حضرت مسیح موعودؑ کی اتباع سنت نبویؐ

روزنامہ ’’الفضل‘‘ ربوہ 17؍مارچ2008ء میں مکرم غلام مصباح بلوچ صاحب کے قلم سے ایک مضمون شامل اشاعت ہے جس میں سنّت نبوی کے احیاء کے حوالہ سے حضرت مسیح موعودؑ کی سیرت طیبہ پر روشنی ڈالی گئی ہے۔
حضرت مسیح موعودؑ فرماتے ہیں:
’’خداوند کریم نے اُسی رسول مقبولؐ کی متابعت اور محبت کی برکت سے اور اپنے پاک کلام کی پیروی کی تاثیر سے اِس خاکسار کو اپنے مخاطبات سے خاص کیا ہے اور علومِ لدُنیہ سے سرفراز فرمایا ہے اور بہت سے اسرار مخفیہ سے اطلاع بخشی ہے اور بہت سے حقائق اور معارف سے اِس ناچیز کے سینہ کو پُر کر دیا ہے اور بارہا بتلادیا ہے کہ یہ سب عطیات اور عنایات اور یہ سب تفضّلات اور احسانات اور یہ سب تلطّفات اور توجہات اور یہ سب انعامات اور تائیدات اور یہ سب مکالمات اور مخاطبات بیُمن متابعت و محبت حضرت خاتم الانبیاء ﷺ ہیں‘‘۔ (براہین احمدیہ۔ روحانی خزائن جلد 1۔ صفحہ 645 حاشیہ)
حضرت مسیح موعودؑ نے اللہ تعالیٰ کی طرف سے انسانی ہدایت کے لئے عطا کردہ ذرائع میں قرآن پاک کے بعد سنت نبوی کو رکھا ہے۔ اور خود اس پہلو میں
بے نظیر نمونہ دکھایا ہے۔ ایک جگہ فرمایا:
’’میری صداقت کے نشانوں میں سے ایک یہ بھی ہے کہ اللہ تعالیٰ نے مجھے اپنے رسول ﷺ کی اتباع اور پیروی کی توفیق بخشی ہے پس میں نے آنحضرت ﷺ کی باتوں میں سے کوئی بات ایسی نہیں دیکھی جس کو میں نے پورا نہ کیا ہو اور مشکلات کے پہاڑوں میں سے کوئی ایسا پہاڑ نہیں دیکھا جس کو میں نے سَر نہ کیا ہو، اور میرے ربّ نے مجھے ان لوگوں سے ملا دیا ہے جن پر انعام کیا جاتا ہے‘‘۔(ترجمہ آئینہ کمالات اسلام۔ روحانی خزائن جلد 5۔ صفحہ 483)
٭ حضرت مرزا دین محمد صاحبؓ آف لنگر وال بیان فرماتے ہیں کہ نماز فجرکے وقت آپؑ پانی کے ہلکے چھینٹوں سے مجھے جگاتے تھے۔ ایک دفعہ میں نے دریافت کیا کہ حضور مجھے ویسے ہی کیوں نہیں جگا دیتے؟ آپؑ نے فرمایا: رسول کریم ﷺ کا یہی طریق تھا، اس سنت پر میں کام کرتا ہوں۔
٭ آنحضورﷺ نے (بلاضرورت) کھڑے ہوکر پانی پینے سے منع فرمایا۔ ایڈیٹر صاحب البدر حضورؑ کے سفر گورداسپور کا ذکر کرتے ہوئے فرماتے ہیں: ’’حضرت مسیح موعودؑ کھڑے ہوئے تھے، آپؑ نے پانی مانگا۔ جب پانی آیا تو اُسے بیٹھ کر آپ نے پیا اور بھی کئی دفعہ دیکھا گیا ہے کہ پانی وغیرہ آپ ہمیشہ بیٹھ کر ہی پیتے ہیں۔
٭ حضرت جابرؓ بیان کرتے ہیں کہ آنحضورﷺ نے ایسی چھت پر سونے سے منع فرمایا ہے جس پر پردہ کی دیوار یا منڈیر نہ ہو۔ حضرت میاں عبد العزیز صاحبؓ المعروف مغل بیان کرتے ہیں کہ گورداسپور میں جب کرم دین کے مقدمہ میں حضورؑ تشریف لے گئے تو وہاں آپؑ نے ایک کوٹھی غالباً کرایہ پر لی، گرمی کے دن تھے۔ چارپائیاں شام کے بعد ہم نے چھت پر چڑھا دیں اور لکڑی کی سیڑھی لگا کر ہم چھت پر چڑھے حضور بھی چڑھے مگر اوپر پہنچتے ہی فرمایا کہ یہاں سے چارپائیاں نیچے اتار دو کیونکہ حضرت نبی کریم ﷺ نے فرمایا ہے کہ جس چھت کے منڈیر اونچے نہ ہوں وہاں نہیں سونا چاہئے۔ چنانچہ چارپائیاں اُتار دی گئیں، حضور ایک کمرہ میں سوئے اور مفتی محمد صادق صاحبؓ اُس رات حضورؑ کو پنکھا کرتے رہے۔
٭ حضرت مرزا بشیر احمد صاحبؓ فرماتے ہیں کہ ایک موقع پر جبکہ حضرت مسیح موعودؑ اپنے کمرہ میں تشریف رکھتے تھے اور اُس وقت کچھ مہمان بھی آپ کی خدمت میں حاضر تھے کہ کسی شخص نے دروازہ پر دستک دی۔ اِس پر حاضرالوقت لوگوں میں سے ایک شخص نے اُٹھ کر دروازہ کھولنا چاہا تو حضرت مسیح موعودؑ جلدی سے اُٹھے اور فرمایا: ’’ٹھہریں ٹھہریں مَیں خود دروازہ کھولوں گا، آپ مہمان ہیں اور آنحضرت ﷺ نے فرمایا ہے کہ مہمان کا اکرام کرنا چاہئے‘‘۔
٭ آنحضرت ﷺ کا ایک ارشاد یہ ہے کہ مہمان نوازی تین دنوں تک ہوتی ہے۔ حضرت شیخ غلام احمد صاحب واعظؓ سابق لالہ ہیرا لعل بیان کرتے ہیں کہ 1900ء کے بعد میں قادیان میں مقیم ہوگیا اور تھوڑے عرصہ کے بعد شیر فروشی کی دکان کر لی اور حضرت مسیح موعود ؑ سے عرض کیا کہ میں سیر بھر دودھ روزانہ آپؑ کے لئے بھیجا کروں گا۔ آپؑ نے فرمایا: میں نے تو بکری رکھی ہوئی ہے۔ مگر میں تین روز دودھ بھیجتا رہا۔ چوتھے روز آپؑ نے کہلا بھیجا کہ آج دودھ نہ بھیجنا۔ میں نے رقعہ کے ذریعہ عرض کیا کہ حضور ناراض ہوگئے ہیں یا دودھ اچھا نہیں ہوتا؟ آپؑ نے جواب میں ارشاد فرمایا کہ شریعت میں دعوت کی حد تین دن ہے… پس میں نے اسی پر عمل کیا۔
٭ آنحضرت ﷺ کا ایک ارشاد یوں ہے کہ جب تم سنو کہ کسی علاقہ میں طاعون پھوٹ پڑی ہے تو تم ہرگز اس علاقہ میں داخل نہ ہو اور اگر تم بھی اُسی علاقہ میں موجود ہو جہاں طاعون پھوٹی ہے تو پھر اس علاقہ سے مت نکلو۔ جب اللہ تعالیٰ نے حضرت مسیح موعود ؑ کے نشانوں میں طاعون کو بھی ظاہر فرمایا تو اگرچہ حضورؑ کو احمدیوں کی غیر معمولی الٰہی حفاظت کا یقین تھا لیکن اس کے باوجود آپ فرمانِ رسول ﷺ کی مکمل پاسداری فرماتے۔ حضرت زین العابدین ولی اللہ شاہ صاحبؓ اپنے والد حضرت ڈاکٹر عبد الستار شاہ صاحبؓ کا واقعہ بیان کرتے ہوئے فرماتے ہیں کہ غالباً 1905ء کا واقعہ ہے کہ طاعون پنجاب میں زوروں پر تھی۔ راولپنڈی کا ضلع خاص طور پر لقمہ اجل بنا ہوا تھا حضرت والد صاحب مرحوم نے حضور سے اپنے وطن (سہالہ ضلع راولپنڈی) جانے کی درخواست کی مگر حضور نے اس بناء پر جانے سے روک دیا کہ حدیث میں منع ہے کہ کوئی شخص ایسی جگہ جائے جہاں وبا پھیلی ہوئی ہے۔
٭ حضرت حافظ محمد ابراہیم صاحبؓ فرماتے ہیں کہ ایک دفعہ حضرت مسیح موعود ؑ سیر کو جارہے تھے اور بکثرت دوست ساتھ تھے۔ آپؑ نے اپنے تمام دوستوں کی طرف دیکھا جو کچھ آگے کچھ پیچھے، کچھ دائیں اور بائیں تھے۔ پھر فرمایا کہ ہمارے آنحضرت ﷺ اپنے صحابہ کے ساتھ جنگوں میں جایا کرتے تھے اور ہم اس سنت کو اس طرح ادا کر لیتے ہیں کہ صبح کے وقت اپنے دوستوں کے ساتھ تھوڑی دور تک سیر کرتے ہیں ۔
٭ نماز میں امام کی اتباع کے متعلق آنحضور ﷺ نے سختی سے تاکید فرمائی ہے۔ اس پہلو سے حضرت مسیح موعودؑ کے حسین نمونہ کا ذکر حضرت چوہدری غلام سرور باجوہ صاحبؓ یوں فرماتے ہیں کہ ظہر کی نماز حضرت خلیفہ اولؓ پڑھا رہے تھے، حضرت صاحب پیچھے کھڑے تھے۔ جب اللہ اکبر ہوئی اور مقتدی کھڑے ہوگئے۔ حضرت خلیفہ اولؓ بڑھاپے کی وجہ سے جلدی نہ اُٹھ سکے، حضرت صاحب نے احتیاط کی یعنی امام کی پوری پوری اقتداء کی ،باقی نے خیال نہ رکھا۔
حضرت مولانا محمد ابراہیم بقاپوری صاحبؓ بیان فرماتے ہیں کہ ایک دفعہ نماز عصر میں حضرت خلیفہ اولؓ امام تھے۔ حضور نے امام کی اقتداء کا ایسا اعلیٰ نمونہ دکھایا جو قریباً ہم سب مقتدی ادا نہ کر سکے۔ یعنی حضرت خلیفہ اولؓ نے دوسری رکعت کیلئے اُٹھنے میں ذرا دیر لگائی۔ ہم سب مقتدی کھڑے ہوگئے لیکن حضرت مسیح موعودؑ اُسی طرح بیٹھے رہے اور جس طرح آہستہ آہستہ مولوی صاحب کھڑے ہوئے اسی طرح بعد میں حضرت مسیح موعودؑ کھڑے ہوگئے۔
٭ جس طرح آنحضورﷺ نے کبھی مردوں کو، کبھی عورتوں کو، کبھی عوام الناس کو اور کبھی حکام کو دعوت الی اللہ دی۔ اسی طرح حضور علیہ السلام نے بھی کیا۔ چنانچہ خود فرمایا کہ جس طرح آپﷺ نے نام بنام سب کو خدا کا پیغام پہنچا دیا، ایساہی میں نے بھی کئی مرتبہ عورتوں اور مردوں کو مختلف موقعوں پر تبلیغ کی ہے اور اب بھی کبھی گھر میں وعظ سنایا کرتا ہوں۔
٭ حضرت عائشہؓ بیان کرتی ہیں کہ آنحضور ﷺ مسواک کیا کرتے تھے۔ حضرت مسیح موعودؑ کی زندگی میں بھی یہ فعل روز مرہ کے معمولات میں سے نظر آتا ہے۔ حضرت مفتی محمد صادق صاحبؓ بیان کرتے ہیں کہ حضرت صاحب مسواک کو بہت پسند فرماتے ہیں اور علاوہ مسواک کے اور مختلف چیزوں سے دن میں کئی دفعہ دانتوں کو صاف کرتے ہیں۔
حضرت میر محمد اسماعیل صاحبؓ فرماتے ہیں کہ حضرت صاحب مسواک بہت پسند فرماتے تھے۔ تازہ کیکر کی مسواک کیا کرتے تھے گو التزاماً نہیں، وضو کے وقت صرف انگلی سے ہی مسواک کر لیا کرتے تھے، مسواک کئی دفعہ کہہ کر مجھ سے بھی منگائی ہے اور دیگر خادموں سے بھی منگوایا کرتے تھے اور بعض اوقات نماز اور وضو کے علاوہ بھی استعمال کرتے تھے۔
٭ اپنے آقا رسول کریم ﷺ کے تعامل میں حضرت اقدسؑ تیمارداری کا خلق بھی بجالاتے تھے۔ ایک مرتبہ حضرت نواب محمد علی خان صاحبؓ کو ان کی بیماری کے موقع پر تحریر فرمایا: ’’…غائبانہ آپ کی شفاء کے لئے دعا کرتا ہوں مگر چاہتا ہوں کہ آپ کے پاس آکر سنت عیادت کا ثواب بھی حاصل کروں‘‘۔
٭ پاؤں پر مسح کے بارہ میں حضرت چوہدری رستم علی صاحبؓ نے حضرت اقدسؑ سے دریافت کیا تو آپ نے جواباً تحریر فرمایا کہ ’’پاؤں کے مسح کی بابت یہ تحقیق ہے کہ آیت کی عبارت پر نظر ڈالنے سے نحوی قاعدہ کی رُو سے دونوں طرح کے معنے نکلتے ہیں یعنی غسل کرنا اور مسح کرنا اور پھر ہم نے جب متواتر آثار نبویہ کی رو سے دیکھا تو ثابت ہوا کہ آنحضرت ﷺ پاؤں دھوتے تھے اس لئے وہ پہلے معنے غسل کرنا معتبر سمجھے گئے۔
٭ ’’براہین احمدیہ‘‘ میں درج ایک فارسی شعر کا ترجمہ ہے: اُن (آنحضرتؐ) کی پیروی دل کو اس قدر انشراح بخشے کہ کوئی سو سال جہاد کرکے بھی نہ پائے۔
٭ حضرت خلیفۃ المسیح الثانیؓ نے حضرت مسیح موعودؑ کے اتباعِ تعامل (سنت) نبوی کے متعلق فرمایا: ایک مسئلہ کے متعلق حضرت مسیح موعودؑ نے فرمایا تھا کہ میری عقل اس صورت میں یوں چاہتی ہے مگر تعامل اس کے خلاف تھا اس لئے آپؑ نے فرمایا کہ اس کے متعلق تلاش کرو کوئی حوالہ مل جائے۔ جب نہ ملا تو آپ نے تعامل کے مطابق ہی عمل کیا حالانکہ آپ حکم و عدل تھے۔
٭ حضرت حکیم قطب الدین صاحبؓ بدوملہوی بیان کرتے ہیں کہ حضرت مسیح موعودؑ نے فرمایا کہ سب باتوں کی کلید یہی ہے کہ رسول اللہ ﷺ کی اتباع ہو۔
٭ حضورؑ اپنی جماعت کو نصیحت کرتے ہوئے فرماتے ہیں: ’’… روحانیت کی نشوو نما اور زندگی کے لئے صرف ایک ہی ذریعہ خدا تعالیٰ نے رکھا ہے اور وہ اِتباعِ رسولؐؐ ہے… پس میری نصیحت یہی ہے کہ ان خیالات سے بالکل الگ رہو اور وہ طریق اختیار کرو جو خدا تعالیٰ کے رسول ﷺ نے دنیا کے سامنے پیش کیا ہے… اس لئے تقویٰ اختیار کرو، سنت نبویؐ کی عزت کرو اور اس پر قائم ہو کر دکھاؤ جو قرآن شریف کی تعلیم کا اصل فخر یہی ہے‘‘۔ (ملفوظات جلد اوّل صفحہ 558-559)

50% LikesVS
50% Dislikes

اپنا تبصرہ بھیجیں