حضرت مرزا ناصر احمدؒ بہ حیثیت پرنسپل

مکرم پروفیسر ڈاکٹر پرویز پروازی صاحب کا ایک مضمون ماہنامہ ’’احمدیہ گزٹ‘‘ کینیڈا مئی و جون 2009ء کی زینت ہے جس میں سیدنا حضرت مرزا ناصر احمد صاحبؒ کی بحیثیت پرنسپل مقبولیت اور شاندار کارناموں کا مختصر تذکرہ کیا گیا ہے۔

پروفیسر پرویز پروازی صاحب

مکرم پروازی صاحب 1954 ء میں بہ حیثیت طالب علم کالج میں داخل ہوئے اور چار سال میں تعلیم مکمل کرنے کے بعد سولہ سال (1975ء) تک بہ حیثیت لیکچرار اور پروفیسر خدمت پر مامور رہے۔
حضرت مصلح موعودؓ نے جماعت کے اعلیٰ تعلیم کے پہلے ادارہ کو جو حضرت مسیح موعودؑ کے عہد میں قائم کیا جا چکا تھا، از سرنو زندہ کرنے کی خدمت اپنے فرزند دلبند حافظ مرزا ناصر احمدؒ (ایم اے۔ آکسن) کے سپرد فرمائی تو آپؒ نے ایسا شاندار نمونہ پیش فرمایا کہ اس کالج اور مرزا ناصر احمد کا نام گویا ایک ہی نام بن گیا۔
تعلیم الاسلام کالج کا دور ثانی 1944ء میں قادیان سے شروع ہؤا۔ اس کالج کا طرۂ امتیاز یہ تھا کہ جس کے سامنے یہ مقصد تھا کہ کوئی ذہین طالب علم (بلاتخصیص مذہب) محض اپنے وسائل کی کمی کی وجہ سے تعلیم سے محروم نہ رہ جائے۔ یہی مقصد کالج کے قومیائے جانے تک کالج کے ارباب حل و عقد کے سامنے رہا۔

اعلیٰ تعلیم یافتہ قابل اساتذہ کواپنے کالج میں اکٹھا کرلینا اور انہیں ایک ہمہ وقت مستعد ٹیم کی صورت دے دینا حضرت صاحبزادہ صاحبؒ کا کمال تھا۔ اساتذہ اپنے پرنسپل کی ماتحتی نہیں بلکہ اُن سے محبت کیا کرتے تھے۔ لہجہ میں خلوص، باتوں میں ادب، مشورہ میں انکساری، اختلاف میں حیا اور پھر فیصلوں پر مستعدی سے عمل پیرا ہوجانے کا عزم صمیم! کالج کے اساتذہ کی یہ روایتیں ہی کالج کو نیک نام بنانے میں ممد ہوئیں اور سربراہ ادارہ کا کمال یہ تھا کہ کالج کی کسی کامیابی کا کریڈٹ خود نہیں لیتے تھے، اپنے ساتھیوں کے ساتھ بانٹ لیتے تھے۔
ایک سٹاف میٹنگ میں مَیں نے ایسی بات کہہ دی کہ سب ہنس دیئے اور پرنسپل صاحب نے بھی بآوازِ بلند خندہ فرمایا۔ لیکن میٹنگ ختم ہوئی تو محترم صوفی بشارت الرحمن صاحب نے مجھے الگ لے جاکر کہا کہ دیکھو ہم سٹاف میٹنگز میں پرنسپل صاحب کے سامنے سر اٹھا کر بھی بات نہیں کرتے تم نے آج میٹنگ کو ہنسی کا میدان بنا دیا۔ میں نے نہایت ادب سے ان کی بات سنی مگر کوئی جواب نہیں دیاکہ میرے نزدیک کوئی ایسی ویسی بات نہیں ہوئی تھی جس سے بے ادبی کا کوئی پہلو نکلتا ہو۔ اگلے روز محترم چوہدری محمد علی صاحب سے سامنا ہؤا تو وہ ناراض سے نظر آئے۔ کچھ فرمانا چاہا مگر کچھ کہنے سے پہلے اُن کی آواز بھرّا گئی۔ محترم محبوب عالم خالد صاحب ملے تو مجھ سے کہا کہ تم میرے شاگرد بھی ہو اور بیٹوں جیسے ہو پرنسپل کے سامنے شوخی نہیں کرنی چاہئے۔ … ان سینئر اساتذہ کی یہ بات ،یہ بات ثابت کرنے کو کافی ہے کہ ان کا اور پرنسپل کا عشق کا تعلق تھا افسری ماتحتی کا نہیں تھا۔
تقسیم ملک کے وقت کالج بھی اجڑ کر در بدر ہوگیا۔ قادیان میں اس کالج کی عظیم الشان عمارت تھی۔ لاہور میں پہلے ایک متروکہ اصطبل میں کالج کا آغاز ہؤا۔بعد کو DAV کالج کی متروکہ عمارت الاٹ ہوئی جس کے دروازے کھڑکیاں غائب۔ دیواریں کہیں کھڑی کہیں سرنگوں، غرض عجیب بے سروسامانی کے عالم میں کالج شروع ہو گیا اور وہی بوسیدہ لٹی پٹی عمارت معتبر ہوگئی۔ کالج کی نیک نامی کا وہ چرچا تھا کہ غریب اور ذہین طالب علم جو خود کو معاشرہ میں بے سہارا محسوس کرتے تھے کھنچ کر کالج کی طرف آجاتے اور پرنسپل کی ایک مسکراہٹ ان کے سارے مسائل حل کر دیتی۔ مشہور شاعر احسان دانش مرحوم نے اپنی خود نوشت میں نام لے کر حضرت مرزا ناصر احمد کا ذکر خیر کیا ہے۔ لاہور کے کالجوں میں ایک چپقلش سی چلتی رہتی تھی مگر جہاں پرنسپل تعلیم الاسلام کالج کا ذکر آتا لوگ ادب سے سر جھکا لیتے تھے۔
اسلامیہ کالج کے پرنسپل اور پنجاب یونیورسٹی کے وائس چانسلر پروفیسر حمید احمد خان نے مجھے بتایا کہ کشتی رانی کے مقابلہ کا فائنل اسلامیہ کالج اور تعلیم الاسلام کالج کے درمیان تھا۔ تعلیم الاسلام کالج پچھلے دو سال سے چیمپئن چلا آرہا تھا اب کے برس جیتنے کا مطلب یہ تھا کہ ٹرافی مستقل اُس کی ہوجائے گی۔ اس لئے میں نے اپنے کھلاڑیوں سے کہا کہ اگر آج تم لوگ تعلیم الاسلام کالج کی ٹیم کو شکست دے دو تو میں تمہیں دوسو روپے انعام دوں گا۔ یہ خبر مرزا ناصر احمد صاحب تک پہنچی تو انہوں نے اعلان کیا کہ اگر اسلامیہ کالج کی ٹیم اُن کی ٹیم کو شکست دے دے گی تو وہ بھی اسلامیہ کالج کی ٹیم کودو سو روپے انعام دیں گے۔ یہ سن کر ماحول کا سارا تناؤ دُور ہو گیا اور دونوں ٹیموں نے جان توڑ مقابلہ کیا۔ مگر تعلیم الاسلام کالج کی ٹیم نے مقابلہ جیت لیا۔
لاہور کے ماحول میں کسی کالج کا پرنسپل ہونا کوئی معمولی بات نہیں تھی۔ کالجوں کے پرنسپل یونیورسٹی کی اکیڈیمک کاؤنسل اور سنڈیکیٹ کے ارکان بھی منتخب ہوتے تھے تا کہ یونیورسٹی کا نصاب بھی ان کی نگاہوں میں رہے اور یونیورسٹی کے دیگر انتظامی اورتعلیمی معاملات میں کالجوں کے پرنسپلوں کی رائے ارباب حل و عقد کے سامنے آتی رہے۔ حضرت میاں صاحب جب تک تعلیم الاسلام کالج کے پرنسپل رہے یونیورسٹی کے ایکیڈیمک کاؤنسل کے رکن اورسنڈیکیٹ کے رکن رہے اور ان کی رائے کو بہت وقعت دی جاتی تھی۔ زرعی یونیورسٹی کے وائس چانسلر ڈاکٹر ظفر علی ہاشمی کہا کرتے تھے کہ سارے پنجاب میں ایک ہی کالج ہے جس کا نام سامنے آئے تو اس کے پرنسپل کا چہرہ آنکھوں کے سامنے پھرنے لگتا ہے۔
لاہور میں لڑکوں کی بے راہروی کا سامان سامنے دھرا رکھا تھا۔ مگر تعلیم الاسلام کالج کے لڑکے ان آلائشوں سے بچتے تھے کیونکہ انہیں اپنے کالج اور کالج کے پرنسپل کی آبرو کا خیال تھا۔ برمنگھم کے ایک غیرازجماعت ڈاکٹر نے مجھے بتایا کہ میں لاہور کے ایک کالج میں پڑھتا تھا۔ زیادہ وقت سنیما میں یا ہوٹلوں میں گزرتا تھا۔ ایک دن میرے والد صاحب نے مجھے بھاٹی دروازہ کے باہر ایک ہوٹل میں چائے پیتے ہوئے آپکڑا اور سیدھے حضرت میاں صاحب کے پاس لے گئے کہ میرا بیٹا فلاں کالج میں پڑھتا ہے مگربے راہرو ہونے پر مستعد ہے مگر میں تو اسے ڈاکٹر بنانے کا تہیہ کئے ہوئے ہوں۔ اور پھر شکایت کے انداز میں کہا کہ میں اسے بھاٹی کے ایک ہوٹل سے چائے پیتا ہؤا پکڑ کر لایا ہوں۔ میاں صاحب نے مجھے ایک نظر دیکھا اور فرمایا لڑکا تو ذہین معلوم دیتا ہے بس چائے زیادہ پینے کا شوقین ہے۔ میاں صاحب کی وہ نظر میرے اندر تک اتر گئی۔ کہنے لگے اب میں اسے کالج میں داخل تو نہیں کرسکتا کہ کالج ربوہ منتقل ہو رہا ہے، ہاں آپ اسے میرے کالج ہی میں داخل کروانا چاہتے ہیں تو ربوہ لے آئیں، میں کوشش کروں گا کہ یہ لڑکا اچھے نمبر حاصل کرلے۔ چنانچہ میں ربوہ آگیا۔ مجھے ہر وقت میاں صاحب کا خیال رہتا تھا کہ مجھے کہیں کسی ایسی جگہ دیکھ لیا جہاں مجھے نہیں ہونا چاہئے تو میں انہیں کیا جواب دوں گا۔
اس سلسلہ کے تو بے شمار واقعات ہیں کہ لوگ اپنے بچوں کو پکڑ کر تعلیم الاسلام کالج میں لے آتے اور پرنسپل کے سپرد کرکے مطمئن ہو جاتے۔ ممتاز سیاستدان ممتاز احمد کاہلوں کے والد انہیں آپؒ کے پاس لے کر آئے اور نہ پڑھنے کی شکایت کی۔ آپؒ نے صرف ایک بار ممتاز کی طرف آنکھ اٹھا کر دیکھا اور پوچھا کہو پڑھنا چاہتے ہو اور کامیاب ہونا چاہتے ہو؟ ممتاز نے سر جھکا لیا۔ اور پھر ممتاز نہ صرف کامیاب ہؤا بلکہ سیاست میں بھی نام کمایا۔ پنجاب میں وزیر بھی رہا۔ یہ حضرت مرزا ناصر احمد کی نظر کی کرامت تھی یا حضرت مرزا طاہر احمد صاحب کی سیاسی تربیت کہ ممتاز نے اپنا وزارت کا زمانہ نیک نامی سے بسر کیا۔ ربوہ سے گزرتے ہوئے ممتاز کی جھنڈے والی گاڑی مرزا طاہر احمد صاحبؒ کے دروازے پر ضرور رکتی تھی اور وہ انہیں حضرت صاحبؒ سے ملوانے لے کر جایا کرتے تھے۔
حضرت پرنسپل صاحب کی سرزنش کے تصور سے ہی جان نکلا کرتی تھی۔ کالج کی روئنگ ٹیم کا ایک کھلاڑی روئنگ کی پریکٹس کے لئے دریا پر ہونے کی بجائے کبڈی کا کوئی میچ دیکھ رہا تھا۔ پرنسپل صاحب نے سب کے سامنے اسے بلایا اور بیدوں پر دھر لیا۔ پلے پلائے مضبوط پہلوان قسم کے لڑکے کے منہ سے اُف تک نہیں نکلی وہ سزا کھا کر سیدھا دریا کی طرف بھاگا۔
سٹاف میں شامل ہونے کے بعد ایک روز کالج بند ہوجانے کے بعد ہم اپنے دوستوں کے ساتھ ایک لان میں کرسیاں بچھائے بیٹھے اور سگریٹ نوشی کررہے تھے۔ یکایک ایک دوست نے نعرہ لگایا: ارے میاں صاحب ! ہماری تو جان نکل گئی۔ سب نے مڑ کر دیکھا۔ میاں صاحب نے اپنا بایاں ہاتھ بائیں کنپٹی پرشیلڈ کی طرح رکھا ہؤا تھا اور بغیر اِدھر اُدھر دیکھے سیدھے کالج کے دفتر کی طرف جا رہے تھے گویا آپ نے ہمیں دیکھا ہی نہیں تھا۔ سب کا خیال تھا کہ اگلے روز جواب طلبی ہوگی۔ کچھ بھی نہیں ہؤا۔ ہاں اتنا ضرور ہؤا کہ ہم لوگوں نے کالج کے ماحول میں سگریٹ نوشی چھوڑ دی۔
ایک دیندار غیرازجماعت دوست اپنے جیسے دیندار بچے کو لے کر کالج میں آئے اور اسے کالج میں داخل کروا گئے کہ لڑکا پڑھ بھی جائے گا اور بے راہروی کے ماحول سے بھی بچا رہے گا۔ اس کے رشتہ داروں دوستوں نے اسے بہت سمجھایا کہ تم اپنے بچے کو ربوہ میں داخل کروا آئے ہو وہ اس کا دین خراب کر دیں گے۔ ان کا جواب یہی تھا کہ مجھے اپنے بچے کی سمجھ داری پر اعتماد ہے وہ گمراہ نہیں ہوگا۔ اور واقعی وہ بچہ گمراہ نہیں ہؤا۔ کچھ عرصہ بعد احمدیت کی آغوش میں آگیا۔ انجینئرنگ کی تعلیم مکمل کرنے کے بعد نیک نامی سے ملازمت کی اور اب جماعت احمدیہ کینیڈا کا امیر ہے یعنی مکرم ملک لال خان صاحب۔ پچھلے برس ان کے والد کا انتقال ہؤا، وہ بھی اللہ تعالیٰ کے فضل سے احمدیت کی آغوش میں آگئے تھے۔ یہ سارا کرشمہ بھی حضرت مرزا ناصر احمد صاحب کے فیضان نظر کا تھا۔
پرنسپل صاحب اپنے طلبا اور سٹاف کو علمی لحاظ سے ترقی کرتے ہوئے دیکھنا چاہتے تھے۔ طلبا میں جوہر قابل تلاش کرتے رہتے اور ان کو ہر ممکن اعلیٰ تعلیم دلوانے کے لئے کوشاں رہتے۔ صرف میرے زمانہ کے کالج کے شاگردوں میں سے سو سے زیادہ Ph.D. امریکہ میں موجود ہیں۔ یہ سب برکات حضرت مرزا ناصر احمدؒ کے وجود باجود سے وابستہ تھیں۔ سٹاف کو Ph.D کرنے کے لئے حوصلہ دیتے۔ ڈاکٹرسید سلطان محمود شاہد اور ڈاکٹر پروفیسر نصیر احمد خاں سٹاف پر ہوتے ہوئے Ph.D. کے لئے انگلستان گئے اور کامیاب واپس آئے۔ مجھے بھی تمام سہولتیں اور مراعات حاصل رہیں اور جب مجھے ڈاکٹریٹ کی ڈگری ملی تو حضورؒ کی خوشی دیکھنے کی تھی۔ میں ملنے کو حاضر ہؤا تو معانقہ فرمایا اور پہلی بار فرمایا آپ مجھے بیٹوں کی طرح عزیز ہیں!۔
ہمارا کالج ربوہ اور باہر کی دنیا کے درمیان ایک پل کی حیثیت رکھتا تھااور اپنی زائد از نصاب سرگرمیوں کی وجہ سے ممتاز تھا۔ مباحثے اپنے معیار کی وجہ سے سارے ملک میں مشہور تھے۔ دُور دُور سے اچھے مقررین ان میں شرکت کے لئے آتے۔ پرنسپل صاحب تقاریر اور مباحثوں کے لئے باہر سے آنے والے طلبہ کے ساتھ اُن کے ذہنی معیار پر اتر کر بات کرتے۔ یہی حال کھلاڑیوں کے ساتھ اُن کے تعلقات کا تھا۔ ربوہ باسکٹ بال کا بڑا اہم مرکز سمجھا جاتا تھا اور باسکٹ بال کی صوبائی اور قومی انتظامیہ میں پرنسپل تعلیم الاسلام کالج کا نام نامی موجود ہوتا تھا۔ پھر تعلیم الاسلام کالج علمی اور ادبی تقریبات کے لحاظ سے صوبہ بھر میں منفرد تھا۔ ہمارے ہاں کانووکیشن میں اہل علم بلائے جاتے تھے۔ یہ پہلا کالج تھا جس نے کُل پاکستان اردو کانفرنسوں کا اہتمام کیا اس میں حضرت مرزا ناصر احمد نے یہ سلوگن وضع کیا کہ ’’اردو ہماری قومی ہی نہیں مذہبی زبان بھی ہے‘‘۔ اب تو یہ بات ایک زمانے پر آشکار ہے کہ حضرت مرزا ناصر احمد کو مناسب سلوگن سوچنے کا خاص ملکہ تھا ان کا سلوگن ’’محبت سب سے نفرت کسی سے نہیں‘‘ اب سارے عالم میں گونجتا ہے۔ کالج کی پہلی ایک روزہ اردو کانفرنس 1964 ء میں ہوئی جو بہت کامیاب رہی۔ حضرت مرزا ناصر احمدؒ نے مسند خلافت پر متمکن ہونے کے بعد مجھے حکم دیا کہ میں دوسری کانفرنس کا اہتمام کروں جو دوروزہ ہو۔ 1967ء کی اس کانفرنس میں تین وائس چانسلرز، سولہ پروفیسرز اور دو سو سے زیادہ مندوبین شریک ہوئے۔ صوفی تبسم بھی منجملہ شعراء تشریف لائے۔ حضرت صاحب نے خاص تاکید فرمائی کہ ’’میرے استاد ہیں ان کا خاص خیال رکھا جائے‘‘۔ ایک شام سارے مندوبین کو ازرہ کرم اپنے مہمان کے طور پر دعوت میں مدعو کیا۔ یہ کانفرنس پہلی سے بھی زیادہ کامیاب رہی۔ ان دونوں کانفرنسوں کا سارا کریڈٹ حضرت صاحب کو جاتا ہے۔
کالج میں روس کے سائنسدان آئے۔ امریکہ کے اہل علم آئے۔ ہماری اپنی عدالت ہائے عالیہ کے جج صاحبان آئے۔ علماء آئے کبراء آئے سفراء آئے اور ان سب کو ربوہ لانے کا باعث تعلیم الاسلام کالج اور کالج کے پرنسپل مرزا ناصر احمد تھے۔
ارد گرد کے کالجوں کے پرنسپل حضرات سے خوشگوار تعلقات رکھنا حضرت میاں صاحب کی اولین ترجیح تھی۔ سب ہی آپؒ کا نام سن کر احترام کرتے تھے۔ سرکاری اداروں کے ساتھ کالج کے معاملات کے سلسلہ میں رابطہ رکھنا ایک حد تک میرے ذمہ تھا۔ میںعلی وجہ البصیرت کہہ سکتا ہوں کہ جب بھی کسی سرکاری افسر سے ملنے کے لئے جانا ہوتا وہ تعلیم الاسلام کالج کا نام سن کے احترام سے پیش آتے اور کہتے آپ تو مرزا ناصر احمد کے کالج سے آئے ہیں۔
ربوہ جیسی جگہ پر جہاں زمین شور، پانی نایاب، ضروریات زندگی عسیر الحصول، قدم قدم پر مشکلات اور رکاوٹیں راہ روکتی تھیں جماعت نے کالج کی بنیاد رکھ دی اور کالج کے آکسفورڈ کے پڑھے لکھے پرنسپل نے ہمہ وقت مزدور وں کی طرح محنت کرکے اور اپنا خون پسینہ ایک کرکے ایک عظیم الشان عمارت کھڑی کرلی۔ کڑکڑاتی دھوپ میں چھتری لے کر کھڑے رہتے۔ نگاہ ایسی عمارت شناس تھی کہ ذرا سا سقم بھی فوراً ان کی نگاہ میں آجاتا تھا۔
کالج کے ہال کی چھت پڑنے کا سماں تو اب تک آنکھوں کے سامنے ہے۔ سینکڑوں مزدور اپنے کام پر مستعد ہیں۔ شٹرنگ پڑچکی ہے اب لنٹل پڑنے کا وقت ہے کہ گھٹا ٹوپ گھٹا اٹھی اور سب کے رنگ فق ہوگئے کہ اگر بارش ہو گئی تو سب کئے کرائے پر پانی پھر جائے گا۔ مگر حضرت مرزا ناصر احمد چھت پر کھڑے ہیں اور اسی انہماک سے کام جاری رکھے ہوئے ہیں۔ قریب کے لوگ کہتے ہیں کہ ان کے لبوں پر دعا ہے اور ایک آدھ بار آنکھ اٹھا کر بادلوں کی طرف بھی دیکھتے ہیں۔ پھر ایک بار انگلی اٹھا کر بادلوں کی طرف اشارہ کیا۔ یہ گویا بادلوں کو دُور ہٹ جانے کا حکم تھا۔ اللہ تعالیٰ نے اپنے بندہ کی بات نہیں ٹالی۔ گھٹا کھڑی رہی پانی کا ایک قطرہ نہیں برسا۔
حضرت مرزا ناصر احمدؒ کی طبیعت میں ایک خاص قسم کا مزاح تھا۔ چہرہ پر ہر وقت مسکراہٹ کھیلتی رہتی مگر مزاج کے خلاف کوئی بات ہوجاتی تو چہرہ پر سنجیدگی چھاجاتی۔ باتوں میں ملائمت کے باوجود لئے دئے رہنے کا احساس ضرور موجود رہتا۔
ہمارے ایک دوست بشیر حاجی مرحوم سگریٹ نوشی کرتے تھے۔ ایک بار انہوں نے پرنسپل صاحب کو کسی مقصد سے شیخوپورہ سے فون کیا۔ میاں صاحب فرمانے لگے ’’ ٹیلیفون کرتے ہوئے تو سگریٹ پھینک دیا کرو۔ تمہارے منہ سے یہاں تک سگریٹ کی بو آرہی ہے‘‘۔
ہاسٹل کے سالانہ فنکشن میں تو سب اساتذہ ہی طلبا کی کڑوی کسیلی باتوں کا ہدف بنتے تھے مگر پرنسپل صاحب کی شخصیت کا لحاظ کرتے ہوئے اُن کی لاڈلی کار کو نشانۂ تضحیک و تمسخر بنایا جاتا تھا۔ایک بار وہ لاڈلی کچھ زیادہ ہی تمسخر کا نشانہ بنی تو چوہدری محمد علی صاحب نے پابندی لگا دی کہ اگلے فنکشن میں کوئی پرنسپل صاحب کی کار کے بارہ میں ایک لفظ تک منہ سے نہیں نکالے گا۔ میاں صاحب کو اس پابندی کا پتہ چلا تو کہلابھیجا کہ اگر ’’میری ولزلے ‘‘ کو نظرانداز کر دیا گیا تو میں فنکشن میں آنے سے انکار کردوں گا۔
آپؒ خود پر ہنسنے کا حوصلہ بھی رکھتے تھے اس لئے طالب علم آپؒ کی سزا بھی خندہ پیشانی سے جھیل جاتے تھے۔ اور یہ کہ جو طالب علم آپؒ کے ہاتھوں بیدزنی کا ہدف بنا وہ جب تک کالج میں رہا آپؒ کی بے پناہ شفقت اور محبت کا مورد رہا۔ ہمار اایک دوست جو روئنگ کا کیپٹن تھا کہا کرتا تھا یار ہم بھی کہیں دو چار بید میاں صاحب سے کھالیتے تو باقی عمر چین سے گزرتی۔
حضورؒ کا سب سے بڑا کارنامہ کالج کو پوسٹ گریجوایٹ لیول تک لانے کا ہے۔ اس زمانہ میں آپؒ یہ کہتے نہیں تھکتے تھے کہ اگر پاکستان میں اعلیٰ تعلیم کو رواج دینا ہے تو مختلف کالجوں کو اعلیٰ تعلیم دینے کا حق ہونا چاہیے مگر یونیورسٹی کے ارباب حل و عقد عموماً اور محکمہ تعلیم کے حکام خصوصاً اس بات پر کان دھرنے کو تیار نہیں تھے۔ یونیورسٹی کو بالآخر سر تسلیم خم کرنا پڑا۔ مفصل کالجوں میں تعلیم الاسلام کالج پہلا کالج تھا جسے ایم اے عربی کی کلاسیں شروع کرنے کی اجازت ملی۔ یونیورسٹی کی طرف سے اس سلسلہ میں جائزہ کے لئے جو کمیشن آیا اس نے جو رپورٹ یونیورسٹی کو بھیجی اس میں ربوہ کو مرکزِ علم قرار دیا گیا تھا۔ کمیشن میں شامل ڈاکٹر شفیع صاحب نے بعد میں ایک بار مجھ سے فرمایا کہ اگر ربوہ میں ایم اے عربی کی کلاسیں شروع نہیں کی جاسکتیں تو پاکستان کا کوئی اور شہر اس کا مستحق نہیں۔
ایم اے عربی کی کلاسیں شروع ہوئیں تو نتائج دیدنی تھے۔ اول دوم اور سوم آنے والے طلبا ہمارے ہی کالج کے ہوتے تھے۔ یہی حال فزکس میں پوسٹ گریجوایٹ کلاسوں کا تھا۔ ایک بار کلاسیں شروع ہوگئیں تو M.Sc. فزکس کے نتائج حیران کن حد تک لوگوں کو چونکا دینے والے تھے۔ چنانچہ آپؒ نے اپنی زندگی میں اپنے اور حضرت مصلح موعودؓ کے اُس خواب کو پورا ہوتے دیکھ لیا جو خواب اس کالج کے افتتاح کے موقع پر دیکھا گیا تھا۔

50% LikesVS
50% Dislikes

اپنا تبصرہ بھیجیں