حضرت صاحبزادہ مرزا مظفر احمد صاحب

روزنامہ ’’الفضل‘‘ ربوہ 11؍مارچ 2004ء میں حضرت صاحبزادہ مرزا مظفر احمد صاحب کا مختصر ذکر خیر کرتے ہوئے مکرم خواجہ عبدالغفار ڈار صاحب بیان کرتے ہیں کہ سری نگر کشمیر میں حضرت مصلح موعودؓ کے جاری فرمودہ ہفت روزہ ’’اصلاح‘‘ کا مَیں کارپرداز تھا۔ یہ اخبار شیخ عبداللہ اور ہری سنگھ کے گٹھ جوڑ کے بعد پہلے بلیک لسٹ ہوا، پھر اس پر سنسر عائد کیا گیا اور پھر شیخ عبداللہ کی حکومت نے (جس کی استدعا پر یہ اخبار جاری کیا گیا تھا) ہمیشہ کے لئے اسے بند کردیا اور میرے نام وارنٹ گرفتاری جاری کردیئے۔ تب مجھے حضرت مصلح موعودؓ کا ارشاد پہنچا کہ کسی طرح بھی پاکستان پہنچ جاؤں۔ اُس وقت تک پاکستان جانے کے معروف راستے بند ہوچکے تھے لیکن دونوں ہندوپاک حکومتوں کے ایک معاہدہ کے تحت جموں کے مہاجرین کے سیالکوٹ جانے کے لئے ایک بہت بڑے کنوائے کی منظوری عمل میں آئی۔ مَیں بھی حلیہ بدل کر اس کنوائے میں شامل ہوا اور جولائی 1948ء میں سیالکوٹ بارڈر تک بخیریت پہنچ گیا۔ وہاں قافلہ کے باقی لوگ اپنی اپنی منزل کی طرف چلے گئے اور مَیں اکیلا کھڑا سوچنے لگا کہ کدھر کا رُخ کروں؟۔ اسی اثناء میں پاکستان کی خفیہ پولیس کے ہتھے چڑھ گیا۔ چونکہ میرے پاس واقعی کوئی اجازت نامہ نہیں تھا اس لئے مَیں یہ نہیں کہہ سکتا تھا کہ مجھے آل انڈیا کشمیر کمیٹی کے سابق صدر (یعنی حضرت مصلح موعودؓ) نے بلایا ہے۔ چنانچہ میرے کوئی جواب نہ دینے پر مجھے ایک DSP کے پاس پہنچایا گیا تو مجھے اچانک یاد آیا کہ سیالکوٹ میں ڈپٹی کمشنر تو ایم ایم احمد صاحب ہیں۔ مَیں نے اپنی شناخت کے لئے حضرت میاں صاحب کا حوالہ دیا تو پولیس والوں نے اُن کے ساتھ رابطہ کیا اور پھر مجھے فون دیا۔ میاں صاحب نے پوچھا: آپ کون صاحب ہیں۔ مَیں نے اپنا نام بتایا تو فرمایا کہ فون پولیس والوں کو دیدیں۔ کچھ ہی دیر میں مجھے سرکاری جیپ پر حضرت میاں صاحب کی رہائش گاہ پر بھجوا دیا گیا۔ رات کو مَیں آپ کا مہمان رہا اور صبح ناشتہ کے بعد روانہ ہوکر لاہور پہنچا اور رتن باغ پہنچ گیا۔

50% LikesVS
50% Dislikes

اپنا تبصرہ بھیجیں