسالہ میں ختم نبوت کے مسئلہ کو بھی زیر بحث لایا گیا ہے۔
= ’’صداقت‘‘: 84صفحات پر مشتمل یہ رسالہ 1893ء میں شائع ہوا۔ اس رسالہ میں صداقت کے متعلق ان امور کی بحث کی گئی ہے کہ جو صداقت کے متلاشیان کے واسطے کم سے کم ایک راہنما کا کام دینے کے قابل خیال کئے جا سکتے ہیں۔ صداقت کیا شے ہے؟ اس کی اقسام کیا ہیں اصول تصدیق صداقت کیا ہیں؟ وغیرہ امور پر بڑے خوبصورت انداز میں منطقی اور فلسفیانہ رنگ میں بحث فرمائی ہے۔ صداقت کو گیارہ اقسام میں تقسیم کیا ہے یعنی صداقت عامہ، صداقت خاصہ، صداقت علمی، صداقت عملی، صداقت عقلی، صداقت نقلی، صداقت وحدانی، صداقت یقینی، صداقت موقت، صداقت اعتباری اور صداقت قائم بذاتہ ۔
= ’’فرحت‘‘: 1890ء میں شائع ہونے والا یہ رسالہ 56صفحات پر مشتمل ہے۔ اس میں خوشی کی تعریف اور خوشی کی اقسام بیان کی گئی ہیں۔مثلاً خیالی خوشی۔ ارادی خوشی، خوشی باُمید، شکیہ خوشی، یقینی خوشی، اعتباری خوشی، وہمی خوشی، حواسی خوشی، خوشی بہ نتیجہ وغیرہ۔ نیز خوشی کی حقیقت پر تفصیلی بحث کی گئی ہے اور بتایا ہے کہ حقیقی خوشی غنا اور قناعت سے پیدا ہوتی ہے۔ اپنی بحث میں حکیموں اور فلاسفروں کے اقوال اور دیگر مثالیں بھی دی ہیں۔
= ’’ملت اور معاملات قومی‘‘ 82صفحات کا یہ رسالہ 1927ء میں شائع ہوا۔ اس میں بتایا گیا کہ تنزل اقوام کا موجب کون کون سے اسباب ہوتے ہیں اور ملت اسلامیہ کے اعمال میں کیا کچھ کمیاں واقع ہوگئی ہیں جن کو دور کرنے کی ضرورت ہے۔ ازاں بعد قرآن کریم کی روشنی میں ملی معاملات کی وضاحت کی گئی ہے اور بتایا ہے کہ ہم پر کیا کیا ذمہ داریاں عائد ہوتی ہیں۔
= ’’چند نثر نما نظمیں‘‘: یہ کتاب 248صفحات پر مشتمل ہے اور اس کے دو حصے ہیں۔ پہلے حصہ میں منظومات اور دوسرے میں غزلیات ردیف وار درج کی گئی ہیں۔ ہر دو حصوں میں سے چند اشعار بطور نمونہ پیش ہیں۔

وقت ہر شے سے محترم ہے یہاں
وقت ہرشے سے مغتنم ہے یہاں
وقت تقدیر ، وقت ہے اکسیر
وقت تدبیر ، وقت ہے تسخیر
ہنس کے جو اپنا وقت کھوئے گا
وقت بے وقت آپ روئے گا
وقت جا کر نہیں پھر آنے کا
تجربہ خوب ہے زمانے کا
اپنے اوقات کے رہو پابند
ہے زمانہ کی سود مند یہ پند
……………
مرا دل اسیرِ بلا ہو گیا
الٰہی! یہ الفت میں کیا ہو گیا
بلا کی کشش ہے تری آنکھ میں
پڑی جس پہ ، دل سے ترا ہو گیا
کیا یہ طبیبوں نے کیسا علاج
مرا عارضہ تو سوا ہو گیا
محبت میں مجھ کو ملا یہ صلہ
کہ دشمن زمانہ مرا ہو گیا
عجب طرح کی ہے یہ دیوانگی
دلا! کچھ تو کہہ تجھ کو کیا ہو گیا
……………

دراصل ’’نثر نما نظموں‘‘سے یہ مطلب نہیں جو آجکل ’’نثری نظموں‘‘ سے لیا جاتا ہے بلکہ یہ مراد ہے کہ ان نظموں میں صرف شعرگوئی کے ظاہری تعبیرات اور نکاتِ شاعری کو ملحوظ رکھ کر نثر کے الفاظ اور فقرات کو منظوم کیا گیا ہے۔ ان میں وہ لطافت اور تعبیرات نہیں جو غزل گو شعراء کے پیش نظر ہوتی ہیں۔
نوٹ: گزشتہ شمارہ میں یہ ذکر کیا گیا تھا کہ حضرت مرزا سلطان احمد صاحب کی ذاتی لائبریری 1932ء میں جماعت کو وقف کردی گئی۔ دراصل یہ دسمبر 1916ء کا واقعہ ہے جب حضرت مفتی محمد صادق صاحبؓ نے اپنی کتب کا ذخیرہ صدر انجمن احمدیہ کے نام وقف کردیا اور صدر انجمن نے حضرت خلیفۃالمسیح الاوّلؓ کا کتب خانہ اور تشحیذ اور ریویو کی لائبریری میں اسے مدغم کرکے ایک مستقل مرکزی لائبریری ’’صادق لائبریری‘‘ قائم کردی۔ حضرت مرزا سلطان احمد صاحب نے اپنی لائبریری بھی اس میں شامل کردی۔ قارئین درستی فرمالیں۔

50% LikesVS
50% Dislikes

اپنا تبصرہ بھیجیں