حضرت عبداللہ ذوالبجادین رضی اللہ عنہ

روزنامہ ’’الفضل‘‘ ربوہ 8؍اگست 1996ء میں صحابی رسولﷺ حضرت عبداللہ ذوالبجادین رضی اللہ عنہ کے بارہ میں محترم مولانا غلام باری سیف صاحب مرحوم کا ایک مضمون شامل اشاعت ہے۔
آپؓ کا نام عبد العزیٰ تھا۔ بچپن میں یتیم ہو گئے تو چچا نے آپؓ کی پرورش کی اور اونٹ، بکریوں کا ریوڑ بھی دیا۔ اگرچہ بہت پہلے صداقت اسلام کے قائل ہوگئے تھے لیکن چچا کے ڈر سے اظہار نہ کیا تھا۔ فتح مکہ کے بعد جب آپؓ نے کھلم کھلا اظہار کردیا تو چچا نے ناراض ہوکر سب کچھ آپؓ سے واپس لے لیا حتی کہ بدن کے کپڑے بھی اتار لئے۔ پھر آپؓ نے اپنی ماں سے ایک چادر لی اور مدینہ چل دئیے۔ سحری کے وقت مدینہ پہنچ کر مسجد نبوی میں بیٹھ گئے۔ آنحضور ﷺ کو آپؓ کا حال معلوم ہوا تو آپؓ کا نام عبد اللہ رکھا اور ذوالبجادین (دو چادر وںوالے) کا لقب دے کر ’’اصحاب الصفہ‘‘ میں شامل کرلیا۔
آپؓ آنحضورﷺ سے قرآن کریم پڑھتے اور مسجد نبوی میں عجیب ذوق سے اس کی تلاوت کیا کرتے۔ ایک روز حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے آنحضورﷺ سے عرض کیا کہ اِس بدّو کی قراء ت نماز میں مخل ہوتی ہے۔ آپؐ نے فرمایا: ’’عمر! اسے کچھ نہ کہو۔یہ تو گھر بار چھوڑ کر خدا اور اس کے دَر پر دھونی رما بیٹھا ہے‘‘۔
غزوۂ تبوک سے پہلے انہوں نے آنحضورﷺ کی خدمت میں شہادت پانے کی دعا کے لئے عرض کیا تو حضورؐ نے ارشاد فرمایا: عبد اللہ کیکر کا چھلکا لاؤ۔ آپؓ چھلکا لائے تو آنحضورؐ نے چھلکا ان کے بازو پر باندھ دیا اور دعا کی: اللہ! میں کفار پر اس کا خون حرام کرتا ہوں۔ انہوں نے عرض کی: حضورؐ! مَیں تو شہادت کا طلبگار ہوں۔ فرمایا: جب تم خدا کی راہ میں جہاد کے لئے نکلو تو اگر تپ سے بھی مر جاؤ تو شہید ہوگے۔ چنانچہ تبوک کے میدان میں آپؓ کو تپ چڑھا اور آپؓ وفات پاگئے۔ رات کو تدفین ہوئی، آنحضرتﷺ نے دست مبارک سے قبر پر پتھر رکھے اور دعا کی: ’’بار الٰہ! آج کی شام تک میں اس سے خوش رہا ہوں، تو بھی اس سے راضی ہو جا‘‘۔

50% LikesVS
50% Dislikes

اپنا تبصرہ بھیجیں