حضرت مسیح موعودؑ کی عبادت الٰہی

ماہنامہ ’’انصاراللہ‘‘ مارچ 2001ء میں حضرت مفتی محمد صادق صاحبؓ کی تقریر کا ایک حصہ پیش کیا گیا ہے جس میں آپؓ نے حضرت مسیح موعودؑ کی عبادتِ الٰہی کے بارہ میں اپنا مشاہدہ بیان کیا تھا۔ آپؓ رقمطراز ہیں کہ حضورؑ نماز باجماعت وغیرہ کے مواقع پر لوگوں کے سامنے اپنے خشوع و خضوع کو اس حد تک ظاہر نہیں کرتے تھے کہ آپؑ کے آنسو ٹپکنے لگیں یا گریہ کی آواز سنائی دے۔ جو نماز آپؑ لوگوں کے سامنے پڑھتے اس کو آپؑ چنداں لمبا نہ کرتے۔ نمازوں کے اوقات کی پابندی کا پورا خیال رکھتے مگر وضو ہمیشہ گھر میں کرکے مسجد آتے تھے۔ جمعہ کے دن پہلی سنتیں بھی گھر میں پڑھ کر مسجد تشریف لے جایا کرتے تھے۔ نماز میں آمین بالجہر نہ کرتے تھے لیکن کرنے والوں کو روکتے بھی نہ تھے۔ رفع یدین نہ کرتے لیکن کرنے والے کو روکتے نہ تھے۔ ہاتھ سینے پر باندھتے تھے لیکن نیچے باندھنے والے کو روکتے نہ تھے۔ حضرت مولوی عبدالکریم صاحبؓ امامت کرواتے اور ہمیشہ بسم اللہ اور آمین بالجہر کرتے اور فجر اور مغرب اور عشاء میں بالجہر قنوت پڑھتے اور گاہے گاہے رفع یدین کرتے۔ حضرت اقدسؑ کی مسجد میں ان امور کو موجبِ اختلاف نہ گردانا جاتا تھا۔ حضورؑ نماز میں جلدی نہ کرتے تھے بلکہ سکون کے ساتھ آہستگی سے رکوع اور سجدہ میں جاتے اور آہستگی کے ساتھ اٹھتے تھے۔
وفات سے کچھ عرصہ قبل جب حضورؑ نماز مغرب و عشاء کے واسطے مسجد تشریف نہ لاسکتے تو گھر میں عورتوں اور بچوں کو جمع کرکے نماز باجماعت ادا کرتے۔
حضورؑ روزہ رکھنے میں بہت پابند تھے۔ اگر سحری کے وقت اذان ہوجائے تو کھانا چھوڑ دیتے تھے۔ کمزوروں کو اجازت دیتے تھے کہ وہ روزہ نہ رکھیں ۔ دینی معاملات میں سختی نہ کرتے تھے گو اپنے نفس پر آپؑ بڑی بڑی تکالیف ڈالتے تھے۔
نماز جنازہ حضورؑ ہمیشہ خود پڑھاتے تھے اور دعا کو اتنا لمبا کرتے تھے کہ بعض دفعہ ہمیں متوفّی پر رشک پیدا ہوتا کہ کاش یہ میرا جنازہ ہوتا اور یہ سب دعائیں میرے حق میں ہوتیں۔ ایک دفعہ نماز جنازہ کے بعد ایک شخص نے اپنے واسطے دعا کے لئے عرض کیا تو فرمایا کہ مَیں نے تو تم سب کا جنازہ پڑھ دیا ہے یعنی صرف میّت کے لئے دعا نہیں کی بلکہ سب کے لئے یہی دعا کردی ہے۔
مخفی عبادات بجالانے میں حضورؑ بہت باقاعدہ تھے۔ حضرت حافظ حامد علی صاحبؓ جو حضورؑ کے پاس چار روپے ماہوار اور کھانے پر ملازم تھے، فرمایا کرتے تھے کہ بسااوقات مَیں حضرت صاحب کے پاؤں دبانے کے واسطے آپؑ کی چارپائی پر بیٹھ جاتا مگر پاؤں دباتے دباتے خود بھی اسی چار پائی پر سو جاتا۔ حضرت صاحب کبھی مجھے نہ جھڑکتے، نہ خفا ہوتے، نہ اٹھاتے بلکہ تمام رات مَیں وہاں سویا رہتا اور معلوم نہیں حضرت صاحب کس حالت میں گزار دیتے تھے مگر مَیں آرام سے سویا رہتا تھا۔ تہجد کے وقت حضورؑ ایسی آہستگی اور خاموشی سے اٹھتے کہ مجھے کبھی خبر نہ ہوتی لیکن گاہے گاہے جبکہ آپؑ کی آواز خشوع و خضوع کے سبب بے اختیار بلند ہوتی تو مجھے خبر ہوجاتی اور مَیں شرمندہ ہوکر اٹھتا۔ لیکن اگر مَیں بے خبری میں سویا رہتا تو حضورؑ مجھے نماز فجر کے وقت اٹھاتے اور مسجد ساتھ لے جاتے۔ حضورؑ نماز میں اِھدنَالصّراطَ الْمُسْتَقِیْم کا بہت تکرار کرتے اور سجدہ میں یَا حیّ یَا قیّوم کا بہت تکرار کرتے۔ عموماً پہلی رکعت میں آیت الکرسی پڑھا کرتے، سجدہ کو بہت لمبا کرتے اور بعض دفعہ ایسا معلوم ہوتا کہ اس گریہ و زاری میں آپؑ پگھل کر بہ جائیں گے۔
نماز تہجد کی خلوت کے علاوہ دن کے وقت عموماً حضورؑ ایک وقت بالکل علیحدگی میں عبادت میں گزارتے تھے۔ بیت الدعا کو اندر سے بند کرکے دو گھنٹہ کے قریب بالکل علیحدگی میں مصروف عبادت رہا کرتے تھے۔ ایام سفر میں بھی آپؑ کے واسطے کوئی چھوٹا سا کمرہ خلوت کے لئے بالکل الگ کردیا جاتا۔ ابتدائی زمانہ میں خلوت کے لئے جنگل میں بھی چلے جایا کرتے تھے۔
نفلی روزوں کو عموماً دوسروں سے مخفی رکھتے تھے۔ عموماً کھانا بھی غرباء کو دے دیتے تھے اور افطاری کے وقت بہت تھوڑا سا کھالیتے۔ فرمایا کرتے تھے کہ بعض دفعہ روزہ میں جب بھوک کے سبب ضعف ہوجاتا تو غنودگی کی حالت میں ایک فرشتہ کچھ کھلادیتا جس سے نہ صرف بدن میں طاقت پیدا ہوجاتی بلکہ بیداری کے وقت اس کھانے کی لذت اور ذائقہ دیر تک زبان پر قائم رہتا۔
تبتّل الی اللہ کا پورا نمونہ آپؑ کی زندگی میں قائم تھا۔ اسباب پر کبھی بھروسہ نہ کرتے، لوگوں کے درمیان بیٹھ کر باتیں کرنا صرف حسن اخلاق کے لئے تھا ورنہ توجہ صرف اللہ تعالیٰ کی طرف ہوتی اور زبان پر اکثر سبحان اللہ جاری رہتا۔
حضورؑ کی وفات کے وقت مَیں آپؑ کے قدموں میں حاضر تھا۔ جب تک آپؑ بول سکتے تھے یہی الفاظ منہ سے نکلتے: اے میرے پیارے اللہ!۔ آخری الفاظ یہی بولے: نماز۔ اور پھر ہاتھ سینے پر باندھ کر نماز پڑھنی شروع کردی۔ پس آپؑ کا آخری فعل بھی اس دنیامیں عبادت ہی تھا۔ آپؑ کا جینا بھی عبادتِ الٰہی میں تھا اور آپؑ کی وفات بھی عبادتِ الٰہی میں ہوئی۔

50% LikesVS
50% Dislikes

اپنا تبصرہ بھیجیں