حضرت قیس بن سعدؓ

(مطبوعہ ’’الفضل ڈائجسٹ‘‘، الفضل انٹرنیشنل لندن 23؍ ستمبر 2022ء)
صحابیٔ رسول حضرت قیس بن سعدؓ کے بارے میں مکرم ڈاکٹر محمد داؤد مجوکہ صاحب کا ایک مضمون روزنامہ ’’الفضل‘‘ ربوہ 5؍اکتوبر2013ء میں شامل اشاعت ہے۔
آنحضرتﷺ کے مدینہ سے چلنے کی خبر مکّہ پہنچی تو حسب معمول ابوسفیان بن حرب اُس رات بھی مکّہ سے باہر نکلا۔ اُس کی نظریں کسی کی متلاشی تھیں۔ اسی کیفیت میں وہ بائیس کلومیٹر دُور مرالظہران پہنچ گیا۔ اچانک ایک ٹیلے کو عبور کرتے ہی اُس کی آنکھوں کے سامنے آگ کا ایک سمندر پھیل گیا۔ تاحد نگاہ آگ کے روشن الاؤ ایک لشکر جرار کا پتا دے رہے تھے۔ اُسے احساس ہوا کہ اب کھیل ختم ہوچکا۔ اچانک لشکر کی حفاظت پر مامور چند سپاہیوں نے اُسے جالیا اور لے جاکر آنحضورﷺ کے حضور پیش کردیا۔ اگلی صبح آنحضورﷺ نے حضرت عباسؓ بن عبدالمطلب کو ارشاد فرمایا کہ ابوسفیان کو اسلامی لشکر کا نظارہ کروائیں۔ اس امر کے مقاصد میں شائد یہ بھی تھا کہ اسلامی لشکر کی شوکت دیکھ کر مسلح مزاحمت کا خیال اُس کے دل سے نکل جائے۔ آپؐ کی ہمیشہ یہ خواہش رہتی تھی کہ جس قدر ممکن ہو جنگ و جدل سے بچا جائے۔
اسلامی لشکر کے دستے باری باری اُس ٹیلے کے سامنے سے گزرنے لگے جس پر ابوسفیان حضرت عباسؓ کے ہمراہ کھڑا تھا۔ مسلمانوں کا نظم و ضبط، عزم اور فوجی تیاری دیکھ کر وہ اس نتیجے پر پہنچ چکا تھا کہ اس لشکر کا مقابلہ بےسود ہے۔ ہر دستے کے گزرنے پر وہ عباسؓ سے پوچھتا کہ یہ کون ہیں؟ آخر ایک دستہ سامنے آیا جس کی شان ہی کچھ نرالی تھی۔ دستے کے پُررعب و پُرشوکت انداز سے اُس کا دل لرز اٹھا۔ اُس کے پوچھنے پر عباسؓ نے فرمایا کہ یہ مہاجرین و انصار ہیں۔ ابوسفیان بےاختیار کہنے لگا کہ تمہارا بھتیجا تو بڑا بادشاہ بن گیا ہے۔ عباسؓ نے فرمایا: یہ نبوّت ہے۔ نبوّت اور بادشاہت میں فرق شائد آج پہلی بار اُسے سمجھ آرہا تھا۔ اس دستے میں انصار کا علم حضرت سعدؓ بن عبادہ کے پاس تھا جو انصار کے سردار تھے۔ سعدؓ جانتے تھے کہ اہل مکہ نے تیرہ سال آنحضورﷺ کے ساتھ کیسا ظالمانہ رویہ اپنائے رکھا اور پھر آٹھ سال تک مسلمانوں پر جنگ مسلّط کیے رکھی۔ کتنے ہی مسلمان ظالمانہ طریق پر شہید کیے گئے۔ ابوسفیان کو دیکھ کر سعدؓ رہ نہ سکے اور کہنے لگے کہ آج جنگ کا دن ہے، آج حرم کو حلال کردیا جائے گا (یعنی حرم میں جہاں جنگ حرام ہے وہ آج جائز ہوگی اور کفّار سے اُن مظالم کا بدلہ لیا جائے گا۔ ) مظالم کا بدلہ لینا عین انصاف ہوتا لیکن ابوسفیان جانتا تھا کہ انصاف سے کام لیا گیا تو اہل مکّہ تباہ و برباد ہوجائیں گے۔ جب آنحضورﷺ کی سواری سامنے آئی تو ابوسفیان نے سعدؓ کی شکایت کی۔ آپؐ نے فرمایا: آج تو رحم کرنے کا دن ہے۔ پھر آپؐ نے حکم دیا کہ سعدؓ سے عَلَم لے لیا جائے۔ اس حکم کی حکمت کا اندازہ لگایا جاسکتا ہے کہ شائد اس لیے کہ قریش کا خوف دُور ہو، نیز اُن کی تالیف قلب کے لیے۔ شاید اس لیے کہ امام کی اجازت کے بغیر کسی کو فیصلہ کرنے کی اجازت نہیں۔
اب سوال یہ درپیش تھا کہ عَلَم کس کو دیا جائے۔ آنحضورﷺ ہر ایک کی عزت نفس کا خیال فرماتے خواہ وہ دوست ہو یا دشمن۔ آپؐ انسانی نفسیات کی باریکیوں کو جانتے تھے۔ گزشتہ رات آگ کے الاؤ دُور تک روشن کرنا اور صبح کو ابوسفیان کو اسلامی لشکر کی طاقت کا نظارہ کروانا بھی تو نفسیاتی حربے ہی تھے۔ ابوسفیان کی شکایت پر ایک طرف سردار مکّہ کی عزّت فرمائی تو دوسری طرف کمال حکمت سے انصار کے سردار کے دلی جذبات کی لاج بھی رکھ لی۔ چنانچہ حکم دیا کہ عَلَم سعدؓ کے بیٹے قیسؓ کو دے دیا جائے۔
حضرت قیسؓ بن سعدؓ نہایت زیرک اور قابل منتظم تھے۔ حضرت علیؓ کے زمانے میں مصر کے گورنر بھی رہے اور جنگ جمل اور صفین و نہروان کی جنگوں میں آپؓ کا ساتھ دیا۔ حضرت علیؓ کی شہادت کے بعد اپنے وطن چلے گئے جہاں قریباً 60ہجری میں وفات پائی۔ آپؓ اپنی ذہانت اور سیاسی مہارت کی بِنا پر عرب کے پانچ مشہور لوگوں میں شامل کیے جاتے تھے۔ اپنی سخاوت کی وجہ سے بھی مشہور تھے۔ قرض لے کر بھی دعوت کرنے میں مضائقہ نہ فرماتے تھے۔ بھاری بھرکم جسم کے مالک اور قد کے بہت لمبے تھے۔

50% LikesVS
50% Dislikes

اپنا تبصرہ بھیجیں