حضرت مسیح موعودؑ کی قبولیتِ دعا کا معجزہ

حضرت سیّد غلام حسین شاہ صاحبؓ بھیرہ ضلع شاہ پور کے رہنے والے تھے۔ 1896ء میں آپ کو وٹرنری کالج لاہور میں داخلہ ملا۔ لیکن کالج کے طلباء اور پروفیسر آپؓ کے شدید معاند ہوگئے۔ ان حالات میں خداتعالیٰ نے اپنی قادرانہ تجلّی اور نصرت کا زبردست نشان ظاہر فرمایا جس کی تفصیل تعلیم الاسلام کالج ربوہ کے سابق طلباء کی برطانیہ میں قائم ایسوسی ایشن کے آئن لائن ماہنامہ ’’المنار‘‘ اپریل 2011ء میں کتاب ’’درویشانِ قادیان‘‘ سے منقول ہے۔
حضرت سید غلام حسین شاہ صاحبؓ فرماتے ہیں کہ میرے تمام پروفیسروں نے میری سخت مخالفت کی۔ ہر پیر کے دن گزشتہ ہفتہ بھر کے پڑھائے ہوئے اسباق کا امتحان ہوتا تھا۔ ایک پروفیسر تو اتنا زہریلا تھا کہ وہ مجھ سے صرف یہ سوال کرتا کہ تُو مرزے کا مرید ہے؟ مَیں جواب دیتا:جی ہاں۔ تو وہ میرے نام کے آگے صفر لکھ دیتا۔
ہر روزقِسم قِسم کی شرارتیں اور حضرت مسیح موعودؑ کی توہین دیکھ کر مَیں نے کالج چھوڑنے کا ارادہ کرلیا۔ مگر انہی ایام میں حضور علیہ السلام نے ایک اشتہار میں فرمایا کہ جس راستہ پر مَیں اپنی جماعت کو لے جانا چاہتا ہوں اس میں کانٹے اور خاردار جھاڑیاں ہیں۔ جس کسی کے پاؤں نازک ہوں وہ ابھی مجھ سے علیحدہ ہو جائے۔ چنانچہ مَیں یہ پڑھ کر ڈر گیا اور خاموشی اختیار کرلی تاہم حضرت اقدسؑ کی خدمت میں مفصّل حالات لکھے۔ آپؑ کا جواب آیا کہ ’آپ اپنی تعلیم جاری رکھیں۔ ہم اللہ تعالیٰ کے حضور دعا کریں گے‘۔
مَیں کالج میں اچھوت کی طرح الگ تھلگ اداس بیٹھا رہتا کیونکہ کلاس روم میں پروفیسر طنز کرتے اور پُوری کلاس کھِلکھِلا کر ہنستی۔ میرا دل اکثر مغموم رہتا لیکن حضرت اقدسؑ کی دعائوں کا سہارا ضرور تھا۔ کورس دو برس کا تھا۔ کالج کے پانچ مضامین میں اول، دوم، سوم آنے پر انعامات کے علاوہ سرجری اور میڈیسن میں اوّل آنے پر دو چاندی کے تمغے جبکہ کالج میں اوّل آنے والے کے لئے سونے کا تمغہ مقرر تھا۔ جوں جوں امتحان قریب آتا جاتا، لائق فائق سٹوڈنٹس اپنی اپنی علمیت کے مطابق انعامات اور تمغہ جات آپس میں اپنے قیاس کے لحاظ سے تقسیم کرتے رہتے۔ جبکہ مَیں ایک طرف اداس بیٹھا ہوا اللہ تعالیٰ سے یہ دعا کرتا رہتا کہ اے خدا تعالیٰ! تُو مجھے پاس ہی کر دے۔
فائنل امتحان لینے کے لئے وٹرنری محکمہ کے انگریز افسر بطور بیرونی ممتحن آیا کرتے تھے جو اردو زبان سے بھی کافی واقفیت رکھتے تھے۔ اُن کے پا س مضمون کا متعلقہ پروفیسر بیٹھ جاتا اور ممتحن کے انگریزی میں کئے گئے سوال کا اردو ترجمہ کرکے لڑکے کو بتادیتا اور اگر ضرورت ہوتی تو لڑکے کے جواب کا انگریزی میں ترجمہ بھی ممتحن کو بتادیتا۔
ایک ممتحن صرف ایک ہی سوال پوچھتا تھا جس کا جواب نہ تو ہماری کتب میں تھا اور نہ ہی کسی پروفیسر نے اپنے لیکچر میں بتایا تھا۔ سوال یہ تھا کہ ہمیں کیسے معلوم ہوگا کہ ایک گھوڑے کو پیریوڈک آفتھیلیا کا دَورہ پڑا کرتا ہے۔ مجھ سے قبل وہ چند طلباء کو فیل بھی کر چکا تھا۔ مجھ سے جب یہ سوال ہؤا تو مَیں بہت گھبرایا۔ مگر یہ خیال کرکے کہ مرض آنکھوں کا ہے کچھ تو بولنا چاہئے۔ لہٰذا میں نے اپنی ایک آنکھ کو ذرا بھینچا اور ابھی کچھ کہنے ہی نہ پایا تھا کہ ممتحن اپنی کرسی سے اچھلا اور میرے پروفیسر سے کہا کہ دیکھو بعینہٖ ایسا ہی حلقہ اس گھوڑے کی آنکھ کے گرد پڑا ہوتا ہے جیسا اس لڑکے نے بنایا ہے۔ ممتحن کے کہنے پر جب مَیں نے دوبارہ آنکھ بھینچ کر دکھائی تو اُس نے مجھے اس سوال کے پورے نمبر دیدئیے جس کے نتیجے میں مَیں اس مضمون میں اوّل آکر نقد انعام اور چاندی کے تمغہ کا حقدار قرار پایا۔
جب تحریری امتحان شروع ہوا تو مَیں نے یہ کرشمہ قدرت دیکھا کہ اگر مَیں نے ہزار صفحہ کی کتاب میں سے صرف تین چار سوال ہی یاد کئے ہوتے تھے تو ممتحن مجھ سے وہی سوال پوچھتا اور پورا جواب پاکر مجھے اچھے نمبر دیتا۔ یہ بات کسی ایک مضمون کی نہیں بلکہ پانچوں مضامین کی تھی۔ اس طرح خدا کے فضل سے مجھے تمام مضامین میں انگریز ممتحنوں نے اوّل قرار دیا۔ فائنل امتحان کا نتیجہ نکلا تو مَیں ہر مضمون میں اور مجموعی طور پر بھی اوّل آیا۔ یہ نتیجہ نکلنا تھا کہ کالج میں ایک کہرام مچ گیا کہ قادیانی مرزائی اوّل آ گیا۔ جو لائق فائق لڑکے کتابوں کے حافظ مشہور تھے وہ تو چیخیں مار مار کر رونے لگے۔ تمام کالج میں ایک صفِ ماتم بچھ گئی۔
تاہم شرپسند عناصر اور فتنہ پرور پروفیسروں کے لئے ابھی کچھ ذلّت مقدّر تھی۔ وہ ایک وفد بناکر مجھے بھی ساتھ لے جاکر ممتحنوں کے انچارج کے کمرہ میں پہنچے اور عرض کیا کہ یہ لڑکا تو بہت ہی نالائق ہے۔ اس نے کبھی ہفتہ واری امتحانات میں بھی پورے نمبر نہیں لئے مگر اس کو ہر مضمون میں اوّل قرار دیا گیا ہے۔ غالباً یہ کوئی چانس ہو گیا ہے اس کا امتحان دوبارہ لیا جائے۔
اس پر وہ انگریز پریذیڈنٹ میری ریزلٹ شیٹ میز پر رکھ کر کہنے لگا کہ جب یہ لڑکا پانچوں مضامین میں فرسٹ آیا ہے تو یہ کوئی اتفاق نہیں ہوسکتا۔ اگر یہ کسی ایک آدھ مضمون میں فرسٹ آ جاتا تب چانس کہہ سکتے تھے۔ اِس پر پروفیسروں نے عرض کیا کہ یہ تو بہت ہی نالائق ہے آپ اس کا امتحان دوبارہ لے کر دیکھ لیں۔ اس پر اُس نے جھڑک کر کہا کہ ہم تمہارے کالج کے لڑکوں کے ساتھ ناانصافی کرنے کے لئے نہیں آئے۔ امتحان لینے آئے تھے اور وہ ہم نے لے لیا ہے۔ اور پھر سختی سے بولا: بہتر ہے کہ تم فوراً میرے دفتر سے نکل جاؤ اور ہمارا وقت ضائع مت کرو۔ اس طرح پر مخالفین کا وفد ذلیل ہوکر نامراد واپس آگیا۔
بعد ازاں لیفٹیننٹ گورنر پنجاب نے پنجاب وٹرنری کالج میں آکر انعامات تقسیم کئے۔ تمام انعامات حاصل کرکے جب مَیں اپنے پروفیسروں کو الوداعی سلام کرنے کے لئے حاضر ہوا تو حسد سے اُن کا بُرا حال تھا۔ وہ کہنے لگے کہ تم اِسے اپنے مرزا کا معجزہ سمجھتے ہوگے…!۔
مَیں نے کہا کہ معجزے کے سر پر سینگ تو نہیں ہوتے، اگر یہ معجزہ نہیں تو اَور کیا ہے؟ معجزہ تو ضرور ہوا ہے۔ آپ کی آنکھوں کے سامنے ہوا۔ آپ کے کالج میں ہوا۔ آپ کے بدست ہوا۔ پھر بھی آپ نہ مانیں تو کیا علاج!۔
پھر مَیں نے قادیان آکر اپنے جملہ انعامات کو حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی خدمت میں پیش کیا اور کچھ نقدی بھی بطور نذرانہ پیش کی۔ حضورؑ دیکھ کر بہت خوش ہوئے اور دعائیں دیں۔

50% LikesVS
50% Dislikes

اپنا تبصرہ بھیجیں