حضرت مسیح موعودؑ کا عشق رسولﷺ

ماہنامہ ’’احمدیہ گزٹ‘‘ کینیڈا جنوری 1999ء میں ’’آنحضرتﷺ سے حضرت مسیح موعودؑ کا عشق‘‘ کے موضوع پر مکرم مولانا محمد اشرف عارف صاحب کا مضمون شامل اشاعت ہے۔
جب کبھی آنحضرتﷺ کا نام آیا، حضور علیہ السلام کی آنکھوں میں محبت سے آنسو آگئے۔ آپؑ جب آنحضرتﷺ کا نام اپنی تحریر میں لکھتے تو نام کے بعد صرف ’’ ؐ‘‘ یا صلعم نہیں لکھتے تھے بلکہ پورا درود یعنی ’’صلی اللہ علیہ وسلم‘‘ لکھا کرتے تھے۔ اسی طرح تقریر یا مجلس میں یوں ذکر کرتے کہ ’’ہمارے آنحضرت ﷺ‘‘۔
ایک دفعہ ایک کھلونے بیچنے والی آئی۔ اُس سے کسی نے پوچھا کہ تم کون ہو؟۔ کہنے لگی کہ اللہ کی بندی محمدﷺ کی امّت۔ حضرت مسیح موعودؑ نے جب اپنے حبیب کا نام اُس کی زبان سے سنا تو بے اختیار باہر تشریف لائے اور فرمایا کہ اسے ایک روپیہ دے دو، اس نے میرے آقا کا نام لیا ہے۔
لالہ بڈھا مل نے ایک بار کسی کے سوال کا جواب دیتے ہوئے کہا کہ ’’میں نے آج تک اپنی زندگی میں اپنے نبی سے ایسی محبت رکھنے والا کوئی شخص نہیں دیکھا‘‘۔
حضورؑ کو اپنے آقاﷺ کی اولاد سے بھی بیحد محبت تھی۔ حضرت ڈاکٹر سید عبدالستار صاحبؓ بیان کرتے ہیں کہ ایک روز حضورؑ باغ میں ایک چارپائی پر تشریف رکھتے تھے اور میں کچھ اور لوگوں کے ساتھ زمین پر بیٹھا تھا۔ اچانک حضورؑ کی نظر مجھ پر پڑی تو فرمانے لگے شاہ صاحب! آپ میرے پاس چارپائی پر آجائیں۔ میں نے کہا حضور میں یہیں اچھا ہوں۔ تیسری بار حضورؑ نے خاص طور پر فرمایا کہ آپ میری چارپائی پر آکر بیٹھ جائیں کیونکہ آپ سید ہیں اور آپ کا احترام ہمیں منظور ہے۔
ایک بار آپؑ نے بچوں کو حضرت امام حسینؑ کی شہادت کے واقعات سنائے۔ آپؑ واقعات سناتے جاتے تھے اور آپؑ کی آنکھوں سے آنسو رواں تھے جنہیں آپؑ اپنی انگلیوں کے پوروں سے پونچھتے جاتے تھے۔
آنحضورﷺ سے آپؑ کی محبت کا یہ عالم تھا کہ چھوٹی چھوٹی باتوں میں بھی آنحضورﷺ کی پیروی کرنا آپؑ کی عادت تھی۔ ایک صحابیؓ کا بیان ہے کہ حضورؑ مجھے صبح کی نماز پر انگلیاں پانی میں ڈبوکر ہلکا سا چھینٹا پھینک کر جگاتے تھے۔ مَیں نے عرض کیا حضورؑ آپ آواز دے کر کیوں نہیں جگاتے توفرمایا کہ حضرت رسول کریم ﷺ کا بھی یہی طریق تھا۔
ایک دفعہ شدید گرمی کے موسم میں آپؑ کی چارپائی ایسی چھت پر بچھادی گئی جس پر منڈیر نہیں تھی۔ آپؑ نے یہ فرماتے ہوئے جگہ بدل لی کہ آنحضرتﷺ نے بغیر منڈیر کے کوٹھے پر سونے سے منع فرمایا ہے۔
ایک دفعہ گھریلو ماحول میں حج کا ذکر شروع ہوا تو حضرت میر ناصر نواب صاحبؓ نے کوئی ایسی بات کہی کہ اب تو حج کے لئے سفر کی سہولت پیدا ہورہی ہے، حج کو چلنا چاہئے۔ اُس وقت زیارت حرمین شریفین کے تصور میں حضرت مسیح موعودؑ کی آنکھیں آنسوؤں سے بھری ہوئی تھیں اور آپؑ ہاتھ کی انگلی سے اپنے آنسو پونچھتے جاتے تھے۔ آپؑ نے فرمایا ’’یہ تو ٹھیک ہے اور ہماری بھی دلی خواہش ہے مگر میں یہ سوچا کرتا ہوں کہ کیا میں آنحضرتﷺ کے مزار کو دیکھ بھی سکوں گا؟‘‘۔
غیرت رسول کا ایک واقعہ یوں بیان کیا جاتا ہے کہ دسمبر 1907ء میں آریوں نے لاہور میں ایک جلسہ منعقد کیا جس میں حضورؑ کو بھی بااصرار دعوت دی۔ آپؑ نے حضرت حکیم نورالدین صاحبؓ کی قیادت میں چند سرکردہ افراد کو اس میں شمولیت کے لئے بھیجا۔ آریوں نے اپنے وعدہ کے خلاف آنحضرتﷺ کے متعلق سخت بدزبانی سے کام لیا۔ اس کی رپورٹ جب حضورؑ کو پہنچی تو آپؑ اپنی جماعت پر سخت ناراض ہوئے کہ وہ اس مجلس سے اٹھ کر کیوں نہیں آگئے اور فرمایا کہ تمہاری غیرت نے کس طرح برداشت کیا کہ تمہارے آقا کو گالیاں دی گئیں اور تم خاموش بیٹھے سنتے رہے۔
یہی غیرت تھی کہ حضورؑ نے پنڈت لیکھرام کے سلام کا جواب تک نہ دیا اور جب کسی نے عرض کیا کہ لیکھرام سلام کہتا ہے تو فرمایا ’’ہمارے آقا کو تو گالیاں دیتا ہے اور ہمیں سلام کہتا ہے!‘‘۔
حضرت مسیح موعودؑ نے ابھی دعویٰ نہیں کیا تھا کہ آپؑ کے چچا مرزا غلام حیدر کی اہلیہ کے منہ سے ایک مرتبہ کوئی کلمہ آنحضرتﷺ کی شان میں بے ادبی کا نکل گیا۔ حضورؑ کی طبیعت پر اس کا اتنا اثر ہوا کہ آپؑ کا چہرہ غصہ سے تمتمانے لگا، اس حالت میں آپ کا کھانا بھی چھوٹ گیا اور آپؑ نے اُن کے ہاں کا کھانا پینا بھی ترک کردیا۔
حضرت مسیح موعودؑ اپنے آقاﷺ کو مخاطب کرتے ہوئے اپنے فارسی منظوم کلام میں عرض کرتے ہیں: ’’اے میرے محبوب! مَیں تو تُو ہوگیا اور تُو مَیں ہوگیا۔ مَیں جسم ہوگیا اور تُو روح ہوگیا۔ اور میری اس کیفیت کو دیکھتے ہوئے کوئی یہ نہیں کہہ سکتا کہ مَیں اَور ہوں اور تُو اَور ہے۔‘‘

50% LikesVS
50% Dislikes

اپنا تبصرہ بھیجیں