حضرت مسیح موعودؑ کی خدام سے شفقت

(مطبوعہ الفضل ڈائجسٹ 22 مارچ 2019ء)

روزنامہ ’’الفضل‘‘ ربوہ28ستمبر 2012ء میں مکرم فخرالحق شمس صاحب کا ایک مضمون شامل اشاعت ہے جس میں حضرت اقدس مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام کی اپنے خدام سے غیرمعمولی محبت و شفقت کی تصویرکشی کی گئی ہے۔
٭ حضرت مفتی محمد صادق صاحبؓ بیان فرماتے ہیں کہ حضرت مسیح موعود کو اپنے مرید بہت پیارے تھے۔ 1905ء میں حضرت مسیح موعودؑ کی زلزلہ کی پیشگوئیوں کی بِنا پر اور آپؑ ہی کے منشائ اور ایمائ سے ہم سب لوگ باغ میں چلے گئے۔ باغ کا انتظام حضرت میر ناصر نواب صاحبؓ کے ہاتھ میں تھا۔ میر صاحب نے چند چھوٹے چھوٹے پودے لگوائے تھے جنہیں لوگوں کے اِدھر اُدھر پھرنے سے کسی قدر نقصان پہنچنے کا احتمال تھا اور میر صاحب اس سے خفا ہوتے تھے۔ ایک دفعہ حضرت مولوی نورالدین صاحبؓ اور مولوی عبدالکریم صاحبؓ چند دیگر دوستوں کے ہمراہ بیٹھے ہوئے تھے کہ میر صاحب آگئے اور فرمانے لگے ہم نے بڑی مشکل اور بڑی احتیاط کے ساتھ یہ پودے لگائے تھے جو لوگوں کی بے احتیاطی سے خراب ہوجائیں گے۔ مولوی نورالدین صاحبؓ نے فرمایا: آپ کو اپنے درخت پیارے ہیں اور مرزا کو اپنے مرید پیارے ہیں۔
٭ حضرت شیخ تیمور صاحبؓ بیان کرتے ہیں: اپنی اولاد کے ساتھ حضورؑ نے وہ سلوک کیا جو کسی کو ہم نے کرتے نہیں دیکھا۔ آپؑ کبھی کسی خوشی پر جھڑکتے نہیں تھے اور کس قدر ضروری دماغی کام میں مصروف ہوں تب بھی بچوں کی حاجتوں کو پورا کر دیتے تھے۔ آپ چھوٹے بچوں کو مارنا بالکل پسند نہیں کرتے تھے اور بعض دفعہ وہ آپ کی دماغی عرق ریزی کے نتائج کو تلف بھی کر دیتے تھے مگر آپ کے ماتھے پر بل بھی نہیں آتا تھا۔ دروازہ بند کرکے اندر لکھ رہے ہوں تو جتنی بار بچہ دروازہ کھٹکھٹائے اتنی بار کھولتے اور پھر جب وہ رخصت ہوجاتا تو بند کرلیتے اور پھر آتا تو پھر کھول دیتے اور ایک دفعہ بھی اس کو نہ کہتے کہ تُو بار بار کیوں تکلیف دیتا ہے۔
٭ حضرت شیخ صاحبؓ مزید بیان فرماتے ہیں: دوستوں کے ساتھ آپؑ کا تعلق بہت ہمدردانہ تھا۔ مولوی عبدالکریم صاحب کی بیماری میں ہم نے دیکھا ہے کہ آپ نے جان مال وقت کسی چیز کی پرواہ نہیں کی اور اس قدر اضطراب سے دعائیں مانگیں کہ شاید کسی نے کم مانگی ہوں گی۔ آپؑ فرمایا کرتے تھے کہ اگر ہمارا دوست شراب پی کر کہیں نالی میں گرا ہوا بھی مل جائے تو ہم اس کو اٹھالیں اور گھر لا کر اس کو رکھیں۔
٭ حضرت مولانا عبدالکریم صاحبؓ سیالکوٹی فرماتے ہیں: آپؑ کے مزاج میں وہ تواضع اور انکسار اور ہضم نفس ہے کہ اس سے زیادہ ممکن نہیں۔ زمین پر آپؑ بیٹھے ہوں اور لوگ فرش پر یا نیچے بیٹھے ہوں، آپؑ کا قلب مبارک ان باتوں کو محسوس بھی نہیں کرتا۔ چار برس کا عرصہ گزرتا ہے کہ آپؑ کے گھر کے لوگ لدھیانہ گئے ہوئے تھے، جون کامہینہ تھا اور اندر مکان نیا نیا بنا تھا۔ وہاں چار پائی بچھی ہوئی تھی، مَیں دوپہر کے وقت اُس پر لیٹ گیا۔ حضرت ٹہل رہے تھے۔ مَیں ایک دفعہ جاگا تو آپؑ فرش پر میری چارپائی کے نیچے لیٹے ہوئے تھے۔ مَیں ادب سے گھبرا کر اٹھ بیٹھا۔ آپؑ نے بڑی محبت سے پوچھا: آپ کیوں اٹھے ہیں؟ مَیں نے عرض کیا:آپ نیچے لیٹے ہوئے ہیں، مَیں اوپر کیسے سویا رہوں!۔ مسکرا کر فرمایا: مَیں تو آپ کا پہرہ دے رہا تھا، لڑکے شور کرتے تھے انہیں روکتا تھا کہ آپ کی نیند میں خلل نہ آوے۔
٭ برصغیر کے نامور ادیب جناب شیخ محمد اسماعیل صاحب پانی پتی کا بیان ہے کہ حضرت مسیح موعودؑ کی اپنے خادموں پر جو بے انتہا شفقت تھی اس سلسلہ میں ایک دفعہ ایک بڑا پُرلطف لطیفہ حضرت مفتی محمد صادق صاحبؓ کے ساتھ پیش آیا۔ مفتی صاحبؓ ابتدائ میں لاہور میں ملازم تھے اور ہر اتوار کو یا ہر چھٹی کے موقع پرعموماً قادیان بھاگے آیا کرتے تھے۔ ایک روز اسی طرح کوئی دن کے ایک بجے مفتی صاحب قادیان پہنچے۔ حضرت صاحب کو خبر ہوئی تو فوراً باہر تشریف لے آئے۔ بڑی محبت سے ملے اور مفتی صاحب کو اندر گھر میں لے گئے اور کھانا لاکر مفتی صاحب کے آگے رکھ دیا۔ خود پاس بیٹھ کر باتیں کرنے لگے۔ مفتی صاحب نے کھانا شروع ہی کیا تھا کہ ظہر کی اذان کی آواز آئی جسے سُن کر مفتی صاحب نے جلدی جلدی کھانا شروع کیا تاکہ جماعت میں شامل ہوسکیں۔ حضرت اقدس یہ دیکھ کر مسکرانے لگے اور ہنستے ہوئے فرمایا: مفتی صاحب! جلدی جلدی کھانے کی ضرورت نہیں، نہایت اطمینان سے کھایئے، جب تک میں نہیں جاتا نماز نہیں ہوگی اور جب تک آپ کھانا نہیں کھالیتے میں باہر نہیں جاو?ں گا۔
٭ حضرت منشی اروڑے خان صاحبؓ کپورتھلوی کا بیان ہے کہ ایک دفعہ حضرت صاحبؑ نے گورداسپور جانا تھا۔ جب مڑھی کے پاس پہنچے تو آپ نے ساتھ چلنے والوں سے مصافحہ فرماکر اُنہیں واپس کردیا۔ صرف مَیں اور یکّہ والے ساتھ رہے۔ فرمایا: اب یکہ میں سوار ہو جاو?۔ مَیں نے عرض کی: مجھے اپنی لڑکی کو ملنے جانا تھا یہاں تو دیر ہو گئی اب وہاں جانا واپس آنا پھر آپ کے ساتھ شامل ہونا مشکل ہے۔ آپؑ نے فرمایا: تم یکّہ میں سوار ہو کر چلو اور فارغ ہو کر بٹالہ پہنچو مَیں پیدل آتا ہوں۔ مَیں نے اصرار کیا۔ بڑا اصرار کیا۔ آپؑ نے فرمایا: اَلۡاَمۡرُ فَوۡقَ الۡاَدَب۔ مَیں یکّہ پر سوار ہو کر چلا گیا۔
چنانچہ لڑکی کو بٹالہ میں مل کر مَیں راستہ پر آیا تو سینکڑوں آدمی منتظر کھڑے تھے۔ کیا دیکھتا ہوں کہ خدا کے محبوب ہاتھ میں چھڑی لے کر تن تنہا پیدل چلے آرہے ہیں۔
٭ حضرت حافظ محمد ابراہیم صاحبؓ روایت کرتے ہیں: میں آنکھوں سے معذور تھا۔ ظاہری وجاہت نہ تھی۔ مگر حضور کی محبت اور اخلاق کے قربان جاؤں۔ مَیں نے آپ کے اخلاق کا جو مقام دیکھا وہ پھر کسی انسان کا نہ دیکھا۔ ایک دفعہ مَیں حضور کی زیارت کے لئے حاضر ہوا۔ کمرہ چھوٹا تھا اور احباب بھرے ہوئے تھے۔ جگہ تنگ تھی اس لئے میں جوتیوں ہی میں بیٹھ جانے لگا۔ حضور نے مجھے دیکھ کر آگے بلوالیا اور اس سے بڑھ کر یہ شفقت کی کہ اپنے پاس بٹھا لیا اور فرمایا کہ یہاں جگہ ہے۔ اسی طرح ایک اَور واقعہ ہوا۔ مسجد مبارک تنگ تھی، چھ آدمی کھڑے ہوتے تھے۔ عشائ کی نماز کا وقت تھا۔ جب جماعت کھڑی ہونے لگی تو مَیں تنگی کے خیال سے پیچھے ہٹنے لگا۔ مگر آپؑ نے میرا بازو پکڑ کر پاس کھڑا کرلیا۔ آپ یہ خیال نہ کریں کہ حضورؑ کی شفقت کے یہی ایک دو واقعات ہیں۔ ہرشخص کی ذات کے ساتھ حضور کے وہ احسانات بیکراں ہیں جن کا شمار بھی نہیں کیا جاسکتا۔
مَیں ایک دفعہ عیدالفطر کے موقعہ پر قادیان آیا۔ مَیں ابھی مسجد کے باہر ہی تھا اور حضور مسجد کے اندر تھے۔ مَیں نے اندر جانے کی کوشش کی۔ حضورؑ نے دیکھ کر فرمایا: حافظ صاحب! آپ وہیں ٹھہریں مَیں آتا ہوں۔
٭ حضرت حافظ محمد ابراہیم صاحبؓ روایت کرتے ہیں: گورداسپور کے قیام کے ایام میں ایک روز مہمان زیادہ آگئے، کھانا ختم ہو گیا۔ حافظ حامد علی صاحبؓ نے عرض کی کہ حضور کھانا ختم ہوگیا، اگر ارشاد ہو تو اور تیار کروالیں۔ فرمایا: نہیں اَور پکانے کی ضرورت نہیں دودھ ڈبل روٹی لے آؤ۔ ڈبل روٹی تو مل گئی مگر دودھ نہ ملا۔ جب عرض کی گئی کہ حضور دودھ بھی نہیں ملا تو فرمایا پانی میں بھگو کر کھالیں گے اور ایسا ہی کیا۔
٭ حضرت حافظ حامد علی صاحبؓ حضرت کے پرانے خدام میں سے تھے اور باوجود ایک خادم ہونے کے حضرت صاحب ان سے اس قسم کا برتاؤ کرتے تھے جیسا کسی عزیز سے کیا جاتا ہے اور یہ بات حافظ صاحب ہی پر موقوف نہ تھی حضرت کا ہر ایک خادم اپنی نسبت یہی سمجھتا تھا کہ مجھ سے زیادہ اَور کوئی آپؑ کو عزیز نہیں۔ بہرحال حافظ صاحب کو ایک دفعہ کچھ لفافے اور کارڈ آپؑ نے دیے کہ ڈاک خانہ میں ڈال آو?۔ حافظ حامد علی صاحب کا حافظہ کچھ ایسا ہی تھا۔ وہ کسی اور کام میں مصروف ہوگئے اور اپنے مفوض کو بھول گئے۔ ایک ہفتہ کے بعد حضرت مرزا محمود احمد صاحب (جو اُن ایام میں ہنوز بچہ ہی تھے) کچھ لفافے اور کارڈ لئے دوڑتے ہوئے آئے کہ ابّا! ہم نے کوڑے کے ڈھیر سے خط نکالے ہیں۔آپؑ نے دیکھا تو وہی خطوط تھے جن میں بعض رجسٹرڈ خط بھی تھے اور آپ ان کے جواب کے منتظر تھے۔ حامد علی کو بلوایا اور خط دکھاکر بڑی نرمی سے صرف اتنا ہی کہا:’’حامد علی! تمہیں نسیان بہت ہوگیا ہے ذرا فکر سے کام کیا کرو‘‘۔
٭ حضرت شیخ عبدالقادر صاحب سوداگر مل اپنی کتاب ’’حیات طیبہ‘‘ میں رقمطراز ہیں:خاکسار نے کئی پرانے صحابہ سے یہ روایت سنی ہے (جن میں حضرت بابو غلام محمد صاحب فورمین لاہوری اور حضرت میاں عبدالعزیز مغل کا نام خاص طور پر یاد ہے) کہ ایک دفعہ جبکہ حضورؑ لاہور تشریف لائے تو ہم چند نوجوانوں نے یہ مشورہ کیا کہ دوسری قوموں کے بڑے بڑے لیڈر جب یہاں آتے ہیں تو ان کی قوموں کے نوجوان گھوڑوں کی بجائے خود اُن کی گاڑیاں کھینچتے ہیں۔ اور ہمیں جو لیڈر اللہ تعالیٰ نے دیا ہے یہ اتنا جلیل القدر ہے کہ بڑے بڑے بادشاہ بھی اس کے مقابلہ میں کوئی حیثیت نہیں رکھتے پس آج گھوڑوں کی بجائے ہمیں ان کی گاڑی کھینچنی چاہیے۔ چنانچہ ہم نے گاڑی والے کو کہا کہ اپنے گھوڑے الگ کرلو، آج گاڑی ہم کھینچیں گے۔ کوچ مَین نے ایسا ہی کیا۔ جب حضورؑ باہر تشریف لائے تو فرمایا کہ گھوڑے کہاں ہیں؟ ہم نے عرض کی کہ حضور دوسری قوموں کے لیڈر آتے ہیں تو ان کی قوم کے نوجوان ان کی گاڑیاں کھینچتے ہیں۔ آج حضورؑ کی گاڑی کھینچنے کا شرف ہم حاصل کریں گے۔ فرمایا: فوراً گھوڑے جُوتو۔ ہم انسان کو حیوان بنانے کے لئے دنیا میں نہیں آئے۔ہم تو حیوان کو انسان بنانے کے لئے آئے ہیں!
٭ حضور علیہ السلام کے خادم مرزا اسماعیل بیگ کی شہادت ہے کہ جب حضرت اقدسؑ اپنے والد بزرگوار کے ارشاد کے ماتحت بعثت سے قبل مقدمات کی پیروی کے لئے جایا کرتے تھے تو سواری کے لئے گھوڑا بھی ساتھ ہوتا تھا اور میں بھی عموماً ہمرکاب ہوتا تھا، لیکن جب آپؑ چلنے لگتے تو آپؑ پیدل ہی چلتے اور مجھے گھوڑے پر سوار کرا دیتے۔ مَیں بار بار انکار کرتا اور عرض کرتا: حضور! مجھے شرم آتی ہے۔ آپؑ فرماتے کہ ہم کو پیدل چلتے شرم نہیں آتی تم کوسوار ہوتے کیوں شرم آتی ہے؟ جب حضرت قادیان سے چلتے تو ہمیشہ پہلے مجھے سوار کراتے۔ جب نصف سے کم یا زیادہ راستہ طَے ہو جاتا تو مَیں اُتر پڑتا اور آپؑ سوار ہو جاتے اور اسی طرح جب عدالت سے واپس ہونے لگتے تو پہلے مجھے سوار کراتے اور بعد میں آپؑ سوار ہوتے۔ جب آپؑ سوار ہوتے تو گھوڑا جس چال سے چلتا اسی چال سے چلنے دیتے۔
٭ مرزا دین محمد صاحب کا بیان ہے کہ میں اوّلاً حضرت مسیح موعودؑ سے واقف نہ تھا یعنی اُن کی خدمت میں مجھے جانے کی عادت نہ تھی۔ خود حضرت صاحب گوشہ نشینی اور گمنامی کی زندگی بسر کرتے تھے۔ لیکن چونکہ وہ صوم و صلوٰۃ کے پابند اور شریعت کے دلدادہ تھے، یہ شوق مجھے بھی ان کی طرف لے گیا اور مَیں اُن کی خدمت میں رہنے لگا۔ جب مقدمات کی پیروی کے لئے جاتے تو مجھے گھوڑے پر اپنے پیچھے سوار کرلیتے تھے اور بٹالہ جا کر اسے اپنی حویلی میں باندھ دیتے۔ اس حویلی میں ایک بالاخانہ تھا۔ آپؑ اس میں قیام فرماتے۔ اس مکان کی دیکھ بھال کا کام ایک جولاہے کے سپرد تھا جو ایک غریب آدمی تھا۔ آپؑ وہاں پہنچ کر دو پیسے کی روٹی منگواتے۔ یہ اپنے لئے ہوتی تھی اور اس میں سے ایک روٹی کی چوتھائی کے ریزے پانی کے ساتھ کھالیتے۔ باقی روٹی اور دال وغیرہ جو ساتھ ہوتی۔ وہ اس جولاہے کو دے دیتے اور مجھے کھانا کھانے کے لئے چار آنہ دیتے تھے۔ آپ بہت ہی کم کھایا کرتے تھے اور کسی قسم کے چسکے کی عادت نہ تھی۔
٭ حضرت شیخ امام بخش صاحبؓ شاہجہانپوری کی ایک روح پرور روایت ہے کہ حضورعلیہ السلام مع خدام گول کمرہ میں کھانا کھا رہے تھے۔ ایک شخص درمیان میں ایسا بھی تھا کہ اس کے کپڑے بالکل میلے اور پھٹے ہوئے تھے۔ ایک امیر اور خوش پوش نے اسے ذرا کہنی سے دبایا کہ پیچھے رہو پھر کھالینا۔ حضرت صاحب کی نظر پڑ گئی۔ آپؑ نے کھڑے ہو کر تقریر فرمائی کہ ہماری جماعت غربائ کی جماعت ہے اور ہرمامور کی جماعت غربائ سے ترقی کرتی رہی ہے۔فرمایا کہ اگر کسی ذی مقدرت دوست کو کوئی غریب برا معلوم ہو یا اس سے نفرت آوے تو اسے چاہیے خود الگ ہو جائے۔

50% LikesVS
50% Dislikes

اپنا تبصرہ بھیجیں