حضرت مسیح موعودؑ کے صحابہؓ کی قبولیت دعا کے ایمان افروز واقعات

مجلس انصاراللہ برطانیہ کے رسالہ ’’انصارالدین‘‘ جنوری و فروری 2011ء میں مکرم عطاء الوحید باجوہ صاحب کے قلم سے صحابہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی قبولیت دعا اور حفاظتِ الٰہی کے ایمان افروز واقعات پر مشتمل ایک مضمون شامل اشاعت ہے۔
= 1907ء میں حضرت مسیح موعودؑ نے نوجوانوں کو زندگیاں وقف کرنے کی تحریک فرمائی تو حضرت مفتی محمد صادق صاحبؓ نے بھی لبیک کہا۔ 1917ء میں جنگ عظیم اوّل کے دوران جب حضرت خلیفۃ المسیح الثانیؓنے آپؓ کو انگلستان جانے کا ارشاد فرمایا تو چند عورتوں نے حضورؓ کی خدمت میں عرض کی کہ سمندری سفر خطرے سے خالی نہیں لوگ گیہوں کی طرح پِس رہے ہیں۔ اگر حضرت مفتی صاحب کو بھی روک لیا جائے تو بہتر ہے۔ جواباً حضورؓ نے فرمایا کہ گیہوں چکی میں پسنے کے لئے ڈالے جاتے ہیں مگر ان میں سے بھی کچھ اوپر رہ جاتے ہیں جو نہیں پستے۔ تو یہ مفتی صاحب بچے ہوئے گیہوں ہیں، پِسنے والے نہیں۔
چنانچہ حضرت مفتی صاحبؓ انگلستان کے لئے بمبئی سے روانہ ہوئے تو جہاز میں ہی تبلیغ شروع کردی۔ تین دن کے اندر اندر ایک انگریز نے احمدیت قبول کرلی اور پھر یہ سلسلہ جاری رہا اور سفر کے دوران ہی متعدد افراد نے احمدیت قبول کرلی۔ پھر ایک موقع ایسا آیا کہ کپتان نے خدشہ ظاہر کیا کہ یہ جہاز ڈوب سکتا ہے۔ اس پر جہاز میں کہرام مچ گیا تو حضرت مفتی صاحبؓ دعا کرنے کے بعد لوگوں کو تسلیاں دیتے رہے۔ کیونکہ آپؓ نے خواب میں دیکھا تھا کہ ایک فرشتہ انگریزی میں کہتا ہے: ’صادق یقین کرو یہ جہاز سلامت پہنچے گا‘۔ چنانچہ جہاز بخیریت منزل پر پہنچا اور مفتی صاحب کو تبلیغ کا ایک اَور عمدہ موقع مل گیا۔
= مکرم برکات احمد راجیکی صاحب تحریر فرماتے ہیں کہ 1942ء میں مَیں لاہور میں ملازم تھا۔میرے بائیں کان میں پھوڑا نکلا اور شدید ورم اور درد کی وجہ سے مَیں رخصت پر قادیان آگیا۔ دفتر والوں نے چار ماہ کی رخصت ڈاکٹر حشمت اﷲ صاحبؓ کے سرٹیفکیٹ پر منظور کرلی۔ جب رخصت ختم ہونے میں چند دن باقی تھے اور میری طبیعت بھی بہت حد تک سنبھل چکی تھی تو دفتر کی طرف سے سول سرجن گورداسپور کو لکھا گیا کہ وہ میرا معائنہ کرکے رپورٹ کریں اور مجھے بھی اُن سے جلد معائنہ کروانے کی ہدایت کی گئی۔ میری طبیعت پر یہ بوجھ تھا کہ اب صحت کافی اچھی ہو چکی ہے اگر سول سرجن نے لکھا کہ میں ڈیوٹی دینے کے قابل ہوں تو دفتر والے الزام دیں گے کہ پہلا سرٹیفیکیٹ غلط تھا اور اگر اس نے کام کے ناقابل بتایا تو مخالف افسر لمبی بیماری کی وجہ سے ملازمت سے برخواست کرسکتا تھا۔ مَیں نے اپنی اس الجھن کو حضرت والد بزرگوار مولانا غلام رسول راجیکی صاحبؓ کی خدمت میں بیان کیا۔ آپؓ نے فرمایا: مَیں دعا کروں گاتم کوئی فکر نہ کرو اور گورداسپور جاکر معائنہ کرا لو۔ چنانچہ مَیں سائیکل پر نہر کے راستہ گورداسپور روانہ ہوا۔ برسات کا موسم تھا اور آسمان پر بادل منڈلا رہے تھے۔ لیکن میں باآرام گورداسپور پہنچ گیا ۔ جب معائنہ کرا کے واپس لوٹا تو رستہ میں نہر کی پٹری پر بارش کے آثار تھے اور بعض نشیبی جگہوں پر بارش کا پانی کھڑا تھا۔ لیکن جہاں جہاں سے مَیں گزر رہا تھا وہاں مطلع صاف تھا۔ اس طرح خاکسار بسہولت واپس لوٹا۔ واپسی پر حضرت والد صاحبؓ نے بتایا کہ جب تم سائیکل پر روانہ ہوئے تو کچھ دیر بعد گھنا بادل چھا گیا اور بارش شروع ہوگئی۔ مَیں نے تمہاری تکلیف اور بے سرو سامانی کا خیال کرکے خداتعالیٰ کے حضور التجا کی کہ بارش سے برکات احمد بچ جائے اور اس کو کوئی تکلیف نہ ہو۔چنانچہ اﷲ تعالیٰ کا فضل شامل حال ہوا اور تم آرام و سہولت سے واپس آگئے۔
بعد میں دفتر کی الجھن بھی دُور ہوگئی۔ الحمدللہ
= حضرت فیض الدین صاحبؓ نے ملک حسن محمد صاحب سمبڑیالوی کو بتایا کہ مجھے جب یہ علم ہوا کہ لوگ میرے قتل کے درپے ہیں تو میں نے کثرت سے اس دعا کا ورد شروع کردیا کہ ’’اے خدا! میری دعا سن اور اپنے اور میرے دشمنوں کو پراگندہ کر‘‘۔ ایک دن مَیں مسجد میں بیٹھا تھا کہ ایک شریر ہاتھ میں ڈنڈا لئے گالیاں دیتا ہوا مسجد میں گھس آیا۔ مَیں نے دونوں ہاتھ اُٹھا کر یہی دعا پڑھنی شروع کر دی۔ مَیں نے محسوس کیا کہ اس نے دائیں بائیں دونوں طرف چکر لگائے پھر کچھ بڑبڑاتا ہوا باہر چلا گیا۔ اس دعا کو مَیں نے مخالفت کے دنوں میں بہت مؤثر پایا۔
= حضرت حافظ محمد حسین صاحبؓ تحریر کرتے ہیں کہ ٹرپئی میں مخالفین صلاح مشورہ کرنے لگے کہ مرزائی چپکے سے کچی مسجد میں جمعہ پڑھ لیتے ہیں اور کوئی اُن کو پوچھتا تک نہیں۔اس لئے آئندہ جمعہ سارا گائوں کچی مسجد میں ادا کرے اور پختہ مسجد میں ان کو آنے نہ دیا جائے اور آخری دفعہ ان کا پورا پورا بندو بست کریں۔ چنانچہ مجھے کئی دوستوں نے کہا کہ مناسب ہے تم چند یوم کے لئے کہیں چلے جائو۔ مَیں نے کہا اگر اب کی دفعہ چلے گئے تو اگلے جمعہ کو وہ پھر ایسے ہی کریں گے۔ جوں جوں جمعہ کا دن قریب آتا جاتا تھا شور زیادہ ہوتا جاتا تھا۔ جمعرات کی رات مَیں اکیلا دیر تک نماز پڑھتا اور دعا کرتا رہا۔ ابھی وتر باقی تھے اور سنتوں کے سلام کے لئے التحیات میں بیٹھا ہوا تھا کہ یکایک نور کا شعلہ دُور سے آتا ہوا دکھائی دیا اور پہلو کی طرف دل پر آکر لگا جس سے بلند آواز سنائی دی: اَلَیْسَ اللّٰہُ بِکَافٍ عَبْدَہٗ۔ اس کے بعد درود شریف کے حروف زبان پر تھے۔
اگلے روز جمعہ تو انہوں نے بھی کچی مسجد میں پڑھا مگر ہم کو کسی نے پوچھا تک نہیں۔ صرف جمعہ کے بعد میری طرف اشارہ ایک دوسرے سے یہ باتیں کرنے لگے کہ اب یہ تو مرزائی ہو گیا ہے امام کس کو بنائیں؟ ایک نے کسی کا نام لیا اور دوسرے نے اُس پر چوری کا الزام لگایا۔ دوسرے نے کسی اَور کا نام لیا تیسرے نے اس پر کوئی اَور الزام لگایا۔ اسی طرح کرتے ہوئے وہ مسجد سے چلے گئے۔
= حضرت حافظ محمد حسین صاحبؓ مزید بیان فرماتے ہیں کہ چوہدری رستم علی کی تدفین کے بعد حضرت خلیفۃ المسیح الثانیؓ حضرت مسیح موعودؑکے مزارِمبارک پر تشریف لے گئے۔ جب حضورؓ دعا کر رہے تھے تو خاکسار کو حضرت اقدسؑ کاچہرہ مبارک دکھائی دیا اور فرمانے لگے کہ محمود کے آجکل بہت دشمن ہیں مگر خُدا کے فرشتے ہر وقت ان کے ہمراہ ہوتے ہیں۔ضرورت کے وقت تو بیشمار ہوتے ہیں مگر پانچ فرشتے ہر وقت ہمراہ ہوتے ہیں۔اتنے میں حضورؓ دعا سے فارغ ہوگئے اور مجھ سے بھی وہ حالت جاتی رہی۔
= حضرت حکیم عبد الصمد صاحبؓ کی بیٹی 1947ء کی ہجرت کے ضمن میں تحریر کرتی ہیں کہ جب قادیان کے حالات زیادہ خراب ہوئے تو لوگوں کو محفوظ مقامات پر لے جایا گیا اور حضرت میاں بشیر احمد صاحبؓ کی ہدایت پر اباجان کو دارالمسیح میں ٹھہرایا گیا۔ مجھے وہ منظر خوب یاد ہے جب ابا جان دعائیں پڑھتے ہوئے اپنے گھر سے نکلے تو چاروں طرف سکھ تھے۔ آپؓ دعائیں پڑھتے ہوئے آگے چل رہے تھے اور اُن کے پیچھے ہم سب یعنی پانچ بہنیں، بھابھی اور دو ہماری ماموں زاد بہنیں تھیں۔ اس طرح ہمارا سکھوں کے درمیان سے نکلنا معجزہ سے کم نہ تھا۔
پھر جس ٹرک میں ہم سوار ہوئے اس میں حضرت پیر منظور محمد صاحبؓ (قاعدہ یسرنا القران والے) بھی تھے۔ کانوائے حرکت میں آیا تو انہوں نے ’’بِسْمِ اﷲِ مَجْرٖھَا‘‘ پڑھنا شروع کیا اور تمام راستے یہ الفاظ ان کے ورد زبان رہے۔ کئی مقامات خطرے کے آئے مگر اﷲ تعالیٰ نے تمام خطرے ٹالے۔ کانوائے نہر کی پٹری پر چل رہا تھا ۔دوسری طرف سکھوں کے فوجی مورچہ جمائے ہوتے تو ایک جیپ میں سوار فوجی لوگوں کو کہتا جاتا کہ ٹرک میں لیٹ جاؤ خطرہ ہے۔ جب خطرہ ٹل جاتا تو پھر وہ کہتا اب بیشک بیٹھ جاؤ۔ ٹرک خراب ہو جاتا تو وہ تمام کانوائے کو روک دیتا۔ جب ٹرک ٹھیک ہو جاتا تو ساتھ لے کر چلتا۔ شام کو ہم لاہور میں پہنچ گئے تو خوشی سے نعرہ تکبیر بلند ہوئے۔جو دھامل بلڈنگ پہنچتے پہنچتے ہم کو رات ہو گئی۔ صبح کو حضورؓ کو اطلاع دی گئی کہ حکیم صاحب بھی معہ بچوں کے اس کانوائے میں آگئے ہیں تو حضورؓ خوش ہوئے۔ حضرت اماں جانؓ نے مسکرا کر فرمایا کہ لڑکیو زندہ سلامت آگئیں؟ ہم نے جواب دیا آپ دعائیں جو بہت کر رہی تھیں۔
= مکرم ڈاکٹر لعل محمد بارہ منگوی تحریر کرتے ہیں کہ غالباً 1929 ء کے جلسہ سالانہ کے بعد مَیں لکھنؤ واپس جانے کے لئے قادیان کے سٹیشن پر ریل میں بیٹھا تھا کہ دیکھا کہ حضرت مولانا شیر علی صاحبؓ ایک مٹکا ہاتھوں میں اُٹھائے گاڑی کے ڈبوں میں جھانکتے پھر رہے ہیں۔ میرے والے ڈبے کے سامنے آکر آپؓ نے پوچھا کہ کوئی لکھنؤ جانے والے صاحب بھی ہیں۔ مَیں نے فوراً عرض کیا: مَیں جارہا ہوں۔ آپؓ نے فرمایا: یہ گھی میرے لڑکے عبدالرحمن کو دے دینا، وہ لکھنؤ میں ASC میں پڑھتا ہے ۔ مَیں نے مٹکا لے لیا۔ حضرت مولوی صاحبؓ نے دعا کے لئے ہاتھ اُٹھاتے ہوئے فرمایا: مَیں آپ کے بخیر و عافیت پہنچنے کے لئے دعا کرتا ہوں۔ اجتماعی دعا کے بعد آپؓ نے کہا: آپ سفر پر جارہے ہیں، ﷲ آپ کے ساتھ ہو۔
اُسی روز چار بجے سہ پہر کے قریب امرتسر سے مَیں دوسری گاڑی میں سوار ہوا۔ رات بارہ بجے کے قریب کلڑبک گنج اسٹیشن سے پہلے یکایک دھماکہ ہوا اور یوں معلوم ہونے لگا کہ گویا کوئی پُل ٹوٹ گیا ہے اور گاڑی بڑی تیزی کے ساتھ نیچے کی طرف جا رہی ہے۔ سارے مسافر گھبرا گئے ۔میں نے درود شریف پڑھنا شروع کر دیا۔ چند ہی سیکنڈ میں گاڑی رُک گئی۔ گارڈ چیخ چیخ کر مسافروں کو نیچے اُترنے کی ہدایت کرنے لگا۔ مَیں جلدی میں کھڑکی کے راستہ سے نیچے اترا تو معلوم ہوا کہ ہماری گاڑی کی ایک مال گاڑی سے ٹکر ہو گئی ہے اور چیخ و پکار پڑی ہوئی ہے۔ سامنے کا ڈبہ اپنے سے اگلے ڈبہ میں گھسا ہوا ہے۔ دونوں ڈبوں کے تختے ایک دوسرے میں گھسے ہوئے تھے اور ایک مسافر ان میں پھنسا ہوا تڑپ رہا تھا۔ مجھے اپنے سامان اور حضرت مولوی صاحبؓ کے مٹکے کا خیال آیا۔ دیکھا تو حیرت ہوئی کہ گھی کا مٹکا (جس میں 7-6 سیر کے قریب گھی تھا) جوں کا توں اپنی جگہ پر رکھا ہوا تھا۔ میں نے خدا کا شکر ادا کیا اور دل میں سوچا کہ یہ حضرت مولوی صاحبؓ کی دعا کا کرشمہ تھا کہ گھی کا یہ مٹکا اور اس مٹکے کے طفیل مَیں بچ رہا۔ پھر دوسری گاڑی میں سوار ہو کر ہم بخیریت لکھنؤ پہنچ گئے۔
ز حضرت مولانا محمد حسین صاحبؓ بیان کرتے ہیں کہ سخت جنگ کے دنوں میں ایک دن ہم جہاز میں کام کر رہے تھے کہ حکم آیا کہ یہ جہاز مع کام کرنے والوں کے بغداد بھیج دیا جائے۔ میرے ساتھیوں نے یہ سنتے ہی رونا شروع کردیا مگر میں نے نفل پڑھنے شروع کر دیئے۔ جہاز کی روانگی کا دو مرتبہ وسل ہو چکا تھا کہ جنرل صاحب کی طرف سے فون آیا کہ اُن کے معائنہ کے بغیر جہاز روانہ نہ کیا جائے۔ چنانچہ وہ وہاں پہنچے۔ ہم فِٹر ساحل پر کھڑے ہوکر معائنہ ختم ہونے کا انتظار کرنے لگے۔ جب معائنہ ہوگیا تو جنرل صاحب نے جہاز کے کپتان سے ہمارے بارہ میں پوچھا کہ یہ فِٹر کنارہ کے ہیں یا پانی کے؟ اُس نے جواب دیا: کنارہ کے۔ جنرل صاحب نے کہا صرف پانی کے فِٹر اپنے ہمراہ لے جاؤ۔ چنانچہ ہمیں وہیں ساحل پر ہی چھوڑ دیا گیا اور پانی کے فِٹر بلائے گئے جنہیں لے کر جہاز روانہ ہوگیا۔ رات دو بجے کے قریب اطلاع آئی کہ دشمن نے جہاز غرق کر دیا ہے اور ایک آدمی بھی زندہ نہیں بچ سکا۔
ز حضرت مولانا محمد ابراہیم بقا پوری صاحبؓ بیان کرتے ہیں کہ مکرم چوہدری محمد شریف صاحب وکیل کا تار آیا کہ 1955 ء کے سیلاب کی طرح ہمارے گاؤں میں بھی اب سیلاب آنے والا ہے،دعائے خاص کی ضرورت ہے۔ میں نے ایک دو دن دعا کی تو الہام ہوا’’ الان کما کان‘‘ یعنی پہلے کی طرح ان کا گائوں انشاء ﷲ بچایا جائے گا۔ الحمدﷲ کہ آج 10-09-57ء کو ان کا خط موصول ہوا کہ ﷲ تعالیٰ نے اپنے فضل سے محفوظ رکھا۔

50% LikesVS
50% Dislikes

اپنا تبصرہ بھیجیں