حضرت مسیح موعود علیہ ا لصلوٰۃ والسلام کی نظر میں اکابرین ملّتِ اسلام کا احترام

حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی بعثت سے قبل جہاں اسلام غیروں کے حملوں کی زَد میں تھا وہاں مسلمانوں کے اندرونی تنازعات کی وجہ سے بھی کمزوری کا شکار تھا۔ مختلف فرقے دوسرے فرقوں کے اکابرین کو سبّ و شتم کرنے سے بھی باز نہیں آتے تھے چنانچہ ان کے غیر ضروری مباحثات کا بڑا نشانہ اُمّتِ مسلمہ کے وہ صلحاء اور بزرگانِ سلف تھے جنہوں نے اپنے زمانے میں اسلام کی بڑی خدمات کی ہیں۔ حضور علیہ السلام نے جہاں اَور باتوں میں اُمّت ِمسلمہ کی اصلاح کی وہاں اکابرینِ دین کے ادب و احترام کو بھی دلوں میں زندہ کیا۔ ماہنامہ ’’احمدیہ گزٹ‘‘ کینیڈا مارچ 2012ء میں مکرم غلام مصباح بلوچ صاحب کے قلم سے شاملِ اشاعت ایک مضمون میں حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی نظر میں اکابرین ملّتِ اسلام کے مقام کو تفصیل سے بیان کیا گیا ہے۔
حضرت اقدس علیہ السلام کی تحریرات اور آپؑ کی زندگی میں عملاً عشق رسولؐ کے جو نظارے نظر آتے ہیں، حق یہ ہے کہ آپؑ سے بڑھ کر حضرت محمد مصطفی ﷺ کا سچا عاشق اور محبّ کوئی پیداہی نہیں ہوا۔ آپؑ فرماتے ہیں: ’’ہم جب انصاف کی نظر سے دیکھتے ہیں تو تمام سلسلہ نبوت میں سے اعلیٰ درجہ کا جوان مرد نبیؐ اور زندہ نبیؐ اور خدا کا اعلیٰ درجہ کا پیارا نبیؐ صرف ایک مرد کو جانتے ہیں یعنی وہی نبیوں کا سردار اور رسولوں کا فخر تمام مرسلوں کا سرتاج جس کا نام محمد مصطفیٰ و احمد مجتبیٰ صلی اللہ علیہ وسلم ہے جس کے زیر سایہ دس دن چلنے سے وہ روشنی ملتی ہے جو پہلے اس سے ہزار برس تک نہیں مل سکتی تھی۔‘‘ (سراج منیر)

اصحاب رسول

آنحضرت ﷺ کے پاک صحابہ کی فضیلت کے متعلق بھی حضرت مسیح موعودؑ کی تحریرات بھری پڑی ہیں۔ ایک جگہ حضورؑ فرماتے ہیں: ’’صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین آنحضرتﷺ کی سیرت کے روشن ثبوت ہیں، اب کوئی شخص ان ثبوتوں کو ضائع کرتا ہے تو وہ گویا آنحضرت ﷺ کی نبوت کو ضائع کرنا چاہتا ہے۔ پس وہی شخص آنحضرت ﷺ کی سچی قدر کر سکتا ہے جو صحابہ کرامؓ کی قدر کرتا ہے، جو صحابہ کرام ؓ کی قدر نہیں کرتا وہ ہرگز ہرگز آنحضرت ﷺ کی قدر نہیں کرتا، وہ اس دعویٰ میں جھوٹا ہے اگر کہے کہ میں آنحضرت ﷺ سے محبت رکھتا ہوں کیونکہ یہ کبھی نہیں ہو سکتا کہ آنحضرت ﷺ سے محبت ہو اور پھر صحابہؓ سے دشمنی۔‘‘ (ملفوظات ، جلد سوم، صفحہ 527)
ایک اَور جگہ ارشاد فرماتے ہیں: ’’…وہ نہایت سرگرمی سے خدا تعالیٰ کی راہ میں ایسے فدا تھے کہ گویا ہر ایک ان میں سے ابراہیم تھا۔‘‘ (ملفوظات، جلد سوم، صفحہ 428)
حضرت مسیح موعودؑ نے صحابہ کے پاک نفوس کے متعلق عربی زبان میں ایک شعر میں فرمایا جس کا ترجمہ یہ ہے:
نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے تمام صحابہ سورج کی طرح روشن تھے انہوں نے ساری دنیا کو اپنے نور سے روشن کر دیا۔

سادات کا احترام

حضرت سید تاج حسین صاحب بخاریؓ کی روایت ہے کہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے ایک موقع پر فرمایا: ’’ہم اولادِ رسول کو اپنی عزیز متاع تصور کرتے ہیں اور ان کے لیے ہمارے دل میں بڑا احترام ہے۔‘‘ (رجسٹر روایات نمبر12)

شیعہ بزرگان کے متعلق رائے

اہل تشیع کی طرف سے بزرگان سلف خصوصًا اُمّہات المومنین اور صحابہ کرام کے متعلق بہت ہی دل آزار باتیں منظر عام پر آئی ہیں ۔ حضرت مسیح موعودؑ نے اس سلسلے میں اہل تشیع حضرات کو باز رکھنے کے لیے کتاب ‘‘سِرُّالخلافۃ’’ تصنیف فرمائی جس میں مطاعنِ شیعہ اور ان کے ردّ کے حوالے سے سیر حاصل بحث فرمائی اور خلافت راشدہ کے حوالے سے ان کو مباہلہ کی بھی دعوت دی لیکن ان سب باتوں کے باوجود شیعہ بزرگان کے خلاف کوئی بات تحریر نہ فرمائی۔
حضرت شیخ محمد اسماعیل صاحب سرساویؓ بیان کرتے ہیں کہ ایک مجلس میں کسی دوست نے شیعوں کا ذکر کر دیا کہ ان میں سے بعض ایسے بد مزاج ہیں کہ صحابہ کرام کا نام بھی اچھے الفاظ میں نہیں لیتے۔ اس پر آپؑ نے فرمایا ایسے لوگوں کا مقابلہ تو اسی طرح ہوسکتا ہے کہ ان کی گفتگو کسی خارجی سے کرا دی جائے۔
پھر فرمایا: اس میں کوئی شبہ نہیں کہ ہم تو ان کے بزرگوں کی بھی عزت کرتے ہیں اور ان کو راستباز ہی یقین کرتے ہیں مگر یہ ایسے بد قسمت لوگ ہیں جو دوسرے راستبازوں کی عزت نہیں کرتے۔ ایسے لوگ در حقیقت دہریہ طبیعت ہوتے ہیں جو راستبازوں کی تکذیب کرتے ہیں اور ان کے اندر عیب دیکھتے ہیں اور اپنے عیبوں پر کبھی نظر بھی نہیں کرتے۔
(الحکم 14/21 جنوری 1943ء )
ایک اور جگہ فرمایا: ’’یہ تو سچ ہے کہ بارہ امام کامل اور بزرگ اور سید القوم تھے۔‘‘ (مکتوبات احمدیہ)

غیر مقلد فرقہ بھی بُرا نہیں ہے

حضرت پیر سراج الحق نعمانی صاحبؓ بیان کرتے ہیں کہ جب مَیں سخت متعصّب حنفی تھا تو ایک روز حضرت اقدسؑ سے یوں عرض کیا کہ یہ وہابی غیرمقلد ناپاک فرقہ جو ہے اس کی نسبت آپ کیا فرماتے ہیں؟ آپؑ سن کر اور ہنس کر خاموش ہوگئے اور کچھ جواب نہ دیا۔ دوسرے روز پھر مَیں نے ذکر کیا، فرمایا کہ یہ فرقہ بھی خدا کی طرف سے ہے، بُرا نہیں ہے۔ جب لوگوں نے تقلید اور حنفیت پر یہاں تک زور دیا کہ ائمہ اربعہ کو منصب نبوت دے دیا تو خدا نے اپنی مصلحت سے اس فرقہ کو پیدا کیا تاکہ مقلد لوگ راہ راست اور درمیانی صورت میں رہیں، صرف اتنی بات ان میں ضرور بُری ہے کہ ہر ایک شخص بجائے خود مجتہد اور امام بن بیٹھا اور ائمہ اربعہ کو بُرا کہنے لگا۔

ائمہ اربعہ

ائمہ اربعہ نے اپنے ادوار میں اسلام کی بہت بڑی خدمت کی ہے لیکن مسلمانوں کا ایک گروہ ان ائمہ کو تحقیر سے یاد کرنے لگا۔ حضرت مسیح موعودؑ ائمہ اربعہ کی فضیلت اور مرتبہ کا ذکر کرتے ہوئے فرماتے ہیں:
(1) ’’ائمہ اربعہ برکت کا نشان تھے ان میں روحانیت تھی کیونکہ روحانیت تقویٰ سے شروع ہوتی ہے اور وہ لوگ درحقیقت متقی تھے اور خدا سے ڈرتے تھے اور اُن کے دل کِلاب الدنیا سے مناسبت نہ رکھتے تھے۔‘‘
(ملفوظات ،جلد اول، صفحہ 544 )
(2) ’’میرے خیال میں یہ چاروں مذہب اللہ تعالیٰ کا فضل ہیں اور اسلام کے واسطے ایک چار دیواری۔ اللہ تعالیٰ نے اسلام کی حمایت کے واسطے ایسے اعلیٰ لوگ پیدا کیے جو نہایت متقی اور صاحب تزکیہ تھے۔ آج کل کے لوگ جو بگڑے ہیں اس کی وجہ صرف یہی ہے کہ اماموں کی متابعت چھوڑ دی گئی ہے۔‘‘
(ملفوظات ،جلد اول ،صفحہ 534 )
(3 ) ’’امام شافعی اور حنبل وغیرہ کا زمانہ بھی ایسا تھا کہ اس وقت بدعات شروع ہوگئی تھیں اگر اس وقت یہ نام نہ ہوتے تو اہل حق اور ناحق میں تمیز نہ ہوسکتی ہزارہا گندے آدمی ملے جلے رہتے۔ یہ چار نام اسلام کے واسطے مثل چار دیواری کے تھے اگر یہ لوگ پیدا نہ ہوتے تو اسلام ایسا مشتبہ مذہب ہوجاتا کہ بدعتی اور غیربدعتی میں تمیز نہ ہوسکتی۔‘‘ (ملفوظات، جلد چہارم، صفحہ 501)
حضرت مرزا بشیر احمد صاحبؓ بیان فرماتے ہیں کہ ایک دفعہ آپؑ اپنے اصحاب کی ایک مجلس میں یہ ذکر فرما رہے تھے کہ نماز کی ہر رکعت میں سورۃ فاتحہ کی تلاوت ضروری ہے اور امام کے پیچھے بھی سورۃ فاتحہ پڑھنی چاہیے۔ اس پر حاضرین میں سے کسی شخص نے عرض کیا کہ ‘‘حضور! کیا سورۃ فاتحہ کے بغیر نماز نہیں ہوتی؟‘‘ آپؑ نے فرمایا ’’نہیں نہیں ہم ایسا نہیں کہتے کیونکہ حنفی فرقہ کے کثیرالتعداد بزرگ یہ عقیدہ رکھتے رہے ہیں کہ سورۃ فاتحہ کی تلاوت ضروری نہیں اور ہم ہرگز یہ خیال نہیں کرتے کہ ان بزرگوں کی نماز نہیں ہوئی۔‘‘ (سلسلہ احمدیہ)
حضرت ڈاکٹر میر محمد اسماعیل صاحبؓ بیان کرتے ہیں کہ حضور علیہ السلام تمام گزشتہ مشہور بزرگانِ اسلام کا نام ادب سے لیتے تھے اور ان کی عزت کرتے تھے۔ اگر کوئی شخص کسی پر اعتراض کرتا کہ انہوں نے یہ بات کہی ہے یا ایسا فعل کیا ہے تو فرمایا کرتے کہ

اِنَّمَا الْاَعْمَالُ بِالنِّیَّاتِ

ہمیں کیا معلوم کہ اصلیت کیا ہے اور اس میں کیا سِر تھا، یہ لوگ اپنے زمانے کے بڑے بزرگ ہوئے ہیں ان کے حق میں اعتراض یا سوء ادبی نہیں کرنی چاہیے۔ حضرت جنید، حضرت شبلی، حضرت بایزید بسطامی، حضرت ابراہیم ادھم، حضرت ذوالنون مصری، چاروں ائمہ فقہ، حضرت منصور، حضرت ابوالحسن خرقانی وغیرہم صوفیاء کے نام بڑی عزت سے لیتے تھے اور بعض دفعہ ان کے اقوال یا حال بھی بیان فرمایا کرتے تھے۔ حال کے زمانہ کے لوگوں میں آپ مولوی عبداللہ صاحب غزنوی کو بزرگ سمجھتے تھے، اسی طرح آپ شاہ ولی اللہ صاحب دہلوی، حضرت مجدد سرہندی، سید احمد صاحب بریلوی اور مولوی اسماعیل صاحب شہید کو اہل اللہ اور بزرگ سمجھتے تھے مگر سب سے زیادہ سید عبدالقادر صاحب جیلانی کا ذکر فرماتے تھے اور ان کے مقالات بیان کیا کرتے تھے۔

ہمارے بھائی حضرت مجدد الف ثانی ؒ

حضرت میاں عبدالعزیز صاحبؓ المعروف مغل کا بیان ہے کہ ایک مرتبہ حضورؑ لاہور تشریف لائے ہوئے تھے تو حضرت صاحبزادہ مرزا محمود احمد نے جہانگیر کا مقبرہ دیکھنے کا شوق ظاہر کیا، اس پر حضرت مسیح موعودؑ نے نصیحت کے رنگ میں فرمایا: ’’میاں! تم جہانگیر کا مقبرہ دیکھنے کے لیے بے شک جاؤ لیکن اس کی قبر پر نہ کھڑے ہونا کیونکہ اس نے ہمارے ایک بھائی حضرت مجد ّد الف ثانی کی ہتک کی تھی۔‘‘
(تاریخ احمدیت لاہور صفحہ119 )

ٹیپو سلطان۔ ایک صادق مسلمان

حضرت مصلح موعودؓ اپنے بچپن کا ایک واقعہ یوں بیان فرماتے ہیں کہ ایک دفعہ ایک کتّا ہمارے دروازے پر آیا۔ میں وہاں کھڑا تھا، اندر کمرے میں صرف حضرت صاحبؑ تھے۔ میں نے اس کتّے کو اشارہ کیا اور کہا ’’ٹیپو! ٹیپو!‘‘ حضرت صاحب بڑے غصے سے باہر نکلے اور فرمایا ’’تمہیں شرم نہیں آتی کہ انگریز نے تو دشمنی کی وجہ سے اپنے کتوں کا نام ایک صادق مسلمان کے نام پر ٹیپو رکھ دیا ہے اور تم اُن کی نقل کر کے کتے کو ٹیپو کہتے ہو، خبردار! آئندہ ایسی حرکت نہ کرنا۔‘‘ میری عمر شاید آٹھ نو سال کی تھی، وہ پہلا دن تھا جب سے میرے دل کے اندر سلطان ٹیپو کی محبت قائم ہوگئی۔ (روزنامہ الفضل ربوہ یکم اپریل 1958ء)

مولوی ۔ اسلام کی ایک پاک اصطلاح

حضرت مولوی محمد الدین صاحبؓ سابق مبلغ امریکہ بیان کرتے ہیں کہ ایک دفعہ ایک دیسی پادری گُل محمد صاحب قادیان آئے۔ مگر وہ اپنے آپ کو مولوی گل محمد کہلواتا تھا۔ وہ عربی صرف و نحو پڑھا ہوا تھا اور بلا روک ٹوک اسلام اور نبی کریمﷺ کے سوانح پر عنیدانہ رنگ میں اعتراض کیا کرتا تھا۔ اُس کی خواہش پر حضرت قاضی امیر حسین صاحب مرحوم کی کوشش سے ایک دن مسجد میں ہی نماز ظہر یا عصر کے بعد حضورعلیہ السلام سے اس کی ملاقات کا انتظام ہوا۔ حضور نے اسلام کی صداقت اور اپنے دعوے کے متعلق کچھ گفتگو فرمائی اس پر اس نے کچھ اعتراض کیا حضور نے اس کا مفصل جواب دیا۔ اُس نے تعریفی رنگ اختیار کرتے ہوئے دبی زبان سے حضرت نبی کریمﷺ کے چال چلن پر اعتراض کر دیا اس پر حضرت مسیح موعودؑ کا چہرہ سرخ ہوگیا اور آپؑ نے انجیلی یسوع کے متعلق بہت سی باتیں ایک ایک کرکے گنوانی شروع کردیں۔
دورانِ تقریر میں حضورؑاس کو مخاطب کرتے ہوئے پادری گل محمد یا مسٹر گل محمد پُکارتے تو وہ کہتا کہ مجھے لوگ مولوی گل محمد کرکے پکارتے ہیں۔ اس پر آپؑ نے فرمایا کہ اسلام کی ایک پاک اصطلاح ’مولوی‘ مَیں ایک ناپاک شخص کو کیسے دے سکتا ہوں۔ اُس نے مولوی کے لفظ کو کئی دفعہ دوہرایا مگر آپؑ نے وہی جواب دیا کہ مَیں اسلام کی پاک اصطلاح ایک غیر مسلم اور اسلام کو حقارت سے دیکھنے والے کو کیسے دے سکتا ہوں۔
آج جن مولویوں نے اسلام کے نام پر فتنہ انگیزی شروع کررکھی ہے اور اسلام کی بدنامی کا باعث بن رہے ہیں۔ حضرت اقدس مسیح موعودؑ اس حوالے سے فرماتے ہیں:
’’اور مسلمان کو لازم ہے کہ ان نادانوں کو جو نام کے مَولوی ہیں اور اپنے وعظوں اور رسالوں کو معاش کا ذریعہ ٹھہرا رکھا ہے خوب پکڑیں اور ہر یک جگہ جو ایسا مولوی کہیں وعظ کرنے کے لئے آوے اُس سے نرمی کے ساتھ یہی سوال کریں کہ کیا آپ درحقیقت مولوی ہیں یا کسی نفسانی غرض کی وجہ سے اپنا نام مولوی رکھا ہے۔ … اور یقینًا یاد رکھیں کہ یہ لوگ مولوی نہیں ہیں مسلمانوں کو لازم ہے کہ … ان کی پردہ دری کرکے اسلام کو اُن کے فتنہ سے بچاویں اور خوب سوچ لیں کہ یہ وُہی لوگ ہیں جنہوں نے دھوکا دہی کی راہ سے مولوی کہلاکر صدہا مسلمانوں کو کافر ٹھہرایا اور اسلام میں ایک سخت فتنہ برپا کردیا۔

وَالسَّلام علیٰ من اتّبع الھُدیٰ۔‘‘

(سِرالخلافہ)

50% LikesVS
50% Dislikes

اپنا تبصرہ بھیجیں