حضرت مسیح موعود علیہ السلام کا حُسنِ معاشرت

(مطبوعہ ’’الفضل ڈائجسٹ‘‘، الفضل انٹرنیشنل لندن 23؍مارچ و 27؍مارچ 2023ء)

حضرت مرزا غلام احمد قادیانی علیہ السلام
حضرت اقدس مرزا غلام احمد قادیانی علیہ السلام

حضرت مسیح موعودعلیہ السلام فرماتے ہیں:’’عوام الناس خیال کرتے ہیں کہ خلق صرف حلیمی اور نرمی اور انکسارہی کا نام ہے۔ یہ ان کی غلطی ہے بلکہ جو کچھ بمقابلہ ظاہری اعضاء کے باطن میں انسانی کمالات کی کیفیتیں رکھی گئی ہیں ان سب کیفیتوں کا نام خلق ہے۔ مثلاً انسان آنکھ سے روتا ہے اور اس کے مقابل پر دل میں ایک قوّت رقّت ہے۔ وہ جب بذریعہ عقل خداداد کے اپنے محل پر مستعمل ہوتو وہ ایک خلق ہے۔ ایسا ہی انسان ہاتھوں سے دشمن کا مقابلہ کرتا ہے اوراس حرکت کے مقابل پر دل میں ایک قوت ہے جس کو شجاعت کہتے ہیں۔ جب انسان محل پر اور موقع کے لحاظ سے اس قوت کو استعمال میں لاتا ہے تو اس کا نام بھی خُلق ہے۔ اورایسا ہی انسان کبھی ہاتھوں کے ذریعہ سے مظلوموں کو ظالموں سے بچانا چاہتا ہے یاناداروں اور بھوکوں کو کچھ دینا چاہتا ہے یاکسی اَور طرح سے بنی نوع کی خدمت کرنا چاہتا ہے اور اس حرکت کے مقابل پر دل میں ایک قوّت ہے جس کو رحم بولتے ہیں …جب انسان ان تمام قوتوں کوموقع اور محل کے لحاظ سے استعمال کرتا ہے تو اس وقت ان کا نام خلق رکھا جاتا ہے۔ اللہ جلشانہٗ ہمارے نبی ﷺ کو مخاطب کر کے فرماتا ہے اِنَّکَ لَعَلٰی خُلُقٍ عَظِیْمٍ یعنی تُو ایک بزرگ خلق پر قائم ہے۔‘‘ (اسلامی اصول کی فلاسفی)
حضرت مسیح موعودؑ کی حیات طیبہ کا نمایاں پہلو آپؑ کا حسن خلق اور طرز معاشرت تھا۔ اخلاق و کردار کا جو نکتہ آپؑ دوسروں کو سکھانا چاہتے تھے آپؑ خود اس کی عملی تفسیر تھے۔ لجنہ اماءاللہ جرمنی کے رسالہ ’’خدیجہ‘‘ 2013ء میں حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام کے حسن معاشرت کے بارے میں ایک تفصیلی مضمون مکرمہ عذراعباسی صاحبہ کے قلم سے شامل اشاعت ہے۔ اخلاق فاضلہ کے بےمثال نمونوں کا ایک خوبصورت گلدستہ ہدیۂ قارئین ہے:
٭…حضرت مفتی فضل الرحمٰن صاحبؓ فرماتے ہیں کہ مَیں گورداسپور سے ایک خط لے کرحضرت صاحبؑ کی خدمت میں حاضر ہوا۔ گرمی کا موسم تھااور مَیں سخت دھوپ میں آیا، رات کو بھی سونہ سکا تھا۔ حضرت مسیح موعودؑ نیچے کے کمرے میں تشریف فرما تھے۔ مَیں جب پہنچا تو آپؑ خط لے کر میرے لیے شربت لینے تشریف لے گئے۔ گرمی اورکوفت کی وجہ سے مَیں اونگھ گیا اور وہیں لیٹ گیا۔ تھوڑی دیر کے بعد کیا دیکھتا ہوں حضرتؑ کے ہاتھ میں پنکھا ہے۔ مَیں اُٹھ بیٹھا اور بہت ہی شرمندہ ہوا۔ فرمایا:تھکے ہوئے تھے، سو جاؤ اچھا ہے۔ مَیں نے عذر کیا اور پھر شربت پی کر گھر چلا آیا۔


٭…عفو اور درگزرحضرت مسیح موعودؑ کی سیرت کا اعلیٰ ترین وصف تھا۔ حضرت مولانا عبدالکریم سیالکوٹی صاحبؓ فرماتے ہیں کہ حضورؑ کسی کواس کی خطا اور لغزش پر مخاطب کرکے ملامت نہیں کرتے۔ اگر کسی کی حرکت ناپسند آوے تو مختلف پیرایوں میں تقریر کردیں گے۔ اگر وہ سعید ہوتا ہے تو خود ہی سمجھ جاتا اور اپنی حرکت پر نادم ہوتا ہے۔ آپ جب وعظ و نصیحت کرتے ہیں تو ہر ایک ایسا ہی یقین کرتا ہے کہ یہ میرے ہی عیب ہیں جو بیان ہورہے ہیں۔ اوریوں اصلاح اور تزکیہ کا پاک سلسلہ بڑی عمدگی سے جاری رہتا ہے۔
٭…حضرت محمد اکبر خان صاحب سنوریؓ بیان کرتے ہیں کہ جب ہم وطن چھوڑ کر قادیان آگئے تو ہم کو حضرت اقدسؑ نے اپنے مکان میں ٹھہرایا۔ آپؑ کا قاعدہ تھا کہ رات کو عموماً بہت سی موم بتیاں اکٹھی روشن کر دیا کرتے تھے۔میری لڑکی بہت چھوٹی تھی۔ ایک دفعہ حضرت اقدسؑ کے کمرے میں بتی جلاکر رکھ آئی۔ اتفاق ایسا ہوا کہ وہ بتی گرپڑی اور تمام مسوّدات جل گئے، علاوہ ازیں اَور بھی چند چیزوں کا نقصان ہوگیا۔ تھوڑی دیر کے بعد جب واقعہ معلوم ہوا تو تمام گھر میں گھبراہٹ اور میری بیوی اور لڑکی کو سخت پریشانی کیونکہ حضرت اقدسؑ مسوّدات بڑی احتیاط سے رکھا کرتے تھے۔ لیکن حضورؑ نے اس واقعہ کو یہ کہہ کر رفت گذشت کر دیا کہ خدا کا بہت ہی شکر ادا کرنا چاہیے کہ زیادہ نقصان نہیں ہوگیا۔
٭…حضرت مولانا عبدالکریم صاحب سیالکوٹیؓ فرماتے ہیں کہ ایک عورت نے کچھ چاول چرائے تو کسی تیز نظر نے پکڑلیا۔ شور پڑگیا اس کی بغل سے کوئی پندرہ سیر کی گٹھڑی چاولوں کی نکلی۔ اِدھر سے ملامت اُدھر سے پھٹکار ہورہی تھی۔ حضرتؑ کسی تقریب سے ادھر آنکلے۔ کسی نے واقعہ کہہ سنایا تو فرمایا: محتاج ہے، کچھ تھوڑے سے اسے دے دو اور فضیحت نہ کرو اور خداتعالیٰ کی ستاری کا شیوہ اختیار کرو۔
٭…حسن سلوک اور سخاوت انسان کی معاشرتی زندگی میں بہترین خلق ہے یعنی نہ احسان کا خیال ہواور نہ شکرگزاری کی آرزو۔ حضرت پیر سراج الحق نعمانی صاحبؓ فرماتے ہیں کہ ایک دفعہ کسی نے ایک خوبصورت قیمتی ٹوپی حضرت اقدسؑ کی خدمت میں بھیجی۔ دو ہندو نوجوان بھی بیٹھے تھے۔ ایک نے اس ٹوپی کی بہت تعریف کی اور ہاتھ میں لے کر باربار دیکھتا رہا۔ آخر حضرت اقدسؑ نے وہ ٹوپی اس کوہی دے دی۔ وہ لے کر خوش خوش چلاگیا۔ مجھ سے مخاطب ہو کر آپؑ نے فرمایا: صاحبزادہ صاحب! یہ ٹوپی اس کو پسند آگئی تھی جبھی تو بار بار تعریف کرتا رہا۔ ہمارے دل نے یہ گوارا نہ کیا کہ اس کو تکلیف پہنچے اس لیے ہم نے بشرح صدر ٹوپی دے دی۔ خدا نے ہمارے پاس ٹوپی بھیجی، اَور بھیج دے گا، اگر ہم اس کو یہ نہ دیتے تو اس کو رنج پہنچتا۔ تالیف قلب بھی تو ایک چیز ہے۔

حضرت شیخ یعقوب علی عرفانیؓ

٭…حضرت مسیح موعودؑ کی زندگی کلیۃً تکلفات سے پاک تھی۔ حضرت شیخ یعقوب علی عرفانی صاحبؓ فرماتے ہیں کہ یہ سادگی اس وجہ سے نہیں تھی کہ عیش و آرام کے اسباب میسر نہ تھے یا آپؑ رہبانیت کو پسند کرتے تھے۔…شیخ نور احمد صاحبؓ کہتے ہیں کہ جنگِ مقدّس کی تقریب پر بہت سے مہمان جمع ہوگئے تھے۔ ایک روز حضرت مسیح موعودؑ کے لیے کھانا رکھنا یاد نہ رہا۔ مَیں نے اپنی اہلیہ کو تاکید کی ہوئی تھی مگر وہ کثرتِ کار کی وجہ سے بھول گئی یہاں تک کہ رات کا بہت بڑا حصہ گزر گیا اور حضرتؑ نے بڑے انتظار کے بعد استفسار فرمایا تو سب کو فکر ہوئی۔ بازار بھی بند ہوچکا تھا۔ حضرتؑ کے حضور صورتحال کا اظہار کیا گیا تو آپؑ نے فرمایا: اس قدر گھبراہٹ اور تکّلف کی کیا ضرورت ہے، دسترخوان میں دیکھ لو کچھ بچا ہوا ہوگا، وہی کافی ہے۔ دسترخوان کو دیکھا تو اس میں روٹیوں کے چند ٹکڑے تھے۔ آپؑ نے فرمایا:یہی کافی ہیں۔ان میں سے ایک دو ٹکڑے لے کر کھا لیے اور بس۔
٭…حضرت قاضی محمد اکمل صاحبؓ فرماتے ہیں: ایک روز شیخ رحمت اللہ صاحبؓ و دیگر احباب لاہور تشریف لائے تو حضورؑ کی طبیعت نا ساز تھی۔ فرمایا: اندر ہی آجاؤ۔ حضورؑ ایک پلنگ پرتشریف فرما تھے (جو حضورؑ کی تمام ضروریاتِ تصنیف و تالیف کا کام دیتا تھااس لیے وہ لمبا چوڑا بنوایا تھا) اس کے سرہانے ایک چھوٹا سا میز تھا جس پر بہت سی بتیاں پڑی تھیں (حضورؑ ایک ہی وقت میں کئی بتیاں روشن کر لیا کرتے تھے تاکہ کافی روشنی ہو)۔ دوات کے گرد غالباً مٹی تھپی ہوئی تھی (تاکہ گر نہ پڑے)۔ لوگ بےتکلفی سے جہاں کسی کو جگہ ملی بیٹھ گئے۔ کوئی چارپائی پر کوئی صندوق پر، کوئی ٹرنک پر، کوئی دہلیز پر، کوئی فرش پر۔ دیر تک ہم بیٹھے رہے اور حضورؑ کے کلمات طیبات سے شاد کام ہوتے رہے۔ کمرے میں بالکل سادگی تھی۔ کوئی فرش نہ تھا نہ مکلّف سامان بلکہ رضائی بھی پھٹی ہوئی تھی، اس کی روئی نظر آرہی تھی۔
٭…حضرت ڈاکٹر میر محمد اسمٰعیل صاحبؓ فرماتے ہیں حضورؑ کو کسی خاص لباس کا شوق نہ تھا۔ آخری کچھ سالوں میں آپؑ کے پاس کپڑے بطور تحفہ کے بہت آتے تھے۔ خاص کر کوٹ صدری اور پائجامہ قمیض وغیرہ جو اکثر شیخ رحمت اللہ صاحب لاہوری ہر عید، بقر عید پراپنے ہمراہ نذر لاتے تھے۔ تبرک مانگنے والے بھی طلب کرتے رہتے تھے۔ بعض دفعہ تو یہ نوبت پہنچ جاتی کہ آپؑ ایک کپڑا بطور تبرک کے عطا فرماتے تو دوسرابنواکر اسی وقت پہننا پڑتا۔ اور بعض سمجھ دار نیا کپڑا بھیج کر ساتھ عرض کرتےکہ اپنا اترا ہوا تبرک مرحمت فرما ویں۔
٭…حضرت مولوی عبدالکریم صاحب سیالکوٹیؓ بیان فرماتے تھے کہ مَیں حضر ت اقدسؑ کے مکان کے اُوپر کے حصے میں رہتا ہوں۔ مَیں نے کئی د فعہ آپؑ کے گھر کی عورتوں کو آپس میں یہ با تیں کرتے سنا ہے کہ حضرت صاحب کی توآنکھیں ہی نہیں ہیں، ان کے سامنے سے کوئی عورت کسی طرح سے بھی گز رجا وے ان کو پتہ نہیں لگتا۔ حضرت مولوی شیرعلی صاحبؓ بھی بیان فرماتے ہیں کہ باہر مَردوں میں بھی آپؑ کی یہی عادت تھی کہ آپؑ کی آنکھیں ہمیشہ نیم بند رہتی تھیں اور اِدھراُدھر آنکھ اُٹھاکر د یکھنے کی عادت نہ تھی۔ بسااوقات سیر میں آپؑ کسی خادم کا ذکر غائب کے صیغہ میں فرما تے تھے حالانکہ وہ آپؑ کے ساتھ ساتھ جارہا ہوتا تھا۔ حضورؑ فرماتے ہیں:’’مومن کونہیں چا ہئے کہ دریدہ دہن بنے یا بےمحابہ اپنی آنکھ کو ہر طرف اُٹھائے پھرے بلکہ یَغُضُّوْا مِنْ اَبْصَارِھِمْ (النور:31) پر عمل کرکے نظر کو نیچی ر کھنا چاہیے اور بدنظری کے اسباب سے بچنا چا ہیے۔‘‘(ملفوظات جلد2 صفحہ 332)

حضرت نواب محمد علی خان صاحبؓ

٭…حضر ت نوا ب محمد علی خان صا حبؓ فرماتے ہیں کہ پہلی دفعہ فروری 1891ء میں مَیں قادیان آیا تو حضورؑ کی سادگی نے مجھ پر خاص اثر کیا۔ آپؑ کی خلوت اور جلوت میں ایک ہی با ت ہوتی تھی۔ دسمبر 1892ء میں پہلے جلسے میں شامل ہوا۔ حضرت صاحبؑ بعد نمازِ مغرب میرے مکان پر تشریف لے آتے اور مختلف امور پر تقریرہوتی رہتی تھی۔ احباب وہاں جمع ہو جاتے اور کھا نا بھی وہاں ہی کھاتے۔ نمازِ عشاء تک یہ سلسلہ جاری رہتا۔ مَیں علماء اور بزرگان کے سامنے دو زانو بیٹھنے کا عادی تھا۔ بسااوقات گھٹنے دُکھنے لگتے مگر یہا ں مجلس کی حالت نہایت بےتکلّفانہ ہوتی۔ جس کو جس طرح آرام ہوتا بیٹھتا۔ بعض پچھلی طرف لیٹ بھی جاتے مگر سب کے دل میں عظمت و ادب اور محبت ہوتی۔ چونکہ کوئی تکلّف نہ ہوتا تھا اسی لیے یہی جی چاہتا تھا کہ آپؑ تقریر فرماتے رہیں اور ہم میں موجود رہیں مگر عشاء کی اذان سے جلسہ برخاست ہوجاتا۔

حضرت پیر سراج الحق نعمانیؓ

٭…حضرت پیر سراج الحق نعمانی صاحبؓ فرماتے ہیں کہ حضرت اقدسؑ سے جو عرض کرتا کہ میں نے نظم لکھی ہے وہ سنانی چاہتا ہوں۔ خواہ وہ پنجابی زبان میں ہو خواہ فارسی میں خواہ عربی میں، آپؑ بےتکلّف فرماتے کہ اچھا سناؤ۔ اور آپؑ شوق سے سنتے خواہ وہ کیسی ژولیدہ طور سے ہوتی، کسی کا دل نہیں توڑتے اور جزاک اللہ فرماتے۔
٭…حضرت مسیح موعودؑ اُس زمانے میں مبعوث ہوئے جب ہندوستان میں ہندوؤں کی تہذیب کے اثرات مسلمانوں کی طرز معاشرت پر اس قدر شدید تھے کہ عورت کی کوئی حیثیت اور احترام باقی نہیں رہا تھا۔ حضورؑ نے اپنے عملی نمونے سے عورت کو پھر اُس کا مقام دلایا۔ حضورؑ فرماتے ہیں: ’’عورتوں کے حقوق کی جیسی حفاظت اسلام نے کی ہے ویسی کسی دوسرے مذہب نے قطعًا نہیں کی۔ مختصر الفاظ میں فرمادیا ہے وَلَھُنَّ مِثلُ الَّذِی عَلَیہِنَّ  کہ جیسے مردوں کے عورتوں پرحقوق ہیں و یسے ہی عورتوں کے مَردوں پر ہیں۔ بعض لوگوں کا حال سنا جاتا ہے کہ ان بےچاریوں کو پاؤں کی جوتی کی طرح جانتے ہیں اور ذلیل ترین خدمات ان سے لیتے ہیں۔ گالیاں دیتے ہیں حقارت کی نظر سے دیکھتے ہیں اورپردہ کے حکم ایسے ناجائز طریق سے برتتے ہیں کہ ان کو زندہ درگور کردیتے ہیں۔ چاہئے کہ بیویوں سے خاوند کا ایسا تعلق ہو جیسے دو سچے اور حقیقی دوستوں کا ہوتا ہے…۔ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا ہے خَیرُ کُم خَیرُ کُم لِاَھلِہٖ تم میں سے اچھا وہ ہے جو اپنے اہل کے لیے اچھا ہے۔‘‘(ملفوظات جلدپنجم صفحہ417تا418)
٭…حضرت مولانا عبدالکریم صاحب سیالکوٹیؓ فرماتے ہیں کہ اس بات کو اندرونِ خانہ کی خدمتگار عورتیں تعجب سے دیکھتی ہیں اور مَیں نے بارہا انہیں خود حیرت سے یہ کہتے ہوئے سنا ہے کہ ’’مِرجا بیوی دی گل بڑی مندا اے۔‘‘
٭…حضرت اقدسؑ فرمایا کرتے تھے کہ ’’فحشاء کے سوا باقی تمام کج خلقیاں اور تلخیاں عورتوں کی برداشت کرنی چاہئیں۔‘‘ اور یہ بھی فرمایا: ’’ہمیں تو کمال بےشرمی معلوم ہوتی ہے کہ مرد ہوکر عورت سے جنگ کریں۔ ہم کو خدا نے مرد بنایا اور یہ درحقیقت ہم پر اتمام نعمت ہے۔ اس کا شکریہ ہے کہ عورتوں سے لطف اور نرمی کا برتاؤ کریں۔‘‘
٭…حضرت شیخ عبدالقادر سودا گرمل صاحبؓ فرماتے ہیں کہ حضرت اماں جانؓ اورحضرت اماں جیؓ (حر م حضرت خلیفۃالمسیح الاوّ لؓ ) اپنے بچوں کو ہمراہ لے کر حضرت میر ناصر نواب صاحبؓ کے سا تھ چند روزکے لیے تبدیلی آب و ہوا کی غرض سے لاہو ر تشر یف لے گئیں۔ 4؍جولائی 1907ء کو یہ قافلہ لاہور کی طرف روانہ ہوا اور 14؍جولائی کو واپس بٹالہ پہنچا حضرت اقدسؑ جو حسن معاشرت کا ایک کا مل نمونہ تھے اپنے حرم محترم کے استقبال کے لیے چند خدام سمیت عازم بٹالہ ہوئے۔ حضورؑ پالکی میں سوار تھے اور قرآن کھول کر سورۃ فاتحہ کی تلاوت فرما رہے تھے خدام کا بیان ہے کہ بٹالہ تک حضورؑ سورۃ فاتحہ پر ہی غورو فکر میں مشغول رہے۔ رستہ میں صرف نہر پر اُتر کر وضو کیا اور پھر وہی سورۃ فاتحہ پڑھنی شروع کردی۔ اللہ اللہ! کیا عشق تھا خدا کے مامو ر کو خدا کی کتاب کے ساتھ کہ گیا رہ میل کے لمبے سفر میں قرآن کر یم کی ایک چھوٹی سی سورۃ ہی زیرِ غور رہی۔ سچ فرمایا آپؑ نے کہ ؎

دِل میں یہی ہے ہر دم تیرا صحیفہ چوموں
قرآں کے گرد گھوموں کعبہ مرا یہی ہے

بٹا لہ میں تحصیلدار رائے جسمل خان صاحب نے آپؑ کے لیے ایک آرام دہ جگہ کا انتظام کردیا اور خود بھی شرفِ ملاقات حاصل کیا۔ دوپہرکا کھانا تناول فرمانے کے بعد حضورؑ اپنے حرم محترم کے استقبال کے لیے اسٹیشن پر تشریف لے گئے۔ آپؑ کے اسٹیشن پر پہنچنے سے پہلے گاڑی آچکی تھی اور حضرت اماں جانؓ آپؑ کو تلا ش کررہی تھیں۔ چونکہ ہجوم بہت زیادہ تھا اس لیے تھوڑی دیر تک آپؑ انہیں نظر نہیں آسکے پھر جب آپؑ پر نظر پڑی تو ’محمو د کے ابا‘ کہہ کر آپؑ کو اپنی طرف متوجہ کیا تو حضرت اقدسؑ آگے بڑھے اور اپنی زوجہ محترمہ سے مصافحہ کیا۔ پھر حضورؑ واپس فرودگاہ پر تشریف لائے اور دوپہر کا وقت گزار کر پچھلے پہر عازم قادیان ہوئے۔
٭…حضرت سکینہ بیگم صاحبہؓ اہلیہ حضرت ماسٹر احمدحسین صاحب فریدآبادیؓ بیان کرتی ہیں کہ حضورؑ اپنی مجلس میں فرمایا کرتے تھے کہ’’مردوں کو چاہئے کہ عورتوں کے ساتھ نرمی اور محبت سے پیش آیا کریں‘‘ اور عورتوں کو فرمایا کرتے کہ ’’عورتوں کو اپنے گھر کو جنت بناکر رکھنا چاہئے اور مَردوں کے ساتھ کبھی اونچی آواز سے پیش نہیں آنا چاہئے۔‘‘ مَیں جب کبھی حضرت صاحبؑ کے گھر آتی تو مَیں دیکھا کرتی کہ حضورؑ ہمیشہ اُمّ المومنینؓ کو بڑی نرمی کے ساتھ آواز دیتے: ’محمود کی والدہ یا کبھی محمود کی اماں‘۔ نوکروں کے ساتھ بھی نہایت نرمی سے پیش آتے۔ مجھے یاد نہیں آتا کہ حضورؑ کبھی کسی کے ساتھ سختی سے گفتگو کرتے، ہمیشہ خندہ پیشانی کے ساتھ بولتے۔
٭…حضرت مفتی محمد صادق صاحبؓ نے بیان کیا کہ ایک دفعہ حضرت مسیح موعودؑ کے زمانہ میں مَیں کسی وجہ سے اپنی بیوی مرحومہ پر کچھ خفا ہوا جس کا ذکر میری بیوی نے حضرت مولوی عبدالکریم صاحبؓ کی بیوی سے کیا اور انہوں نے مولوی صاحبؓ سے ذکرکردیا۔ اس کے بعد مَیں جب مولوی صاحبؓ سے ملا تو اُنہوں نے فرمایا کہ مفتی صا حب! آپ کو یاد ر کھنا چاہیے کہ یہاں ملکہ کا راج ہے۔ اس کے سوا اَور کچھ نہیں کہا۔ اُن کے یہ الفاظ عجیب معنی خیز تھے کیونکہ ایک تو اُن دنوں میں برطانوی تخت پر ملکہ وکٹوریہ متمکّن تھیں اور دوسرے حضرت مسیح موعودؑ خانگی معاملات میں حضرت اُمّ المومنینؓ کی بات بہت مانتے تھے اور گویا گھر میں اُن کی حکومت تھی۔
٭…حضرت شیخ یقوب علی عرفانی صاحبؓ فرماتے ہیں کہ حضرت اُمّ المومنینؓ پر جب کبھی بیماری کا حملہ ہوتا تو آپؑ ہر طرح ہمدردی اور خدمت کرنا ضروری سمجھتے تھے اور اپنے عمل سے آپؑ نے یہ تعلیم ہم سب کو دی کہ بیوی کے کیا حقوق ہوتے ہیں، جس طرح پر وہ ہماری خدمت کرتی ہے عندالضرورت وہ مستحق ہے کہ ہم اسی قسم کا سلوک اُس سے کریں۔ چنانچہ آپؑ علاج اور توجہ الی اللہ ہی میں مصروف نہ رہتے بلکہ بعض اوقات حضرت امّ المومنینؓ کو دباتے بھی۔ نسوانی حقوق کی صیانت اور ان کے حقوق کی مساوات کا یہ بہترین نمونہ حضورؑ نے دکھایا۔

حضرت شیخ یعقوب علی عرفانیؓ

٭…حضرت شیخ یعقوب علی عرفانی صاحبؓ فرماتے ہیں کہ حضرت مسیح موعودؑ بچوں کی دلداری کا بہت خیال رکھا کرتے تھے اور اپنے صاحبزادوں کا خصوصیت سے اس لیے بھی خیال رکھا کرتے کہ ان کوآیات اللہ یقین کرتے تھے اس لیے کہ خداتعالیٰ نے ہر ایک کی پیدائش سے پہلے بطور نشان پیش گوئی فرمائی اور حقیقت تو یہ ہے کہ آنحضرت ﷺ نے بھی یَتَزَوَّجُ وَیُولَدُلَہٗ کہہ کر پیشگوئی فرمائی ہوئی تھی۔ پس آپؑ آیات اللہ کے اکرام کے رنگ میں بھی دلداری فرمایا کرتے تھے جبکہ ایک شفیق باپ کا نمونہ آپؑ کے طرز عمل میں ایسا موجود تھا کہ اس کی نظیر عام انسا نوں میں نہیں بلکہ صرف انبیاء میں ملتی ہے۔ آپؑ کی شفقت پدری کے حوالے سے حضرت مولوی عبدالکریم صاحبؓ فرماتے ہیں کہ محمودؔ نے جو اُس وقت بچہ تھا آپؑ کی واسکٹ کی جیب میں ایک اینٹ ڈا ل دی۔ آپؑ نے حامدعلی سے فرمایا کہ چند روز سے ہماری پسلی میں درد ہے ایسا معلوم ہوتا ہے کہ کوئی چیز چبھتی ہے۔ وہ حیران ہوا اور آپؑ کے جسدِ مبارک پر ہا تھ پھیرنے لگا اور آخر اس کا ہا تھ اینٹ سے جا لگا۔ جھٹ جیب سے نکال لی اور عرض کیا: یہ اینٹ تھی جو آپ کو چبھتی تھی۔ مسکرا کر فرمایا: چند روز ہوئے محمود نے میری جیب میں ڈالی تھی اور کہا تھا اسے نکالنا نہیں مَیں اس سے کھیلوں گا۔


٭…حضرت مولانا عبدالکریم صاحب سیالکوٹیؓ تحریر فرماتے ہیں کہ محمود کوئی تین برس کا ہوگا۔ آپؑ لدھیانہ میں تھے۔ گرمی کا مو سم تھا۔ مردا نہ اور زنانہ میں ایک دیوار حائل تھی۔ آدھی رات کا وقت ہوگا جو مَیں جاگا اور مجھے محمود کے رونے اور حضرتؑ کے اِدھر اُدھر کی باتوں میں بہلانے کی آواز آئی۔ حضرتؑ اسے گود میں لیے پھرتے تھے اور وہ کسی طرح چُپ نہیں ہوتا تھا۔ آخر آپؑ نے فرمایا: دیکھو محمود! وہ کیسا تارا ہے۔ بچے نے نئے مشغلے کی طرف د یکھا اور ذرا چُپ ہوا پھر وہی رونا اور چِلّانا اور یہ کہنا شروع کردیا: ابّا تا رے جانا ۔ کیا مجھے مزہ آیا اور پیارا معلوم ہوا آپؑ کا اپنے ساتھ یوں گفتگو کرنا: ’’یہ اچھا ہوا ہم نے تو ایک راہ نکالی تھی اس نے اس میں بھی ا پنی ضد کی راہ نکال لی۔‘‘ آخر بچہ روتا روتا خود ہی جب تھک گیا تو چُپ ہوگیا مگر اس سارے عرصہ میں ایک لفظ بھی سختی کا یا شکایت کا آپؑ کی زبان سے نہ نکلا۔
٭…حضرت مسیح موعودؑ فرماتے ہیں: ’’بات بات پر بچوں کو روکنا اورٹوکنا یہ ظاہر کرتا ہے کہ گویا ہم ہی ہدایت کے مالک ہیں اور ہم اُس کو اپنی مرضی کے مطابق ایک راہ پر لے آئیں گے۔ یہ ایک قسم کا شرکِ خفی ہے اس سے ہماری جماعت کو پرہیز کرنا چاہئے ہم تو اپنے بچوں کے لیے دعا کرتے ہیں اور سرسری طور پر قواعد اور آداب ِتعلیم کی پابندی کراتے ہیں بس اس سے زیادہ نہیں اور پھر اپنا پورا بھروسہ اللہ تعالیٰ پر رکھتے ہیں۔ جیسا کسی میں سعادت کا تخم ہوگا وقت پر سرسبز ہوجائے گا ۔‘‘ (ملفو ظا ت جلد 2 صفحہ5ایڈیشن 1984ء)
٭…حضرت مولانا عبدالکریم سیالکوٹی صاحبؓ تحریر فرماتے ہیں کہ حضرتؑ بچوں کو سزا دینے کے سخت مخالف ہیں۔ میں نے بارہا دیکھا ہے ایسی کسی چیز پر برہم نہیں ہوتے جیسے جب سن لیں کہ کسی نے بچہ کو مارا ہے۔ یہاں ایک بزرگ نے ایک دفعہ اپنے لڑکے کوعادتاََ مارا تھا۔ حضرتؑ بہت متاثر ہوئے اور انہیں بلا کر بڑی دردانگیز تقریر فرمائی۔ فرمایا: میرے نزدیک بچوں کو یوں مارنا شرک میں داخل ہے گویا بدمزاج مارنے والا ہدایت اور ربوبیت میں اپنے تئیں حصہ دار بنانا چاہتا ہے۔ ایک جوش والا آدمی جب کسی بات پر سزا دیتا ہے اشتعال میں بڑھتے بڑھتے ایک دشمن کا رنگ اختیار کرلیتا ہے…جس طرح اور جس قدر سزا دینے میں کوشش کی جاتی ہے کاش دعا میں لگ جائیں اور بچوں کے لیے سوزِ دل سے دعا کرنے کو ایک حزب مقرر کرلیں اس لیے کہ والدین کی دعا کو بچوں کے حق میں خاص قبول بخشا گیا ہے۔
٭…حضرت ڈاکٹر میر محمد اسمٰعیل صاحبؓ بیان فرماتے ہیں کہ حضرت مرزا بشیر احمد صاحبؓ جب دو سال کے تھے تو اُن کو شکر کھانے کی عادت ہوگئی تھی۔ ہمیشہ حضرت مسیح موعودؑ کے پاس پہنچتے اور ہاتھ پھیلا کر کہتے ’’ا با چٹی‘‘۔ (چٹی شکر کو کہتے تھے کیونکہ بولنا پورا نہ آتا تھا اور مراد یہ تھی کہ چٹے رنگ کی شکر لینی ہے۔) حضرتؑ تصنیف میں بھی مصروف ہوتے تو کام چھوڑ کر فوراً اُٹھتے۔ کوٹھڑی میں جاتے۔ شکر نکال کر اُن کو دیتے اور پھر تصنیف میں مصروف ہوجاتے۔ تھوڑی دیر میں میاں صاحب موصوف پھر دستِ سوال دراز کرتے ہوئے پہنچ جاتے۔ حضرت صاحبؑ پھر اُٹھ کر ان کا سوال پورا کردیتے۔ غرض اس طرح باوجود تصنیف میں سخت مصروف ہونے کے کچھ نہ فرماتے بلکہ ہر دفعہ اُ ن کے کام کے لیے ا ُٹھتے تھے۔
٭…حضرت شیخ یعقوب علی عرفانی صاحبؓ فرماتے ہیں کہ حضرت مسیح موعودؑ کی شفقت اور لطف ا پنی اولاد کے ساتھ مخصوص نہ تھا بلکہ تمام بچوں کے ساتھ تھا۔ جماعت کے کسی فرد کے ہاں بچہ پیدا ہوتا تو آپؑ بہت خوش ہوتے اور اکثر اُن کے نام آپؑ خود تجویز فرمایا کرتے۔ آپؑ بچوں تک کی خواب کو بھی نظرانداز نہ فرمایا کرتے تھے بلکہ بعض اوقات فرماتے کہ بچوں کا نفس زکیہ ہوتا ہے اور اس لیے ان کی خوابیں بھی صحیح ہوتی ہیں۔ اس خصوص میں آپؑ ا پنی اولاد ہی کی خوابوں تک اس امر کو محدود نہ رکھتے تھے بلکہ کسی بھی بچہ کی خوا ب اگر کوئی حقیقت رکھتی جس کو حضورؑ خوب سمجھ سکتے تھے تو نہ صرف اسے نوٹ کرلیتے بلکہ اس پر عمل بھی کرتے۔ آپؑ بچوں کو گود میں اُٹھائے ہوئے باہر نکل آیا کرتے اور سیر میں بھی اُ ٹھا لیا کرتے۔ اس میں کبھی آپؑ کو تامل نہ ہوتا۔ اگرچہ خدام بھی اپنی سعادت سمجھتے مگر بچوں کی خواہش کا احساس یا اُن کے اصرار کو د یکھ کر آپؑ اُ ٹھا لیتے اور اُن کی خوشی پوری کردیتے۔
٭…حضرت مسیح موعودؑ کے اخلاق فاضلہ میں دوسروں سے عزت و احترام سے پیش آنا نمایاں وصف تھا۔ کسی کی دل شکنی گوارا نہ کرتے، بات سننے کے لیے ہمیشہ تیار رہتے اور دلداری کرتے۔ حضرت مولانا عبدالکریم صاحب سیالکوٹی ؓ فرماتے ہیں کہ آپؑ اپنے خدام کو بڑے ادب اور احترام سے پکارتے ہیں اور حاضر و غائب ہر ایک کا نام ادب سے لیتے ہیں۔ میں نے بارہا سنا ہے اندر اپنی زوجہ محترمہ سے آپؑ گفتگو کررہے ہیں اور اس اثناء میں کسی خادم کا نام زبان پر آگیا ہے تو بڑے ادب سے لیا ہے جیسے سامنے لیا کرتے ہیں۔ کبھی تُو کرکے کسی کو خطاب نہیں کرتے تحریروں میں جیسا آپؑ کا عام رویہ ہے ’حضرت اخویم مولوی صاحب‘ اور ’اخویم حبی فی اللہ مولوی صاحب‘، اسی طرح تقریر میں بھی فرماتے ہیں۔
٭…حضرت شیخ یعقوب علی عرفانی صاحبؓ فرماتے ہیں کہ حضرت مسیح موعودؑ کے پرانے خادموں میں سے ایک حافظ حامدعلی صاحبؓ مرحوم تھے۔ حضورؑ کے اخلاق کا اُن پر ایسا اثر تھا کہ وہ بارہا ذکر کرتے کہ ’’مجھے ساری عمر میں کبھی حضرت مسیح موعو دؑ نے نہ جھڑکا اور نہ سختی سے خطاب کیا بلکہ میں بڑا ہی سست تھا اور اکثر آپؑ کے ار شادات کی تعمیل میں دیر بھی کردیا کرتا تھا۔ با ایں سفر میں مجھے ہمیشہ ساتھ رکھتے۔‘‘ مَیں نے خود دیکھا ہے کہ حضرت مسیح موعودؑ حا فظ حامدعلی صاحب کو حاضر غائب اسی پورے نام سے پکارتے یا میاں حامد علی کہتے۔
٭…محترم شیخ عبدالقادر سوداگرمل صاحبؓ فرماتے ہیں کہ حضورؑ کے خادم مرزا اسماعیل بیگ کا بیان ہے کہ جب حضرت اقدسؑ ا پنے وا لد بزرگوار کے ارشاد کے ماتحت بعثت سے قبل مقدمات کی پیروی کے لیے جایا کرتے تھے تو سواری کے لیے گھوڑا ساتھ ہوتا تھا اور مَیں بھی عموماً ہمرکاب ہوتا تھا۔ آپؑ پیدل ہی چلتے اور مجھے گھوڑے پر سوار کرادیتے میں باربار انکار کرتا اور عرض کرتا حضور مجھے شرم آتی ہے۔ آپؑ فرماتے کہ ہم کو پیدل چلتے شرم نہیں آتی تم کو سوار ہوتے کیوں شرم آتی ہے۔ جب قادیان سے چلتے تو ہمیشہ پہلے مجھے سوار کراتے۔ جب نصف سے کم یا زیا دہ راستہ طے ہوجاتا تو میں اُ تر پڑتا اور آپؑ سوار ہوجاتے۔ اسی طرح جب واپسی پر پہلے مجھے سوار کراتے اور بعد میں آپؑ سوار ہوتے۔ جب آپؑ سوار ہوتے تو گھوڑا جس چال سے چلتا اُسی چال سے چلنے دیتے۔

٭…اللہ تعالیٰ نے حضرت مسیح موعودؑ کے مزاج میں حلم و کرم اور ضبطِ نفس کی وہ قوت عطا فرمائی تھی آپؑ بڑ ے مشکل حالات و واقعات میں بھی توکل علیٰ اللہ کے بھروسے بڑے اطمینان اور سکینت میں رہتے اور یہ امر آپؑ کے نفسِ مطمئنہ اور اعلیٰ درجہ کے قرب الٰہی پر بڑی زبردست دلیل ہے۔ حضرت شیخ یعقوب علی عرفانی صاحبؓ تحریر فرماتے ہیں:
’’حضرت مسیح موعودؑ کو غصہ دلانے والی ایک ہی بات تھی کہ شعائراللہ کی ہتک ہو۔ آنحضرت ﷺ اور قرآنِ مجید پر کوئی حملہ ہو اس کے لیے آپؑ کوغصہ آتا تھا مگر وہ غصہ وحشیانہ رنگ نہ رکھتا تھا بلکہ وہ حمیت و غیرت، د ینی خودداری اور عزت نفس کے مختلف شعبوں کا مظہر ہوتا تھا۔ جہاں آپؑ کی ذاتی چیز کا سوال ہوتا آپؑ حد درجہ رحیم و کریم اور دل کے حلیم تھے۔ جب ہم یہ کہتے ہیں کہ آپؑ حلیم تھے تو اس کے یہی معنی ہیں کہ آپؑ غیرت د ینی اور حمیت اسلامی کی صحیح شان کے مظہر تھے اور کبھی اور کسی حالت میں آپؑ سے کوئی ایسا فعل سرزد نہ ہوتا تھا جو جوشِ نفسی کا ایک بے جا نتیجہ ہو…جب ہم ان حالات پر غور کرتے ہیں جو حضو رؑ کو پیش آئے۔ آپؑ نے خداتعالیٰ کی طرف سے مامور و مرسل ہونے کا دعویٰ کیا اور یہ دعویٰ کسی خاص قوم کی طرف مبعوث ہونے کا نہ تھا۔ بلکہ اپنے سید و مولا آنحضرت ﷺ کے اتباع میں نوع انسان کی طرف تھا۔ خداتعالیٰ نے آپؑ کو موعود ادیان اور مصلح امم بنا کر بھیجا تھا۔ اس مقام و منصب نے آپؑ کو مجبور کیا کہ وہ ہر قوم اور مذہب کے غلط عقائد اوراعمال پر حملہ کریں۔
مدتوں کے مانے ہوئے غلط عقائد اور مروّجہ رسوم و عادات سے الگ ہونا کوئی معمولی بات نہ تھی۔ اس پر ہر قوم کے مذہبی پیشواؤں میں جوش پیدا ہوا اور انہوں نے کو ئی دقیقہ آپؑ کی مخا لفت اور ایذا د ہی کا با قی نہ ر کھا۔ بدزبانی اور ایذادہی کی حد ہوگئی۔ لیکن آپؑ چونکہ خداتعالیٰ کے مامور اور مرسل تھے۔ آپؑ نے اس تمام مقابلہ میں باوجودیکہ بے حد ا شتعال دلایا گیا۔ ضبط اور برداشت کی قوتوں کو ہاتھ سے جا نے نہیں د یا۔ اس کے علا وہ آپؑ کی رو زا نہ ز ند گی میں عا د تا ًایسی بہت سی با تیں پیش آجا تی تھیں جہا ں کو ئی شخص بھی صبرا ور حوصلہ سے کام ہی نہیں لے سکتا …حضرت مسیح موعودؑ کی زندگی کے مختلف حصوں اورحالتوں پر نظر کرو اور واقعات کا دقت نظر کے ساتھ مطالعہ کرو تو معلوم ہوگا کہ یہ نفسِ مطمئنہ مجسم ہیں اور غضب اور غصہ کی وہ قوتیں جو انسان کو اخلا ق سے گرا کر نیچے گرادیتی ہیں۔ آپؑ سے سلب کرلی گئی تھیں۔‘‘

٭…حضرت مولانا عبدالکریم سیالکوٹی صاحبؓ فرماتے ہیں کہ کوئی ہولناک واقعہ اور غم انگیز سانحہ آپؑ کی توجہ کو منتشر اور مفوض کام سے غافل نہیں کرسکتا۔ ا قدامِ قتل کا مقدمہ جسے پادریوں نے برپا کیا اور جن کی تائید میں بعض ناعاقبت اندیش نام کے مسلمان اور آریہ بھی شامل ہوگئے تھے، ایک دنیادار کاپِتّہ پگھلا دینے اور اس کا دل پریشان اور حواس مختل کردینے کو کافی تھا۔ مگر حضرتؑ کے کسی معاملہ میں، لکھنے میں، معاشرت میں ، با ہر خدا م سے کشادہ پیشانی اور را ٔفت سے ملنے میں غر ض کسی حر کت و سکو ن میں کوئی فرق نہ آیا۔ کو ئی آدمی قیاس بھی نہیں کر سکتاتھا کہ آپؑ پر کوئی مقد مہ ہے …یافلاں شخص شملہ کے پہا ڑو ںسے سر ٹکراتا اور ما تھا پھو ڑ تا پھر تا ہے کہ آپؑ کے دامنِ عزت پر اپنے ناپاک خون کا کوئی دھبہ ہی لگا دے …آپؑ ہمیشہ فرماتے ہیں کہ کوئی معاملہ زمین پرواقع نہیں ہوتا۔ جب تک پہلے آسمان پر طے نہ ہوجائے اور خداتعالیٰ کے ارادہ کے بغیر کچھ بھی نہیں ہو سکتا اور وہ اپنے بندہ کو ذلیل اور ضا ئع نہیں کر ے گا۔ یہ ایک ایسا رکن شدید ہے جو ہر مصیبت میں آپؑ کا حصن حصین ہے۔ مَیں مختلف شہروں اور ناگوار نظاروں میں آپؑ کے سا تھ رہا ہوں۔ دہلی کی ناشکرگزار اور جلدباز مخلوق کے مقابل۔ پٹیالہ، جالندھر، کپورتھلہ، امرتسر، لاہور اور سیالکوٹ کے مخا لفوں کی متّفق اور منفرد دل آزار کوششوں کے مقا بل میں آپؑ کا حیرت انگیز صبر اورحلم اور ثبات د یکھا ہے۔ کبھی آپؑ نے خلوت میں یا جلوت میں ذکر تک نہیں کیا کہ فلاں شخص یا فلاں قوم نے ہمارے خلاف یہ ناشائستہ حرکت کی اور فلاں نے زبان سے یہ نکالا۔ مَیں صاف دیکھتا تھا کہ آپ ایک پہاڑ ہیں کہ ناتواں پست ہمت چوہے اس میں سُرنگ کھود نہیں سکتے۔ ایک دفعہ آپؑ نے جالندھر کے مقام میں فرمایا کہ ابتلا کے وقت ہمیں اندیشہ اپنی جماعت کے بعض ضعیف دلوں کا ہوتا ہے میرا تو یہ حال ہے کہ اگر مجھے صاف آواز آوے کہ تُو مخذول ہے اور تیری کوئی مراد ہم پوری نہ کریں گے تو مجھے خداتعالیٰ کی قسم ہے کہ اس عشق و محبت ِ الٰہی اور خدمتِ دین میں کوئی کمی واقع نہ ہوگی اس لیے کہ مَیں تو اُسے دیکھ چُکا ہوں۔ پھر فرمایا: ھَلْ تَعْلَمُ لَہٗ سَمِیّاً
٭…حضرت مسیح موعود علیہ السلام تکبر،تصنّع اور بےجا مزاح یا ستائش کو ناپسند فرماتے تھے۔ آپؑ فرماتے ہیں: ’’مَیں سچ سچ کہتا ہوں کہ قیامت کے دن شرک کے بعد تکبر جیسی اور کوئی بلا نہیں۔ یہ ایک ایسی بلا ہے جو دونوں جہان میں انسان کو رسوا کرتی ہے۔ خدا کا رحم ہر ایک موحد کا تدارک کرتا ہے۔ مگر متکبر کا نہیں۔ شیطان بھی موحد ہونے کا دم مارتا تھا۔ مگر چونکہ اس کے سر میں تکبر تھا اور آدم کو جو خداتعالیٰ کی نظر میں پیارا تھا۔ جب اس نے توہین کی نظر سے دیکھا اور اس کی نکتہ چینی کی اس لیے مارا گیا اور طوق لعنت اس کی گردن میں ڈالا گیا۔ سو پہلا گناہ جس سے ایک شخص ہمیشہ کے لیے ہلاک ہوا تکبر ہی تھا۔‘‘ (آئینہ کمالات اسلام صفحہ 598)
٭…ایک شخص جو فقیروں اور سجادہ نشینوں کا شیفتہ تھا ہماری مسجد میں آیا۔ لوگوں کو آزادی سے گفتگو کرتے دیکھ کر حیران ہوگیا۔ آپؑ سے کہا کہ آپ کی مسجد میں ادب نہیں، لوگ بے محابا بات چیت آپ سے کرتے ہیں۔ آپؑ نے فرمایا: ’’میرا مسلک نہیں کہ میں ایسا تندخُو اور بھیانک بن کر بیٹھوں کہ لوگ مجھ سے ایسے ڈریں جیسے درندہ سے ڈرتے ہیں۔ اور مَیں بُت بننے سے سخت نفرت رکھتا ہوں۔ مَیں توبُت پرستی کے ردّ کرنے کو آیا ہوں نہ یہ کہ میں خود بُت بنوں اور لوگ میری پوجا کریں۔ اللہ تعالیٰ بہتر جانتا ہے کہ میں اپنے نفس کو دوسروں پر ذرا بھی ترجیح نہیں دیتا۔ میرے نزدیک متکبر سے زیادہ کوئی بُت پرست اور خبیث نہیں۔ متکبر کسی خدا کی پرستش نہیں کرتا بلکہ وہ اپنی پرستش کرتا ہے۔‘‘ (ملفوظات جلد2صفحہ6، ایڈیشن 1984ء)
٭…حضرت مولانا عبدالکریم صاحبؓ فرماتے ہیں کہ آپؑ کی ہر ادا سے صاف ترشح ہوتا ہے کہ آپ کو کوئی حبّ جاہ اور علوّ نہیں اورآپ جلوت میں محض خداتعالیٰ کے امر کی تعمیل کی خاطر بیٹھتے ہیں۔ فرمایا: ’’اگر خداتعالیٰ مجھے اختیار دے کہ خلوت اور جلوت میں سے تُوکس کو پسند کرتا ہے تو اس پاک ذات کی قسم ہے کہ مَیں خلوت کو اختیار کروں۔ مجھے تو کشاں کشاں میدان عالم میں اس نے نکالا ہے۔ جو لذت مجھے خلوت میں آتی ہے اس سے بجز خدا تعالیٰ کے کون واقف ہے۔ میں قریب 25سال تک خلوت میں بیٹھا رہا ہوں اور کبھی ایک لحظہ کے لیے بھی نہیں چاہا کہ دربار شہرت کی کرسی پر بیٹھوں۔ مجھے طبعاً اس سے کراہت رہی ہے کہ لوگوں میں مل کر بیٹھوں۔ مگر امر آمرسے مجبور ہوں۔‘‘ فرمایا: ’’مَیں جو باہر بیٹھتا ہوں یا سیر کرنے جاتا ہوں اور لوگوں سے بات چیت کرتا ہوں یہ سب کچھ اللہ تعالیٰ کے امر کی تعمیل کی بِناپر ہے۔‘‘


مسجد مبارک میں آپؑ کی نشست کی کوئی خاص وضع نہیں ہوتی، ایک اجنبی آدمی آپ کو کسی خاص امتیاز کی معرفت پہچان نہیں سکتا۔ آپؑ ہمیشہ دائیں صف میں ایک کونے میں مسجد کے اس طرح مجتمع ہو کر بیٹھتے ہیں جیسے کوئی فکر کے دریا میں خوب سمٹ کر تیرتا ہے۔ مَیں جو اکثر محراب میں بیٹھتا ہوں اور اسی لیے بسااوقات ایک اجنبی جو مارے شوق کے سرزدہ اندر داخل ہوا ہے تو سیدھا میری طرف ہی آیا ہے اور پھر خود ہی اپنی غلطی پر متنبہ ہوا ہے یا حاضرین میں سے کسی نے اسے حقدار کی طرف اشارہ کردیا ہے۔
٭…حضرت شیخ یعقوب علی عرفانی صاحبؓ فرماتے ہیں کہ محض خدا کی رضا کے لیے بیماروں کی بیمار پُرسی یا ان کے علاج میں سعی کرنا اُن لوگوں کا کام ہے جن کے قلوب کو خداتعالیٰ نے اپنے ہاتھ سے صاف کیا ہواور اس کا صحیح اندازہ اس وقت ہوسکتا ہے جبکہ عیادت کرنے والے اور مریض کے تعلقات اور مراتب کا پتہ لگ جاوے۔ مثلاً اگر ایک آقا اپنے غلام کی عیادت کے لیے جارہا ہے تو صاف معلوم ہوگا کہ اس کو جو چیز لے جارہی ہے وہ محض خدا کی مخلوق سے ہمدردی ہے۔ حضرت مسیح موعودؑ کی زندگی میں آپؑ کے اس خلق کا مشاہدہ بھی ایسا مؤثر اور دلگداز ہے کہ انسان کو حیران کیے بغیر نہیں رہتا۔
حضورؑ بیماروں کے لیے دعاؤں پر ہی اکتفا نہ کرتے بلکہ عملی رنگ میں بھی نسخہ تجویز کرتے۔ دوائیں مفت دیتے اور تیمارداری کے لیے گھروں میں تشریف لے جاتے۔ حضرت مولانا عبدالکریم سیالکوٹی صاحبؓ فرماتے ہیں کہ بعض اوقات دوادرمل پوچھنے والی گنواری عورتیں زور سے دستک دیتی ہیں اور اپنی سادہ اور گنواری زبان میں کہتی ہیں ’’مرِجاجی جرا بؤا کھولوتاں‘‘ حضرت اس طرح اٹھتے ہیں جیسے مطاع ذی شان کا حکم آیا ہے اورکشادہ پیشانی سے باتیں کرتے اور دوا بتاتے ہیں۔ ہمارے ملک میں وقت کی قدر پڑھی ہوئی جماعت کو بھی نہیں تو پھر گنوار تو اَور بھی وقت کے ضائع کرنے والے ہیں۔ ایک عورت بےمعنی بات چیت کرنے لگ گئی ہے اور اپنے گھر کا رونا اور ساس نند کا گلہ شروع کردیا ہے اور گھنٹہ بھر اسی میں ضائع کر دیا ہے۔ آپؑ وقار اور تحمل سے بیٹھے سن رہے ہیں۔ زبان سے یا اشارہ سے اس کو کہتے نہیں کہ بس اب جاؤ، دوا پوچھ لی اب کیا کام ہے ہمارا وقت ضائع ہوتا ہے۔ وہ خود ہی گھبرا کر اٹھ کھڑی ہوتی ہے اور مکان کو اپنی ہوا سے پاک کرتی ہے۔ ایک دفعہ بہت سی گنوار عورتیں بچوں کو لے کر دکھانے آئیں۔ اتنے میں اندر سے بھی چند خدمتگار عورتیں شربت شیرہ کے لیے برتن ہاتھوں میں لیے آنکلیں۔ آپؑ کو دینی ضرورت کے لیے ایک بڑا اہم مضمون لکھنا تھا اور جلد لکھنا تھا۔ مَیں بھی اتفاقاً جا نکلا، کیا دیکھتا ہوں حضرت کمربستہ اور مستعد کھڑے ہیں جیسے کوئی یورپین اپنی دنیوی ڈیوٹی پر چست اور ہوشیار کھڑا ہوتا ہے۔ پانچ چھ صندوق کھول رکھے ہیں اور چھوٹی چھوٹی شیشیوں اور بوتلوں میں سے کسی کو کچھ اور کسی کو کوئی عرق دے رہے ہیں۔ کوئی تین گھنٹے تک یہی بازار لگا رہا اور ہسپتال جاری رہا۔ فراغت کے بعد میں نے عرض کیا: حضرت یہ تو بڑی زحمت کا کام ہے اور اس طرح بہت سا قیمتی وقت ضائع جاتا ہے!۔ اللہ اللہ کس نشاط اور طمانیت سے مجھے جواب دیتے ہیں : یہ بھی تو ویسا ہی دینی کام ہے، یہ مسکین لوگ ہیں یہاں کوئی ہسپتال نہیں، میں ان لوگوں کی خاطر ہر طرح کی انگریزی اور یونانی دوائیں منگوا رکھا کرتا ہوں جو وقت پر کام آجاتی ہیں۔ یہ بڑا ثواب کا کام ہے، مومن کوان کاموں میں سست اور بےپروا نہ ہونا چاہیے۔

قادیان دارالامان

حضرت شیخ یعقوب علی عرفانی صاحبؓ فرماتے ہیں کہ مہرحامد قادیان کے ارائیوں میں پہلا آدمی تھا جو حضرت مسیح موعودؑ کے سلسلہ بیعت میں داخل ہوا ۔ وہ نہایت غریب مزاج تھا۔ اس کا مکان فصیلِ قادیان سے باہر اس جگہ واقع تھا جہاں گاؤں کا کوڑا کرکٹ اور رُوڑیاں جمع ہوتی ہیں۔ سخت بدبو اور تعفّن ہوتا تھا اور زمین دار آدمی تھے۔ خود اس کے مکان میں بھی صفائی کا التزام نہ تھا۔ مویشیوں کا گوبر اور دوسری چیزیں اسی قسم کی پڑی رہتی تھیں اور سب جانتے ہیں کہ زمین دار کی یہ قیمتی متاع ہوتی ہے۔ جس کو وہ کھاد کے طور پر استعمال کرتا ہے۔ بہرحال اسی جگہ وہ رہتا تھا۔ وہ بیمار ہوا اور وہی بیماری اس کی موت کا موجب ہوئی۔ حضرت اقدسؑ متعدد مرتبہ اس کی عیادت کو تشریف لے گئے۔ جب عیادت کو جاتے تو قدرتی طور پر بعض لوگوں کو اس تعفّن اور بدبو سے سخت تکلیف ہوتی اور آپؑ بھی اس تکلیف کو محسوس کرتے اور بہت کرتے اس لیے کہ فطرتی طور پر یہ وجود نظافت اور نفاست پسند واقع ہوا تھا مگر اشارتاً یا کنایتاً نہ تو اس کا اظہار کیا اور نہ اس تکلیف نے آپؑ کو اس کی عیادت اور خبرگیری کے لیے تشریف لے جانے سے کبھی روکا۔ آپؑ جب جاتے تو اس سے بہت محبت اور دلجوئی کی باتیں کرتے، اس کی مرض اور تکلیف کے متعلق بہت دیر تک دریافت فرماتے اور تسلی دیتے۔ مناسب موقع ادویات بھی بتاتے اور توجہ الی اللہ کی بھی ہدایت فرماتے۔
٭…مہمان نوازی ان اخلاق فاضلہ میں سے ہے جو تہذیب و تمدن میں بحیثیت ایک روح کے ہے۔ 23؍مارچ 1889ء کے بعد بیعت کرنے اور قادیان میں قیام کرنے والوں کا ایک سلسلہ شروع ہوگیا ان مخلصین کو حضرت مسیح موعودؑ کی میزبانی اور مہمان نوازی کا شرف حاصل کرنے کا موقع ملنے لگا۔ حضرت شیخ یعقوب علی عرفانی صاحبؓ فرماتے ہیں: ’’حضرت مسیح موعودؑ کوتو خصوصیت سے اس کی طرف توجہ تھی اور اس کی وجہ ہے کہ اللہ تعالیٰ نے قبل از وقت آپؑ کو وحی الٰہی کے ذریعہ ایک آنے والی مخلوق کی خبر دی تھی اور فرمادیا تھا کہ تیرے پاس دُوردراز سے لوگ آئیں گے اور ایسا ہی فرمایا تھا: لاَ تُصَعِّرْ لِخَلْقِ اللّٰہِ وَلاَ تَسْئَمْ مِّنَ النَّاسِ۔غرض یہاں تو پہلے ہی سے مہمانوں کے بکثرت آنے کی خبر دی گئی تھی اور پہلے ہی سے اللہ تعالیٰ نے آپؑ کے قلب کو وسعت اور دل میں حوصلہ پیدا کر رکھا تھا اور مہمان نوازی کے لیے آپؑ گویا بنائے گئے تھے …آپؑ مہمان کے آنے سے بہت خوش ہوتے تھے اور آپؑ کی انتہائی کوشش ہوتی تھی کہ مہمان کو ہرممکن آرام پہنچے اور آپؑ نے خدام لنگرخانہ کو ہدایت کی ہوئی تھی کہ فوراً آپؑ کو اطلاع دی جائے۔ اور یہ بھی ہدایت تھی کہ جس ملک اور مزاج کا مہمان ہو اس کے کھانے پینے کے لیے اسی قسم کا کھانا تیار کیا جاوے۔ مثلاً اگر کوئی مدراسی، بنگالی یا کشمیری آگیا تو ان کے لیے چاول تیار ہوتے تھے۔ ایسے موقع پر فرمایا کرتے تھے کہ اگر ان کی صحت ہی درست نہ رہی تو وہ دین کیا سیکھیں گے۔ ‘‘
٭…حضرت مولانا عبدالکریم سیالکوٹی صاحبؓ تحریر فرماتے ہیں: حضرت مسیح موعودؑ نے فرمایا: ’’اللہ تعالیٰ جانتا ہے کہ ہمیں کسی مکان سے کوئی انس نہیں ہم اپنے مکانوں کو اپنے اور اپنے دوستوں میں مشترک جانتے ہیں اور بڑی آرزو ہے کہ مل کر چند روز گذارہ کرلیں ‘‘۔ اور فرمایا: ’’میری بڑی آرزو ہے کہ ایسا مکان ہو کہ چاروں طرف ہمارے احباب کے گھر ہوں اور درمیان میں میرا گھر ہو اور ہر ایک گھر میں میری ایک کھڑکی ہو کہ ہرایک سے ہر ایک وقت واسطہ و رابطہ رہے ۔‘‘
برادران یہ باتیں سچی ہیں اور واقعات ان کے گواہ ہیں۔ مکان اندر اور باہر نیچے اور اوپر مہمانوں سے کشتی کی طرح بھرا ہوا ہے اور حضرت کو بھی بقدر حصہ رسدی بلکہ تھوڑا سا ایک حصہ رہنے کو ملا ہوا ہے اور آپؑ اس میں یوں رہتے ہیں جیسے سرائے میںکوئی گذارہ کرتا ہے اور اس کے جی میں کبھی نہیں گذرتا کہ یہ میری کو ٹھڑی ہے…حضرت کبھی پسند نہیں کرتے کہ خدام ان کے پاس سے جائیں۔ آنے پر بڑے خوش ہوتے ہیں اور جانے پرکراہ سے رخصت دیتے ہیںاور کثرت سے آنے جانے والوں کو بہت ہی پسند فرماتے ہیں۔ اب کی دفعہ دسمبر میںبہت کم لوگ آئے۔ اس پر بہت اظہار افسوس کیا اور فرمایا: ’’ہنوز لوگ ہمارے اغراض سے واقف نہیں کہ ہم کیا چاہتے ہیں کہ وہ کیا بن جائیں وہ غرض جو ہم چاہتے ہیں اور جس کے لیے ہمیں خدا تعالیٰ نے مبعوث فرمایا ہے وہ پوری نہیں ہوسکتی جب تک لوگ یہاں بار بار نہ آئیں اور آنے سے ذرا بھی نہ اکتائیں ‘‘۔ اور فرمایا ’’جو شخص ایسا خیال کرتا ہے کہ آنے میں اس پر بوجھ پڑتا ہے یا ایسا سمجھتا ہے کہ یہاں ٹھہرنے میں ہم پر بوجھ ہو گا اسے ڈرنا چاہئے کہ وہ شرک میں مبتلا ہے۔ ہمارا تو یہ اعتقاد ہے کہ اگر سارا جہان ہمارا عیال ہو جائے تو ہماری مہمات کا متکفل خدا ہے ہم پر ذرا بھی بوجھ نہیں۔ ہمیں تو دوستوں کے وجود سے بڑی راحت پہنچتی ہے۔‘‘
٭…حضرت مفتی محمد صادق صاحبؓ فرماتے ہیں: حضرت مسیح موعودؑ اپنے خدام کے ساتھ بہت بےتکلف رہتے تھے جس کے نتیجہ میں خدام بھی حضورؑ کے ساتھ ادب و احترام کو ملحوظ رکھتے ہوئے بے تکلفی سے بات کرلیتے تھے۔ چنانچہ ایک دفعہ میں لاہور سے حضورؑ کی ملاقات کے لیے آیا اور وہ سردیوں کے دن تھے اور میرے پاس رضائی وغیرہ نہیں تھی۔ میں نے حضرتؑ کی خدمت میں کہلا بھیجا کہ حضورؑ رات کو سردی لگنے کا اندیشہ ہے حضور مہربانی کر کے کوئی کپڑا عنایت فرمائیں۔ آپؑ نے ایک ہلکی رضائی اور ایک دُھسّا ارسال فرمائے اور ساتھ ہی پیغام بھیجا کہ رضائی محمود کی ہے اور دُھسّامیرا۔ آپ ان میں سے جو پسند کریں رکھ لیں اور چاہیں تو دونوں رکھ لیں۔ میں نے رضائی رکھ لی اور دھسّا واپس بھیج دیا۔

جب مَیں قادیان سے واپس لاہور جایا کرتا تھا تو حضورؑ اندر سے میرے لیے ساتھ لے جانے کے واسطے کھانا بھجوایا کرتے تھے۔ ایک دفعہ جب میں شام کے قریب قادیان سے آنے لگا تو حضرت صاحبؑ نے اندر سے میرے واسطے کھانا منگوایا۔ جو خادم کھانا لایا وہ یونہی کھلا کھانا لے آیا۔ حضرت صاحبؑ نے فرمایا کہ مفتی صاحب یہ کھانا کس طرح ساتھ لے جائیں گے کوئی رومال بھی تو ساتھ لانا تھا جس میں کھانا باندھ دیا جاتا۔ اچھا میں کچھ انتظام کرتا ہوں اور پھر اپنے سر کی پگڑی کا ایک کنارہ کاٹ کر اس میں وہ کھانا باندھ دیا۔
٭…حضرت ڈاکٹر خلیفہ رشیدالدین صاحبؓ کی اہلیہ محترمہ بیان فرماتی ہیں کہ میری والدہ صاحبہ بھی قادیان میں ہی رہا کرتی تھیں۔ ہم قادیان آتے تو حضورؑ کہتے تھے کہ تم ہمارے مہمان ہو ہمارے مکان پر رہو۔ مَیں ڈاکٹر صاحب سے کہلواتی کہ حضور دس روز کی رخصت ہے یہ اپنی ماں کے پاس رہنا چاہتی ہیں۔ حضورؑ فرماتے:کوئی حرج نہیں ان کی والدہ بھی یہیں رہیں گی۔ فوراً آدمی میری امّاں کی طرف بھیج دیتے کہ جب تک ڈاکٹر صاحب یہاں ہیں آپ بھی یہاں رہیں۔ چنانچہ کئی بار ایسا ہوا کہ میری والدہ صاحبہ اور میری بھاوج فاطمہ جو ڈاکٹر فیض علی صاحب کی بیوی ہیں یہاں رہتیں۔ میرے بھائی باہر نوکری پر ہوتے تو میری والدہ کہتیں کہ بہو گھر میں اکیلی ہے۔ حضرت صاحبؑ فرماتے: ڈاکٹر صاحب ہمارے مہمان ہیں ان کو بھی کہو کہ یہاں پر آجائیں۔ کھانا لنگرخانہ سے آتا۔ حضورؑ کی سخت تاکید ہوتی تھی کہ ڈاکٹر صاحب کے لیے کھاناعمدہ ہو۔ کریم بخش باورچی روز آکر پوچھا کرتا کہ کیا پکایا جائے؟ پھر آپؑ خود پوچھتے: کھانا خراب تو نہیں تھا، کوئی تکلیف تو نہیں ہے؟ کہنا: نہیں حضور کوئی تکلیف نہیں۔ پھر بھی حضورؑ کی تسلی نہ ہوتی۔ گھر سے کبھی کبھی کوئی چیز ضرور بھیج دیتے۔
تین ماہ کی رخصت لے کر ڈاکٹر صاحب آئے حضورؑ کبھی بھی مہمان نوازی سے نہ گھبراتے اور اپنی ملازمہ سے کہتے: ’’دیکھو ڈاکٹر صاحب تنور کی روٹی کھانے کے عادی نہیں ان کو پھلکے پکا کر بھیجا کرو۔‘‘ روز کھانے کے وقت حضورؑ آواز دے کر پوچھتے: صفیہ کی اماں ! ڈاکٹر صاحب کے لیے پُھلکے بھیج دیے؟ تو وہ کہتی بھیجتی ہوں۔ تو فرماتے: جلدی کرو وہ کھانا کھاچکے ہوں گے۔ حضور علیہ السلام مہمانوں کا یوں خیال رکھتے جیسے ماں بچے کا خیال رکھتی ہے۔
٭…حضرت مسیح موعودؑ اپنے ہاتھوں سے مہمانوں کی خدمت کرنا پسند کرتے تھے۔ چنانچہ حضرت مفتی محمد صادق صاحبؓ فرماتے ہیں غالباً 1897ء یا 1898ء کا واقعہ ہوگا۔ مجھے حضرت صاحب نے مسجد میں بٹھایا جو کہ اس وقت چھوٹی سی جگہ تھی۔ فرمایا: آپ بیٹھیے میں آپ کے لیے کھانا لاتا ہوں۔یہ کہہ کر آپؑ اندر تشریف لے گئے۔ میرا خیال تھا کہ کسی خادم کے ہاتھ کھانا بھیج دیں گے۔ مگرچند منٹ کے بعد کھڑکی کھلی تو کیا دیکھتا ہوں کہ اپنے ہاتھ سے سینی اٹھائے ہوئے میرے لیے کھانا لائے ہیں۔ فرمایا: آپ کھانا کھائیے میں پانی لاتا ہوں۔ بےاختیار رقت سے میرے آنسو نکل آئے کہ جب حضرتؑ ہمارے مقتدا اور پیشوا ہو کر ہماری یہ خدمت کرتے ہیں تو ہمیں آپس میں ایک دوسرے کی کس قدر خدمت کرنی چاہیے۔
٭…حضرت اقدسؑ مہمانوں کے جذبات کا پورا خیال رکھتے تھے اور اپنے خدام سے بھی یہی توقع رکھتے تھے کہ وہ مہمانوں کا پورا احترام کریں اور وہ رنجیدہ خاطر نہ ہوں۔ حضرت منشی ظفر احمد صاحب کپورتھلویؓ فرماتے ہیں: دو شخص منی پور آسام سے قادیان آئے اور مہمان خانہ میں آکر انہوں نے خادمان مہمان خانہ سے کہا کہ ہمارا سامان اتارا جائے اور چارپائی بچھائی جائے۔ خادمان نے کہا کہ آپ خود اپنا سامان اتروائیں چارپائیاں بھی مل جائیں گی۔ دونوں مہمان اس بات پر رنجیدہ ہو گئے اور فوراً یکہ پر سوار ہو کر واپس روانہ ہو گئے۔ حضرت اقدسؑ کو جب اس واقعہ کا علم ہوا تو نہایت جلدی سے ایسی حالت میں کہ جوتا پہننا بھی مشکل ہوگیا آپؑ ان کے پیچھے نہایت تیز قدم چل پڑے چند خدام بھی ہمراہ تھے، میں بھی ساتھ تھا۔ نہر کے قریب پہنچ کر ان کا یکہ مل گیا اور حضرت صاحبؑ کو آتا دیکھ کر وہ یکہ سے اتر پڑے۔ حضرت صاحبؑ نے انہیں واپس چلنے کے لیے فرمایا کہ آپ کے واپس ہونے کا مجھے بہت درد پہنچا۔ چنانچہ وہ واپس ہوئے۔ حضرت صاحبؑ نے انہیں یکہ میں سوار ہونے کے لیے فرمایا اور فرمایا کہ میں ساتھ چلتا ہوں۔ مگر وہ شرمندہ ہوئے اور سوار نہ ہوئے اس کے بعد مہمان خانہ میں پہنچ کر حضرت صاحبؑ نے خود ان کے بستر اتارنے کے لیے ہاتھ بڑھائے مگر خدام نے اتار لیے۔ حضرت صاحبؑ نے اسی وقت دو نواری پلنگ منگوائے اور ان پر ان کے بستر کروائے اور ان سے پوچھاکہ آپ کیا کھائیں گے؟ اور خود بھی فرمایا کہ اس طرف تو چاول کھائے جاتے ہیں۔ پھر رات کو دودھ کے لیے پوچھا۔ غرض کہ تمام ضروریات اپنے سامنے پیش فرمائیں اور جب تک کھانا آیا وہیں ٹھہرے رہے۔

حضرت ڈاکٹر میر محمد اسماعیل صاحبؓ

٭…حضرت ڈاکٹر میر محمد اسماعیل صاحبؓ فرماتے ہیں کہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام اپنے اخلاق میں کامل تھے …کوئی لغو حرکت نہ کرتے تھے،کوئی لغوبات نہ کیا کرتے تھے۔ خدا کی عزت اور دین کی غیرت کے آگے کسی کی پرواہ نہیں کرتے تھے۔ آپؑ نے ایک دفعہ اعلانیہ ذبّ تہمت بھی کیا۔ ایک مرتبہ دشمن پرمقدمہ میں خرچہ پڑا تو آپؑ نے اس کی درخواست پر اسے معاف کر دیا۔ ایک فریق نے آپؑ کو قتل کا الزام لگا کر پھانسی دلانا چاہی مگر حاکم پر حق ظاہر ہوگیا اور اُس نے آپؑ کو کہا کہ آپ ان پر قانوناً دعویٰ کرکے سزا دلاسکتے ہیں۔ مگر آپؑ نے درگزر کیا۔ آپؑ کے وکیل نے عدالت میں آپؑ کے دشمن پر اس کے نسب کے متعلق جرح کرنی چاہی مگر آپؑ نے اسے روک دیا۔ غرض یہ کہ آپؑ نے اخلاق کا وہ پہلو دنیا کے سامنے پیش کیا، جو معجزانہ تھا۔ سراپا حسن تھے۔ سراسر احسان تھے، اور اگر کسی شخص کا مثیل آپؑ کو کہا جاسکتا ہے تو وہ صرف محمد رسول اللہ ﷺ ہے اور بس۔ آپؑ کے اخلاق کے اس بیان کے وقت قریباً ہر خلق کے متعلق میں نے دیکھا کہ اس کی مثال بیان کرسکتا ہوں۔ یہ نہیں کہ میں نے یونہی کہہ دیا ہے، میں نے آپؑ کو اس وقت دیکھا جب میں دوبرس کا بچہ تھا۔ پھر آپؑ میری ان آنکھوں سے اس وقت غائب ہوئے جب میں ستائیس سال کا جوان تھا۔ مگر میں خدا کی قسم کھاکر بیان کرتا ہوں کہ میں نے آپؑ سے بہتر آپؑ سے زیادہ خلیق، آپؑ سے زیادہ نیک آپؑ سے زیادہ بزرگ، آپؑ سے زیادہ اللہ اور رسولؐ کی محبت میں غرق کوئی شخص نہیں دیکھا۔ آپؑ ایک نور تھے، جو انسانوں کے لیے دنیا پر ظاہر ہوا۔ اور ایک رحمت کی بارش تھے جو ایمان کی لمبی خشک سالی کے بعد اس زمین پر برسی اور اسے شاداب کر گئی۔ اگر حضرت عائشہؓ نے آنحضرت ﷺ کی نسبت یہ بات سچی کہی تھے کہ کان خلقہ القرآن تو ہم حضرت مسیح موعود ؑکی نسبت اسی طرح یہ کہہ سکتے ہیں کہ کان خلقہ حب محمد واتباعہ علیہ الصلوٰۃ والسلام
٭…کسی نے آنحضرت ﷺ کے متعلق کہا ہے ؎

حُسنِ یوسف ، دَمِ عیسیٰ ، یَدِ بیضا داری
آنچہ خوباں ہمہ دارند تُو تنہا داری

یہی ورثہ آپؑ کے ظل کامل نے بھی پایا۔ آپؑ کے متعلق اللہ تعالیٰ فرماتا ہے: ’’جری اللّہ فی حلل الانبیاء‘‘ یعنی خدا کا رسول جو تمام نبیوں کے لباس میں ظاہر ہوا۔ اس فقرہ سے بڑھ کر حضرت مسیح موعودؑ کی کوئی جامع تعریف نہیں ہوسکتی۔ آپؑ ہر نبی کے ظلّ اور بروز تھے اور ہر نبی کی اعلیٰ صفات اور اعلیٰ اخلاقی طاقتیں آپؑ میں جلوہ فگن تھیں۔

50% LikesVS
50% Dislikes

اپنا تبصرہ بھیجیں