حضرت مسیح موعودؑ کی صداقت کا نشان (کانگڑہ کا زلزلہ 1905ء)

(مطبوعہ الفضل ڈائجسٹ 15 مارچ 2019ء)

ماہنامہ ’’خالد‘‘ ربوہ جنوری 2012ء میں حضرت مسیح موعودؑ کی پیشگوئیوں کے مطابق آپؑ کی زندگی میں ہی آنے والے اُس شدید زلزلہ کے حوالہ سے مکرم مبارک احمد منیر صاحب کے قلم سے شامل اشاعت ہے جس کا مرکز کانگڑہ میں تھا لیکن اس کی وجہ سے زیرزمین دو سو کلومیٹر لمبا شگاف پڑگیا۔
1905ء میں آنے والے اس زلزلہ کی شدّت رِکٹر سکیل پر 8.0 تھی۔ اس کے نتیجہ میں ہندوؤں کا کانگڑہ میں کئی سو سال پرانا مندر بھی مکمل طور پر تباہ ہوگیا۔ مندر کی عمارت نہایت مضبوط تھی۔ پنجاب بھر میں جو تباہی پھیلی اُس میں مرنے والوں کا اندازہ پچیس ہزار اور مالی نقصان کا تخمینہ اربوں میں تھا۔
1903ء میں جب طاعون کی تباہی عروج پر تھی اور لاکھوں آدمی ہر سال اس قہری نشان کا شکار ہورہے تھے۔ اُس وقت حضورؑ کو بار بار الہامات سے یہ خبر دی گئی کہ خداتعالیٰ کا ایک اَور انذاری نشان زلزلے کی صورت میں ظاہر ہونے والا ہے۔ الحکم اور بدر میں 19؍دسمبر 1903ءمیں ہونے والا یہ رؤیا شاملِ اشاعت ہوا کہ ’’کوئی کہتا ہے زلزلے کا دھکّا‘‘۔ پھر آپؑ فرماتے ہیں: ’’بعدازاں الہام ہوا …… یعنی اللہ تعالیٰ ضرر نہیں پہنچائے گا۔ اللہ تعالیٰ اُن لوگوں کے ساتھ ہوتا ہے جو تقویٰ اختیار کریں اور جو نیکوکار ہوں۔ تُو اللہ تعالیٰ کی طرف سے مدد دیکھے گا اور وہ بہکتے رہیںگے‘‘۔(تذکرہ صفحہ 418)
یکم جون 1904ء کو الہام ہوا ’’عَفَتِ الدِّیَارُ مَحَلُّھَا و مُقَامُھَا یعنی عارضی رہائش کے مکانات بھی مِٹ جائیں گے اور مستقل رہائش کے بھی‘‘۔ اس کے ساتھ ہی الہام ہوا: ’’زلزلہ کا دھکّا‘‘۔ اس کے ساتھ روز بعد پھر یہ الہام ہوا: ’’خدا تیرا دوست ہے اسی کے صلاح ومشورہ پر چل۔

عَفَتِ الدِّیَارُ مَحَلُّھَا وَ مُقَامُھَا ، اِنِّی اُحَافِظُ کُلَّ مَنْ فِی الدَّارِ‘‘ ۔

عربی الفاظ کا ترجمہ ہے : عارضی رہائش کے مکانات بھی مِٹ جائیں گے اور مستقل رہائش کے بھی۔ مَیں تمام اُن لوگوں کی جو اس گھر میں رہتے ہیں حفاظت کروں گا۔ (تذکرہ صفحہ 432-433)
27؍فروری 1905ء کو حضور علیہ السلام نے کشف دیکھا کہ دردناک موتوں سے عجیب طرح پر شورِ قیامت برپا ہے۔ پھر زبان مبارک پر الہام جاری ہوا: ’’موتا موتی لگ رہی ہے‘‘۔
3؍اپریل 1905ء کو الہاماً بتایا گیا کہ ’’موت دروازے پر کھڑی ہے‘‘۔
اگلے ہی روز صبح سوا چھ بجے زمین زوردار جھٹکے کھانے لگی۔ جب زمین کسی قدر سکون میں آئی تو حضرت مسیح موعودؑ اپنے اہل خانہ کے ہمراہ باغ میں منتقل ہوگئے۔
اس زلزلے کے عینی شاہدین نے کانگڑہ میں تین منٹ کے اندر سارے شہر کی عمارتوں کو زمین بوس ہوتے ہوئے دیکھا۔ انگریز ڈپٹی کمشنر وارنگ مع فیملی، تحصیلدار رام داس اور نائب تحصیلدار نذیر حسین بھی شہر کے بیس ہزار مرنے والوں میں شامل تھے۔ شہر کے مندر اور شہر سے باہر قلعہ بھی ملبے کا ڈھیر بن گئے۔
ضلع کانگڑہ کا صدرمقام دھرم سالہ بھی مکمل طور پر تباہ ہوگیا۔ پورے شہر میں صرف ایک مکان سلامت بچا تھا۔ فوجیوں کی بیرکوں کی تباہی کے نتیجہ میں قریباً 90فوجی بھی ہلاک ہوگئے۔ پولیس کے عملے میں صرف چار سپاہی زندہ بچے۔ لیکن خداتعالیٰ نے ہر احمدی کی معجزانہ حفاظت کی۔ حضرت مصلح موعودؓ فرماتے ہیں:’’دھرم سالہ میں ایک احمدی پر جھوٹا مقدمہ تھا۔ وہ اکثر حضرت مسیح موعودؑ کو دعا کے لئے لکھا کرتا تھا۔ اس زلزلے میں مدعی مجسٹریٹ، وکیل سب دب کر مر گئے مگر اس احمدی کو کوئی نقصان نہیں پہنچا‘‘۔
اس زلزلے میں تحصیل پالم پور میں بھی بڑے پیمانے پر تباہی آئی اور تین ہزار افراد ہلاک ہوئے۔ کانگڑہ سے 35 میل دُور جوالا مُکھی کا بہت پرانا مندر ہے۔ سال میں دو مرتبہ یہاں میلہ لگتا ہے۔ مندر میں کوئی بت نہیں ہے لیکن اس کی دیواروں کی دراڑوں سے شعلے نکلتے ہیں۔ سائنسی طور پر یہاں سے گیس کا اخراج ہوتا ہے جسے آگ لگانے پر وہ جلنے لگتی ہے۔ زلزلے سے قبل یہاں سے شعلے نکلنا بند ہوگئے تو لوگوں کو خیال آیا کہ دیوی ناراض ہوگئی ہے۔ چنانچہ 80 بکروں کی قربانی دی گئی۔ چند روز بعد شعلے پہلے سے بڑھ کر نکلنے لگے۔ عقیدت مند خوش ہوگئے لیکن ابھی یہ خوشی جاری تھی کہ زلزلہ سے مندر کا ایک حصہ منہدم ہوگیا جس کے نتیجہ میں کئی پجاری ہلاک ہوگئے۔ جوالا مُکھی میں سب مکانات تباہ ہوئے اور چار سو افراد ہلاک ہوگئے۔
غرض یہ زلزلہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی صداقت کا عظیم الشان نشان ہے۔

50% LikesVS
50% Dislikes

اپنا تبصرہ بھیجیں