حضرت مسیح موعودؑ کا جذبۂ خدمتِ اسلام

(مطبوعہ ’’الفضل ڈائجسٹ‘‘، الفضل انٹرنیشنل لندن 22مارچ 2022ء)
حضرت اقدس مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام کی بعثت کا عظیم الشان مقصد اسلام کی حقیقی تصویر کو دنیا کے سامنے پیش کرنا اور آنحضورﷺ کی عظمت اور شان سے دنیا کو روشناس کروانا ہے۔ اللہ تعالیٰ فرماتا ہے: قُلْ اِنَّ صَلَاتِیْ وَنُسُکِیْ وَمَحْیَایَ وَمَمَاتِیْ لِلّٰہِ رَبِّ الْعٰلَمِیْنَ(سورۃالانعام:163)
اس آیت کا ترجمہ از حضرت مسیح موعودؑ یوں ہے: ’’ان کو کہہ دے کہ میری نماز اور میری پرستش میں جِدّوجُہد اور میری قربانیاں اور میرا زند ہ رہنا اور میرا مرنا سب خدا کے لیے اور اس کی راہ میں ہے۔ وہی خدا جو تمام عالَموں کا ربّ ہے۔‘‘
(آئینہ کمالات اسلام،روحانی خزائن جلد5صفحہ 162)
اس آیت کریمہ میں حضرت محمد مصطفیٰ ﷺ کا وہ بلند ترین مَقامِ فنا فی اللہ بیان کیا گیا جو عدیم المثال ہے۔اور اس دَورِ آخرین میں اللہ تعالیٰ نے آپؐ کے روحانی فرزند اور عاشقِ صادق کو یہ سعادت عطا فرمائی کہ وہ کلیۃً اپنے آقا ﷺ کے رنگ میں رنگین ہوگیا اور اسؑ کا وجود آقائے نامدار ﷺ کا ظِلِّ کامل بن گیا ۔چنانچہ مذکورہ بالا آیت کریمہ تجدید کے رنگ میں حضرت مسیح موعود ؑ پر بھی ا لہامًا نازل ہوئی اور خدائے علیم و خبیر نے خود اس بات کی شہادت دی۔
(تذکرہ صفحہ573، الہام 9 مارچ 1906ء)
رسالہ ’’انصارالدین‘‘ یوکے ستمبرواکتوبر 2013ء میں مکرم مولانا عطاء المجیب راشد صاحب امام مسجد فضل لندن کی ایک تقریر بعنوان ’’حضرت مسیح موعود علیہ السلام کا جذبۂ خدمتِ اسلام‘‘ شامل اشاعت ہے۔
حضرت مسیح پاکؑ نے اپنی بیعت کی شرائط میں اس بات کو بطور خاص شامل کیا کہ ہر بیعت کنندہ اس بات کا عہد کرے کہ وہ ’’دین اور دین کی عزت اور ہمدردی ٔ اسلام کو اپنی جان اور اپنے مال اور اپنی عزت اور اپنی اولاد اور ہر یک عزیز سے زیادہ تر عزیز سمجھے گا۔‘‘

حضرت مرزا غلام احمد قادیانی علیہ السلام

آپؑ کی بعثت اُس دَور میں ہوئی جب ملکِ ہندوستان عیسائیت کی بھر پور یلغار کی زَدمیں تھا۔ مسلمانوں کی حالت دیکھ کر آپؑ تڑپ اٹھے اور فرمایا: ’’کیا یہ سچ نہیں کہ تھوڑے ہی عرصہ میں اس ملک ِہند میں ایک لاکھ کے قریب لوگوں نے عیسائی مذہب اختیار کر لیا اور چھ کروڑ اور کسی قدر زیادہ اسلام کے مخالف کتابیں تالیف ہوئیں اور بڑے بڑے شریف خاندانوں کے لوگ اپنے پاک مذہب کو کھو بیٹھے یہاں تک کہ وہ جو آلِ رسول کہلاتے تھے وہ عیسائیت کا جامہ پہن کر دشمنِ رسول بن گئے اور اس قدر بدگوئی اور اہانت اور دشنام دہی کی کتابیں نبی کریم ﷺ کے حق میں چھاپی گئیں اور شائع کی گئیں کہ جن کے سننے سے بدن پر لرزہ پڑتا اور دل رو رو کر یہ گواہی دیتا ہے کہ اگر یہ لوگ ہمارے بچوں کو ہماری آنکھوں کے سامنے قتل کرتے اور ہمارے جانی اور دلی عزیزوں کو جو دنیا کے عزیز ہیں ٹکڑے ٹکڑے کر ڈالتے اور ہمیں بڑی ذلت سے جان سے مارتے اور ہمارے تمام اموال پر قبضہ کر لیتے توواللّہ ثم واللّہ ہمیں رنج نہ ہوتا اور اس قدر کبھی دل نہ دُکھتا جو ان گالیوں اور اُس توہین سے جو ہمارے رسولِ کریم ﷺ کی کی گئی، دُکھا۔‘‘ (آئینہ کمالات اسلام ۔ صفحہ 52-51)
اسی کرب کا اظہار ایک فارسی شعر میں یوں فرمایا:
(ترجمہ) دشمنانِ دین کی کثرت اور دینِ احمد کے مددگاروں کی قلت، یہ دو فِکریں ہیں جنہوں نے ہمارے دل ودماغ کوگداز کردیا ہے۔

میرے آنسو اس غمِ دلسوز سے تھمتے نہیں
دیں کا گھر ویران ہے دنیا کے ہیں عالی منار
دن چڑھا ہے دشمنان دیں کا ہم پر رات ہے
اے مرے سورج نکل باہر کہ میں ہوں بے قرار

نیز فرمایا:

دیکھ سکتا ہی نہیں مَیں ضعفِ دینِ مصطفیٰؐ
مجھ کو کر اے میرے سلطاں کامیاب و کامگار

حضرت مسیح موعود علیہ السلام فرماتے ہیں:’’میں اُس مولیٰ کریم کا اِس وجہ سے بھی شکر کرتا ہوں کہ اُس نے ایمانی جوش اسلام کی اشاعت میں مجھ کو اِس قدر بخشا ہے کہ اگر اِس راہ میں مجھے اپنی جان بھی فدا کرنی پڑے تو میرے پر یہ کام بفضلہ تعالیٰ کچھ بھاری نہیں …اُسی کے فضل سے مجھ کو یہ عاشقانہ روح ملی ہے کہ دکھ اٹھا کر بھی اُس کے دین کے لیے خدمت بجا لاؤں اور اسلامی مہمات کو بشوق و صدق تمام تر انجام دوں۔ اِس کام پر اُس نے آپ مجھے مامور کیا ہے اب کسی کے کہنے سے مَیں رُک نہیں سکتا ۔ ‘‘(آئینہ کمالات اسلام صفحہ 35)

پھر آپؑ کس درد سے فرماتے ہیں: ’’ہمارے اختیار میں ہو تو ہم فقیروں کی طرح گھر بہ گھر پھر کر خدا تعالیٰ کے سچے دین کی اشاعت کریں اور اِس ہلاک کرنے والے شرک اور کفر سے جو دنیا میں پھیلا ہوا ہے، لوگوں کو بچا لیں۔ اگر خدا تعالیٰ ہمیں انگریزی زبان سِکھا دے تو ہم خود پھر کر اور دورہ کرکے تبلیغ کریں اور اسی تبلیغ میں زندگی ختم کردیں خواہ مارے ہی جاویں۔‘‘ (ملفوظات جلد 3 صفحہ292-291)
حضرت مولانا عبدالکریم صاحب سیالکوٹیؓ روایت کرتے ہیں کہ ایک موقع پر حضرت اقدسؑ نے فرمایا: پاخانہ پیشاب پر بھی مجھے افسوس آتا ہے کہ اتنا وقت ضائع ہو جاتا ہے۔ یہ بھی کسی دینی کام میں لگ جائے۔ اور فرمایا:کوئی مشغولی اورتصرف جو دینی کاموں میں حارج ہو اور وقت کا کوئی حصہ لے ،مجھے سخت ناگوار ہے۔ اور فرمایا : جب کوئی دینی ضروری کام آپڑے تو میں اپنے اوپر کھانا پینا اور سونا حرام کر لیتا ہوں، جب تک وہ کام نہ ہوجائے۔ فرمایا: ہم دین کے لیے ہیں اور دین کی خاطر زندگی بسر کرتے ہیں۔ بس دین کی راہ میں ہمیں کوئی روک نہ ہونی چاہئے۔
حضرت یعقوب علی عرفانی ؓ لکھتے ہیں کہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی فطرت میں تبلیغ ِاسلام کا جوش اس قدر تھا کہ آپ فرمایا کرتے تھے کہ بعض اوقات مجھے خطرہ ہوتا ہے کہ اس جوش سے میرا دماغ نہ پھٹ جاوے۔
مزید لکھتے ہیں:حضرت مسیح موعوؑد اور لالہ ملاوا مل صاحب کے تعلقات میں جو بات بدیہی طور پر نظر آتی ہے وہ تبلیغِ اسلام ہی ہے۔ سب سے پہلی ملاقات اور محض ناواقفیت کی ملاقات اور اس میں بجز اس کے اور کچھ نہیں کہ آپ نے تبلیغ ہی شروع کردی۔ لالہ ملاوا مل صاحب کہا کرتے کہ میں نے یہ سمجھا کہ شاید مسلمانوں کے ہاں عشاء کی نماز سے پہلے کسی دوسرے کو تبلیغ ِ اسلام کرنا ایک ضروری فرض ہے۔
مکرم مولوی عبدالقادر صاحبؓ مرحوم لدھیانوی کے پوچھنے پر کہ ’’مَیں کیا کروں؟‘‘ حضورؑ نے فرمایا ’’باہر جاویں تبلیغ کے لیے۔‘‘ یہ سن کر مولوی صاحب بہت خوش ہوئے۔ فرماتے تھے: اللہ! اللہ! حضرت صاحب کو تبلیغ سب کاموں سے پیاری ہے اور میرے دل میں بھی تبلیغ کا بہت شوق ہے۔
1885ء میں جب آپؑ کے ایک فدائی اور عاشق حضرت صوفی احمد جان صاحب لدھیانوی سفرِحج پر جانے لگے تو حضرت مسیح پاک ؑ نے ایک دلگداز دعا ان کو لکھ کر دی کہ وہ حضور کی طرف سے یہ دعا خانۂ کعبہ میں اور میدان عرفات میں بطور خاص کریں۔ اس میں لکھا کہ ’’اے ارحم الراحمین جس کام کی اشاعت کے لئے تو نے مجھے مامور کیا ہے اور جس خدمت کے لئے تُو نے میرے دل میں جوش ڈالا ہے اس کو اپنے ہی فضل سے انجام تک پہنچااور اس عاجز کے ہاتھ سے حجّتِ اسلام مخالفین پر اور ان سب پر جو اَب تک اسلام کی خوبیوں سے بےخبر ہیں پوری کر۔‘‘ (تاریخ احمدیت جلد اوّل صفحہ265)
حضرت مولانا عبدالکریم سیالکوٹیؓ فرماتے ہیں کہ کوئی دوست کوئی خدمت کرے۔ کوئی شعر بنا لائے کوئی شعر تائید حق پر لکھے آپؑ بڑی قدر کرتے ہیں اور بہت ہی خوش ہوتے ہیں اور بارہا فرماتے ہیں کہ اگر کوئی تائید دین کے لیے ایک لفظ نکال کر ہمیں دے تو ہمیں موتیوں اور اشرفیوں کی جھولی سے بھی زیادہ بیش قیمت معلوم ہوتا ہے۔
حضرت پیر سراج الحق نعمانی ؓ کو حضورؑ کے قرب میں رہنے کا خوب موقع ملا ۔ آپؓ فرماتے ہیں: آپؑ بہت کم لیٹتے تھے اور رات اور دن کا زیادہ حصہ مخالفوں کے ردّ اور اسلام کی خوبیاں اور آنحضرت ﷺ کے ثبوتِ رسالت ونبوت اور قرآن شریف کے منجانبِ اللہ ہونے کے دلائل اورتوحید باری تعالیٰ اور ہستی باری تعالیٰ کے بارہ میں لکھنے میں گزرتا تھا اور اِس سے جو وقت بچتا تو دعاؤں میں خرچ ہوتا ۔ دعاؤں کی حالت میں نے آپ کی دیکھی ہے کہ ایسے اضطراب اور ایسی بےقراری سے دعا کرتے تھے کہ آپؑ کی حالت متغیر ہوجاتی۔ اور بعض وقت اسہال ہوجاتے اور دورانِ سر ہوجاتا۔
آپؑ کیا خوب فرماتے ہیں:

جانم فدا شود برہِ دینِ مصطفیٰ
ایں است کامِ دل اگر آید میسرم

(میری جان محمد مصطفیٰ ؐ کے دین کی راہ پر فدا ہوجائے۔ یہی میرے دل کا مدعا ہے۔ اے کاش کہ یہ بات میسر آجائے۔)
حضرت مولوی فتح دین صاحب دھرم کوٹی ؓ حضوؑر کے ابتدائی زمانہ کے متعلق بیان فرماتے ہیں: مَیں حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام کے حضور اکثر حاضر ہوا کرتا تھا اور کئی مرتبہ حضور کے پاس ہی رات کو بھی قیام کیا کرتا تھا۔ ایک مرتبہ میں نے دیکھا کہ آدھی رات کے قریب حضرت صاحب بہت بےقراری سے تڑپ رہے ہیں اور ایک کونہ سے دوسرے کونہ کی طرف تڑپتے ہوئے چلے جاتے ہیں جیسے کہ ماہی بے آب تڑپتی ہے یا کوئی مریض شدتِ درد کی وجہ سے تڑپ رہا ہوتا ہے۔ میں اِس حالت کو دیکھ کر سخت ڈر گیا اور بہت فکر مند ہوا اور دل میں کچھ ایسا خوف طاری ہوا کہ اُس وقت مَیں پریشانی میں ہی مبہوت لیٹا رہا۔ یہاں تک کہ آپؑ کی وہ حالت جاتی رہی۔ صبح میں نے اِس واقعہ کا حضوؑر سے ذکر کیا اور پوچھا کہ کیا حضور کو کوئی تکلیف تھی یا درد گردہ وغیرہ کا دورہ تھا۔ آپؑ نے فرمایا کہ جس وقت ہمیں اسلام کی مہم یاد آتی ہے اور جو جو مصیبتیں اِس وقت اسلام پر آرہی ہیں اُن کا خیال آتا ہے تو ہماری طبیعت سخت بے چین ہوجاتی ہے اور یہ اسلام ہی کا درد ہے جو ہمیں اِس طرح بے قرار کر دیتا ہے۔
ابتدائی زمانہ میں حضور علیہ السلام کو یہ خبر ملی کہ بٹالہ کے ایک مولوی قدرت اللہ نامی نے اسلام چھوڑ کر عیسائیت اختیار کر لی ہے۔ آپ کو اس خبر سے دلی صدمہ ہؤا۔ آپ نے یہ خبر لانے والے منشی نبی بخش صاحب کو تاکیدی ارشاد فرمایا کہ پُرحکمت انداز میں ہر ممکن کوشش کریں کہ کسی طرح مولوی صاحب واپس اسلام میں آجائیں۔ آپؑ نے تفصیلی ہدایات بھی دیں اور فرمایا کہ اگر میری ضرورت ہوئی تو میں خود بھی جانے کو تیار ہوں۔ آپؑ نے فرمایا کہ اسلام سے کسی کا مرتد ہوجانا ایک بڑا امر ہے جس کو سرسری نہیں سمجھنا چاہیے۔ تم جاکر بھر پور کوشش کرو، میں دعا کروں گا۔ نتیجہ یہ ہوا کہ بالآخر اللہ تعالیٰ کے فضل سے مولوی صاحب واپس اسلام میں آگئے جس سے آپؑ کو بے حد خوشی ہوئی۔
حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے جب اسلام اور ناموس رسالت کے دفاع میں قلمی جہاد کا آغاز فرمایا تو پھر آپ نے قلم کے ہتھیار کو اس وقت تک نہ رکھا جب تک اِس جہادکو نقطۂ کمال تک نہ پہنچا دیا۔ حضرت پیر سراج الحق نعمانیؓ فرماتے ہیں: ایک روز قصیدہ اعجاز احمدی کی کاپی لکھنے کے لیے مجھے بلایا۔ کام کرتے کرتے رات گیارہ بج گئے۔ آپؑ کے لیے کھانا آیا۔ فرمایا شام سے تو تم یہیں لکھ رہے ہو کھانا نہیں کھایا ہوگا آؤ ہم تم ساتھ کھائیں۔ نیز فرمایا کہ ہمیں تو اسلام کی خوبیاں اور قرآن شریف کے منجانبِ اللہ ہونے کے دلائل دینے اور ثبوتِ نبوتِ محمد ﷺ میں یہاں تک استیلا اور غلبہ ہے کہ ہمیں نہ کھانا اچھا لگتا ہے نہ پانی نہ نیند۔ جب بھوک اور نیند کا سخت غلبہ ہوتا ہے تو ہم کھاتے ہیں یا سوتے ہیں۔

حضرت منشی ظفر احمد کپورتھلویؓ بیان کرتے ہیں کہ لدھیانہ کا واقعہ ہے کہ ایک دفعہ سر درد کا دورہ حضرت مسیح موعودؑ کو اس قدر سخت ہوا کہ ہاتھ پیر برف کی مانند سرد ہوگئے۔ میں نے ہاتھ لگا کر دیکھا تو نبض بہت کمزور ہوگئی تھی۔ آپؑ نے مجھے ارشاد فرمایا کہ اسلام پر کوئی اعتراض یاد ہو تو اس کا جواب دینے سے میرے بدن میں گرمی آ جائے گی اور دورہ موقوف ہوجائے گا۔ مَیں نے عرض کی کہ حضور اِس وقت تو مجھے کوئی اعتراض یاد نہیں آتا۔ فرمایا کہ آنحضرت ﷺ کی نعت میں سے کچھ اشعارآپ کو یاد ہوں تو پڑھیں۔ مَیں نے براہین احمدیہ کی نظم ’’اے خدا! اے چارۂ آزارِما‘‘ خوش الحانی سے پڑھنی شروع کردی اور آپ کے بدن میں گرمی آنی شروع ہوگئی۔ آپؑ لیٹے رہے اور سنتے رہے۔ پھر مجھے ایک اعتراض یاد آگیا… جب میں نے یہ اعتراضات سنائے تو حضوؑر کو جوش آگیا اور فوراً بیٹھ گئے اور بڑے زور کی تقریر جواباً کی۔ بہت سے اَور لوگ بھی آگئے اور دورہ ہٹ گیا۔
حضرت منشی صاحبؓ مزید بیان فرماتے ہیں کہ لدھیانہ میں ہی ایک بار حضورؑ مہندی لگوانے لگے تو ایک آریہ آگیا جو ایم اے تھا۔ اُس نے اسلام پر کوئی اعتراض کیا تو حضورؑ نے ڈاکٹر صادق علی صاحب (جو کپورتھلہ کے رئیس اور علماء میں شمار ہوتے تھے)سے فرمایا کہ آپ ان سے ذرا گفتگو کریں تو میں مہندی لگوا لوں۔ ڈاکٹر صاحب جواب دینے لگے مگر اس آریہ کی جوابی تقریر سے ڈاکٹر صاحب خاموش ہوگئے۔ حضرت اقدسؑ نے یہ دیکھ کر فوراً مہندی لگوانی چھوڑ دی اور اُسے جواب دینا شروع کیا اور وہی تقریر کی جو ڈاکٹر صاحب نے کی تھی مگر اُس تقریر کو ایسے رنگ میں بیان فرمایا کہ وہ آریہ حضور کے آگے سجدہ میں گر پڑا۔ حضور نے ہاتھ سے اُسے اٹھایا۔ پھر وہ دونوں ہاتھوں سے سلام کرکے پچھلے پیروں ہٹتا ہوا واپس چلا گیا ۔
حضرت پیر منظور محمد صاحبؓ کی روایت ہے کہ ایک دن حضرت مسیح موعودؑ کی طبیعت اچھی نہ تھی ۔ صحن میں چارپائی پر لیٹے تھے اور لحاف اوپر لیا ہوا تھا۔ ایک ہندو ڈاکٹر حضوؑر سے ملنے آیا تو حضوؑر نے وہیں بلوا لیا۔ وہ آکر چارپائی کے پاس کرسی پر بیٹھ گیا۔ جونہی اُس نے مذہبی اعتراض شروع کیا تو حضوؑر فوراً لحاف اتارکراُٹھ بیٹھے اور جواب دینا شروع کیا۔ یہ دیکھ کر اس نے اجازت لی اور چلا گیا۔
حضرت مفتی محمد صادق صاحبؓ فرماتے ہیں: ایک دفعہ سخت گرمی کے موسم میں چند خدام حضرت صاحب ؑ کی خدمت میں حاضر تھے۔ مولوی عبدالکریم صاحبؓ نے عرض کی کہ گرمی بہت ہے، یہاں ایک پنکھا لگا لینا چاہئے۔ حضرت مسیح موعوؑد نے فرمایا: پنکھا تو لگ سکتا ہے اور پنکھا ہلانے والے کا بھی انتظام کیا جاسکتا ہے لیکن جب ٹھنڈی ہوا چلے گی توبے اختیار نیند آنے لگے گی اور ہم سو جائیں گے تو یہ مضمون کیسے ختم ہوگا؟
ایک دفعہ کسی نے عرض کی کہ گرمی بہت ہے حضور کسی پہاڑ پر تشریف لے چلیں۔ فرمایا: ہمارا پہاڑ تو قادیان ہی ہے یہاں چند روز دھوپ تیز ہوتی ہے تو پھر بارش آجاتی ہے۔
حضرت مفتی صاحبؓ کی روایت ہے کہ ایک دفعہ وہ حضرت مسیح موعوؑد کے پاس ایک کمرے میں بیٹھے تھے۔ حضور ایک کتاب کی تصنیف میں مصروف تھے۔ دروازے پر کسی شخص نے خوب زوردار دستک دی۔ آپؑ کے ارشاد پر مَیں گیا تاکہ معلوم کروں کہ کون ہے اور کس غرض سے آیا ہے۔ دستک دینے والے نے بتایا کہ مولوی سیّد محمد احسن صاحب امروہوی نے بھجوایا ہے کہ حضور کی خدمت میں یہ خوشخبری عرض کی جائے کہ آج فلاں شہر میں ان کا ایک غیراحمدی مولوی سے مناظرہ ہواہے اور انہوں نے اُس کو شکستِ فاش دی ہے۔ جب میں نے یہ پیغام حضوؑر کی خدمت میں عرض کیا تو حضوؑر مسکرائے اور فرمایا کہ اِس طرح زوردار دروازہ کھٹکھٹانے سے مَیں سمجھا تھا کہ شاید وہ یہ خبر لائے ہیں کہ یورپ مسلمان ہوگیا ہے!۔
حضرت اقدسؑ کے اِس بے ساختہ اظہار سے پتہ لگتا ہے کہ حضوؑر کے نزدیک گویا سب سے بڑی اور حقیقی خوشی یہی تھی کہ سارا یورپ حلقہ بگوشِ اسلام ہو جائے۔
حضوؑر کی ساری زندگی خدمتِ اسلام کی خاطر مسلسل جہاد سے عبارت تھی۔ قلمی جہاد کا جو سلسلہ آپ نے ابتدائی زمانہ میں شروع فرمایاوہ زندگی کے آخری لمحات تک جاری رہا۔ ابتدائی زندگی میں مددگار تھوڑے تھے اور سہولیات بھی نہ ہونے کے برابر تھیں۔ اِن حالات میں آپؑ بسا اوقات بالکل یکاو تنہا ساری بھاگ دوڑ کرتے۔ خود مضمون لکھتے۔ خود اسے کاتب کے پاس لے جاتے۔خود درستی کرواتے۔ اورخود ہی اشاعت کے لیے پریس لے کر جاتے اور یہ سب کچھ خدمتِ اسلام کے بےپناہ جذبے سے سر انجام دیتے۔ ذرا تصور کیجئے کہ اللہ تعالیٰ کا یہ بزرگ فرستادہ اپنے گھر کے اندرونی صحن میں دفاعِ اسلام میں کتابیں لکھنے میں مصروف ہے۔ ایک دوات ایک طرف طاقچہ میں رکھی ہے اور دوسری دوسرے کنارے پر۔ چلتے چلتے کاغذ ہاتھ میں پکڑے مضمون لکھ رہے ہیں ۔قلم کی سیاہی کم ہو جاتی ہے تو دوات میں ڈبولیتے ہیں۔موسم کی سختی سے بےنیاز، سخت گرمی اور سخت سردی کی حالت میں بھی یہ جہاد جاری رہتا۔ صحت کی حالت میں بھی اور بیمار ی کی حالت میں بھی ۔آپ نے اپنی تصانیف کے بعض حصّے سخت بیماری کی حالت میں لکھے ۔ اپنی آخری تصنیف پیغام صلح کا مضمون وفات سے صرف ایک روز قبل 25 مئی 1908ء کی شام کو مکمل کیا جبکہ آپ کو اسہال کی شکایت تھی۔ طبیعت نڈھال تھی لیکن آپؑ نے اسی حالت میں جس حدتک ہوسکا مضمون مکمل کرکے کاتب کے سپرد کیا۔
حضورؑ نے 1893ء میں اپنی معرکہ آراء کتاب ’’آئینہ کمالات اسلام ‘‘ تصنیف فرمائی جس میں التبلیغ کے نام سے عربی زبان میں ایک تفصیلی مکتوب فقراء اور مشائخِ ہند کے نام لکھا۔ اس میں بطور خاص 23صفحات پر محیط ایک خاص حصہ اُس زمانہ کی طاقتور ملکہ وکٹوریہ کے نام لکھا جس میں آپؑ نے اپنے آقائے نامدار کے نقشِ قدم پر چلتے ہوئے ملکہ معظمہ کو اُسی انداز اور الفاظ میں دعوتِ اسلام دی جو رسول پاک ﷺ نے اپنے زمانہ میں قیصر و کسریٰ کو لکھے تھے۔ آپؑ نے دیگر نصائح کے علاوہ یہ بھی فرمایا کہ اے زمین کی ملکہ!تُو مسلمان ہوجا۔ تُو اور تیری سلطنت محفوظ رہے گی۔
جس قوت اور شوکت سے آپ نے ملکہ کو یہ پیغام حق دیا، آپؑ کی اِس آوازِ حق کو یہ پذیرائی ملی کہ ملکہ وکٹوریہ نے شکریہ کا خط ارسال کیا اور خواہش کی کہ حضوؑر اپنی دیگر تصانیف بھی ارسال فرمائیں۔ اس موقع پر ایک صاحبِ کشف بزرگ حضرت خواجہ غلام فرید صاحب آف چاچڑاں شریف نے حضورؑ کو زبردست خراج عقیدت پیش کیا اور لکھا کہ ’’دینِ اسلام کی حمایت کے لیے آپ نے ایسی کمر ِہمت باندھی ہے کہ ملکہ وکٹوریہ کو اسلام کا پیغام دیا ہے … آپ کی تمام تر سعی اور جدوجہد یہ ہے کہ … اسلامی توحید قائم ہوجائے۔‘‘
1897ء میں ملکہ وکٹوریہ کی ساٹھ سالہ جوبلی کے موقع پر حضورؑ نے رسالہ ’’تحفۂ قیصریہ‘‘کے نام سے لکھا جس میں ملکہ معظمہ کودوسری بار پُرجوش انداز میں دعوتِ اسلام دی۔ بعدازاں 1899ء میںایک بار پھر اس پیغام حق کی یاددہانی کے طور پر رسالہ ’’ستارۂ قیصریہ‘‘ تحریر فرمایا۔ یہ دونوں کتب آپؑ کے جوشِ تبلیغِ اور خدمتِ اسلام کا شاہکار ہیں۔
حضرت مسیح موعوؑد کے جذبۂ خدمتِ ا سلام کا یہ پہلو کس قدر ایمان افروز ہے کہ آپ کی وفات پر جماعت کے حق گومخالفین نے آپؑ کو ’’اسلام کا ایک بہت بڑا پہلوان‘‘ اور ’’ایک فتح نصیب جرنیل‘‘ کے القاب سے یاد کیا اور تسلیم کیا کہ آپ نے ’’ہندوستان سے لے کر ولایت تک کے پادریوں کو شکست دے دی ‘‘۔
اگرچہ دشمنوں کی ہمیشہ یہ کوشش رہی کہ کسی طرح مسیح موعود علیہ السلام کی ذلّت اور رسوائی کی کوئی صورت بن سکے۔ لیکن جری اللہ فی حلل الانبیاء کا ردّ ِعمل کیسا ایمان افروز تھا کہ وہ اسلام کی خاطر ہر تکلیف اور آزار کو قبول کرنے کو تیارنظر آتا ہے مگر ساتھ کے ساتھ خدائی تا ئید و نصرت پر کامل یقین بھی ہے۔ حضرت مولوی عبدالکریم صاحبؓ سیالکوٹی روایت کرتے ہیں کہ ایک موقع پر پولیس کا ایک افسر اچانک حضورؑ کے گھر کی تلاشی کے لیے آگیا تو حضرت میر ناصرنواب صاحبؓ سخت گھبراہٹ کی حالت میں بھاگتے ہوئے آئے اور آپؑ کو بتایا کہ پولیس افسر وارنٹ گرفتاری اور ہتھکڑیوں کے ساتھ آرہا ہے۔ آپؑ اُس وقت کتاب’’نورالقرآن‘‘تصنیف فرمارہے تھے ۔ آپؑ نے مسکراتے ہوئے نہایت اطمینان سے فرمایا: ’’میر صاحب!لوگ دنیا کی خوشیوں میں چاندی سونے کے کنگن پہنا کرتے ہیں۔ہم سمجھ لیں گے کہ ہم نے اللہ تعالیٰ کی راہ میں لو ہے کے کنگن پہن لئے‘‘۔ ساتھ ہی اللہ تعالیٰ پر کامل توکل کے ساتھ فرمایا:’’مگر ایسا نہ ہو گا۔ کیونکہ خدا تعالیٰ کی اپنی گورنمنٹ کے مصالح ہوتے ہیں، وہ اپنے خلفائے مامورین کی ایسی رسوائی پسند نہیں کرتا‘‘۔
حضورؑ کے اشد مخالفین نے اختلاف رائے کے باوجود آپؑ کے جذبۂ خدمت اسلام کا برملا اعتراف کیا۔ چنانچہ آپؑ کی وفات پر ایک آریہ رسالہ کے ایڈیٹر نے لکھا کہ ’’مرزا صاحب اپنے آخری دَم تک اپنے مقصد پر ڈٹے رہے اور ہزاروں مخالفتوں کے باوجود ذرا بھی لغزش نہیں کھائی۔‘‘ (رسالہ ’’اندر‘‘ لاہور)
عیسائی مصنّف H.A.Walter نے لکھا: ’’مرزا صاحب کی اختلافی جرأت جو انہوں نے اپنے مخالفوں کی طرف سے شدید مخالفت اور ایذارسانی کے مقابلہ میں دکھائی یقیناً بہت قابلِ تعریف ہے‘‘۔ (انگریزی رسالہ احمدیہ مُوومنٹ)
ایک اخبار نے لکھا: ’’مرزا مرحوم نے مخالفتوں اور نکتہ چینیوں کی آگ میں سے ہو کر اپنا رستہ صاف کیا اور ترقی کے انتہائی عروج تک پہنچ گیا۔‘‘ (کرزن گزٹ۔دہلی)
حضرت مسیح پاکؑ نے اللہ تعالیٰ کی خاص الخاص تائیدو نصرت سے جو معرکہ آراء کتب تحریر فرمائیں اُن میں بیان کردہ دلائل اور براہین کا جواب لکھنے پر کوئی دشمن قادر نہیں ہوسکا۔ اگرچہ آپؑ نے کئی انعامی چیلنجز بھی دیے۔ چنانچہ براہین احمدیہ کا پہلا حصہ شائع ہوا تو آپؑ نے منکرینِ اسلام کو دعوتِ مقابلہ دی کہ اگر وہ اسلام کی بیان کردہ خوبیوں کے مقابل پر وہی خوبیاں اپنے مذہب میں دکھادیں یا کم از کم ہمارے پیش کردہ دلائل کو توڑکردکھادیں تو مَیں اپنی ساری کی ساری جائیداد جس کی قیمت دس ہزار روپے کے قریب ہے ایسے شخص کو بطور انعام دینے کے لیے تیار ہوں۔
یہ کوئی معمولی بات نہ تھی۔ اس سے ایک طرف آپؑ کو اپنی صداقت اور اپنے بیان کردہ دلائل کی برتری پر کامل یقین ظاہر ہوتا ہے اور دوسرے آپؑ کا جذبۂ خدمتِ اسلام بھی خوب کھل کر آشکار ہوتا ہے۔
حضورؑنے دنیا کے سب مذاہب کو بارہا مقابلہ کی دعوت دی اور بڑے زوردار انداز میں دی۔ 1893ء میں آپؑ نے اپنی کتاب ’’آئینہ کمالات اسلام‘‘ میں فرمایا:
’’اب اگر کوئی سچ کا طالب ہے خواہ وہ ہندو ہے یا عیسائی یا آریہ یا یہودی یا برہمو یا کوئی اور ہے اس کے لیے یہ خوب موقعہ ہے جو میرے مقابل پر کھڑا ہوجائے۔ اگر وہ امورِ غیبیہ کے ظاہر ہونے اور دعاؤں کے قبول ہونے میں میرا مقابلہ کر سکا تو مَیں اللہ جلّ شانہ کی قسم کھا کر کہتا ہوں کہ اپنی تمام جائیداد غیر منقولہ جو دس ہزار روپیہ کے قریب ہوگی اس کے حوالہ کر دوں گایا جس طور سے اس کی تسلی ہوسکے اُس طور سے تاوان ادا کرنے میں اس کو تسلی دوں گا‘‘۔( مجموعہ اشتہارات جلد اول صفحہ 350-349)
آپ کی یہ دعوت ِ مقابلہ دنیا کے سب مذاہب کے نام تھی لیکن کسی مذہب کا کوئی شخص مقابلہ کے لیے تیار نہ ہوا۔ آپؑ نے کیا خوب فرمایا:

آزمائش کے لیے کوئی نہ آیا ہر چند
ہر مخالف کو مقابل پہ بلایا ہم نے

امام الزمان سیدنا حضرت اقدس مسیح موعود و امام مہدی علیہ الصلوٰۃ والسلام نے تو اپنے اور ہمارے آقا محمد مصطفی ﷺ کے نقشِ قدم پر چلتے ہوئے خدمتِ اسلام کی مقدس راہ میں اپنی ساری زندگی، وقت کا ایک ایک لمحہ اور خدا داد صلاحیتوں اور طاقتوں کا ایک ایک ذرہ قربان کر دیا۔ اور ایک ہم ہیں کہ خدمتِ دین کا جذبہ تو رکھتے ہیں لیکن عملی میدان میں ابھی پاپیادہ ہیں۔ عہدِ بیعت کے تقاضے بہت بلند ہیں۔ غلبۂ اسلام کی آخری منزل دُور افق پر نظر آتی ہے اورہمارے قدم ابھی بہت آہستہ ہیں ۔ یہ میدان بہت وسیع ہے اور مخلص اور جاں نثار احمدی خدمت گزاروں کی آمد کا منتظر ہے۔
حضرت مسیح پاکؑ نے ہم سب کو مخاطب کرتے ہوئے بڑے درد سے فرمایا ہے:’’مَیں اپنا فرض سمجھتا ہوں کہ اپنی جماعت کو وصیّت کروں اور یہ بات پہنچا دوں ۔آئندہ ہرایک کا اختیار ہے کہ وہ اُسے سنے یا نہ سنے کہ اگر کوئی نجات چاہتا ہے اور حیا تِ طیبہ یا ابدی زندگی کا طلب گار ہے تو وہ اللہ کے لیے اپنی زندگی وقف کرے اور ہر ایک اس کوشش اور فکر میں لگ جاوے کہ وہ اُس درجہ اور مرتبہ کو حاصل کرے کہ کہہ سکے کہ میری زندگی، میری موت، میری قربانیاں، میری نمازیں اللہ ہی کے لیے ہیں اور حضرت ابراہیم ؑکی طرح اُس کی روح بول اٹھے۔

اَسْلَمْتُ لِرَبِّ الْعَالَمِیْن

جب تک انسان خدا میں کھویا نہیں جاتا ، خدا میں ہو کر نہیں مرتا ، وہ نئی زندگی پا نہیں سکتا ۔ پس تم، جو میرے ساتھ تعلق رکھتے ہو، تم دیکھتے ہو کہ خدا کے لیے زندگی کا وقف میں اپنی زندگی کی اصل غرض سمجھتا ہوں۔ پھر تم اپنے اندر دیکھو کہ تم میں سے کتنے ہیں جو میرے اِس فعل کو اپنے لیے پسند کرتے اور خدا کے لیے زندگی وقف کرنے کو عزیز رکھتے ہیں۔‘‘ (ملفوظات جلد دوم صفحہ100)

50% LikesVS
50% Dislikes

اپنا تبصرہ بھیجیں