حضرت مصلح موعودؓ اور حضرت مسیح ناصریؑ

(مطبوعہ ’’الفضل ڈائجسٹ‘‘، الفضل انٹرنیشنل لندن 19؍فروری 2021ء)

ماہنامہ ’’تحریک جدید‘‘ ربوہ فروری 2012ء میں مکرم سید میر مسعود احمد صاحب مرحوم کا ایک مختصر مضمون روزنامہ الفضل کی ایک پرانی اشاعت سے منقول ہے جس میں بتایا گیا ہے کہ پیشگوئی مصلح موعود میں ایک علامت ’’مسیحی نفس‘‘ ہونا ہے۔ اب اگر ان الہامات کو جو مصلح موعود کے متعلق ہیں اور اُن آیاتِ قرآنی کو جو حضرت مسیح ناصریؑ کے متعلق ہیں دیکھا جائے تو ان میں حیرت انگیز تطابق پایا جاتا ہے۔
قرآن کریم میں آتا ہے کہ حضرت عیسیٰؑ کی پیدائش سے قبل حضرت مریمؑ مشرق کی طرف چلی گئی تھیں۔ جبکہ حضرت مسیح موعودؑ کو یہ وحی اُس وقت ہوئی جب آپؑ قادیان سے مشرق کی جانب ہوشیارپور میں تھے۔
حضرت مریمؑ حضرت مسیحؑ کی پیدائش سے قبل علیحدگی میں چلی گئیں اور آپؑ کے پاس کوئی نہ جاسکتا تھا۔ جبکہ حضرت مسیح موعودؑ نے ہوشیارپور میں چالیس دن کا چلّہ کاٹا اور آپؑ کا ارشاد تھا کہ ان دنوں میرے پاس کوئی نہ آئے۔
حضرت مریمؑ خداتعالیٰ کے حکم کی وجہ سےکسی انسان سے کلام نہ کرتی تھیں۔ جبکہ حضرت مسیح موعودؑ نے بھی فرمایا تھا کہ مجھ سے کوئی کلام نہ کرے۔
حضرت عیسیٰؑ کے بارے میں قرآن کریم میں روح منہ کے الفاظ آئے ہیں جبکہ پیشگوئی مصلح موعود میں فرمایا گیا ہے: ’’ہم اس میں اپنی روح ڈالیں گے۔‘‘
حضرت مسیح ناصریؑ کی آمد ثانی پر اُن کے لیے نزول کا لفظ احادیث میں استعمال ہوا ہے جبکہ حضرت مصلح موعودؓ کی آمد کے واسطے نزول کا لفظ استعمال کیا گیا ہے۔
قرآن کریم میں حضرت عیسیٰؑ سے اللہ تعالیٰ کا یہ وعدہ بیان ہوا ہے:

رَافِعُکَ اِلَیّ۔

جبکہ پیشگوئی مصلح موعود میں رفع روحانی کا ذکر یوں ہے: ’’آسمان کی طرف اٹھایا جائے گا۔‘‘
حضرت عیسیٰؑ کے متعلق مسیح کا لفظ سیاحت اور مسح کے معنے ظاہر کرنے کے لیے آیا ہے جبکہ مصلح موعود کو مسیح کا خطاب ان الفاظ میں دیا گیا: ’’خدا نے اپنی رضامندی کے عطر سے ممسوح کیا۔‘‘

50% LikesVS
50% Dislikes

اپنا تبصرہ بھیجیں